Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تنقید میں قاری کی اہمیت

قمر جمیل

تنقید میں قاری کی اہمیت

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    ۱۹۷۰ کے قریب مغربی تنقید میں ایک نئی قوت ابھرنی شروع ہوئی اور وہ قوت قاری کی اہمیت ہے یہ تنقید سمجھتی ہے کہ قاری کی اہمیت معنی کی اہمیت کے باعث ہے یہ تنقید مصنف کو رد کرتی ہے اور معنی کی ذمہ داری قاری پر ڈالتی ہے معنی کو متعین کرنے کی ذمہ داری قاری کی ہوتی ہے اس لئے کسی ادب پارے کے معنی ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ مختلف ضرور ہوجاتے ہیں T.S.Kuhnنے لکھا ہے کہ سائنس میں جو کچھ حقیقی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اس کا انحصار دیکھنے والے کی ذہنی حوالگی Frame of Referenceپر ہوتا ہے جس کی رو سے مشاہدہ کرنے والا کسی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے

    گسٹالٹ کے ماہرین نفسیات بھی یہی کہتے ہیں انسان کا ذہن دنیا میں چیزوں کے غیر متعلق ٹکڑوںکو جوڑ کر ایک منظم اکائی کے طور پر دیکھتا ہے یعنی دیکھنے والا حقیقت کو اپنے ذہنی رنگ میں رنگ دیتا ہے

    اس کا مطلب یہ ہے کہ متن کے معنی کو حقیقتا قاری ہی موجود بناتاہے جب ہم کوئی چیز پڑھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں معنی کی چمک پیدا ہوتی ہے تھوڑی سی دیر میں ہم نہ جانے کتنے شعوری اور غیر شعوری مقامات سے گزر جاتے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ہوتی تھوڑی سی دیر میں ہمارا ذہن کئی کڑیوں کو ملاتا ہے اور ان میں ربط پیدا کرتا ہے لیکن یہ عمل ہر پڑھنے والے میں دوسرے پڑھنے والے سے مختلف ہوتا ہے یہ عمل ایک نسل سے دوسری نسل تک اور ایک عہد سے دوسرے عہد تک یقینا بدل جاتا ہے جو لوگ تنقید میں قاری کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور جن کی تنقید قاری اسا س تنقید کہلاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ متن سے کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب صرف قاری دے سکتا ہے پہلے معنی متعین ہوتے تھے اب سائنس کی روشنی میں پڑھنے وا لے اس کا مطلب مختلف لے سکتے ہیں۔ کیوں کہ اب معنی متعین نہیں ہیں۔ Wolfgange Iser قاری اساسی تنقید کا سب سے بڑا نقاد سمجھا جاتا ہے۔

    Iserکا ایک ساتھی Hans Robert Jauss یائوس کہتا ہے کہ قرات کے سلسلے میں تاریخی ڈسکورس بہت اہم ہوتا ہے کہ چونکہ قرات یعنی پڑھنے کا عمل ہمیشہ تاریخی تناظر میں واقع ہوتا ہے متین قاری تک کبھی خالص اور بے لاگ حالت میں نہیں پہنچتا اس پر زمانے کا رنگ ضرور چڑھ جاتا ہے اور متن سے توقعات Expectations بدلتی رہتی ہیں یائوس نے Paradigmکی اصطلاح سائنس کے فلسفی ٹی ایس کوہن Kuhnسے مستعار لی تھی Paradigmسے یائوس تصوارت اور معروضات کا وہ مجموعہ مراد لیتا ہے جو کسی بھی عہد میں کارفرما رہتا ہے کسی بھی عہد کے پڑھنے والے متن کی پرکھ کے لئے جن اصولوں کا استعمال کرتے ہیں یائوس ان کے لئے بھی Horizon Expectationsکی اصطلاع استعمال کرتا ہے یائوس کہتا ہے کہ انگریزی اور جرمن زبان کے شاعروں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے کہ جب Paradigmبدل جاتا ہے تو لوگوں کی ادبی توقعات بدل جاتی ہیں انگریزی زبان میں پوپ کی شاعری کا بھی وہی حشر ہوا جو ناسخ اور ذوق کی شاعری کا ہوا ہے جو معنی کسی عہد کی شاعری سے پیدا ہوتے ہیں وہ ضروری نہیں کہ اگلے زمانے میں بھی وہی محسوس کئے جائیں یائوس کہتا ہے کہ ہر عہد اپنی توقعات کے مطابق فن پارے کو پڑھتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے یا اسے رد کردیتا ہے یہ پسند اور ناپسند اس لئے بدلتی ہے کہ ادبی افق برابر بدلتا رہتا ہے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    تنقید میں قاری کی اہمیت ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے