تنقید، نظریہ اور عمل
نقدِ ادب کے اصول کیا ہیں؟ تنقید سے کیا مراد ہے؟ ایسے سوالوں کا جواب دینے سے پہلے اس پرغور کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ ادب کیا ہے؟ کیونکہ جیسے ہی ادب کے متعلق گفتگو شروع ہوگی، تنقید کے اصول خود بہ خود سامنے آتے جائیں گے۔ ادب اور تنقید کا تعلق اتنا گہرا اور ہمہ گیر ہے کہ انہیں بالکل دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنا درست نہ ہوگا۔ یوں عام طور پر سمجھنے کے لئے ادب اور نظریہ ادب میں فرق ہے لیکن ادب کے تخلیقی عمل ہی میں تنقیدی عمل کی نمود بھی ہو جاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے میں پیوست ہوکر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
تخلیقی ادب پیدا کرنے والا اپنے جذبات، خیالات اور تجربات کو ترتیب دے کر، خاص اسلوب اور لطافت کے ساتھ پیش کرتا ہے لیکن اس کی وہ تنقیدی صلاحیت جسے وہ ابتداءً اپنے خیالات کی تہذیب اور تنظیم میں صرف کرتا ہے، بعض نفسیاتی اثرات اور وفورِ جذبات کی وجہ سے کافی نہیں ہوتی‘ پھر بھی یہ صلاحیت جتنی قوی ہوگی تخلیقی کارنامہ اسی قدر اعلیٰ اور بے داغ ہوگا۔ اس طرح درحقیقت ادب اور نظریہ ادب میں تضاد نہیں ہے۔ ادیب اور نقاد دونوں ادراک حقیقت کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں لیکن خاص طرح کی سماجی بندشوں میں جکڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے زندگی سے مختلف نتائج نہیں نکال سکتے۔ جہاں یہ صورت رونماہوتی ہے، وہاں ادیب اور نقاد میں اختلاف رائے ہوتا ہے۔
ایک حیثیت سے ادب اور تنقید کا تعلق نظریہ اور عمل کے تعلق کی نوعیت رکھتا ہے۔ ادبی مطالعہ میں اس وقت تک یہ پہلو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس تفریق کی وجہ سے بعض اوقات بالکل غلط نتائج مترتب ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ آرٹ اور سائنس، جذبہ اور عقل، جنون اور حکمت کی مسلسل تفریق نے انسانی خیال کے ان نقوش کو، جنہیں شعرو ادب کہا گیا ہے، اس کسوٹی سے دور رکھا اور اگر کبھی کسی نقاد نے اس کی کوشش کی تو اس کو اس غیرادبی جرم پر نشانہ ملامت بنایا گیا۔ بہر حال اس میں شک نہیں کہ ادب اور شعر کی دنیا انسانی تجربے سے ماورا کوئی وجود نہیں رکھتی۔ اس لئے وہ نازک، لطیف، خوبصورت پیچیدہ اور تخیلی ہونے کے باوجود انسانی تخلیق ہی رہتی ہے اور اگر وہ عام صداقتوں پر مبنی ہے تو دوسرے انسانوں کے تجربات اور محسوسات کی دسترس سے باہر نہیں ہو سکتی۔
یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے ادب اور تنقید میں اصل رشتہ قائم ہوتا ہے، یہ رشتہ تضاد کا ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ جس طرح ادب زندگی کی سمت کو سمجھے بغیر اچھا ادب نہیں بن سکتا، اسی طرح تنقید اچھے ادب کو پیش نظرر کھے بغیر چند اصولوں کا مجموعہ نہیں بن سکتی۔ تنقید کے اصول ادب ہی کے اندر سے وضع کئے گئے ہیں۔ اگر وہ باہر سے ادب پر لادے جائیں تو انہیں تنقید نہیں کہا جا سکتا، ادب اگر کوئی ایسی راہ اختیار کر لے جو انسانی تجربہ اور فہم کی حدوں سے باہر ہو اور کسی ایسے اصول کا پابند ہی نہ ہو جسے عمل کی ترازو پر تولا جا سکے تو اسے ادب نہیں کہا جا سکتا۔ سائنس، فلسفہ اور مظاہر زندگی میں نظریہ اور عمل کے تعلق کا یہی مطلب ہے کہ نتائج اپنے دعوؤں سے بے نیاز نہ ہوں۔
یہاں ترازو پر تولنے اور عقل میں آنے کا تذکرہ جس طرح کیا گیا ہے اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ یہ تعلق محض ایک میکانکی شکل میں نمایاں ہوگا۔ ایسا نہیں ہے، متحرک زندگی میں ادب جس کا آئینہ ہے یہ تعلق میکانکی ہوہی نہیں سکتا۔ کیونکہ طبقاتی سماج میں طبقات کی آویزش اور طریقہ پیداوار کی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانی اعمال کے دائرے بدلتے رہیں گے اور نظریات میں ترمیمیں ہوتی رہیں گی۔ ان باتوں کے سمجھنے کے لئے کسی خاص طرح کے علم کی ضرورت نہیں ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ناقابلِ تغیر مطلق نظریوں کا فلسفہ ہمیشہ اس سماج یا سماج کے اس طبقہ میں مقبول رہا ہے جو سماجی تغیرات کو یا تو تسلیم نہیں کرتا یا تسلیم کرنا نہیں چاہتا۔
تجربہ خود عمل کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا اور یہ عمل انفرادی نہیں، سماجی شکل رکھتا ہے۔ ایسا ہی تجربہ انسانی علم کا جز و بنتا ہے۔ اسی سے شعور میں ادراک حقیقت کے نقش و نگار بنتے ہیں اور یہی ادیب اور شاعر کے جذبات سے مملو ہوکر ادب اور شعر کے پیکر میں ڈھلتے ہیں۔ اس لئے تحصیل علم کا جو منبع ادیب کے لئے ہے وہی نقاد کے لئے بھی ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تجربے یا حقائق انسان کی قوتِ ممیزہ کے دائرے سے گزر کرہی اس کے علم کا جزو بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے حقیقت کا کوئی مطلق تصور نہیں ہو سکتا، وہ تصور ہمیشہ حقیقت کا اظہار کرنے والے کے سماجی یا طبقاتی شعور کا عکس بن کر سامنے آئےگا۔
یہ بحث اس سلسلہ میں آ گئی کہ اگر ادیب اور نقاد دونوں حقائق سے بحث کرتے ہیں تو گو اظہارحقیقت کے طریقے مختلف ہوں گے، لیکن ان سے حقیقتیں نہیں بدلیں گی۔ اسی لئے نظریہ اور عمل کے تعلق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ جن حواسوں کی مددسے انسان نظریاتی حقائق تک پہنچتا ہے وہ بھی سماجی عمل ہی کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور کارآمد بنتے ہیں۔ ان کی طاقت میں عمل ہی کے ذریعہ سے اضافہ ہوتا ہے۔ موسیقی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت تقریباً ہر نارمل انسان میں ہوتی ہے لیکن بھات کھنڈےؔ اور فیاضؔ خاں کے کمالِ فن سے کیفیت حاصل کرنے کے لئے موسیقی کے فن کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی اور جس نے جس قدر زیادہ اسے سمجھنے کی کوشش کی ہوگی، اسی قدر زیادہ وہ اس کے متعلق معقول رائے دے سکےگا۔
انسانی حواس کا ارتقا خود سماجی ارتقا کا پابند ہے یعنی شعور کی سطح عمل کے ذریعہ سے بلند کی جا سکتی ہے۔ وہ ادیب ہو یا نقاد، سماجی حقائق کو سمجھے بغیر ذمہ داری کے ساتھ ان کی ترجمانی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ علمی اور حکیمانہ نقطۂ نظر سے وہی حقیقت حقیقت ہے جس میں نظریہ اور عمل کی تفریق ختم ہو جاتی ہے اور دونوں حقیقت کے دو رخ بن جاتے ہیں، ایسی حقیقت اگر ادیب کی نگاہ سے اوجھل ہو تو اس کا ادب ناقص ہوگا اور اگر نقاد اس کے علاوہ ادیب سے کسی اور چیز کا مطالبہ کرے تواس کی تنقید ناقص ہوگی۔
اگر ایسا ہے تو پھر ادیب اور نقاد ایک دوسرے کے دل کی بات کیوں نہیں سمجھتے؟ کیا محض طرز اظہار، احساسِ حسن اور انداز بیان کے سمجھنے نہ سمجھنے کا جھگڑا ہے یا ادارکِ حقیقت ہی کے متعلق اختلاف ہے، جو دونوں میں اختلاف کی خلیج بڑھاتا ہے؟ اگر سارے اہم تخلیقی اور تنقیدی ادب کو بہ غور دیکھا جائے تو ادیب اور نقاد میں طرزِ اظہار اور مواد دونوں کے متعلق اختلاف ملیں گے لیکن اہم اختلافات زیادہ تراس حقیقت سے متعلق ہوں گے جس کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہاں اس نقاد سے یقیناً ادیب اور شاعر کو ناخوش ہونے کا حق حاصل ہے جو بغیر سوچے سمجھے یا محض اپنی انفرادی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی بنا پر، عام انسانی تجربات اور محسوسات کو نظر انداز کرکے شعرو ادب کے متعلق رائے دیتا ہے۔ ایسے ہی نقادوں کے خلاف ہمیشہ شاعروں اور ادیبوں نے آواز بلند کی ہے۔
لیکن صورت حال اگر اس کے برعکس ہو تو نقاد کو بھی فن کار سے اختلاف کا حق حاصل ہوتا ہے۔ جہاں ادراکِ حقیقت اور حسنِ اظہار میں ہم آہنگی ہوگی وہاں ادیب اور نقاد کا اختلاف ختم ہو جائےگا یا اگر ہوگا بھی تو بہت معمولی ہوگا۔ پھر بھی یہ مطالعہ کی چیز ہے کہ ادیب اور نقاد کے اختلاف کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ چیخوفؔ نے کہا ہے کہ نقاد وہ مکھی ہے جو گھوڑے کو ہل چلانے سے روکتی ہے۔ ٹنی سنؔ نے اسے ادبیات کے گیسوؤں میں جوؤں سے تشبیہ دی ہے۔ فلابیرؔ نے تنقید کو ادب کے جسم پر کوڑھ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ تو بڑے بڑے فن کارہیں، چھوٹے سے چھوٹا ادیب اور شاعر بھی نقادکو گالیاں دے لیتا ہے، اس لئے اس اختلاف کی بنیاد کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے، لیکن اس کو محض معمولی نفسیاتی یا طبعی اختلافات تک محدود رکھنا اس مسئلہ کی اہمیت کو کم کرنا ہوگا۔
تنقید شعر و ادب کی کی جاتی ہے، اس لئے ادب کے بارے میں پھر وہی سوال پوچھنا پڑتا ہے کہ ادب کیا ہے؟ اور اسی سے یہ جواب نکلےگا کہ تنقید کیا ہے۔ اگر ہم فن اور ادب کے عام تصور کو پیش نظر رکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ادب لکھنے والے کے شعور اور خیالات کا وہ اظہار ہے جسے وہ سماج کے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لئے ایسے ذرائع سے نمایاں کرتا ہے جسے وہ سمجھ سکیں اور لطف حاصل کرسکیں، یا کم سے کم سمجھنے کی کوشش کرسکیں۔ اگر فن اور ادب کی یہ نوعیت نہ ہوئی اور اس سے محض وہ اظہار مراد لیا گیا جو فن کار کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور سماجی اظہار کا محتاج نہیں رہتا تو پھر تنقید کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوگا۔ کروچےؔ اور اس کے ہم خیالوں نے فن کا یہی نظریہ پیش کیا ہے۔ ان کے نقطۂ نظر سے فن کی تکمیل خیال ہی میں ہوجاتی ہے، اس کا کاغذ پر آنا یا الفاظ میں ظاہر ہونا ضروری نہیں۔ موجودہ دور کے مشہور شاعر، جوشؔ ملیح آبادی نے تو اس سے بھی زیادہ نازک سوال پیش کر دیا ہے، کہتے ہیں،
دل میں جب اشعار کی ہوتی ہے بارش بے شمار
نطق پر بوندیں ٹپک پڑتی ہیں کچھ بے اختیار
ڈھال لیتی ہے جنہیں شاعر کی ترکیبِ ادب
ڈھل کے گو وہ گوہر غلطاں کا پاتی ہیں لقب
اور ہوتی ہیں تجلی بخش تاج زر فشاں
پھر بھی وہ شاعر کی نظروں میں ہیں خالی سیپیاں
جن کے اسرار درخشاں روح کی محفل میں ہیں
سیپیاں ہیں نطق کی موجوں پہ موتی دل میں ہیں
شاعری کا خانماں ہے نطق کو لوٹا ہوا
اس کاشیشہ ہے زباں کی ٹھیس سے ٹوٹا ہوا
چھائے رہتے ہیں دل کی محفل خاموش میں
بند کر لیتے ہیں آنکھیں نطق کی آغوش میں
لوگ جن کی جاں گزاری سے ہیں دل پکڑے ہوئے
کھوکھلے نغمے ہیں وہ اوزان میں جکڑے ہوئے
جام میں آتے ہی اڑ جاتی ہے شاعر کی شراب
ٹوٹ جاتا ہے کنارے آتے آتے یہ حباب
اگر شاعری وہ نہیں ہے جسے ہم سنتے اور پڑھتے ہیں بلکہ وہ ہے جو حرف و صوت سے ماورا شاعر کے دل میں ہے تو شاعر اور دوسرے افراد یا نقاد میں کوئی ربط قائم ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ کوئی شخص شاعر کے خیالات سے واقف ہی نہیں ہو سکتا لیکن عام زندگی میں اس رابطہ سے مفر ممکن نہیں ہے۔ جس نے بھی کچھ لکھا ہے اور اسے پڑھنے والے نے پڑھ لیا ہے، تنقید سے بچ نہیں سکتا چاہے، اس تنقید کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ جس طرح تخلیقی ادبی کارنامے سے مصنف کے تصور کائنات کا پتہ چلتا ہے اسی طرح طریقۂ تنقید کے استعمال سے نقاد کے تصور زندگی اور فلسفۂ حیات کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ جس طرح نقاد ادب کو پرکھےگا، ادیب سے جس قسم کی امید لگائےگا، جس طرح کے مطالبے کرےگا، ادب اور زندگی میں جس نوع کا تعلق چاہےگا، وہی اس کے تصورات کی غمازی کرےگا۔
کیا سماج میں ادب کی کوئی جگہ ہے؟ کیا اس سے کوئی تہذیبی مقصد پور اہوتا ہے؟ کیا ادیب اور شاعر سماج میں کوئی ذمہ دار جگہ رکھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو لکھنے والا زندگی کے مہتم بالشان سوالات کے متعلق کچھ نہ کچھ نظریے ضرور رکھتا ہوگا، اظہار کے مختلف طریقوں میں سے بعض کو بعض پر ترجیح دیتا ہوگا، اظہارکے جو سانچے موجود ہوں گے ان میں سے ایک یا کئی کو منتخب کرتا ہوگا اور اگر ان کے علاوہ کوئی اور سانچہ تیار کرتا ہوگا تو اس کے وجوہ ہوں گے۔ اس طرح کسی پہلو سے دیکھا جائے، کوئی ادیب ان ساری ادبی روایات اور ان تمام افکار و خیالات سے بےنیاز نہیں ہوسکتا جو اس کا طبقہ، اس کا سماج، اس کا شعور اور اس کا علم، سب مل کر اس کے لئے مہیا کرتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے ادب کی حیثیت سماجی اور طبقاتی ہو جاتی ہے اور تنقید کی ضرورت پڑتی ہے۔
ادب کے مقاصد کا تعین کرنے میں خود تنقید کے مقاصد کا تعین بھی ہو جاتا ہے اور دونوں کے مطالعہ سے عملی زندگی میں ادب کی سماجی نوعیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ نقاد جو ہر ادبی کارنامے پر سر دھنتا ہے، ہر ادیب اور شاعر کو پسند کرتا ہے، کسی نقطۂ نظرسے تعرض نہیں کرتا، بقول آسکر وائلڈؔ اس کاحال اس نیلام کرنے والے کا سا ہے جو ہر مال کی تعریف کرتا ہے۔ اپنے سماجی شعور کے ساتھ مخلص ہونے کے لئے نقاد کو ہر ادیب اور شاعر کا تجزیہ کرنا ہی پڑےگا۔ ورنہ وہ ادب کے میدان میں محض ایک طفیلی کی حیثیت اختیار کر لےگا اور اس کا کام یہ رہ جائےگا کہ وہ ہر ادیب کی ہاں میں ہاں ملاکر خوش ہولے اور فیصلہ یا رائے کی ذمہ داری سے بچ جائے۔ یہ بحث بہت طویل ہے لیکن مختصراً اس کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ اسی وقت تنقید کی ماہیت اور حقیقت، تنقیدنگار کے منصب اور عملی تنقید کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جا سکےگا۔
بعض نقادوں کا خیال ہے کہ تنقید نگار کا کام ادب کے متعلق فیصلہ کن انداز میں رائے دینا نہیں ہے بلکہ ان کیفیات کو دہرا دینا ہے جو ادیب پر تخلیق کے وقت طاری ہوئی تھیں۔ اس گروہ کی نمائندگی کسی نہ کسی شکل میں تمام وہ نقاد کرتے ہیں جنہیں تاثر پسند کہا جاتا ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ پرجوش حمایت اور دلچسپ وضاحت امریکہ کے ایک نقاد اسپنگارن نے کی ہے اور اپنے نقطۂ نظر کا نام ’’تنقید جدید‘‘ اور’’تخلیقی تنقید‘‘ رکھا ہے۔ اردو میں بھی شعوری اور غیر شعوری طور پر اس نقطۂ نظر کے حامی، پیرو اور ترجمان موجود ہیں۔ اس لئے اس پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ تاثراتی تنقید کا نظریہ مختصر لفظوں میں یہ ہے کہ ادب محض تاثر ہے اور اس کی تنقید بھی محض ان تاثرات کا مجموعہ ہے جو کسی تصنیف کے پڑھتے وقت پیدا ہوتے رہتے ہیں، کوئی ضرورت نہیں کہ ان ادبی نتائج افکار کو سماجی اقدار کی روشنی میں پرکھا جائے۔ اسپنگارنؔ نے انہیں اور ذرافلسفیانہ انداز میں پیش کرکے اس کا نام تخلیقی تنقید رکھ دیا۔
یہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شعور کا معیار بدلنے سے الفاظ کے معنی کس طرح بدل جاتے ہیں۔ تنقید کے لئے تخلیق کی صفت استعمال کرنا خود تخلیق کے مفہوم کے متعلق الجھن پیدا کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ کسی کتاب کو پڑھنا اور اس سے لطف حاصل کرنا ہی اصل تنقید ہے۔ اسی پرلطف اثر پذیری کو تنقید کہنا چاہیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک کتاب پڑھ کر میں اس کے متعلق اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ اس کا مجھ پر کیا اثر ہوا! گویا تنقید کا اصل کام ان کیفیات کی باز آفرینی ہے جو کسی شاعر یا ادیب پر گزری تھیں۔ اسی وجہ سے بعض نقاد کتابوں کی تشریح اور تفسیر ہی کو تنقید سمجھنے لگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تنقید اور تشریح میں بڑا فرق ہے۔ تشریح میں کیفیات کی باز آفرینی بھی تو نہیں ہو سکتی کیونکہ کسی اور پر گزرے ہوئے اثرات کو پوری طرح اپنے اوپر طاری کرنا ناممکن ہے کیونکہ جذبات خاص قسم کے محرکات اور پیچیدہ حالات کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں، اسی لئے تنقید کا یہ نظریہ فیصلہ اور رائے زنی سے بچنے اور ادب کو سماجی ذمہ داری سے بچانے کا ایک ذریعہ ہے، تنقید نہیں ہے۔
ایسی تنقید کو اسپنگارنؔ نے تخلیقی کیوں کہا ہے، یہ بھی بہت دلچسپ اور پرلطف بحث ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اگر ہم لوگ تاثرات کے معاملہ میں حساس ہوں اور ان کا اظہار کرنے پر بھی قادر ہوں تو ہم میں سے ہر شخص ایک ایسی نئی کتاب کی تخلیق کرےگا جو اس کتاب کی جگہ لے لے گی، جس کے مطالعہ سے ہم نے وہ تاثرات حاصل کئے تھے۔ فن کار کے تاثرات کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار اسپنگارنؔ کے خیال میں تخلیقی عمل ہے۔ وہ صاف صاف یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ ادب یا تنقید کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی اخلاقی یا سماجی مقصد کا اظہار کرے یا اسے آگے بڑھائے، ان خیالات پر تفصیل سے تنقید کی جائے اور ان کے محرکات کا منبع تلاش کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایسے نقاد امریکہ کی سیاسی طبقاتی کش مکش میں بہ ظاہر غیر جانبدار رہنا چاہتے ہیں۔
اس طریقۂ تنقید سے منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ادب میں موضوع اور مواد کی کوئی اہمیت نہیں۔ اچھے برے، صحیح غلط، جس تصور پر مصنف نے کتاب کی عمارت کھڑی کی ہے، اسی پر نقاد کو یقین کر لینا چاہیے۔ ان تصورات کے اچھے برے، صحیح غلط ہونے سے بحث نہیں کرنا چاہیے۔ غیرجانبدار بننے کی ضرورت اسی لئے پڑتی ہے کہ ادیب اور نقاد دونوں طبقاتی کش مکش پر پردہ ڈال سکیں۔ صورت یہ ہے کہ جب پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ساری دنیا میں سرمایہ اور محنت کی جنگ تیز ہوئی اور محنت کشوں نے روسؔ میں اپنی حکومت قائم کرلی تو امریکہ میں ایسے ادیب، نقاد اور مفکر ابل پڑے جنہوں نے سرمایہ داری کے قلعہ کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ رویہ اختیار کیا۔
اسپنگارنؔ وغیرہ ادب کے معاملہ میں اس طرح غیر جانبدار رہ کر حاکم طبقہ کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ ہر ملک کے ادیب اور نقاد جب حالات کو بہتر بنانے والی عوامی جدوجہد سے دور رہنا چاہتے ہیں تو یہی کرتے ہیں اور دھوکا دینے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی طرف نہیں ہیں، ادیب اور نقاد کو جانبداری یا سماجی اور سیاسی اقدار کی تبلیغ اور تلقین سے کیا واسطہ! لیکن ہرنگاہ دیکھ سکتی ہے کہ ان کایہ رویہ منطقی طور پر کس کی حمایت کرتا اور کس کا طرفدار بن جاتا ہے۔
اسپنگارنؔ اس بات پربہت زور دیتا ہے کہ تنقیدنگار کو خیالات کی صحت اور غلطی کی جانب توجہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام نقاد کا نہیں فلسفی کا ہے۔ یہاں بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں کیونکہ باشعور ادیب یا نقاد کا کسی مسئلہ کے متعلق کوئی رائے نہ رکھنا کس طرح ممکن ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر ادب اظہار ہے تو یقیناً کسی بات، خیال، تجربہ، مقصد یا خواہش کا اظہار ہوگا اور اگر پڑھنے والا بھی اپنا کوئی شعور رکھتا ہے تو وہ بھی ان باتوں، خیالوں اور خواہشوں کے متعلق کوئی رائے رکھتا ہوگا جس کا ادیب کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں۔
ایسی حالت میں اسپنگارن کے خیال کے مطابق یا تو تنقید سے دست بردار ہونا پڑےگا یا اپنی رائے کو زبردستی دباکر مصنف کی رائے سے متفق ہونا پڑےگا۔ یہ بات کہاں تک قابلِ عمل ہے یا ہو سکتی ہے، یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔ پھر یہی سوال نہیں ہے، اصل سوال ایسی تنقید کی اہمیت اور افادیت کے متعلق پیدا ہوتا ہے۔ جو تنقید کسی تاثرکے متعلق محض تاثر ہے اس کی افادیت کیا ہو سکتی ہے۔ تخلیقی تنقید کا یہ نظریہ ایک بے حقیقت، کمزور اور ناکارہ فلسفہ پر مبنی ہے۔ اس میں افلاطونؔ کے اس خیال کا زور بھی موجود نہیں ہے جس سے اس نے شاعری کو معمولی نقالی قرار دے کر غیر اہم ثابت کرنا چاہا تھا۔
اوپر کی سطروں میں جن باتوں کی طرف اشارے کئے گئے ہیں ان سے یہ حقیقت واضح ہو جائےگی کہ ادیب کوشش کے باوجود بے تعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کے شعور کی تشکیل اور ترتیب میں جن خارجی، مادی اور سماجی عناصر نے حصہ لیا ہے، وہ اس کی بے تعلقی کے منافی ہوں گے۔ ہاں ایک صورت ممکن ہے اور وہ یہ کہ بعض حالات کے ماتحت کوئی شخص اپنی شعوری کوشش سے ان عناصر کا مقابلہ کرکے اپنے لئے نئے ذہنی سامان فراہم کر لے اور اپنے خیالوں کو نئی طرح ترتیب دے لے۔ اگر یہ کوشش خلوص اورعلم پر مبنی ہوئی تو شعور ی طبقاتی اور سماجی نوعیت بدل جائےگی۔
اس کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ متوسط طبقہ کا کوئی باشعور انسان اپنے طبقہ کے مفاد کے نقطۂ نظر سے عوام کا دشمن بھی ہو سکتا ہے اور سماجی حالات، طبقاتی تضاد اور محنت کش طبقہ کی فتح کے خیال سے اپنے طبقہ کی ثنویت اور دو عملی سے آزادی حاصل کرکے عوام کا دوست اور ساتھی بھی بن سکتا ہے۔ دونوں حالتوں میں شعور کی تشکیل دو طرح ہوتی ہے لیکن دونوں حالتوں میں تاثر کے لئے خارجی اسباب اور ان کے داخلی نتائج کا موجود ہونا ضروری ہے۔ ادیب کا ذہن اچھائی برائی یا خیروشر کے معاملہ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ اپنے اصل خیالات اور مقاصد پر پردے ڈال سکتا ہے، عقائد کو منطقی اور فلسفیانہ شکلیں دے سکتا ہے، اندازبیا ن کی رنگینیوں سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر پیش کر سکتا ہے، متضاد تصورات میں سچ کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن یہ نہیں کر سکتا کہ زندگی کے ہر مسئلے پر خاموش رہ جائے یا ایسی رائے دے کہ اس کے رجحان کا پتہ ہی نہ چل سکے۔ اگر کوئی ادیب یا نقا د ایسا سمجھتا ہے تو وہ یا تو خود فریبی کا شکار ہے یا دوسروں کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ جو بات ادیب کے لئے درست ہے وہی ایک باشعور نقاد کے لئے بھی ٹھیک ہوگی۔ اگرچہ دونوں کے ذہنی عمل کی شکلیں مختلف ہوں گی۔
نقاد بھی غیرجانبدارنہیں رہ سکتا۔ اس کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ ادیب کے محرکات تخلیق کا پتہ لگائے، ان سرچشموں کا منبع تلاش کرے جہاں سے ادیب نے زندگی حاصل کی ہے، اس فلسفے کو ڈھونڈھ نکالے جو ادیب کے خیالوں کو ایک مربوط شکل میں پیش کرنے کا ذریعہ بنا۔ اس طرح یقیناً ایک منزل میں تو نقاد کو بھی ادیب کے ساتھ ہر وادی و کہسار میں چلنا پڑےگا اور ہر صحرا کی خاک چھاننی ہوگی۔ لیکن اس کا کام یہیں ختم نہیں ہو جائےگا بلکہ آگے بڑھ کر وہ ادیب کے ذہنی سفر کا تجزیہ کرکے اس کے حقیقی خیالات اور معاشی تعلقات کا پتہ چلائےگا، ادیب کی جانبداری کا ذکر کرےگا اور ارتقائے تہذیب میں ادیب کے کارناموں کی جگہ متعین کرےگا، یہ سارے کام محض تشریح یا تاثر کے اظہار سے ممکن نہیں ہیں، ان کے لئے نقاد میں خود ایک تخلیقی قوت کی ضرورت ہے جو تنقید کو بھی ادبی حیثیت عطا کر دے، جس میں نقاد کے اندازِ نظر سے جان آ جائے اور جو کسی مصنف یا تصنیف کا تذکرہ ہونے کے باوجود، انسان کے سماجی اور فلسفیانہ شعور میں اضافہ کا سبب بن جائے۔
ادب کی تخلیقی تنقید کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ نقاد بھی ادیب کے خیالات کی بنیاد کو ڈھونڈھ کر، اس کی ادبی کاوشوں پر اعلیٰ ادبی رنگ میں اظہار خیال کرے اور ادیب کے سماجی شعور کا جائزہ لے، فن کی نزاکتوں پر نگاہ ڈالے اور عام پڑھنے والوں کی رہنمائی کرے۔ اگر کوئی نقاد اس سے بچتا ہے تو وہ تنقید کا حق ادا نہیں کرتا۔
اس مضمون میں اصولِ تنقید اور تنقید کے ارتقا کے متعلق کچھ لکھنا نہیں ہے۔ ان کے لئے راقم الحروف ہی کے مضامین ’’اصول نقد‘‘ 1 اور ’’ادبی تنقید‘‘ 2 کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے، یہاں ان کا ذکر ضمناً کیا گیا ہے۔ اگرچہ عملی تنقید پر نظر ڈالنے کے لئے بعض خیالات کی تکرار ضرور ہو گئی ہے تاہم اس مسئلہ کے دوسرے پہلوؤں کی طرف قدم اٹھانے سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ تنقید میں خود تنقید کے اصول و نظریات کا مطالعہ بھی شامل ہے، اور ادبی تصانیف کا مطالعہ بھی۔ اصول و نظریات میں ادب اور زندگی کارشتہ حقیقت اور تخیل، افادیت اور پروپیگنڈا، مواد اور ہیئت کا تعلق، حسن کا مفہوم، تنقیدنگار کا نقطۂ نظر، ادب اور عوام، شعر و ادب میں زبان کی جگہ، اسلوب، فنی اصول اور روایاتِ فن چند اہم مباحث ہیں جن کے ضمن میں اور بہت سے معاشی، سماجی اور نفسیاتی پہلو آ جائیں گے۔
اگر نقاد ان مسائل پر واضح رائے نہیں رکھتا اور اپنی رایوں کو کسی مخصوص فلسفہ ادب سے منطقیانہ طور پر ہم آہنگ نہیں کر سکتا تو اسے عملی تنقید کے میدان میں قدم رکھنے کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ انہیں مسائل کے علم کو بنیاد بناکر وہ کسی ادب پارے کا تجزیہ کر سکتا ہے، اس میں مواد اور موضوع کی صداقت اور فن کی خصوصیات کی جستجو کر سکتا ہے ورنہ وہ یا تو محض اپنے غیرتنقیدی تاثرات پیش کر سکےگا یا تشریح پر اکتفا کرنے پر مجبور ہوگا۔
مندرجہ بالا مسائل کے متعلق نقاد جس قسم کی رائے رکھتا ہوگا، اسی کے مطابق اس کی عملی تنقید ہوگی یعنی اگر وہ سماجی حقیقت پسندی کو اپنے خیالات کی بنیاد بنائےگا تو وہ ادب میں ویسے ہی اقدار کی جستجو کرےگا اور اگر اس کا نقطۂ خیال تاثراتی ہوگا تو اس سے بالکل مختلف چیزیں ڈھونڈھنے کی کوشش کرےگا اور ہر قدم پر دونوں قسم کے نقادوں میں اختلاف رائےگا۔ اس طرح ایک ہی ادب پارہ عملی تنقید کی بساط پر مختلف حیثیتیں اختیار کرےگا۔ ادبی نظریات کی بہت سی قسمیں ہو سکتی ہیں، اس لئے عملی تنقید پر نگاہ رکھتے ہوئے نقاد کے نقطۂ نظر کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
تنقیدنگار اپنے اصولوں کو پیش نظر رکھ کر جس طرح ادب کا مطالعہ کرتے ہیں، ان سب کا تذکرہ تو ناممکن ہے تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ بعض نقاد ادب اور شاعری کو مخصوص قوموں کے مزاج، کردار، عادات واطوار کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور ادب کو ادیب کی قومی زندگی سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریق کار نسل اور قوم کے غلط نظریات پر مبنی ہے، اس لئے جو نتائج اس سے نکلیں گے وہ دلچسپ تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کا صحیح ہونا ضروری نہیں۔ کچھ نقاد اصنافِ ادب اور ان کی حد بندیوں کو بے حد اہم قرار دیتے ہیں اور ان کی ساری کوشش اسی بات پر مرکوز رہتی ہے کہ کوئی مخصوص نظم یا کتاب کس صنف ادب میں رکھی جا سکتی ہے۔ ادب کو اصناف میں تقسیم کرنے کا کام سب سے پہلے ارسطوؔ اور بعد میں ہوریسؔ نے کیا۔
ارسطوؔ افلاطونؔ کے نظریۂ نقل کو سامنے رکھ کر ادب کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ لیرک، ایپک اور ڈراما۔ یہ تقسیم بعد میں نظم و نثر پر حاوی ہو گئی اور کسی نہ کس شکل میں کلاسکی ادب کے سارے پرستار اسی تقسیم کو تسلیم کرتے رہے۔ دوسری صنفیں اور قسمیں جووجود میں آتی رہیں انہیں بنیادی قسموں کی قسمیں قراردی گئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی حدیں برابر ٹوٹتی رہی ہیں اور محض ساخت اور ہیئت کی بنیاد پر ادب کی قدر و قیمت اور شعر کی عظمت کا اندازہ لگانا بہت درست نہ ہوگا کیونکہ اس میں اصل توجہ ادب کے اصل اثر اور اس کی سماجی اہمیت سے ہٹ جاتی ہے۔ فنی پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ساخت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا۔ لیکن اسے ضرورت سے زیادہ اہمت دینا تنقید سے بے تعلق کر دےگا۔
کچھ نقاد تقابلی مطالعہ کو سب سے اچھا تنقیدی مطالعہ قرار دیتے ہیں اور تقابلی مطالعہ کی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تقابلی مطالعہ ہمیشہ ناقص ہوتا ہے کیونکہ تقابل کے تمام عناصر کو پیش نظر رکھنا تقریباً ناممکن ہے اور اگر ایک یا کئی اہم پہلو نظر انداز ہو جاتے ہیں تو نتائج بالکل غلط ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کچھ نقاد موضوعات کے اعتبارسے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں، کچھ سارے ادب کو کلاسکی اور رومانی میں تقسیم کر دیتے ہیں اور ہر شاعر اور ادیب کو اسی چوکھٹے میں بٹھانا ضروری سمجھتے ہیں، کچھ تحقیقی میلان رکھتے ہیں اور صرف لفظی مطالعہ کو اہم جانتے ہیں، ان کی ساری قوت اس پر صرف ہوتی ہے کہ مختلف نسخوں میں کسی خاص لفظ کی کیا کیا شکلیں ملتی ہیں۔ اس ضمن میں بہت سی کام کی باتیں بھی نکل آتی ہیں لیکن انہیں تنقید سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں بھی ادب کے اندر پیش کی جانے والی سماجی اور طبقاتی کش مکش پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
ان کے علاوہ بعض طریقوں نے غیرمعمولی اہمیت حاصل کی اور اکثر نقادوں نے انہیں میں سے کسی ایک کو اپناکر عملی تنقید میں اس سے کام لیا۔ گو تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ ان کی بہت قسمیں ہو سکتی ہیں لیکن ان میں سے تین نظریوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ نقادوں کا ایک بہت بڑا گروہ ادب کے نفسیاتی مطالعہ کا قائل ہے۔ اس قسم کے مطالعہ کی کئی شکلیں ہیں۔ کئی اہم اور مشہور نقاد ادیب اور شاعر کی سوانح عمری کی روشنی میں اس کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے ہی کو تنقید کہتے ہیں، یعنی وہ ادب کو شخصیت کا اظہار سمجھتے ہیں اور کچھ نہیں لیکن ہر ادب پارے کو اسی ترازو پر تولنا صحیح نتائج تک نہیں پہنچا سکتا، اس کے علاوہ نقطۂ نظر محدود ہو جاتا ہے اور ادبی روایات سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔
تحلیل نفسی کے رسیا اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فن کی تخلیق شعور کا نہیں لاشعور کا نتیجہ ہے۔ ادیب اور شاعر کا قلم کسی اندرونی طاقت سے چلتا ہے۔ جس طرح بچہ کھیل میں لگ جاتا ہے ویسے ہی فنکار اپنے فن میں غیر اختیاری طور پر مصروف ہوتا ہے۔ ادیب نارمل انسان ہوہی نہیں سکتا، وہ اپنے احساسِ جرم کے لئے حفاظتی تدبیر ڈھونڈھتا ہے اور اس کا لاشعور اس کی تحریروں میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ ان تجزیہ نفس والوں نے ادب کو عجب معمہ بنا دیا ہے جس کا تعلق شعور سے ہے ہی نہیں، ظاہر ہے کہ نقاد لاشعور کی تلاش میں نہ جانے کہاں کہاں بھٹکےگا اور پھر بھی صحیح نتائج تک اس کی رسائی ہو سکےگی یا نہیں، یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ پھر اگر اس سلسلہ میں نقاد کے لاشعور نے بھی کوئی راہ اختیار کر لی تو اس بھول بھلیاں سے باہر نکلنا ناممکن ہو جائےگا۔ ادبیات کا یہ مطالعہ بھی بالکل غیر سماجی ہے اور ادیب کے شعوری مقصد کو نظر انداز کرکے ادب اور ادیب کی سماجی اور تہذیبی اہمیت کا انکار کرتا ہے۔
نفسیاتی مطالعہ کے کئی پہلو اور ہیں جیسے کسی مصنف کا نفسیاتی مطالعہ، اس کے تخلیقی عمل کا مطالعہ، تصنیف کے کرداروں یا موضوع کا مطالعہ، تصنیف کا جو اثر پڑھنے والوں پر پڑےگا اس کا نفسیاتی مطالعہ، سبھی باتیں نفسیاتی مطالعہ میں شامل ہیں اور نقاد ان میں سے ایک یا کئی پہلوؤں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ نفسیات کے جتنے نظریے ہیں اتنے ہی ادبی نظریے بھی نظر آتے ہیں۔ کوئی ادیب کو جنسی بیماری کا شکار کہتا ہے جس کی بیماری جسمانی نہیں ذہنی ہے، کوئی احساسِ کمتری اور برتری میں مبتلا دیکھتا ہے، کوئی ایذا پرست اور ایذا دہندہ میں تقسیم کرتا ہے، کوئی متوازن، نراجیت پسند اور تفریح پسند میں۔ پھر ان کے اندر بھی چھوٹی چھوٹی قسمیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نفسیات کی مدد سے کسی ادبی کارنامے کی قدروقیمت اور عظمت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں؟
نقادوں کا ایک اور گروہ ہے جو تاریخی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ بعض جرمن نقادوں نے اس تصور کو ایک حد تک پہنچا دیا اور ’’روحِ عصر‘‘ ہی کو سب کچھ قرار دیا۔ کبھی کبھی اس نقطۂ نظر سے دیکھنے والے ادبی کارناموں کا اچھا تجزیہ کر لیتے ہیں لیکن یہ نقطۂ نظر خود تاریخی حقائق کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے اور سماجی ارتقا کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس سے زیادہ سائنٹفک نقطہ ٔنظر وہ ہے جو ادب کو زندگی کے معاشی، معاشرتی اور طبقاقی روابط کے ساتھ متحرک اور تغیر پذیر دیکھتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر نقطہ نظر ہے اور ادبی مطالعہ کے کسی اہم پہلو کو نظرانداز نہیں کرتا۔ گو اس پہلو کو پیش نظر رکھنے والے تمام نقاد یکساں بصیرت نہیں رکھتے۔ بعض محض تجزیہ پر اکتفا کرتے ہیں، بعض ادب اور معاشی ارتقا کو میکانک طور پر ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بعض تاریخی جبریت کو پیش نظر رکھ کر ادیب کو اس کی سماجی ذمہ داری سے معذور قرار دیتے ہیں، بعض ادیب سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ماحولیت کے جبرکو توڑ کر بہتر زندگی کی جانب رہنمائی کر سکتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہیے۔
نقاطِ نظر کے یہ نازک فرق بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ انہیں سے سماج اور زندگی میں ادب کی اصل جگہ متعین ہوتی ہے اور ادب ارتقائے تہذیب اور جہد حیات میں ایک مضبوط مگر نازک اور پر اثر آلہ بنتا ہے۔ ادب کی یہ حیثیت کہ اس میں سماجی حقائق اپنی طبقاتی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور ادیب کے سماجی رجحان کا پتہ اس کے خیالات سے چلتا ہے، ادیب زندگی کی کش مکش میں شریک ہوکر اسے بہتر بنانے کی راہ بتا سکتا ہے، اشتراکی حقیقت نگاری اور مارکسی تنقید میں سب سے زیادہ نمایاں شکل میں ملتی ہے۔ جو نقاد اس نظریۂ تنقید کو اپناتے ہیں وہ روحِ عصر، سماجی نفسیات، عمرانیات یعنی ان تمام باتوں پر نگاہ رکھتے ہیں جو طبقاتی سماج میں پیداوار کی معاشی بنیادوں کے اوپر فکری اور فلسفیانہ حیثیت سے وجود میں آتی ہیں۔
تعبیر ادب کے اس مادی نظریے پر عام طور سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس پر عمل کرنے والے ادب میں ادبیت کے بجائے فلسفہ، تاریخ، معاشیات اور دوسرے عناصر کی جستجو کرتے ہیں۔ یہ اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ ادب محض چند فنی خصوصیات کا مجموعہ نہیں ہے۔ اس سے زیادہ ہے۔ پھر فنی خصوصیات خود تاریخی حالات اور سماجی ارتقاٍء سے وجود میں آتی ہیں۔ اس وقت تک عملی تنقید کایہی طریقہ سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوا ہے کیونکہ اس میں خارجی اور داخلی کوئی پہلو چھوٹنے نہیں پاتا، لیکن زور انہیں باتوں پر زیادہ دیا جاتا ہے۔ جو ادیب کے شعور، سماجی اور فنی دونوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ نظریہ نہ تو جمالیاتی پہلوؤں کو نظر انداز کرتا ہے نہ ادب کو عمرانیات اور سیاسیات کا بدل قرار دیتا ہے۔
عملی تنقید کے سلسلہ میں یہ سوال بھی برابر پیدا ہوتا ہے کہ شعر وادب کے اندر فلسفہ کا ہونا ضروری ہے؟ کیا ادب میں عظمت فلسفہ سے پیدا ہوتی ہے اور کیا شاعر کے پاس کسی مکمل اور منظم فلسفہ حیات کا ہونا لازمی ہے؟ اس میں شک نہیں کہ فلسفہ اور ادب دو مختلف مظاہر حقیقت ہیں جن کی سرحدیں کئی مقامات پر مل جاتی ہیں مگر ان میں کوئی دشمنی نہیں ہے۔ بہت سے ایسے شاعر اور ادیب ملتے ہیں جن کے مطالعہ کے لئے فلسفہ کا علم ضروری ہے، بعض اوقات ادب تاریخ افکار میں ایک دستاویز کی حیثیت سے کام میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ ادیب اور شاعر محض فلسفہ سے متاثر ہی نہیں ہوتے رہے ہیں بلکہ انہیں اپناتے بھی رہے ہیں۔ پھر بھی یہ مسئلہ بہت بحث طلب ہے۔ ایک نقاد نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شاعری میں جس فلسفہ کا ذکر ہوتا ہے وہ غلط اور پیش پا افتادہ ہوتا ہے۔ سولہ سال سے زیادہ عمر کاانسان اس سے لطف اندوز ہو ہی نہیں سکتا۔ جو شاعری فلسفیانہ معلوم ہوتی ہے اس کا تجزیہ کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ وہ محض معمولی اخلاقی نکات ہیں۔ ایلیٹؔ نے بھی کہا ہے کہ حقیقی تفکر نہ تو شکسپیئرؔ کے یہاں ہیں نہ ڈانٹےؔ کے یہاں۔
ان خیالوں کے برعکس بھی خیالات ملتے ہیں۔ آرنلڈؔ نے ایک موقع پر شاعری کو فلسفہ اور مذہب سے بلندتر حقیقت کا حامل کہا ہے۔ تقریباً یہی خیال ایک جگہ افلاطونؔ کے یہاں اور ماضی قریب میں ڈاکٹر اقبالؔ کے یہاں ملتا ہے۔ اس سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شعرو ادب میں افکار و خیالات جگہ پاتے ہیں اور خاص قسم کی فنی لطافت کے ساتھ، لیکن اس بحث سے کچھ نتائج اسی وقت نکل سکتے ہیں جب ہم فلسفہ کا عملی مفہوم متعین کرلیں۔ فلسفہ اور فلسفیانہ خیالات کے فرق کو سمجھ لیں، فلسفی اور ادیب کے ادراکِ حقیقت کے طریقوں پر غور کر لیں۔ لیکن یہ ساری بحث بہت طویل شکل اختیار کر سکتی ہے۔ مختصراً ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک اعلیٰ درجہ کے ادیب اور شاعر کے پاس کوئی نہ کوئی فلسفۂ خیال ضرور ہوتا ہے اور وہ اپنے افکاروخیالات پیش کرتے ہوئے اس کا خیال ضرور رکھتا ہے کہ اس کے بیانات میں تضاد نہ ہو اور اس کے پیش کردہ حقائق ایک دوسرے کی نفی نہ کریں اور اگر اس کے پاس کچھ کہنے کو ہے تو وہ ایک منطقی تسلسل کے ساتھ پیش کیا جائے۔
معمولی جذباتی باتوں کا ذکر نہیں، اہم حقائق کے معاملہ میں کوئی گہری نظر رکھنے والا باشعور ادیب بے عنوانی کو پسند نہیں کر سکتا۔ پھر اگر کسی ادیب کے خیالات تاریخ کے مادی تجزیہ اور سماجی حقائق پر مبنی ہوں گے تووہاں ایسی غلطی کا امکان کم ہوگا اور افکار میں خود ایک طرح کا فلسفیانہ تسلسل پیدا ہو جائےگا، لیکن وہ فلسفہ کا بدل کسی حالت میں قرار نہ پائےگا۔ نظم یا کسی اور ادب پارے کو منظوم فلسفہ کہنا درست نہیں۔ پھر بھی یہ کہنا کہ فلسفیانہ گہرائی ادب میں عظمت نہیں پیدا کرتی، ہٹ دھرمی ہے۔ فلسفہ ادیب کے شعور کا جز و اور عملی زندگی کی صداقتوں کا نقیب بن کر ادب میں جگہ پاتا ہے اور چونکہ فلسفہ بھی ادب کی طرح معاشی بنیادوں ہی کے اوپر وجود میں آتا ہے، اس لئے دونوں میں ایک ہی قسم کے حقائق کا دو طریقوں سے ظاہر ہونا بالکل قرینِ قیاس ہے۔
حقائق کے اظہار کے طریقوں کو دیکھتے ہوئے بعض اوقات ادب اور دوسرے فنون لطیفہ کی تنقید میں بھی یکسانی یا اختلاف کا اظہار پایا جاتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ فنی حیثیت سے رقص، موسیقی، مصوری، سنگ تراشی اور شاعری پر رائے دیتے ہوئے مختلف باتوں پر زور دینے کی ضرورت پیش آئےگی۔ کیونکہ ہر فن کے ارتقا کی تاریخ مختلف ہے۔ خود ادب کے مختلف اصناف کے مطالعہ میں ان اختلافات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ کیونکہ ہر صنف کے فنی مطالبات مختلف ہوتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ نظریۂ تنقید بھی ہر جگہ بدل جائےگا کیونکہ تنقید تو حقائق کے جانچنے کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس میں حقائق کی ظاہری شکل کے لحاظ سے ضروری ترمیم کرنے کی ضرورت پیش آئےگی اور بس۔ زبان کے استعمال، صنائع و بدائع، معانی و بیان، تلمیحات، محاکاتی حسن، واقعہ نگاری وغیرہ کے متعلق ہر صنف ادب کے لحاظ سے رائے قائم کی جائےگی کیونکہ ان سب کا استعمال ہر نظم اور ہر ادب پارے میں یکساں طور پر نہیں ہوتا۔
عملی تنقید نظریاتِ تنقید کا استعمال ہے شعر و ادب کے نمونوں کو جانچنے کے لئے۔ یہ نظریے شعروادب کے جانچنے اور پرکھنے ہی کے دوران میں پیدا ہوئے ہیں اور کہیں سے بن کر نہیں آئے ہیں۔ اس لئے تخلیق اور تنقید میں بہت زیادہ فرق کرنا مناسب نہیں ہے۔ ادبی جائزہ ادیب کو اپنی کاوشوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور ادب کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ اس مختصر مضمون میں نظریاتی اور عملی دونوں پہلوؤں کو مکمل طور پر پیش کرنا ممکن نہیں ہے تاہم اس میں بعض ایسے ضروری اشارے ضرور آ گئے ہیں جن کی مددسے ہم اس اجمال کی تفصیل تیار کر سکتے ہیں۔
حاشیے
(1) مطبوعہ ادب اور سماج
(2) مطبوعہ روایت اور بغاوت
(مجموعہ میں پہلے اس کا عنوان تھا تنقید اور عملی تنقید۔ مرتب)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.