۱۹۷۰ کے قریب مغربی تنقید میں ایک نئی قوت ابھرنی شروع ہوئی اور وہ قوت قاری کی اہمیت ہے یہ تنقید سمجھتی ہے کہ قاری کی اہمیت معنی کی اہمیت کے باعث ہے یہ تنقید مصنف کو رد کرتی ہے اور معنی کی ذمہ داری قاری پر ڈالتی ہے معنی کو متعین کرنے کی ذمہ داری قاری کی ہوتی ہے اس لئے کسی ادب پارے کے معنی ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ مختلف ضرور ہوجاتے ہیں T.S.Kuhnنے لکھا ہے کہ سائنس میں جو کچھ حقیقی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اس کا انحصار دیکھنے والے کی ذہنی حوالگی Frame of Referenceپر ہوتا ہے جس کی رو سے مشاہدہ کرنے والا کسی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے
گسٹالٹ کے ماہرین نفسیات بھی یہی کہتے ہیں انسان کا ذہن دنیا میں چیزوں کے غیر متعلق ٹکڑوںکو جوڑ کر ایک منظم اکائی کے طور پر دیکھتا ہے یعنی دیکھنے والا حقیقت کو اپنے ذہنی رنگ میں رنگ دیتا ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ متن کے معنی کو حقیقتا قاری ہی موجود بناتاہے جب ہم کوئی چیز پڑھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں معنی کی چمک پیدا ہوتی ہے تھوڑی سی دیر میں ہم نہ جانے کتنے شعوری اور غیر شعوری مقامات سے گزر جاتے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ہوتی تھوڑی سی دیر میں ہمارا ذہن کئی کڑیوں کو ملاتا ہے اور ان میں ربط پیدا کرتا ہے لیکن یہ عمل ہر پڑھنے والے میں دوسرے پڑھنے والے سے مختلف ہوتا ہے یہ عمل ایک نسل سے دوسری نسل تک اور ایک عہد سے دوسرے عہد تک یقینا بدل جاتا ہے جو لوگ تنقید میں قاری کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور جن کی تنقید قاری اسا س تنقید کہلاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ متن سے کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب صرف قاری دے سکتا ہے پہلے معنی متعین ہوتے تھے اب سائنس کی روشنی میں پڑھنے وا لے اس کا مطلب مختلف لے سکتے ہیں۔ کیوں کہ اب معنی متعین نہیں ہیں۔ Wolfgange Iser قاری اساسی تنقید کا سب سے بڑا نقاد سمجھا جاتا ہے۔
Iserکا ایک ساتھی Hans Robert Jauss یائوس کہتا ہے کہ قرات کے سلسلے میں تاریخی ڈسکورس بہت اہم ہوتا ہے کہ چونکہ قرات یعنی پڑھنے کا عمل ہمیشہ تاریخی تناظر میں واقع ہوتا ہے متین قاری تک کبھی خالص اور بے لاگ حالت میں نہیں پہنچتا اس پر زمانے کا رنگ ضرور چڑھ جاتا ہے اور متن سے توقعات Expectations بدلتی رہتی ہیں یائوس نے Paradigmکی اصطلاح سائنس کے فلسفی ٹی ایس کوہن Kuhnسے مستعار لی تھی Paradigmسے یائوس تصوارت اور معروضات کا وہ مجموعہ مراد لیتا ہے جو کسی بھی عہد میں کارفرما رہتا ہے کسی بھی عہد کے پڑھنے والے متن کی پرکھ کے لئے جن اصولوں کا استعمال کرتے ہیں یائوس ان کے لئے بھی Horizon Expectationsکی اصطلاع استعمال کرتا ہے یائوس کہتا ہے کہ انگریزی اور جرمن زبان کے شاعروں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے کہ جب Paradigmبدل جاتا ہے تو لوگوں کی ادبی توقعات بدل جاتی ہیں انگریزی زبان میں پوپ کی شاعری کا بھی وہی حشر ہوا جو ناسخ اور ذوق کی شاعری کا ہوا ہے جو معنی کسی عہد کی شاعری سے پیدا ہوتے ہیں وہ ضروری نہیں کہ اگلے زمانے میں بھی وہی محسوس کئے جائیں یائوس کہتا ہے کہ ہر عہد اپنی توقعات کے مطابق فن پارے کو پڑھتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے یا اسے رد کردیتا ہے یہ پسند اور ناپسند اس لئے بدلتی ہے کہ ادبی افق برابر بدلتا رہتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.