Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تقسیم، تشدد اور منٹو کی آئیرنی

خان محمد آصف

تقسیم، تشدد اور منٹو کی آئیرنی

خان محمد آصف

MORE BYخان محمد آصف

    منٹو کا فکشن تاریخ اور تعبیر کا آمیزہ ہے ۔تاریخ اس مفہوم میں کہ اس کے متن کی رنگت آتش زنی،عصمت دری،بے گھری، آہوں اور خوں ریزیوں سے لہو لہان ہے۔ تعبیر اور تقدیر اس لئے کہ اس نے انسانی خوابوں اوررویوں کی اجتماعی کلوز ریڈینگ کی، ان رویوں کے کربیہ ردعمل کوتخلیقی پیکر میںڈھالا۔منٹو کا فوکس ادب کے زمینی اور جمہوری تصورات پر ہے اس میں کہیںسے بھی ہوش ربائیت اور پاپائیت کی طلسمی و اساطیری فضا نہیں ملتی ۔ ہاں بوکیچو (Boccaccio)کی ڈیکمبرون ٹیلز کی طرح منٹو نے بھی اپنے کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کیا۔بحیثیت ایک فکشن نگار کے مذہبی اختلافات اور تعصبات سے ماوراء ہو کر اس نے سوالات قائم کئے ،جن کے جوابات جناح اور جواہر کے پاس نہیں تھے ۔اس طرح کے سوالات کرنے والوں میں منٹو پہلا شخص نہیں ہے ۔بل کہ وقت کے دانش اور نابغہ اپنے سوالات مقتدرہ سے کرتے ر ہے ہیں۔خواہ وِدر کا سوال بھیشم پتامہ سے ہوں یا مند پال رشی کا سوال اگنی دیوتا سے !آج بھی وہ سوالات فضا میں معلق ہیں۔جن کے جوابات ہمیں اور آپ کو ڈھونڈنے ہیں۔

    ادھر سے اگنی دیوتا شعلے بھڑکاتے چلے آرہے تھے ۔انھوں(مند پال رشی) نے حیران ہو کر پوچھا ہے اگنی دیوتا'یہ کیا کر رہے ہو ؟

    اگنی نے جواب دیا کھانڈو بن میںآگ لگا رہا ہوں۔

    کارن ؟ انہوں (مند پال رشی )نے تعجب سے پوچھا۔

    اگنی نے جواب دیا رشی جی ،کیا تمہیں پتا نہیں ہے کہ بھارت ورش کا بٹوارہ ہو گیا ہے۔ کھانڈو بن پانڈوؤں کے حصے میں آیا ہے۔یہاں اب ان کی راجدھانی بنے گی،پریاں ،ناگ بہت ہیں ، پہلے ان کو جلا کر بھسم کرنا ہے پھر یہاں نگر آباد ہوگا۔

    تب مند پال کی آنکھیں کھلیں۔انہوں نے ٹھنڈا سانس بھرا۔بولے زمین کا جب بٹوارہ ہوتا ہے تو پھریہی ہوتا ہے ۔جانیں جاتی ہیں ،گھر اجڑتے ہیںجنتا گھر سے بے گھر ہوتی ہے۔پھر پوچھا ہے اگنی ،باقی جیو جنتو کیا کریں گے ،کہاں جائیں گے ۔؟

    اگنی نے کہا یہ سوچنا میرا کام نہیں ہے،میرا کام تو آگ لگانا ہے ،سو میں نے لگا دی ہے ۔کھانڈو بن آگ کی لپیٹ میں ہے۔کوئی جیو جنتو جیتا نہیں بچے گا۔(۱) ؁

    بٹوارہ لفظ اپنے اندر بربریت اور بربادی کی معنیاتی پرتیں رکھتا ہے۔خواہ وہ کھانڈو بن ہو یا سلطنت خدادادہر جگہ انسانی ا رواح و اجسام پر لوہے کو لہو میں ڈبو کر تاریخ لکھی گئی۔ آگ کے شعلے زمانی بعد سے ہر دور میںاٹھے ،تریتا میں اس آگ کی لپٹوں نے کسی جیو جنتو کو جیتا نہ چھوڑا۔توکل یگ میں بٹوارے کے شعلے میں مذہب اور تعصب کی تپش تھی ۔جس نے جسموں کے ساتھ روح کو بھی جلا کر خاک کر دیا، اس راکھ کے ملبے سے سبھوں نے اپنے اپنے خداؤں کے معبد تعمیر کئے، پاپائیت اور خداداد سلطنت تشکیل وتوسیع ہوئی،لیکن وہ سوال آج بھی اتنا ہی معنی خیز اور اہم ہے۔جتنا رشی مند پال کے عہد میں تھا ۔جب انھوںنے آگنی دیوتا سے سوال کیاتھا کہ ہے اگنی ،باقی جیو جنتو کیا کریں گے ،کہاں جائیں گے ۔؟تو اگنی دیوتا کو جواب بہت ہی معصومانہ اورمایوسانہ تھا کہیہ سوچنا میرا کام نہیں ہے،میرا کام تو آگ لگانا ہے ،سو میں نے لگا دی ہے ۔منٹو بھی یہی سوال بٹوارے کے گنہگاروں سے پوچھتا ہے۔

    ’’14 اگست کا دن میرے سامنے بمبئی میںمنایا گیا۔ پاکستان اور بھارت دونون آزاد ملک قرار دیے گئے تھے۔ لوگ بہت مسرور تھے مگر آگ کی واردتیں باقاعدہ جاری تھیں۔ ہندوستان زندہ باد کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے تھے۔ کانگریس کے ترنگے کے ساتھ اسلامی پرچم بھی لہراتا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور قائد اعظم محمد علی جناح دونوں کے نعرے بازاروں اور سڑکوں میں گونجتے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہندوستان اپنا وطن ہے یا پاکستان اور وہ لہو کس کا ہے جو ہر روز اتنی بے دردی سے بہایا جارہا ہے۔ وہ ہڈیاں کہاں جلائی یا دفن کی جائیں گی جن پر سے مذہب کا گوشت پوست چیلیں اور گدھ نوچ نوچ کر کھاگئے تھے۔ اب کہ ہم آزاد ہوئے ہیں، ہمارا غلام کون ہوگا… جب غلام تھے تو آزادی کا تصور کرسکتے تھے اب آزاد ہوئے تو غلامی کا تصور کیا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آزاد بھی ہوئے ہیں یا نہیں۔ ہندو اور مسلمان دھڑا دھڑ مررہے تھے۔ کیسے مررہے تھے، کیوں مررہے تھے… ان سوالوں کے مختلف جواب تھے، بھارتی جو اب، پاکستانی جواب، انگریزی جواب، ہر سوال کا جواب موجو دتھا مگر اس جواب میں حقیقت تلاش کرنے کا سوال پیدا ہوتا تو اس کا کوئی جواب نہ ملتا کوئی کہتا ہے غدر کے کھنڈرات میں تلاش کرو۔ کوئی کہتا نہیں۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں ملے گا۔ کوئی اور پیچھے ہٹ کر اسے مغلیہ خاندان کی تاریخ میں ٹٹولنے کے لیے کہتا سب پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جاتے تھے اور قاتل اور سفاک برابر آگے بڑھتے جارہے تھے اور لہو اور لوہے کی ایسی تاریخ لکھ رہے تھے جس کاجواب تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتا۔‘‘(۲)

    تقسیم کے المیہ پر اختر الایمان نے بڑی پردرد بھری نظم کہی، ملاحظہ کریں

    اور ابا اسی کمرے کے ایک کونے میں

    کاغذات اپنی اراضی کے لیے بیٹھے تھے

    یک بیک شور اٹھا۔ ایک نیا ملک بنا

    اور اک آن میں محفل ہوئی درہم برہم

    آنکھ جو کھولی تو دیکھا کہ زمیں لا ل ہے سب

    تقسیم ہند محض سرحدوں کا یا ملک کا بٹوارہ نہیں تھا بلکہ ایک آنگن میں دیوار کھڑی کر دی گئی تھی۔ ایک جسم کے دو حصے ہوئے تھے یہ جسم شکنتلا پتر بھرت کا تھا یا جلال الدین محمد اکبر کا۔ یا ان دونوں کا۔؟جو ہندستان میں پہلی عالمی جمہوریت کے بنیاد گذار تھے جنھوںنے عوام کو ان کے کرم اور اعمال کی بنیاد پر افضلیت دی ۔ اکبر نے ہندستانی رعایا کے سامنے اسلامی سلطنت کی تعبیر پیش نہیں کی بلکہ قومی راجیہ کی اساس رکھی ۔ جہاں بقول گوتم بدھ سروجن ہتائے، سروجن سو کھائے کے نظریے پر تمام ہندستانیوں کے فلاح و بہبود کا خواب دیکھا ۔ پھر وہ کون سے وجوہات تھے جنھوں نے عام ہندستانیوں کو بٹوارے کے وقت ایک سفّاک حیوان میں تبدیل کر دیا تھا۔ ان کے اجتماعی لاشعور میں کوئی ہستی موجود تھی جس نے اتنے قتل و خون کروائے۔ مہاتما بدھ نے توجیو ہتیا کو پاپ بتایا تھا۔ اس کے بر خلاف بٹوارے میں قتل و غارت گری کی وارداتیں ہوئی اس نے انسانیت کو شرم سار کیا۔ وہ ہندستان جہاں کے ویدوں میں وسو دیو کو ٹمبک Universal Family کا تصور ہے۔ جہاں کا تمدنی و تہذیبی ڈھانچہ لوہے اور بارود کے مادی برادوں سے تیارنہیں ہوا ۔اس دھرتی نے تو پیر، فقیر، سنت، درویش اور مہاتما پیدا کیے۔ جنھوں نے امن و آشتی کا پیغام دنیا کو دیا،انھوں نے انسانی دیہہ اور دماغ کو غلام نہیں بنایا۔ بلکہ الوہی نغموں سے عام ہندستانیوں کے دلوں پر راج کیا ۔ان کو انسانی اخلاقی اقدار کا درس دیا۔ لیکن پلک جھپکتے ہی پورا تہذیبی و ثقافتی ڈھانچہ منہدم کیسے گیا ۔؟وہ پڑوسی جو نو ن ،نمک کا ساجھی اور کھیت کھلیان کا ساتھی تھا،اب اسی سے اتنی نفرت کہ اس کے جان کا پیاسا ہوگیا۔ وہی لوگ جو انگریزی سامراج کے خلاف کندھے سے کندھا ملاکر لڑتے تھے۔ آج اس کندھے کو سر سے جدا کرنے کی لیے دیوانہ ہوئے جا رہے ہیں۔ پانچ ہزار سالہ تہذیبی وراثت کو پانچ لوگوں نے آنکھ جھپکتے خون اور آہوں میں لپیٹ دیا ۔ اور پوری زمین لہو سے لال نظر آنے لگی۔ آسمان کی آنکھوں نے وہ انسانیت سوز منظر بھی دیکھا۔ جب ڈنٹھل کی طرح معصوم بچوں کے سر فضامیں اڑرہے تھے۔ عورتوں کو ننگا کرکے ان کو دوڑایا گیا۔ رہزنی، لوت گھسوٹ، آتش زنی اور ساتھ ہی عورتوں کی عصمتوں کو بھی لوٹا گیا۔ ان کو اغوا کیا گیا۔ مغویہ عورتیں بر آمد کی گئیں تو ان کے پیٹ ابھرے ہوئے تھے۔ جبراً ان کے بنجر کوکھ میں پانی کی پھوار ماری گئی تھی۔ ان ہری بھری کھیتی کا مالک کون تھا ہندوستان یا پاکستان؟۔ جب میں جنگ زدہ عورتوں کا تصور کرتا ہوں تو میری آنکھوں میں ستم رسیدہ عورتوں کی صف میں سب سے پہلے سور ن پنکھا کی کٹی ہوئی ناک، مغویہ جنک دلاری سیتا کا معصوم اور خوف زدہ چہرہ ،اور دروپدی کے چیر ہرن کے منظرکی امیج ابھر کر آتی ہے۔ جو بار بار سوال کرتی ہیں کہ ہم عورتوں پر اتنے ظلم و ستم کیوں ؟۔ کیا اس وجہ سے کہ ہم کمزور پیدا کی گئی ہیں، ہم مجبور ہیں اور مردوں کی کفالت میں رہتی ہے۔ مردوں کی خطا کا بدلہ ہم عورتوں سے کیوں لیا جاتا ہے۔مہا بھارت میں چیر ہرن کے بعد وِدر نے بھیشم پتامہ سے سوال کیا تھا کیا عورت وستو ہے جسے بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔؟وِدر کے اس سوال کی عصری معنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری عالمی جنگ میں فرنچ عورتیں جرمن فوجیوں کے ہوس کا شکار بنیں۔ بٹوارے کے وقت بھی عورتوں پر ہی ظلم و بربریت کے پہاڑ ٹوٹے۔ جسے مہذب دنیا یاد کرکے شرم محسوس کرتی ہے۔

    لیکن آدمی سوچتا ہے کہ آخر انسان ، انسان کے خون کا پیاسا کیوں ہو رہا ہے۔یہ جذبہ اس کی جبلت کے تحت ہے، اس سے مجھے انکار نہیں لیکن خاص طور پر آج کل اس جذبے کی فراوانی کیوں ہے۔

    صبح اخبار اٹھاؤ تو جلی سرخیوں میں قتل و خون کی و ارداتوں کی ہولناک تفصیلات ملتی ہیں ۔لیکن خفی معاملہ کیا ہے،انسان اتنا سفّاک اور بہیم کیوں ہو گیاہے۔؟

    کیا انسانیت سے ہمیں دستبردار ہو جانا چاہیے۔کیا ہمارا اس شئے سے جسے ضمیر کہا جاتا ہے اعتبار اٹھ جانا چاہے۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سوالوں کا جواب کیا ہونا چاہیے۔

    ہم نے سوچا تھا کہ تقسیم کے وقت یہ جو کچھ ہوا ہے ، یہ انسانیت کے منھ پر جو کالک مل گئی ہے،یہ جو ننگی عورتوں کے جلوس نکالے گئے ہیں ، یہ جو لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا گیا ہے ، یہ جو ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی ہے ، اس کے بعد انسان کی بہمیت کی تشنگی کسی حد تک دور ہو جائے گی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مائل بہ ترقی ہے ۔(۳)

    تقسیم کے اس خونچکاں ماحول میں ہر انسان ڈرااورسہما ہوا تھا۔ خوف نے انسانیت کی ساری روحانیت اور ضمیر کی آواز کو اپنے میں جذب کرلیا۔یہ ڈرامر بیل کی مانند انسانی وجود سے لپٹ گیا ۔اور انسانی سوچ سمندر کے سوتے کو خشک کر دیا۔ ایسے میں کوئی نیا لفظ وضع نہیں ہوتا۔ کوئی تخلیق وجود میں نہیں آتی۔ کوئی چکا چوند کردینے والی روشنی جنم نہیں لیتی۔ اگر کچھ جنم لیتا ہے تو فتنہ و فساد۔ کیوںکہ اکثریت کا کمیونلزم فاشزم لاتا ہے اور اقلیت کی کمیونلزم دہشت گردی کو جنم دیتی ہے۔ اور یہ دونوں طرح کا ازم قوم و ملک کے لیے خطرناک ہے۔ کیوںکہ دونوں کی ذہنوں کی بھٹیوں میں تلواریں بنتی ہیں اور بند کمروں میں پنڈتوں ،ملاؤوں اور مذہبی واعظین کی سازشیں ہوتی ہیں اور مذہبی تشدد، تہذیبی قومیت یا ہندو اور مسلم ملک، ایک زبان، ایک دھرم ایسے کتنے نعرے ہیں جو بالآخر فاشزم کو جنم دیتے ہیں۔ جہاں انسانی سوچ ،مذہبی قدریںبے معانی ہوجاتے ہیں۔ سب ایک تھوپا ہوا اصول، فلسفہ، خوف اور شک انسانی زندگی کو روندتے اور کچلتے رہتے ہیں۔ اور یہ ایک دوسری طرح کی نفسیاتی غلامی ہوتی ہے جس کی زنجیریں اچھی لگتی ہیں۔ اور انسانی ذہنیت پر اس قدر حاوی ہوجاتی ہیں کہ اس کی برائیاں برائی نہیں لگتی۔

    اس کی ذمہ دار سیاست کی اکھاڑہ بازی ہے مذہب کا وہ جنون ہے جس کی مثال انسانوں کی پچھلی تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملتی۔(۴)

    ہندستان کا بٹوارہ خطۂ ارض کے محل وقوع کا تعین نہیں تھا بلکہ یہ لکیرانسانوں کے خون سی کھینچی گئی تھی جو لال سیاہ بادل کی شکل میں آج بھی بر صغیر ہندو پاک کے آسمان میں گھمڑتی رہتی ہے۔ اور رہتی دنیا تک یہ دونوں ملکوں کے حکام کے ذہنوں میں الجھن پیدا کرتی رہے گی۔ کیوںکہ اس تقسیم نے ہندستان کے ہزار سالہ تہذیبی و ثقافتی درخت کی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی تھی۔ جس کے گرنے سے آس پاس کی زمینیں صرف متاثر نہیں ہوئی بلکہ اس کے اثرات دور دراز تک پھیلے اور دیر پا ثابت ہوئے۔ اس بٹی ہوئی تہذیب اور ثقافتی تقسیم نے انسان کی روحانیت کو مات دیے دیا اور اس کے اندر کی دبی ہوئی حیوانیت اور شہوانیت کو جگایا جس نے پورے بھارت کو شمشان کے سناٹے میں بدل دیا۔ پورا ہندستان ایک شہر خموشاں میں تبدیل ہوگیا۔ جہاں صرف لاشیں ہی لاشیں تھیں مگر انھیں کندھا دینے والا کوئی نہیں تھا۔ عورتوں کے عریاں جسم اور لٹی ہو عصمتوں پر شہوانیت کا کام دیوتا رقصاں تھا۔ ہر طرف آگ ہی آگ تھی جس میں چیتائیں نہیں جل رہی تھیں گھر اور کاربار جل رہے تھے ۔گیتا، پران اور قرآن کے امن شانتی اور انسانیت اور اخلاقیات کے اُپدیس جل رہے تھے۔ مریادا پرشتم شری رام اور مہاتما بدھ کا رام راجیہ اور ستیہ اور نروان کا فلسفہ جل رہا تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیا اور امیر خسرو کی تعلیمات جل کر خاکستر ہورہی تھیں۔ مسجدوں سے آنے والی فلاح و سلامتی کی آوازیں ماند پڑی تھیں اور مندروں کے دیے کی روشنی کو سیاہ کالے بادل نے مدھم کردیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب منطق، مذہب استدلال اور فلسفہ بے کار کی چیزیں تھیں ہر کوئی دوسرے کے خداؤں کا مارکر اپنے خدا کی جے جے کار کر رہا تھا۔ اور اس پورے سانحے میں حیوانیت اور درندگی کا دیوتا عزازیل ان کی رہنماتھا۔ جس نے انسانوں کے دماغوں یہ خنّاث ڈال تھی کہ مذہبی لوگوں کے مارنے سے ان کا مذہب مرجاتا ہے۔ یہ کتنی غیر منطقی بات ہے انسان کے مارنے سے مذہب فنا ہو تاہے۔ مذہب تو انسان کی روح میں ہوتا ہے۔ اس کو کسی ہتھیار سے ناہی ختم کیا جاسکتا ہے اور نا ہی تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ منٹو لکھتا ہے:

    ’’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ ہندو مذہب مرگیا۔ لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اس طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کر ہندوؤں نے بغلیں بجائیں ہوں گی کہ اسلام ختم ہوگیا، مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ اسلام پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جاسکتے ہیں۔ مذہب، دین، ایمان، دھرم، یقین، عقیدت یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں روح میں ہوتا ہے چھرے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہوسکتا ہے‘‘ (۵)؁

    یہ زمانے دینی افکار و نظریات، منطق و فلسفہ کے شکست و ریخت کا تھا۔ خدا کی موت کا اعلان مجذوب نٹیشے کرچکا تھا اور علامہ اقبال بھی وطن کے پیرہن کو مذہب کا کفن کہہ چکے تھے۔ عالمی منظرنامہ بھی کچھ ایسی طرح کے فکری و نظری اتھل پتھل کا شکار تھا جہان اٹلی اپنا خدا مانگ رہا تھااور خدا بھی اپنے اٹلی میں رہنا چاہتا تھا۔ تو دوسری طرف نسل وادی نفرت اور مذہبی فوقیت نے جرمنی کو ہٹلر کے حوالہ کیا اور ہٹلر کو اس کا جرمنی دے دیا۔ ایسا ہی حال ہندستان میں تھا جہاں ایک مذہبی نظریہ دوسرے مذہبی افکار پر حاوی ہونا چاہتا تھا۔ اور مذہب کی صداقت پر مصر تھا۔ ان میں کچھ اعتدال پسند تھے جو مذہبی یگانگت اور فرقہ وارانہ اہم آہنگی کی بات کرتے تھے۔ سوامی ویکانند کا فکری نظام سبھی مذاہب کو اپنے اندر انجذاب کا تھا ان کا ماننا تھا کہ میں ہندو ہوں سب دھروموں کی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں اور ہندوتو ہندوستان میں اس وجہ سے صدیوں سے چلتا رہا کہ اس میں ایک جذب کرنے کی طاقت ہے۔ اور گاندھی کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ کوئی سچا سناتنی ہندو تبھی ہوسکتا ہے۔ جب وہ سچا عیسائی، سچا مسلمان اور سچا پارسی بھی ہو۔ لیکن کچھ ایسی شخصیتیں بھی تھیں جو نسل وادی ذہنیت اور مذہبی قومیت کے نشے میں اتنے اندھی ہوگئی تھی کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو ہندو دھرم اور اس کی تہذیب و ثقافت کے رحم و کرم پر جینے کے لیے اصرار کررہی تھی۔ گولولکر نے صرف مذہب کی بات نہیں کی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ جو نسل پرستی کی پالیسی ہٹلر کی تھی اس کے مطابق اپنی نسل کا تزکیہ کرنا چاہیے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہندستان کے تمام ہندو گولولکر، ساورکر اور ڈاکٹر ہیڈگوار کے نظریات اور آئیڈیوجی سے متفق تھے۔ لیکن کچھ پارٹیاں اور تنظیمیں تھیں جنھوں نے ان افکار کا پروپیگنڈا کیا۔ جن میں ہندو مہاسبھا اور آر، ایس، ایس، پیش پیش تھیں۔ جس کے غلط اثرات مسلم انٹیلیجنسیا پر پڑے۔ اور اس نسل وادی نفرت و حسد اور اندھی قومیت کے سبب مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ ملک کی مانگ کردی۔ اور اکثریت کے اس فاشزم کا نتیجہ ملک کے بٹوارے کی شکل میں سامنے آیا۔ تو دوسری طرف محمد علی جناح کی حد سے بڑھی ہوئی انانیت تھی۔ جس نے مذہب کے نام پر لاکھوں انسانوں کو کٹوادیا۔ اور ان کٹے ہوئے اور مردوہ جسموں کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر قائد اعظم بن بیٹھے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ نا تو جناح کبھی قوم کے قائد و رہنما بن سکے اور نا ہی اپنی عظمت کی کوئی دلیل پیش کرسکے۔ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہلانے میں شرم محسوس کرتا ہو۔ اور وہ اسلام کا اتنا بڑا پیرو کیسے بن سکتا ہے۔ کہ وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ ہندستان میں مسلمان اور اسلام خطرے میں ہے۔ جناح کو تو مذہب اسلام کے نام کا ایک دیویہ استر مل گیا تھا جس کے بارے میں کہا جانا ہے کہ اس کا وار خالی نہیں جاتا۔ اور یہ سچ ثابت ہوا کہ اس کا وار ہدف پر لگا اور محمد علی جناح نے اپنے سکریٹری اور ٹائپ رائٹر نے دم خم پر پاکستان کو حاصل کرلیا۔ لیکن ان آنسوؤں، آہوں، لٹی ہوئی عصمتوں اور مانگوں کے مٹے ہوئے سندوروں کے سوالوں کا جواب کون دے گا؟ جواہرلال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل جو اپنے لولے لنگڑے ہندوستان کو پاکر خوش تھے یا محمد علی جناح جو دیمک زدہ پاکستان کے ملنے کی خوشی میں جشن منارہے ہیں۔ لیکن عوام توبٹوارے کے غم میں ماتم کناں تھی۔ہاجرہ مسروراپنے افسانے ایک بچی میں اسی کڑواہٹ اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔جی میں آیا کہ بے تحاشہ برطانوی ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگاؤں ،تاکہ میرے پڑوس میں بسے ہوئے مختلف سیاسی عقائد کے لوگ اک دم چونک پڑیں۔۔۔۔۔۔میں اپنا نعرہ بلند کرتی جاؤں،سڑکوں پر گلیوں میں شہروں شہروں۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ گاندھی جی کو اپنے اکھنڈ ہندوستان اور مسٹر جناح کو اپنے پاکستان کی ایک حقیقی اور ٹھوس شکل نظر آجائے۔(۶)اسی طرح کی قوم پرستانہ سوچ کابیانیہ افسانہ سرگوشیاں ہے۔جس میں ہاجرہ نے انسانیت اور نسوانیت پر ہو رہی بہیمانہ بربریت پرشدید رد عمل ظاہر کیا ، اور ملک و قوم کے زعماء سے کئی سوال کئے کہہزاروں عصمتوں، بے شمار غیرتوں اور لاکھون جسموں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کا دشمن کون ہے ؟ (۷)ان بیواؤں اور یتیموں اور لٹے پٹے انسانوں کے آنسوؤں کی پرواہ کس کو تھی۔ تووہ منٹو تھا جس نے اپنے عہد کے آنسوؤں کو پہچانا جو خوف کی وجہ سے ڈرے اور سہمے ہوئے تھے۔ اور اپنی تیسری آنکھ سے اس منظر کو دیکھا جو بیت چکے تھے۔ جس کی صحیح تصویر قتل اور غارت گری بھی نہیں کھینچ سکتی تھی۔ منٹو لکھتا ہے: ــ

    اس وقت ہماری نظروںکے سامنے خوں کی سوکھی ہوئی پپڑیاں ، کٹے ہوئے اعضاء، جھلسے ہوئے چہرے،رندھے ہوئے گلے، ٹھٹھری ہوئی جانیں ،لٹے ہوئے مکان ، جلے ہوئے کھیت ،بلے کے ڈھیر اور بھرے ہوئے ہسپتال ہیں۔ہم آزاد ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان آزاد ہے ، پاکستان آزاد ہے اور ہم گرسنگی اور برہنگی ،بے سروسانی و بے حالی کی ویران سڑکوں پر چل پھر رہے ہیں۔

    گندم نہیں ہے ۔روٹی نہیں ہے ، چاول نہیں ہے ۔گرانی ہے، قحط ہے،بیماریوں کی یلغار ہے۔۔۔۔سردیوں میں آگ نہیں ۔گرمیوں میں پانی نہیں۔زمینیں سکڑ گئی ہیں ۔آسمان سمٹ گئے ہیں۔تدبیر کے گھسے ہوئے ناخن یہ پیچیدہ گرہیں کھولنے میں مصروف ہیں اور ہم محو تماشا ہیں۔

    یہ تماشا کب تک جاری رہے گا۔کب تک مظلوم انسانیت کپڑے کے پھٹے ہوئے خیموں میں قید رہے گی ۔کب تک مجبور نسوانیت تحفظ کی نام نہاد چار دیواری میں شہوانیت کی شکار ہوتی رہے گی۔کب تک غربت اور بے چارگی سرمائے کے ہاتھوں فروخت ہوتی رہے گی۔۔۔۔۔۔کب تک؟

    ہماری بٹی ہوئی تہذیب ہمارا تقسیم شدہ تمدن ۔ہمارا نچا ہوا فن ۔۔۔۔۔ہر چیز جو ہمارے ہی جسم سے کٹ کر ہمیں ملی ہے۔ مغربی سیاست کے بھوبل میں دفن ہے۔(۸)

    منٹو نے بر صغیر کے خونین المیے کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ۔ اس آشوب شکن دور میں انسانیت اور اخلاقیات بے معنی شئے بن گئی تھی اور ظلم و بربریت اور بہیمت نے سر زمین ہند میں وہ ننگا ناچ کیاکہ انسانی تہذیب اپنے چہرے سے وہ داغ نہ مٹا سکی۔ جس پر چشم فلک آج بھی حیراں و پریشاں ہے۔ گلی کوچوں میں خون پانی کی طرح بہاگیا۔ اشیاء خورد و نوش کی ارزانی تھی مگر انسانی گوشت پوست کی فراوانی ۔ جیسے بازار کی کسی بھی دکان سے خریدا جاسکتا تھا۔ مندریں اور مسجدیں اینٹوں اور پتھروں کا محض ایک ملبہ معلوم ہوتی ۔ ہر طرف ایک سناٹا، خوف اور ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔ اگر کہیں قدموں کی چاپ بعد ایک دل دہلا دینے والی چیخ سنائی دیتی ۔ انسان نے ہندستان کے صدیوں کے مذہبی اقداراور عدم تشدد کے اثاثے کو شہر خموشاں اور شمشان میں تبدیل کردیا تھا۔خدیجہ مستور ہندستان کے اعلی انسانی اقدار اور سنسکار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔جس ملک میں عورت بندیا لگاتی ہو، اس کے پاؤں میں بچھوا بجتا ہو اور جہاں گنگا جمنا بہتی ہو ۔وہ جنگ کی باتیں کیسے کرتا ہے(۹)

    منٹو نے پارٹیشن کے ہولناک منظرکو تماشائی کی طرح نہیں دیکھااور نہ ہی صحافیانہ انداز میں رپورٹنگ کی۔ بلکہ اس نے تقسیم سے متاثرہ افراد کے آنسوؤں، آہوںاور در دکو محسوس کیا ۔ان ٹیسوں کو اپنی باطنی حسّاسیت اوراسلوب کی مکانکیت سے اظہار کا وسیلہ بنایاجو ناسور بن کر سڑانڈ اور تعفن کے روپ میں ظاہر ہوا۔جس کی بدبو سے بر صغیر کے بوہیمین انٹیلکچول کی ناک پھٹنے لگی ۔انسانیت کش ماحول میں اس طرح کا اضطراب قلب اور بے چینی سے ہر حساس فنکاررو برو ہوتا ہے۔اور اس کی زبان سے مضطرب اور آتشیں لاوا الفاظ کی شکل میں نکلے گا۔منٹو کے یہ حرفِ پریشاں معاصرین کو اچھے نہیں لگے تو انھوں نے منٹو کو مطعون و معتوب کرنے کے گلی گلی اور کوچے کوچے یہ شور مچانا شروع کیا کہ میں اس مملکت میں نہیں رہنا چاہتا جہاں خداتو ہے پر شیطان نہیں ہے۔نعوذ باللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۱۰)

    منٹو نے تقسیم پر افسانے لکھ کر انسان کے اندر کی نادر شاہیت، چنگیزیت، زاریت اور ہٹلر کی فسطائیت کو طشت از بام کی۔ ساتھ ہی ساتھ انسان کی انسانیت، روحانیت اور اس کے اندر پوشیدہ الوہی پہلو کوبھی تلاش کیا۔ منٹو کی اس جستجو اور کھوج نے کروڑوں ہندستانیوں میں سے بشن سنگھ، سہائے اور ایشر سنگھ کو ڈھونڈ نکالا۔جب ادبی فضا پر بقول ناصر سکوت شام غم کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے اور فنکاروں کا اجتماعی شعور انجماد اور سوچ کرب کا شکار تھی ۔ایسے میں منٹو نے مجنونانہ لفاظی اور قنوطیت کی ردا کو چاک کیا اور ایسے ادب کی تخلیق کی جو سچائی کو پہچان لے یا کم از کم حقیقت اور سچائی تک اس رسائی ہو۔اس نے کرداروں کی ازلی جبلت کو اجاگر کیا جو انسان کی نیوراسس میں موجود ہے اور ان کے نمو پانے والی محبت اور نفرت جسے ایروس اور ایتھوس کہتے ہیں ان کو تلاش کیا ،اور اس نتیجے پر پہونچا کی انسانیت ،حیوانیت کے بیچ کے سرحدی فاصلہ کو ماپنے کے لیے کوئی آلہ یا پیمانہ نہیں ہے۔جس سے یہ طے کیا جا سکے کہ انسانی ذہن کب کس سرحد میں ہوگا۔منٹو کی تخلیق اسی انسان کی اسی تحلیل نفسی کا ماحصل ہیں جس میں اس کے کردار اپنی اچھائیوں اور برائیوں سمیت موجود ہیں۔ ؁

    منٹو کا بشن سنگھ بر صغیرکے کربِ عظیم کا بلیغ استعارہ ہے۔ جو ہندستان کی ہزار سالہ تہذیبی و تمدنی ورثے کا امین ہے۔ بشن سنگھ (ٹوبہ ٹیک سنگھ) کا درد محض ایک شخص کا نہیں ہے۔ بلکہ ان تمام بے جڑ لوگوں کا ہے جنھیں ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے کی کوشش کی گئی تھی اور پرائی دھرتی نے سویکار کرنے سے انکار کر دیا ہو۔ اپنی جڑوں سے اکھڑنے کا دکھ اور مشترکہ کلچر کی ٹوٹ پھوٹ اور منتشر ہونے کا خوف اس افسانے کا اصل موضوع ہے۔ جہاں یہ سوال بار بار اپنے کرنے والا سے جواب مانگ رہا ہو کہ امرتسر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں ہے کہ پاکستان میں ہے۔؟ اگر لاہور پاکستان میں ہے تو ہندوستان کہاں ہے۔؟ اگر ہم ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے۔؟ اس کا حدود اربعہ کیا ہے۔؟ یہ سوالات صرف لاہور کے پاگل خانے میں ہی نہیں اٹھ رہے تھے۔ اسی طرح کے سوالات گنگولی میں مفاتی، دُلّن، نجّو اور کلثوم کے دماغ میں بھی اٹھ رہے تھے۔ جس کے جوابات کالی شیروانی والے قرآن و حدیث سے دے رہے تھے اور زعفرانی کالی کملی والے مرلی منوہر کے پروچنوں میں تلاش کررہے تھے۔ سب کے پاس صرف جواب تھے ہندستانی جواب، پاکستانی جواب، لیکن اس مخمصے اور معمّے کا کوئی حل نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو نے بشن سنگھ کے ذریعہ سے صرف سوال کیے ہیں۔ لیکن کوئی واعظ دلیل اور پروچن دینے والے کردار وضع نہیں کیے۔ کیوں کہ سوال کا جواب سوال ہی میں ملتا ہے۔ اور بشن سنگھ اپنے آپ میں بذات خود سوال بھی ہے اور جواب بھی ہے۔ منٹو نے بشن سنگھ کی لاش کو نومینس لینڈ پر No men's Land پر پٹخ کرکے زبان حال سے یہ کہلوادیا کہ۔ اے مشترکہ تہذیب کے قاتلوں، انانیت پرستوں، انسانیت کے دشمنوں اور جاہ و حشمت کے حریصوں اپنے اپنے حصے کا آدھا آدھا ہندستان و پاکستان لے لو۔ اور بش سنگھ گنگا پتر بھیشم پتاما کی طرح سرشیہ کر پڑا ۔ ہندستان کے بنتے بگڑتے مستقبل کا تماشا دیکھتا رہا۔ اور دونوں ملکوں کے بھاگیہ ودھاتا بشن سنگھ کے طنز یا قہقہوں کی آواز کے سنّاٹے میں گُم سُم اپنے آپ کو تنہائی میں کوستے رہے۔ اور اس در فٹے منہ کے معنی تلاش کرتے رہے۔جو تبادلے کی تیاریوں سے کچھ دن قبل اس نے کہے تھے۔اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منہ(۱۱)؁

    منٹو کا بشن سنگھ ہندستان کی مشترکہ تہذیب اور انسانی اقدار کے زوال کو برداشت نہ کرسکا۔ اس کا دل و دماغ کو تقسیم اور فسادات نے مزید بدحواسی کر رکھا تھا۔وہ کسی ایسے ملک میں وہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔ جس کی آب و ہوا ،زبان و کلچرا سے سویکار نہ کر سکیں۔وہ سچا اور کھراہندستانی تھا جہاں مذاہب اور تہذیبیں اپنے آپ کو دوسری تہذیبوں اور مذاہب میں جذب کرلیتی ہیں۔ بٹوارے نے تو مذہب کے نام پر انسانوں کو سرحدوں میں قید کر دیا۔ وہ انسان تھا اور انسانی سماج اسے عزیز تھا خدائی مملکت میں گھٹن سی محسوس کررہا تھا۔ اور رام راجیہ کے داخلے سے پہلے اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور واگہہ سرحد کے No men's Land پر اپنے گاؤں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی از سرِ نو بنیاد رکھ گیا۔

    افسانہ ’’کھول دو‘‘ تقسیم، فرد اور معاشرے کا تکوینی المیہ ہے۔جو قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑتا اور رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ جس کی قرأت سے انسانی روح زخمی ہوتی ہے۔ انسان اپنی ذات اور انسانیت سے کراہیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ منٹو نے یہ افسانہ لکھ کر معاشرے کے سڑانڈ اور کریہہ پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ تاکہ سکینہ مہذب سماج کے منہ پر اپنے اندر کا فاسد مادہ قئے سکے۔ جس کا تعفن سکینہ کے روم روم میں بسا ئے ہوئے تھی۔ جب بھی منٹو کے افسانے کھول کا تصوکرتا ہوں تو سکینہ اپنا ازار بند کھولتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔جس کی امیج سے انسانی ذہن و دماغ مفلوج جاتا ہے۔دوسری طرف سکینہ کے والد سراج الدین بدحواسی کا شکار ہیں۔ اس بد حواسی میں ان کے ذہن میںکوئی امیج ابھر نہیں پا رہی تھی ۔گویااس وقت ان کاذہن آسمانی بادلوں کی مانند کثیف ہو گیا تھا جہاں تصویریں بنتی ، بگڑتی رہتی ہیں۔ ان کی یاداشت میںصاف تصویر ابھر کر نہیں آتی تھی جو ان کے شعور میں بالیدگی عطا کریں، ان کے ذہن میں صرف ’’لوٹ‘‘ آگ… بھاگ… اسٹیشن… گولیاں… رات اور سکینہ‘‘ (۱۲) ذہن کی اس کیفیت میں وہ انسانوں کے جنگل میں پاگلوں کی طرح سے اپنی اکلوتی بیٹی سکینہ کو تلاش کررہے ہیں۔ جہاں تا حد نگاہ مردوں، عورتوں اور بچوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ حشر کے اس میدان میں ہر طرف آہ و بکا، دل دوز چیخیں ہیں ۔ہر کوئی اپنے عزیزوں کو تلاش کررہا ہے۔ شوہر اپنی بیوی، ماں اپنے معصوم بیٹوں اور بھائی اپنی بہنوں کا پتا پوچھ رہے ہیں۔ ہر طرف دھاندلی مچی ہوئی ہے۔ اس افرا تفری میں سراج الدین کا ذہن شعور کی رو کی طرح ماضی اور حال کے بیتے حادثات کے بارے سوچتا اور اسے بھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن سراج الدین کا تھکا ہوا ذہن رات کے ہولناک اور ہیبت ناک منظر کو نہ ہی بھولنے دیتا اور نہ ہی یادکرنے اس وقت سراج الدین شعور اور لا شعور کی اس منزل پر تھا جہاںحافظے اورنسیان آپس میں مدغم ہوتے ہیں۔

    ’’سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ گیا اور اپنے حافظے پر زور دے کر سوچنے لگا کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی۔ لیکن سوچتے ہوئے اس کا دھیان سکینہ کی ماں کی لاش پر جم گیا جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔

    سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے ذہن پر بہت زور ڈالا مگر وہ کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکا: کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لیا تھا ؟ کیا وہ اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوئی تھی؟ کیا راستے میں گاڑی کے رکنے پر اور بلوائیوں کے گاڑی میں گھس آنے پر وہ بے

    ہوش ہو گیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا لے گئے(۱۳)؁

    یہ ریلیف کیمپ کم حشر کا میدان زیادہ تھا۔ ہر طرف سے انسانی وجود کو لرزہ اور قیامت برپا کردینے والی خبریں موصول ہو رہیں تھیں۔ ہر کوئی اپنے گھر بار لٹتے ہوئے اور اعز و اقارب کو قتل گاہ میں کٹتے ہوئے دیکھ کر آیا تھا۔ سب کو ہمدردی اور پیار کی ضرورت تھی۔ لیکن کوئی مونس و غم خار نہ تھا۔ سراج الدین اپنے غم غلط کرنے کے لیے رونے کی کوشش کی، تاکہ دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔لیکن آنسو تھے کہ خشک پڑے تھے اور دل تھا کہ اُمڈ اُمڈ کر باہر آنے لیے بے تاب تھا۔

    ـسراج الدین کے ذہن میں سوال ہی سوال تھے،جواب کوئی نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔سراج الدین کو ہمدردی کی ضرورت تھی لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے ،سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔۔اس نے رونا چاہا مگر اس کی آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔آنسو نہ جانے کہان غائب ہو گئے تھے(۱۴)

    منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ دو فرقے کے بیچ پڑی گرہ کو کھولنے کا استعارہ ہے۔ جس میں مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ان کے پیروکاروں سے یہ التماس اور التجا ہے کہ اس دشمنی کی خلیج کو دوستی اور امن کے ساتھ پر کی جاسکتی ہے۔ کیا اس کے لیے خون بہانا ضروری ہے ذبیح ہندو ہو یا مسلمان مذبح ہندستان ہو یا پاکستان دونوں تباہی و بربادی کی علامت ہیں۔ اور انسان کی درندگی اور وحشی خصلت میں اضافہ کرتے ہیں۔ کیوں کہ ظلم کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو اسے مٹنا ہی ہے۔ منٹو ’’کھول دو‘‘ کہہ کرکے خاموش ہے۔ اور یہ خاموشی بہت کچھ بولتی ہے۔ یہ خاموشی ان گانٹھوں کو کھولنے کا کنایہ ہے جو صدیوں سے چلے آرہے ہندو مسلم ایکتا اور اتحاد کے بیچ میں پڑگئی ہے۔ جسے آن کی آن میں فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں نے ڈال دیا ہے۔ منٹو کا یہ افسانہ مذہب کی مریضانہ ذہنیت اور نسل وادی ہٹلر شاہوں کے اندر کے زہریلے بند کو کھولنا چاہتا ہے۔ تاکہ وہ انسانوں کو اس زہر کے اثرات سے محفوظ کرسکے۔

    اس ’’کھول دو‘‘ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس لفظ کے کہنے سے سکینہ کے مردہ جسم میں جان پڑجاتی ہے وہ لاشعوری طور پر کھڑی ہوتی ہے اور اپنے ازار بند کھول دیتی ہے۔ یہ رضا کاروں کی شہوانیت کی شکار سکینہ پر ہوئے جبر مسلسل کا رد عمل ہے۔ جواسی کرب میں مسلسل مبتلا رہی ۔ جس سے اس کے ہوش و حواس گم ہیں اس کا شعور و ذہن ماؤف ہے۔ اس کا ذہن ابہام سے ماورا ہے وہ لفظوں کا سیدھا سیدھا مطلب نکالتی ہے۔ کیوںکہ جنسی عمل اس کے ساتھ اتنی مرتبہ کیا گیا ہے کہ اس کے ذہن نے اس چیز کو عادت کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ منٹو لکھتا ہے:

    ’’ایک کمرے میں کوئی نہیںتھا، بس ایک اسٹریچر تھا جس پر ایک لاش پڑی تھی۔

    وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا بڑھا

    کمرے میں دفعتاً روشنی ہوئی

    اس نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا۔ اور چلّایا: ’’سکینہ…!‘‘

    ڈاکٹر جس نے کمرے میں روشنی کی تھی۔ اس سے پوچھا ’’کیا ہے؟‘‘

    اس کے حلق سے صرف اتنا نکل سکا ’’جی میں… جی میں اس کا باپ ہوں…‘‘

    ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہا:

    ’’کھڑکی کھول دو…‘‘

    مردہ جسم میں جنبش ہوئی

    بے جان ہاتھوں نے ازار بند کھولا

    اور شلوار نیچے سرکادی

    بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا! ’’زندہ ہے… میری بیٹی زندہ…(۱۵)؁

    اس وقت کا پورا ہندوستان اسپتال کا وہ کمرہ تھا جہاںادھ مری سکینہ اسٹریچر پر لیٹی تھی۔یہ مردہ لاش کی مانند اسٹریچر پرپڑی ہوئی سکینہ کی نہیں تھی۔ بلکہ مشترکہ ہندستان کے مریادہ کی نیم مردہ لاش تھی۔جس کے گیان اور درشن نے عالمی خاندان کا فلسفہ دنیا کو دیا ۔آج وہی تیاگ و بلیدان بارود کی ڈھیر پرکھڑا ہو کر اپنے رام کا راجیہ مانگ رہاہے۔جو بقول کیفی اپنے دوسرے بن باس کے دن گذار رہے ہیں۔

    افسانہ ’’مائی نانکی‘‘ تقسیم، ہجرت، تنہائی، سکونت اور بے روزگاری کی الم ناک بیانیہ ہے ۔ مائی نانکی کا کردار ان تمام مہاجرین کا ترجمان ہے جنھوں نے اپنا بھرا پرا گھربار چھوڑ کر ہجرت کیا تھا۔ اور ایک روشن اور تابناک مستقبل کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن یہ خواب ہجرت کے چند سال بعد ہی منتشر ہوگئے۔ پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت گھر میں دوسری بیوی کی تھی یا اس یتیم بچے کی تھی جس نے ناگہانی حادثے میں اپنے والدین کو کھودیا ہو۔ جس کی شناخت کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہوگیا ہو، یہی حال ان بے سہارا اور بے یار و مددگار لوگوں کا تھا جو اپنی جڑوں سے کٹ گئے تھے۔ اپنے کھیت کھلیان، ساتھی ہم جولی، گرہستی یہاںچھوڑ گئے تھے اور پاکستان میں ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں تھا۔ ان کی مثال اس ٹورے بچے کی تھی جس پر کبھی بھی کوئی بھی جھلا سکتا تھا۔ انسان دنیا میں کہیں رہے اس کے کچھ بنیادی سوال ہوتے ہیں۔ اس کو پیٹ کے لیے روٹی چاہیے۔ سر چھپانے کے لیے چھت اور تن ڈھاکنے کے لیے کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ان تمام بنیادی سوالات کے جواب پاکستانیوں کے پاس نہیں تھے۔ جس سے مہاجرین شب و روز کا سابقہ تھا۔ منٹو نے مائی نانکی کے اندرونی کش مکش اور متضاد رویہ کا مطالعہ بہت باریک بینی سے کیا ہے۔ منٹو مائی نانکی کی زبانی مہاجرین کے حالت زار بیان کرتا ہے:

    ’’بچہ سب سے زیادہ اس بات کو سوچتی ہوں کہ میں پاکستان کی خاطر اپنا بھرا بھرایا گھر لٹا کر آئی اٹھارہ آدمی شہید ہوئے اور تیس ہزار کی مالیت کا زیور بھی وہیں رہ گیا۔ اس بے بسی اور غربت کی حالت میں ہم یہاں آئے لیکن پاکستان والوں نے میرے نام کوئی مکان الاٹ کیا اور نہ کوئی دکان۔ آج تک نہ کہیں سے راشن ملا اور نہ ہی کچھ مالی امداد۔ باغ کا مالی جس نے پاکستان کو بڑی مشکلوں سے بنایا تھا اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اب اس کے بعد جتنے بھی ہیں آنکھیں بند کیے مست پڑے ہیں۔ ان کو کیا خبر کہ ہم غریب کس حالت میں رہ رہے ہیں۔ اس کی خبر ہمارے اللہ کو یا ہمیں۔ اس لیے اب ہر دم اپنے اللہ سے یہی دعا کرتی ہوں کہ ایک دفعہ پھر سے سب کو مہاجر کر، تاکہ غیر مہاجر لوگوں کو پتہ چلے کہ مہاجر کس طرح ہوتے ہیں۔ اتنا کہہ کر اس نے حقّے کی نے منہ میں دبالی۔(۱۶)

    مائی جانکی ایک پیشہ ور دایہ تھی اس نے کئی الجھے اور پیچیدہ کیسوں کو اپنی عقل مندی سے منٹوں میں حل کیا ۔ وہ دوسروں کے بچے جناتی تھی لیکن اپنے خود کے بچے کا لالن پالن نہ کرسکی۔ کیوںکہ بچوںکا رونا اس کو ناگوار گزرتا ۔ لیکن اس نے دوسروں کی لڑکیوں اور لڑکوں کو لے کر پالا ۔ اس کا کنبہ پچیس افراد پر مشتمل تھا اور سب کے سب خوشحال تھے۔ لیکن اپنے بچے کو نہ پال سکی۔ منٹو لکھتا ہے:

    ’’میں نے ایک روز اس سے پوچھا کہ تم دوسروں کے بچے جناتی رہیں لیکن خود کیوں نہ جنا؟‘‘ کہنے لگی ’’ایک ہوا تھا میں نے اسے مار دیا‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘ کہنے لگی ’’میری طبیعت کو اس کے رونا ناگوار گزرا تھا۔ بڑا خوبصورت تھا لیکن میں نے اسے زمین پر اور اوپر سے لحاف اور رضائیوں کا ایک انبار گرادیا اور نیچے ہی دم گھٹ کر مرگیا۔ ‘‘ (۱۷)؁

    مائی نانکی بہت سخت گیر عورت تھی اس کے چہرے پر کبھی غم کی پرچھائی نہیں پڑی ۔ اس کی آنکھوں سے کبھی آنسو کے موتی نہیں رُلے ۔ اس کے اٹھارہ جوان لاڈلے مارے گئے اس کا بھرا بھرایا گھر تباہ و برباد ہوگیا ،لیکن اس کے چہرے پر شکن نہ آئی۔ مائی نانکی کی آنکھ اس زور گیلی ہوئی، جس دن اس نے دیکھا کی مہاجر کیمپ میں پاکستان جوان لڑکیوں سے بد فعلی کررہے ہیں۔اس کے غم و غصے کے پھوٹنے کی وجہ تھی۔ وہ ایک اور ہجرت کی دعا گو اس وجہ سے تھی کہ پاکستانیوں کو مہاجروں کے دکھ کا اندازہ ہوسکے۔ کہ ان پر کیا بیتی ہے اور کیا بیت رہی ہے۔

    میں نے اس سے کہا۔

    ’’مائی پہلے تو لوگ ہندوستان سے مہاجر ہوئے تو پاکستان آگئے۔ اب اگر یہاں سے مہاجر ہوگئے تو کہاں جائیں گے۔‘‘

    وہ حقے کے نے کو غصّے سے جھٹک کر بولی

    ’’جہنم میں جائیں گے۔ کوئی پرواہ نہیں۔ لیکن ان کو معلوم تو ہوجائے گا کہ مہاجر کس کو کہتے ہیں۔‘‘ (۱۸)

    منٹو کا افسانہ ’’موتری‘‘ تقسیم سے قبل کی ہندستانی ذہنیت کا عکاس ہے۔ کہنے کو تو یہ افسانہ مختصر ہے لیکن موضوعاتی اور نفسیاتی اعتبار سے اپنے اندر معانی کا بحر ذخار لیے ہوئے ہے لفظوں کی معنیاتی حسیت ّ باشعور انسان کو غور و خوض کی دعوت دیتے ہیں۔ منٹو رمزو کنایہ اور لفظوں کے ایجاز سے اپنی فکر اور نظریے کو جس خوبصورتی سے اس مختصر افسانے میں پیش کیا وہ اس کے تخلیقی پیرائے کی اعلیٰ نمونہ ہے۔ ’’موتری‘‘ وہ جگہ ہے جہاں انسان اپنے جسم کے فاسداشیاء کااخراج کرتا ہے،گویا کہ وہ جگہ بول و براز کا جائے مخرج ہے۔ تو دوسری طرف مریضانہ ذہنیت کے حامل اور جنسی طور پر بیمار انسانوں کے فضلہ کا اخراج کا ذریعہ بھی ہے۔ جہاں کی در و دیوار آلہ توالد و تناسل کی تجریدی مصوری سے پٹی پڑی ہوتی ہیں۔ پیشاب گاہ کا جو محل وقوع ہے۔وہ کانگریس ہاؤس اور جناح ہال کے تھوڑے سے فاصلے پر ہے۔ اور ان دونوں کے آئیڈو لاگ کی جسمانی اور ذہنی غلاظت کی ڈھیری یہ موتری ہے۔ جس کی عفونت کی بدبو سے عام انسان کی قوت شامہ پناہ مانگتی ہے۔

    منٹو کے اس مختصر افسانے کا کردار واحد غائب ہے قرین قیاس ہے کہ وہ کردار منٹو ہی ہو، جس کی یہ خصلت ہے کہ وہ گھورے اور گندی موریوں کی تاریک دنیا میں زندگی کی حقیقت کی تلاش کرتار ہتا ہے۔ اور ان غلیظ بدروؤں کی غواصی میں اسے کچھ نہ کچھ ہاتھ لگ ہی جاتا ہے۔ جس کے نور سے انسانی زندگی کا منور کرنے کی سعی کرتا ہے۔ منٹو نے انسان کی نیوراتی ذہنیت کو اعضائے تناسل کی مہیب شکل میں موتری کی دیوار پر چسپاں کردیا ہے۔ تو دوسری طرف انھیں انسانوں کی نسل وادی قومیت اور مذہبی نشے میں مخمور سوچ کو بھی اجاگر کیا۔ ان کی نفرت و حسد میں جلے بھُنے چہرے کی کالک سے موتری کی دیوار پر یہ تحریر آویزاں کردی کہ ’’مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا‘‘ (۱۹) تو اسی کے نیچے کسی سلسل بول کے مریض نے موتری کی غلاظتوں اور عفونتوں میں اضافہ کچھ یوں کیاکہ ’’ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا‘‘ (۲۰) اور ٹھیک اسی کے نیچے کسی سرپھرے مجذوب نے جو مسلمانوں کے بہنوں اور ہندوؤں کی ماؤں سے بے پروا سفید چاک سے یوں لکھا کہ ’’دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا‘‘ (۲۱) منٹو اس پر تبصرہ یوں کرتا ہے۔ ’’ان الفاظ نے ایک لحظہ کے لیے موتری کی بدبو غائب کردی۔ وہ جب آہستہ آہستہ باہر نکلا تو اسے یوں لگا کہ بدبوؤں کے اس گھر میں ایک بے نام سی مہک ہے۔ ()صرف ایک پل کے لیے رک کر یہ سوچنے کا مقام ہے کہ یہ تیسری تحریر کس کی ہے۔؟ اور یہ تیسرا آدمی کون ہے؟ جو روسیاہوں کے شہر میں سفید چاک استعمال کرتا ہے اس سفیدی سے ذہنوں پرپوتی کالک کو اجاگر کرنا مقصود ہے یا اس سفیدی سے وہ قوس و قزح مراد ہے جو کالے بادلوں کی کثافت میں بھی اپنی رمق چھوڑ جاتے ہیں۔ منٹو کا تیسرا آدمی بالکل علاحدہ ہے۔ دھومل کے تیسرے آدمی طرح جو نہ روٹی کھاتا ہے اور نہ روٹی بیلتا ہے صرف روٹی سے کھیلتا ہے۔ منٹو کا یہ تیسرا آدمی بھی زندگی اور انسانی سماج سے بے زار ہو چکا ہے۔ وہ ضمیر کی اعتباریت پر نوحہ کناں کرتا ہے۔ جہاں مذہب، انسانیت، سماجی و اخلاقی اقدار اس کے رشتے ناتے سب کی موت کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ فرقہ وارانہ ذہنیت اور اندھی مذہبی تقلید سے مملو انسان مجذوبوں کی طرح در بدری میں مبتلا ہے۔ اور اسے جائے امان کی تلاش ہے لیکن وہ کہیں معلق ہے منٹو کا یہ تیسرا آدمی اسی امن و آشتی کی متلاشی ہے وہ پاگل اور ذہنی دیوالیہ پن کا شکار نہیں بلکہ فرسٹیشن یا یاسیئت کا شکار ہے۔ کیوںکہ امید اور رجائیت کے تمام راستے بند ہوگئے ہیں۔ اور زندگی کرنے کی رمق مدھم پڑ گئی ہے۔ اور اسی اندرونی کش مکش اور تضاد نے موتری کی دیوار پر شوخ تحریر رقم کروائی ہے ’’دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا‘‘ گالی یا یہ جملہ یوں ہی تحریری عمل میں نہیں آئے بلکہ اس کے عقب میں ایک مکمل داستان ہے۔ منٹو جس کا شاہد ہے اور اس خوف و ہراس کے ماحول میں وہ جیا ہے۔ اور یہ اس کے اپنے تجربات و تاثرات ہیں، جو بڑے ہی دکھ کے ساتھ خونچکاں دل سے اور فگار انگلیوں سے لکھ رہا ہے۔ تقسیم سے قبل اور اس کے بعد جو بھی گھٹنائیں گٹھی ہیں۔ منٹو نے ان سانحات کو ایک تماشائی کی طرح نہیں دیکھا بلکہ وہ خود ایک کردار کی طرح ان میں اتر کر اسے محسوس کیا ہے۔ا ور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس نے جو کہانیاں بٹوارے پر لکھیں ہیں وہ سادہ لوح دلوں کو اپیل کرتی ہیں۔ اور خون میں لتھڑے ہوئے جسم، کٹے ہو اعضاء اور عورتوں کی لٹی ہوئی عصمتیں اس کی گواہ ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے