Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ترقی پسند ادب کی نفسیاتی تحلیل

اثر لکھنوی

ترقی پسند ادب کی نفسیاتی تحلیل

اثر لکھنوی

MORE BYاثر لکھنوی

    مجھے حیرت ہے کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو ’’ترقی پسند‘‘ مصنف کہتے ہیں، ادب اور اس کی حقیقت سے کس قدر بیگانہ ہیں!

    جب تک ادب کا شمار فنون لطیفہ میں ہے اس سے صناعت کا عنصر جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ شامل ہے تو شاعری کا موضوع کچھ بھی ہو (ہماری بحث شاعری تک محدود رہے گی) اس کا مقصد اولیں نشاط دل و دماغ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ ادب کا افادی یا غیرافادی، اخلاقی یا غیراخلاقی ہونا ضمنی اور اضافی اوصاف ہیں۔ اسی طرح تمدن، سیاست یا کسی اور تحریک سے ادب کو براہ راست کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ موجودات عالم میں کوئی شے اور واقعہ ایسا نہیں جو شاعری کے دائرہ عمل سے خارج ہو مگر جیسا پہلے مضمون میں لکھ چکا ہوں نقطہ نظر صناعانہ ہو اور پروپیگنڈا کا شائبہ بھی نہ ہو۔ ورنہ شاعری یا ادب کا غلط اور ناجائز استعمال ہوا۔ موضوع جو کچھ ہو طرز ادا میں فن کارانہ بانکپن قائم رہے۔ ادب کو جہاں کسی غرض یا مفاد کا آلۂ کار بنایا اس کی تاثیر اور دلکشی فنا ہوئی، پھر شاعری شاعری نہیں بکواس ہے۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ بچے مٹیسومانگتے، میوہ فروش بانیاں سناتے چوکیدار پہرادیتے یا اگھوری چمٹا بجاتے ہوں۔

    فنونِ لطیفہ میں مصوری، موسیقی اور بت تراشی بھی شامل ہیں، ان سے پروپیگنڈا کا کام نہیں لیا جاتا۔ مگر غریب شاعری سے توقع رکھی جاتی ہے کہ مزدوروں اورکسانوں کی دلالی کرے!

    شاعری کا یہ غلط مصرف بد ترین ادبی اور اخلاقی جرم ہے۔ اور ایسے لوگوں کی مخالفت ہر ذی ہوش کافرض ہے۔

    اگر شاعری کا مقصود زندگی کی مستقل قدروں کا دریافت کرنا اور دوسروں تک پہنچانا ہے تو ایسی نام نہاد شاعری کا انجام کیا ہوگا۔ جو ایک خاص غرض کے حصول کے لیے گتھیوں کو سلجھانے اور مسائل کا واقعات کی روشنی میں حل سوچے بغیر ہندوستان میں سووئٹ ذہنیت پھیلانا چاہتی ہے، مگر اسی کے ساتھ ساتھ جذبۂ نفرت و انتقام بھی کارفرما ہے۔ تو ایسی شاعری کی زبونی کا کیا پوچھنا۔

    ادب کا مطالعہ وہ معصوم اور دلچسپ مشغلہ ہے جس سے سائنس دان، فلسفی، مفکر، بلکہ ہر طبقے اور حیثیت کا شخص دن بھر کی مصروفیت اور تھکن کے بعد اپنی فرصت کے لمحے اس طرح صرف کرسکتا اور ایسے ماحول میں پہنچ سکتا ہے جہاں دنیا کے مکروہات سے تھوڑی دیر کو نجات پاجائے اور وہ سکون و راحت میسر ہو اس کے دل و دماغ کو جس کی ضرورت تھی۔ اور جس کے نصیب ہونے پر دوبارہ تازہ دم ہوکر اپنے روزانہ مشاغل زندگی میں زیادہ مستعدی، سرگرمی اور خوش دلی سے منہمک ہو۔

    ’’ادب برائے زندگی‘‘ یہ نعمت بخشے سے قطعاً قاصر ہے۔ کیونکہ اپنی بہترین صورت میں بھی اسی کشاکش کا آئینہ ہے جس کا عملاً سامنا ہوتا ہے، ادب میں بھی وہی چرخا نامذھنا مسرت کے بجائے طبیعت کو اور زیادہ مضمحل اور اندوہ گیں بنادیتا ہے اور اس طرح ادب کا حقیقی منشا فوت ہوجاتا ہے۔ ایسا ادب اپنی نوعیت کی بناپر کسی طبقے میں بھی مقبول نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ مکروہ و نفرت انگیز ہونے کے علاوہ ان خوبیوں اور لطافتوں سے بھی معرا ہے جن کی وجہ سے موضوع سے قطعِ نظر خود شاعرانہ صناعت دلکشی بھردیتی ہے۔

    ’’ادب برائے زندگی‘‘ دراصل روسی اشتراکی لٹریچر کا بگڑا ہوا خاکہ ہے۔ ایسی شاعری کیا خاک کامیاب ہوسکتی ہے جس میں ’’خلاقانہ تمکین‘‘ معدوم ہے۔ اور جس میں حقائق کی ترجمانی کے بجائے بدیسی واقعات کو ہندوستان میں منتقل کرکے ان کی مبالغہ آمیز اور سفیہانہ نقالی کی گئی ہے۔ یہ ایسی شاعری ہے جو کسی خاص مقصد کی تکمیل کر وجود میں آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے اور کسی طرح دیر پا نہیں ہوسکتی۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ،

    ’’ادب کی دو تعریفیں ممکن ہیں، ایک جس میں مصنف کی داخلی یا موضوعی کیفیت پر زور دیا جاتاہے۔ اور دوسری جس میں خارجی یا معروضی عنصر کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ادب کا پہلا تصور ہمیں رومانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ جس میں مصنف کے جذبات اور محسوسات زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ اور دوسرا تصور حقیقت نگاری کی طرف جس میں اس ’’خارجی‘‘ چیز کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے جس کی تصویر کھینچنی مقصود ہو، پہلی صورت میں بیان یا طرز ادا پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اور دوسری میں اس چیز پر جو بیان کی جائے۔ پہلی حالت میں ادب مقصود بالذات ہوجاتا ہے۔ اور دوسری حالت میں ایک ذریعہ قرار پاتاہے۔ ’’ادب برائے ادب‘‘ پہلے نظریہ کی حمایت ہے اور دوسرے نظریہ کو ’’ادب برائے زندگی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔‘‘

    کس قدر گمراہ کن تحریر ہے! دنیا جانتی ہے کہ ادب کے داخلی اور خارجی پہلو سے مراد تخیل کا طریق کار ہے۔ شاعر کبھی اپنے جذبات و محسوسات و وارداتِ قلب کی مصوری کرتاہے۔ یہ شاعری کا داخلی پہلو ہوا کہ کبھی مناظر قدرت یا کسی واقعہ یا مرئی شے کانقشہ کھینچتا ہے، اس کو شاعری کا خارجی پہلو کہتے ہیں، کوئی شاعر ایسا نہیں قدیم یا جدید جس کے کلام میں دونوں عناصر کم یا بیش موجود نہ ہو۔ اگر ہمارا قول صحیح ہے۔ تو ’’ادب برائے ادب‘‘ اور ’’ادب برائے زندگی‘‘ میں کوئی حدفاصل نہ رہی۔ اور یہ حضرت خود نہیں جانتے کہ ادب برائے زندگی کیا بلا ہے۔ تاہم دوسروں کو سمجھانے کی جسارت کرتے ہیں!

    ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے ایک دوسرے حامی فرماتے ہیں کہ، ادب میں دو خصوصیتیں لازمی طور پر پائی جانی چاہئیں۔ اول یہ کہ اپنے دور کی اجتماعی زندگی سے ایک گہرا اور براہ راست تعلق رکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کی تخلیق ایک مخصوص اور واضح سماجی مقصد کے ماتحت عمل میں آئے۔ ’’اجتماعی‘‘ زندگی سے ان لوگوں کی زندگی مراد ہے جن کے درمیان یہ ادیب یا شاعر اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے سماجی تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شاعری چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہوکر عجیب و غریب متضاد کیفیتوں کا مجموعہ بن جائے گی۔ دنیا بھر کو جانے دیجیے۔ ایک شہر یا قریہ لے لیجیے۔ سماج کے افراد جس قدر مختلف عقائد، خیالات اور رجحانات رکھتے ہوں گے، بچارہ شاعر اس مجبوری کے ماتحت کہ ’’باہمیں مروماں بباید ساخت‘‘ ا ن کی تمام بیہودگیوں، توہمات اور مناقشات کی اپنی شاعری میں تفسیر، تنقید یا ترجمانی کرنے کی سعی لاحاصل کرے گا، تفرقوں کی خلیج بڑھتی چلی جائے گی۔ اور چونکہ آج کچھ کہے گا۔ اور کل کچھ، اجتماعی زندگی سے گہرا اور براہ راست تعلق پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ شاعر زندگی کی (مجموعی ہو یا انفرادی) ترجمانی جبھی کرسکتا ہے کہ بنیادی اصول و حقائق کی جو ذات پات فرقہ وارانہ کوتاہ نطری و پست خیالی سے بالا ہیں۔ ایسے دلکش انداز اور الفاظ میں ترجمانی یا تنقید کرے کہ لوگوں کے دل اس طرف خود بخود کھنچیں اور شاعر کے منقولات کو قبول کریں۔ ایسا شاعر ذاتی وقتی یا مقامی تنازعات سے کبھی واسطہ نہیں رکھتا۔

    یہی بزرگ آگے چل کر فرماتے ہیں،

    ایک مہذب انسان کا فرض ہے کہ وہ ذاتی فائدے کے بجائے جماعتی فائدے کو اپنا مطمح نظر بنائے۔ اس لیے کہ اگر ہم اس سوال پر غور کریں کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے تو اس کے سوا کوئی جواب نہ ملے گاکہ انسان کی خدمت ہی انسان کی زندگی کا واحد اور حقیقی مقصد ہے۔ دنیا میں انہیں لوگوں نے کامیاب، مطمئن اور سچی مسرت سے لبریز زندگیاں بسر کی ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی فائدوں اور ذاتی خواہشوں کو پس پشت ڈال کر ابنائے جنس کی خدمت کو اپنا شعار بنایا، دوسروں کے آرام کو اپنے آرام پر مقدم سمجھا۔ دوسروں کی خوشی کو اپنی خوشی اور دوسروں کے غم کو اپنا غم خیال کیا۔ جن شاعروں اور ادیبوں نے اپنی زندگی میں عالمگیر مقبولیت حاصل کی اور مرنے کے بعد بقائے دوام کا تاج پہنا۔ وہ وہی ایثار پسند اور اخلاص پیشہ ارباب فکر و نظر تھے جو سارے جہاں کے درد کو اپنا درد سمجھتے تھے، انسان کی فلاح و بہبود جن کانصب العین تھا۔ جنہوں نے آپ بیتی کا راگ الاپنے کے بجائے جگ بیتی کے نغمے گائے اور اپنی خودی کو عالم انسانیت کی زندگی میں تحلیل کردیا۔

    میرا خیال تھا کہ شاعر کی شہرت اور بقا کا دارومدار اس کے کلام کی خوبی اور حسن قبول پر ہے۔ مگر اب معلوم ہوا کہ جب تک شاعر ولی نہ ہو اس کا کلام بجائے خود کسی عزت کا مستحق نہیں۔ کاش فاضل نقاد ایک ہی ایسے فرشتہ صفت محسنِ انسانیت کا شاعر کانام لے دیتے جو ابراہیم بن ادہم کی طرح بنی آدم کا خادم بن کر خدا کا برگزیدہ بندہ بن گیا۔ اور اس کی شاعری کی شہرت اس وجہ سے ہوئی کہ زیور اخلاق سے آراستہ تھا۔ چاہے شاعر کی حیثیت سے قابل عظمت نہ ہو۔ کیا فردوسی ایسا خادم خلق تھا۔ سعدی تھا، حافظ تھا، خیام تھا، شکسپیئر تھا۔ ملٹن تھا، ڈانٹے تھا، اگر کوئی ایسا شاعر یا ادیب ہوا بھی ہو تو سوال پیدا ہوگا کہ شاعری نے اس کو ایسا انسان بنادیا یا شاعر ہونے کے علاوہ اس افتاد طبع ایسی تھی۔ بعض شاعر سپاہی یا مصلح بھی ہوئے ہیں۔ اور ایسے بھی ہوئے ہیں کہ شاعر کی حیثیت سے مشہور مگر اطوار کے لحاظ سے مردود۔

    یہ ضرور ی نہیں کہ اچھا شاعر کردار کے اعتبار سے بھی اچھا ہو۔ اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا چاہیے کہ شاعر ہر قسم کی اخلاقی خوبیوں سے معرا ہوتا ہے بلکہ یہ کہ شاعر کی شہرت کا مدار اس کے کلام پر ہوتا ہے نہ کہ اس کے افعال و کردار پر۔ علاوہ بریں اگر شاعر یا ادیب کی یہی تعریف ہے تو مصلح قوم، محبِ وطن او رخادم خلق کی کیا تعریف ہوئی؟

    اگر مضمون نگار کی تحریر کے آخری حصہ کو لیا جائے اور تمام عبارت آرائی کا یہ لب لباب سمجھا جائے کہ شاعری یا ادب میں شاعر یا ادیب اپنے انفرادی تاثرات کو پس پردہ رکھے اور خارجی واقعات یا مسائل پر اپنی شاعری یا ادب کا زور صرف کرے تو عام ادب کی بابت جو چاہے کہے شاعری کا تو خون ہوگیا۔ کیونکہ واقعات و مسائل عام اور پیش نظر ہیں۔ جب تک شاعر کی انفرادیت ان کی تنقید یا ترجمانی اپنے والہانہ انداز میں نہ کرے گی تو شاعری کہاں سے ہوئی۔

    ان صاحب نے ادب کا مقصد بھی بالکل انوکھا قرار دیا ہے۔ تمہید میں فرماتے ہیں کہ،

    اس سوال کا صحیح جواب دینے کے لیے ہم کو غور کرنا ہوگا کہ وہ کون سی چیز ہے جو ادیب کو تخلیق ادب پر مجبور کرتی ہے اور وہ کون سا اندرونی جذبہ ہے جو شاعر سے شعر کہلواتااور فسانہ نگار سے کہانی لکھواتا ہے۔ ہر شخص مخصوص خیالات و جذبات کا مالک ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سمجھتا ہے (اور یہ عین فطرت انسانی ہے) کہ میرے خیالات و جذبات ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں پھر قدرتی طور پر یہ خواہش اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے کہ میں ان خیالات و جذبات کااظہار کروں۔ اور ان کو دوسروں تک پہنچاؤں۔ ادیب اس لیے شعر کہتا یا افسانہ لکھتا ہے کہ وہ اپنے تاثرات کو ایک مستقل شکل دے، اپنے خیالات و تجربات کو دوسروں تک پہنچائے۔ اور اپنے جذبات و احساسات میں وسیع انسانیت کو بھی شریک کرے، وہ چاہتا ہے کہ جو کچھ میں نے سمجھا اور محسوس کیا ہے۔ دوسرے بھی سمجھیں اور محسوس کریں، دوسرے بھی حزن و ملال، نشاط و مسرت اور تفکر و تصور کا وہی لطف حاصل کریں جو خود میں نے حاصل کیا ہے۔

    اس تحریر کا استدلال ہی غلط ہے۔ وہ شاعر یا ادیب جو فطانت یا (Geniuo) کے مالک ہیں۔ شاعری یاادب کے شاہکار اس عمر میں پیش کردیتے ہیں جب سن شعور کی ابتدائی منزلوں میں ہوتے ہیں اور تجربات کی پختگی سے کوسوں دور۔ یہ ادعا بھی قطعاً غلط ہے کہ پہلے انہیں اپنے خیالات و جذبات کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان خیالات و جذبات کو شعر میں منتقل کرتے ہیں (صرف شاعری سے بحث ہے) آدمی شعر اس لیے کہتا ہے کہ اس کی فطرت شعر کہنے کی محرک ہوتی ہے۔ جب تخئیل شعر کا جامہ پہن لیتی ہے۔ اس کے بعد شاعر دوسروں کو اپنے اس انفعالی تاثر میں شامل کرنا چاہتا ہے جو خود اس پر طاری ہوا تھا۔ اور جس نے شعر کی شکل اختیار کی۔ ورنہ خیالات و جذبات ہر شخص میں موجود ہوتے ہیں۔ اور اس کے گمان میں اہمیت بھی رکھتے ہیں، پھر وہ سب شعر یا افسانہ کیوں نہیں بن جاتے؟ نیز اس کیا وجہ کہ خیالات و جذبات شعر اور افسانے کے علاوہ کہیں خطابت، کہیں مذہبیات اور کہیں عمل یا سازش کی صورت اختیار کرتے ہیں؟

    آخر میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ادب کا مقصد سماجی زندگی کو متاثر کرنا ہوا۔ شاعری کا مقصد جیسا پہلے بیان ہوچکا اس کے سوا کچھ نہیں کہ حیات و کائنات کی تفسیر و تنقید کرے۔ اور ایسی زبان میں اور اس اسلوب سے کہ یہ تفسیر یا تنقید اپنے حسن و صداقت سے دل و دماغ کے لیے تسکین یا راحت کا موجب ہو۔ اسی سے ہم کہتے ہیں کہ ادب کا مقصود بالذات دماغی اور روحانی مسرت یا تسکین مہیا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اور ادب برائے زندگی، جو اس مقصد سے ہٹ کر شاعری کو اس کی بلندیوں اور لطافتوں سے محروم کرکے کثافت اور گندگی میں آلودہ کرنا چاہتا ہے۔ نہ تو حیات کی تفسیر ہے نہ ترجمانی۔

    اسی کے ساتھ پھر اس امر کے اعادہ کی ضرورت ہے کہ شاعری کے دائرہ عمل سے کوئی جذبہ کوئی واقعہ خارج نہیں۔ شاعر اگر دراصل شاعر ہے تو اس کا موضوع سخن جو کچھ بھی ہو۔ زندگی کی تنقید یا ترجمانی ضرور ہوگی۔ کیونکہ موجودات میں کوئی شے ایسی نہیں جو زندگی سے وابستہ نہ ہو اور یہ تنقید ایسے الفاظ میں اور اس انداز سے ہوگی کہ اس میں شاعرانہ حسن اور شاعرانہ صداقت جھلکیں گے۔ اور یہ وصف شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔ اور شاعری کو اظہار جذبات و خیالات کے دوسرے طریقوں سے ممیز اورممتاز کرتا ہے۔

    مگر جو لوگ ’’جھنڈا اونچا رہے ہمارا‘‘ یا جان بیٹا خلافت پہ دیدد، یا حیا سوز فحاشی اور خواہشات جنسی میں ہیجان پیدا کرنے والی باتوں کو شاعری سمجھتے ہوں۔ ان کو سمجھانے کی کوشش ہی پاگل پن ہے۔ خیر، ع تھا جنونِ عشق کا یہ بھی تقاضا، ہوگیا۔

    ادب برائے زندگی کے علم بردار۔ ادب برائے ادب کا یہ مفہوم متعین کرتے ہیں کہ اس کا مقصد واحد سامان تفریح مہیا کرنا ہے۔ اگر تفریح سے مراد ادب کی دل آویزی ہے، وہ رنگینیاں ہیں جن میں ہم گم ہوجاتے ہیں۔ تو بے شک ایسا ادب سامانِ تفریح ہے۔ اور ہمیں شرمندہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ ایسا کیوں ہے، مگر حقیقی ادب کا دستگاہ یہیں ختم نہیں ہوجاتی، اچھا ادب نہ صرف حیا ت کا ترجمان ہوتا ہے بلکہ دائرہ حیات کو وسیع کرتے کرتے، پھول پتی، ذرہ قطرہ اور دیگر بظاہر ’’بے جان‘‘ اشیاء میں بھی حیات کا مشاہدہ کرتا ہوا انسان کو نامحدودیت سے ہم کنار کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ خود موت بھی زندگی کی ایک شکل بن جاتی ہے،

    مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے

    یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

    (میر)

    ادب برائے ادب نے انسانی کردار کے ان خصوصیات کو جن کا مظاہرہ جہد حیات میں ہوتا ہے کبھی نظراندازنہیں کیا۔ اور محض خیالی اور مصنوعی دنیا نہیں بسائی۔ نیکی و نکوکاری، راستی، تواضع، خلق، حیا نیز دیگر اخلاقِ حمیدہ کی تعریف کرکے ان کی طرف رغبت دلائی۔ بدی، جھوٹ، ریاکاری، دغا، فریب، ظلم، دل آزاری وغیرہ کی مذمت کی، مگر جو کچھ کہا صناعت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ (گفتگو اچھے کلام سے ہے ورنہ رطب ویابس ہر جگہ ہے) لہٰذا یہ کہنا کہ ہمارے ادب میں رومانیت او رقنوطیت کے سوا کچھ نہیں ایک بے بنیاد اتہام ہے۔ تخیل کے علاوہ طرز ادا اور بیان کی خوبی منجملہ ان زیوروں کے ہیں جن سے عروس سخن سنواری جاتی ہے، ان کو ادب کا مقصود بالذات کہنا غلط ہے، البتہ یہ مدعیان ادب برائے زندگی ادھوری محاکات اور مبہم معانی کا ایک کاواک ڈھانچہ بناکے اس کو رزق برق لباس میں لپیٹ کر ’’بسم اللہ اگر تاب نظر ہست کسے را‘‘ کی دعوت دیتے ہیں۔ مگر یہ ناظورہ ہزارشیوہ دراصل عفونت میں بسا ہوا اور غلاظت میں لتھڑا ہوا جھلنگا ثابت ہوتی ہے جس کی کراہت لیپ پوت نے دوبالا کردی۔

    ادب برائے زندگی کے مدعیوں کا بیان ہے کہ ان کے مخالفین زندگی کی تلخیوں اور ناکامیوں سے بھاگ کر ایک فرضی اور مصنوعی دنیا میں پناہ لیتے ہیں، الفاظ میں موسیقیت اور خیالات میں رومانیت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ درایں حالیکہ ان کے ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا وجود ہی کالعدم ہوجاتا ہے۔ اگر زندگی کی تلخیوں اور ناکامیوں نے انہیں شاعری پر نہیں ابھارا، یہ احساس بیچارگی و محرومی ہی ہے جو قوتِ عمل نہ ہونے کے باعث نثر میں کوسنے اور گالیاں اور نظم میں ’’ماری جورہئیا‘‘ بن گیا، لگے ہاتھوں پیٹ پالنے کا دھندا بھی نکل آیا۔ دراصل وہ الزام جو دوسروں کے سرتھوپا جاتا ہے انہیں پرعائد ہوتا ہے۔ یہی تلخی اور ناکامی ہے جس نے ان کی شاعری کو مسلخ کا نمونہ بنادیا ہے، اس میں سوائے دانت پیسنے، چیخ چلاہٹ، بوٹیاں نوچنے، خون بہانے اور ڈکارنے کے کچھ نہیں، جوش اور غالباً احسان دانش کو نکال دو تو کسی کی شاعری میں توپ و تفنگ، لاشوں کے ڈھیر اور خون کی ندیوں کے باوجود مردانگی اور دلیری کی ڈپٹ بھی نہیں، بڑ بڑانا، رونا پیٹنا یا خواب میں برّانا ہے، سمندر کا جزر و مد اور اس کا طوفانی اضطراب مفقود ہے۔

    شاعری کا موضوع کچھ بھی ہو۔ جب تک اس کی امتیازی شان موجود نہ ہوگی۔ تاثیر اور کیف سے خالی رہے گی۔ راستی حسن اور شدت احساس اس کے ابعاد ثلٰثہ ہیں، اختراع و انتخاب و ترتیب اس کے آلۂ کار اور موسیقی و مصوری و تنوع اس کے رفیق ہیں۔ راستی سے یہ مراد نہیں کہ درخت کو درخت کہہ دیا۔ بلکہ جو نقش ابھرے وہ کامل اور بے عیب ہو۔ حسن سے یہ مدعا نہیں کہ کسی ’’مہ جبین‘‘ کو دیکھ لیا اورریجھ گئے۔ بلکہ وہ توازن و تناسب خیال و معنی ہے۔ جس سے ایسا روحانی اہتزاز حاصل ہوتا ہے جو انسان کو ’’پوتر‘‘ بنادے۔

    یہ لوگ مدعی تو ہیں ادب برائے زندگی کے مگر ادب اور زندگی دونوں کے دائرے سے ہر شے کو سوائے چند ’’مفید‘‘ عنوانات کے خارج کردیتے ہیں، ان کی شاعری انسان کو حقیقیت کا رازدار ار فطرت کاترجمان بنانے کے بجائے انقلاب کے سامنے ناچنے تھرکنے اور نجاست میں لوٹنے کی دعوتی دیتی ہے، شاعری کوئی بھی ہو۔ عشقیہ یا غیرعشقیہ، جسد بے روح ہے اگر حقیقت سے دور، جوش و خروش سے خالی اور تصنع سے پر ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہر شخص شاعر نہیں ہوتا، نہ معلوم کتنے تک بند ہیں جنہوں نے یہ خطاب اپنے آپ کو دے رکھا ہے ورنہ ممکن نہیں کہ سچا شاعر منظر کشی یا جذبات نگاری کرے اور سننے والا متاثر نہ ہو۔ مگر یہ ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے موید جنہیں روسی ’’ادب جدید‘‘ سے زیادہ غالباً میتھو آرنلڈ کے اس مقولے نے کہ ’’شاعری تنقید حیات ہے‘‘ گمراہ کردیا ہے۔ صرف اسی شاعری کے گرویدہ ہیں جو اشتراکیت و انقلاب کی تلقین کرے چاہے شاعرانہ خوبیوں سے خالی ہو۔ ضرورت ہے کہ میتھو آرنلڈ کا نظریہ واضح کردیا جائے تاکہ لوگ غلط بیانیوں کا شکار نہ ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ ’’شاعری کا مستقبل مہتمم بالشان ہے کیونکہ شاعری میں بشرطیکہ اپنے اعلیٰ مقصد کے شایاں ہو، بنی نوع انسان کوقابل رہنما ملے گا۔ کوئی مذہب ایسا نہیں جس کی بنیادیں متزلزل نہ ہوں، کوئی عقیدہ ایسا نہیں جس پر شبہ نہ کیا گیا ہو، کوئی روایت ایسی نہیں جو معرض خطر میں نہ ہو۔ اولاً مذہب واقعہ کی شکل میں پیش کیا گیا۔ مفروضہ واقعہ کی شکل میں، اس کے بعد واقعہ پر جذبہ کااضافہ کیا گیا، انجام جو ہونا تھا ہوا یعنی واقعہ نے مذہب کا ساتھ دینا چھوڑ دیا۔ اب شاعری کو لیجیے، اس میں تخیل سب کچھ ہے، باقی اوہام کی دنیا ہے، بیشک الٰہیانہ اوہام کی دنیا۔ مذہب کے علی الرغم شاعری تخیل سے جذبے کو منسلک کرتی ہے لہٰذا خیال واقعہ بن جاتا ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہو کہ مذہب کا راسخ ترین جزو اس کی نامحسوس شعریت ہے!

    ہمارا فرض ہے کہ شاعری کو زیادہ وقعت کی نگاہ سے دیکھیں۔ اور زیادہ رتبہ دیں، اب تک ہمارا رویہ اس کے خلاف رہا ہے، ہمیں چاہیے کہ شاعری کو قبول کر دہ مقاصد سے رفیع تر مقاصد میں صرف کریں۔ اس طرح آدمی کا یہ خیال روز بروز قوی ہوتا جائے گا کہ زندگی کی ترجمانی کے لیے شاعری کی طرف رجوع ناگریز ہے۔ اور شاعری ہی سے تسکین اور تقویت حاصل کرنا ہوگی، شاعری کے بغیر سائنس نامکمل نظرآئے گا اور ایک بڑا حصہ ہمارے علم کا جس کو مذہب یا فلسفہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کی جگہ شاعری لے لیگی جو دراصل تمام علوم کا نچوڑ بلکہ روح رواں ہے۔

    لیکن شاعری کا مقصد جب اتنا بلند رکھا جائے گا تو لازم ہے کہ اس کا پایہ بھی اتنا ہی بلند ہوتا کہ دونوں کا توازن منزل تک رسائی کا ضامن ہو۔ ہمیں عادت ڈالنا چاہیے کہ شاعری کا اعلیٰ معیار قائم کریں اور سختی سے جانچیں۔

    نپولین کے سامنے کسی شخص کی بابت کہا گیا کہ ’’خود فریب‘‘ ہے۔ نپولین نے کہا کہ سچ ہے مگر کیا کوئی ایسی جگہ ہے جو خودفریبی سے ناآشنا ہو۔ سینٹ بیئو کہتا ہے کہ سیاست اور حکمرانی کی مملکت میں نپولین کا قول درست ہے۔ مگر جہاں تک دنیائے تخیل و صناعت کا دخل ہے، خود فریبی ٹکسال باہر ہے اور انسانیت کا یہ قابل ادب جزو دغل نسل سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ خود فریبی کی سعی ہوتی ہے کہ عمدہ اور حقیر کا امتیاز مٹادے یا مبہم بنادے، کیا قوی ہے اور کیا ضعیف یا نیم قوی جو ایسے امتیازات کا مٹانا یا مبہم بنانا شاعری میں سخت ممنوع ہے۔ کیونکہ جب تک شاعری کے مقاصد بلند ہیں۔ ایسے امتیازات اہم اور ضروری ہیں۔ شاعری بحیثیت تنقید کے ان شرائط کے تابع ہے جو اس قسم کی تنقید کے لیے شاعرانہ صداقت اور شاعرانہ حسن کے قوانین کے وضع کیے ہیں۔ امتد اد زمانہ کے ساتھ ساتھ وہ امداد اور تسکین بخشے گی جس کی بہم رسانی میں دوسری قوتیں عاجز ہوں گی۔ اور یہ تسکین و طمانیت اتنی ہی قوی ہوگی جتنی شاعری میں تنقید حیات کی صلاحیت قوی ہوگی، نیز تنقید حیات اتنی ہی موثر ہوگی جتنی شاعری حقیر ہونے کے عوض بلند پایہ ہوگی۔ کمزور یا نیم توانا ہونے کے بجائے توانا ہوگی۔ کذب یانیم راستی کے بخلاف راستی پر مبنی ہوگی۔ ہمیں بہترین شاعری کی ضرورت ہے۔ جس میں ہمارے کردار کی تعمیر، ہمیں برقرار رکھنے اور خوش کرنے کی استعداد ہو۔‘‘

    آپ نے ملاحظہ کیا کہ تنقید حیات قوانین حسن و صداقت کے ماتحت ہونا چاہیے۔ مگر یہ گم کردہ راہ ’’ترقی پسند‘‘ ادیب شاعری کو زندگی کی گھناؤنی خواہشوں اور ہوس کاریوں میں آلودہ کرنا اور سیاسی پروپگینڈا کا آلہ بنانا چاہتے ہیں۔

    میتھوآرنلڈ نے بہترین شاعری کی جو معیاری مثالیں پیش کی ہیں اور زور دیا ہے کہ شاعری کو بالعموم ان سے پرکھا جاسکتا ہے۔ اور جن کو سرچشمہ مسرت قرار دیا ہے یہ ہیں،

    (۱) مدت ہوئی کہ وہ دھرتی ماتا کے نرم کنار میں مصروف راحت ہیں، اپنے ہی پیارے وطن اور اپنے اجداد کے وطن لیئیڈیمن میں۔

    (ہیلن اپنے بھائیوں کا ذکر کرتی ہے۔ ہومر)

    (۲) اے نامراد گھوڑو! تمہیں ایک فانی بادشاہ پیلوس کے سپرد کیوں کیا؟ لیکن تمہیں بڑھاپا چھو نہیں سکتا اور تم غیرفانی ہو، کیا یہ منشا تھا کہ انسان جو مصیبت سہنے کو پیدا کیا گیا ہے اس کے شریک غم ہو؟

    (زیئوس بادشاہ پیلوس کے گھوڑوں کو مخاطب کرتا ہے۔ ہومر)

    (۳) نا، اے بوڑھے شخص ہم نے سنا ہے کہ ایک زمانہ ایسا تھا جب تو بھی شاد کام تھا۔

    (ایکلیز پرائم سے کہتا ہے جس وقت وہ ایکلیز کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔ ہومر)

    (۴) میں نہیں رویا اور اندر ہی اندر پتھر کا ہوگیا۔۔۔ وہ روئے!

    (ڈانٹے)

    (۵) اپنی رحمت سے خدا نے مجھ کو ایسا ملکہ دیا ہے کہ مجھ پر مصیبت کا اثر نہیں ہوتا اور اس آگ (دوزخ) کے شعلے مجھے گزند نہیں پہنچا سکتے۔

    (ڈانٹے)

    (۶) خدا کی مرضی میں ہمارا امن ہے۔

    (ڈانٹے)

    (۷) کیا تو اس بلند اور گھمنی پیدا کرنے والے بادباں پر جہازراں لڑکے کی آنکھوں پر مہر لگادے گی۔ اور اس کے دماغ کو وحشی اور جابر موجوں کے گہوارے میں لوریاں دے گی؟

    (ہنری چہارم نیند کی خوشامد کر رہا ہے۔ شیکسپیئر)

    (۸) اگر کبھی تیرے دل میں میری جگہ تھی۔ تو تھوڑی دیر کو آرام کی معیت چھوڑدے۔ اور اس بے رحم دنیا میں اوپر کی سانسیں لے لے کر میری کہانی سنا۔

    (ہمیلٹ۔ شیکسپیئر)

    (۹) اس تاریکی میں بھی معلم الملکوت (شیطان) ان سب سے بلند اور تابناک تھا، لیکن اس کے چہرے پر بجلیوں نے گہرے نشان نالیوں (جُھریوں) کی شکل میں چھوڑے تھے اور اندوہ اس کے رخسار پر متمکن تھا۔

    (ملٹن)

    (۱۰) ہمت جو فرمانبرداری یا مغلوب ہونے کو ٹھکرادے اور باقی جو کچھ ہے۔ اس پر فتح نہ حاصل کرلے۔

    (ملٹن)

    (۱۱) وہ نقصان جس نے کیریز کو دنیا بھر کی خاک چھاننے کی زحمت گوارا کرنے پرمجبور کیا۔

    اس کے بعد میتھو آرنلڈ ارسطو کا قول نقل کرتا ہے۔ کہ شاعری میں اعلیٰ درجہ کی صداقت اور متانت ہونا چاہیے۔

    ان مثالوں اور اقوال کی روشنی میں ’’ترقی پسند‘‘ ادیبوں کی نظمیں پڑھی جائیں۔ تو ان باتوں کا شائبہ بھی نہ ملے گا۔ ان میں انقلاب اور خونریزی کی تعلیم اور ترغیب کے سوا کچھ نہیں، وہ بھی بھونڈے الفاظ میں، اور یہ باتیں ایسی ہیں جن کو شاعری کے بلند اور مقدس مقاصد سے دور کا بھی لگاؤ نہیں۔ ان میں اس اعلیٰ صداقت کا نام نہیں جو سطحی نگاہوں سے مخفی ہو اور جس کا اکتشاف شاعری کا فرض اولین ہے۔ متانت کا ذکر ہی بیکار ہے۔ اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔ تاہم یہ لوگ میتھو آرنلڈ کے قول کو اپنا دستور العمل بنانے کے مدعی ہیں اور کتابیں کی کتابیں اور مضمون پر مضمون اپنی بیباک گمرہی کی تائید میں لکھ مارے ہیں! تان اس پرٹوٹتی ہے کہ ہماری شاعری حیات کی سچی تنقید اور ترجمانی ہے۔ جس نے شاعری کو خیالی پلاؤ پکانے کے بجائے حقائق حیات سے قریب ترکردیا ہے۔ اگر حیات کا مفہوم میتھو آرنلڈ کے الفاظ میں حقیقی حسن و صداقت کو بے نقاب کرنا ہے۔ تو ان لوگوں نے ’’اس شاہد معنی‘‘ کا ایک جلوہ بھی آشکار نہیں کیا۔ اگر شاعری کا فرض وہ عظیم الشان اصول منضبط کرنا ہے جو انسان کو ایسا سکون و اطمینان و انبساط بخشیں جس کی تکمیل کومذہب اور سائنس ناکافی ہیں۔ جو مذہب کی آنکھوں کا نور اور سائنس کے رخسار کا غازہ ہیں۔ تو اس سلسلے میں ’’نیاادب‘‘ اور اس کی شاعری کا نام لینا بھی ادب اور شاعری کی توہین ہے۔

    ایک جگہ میتھو آرنلڈ نے اصلی اور مصنوعی شاعری کا فرق بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک کی نشوونما ذہن اور دماغ میں ہوتی ہے۔ اور دوسری روح کی گہرائیوں میں ترتیب پاتی ہے۔ مصنوعی شاعری میں فکر کا کوئی مستقر نہیں ہوتا اور شعر کے الفاظ محض چند نقوش پیش کردیتے ہیں جو نثر کی عام زبان بھی کرتی ہے۔ عریانی تخیل کے پردہ پوش چند خوش آئند فقرے ہوتے ہیں جن میں کچھ لمحوں کے لیے آدمی ایک قسم کی دلکشی محسوس کرتا ہے لیکن ایسی شاعری ہمیں واقعات کی سطح سے بہت نیچے نہیں لے جاتی۔ اس سے ہمارا وہ جذبہ نہیں ابھرتا کہ اشیاء اپنے حقیقی حسن میں جلوہ گر ہوں۔ اصلی شاعری کا ارتقا ایسا ہے گویا کوئی شئی شاعر کی روح میں ڈوب کر ہیجان برپا کرتی ہے۔ اور آخر کار سیراب و سرشار ہوکر اپنی فطری اور درخور قبول رعنائیوں کے ساتھ منصہ شہود پر آتی ہے۔ یہ ارتقا مصنوعی صنعت گری سے زیادہ روشن اور زیادہ تسکین دہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی زبان بھی سادہ و سلیس ہوتی ہے۔ لیکن یہ سعات صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو زندگی کے سرچشمے سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور سطحی موجوں سے نہیں کھیلتے۔

    اس اصول کی روشنی میں بھی ترقی پسند ادب اور اس کی شاعری پر چھائیں کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کے تخیل کا افلاس اپنا آپ سوگوار ہے۔ ان کی شاعری ’’مزدور‘‘ اور ’’انقلاب‘’کے بھنور میں پڑکر ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ اور بس! اس کے ماسوا ان کی شاعری میں نہ تو جدت ہے نہ ترقی کے آثار۔

    ایک دوسری جگہ میتھو آرنلڈ کہتا ہے کہ

    شرافت پر مبنی گہرے خیالات کو زندگی سے مطابق کرنا شاعرانہ عظمت کا ضروری جزو ہے۔ بڑے شاعر کی برتری اسی میں ہے کہ ان شرائط کے ماتحت جو شاعرانہ حسن اور شاعرانہ صداقت کے قوانین اس پر عائد کرتے ہیں۔ اپنی شاعری کو زندگی سے ہمنوا کردے۔ موضوع شاعری خواہ انسان ہو خواہ فطرت، خواہ حیات انسانی شاعر اپنے وضع کردہ خیالات سے ان کی ترجمانی کرے۔ ان خیالات میں شرافت و متانت ہونالازمی ہے۔

    ہمیں یہ امر بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ شاعری فی نفسہ تنقید حیات ہے۔ اور ایک شاعر کی عظمت کا راز اس میں ہے کہ وہ قوت اور حسن کے ساتھ حیات پر اپنے خیالات کی روشنی ڈالتا ہے۔ اور اس سوال کو حل کرنا چاہتا ہے کہ ہمیں کس طرح جینا چاہیے۔ ہم اخلاقیات کا مفہوم اکثر غلط سمجھتے اور اس کا دائرہ محدود کردیتے ہیں۔ اور اخلاقیات کو کسی نظام خیال یا عقیدہ سے جن کا عہد حکمرانی گزرچکا۔ مگرجو چند پیشہ ورنقالوں کی زبان پر چڑھ گئے ہیں۔ وابستہ کردیتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم ان کو سنتے سنتے اکتا جاتے ہیں۔ بعض مرتبہ ہمیں ایسی شاعری سے دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے جس میں اخلاقیات سے کھلی بغاوت ہے۔ یا ایسی شاعری کی طرف مائل ہوتے ہیں جو اخلاقیات سے بے پرواہ ہے۔ اور جس کا موضوع گو غیرمتعین ہے۔ مگر طرز ادا میں ندرت پیدا کی گئی ہے۔ دونوں صورتوں میں ہم اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ اس عظیم و نامحدود معنی رکھنے والے لفظ ’’حیات‘‘ پر برابر غور کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ اس کے مفہوم پر کامل عبور حاصل ہوجائے جو شاعری اخلاقیات سے بغاوت کرتی ہے وہ زندگی سے بغاوت کرتی ہے۔ جو شاعری اخلاقیات کو نظرانداز کردیتی ہے وہ حیات کو نظرانداز کردیتی ہے۔

    اپکٹس نے کیا عمدہ تمثیل ان چیزوں کی پیش کی ہے جن کا تعلق محض حسیات سے ہے۔ یا جن میں لفظی یا ظاہری خوش اسلوبی و صناعت ہے، یا جن کو مدلل بنانے میں ذہانت سے کام لیا گیا ہے۔ بعدازاں ان کا موازنہ اس بہترین اور فائق تر چیز سے کیا ہے جس سے ہمارا گہرا تعلق ہے۔ یعنی کس طرح زندگی بسر کرنا چا ہیے۔ وہ کہتا ہے کہ بعض لوگ ایسی چیزوں سے جن کا رشتہ حیات سے وابستہ ہے ڈرتے ہیں یا ناپسند کرتے ہیں۔ یا قدروقیمت گھٹادیتے ہیں۔ یہ لوگ صرف غلطی پر نہیں بلکہ ناشکر گزار یا بزدل ہیں۔ لیکن یہ بھی امکان ہے کہ ایسی چیزوں کی قیمت بے جاطور پر بڑھادی جائے اور انہیں کو حاصل حیات سمجھ لیاجائے۔ حالانکہ وہ حاصل حیات نہیں۔ بلکہ حیات سے ان کا وہی تعلق ہے جو گھر اور سرائے میں ہوتا ہے، گویا ایک شخص جو سفر سے گھر کا عازم ہے راستے میں ایک عمدہ سرائے دیکھتا اور اس کو پسند کرتا ہے۔ اور وہیں مستقل قیام کی ٹھان لیتا ہے! اے انسان تو اپنا مقصد بھول گیا۔ یہ تیری منزل نہ تھی۔ بلکہ اس سے ہوکر تھی! لیکن یہ سرائے دلکش ہے؟ اسی طرح اور سرائیں اور مرغزار بھی دلکش ہیں، لیکن صرف رہگذر کی حیثیت سے۔ تمہارا ایک خاص مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ گھر پہنچ جاؤ اور اپنے خاندان، اپنے دوستوں اورہم وطنوں کے ساتھ جو تمہارے فرائض ہیں ادا کرو۔ اندرونی آزادی، تمکین، خوش دلی اور قناعت حاصل کرو انداز بیان تمہیں اپنی طرف کھینچتا ہے، دلائل اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ اور تم اپنے گھر کو بھول جاتے ہو اور ظاہری رعنائیوں میں الجھ کر وہیں اپنا مسکن بنانا اور وہیں رہ جانا چاہتے ہو۔ تمہارا عذر صرف اس قدر ہے کہ وہ دلکش ہیں۔ کون انکار کرسکتا ہے کہ وہ دلکش ہیں؟ لیکن محض رہ گزر یا سرائے کی طرح! جب میں ایسا کہتا ہوں تو الزام دیتے ہیں کہ میں اسلوب بیان اور استدلال کا دشمن ہوں۔ اور ان سے بے پروائی برتنے کی تعلیم دیتا ہوں۔ میں ایسا نہیں کرتا، میں توان میں کھوجانے، انہیں کا ہورہنے کے خلاف تنبیہ کرتا ہوں کہ حاصل سے بے خبر ہوگئے جس کی سرحد اور آگے ہے۔

    چند بلند مرتبت شاعروں کو مستثنیٰ کرکے جن کی شاعری میں تنقید حیات، شاعرانہ صداقت اور حسن سے شیروشکر ہوگئی ہے۔ باقی شاعروں کے کلام میں محاسن و محائب کا موازنہ اور یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ محاسن کا پلہ بھاری ہے یا معائب کا۔ میتھو آرنلڈ مزید وضاحت کرتا اور کہتا ہے کہ یہ قول مجھ سے منسوب کیا جاتا ہے کہ میں شاعری کو تنقید حیات کہہ کر شاعری کو نثر سے ممیز کرتا ہوں، گویا نثر میں تنقید حیات نہیں ہوسکتی۔ میتھو آرنلڈ کا جواب ہے کہ میں نے یہ جملہ یعنی تنقید حیات بہت برس ادھر استعمال کیا تھا۔ اور عام ادب کے متعلق استعمال کیا تھا، شاعری کی تخصیص نہیں کی تھی، میرے یہ الفاظ تھے۔ ہر ادب کا منشائے آخر اگر غور کیا جائے تو تنقید حیات کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن شاعری میں تنقید حیات شاعرانہ صداقت اور شاعرانہ حسن کے اصول کے مطابق ہونا چاہیے، یعنی اصل مضمون اور طرز ادا میں سچائی اور متانت ہو، اظہار خیال مناسب الفاظ اور مکمل خوش اسلوبی کے ساتھ ہو یہی خوبیاں ہیں جو بہترین شاعروں کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔ اور انہیں سے میرا مدعا ایسی تنقید حیات ہے جو شاعرانہ صداقت اور شاعرانہ حسن کے قوانین کے پہلو بہ پہلو ہوں۔ لیکن گنتی کے ایسے شاعروں سے قطع نظر جو ’’کلاسک‘‘ ہیں ان سے کم پایہ شاعروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مکمل راستی و متانت، اور مکمل صدق شگفتہ انداز بیان کے شمول میں ہر جگہ نظر نہیں آتے، لہٰذا اس کی ضرورت ہے کہ ان کے کلام سے عمدہ نمونے منتخب کرلیے جائیں اور ان کے کلام کا بعض حصہ قبول اور بعض حصہ رد کردیا جائے۔ اور اس عمل رد و قبول کے بعد ان کے کلام پر رائے زنی کرنا اور ایک شاعر کا دوسرے شاعر سے موازنہ کیا جائے۔

    میتھو آرنلڈ کے معقولات ختم ہوئے۔ اس کے برعکس ہمارا یہ حال ہے کہ ہر شاعر کو جو کنجشک سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ شاہین یا عقاب سمجھ کر بشرطیکہ مزدور اور انقلاب کاراگ الاپے ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا نمائندہ اور ناقد حیات قرار دیتے ہیں۔ اور ان قیود سے قطعاً چشم پوشی کرتے ہیں کہ شاعری میں تنقید حیات شاعرانہ صداقت اور شاعرانہ حسن کے قوانین کی پابند ہے۔ نظریات اپنے وسیع ترین مفہوم میں استعمال ہونا چاہیے۔ سیاسی معتقدات کو نظم کردینا اور ان امور کو جو سطحی اور پیش پا افتادہ ہیں اور نظم کی بہ نسبت نثر میں ہزار درجہ بہتر اور قوی تر الفاظ میں بیان ہوچکے ہیں بجورداوزان میں لے آنا نہ تو شاعری ہے اور نہ تنقید حیات ہے۔ میتھو آرنلڈ نے اپنی تصانیف میں متعدد جگہ شاعری کو تنقید حیات کہا ہے۔ مگر ہر جگہ یہ شرط لگادی ہے کہ تنقید حیات شاعرانہ صداقت اور شاعرانہ حسن کے قوانین کے مطابق ہو۔ مگر ہمارے مفتخرادیبوں اور نقادوں نے صرف تنقید حیات کو لے کیا۔ باقی اجزا کو جو نہایت اہم تھے چھوڑ دیا اور وہ غالباً اس لیے کہ ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا ہیولیٰ تیار کرنے میں مخل اور سخت مخل تھے۔ میں امید کرتا ہوں کہ خود میتھو آرنلڈ کے معقولات سے ثابت ہوگیا کہ تنقید حیات کا وہ مفہوم ہی نہیں جو ’’ترقی پسند‘‘ ادیب اس کے سر تھوپتے ہیں۔ ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا پشت پناہ یہی فقرہ تنقید حیات تھا جب اس کا مفہوم ان لوگوں کے مفروضہ مفہوم سے الگ ہوگیا تو ’’ادب برائے زندگی‘‘ کی پوری عمارت ڈھے گئی۔ اور اب کوئی نئی تعریف گڑھنا ہوگی۔

    ایک دوسرے زاویہ سے اس مسئلے پر غور کیجیے۔ روس میں شاعروں اور ادیبوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خیالی دنیا میں بسر نہ کرو۔ بلکہ میدان عمل میں کود کر حق و انصاف کی حمایت اور جور و استبداد کی مخالفت پر کمربستہ رہو۔ ہندوستان میں ادب برائے زندگی کے علمبردار صرف قلم سے ہنگامہ کار زار گرم کرتے اور مارتے مرتے ہیں۔ تاہم ادب برائے ادب کو نام رکھتے ہیں۔ مجھے تو چنداں فرق نظر نہیں آتا۔ کیونکہ اگر ایک میں معشوق کی پلکیں صف آرا ہوکر بچارے عاشق پر تیرباراں کرتی تھیں تو ’’ادب برائے زندگی‘‘ میں یہ خیالی جاں باز مفروضی آلات حرب کا نشانہ ہیں۔ جملے دونوں میں صرف ’’باد ہوائی ہیں‘‘ ۔

    ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ادب کا فرض اولین یہ ہے کہ دنیا سے قوم، وطن، رنگ، نسل او رطبقہ و مذہب کی تفریق مٹادے اور اس جماعت کاترجمان ہو جو اس نصب العین کو پیش نظر رکھ کر عملی اقدام کر رہی ہو۔ ایسی جماعت کو شاعری کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ بہیمانہ زندگی کی طرف بازگشت ہے جس میں فنونِ لطیفہ کا خیال بھی ستم ظریفی ہے۔ کیا اچھا طریقہ آزادی کی نشوونما اور استبداد کو کچلنے کا نکالا ہے! پھر فرماتے ہیں کہ ہمارا ادب زندگی کی بے ثباتی اور انسان کی بیچارگی کا نوحہ پڑھتا آیا ہے۔ اب اسے اس جذبۂ بزدلی سے نکل کر یہ کہنا چاہیے کہ زندگی ابدالآباد تک ہے اور انسان اس کا کار ساز حقیقی ہے۔ قیامت کے یہ معنی ہیں کہ روح الاجتماع داور محشر بن کر استبداد کو ہمیشہ کے لیے جہنم رسید کردے۔ اور پھر اسی زمین پر ایک ایسی بہشت کی تخلیق کرے جس میں ہر انسان ذہنی، جسمانی اور روحانی ترقیوں کی بلندیوں تک پہنچے۔

    ان لوگوں کی غلامانہ ذہنیت اور ہرزہ سرائی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف تو دہریت اور الحاد کی تعلیم دیتے ہیں، مذہب، امتیاز نسل وغیرہ کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ اور دوسری طرف ازل وابد، قیامت، دوزخ، روح، بہشت اور مماثلِ تصورات پر جو مذہب اور تہذیب سے مستعار ہیں۔ صورت بگاڑ کر عقیدہ رکھتے ہیں۔ پھر اس عظیم الشان تکمیل کو شاعر کے فرمودات کا محتاج قرار دیتے ہیں۔ جس کا نعرہ جنگ ’’ادب برائے زندگی‘‘ ہے! شاعر نے اور اس کے ہمنوا انسانوں نے کہہ دیا کہ ’’ہم زندگی کے کارساز حقیقی ہیں۔‘‘ اور ہوگئے! ایک چیخ اٹھا کہ میں نے استبداد کو کچل دیا۔ اور وہ کچل گیا! ’’اے بہشت صفحہ ارض پر اُترآ‘‘ اور وہ اترآئی! ہے تو بہت سہل نسخہ اور وہ بھی صرف ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے زور پر یا کسان کے بل بوتے پر کہ وہ آپ کا آلہ کار بنے۔ قتل و غارت کرے، اور عنان حکومت آپ کے دست مبارک میں دیدے کہ لو بھائی اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ غرض یہ کہ ادب برائے زندگی ہر مرض کی دوا ہے۔ وار خالی بھی گیا تو کوئی مضائقہ نہیں، ساری بلا کسان کے سر گئی۔ اور آپ نے اپنے گھر کا راستہ لیا۔ ادب برائے زندگی کا فارمولا بیکار ثابت ہوا تو ’’ادب برائے بخاری‘’یا اسی قسم کی اور کوئی ہانک لگانا شروع کردی۔

    جذبیؔ کا جب یہ شعر پڑھتا ہوں اور کلیجے پر سانپ لوٹ جاتا ہے،

    جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمناکس کو تھی

    اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

    نئے ادب کا پورا دھواں دھار اور شعبدباز سانپ کی پھنکاریں لینے والا تبلیغی لٹریچر اس ایک شعر پر قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہے زندگی کی صحیح تنقید اور ترجمانی اور اگر اسی کانام ترقی پسند ادب ہے تو سرآنکھوں پر۔

    اشتراکی شاعری کے ریگستان میں سجاد ظہیر کا مشورہ بھولے بھٹکوں کے لیے خضر راہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر سنتا کون ہے۔ منزل دشوار گزار ہے جس پر گامزن ہونے کو عزم و ہمت و استقلال کی ضرورت ہے۔ اور یہی اوصاف عنقا ہیں۔ (دیکھو صفحہ ۴۵ نیا ادب، خاص نمبر)

    اچھے شاعر ہر عہد میں اکا دکا ہوتے ہیں، معمولی شاعر (خصوصاً پرآشوب زمانے میں)، اس طرح نکل پڑتے ہیں گویا روح بربادی، مع اپنی ذریت اور لاؤلشکر کے مجسم ہوگئی۔ ان کی سعی ہوتی ہے کہ صدیوں کی اندوختہ حکمت کو ملیامیٹ کردیں۔ اور اس کی جگہ وقتی توہمات کا علم بلند کرکے جس طرح ہوا بادلوں کو کو تتر بتر کرتی یا ان کانقشہ بدل دیتی ہے۔ بادشاہوں کے تخت اور سلطنتوں کا تختہ الٹ دیں۔ بعض اچھے شاعر اور مفکر بھی اس لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اور کچھ دیر کے لیے انہیں کی سی گانے لگتے ہیں۔ انگلستان کا ایک شاعر جو بعد کو شہرۂ آفاق ہوا۔ عنفوان شباب میں جب انقلاب فرانس سے متاثر تھا۔ تو یوں ڈینگیں مارتا تھا۔

    ’’قدیم چیزیں بوسیدہ ہوگئیں‘‘

    ’’اچھی چیزوں میں کوئی شے کافی اچھی نہیں‘‘

    ’’ہم ثابت کردیں گے کہ دنیا کی کایا پلٹ سکتے ہیں‘‘

    ’’اس دنیا میں بھی بادشاہ ہوں گے، لیکن وہ زندگی اور موت کی نشانیاں ہمارے ہاتھ سے لیں گے‘‘

    ’’سلطنتیں بادلوں کی طرح چولا بدلتی رہیں گی، گویا میری سانس کی تابع حکم ہیں۔‘‘

    یہی ’’ادب برائے زندگی‘‘ کانعرہ ہے۔ سو برس سے زیادہ کے گڑے ہوئے مردے ’’آج اکھیڑے جارہے ہیں۔ اور یہ کور کنی مایہ ناز سمجھی جاتی ہے!‘‘

    ہاں تو کہنا یہ تھا کہ معمولی اور وقتی شاعروں میں جو مستقل ’’قدروں‘‘ سے ناواقف ہیں۔ چڑچڑے پن کا سبب تلاش کرنے کو دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ایسے شاعر ان خواہشوں کے غلام ہوتے ہیں جو ان کے دسترس سے باہر ہیں۔ اور جن کے حصول میں ناکام رہنے پر اپنے دل کا بخار یا بھڑاس شاعری میں نکالتے ہیں۔

    یہ حقیقت بھی نظرانداز نہ کرناچاہیے کہ عامتہ الناس بغیر جائزہ لیے ہوئے ایسی دل خوش کن شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں، حیرت تو یہ ہے کہ بعض وہ اشخاص بھی جن کی لیاقت مسلم ہے۔ اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی اتفاقی حادثہ یا بحث ان کو چونکا کر ایسی شاعری کی خامیوں اور خام کاری سے آگاہ کردیتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگ جو نہ صرف وہبی شاعری بلکہ اکتباسی علوم سے بھی بے بہرہ ہیں، وہ برخود غلط افراد جو معمولی معمولی صنعت اور پیشہ وری میں بھی نکمے ثابت ہوئے جانتے ہی مدمغ بھی ہیں۔ جتنے جاہل اور بے حس ہیں، جو کبھی کاہلی اور سفاہت کی بنا پر شدبد کرلیتے تھے، بغض وحسد و کینہ کے زیراثر شاعر بن بیٹھے۔ اور اچھے اچھے شاعروں کے منہ آنے لگے اور بعض اوقات کتب فروشوں کی سازش سے تجارتی فائدہ بھی اٹھانے لگے، عوام میں عارضی شہرت بھی پیدا کرلی کیونکہ خوشامد کا وہ زبردست طریقہ اختیار کیاجس کا جادو کبھی پٹ نہیں پڑتا، یعنی انسان کے جذبات بدی و فتنہ و شر کو مشتعل کرنا۔

    ان سے کوئی پوچھے کہ صرف دولت ہی کیا وہ جنس ہے جو ذہن انسانی کی جولا ن گاہ بن سکتی ہے؟ کیا حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے اور واقعات اور فرقہ وارانہ چپقلش میں جہاں قومیت کاخواب محتاج تعبیر ہے۔ اشتراکی اصول کی ترویج خیالی پلاؤ پکانے یا بھنگ گھوٹنے سے زیادہ وقعت رکھتی ہے؟

    ان کے ہفوات کو تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے تو کیا شاعر کی دولت اس کے شاعرانہ کارنامے نہیں ہیں۔ اور مزدور کا انعام خود وہ محنت نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کو سراہا جاتا ہے؟ یا اسی کے علی الرغم سرمایہ دار انہیں برائیوں کی بدولت جو اس سے منسوب کی جاتی ہیں، مفلس اور قابل رحم نہیں؟ تاہم ایک تو حکومت کامستحق اور دوسرا صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے قابل! کیا زندگی کا مفہوم اس قدر تنگ ہے؟ اگر ’’ادب برائے زندگی‘’کی یہی بساط اور اس کے تخیل کی پرواز یہیں تک ہے تو ایسے ادب اور اس کے حامیوں پر جس قدر افسوس کیاجائے کم ہے۔ اگر شاعری نفس انسانی کی گہرائیوں اور حیات کائنات کا مستقل اور دلکش مرقع ہے۔ تو یہ ’’ترقی پسند‘‘ ادیب یا شاعر ایسے ہیں جو پہاڑ کی بلندیوں پر شعر و ادب کا درخشاں معبد تعمیرکرنے کے بجائے دامن کوہ کے دھندلے کہر پر نقش و نگار بنارہے ہیں، جسے ہوا کاایک جھونکا اڑا کر لے جائے گا۔

    میرے محترم دوست پنڈت امرناتھ جھا، وائس چانسلر الہ آباد یونیورسٹی کے الفاظ یاد رکھنے کے قابل ہیں،

    ایک ذی اثر طبقۂ مفکرین ہے جس کا خیال ہے کہ ایسی چیز کا بھی وجود ہے جس کو کہ ’’ترقی پسند ادب‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ادب جدید‘‘ کا ہمیں علم ہے، ہر زمانے میں طرز نو سے اس کی تخلیق ہوتی ہے اور ہر دور اپنے سے ماسبق دور کو ’’رجعت پسند‘‘ کہتا ہے، مگر ’’ترقی پسند‘‘ ادب کا تو یہ مفہوم متعین کیا جاتا ہے کہ ادب کو سیاسیات و معاشیات کے ایک خاص معرکہ کے پروپیگنڈا کاآلہ بنایا جائے۔ اگر ادب میں ترقی کا منشا انداز بیان میں جدت آفرینی ہے۔ نئے سروں یا سنگیتوں کی تلاش یا ایجاد ہے، نئے شاعرانہ تناسبات و لوازم کا دریافت کرنا ہے تو البتہ اس فقرے کے کچھ معنی اور اس میں کچھ معقولیت ہوسکتی ہے۔ ورنہ مہمل ہے۔ موضوعاتِ ادب نئے نہیں ہوسکتے، زیادہ سے زیادہ اہمیت کا مرکز ثقل بدل جائے گا یا احساس قدر و قیمت میں تغیر رونما ہوگا یا نقطہ نظر مختلف ہوجائے گا، ترقی پر بھروسہ، استعداد عمل و حرکت کا اعتبار، بھوک، گندگی اور چیتھڑوں کی قصیدہ خوانی یہ باتیں بھی نئی نہیں ہیں۔ مکر و ہیت کی پوجا بھی نئی نہیں، تعطل اور ناکامی کا احساس جن کے برتے پر عہد حاضر فلسفے میں جدید ابواب اضافہ کرنے کا مدعی ہے۔ وہ بھی نئے نہیں، بیتاب تمنائیں، جدوجہد، دعوتِ عمل ہمت و جرأت، ناقابل اطمینان دارزاں عمومی نظام اشیا ءسے دل برداشتگی، کوئی عہد ایسا نہیں گزرا ہے۔ جو ادیبوں نے ان کی طرف توجہ نہ کی ہو۔ جس بات میں تغیر ہوا ہے اور جوہر ملک میں ناگزیر ہے۔ جہاں انفرادیت کو کچلا نہیں جاتا اور جہاں رائے، نظریہ، اور طبائع کو حکومت ایک خاص ڈھرے پر نہیں لگاتی۔ وہ خود صناع یا ادیب کا نقطہ نظر ہے، خود اس کا فلسفہ ہے، باقی رسمی پیترے ہیں۔‘‘

    (نوٹ: اس مضمون کو ’’نیا ادب‘‘ کدھر جارہا ہے‘‘ کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے۔ کوشش کی گئی ہے کہ ان مباحث کااعادہ نہ ہو جو نئے یا نام نہاد ’’ترقی پسند ادب‘‘ کے خلاف پہلے مضمون میں درج ہوچکے ہیں۔ اعتراض ’’جدید ادب‘‘ کی تشکیل اور اس کے تبلیغی انداز پر ہے۔ یہ ادعا نہیں ہے کہ سماج کا موجودہ نظام مکمل اور بے عیب ہے۔ اور اصلاح کا محتاج نہیں۔ ایسا اعلان اور اعتراف پہلے مضمون میں بھی کیا جاچکا ہے۔ اثرؔ)

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے