ترقی پسند ادب
مخالفین کے تعصبات اور موافقین کے بیجا تصورات نے مل ملاکر ترقی پسند ادب کو بظاہر ایک عجیب گورکھ دھندا سا بنادیا ہے۔ زمانہ کے مزاج کی برہمیوں نے شعر و ادب میں جو پیچ و خم پیدا کردیے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کی غلط فہمیاں اُن میں اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ جدید ادب ماحول کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی خلفشار کے ساتھ ساتھ اذہان کی نفسیاتی کش مکش کا بھی آئینہ دار ہے۔ ادب زندگی کی تفسیر ہے۔ اس لیے زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو کی عکاسی ادیب کا پہلا فرض اورادب کی روح ہے۔ لیکن اگر نئے ادب کی اساس، مخالف گروہوں کی کھینچاتانی پر قائم رہی تو ادب کے مستقبل سے امیدیں رکھنا عبث ہے۔ اول تو اس بحرانی دور کو ہمیشگی میسر ہونے والی نہیں۔ دوسرے لوگوں کا وقت کے دھارے کے ساتھ ان جانابہاؤ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ جس منزل کی طرف ہم گامزن ہیں۔ وہاں پہنچ کر زندگی کی مختلف قوتیں انسانی شعور کے تابع ہوجاتی ہیں۔ ایسی حالت میں وقت کی رفتار اور ادبی رجحانات کو صاف طور پر سمجھنا ہماری پہلی ضرورت ہے۔
ترقی پسندی کو نئی چیز اور حال کی پیداوار سمجھنا ایک عام غلطی ہے۔ حیاتیاتی نقطۂ نظر سے ترقی پسندی فطرت انسانی کاخاصہ ہے (گوحقیقی ترقی کا حصول صرف اس وقت ممکن ہے جب سماجی، تعمیری قوتوں اور افراد کی نفسیات میں توازن اور ربط قائم ہوجائے) چنانچہ ترقی پسند ادب جو انسانی میلانات کا ترجمان ہے اور جس میں زندگی کی قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں کی جھلک موجود ہے۔ موجودہ نسل کی تخلیق اور ملکیت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بتانا دشوار ہے کہ اس نوع کے ادب کی داغ بیل کب پڑی۔ کیونکہ اس کی جڑیں مختلف ادوارمیں پھیلی ہوئی ہیں۔ موجودہ ترقی پسند ادب تدریجی ترقیوں کاقدرتی نتیجہ ہے اور کسی طرح بھی اسے آخری صورت نہیں کہا جاسکتا۔ زمانہ کی کروٹیں اس کی ہیئت میں ہمیشہ تبدیلیاں پیدا کرتی رہیں گی۔ اس امر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قدیم و جدید ادب میں کوئی فرق نہیں۔ یا یہ کہ قدیم ادب زمانہ کی قیود سے آزاد رہ کر آج بھی ترقی پسند ادب کہلاسکتا ہے۔ درست نہیں۔
جہاں تک پیش پا افتادہ راہوں کو چھوڑ کرنئے راستے اختیار کرنے اور زندگی کو نئے زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھنے کا تعلق ہے یہ تحریک نہ صرف دنیا ئے اردو ادب بلکہ ادب عالم میں جاری ہے۔ اس کے بغیر ادب میں وسعت اور گہرائی ناممکن ہے اور ایک ادب ہی پر کیا موقوف ہے رہنے سہنے کے ا نداز، سوچنے سمجھنے کے طریقے، آداب نشست و برخاست میں تغیر پیدا نہ ہو تو زندگی میں گھناؤنا ٹھیراؤ پیدا ہوجائے۔ اب اس تحریک کو رسمیات کے خلاف بغاوت کہیے یا ایک بڑے سے ڈراؤنے نام کی خاطر انقلاب کہہ دیجیے۔
اردو ادب کی زندگی میں خارجی اثرات کے ماتحت ہمیشہ اس قسم کے انقلابات رونما ہوتے رہے ہیں۔ وہ کتنے ہی معمولی سہی مگر ان ہی کی بدولت ہمارا ادب موجودہ بلندیوں پر پہنچا ہے۔ شاعری کا انداز، صحافت کا لہجہ، نظم و نثر کی اٹھان، فکر و نظر کے طریقے، سب کچھ انہیں تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں جو مجلسی ماحول اور ملکی ضرورتوں اور تقاضوں سے پیدا ہوئیں۔ ترقی پسند ادب اور ترقی پسندی کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے لیے اردو ادب کے پس منظر پر مجملاً نظر ڈالنا اشد ضروری ہے۔ (عالمگیری عہد سے جنگِ پلاسی تک کا زمانہ ایک عجیب کیفیت اور ہیجان کا حامل تھا۔ مغل تہذیب کی سطوت اپنی رفعتوں کو چھوکر زمین پر آرہی تھی۔ لوگوں کے دل و دماغ پر شاہی تخیلات مسلط تھے۔ طبیعتوں میں پرانے سودے تھے۔ عیش وسکون کی زندگی اپنے ارتقا پر تھی اور تین سو سال کی بنی سنوری معاشرت اپنے آخری نکھار میں جلوہ گر تھی۔ سیاست کا تخیل قوت اور زور سے زیادہ دربار کی وسعت اور ظاہری ٹیپ ٹاپ پر قائم تھا۔ شاہی اقتدار کی عدم موجودگی نے متحدہ سیاسی پالیسی کو ناپید کردیا تھا۔ لوگوں کے ذہن و خیال میں حاکم و محکوم کے تصورات رچے ہوئے تھے اور حکومت کا دباؤ ہی انہیں بھلا معلوم ہوتا تھا۔ جماعت اور فرد کا احساس اس زمانہ میں قطعی ناممکن تھا۔ قومیت یعنی ہندو مسلمان کی فرقہ بندی اتحاد کا ذریعہ بن سکتی تھی لیکن عیش کی آخری لذتوں نے ان خیالات کو بھی کچل دیا تھا۔ لوگوں کا سیاسی و اجتماعی تخیل ’’ملک خدا کا حکم بادشاہ کا‘‘ سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اس دور میں ہمارے ادب کے تیور کیا ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے فارسی ادب اپنے تمام بنیادی تصنعات اور خیال آرائیوں کے ساتھ اردو ادب پر حاوی تھا۔ نشاطیت، وارفتگی، ذہنی و عملی تعیش جو اس زمانہ کے اونچے طبقے کی زندگی کی خصوصیات تھیں ادب میں صاف منعکس نظر آتی تھیں۔ نچلے طبقے کی زندگی سے ادب اور ادیب کو براہِ راست کوئی سروکار نہ تھا۔ دربار ادب کا گہوارہ تھا اور امرا و رؤسا ادب نواز۔ اس دور کے لحاظ سے شاعر یا ادیب کی ترقی پسندی کی انتہا انفرادیت اور داخلیت تک محدود تھی۔ زمانے اور قدروں کے انقلاب سے یہی چیزیں فی زمانہ رجعت پسندی کے سنگہائے بنیاد ہیں۔
۱۸۵۷ء کا معرکہ بہت بڑا سیاسی جھٹکا تھا مگر مفلوج دماغوں نے صرف اس کی تھپک محسوس کی۔ عوام کی تقدیر خواص کے ہاتھوں میں تھی۔ خیال و عمل کی پابندی کے باعث وہ اسے محسوس بھی نہ کرسکتے تھے۔ جاگیردارانہ نظام کے اولین دور میں سیاسی اور اقتصادی بدحالیاں اور عیش پرستیاں دوش بدوش بڑھتی رہیں۔ لیکن حساس طبیعتیں اس کیف و نشاط کو زبون حالی ضرور سمجھتی تھیں۔ اس احساس کے نقوش، بے یقینی، پست ہمتی، قناعتِ بے جا اور تصوف کی سرخوشی کی صورت میں لوحِ ادب پر ابھرے۔ اس دور کے ادب میں فراریت کا عنصر خود زندگی کی پستی اور اس کے احساس کی غمازی کرتا ہے۔ جاگیردارانہ ادب کے دورِ ثانی میں خیالات کا رخ پلٹ گیا۔ مسلسل بے کلی اور شورش نے ایک غلط قسم کا سکون اور احساسِ اطمینان پیدا کردیا تھا۔ چنانچہ ادب میں تخیل پرستی، لذتیت اور داخلیت کو خاص دخل ہوگیا۔ گویا ادب مادی بحران، سیاسی پستیوں اور اقتصادی الجھنوں سے بچنے کے لیے ایک کشادہ اور آرام دہ پناہ گاہ بن گیا۔
موجودہ ادب پر اس دور کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے جمالیاتی قدروں میں مصنوعی بلندیاں پیدا کردیں جن سے ادب میں نزاکت اور لچک آگئی۔ لیکن داخلیت کی بھرمار کاردِعمل جلد ہی شروع ہوگیا۔ ۱۸۵۷ء کا واقعہ ایک سیاسی جنگ سے زیادہ دو تہذیبوں کے تصادم کا نتیجہ تھا۔ موجودہ سیاسی شعور کے ارتقا کے زمانہ میں صرف نفرت اور حقارت کے جذبات ہی اسے جنگ آزادی کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ آج آزادی کا تخیل بالکل مختلف ہے۔ لیکن اس زمانہ میں غیرملکی حکومت سے خلاصی حاصل کرنا اور ازسرنو شہنشاہیت کا تابع فرمان ہونا زندگی کاحاصل اور سکون قلب کا ضامن سمجھا جاتا تھا۔ بہرکیف حریت کے اس جذبہ کے اظہار نے زندگی اور ادب کے مزاج پر گہرا اثر ڈالا۔ شاہی آپ بیتیوں اور اجڑے ہوئے گھروں کی آہوں نے ادب میں پہلی مرتبہ صداقت اور حقیقت کی روح پھونکی۔
۱۸۵۷ء کے بعد ادب میں عام زندگی کی جھلکیاں دکھائی دینے لگیں۔ میلے، تہوار، شہرآشوب، مثنویاں، مناظر قدرت، عوام الناس اور خواص دونوں کی خوشیوں اور خستہ حالیوں کے مظہر تھے۔ خارجیت جو کہ ترقی پسند ادب کی جان ہے۔ اس ادب کے خمیر میں شامل تھی۔ اقتصادی اور نفسیاتی الجھنوں کی تصویریں بھی سوداؔ، میرؔ اور نظیرؔ کے یہاں موجود ہیں۔ فرسودہ راہوں کو چھوڑنا اور زمانہ کے مقتضیات کے مطابق ادب کو ڈھالنا اگر ترقی پسندانہ جذبات نہیں تو اور کیا ہیں۔ موجودہ عام تعلیم، سیاسی شعور، نفسیاتی مطالعوں، معاشیاتی نظریوں، سائنسی ترقیوں، عمرانی مرتبوں اور علم النفس کی معراج پر پہنچنے کے بعد عوامیت کا جو تخیل عام ہوچکا ہے اس زمانہ میں نہ تھا۔ اس کے باوجود اس کے اکثر شہ پارے امیر و غریب، مفلس و تونگر اور ان کے بنیادی فطری تصورات سے مملوہیں۔ البتہ کوئی واضح اور متعین نصب العین نہ ہونے کے باعث ان کا ادب متضاد اجزا کا حامل ہے۔ ان کی نظروں میں عام لوگوں کی بہتری ہے۔ سیاسی مشکلیں اور خیال میں جاگیردارانہ عظمتیں، مذہبی تنازعات کی مخالفت ان کا شعار ہے۔ یاسیت کی سیاہی ان کے خیال و بیان پر چھاگئی تھی۔ مقامی پابندیوں کے وہ بری طرح اسیر تھے۔ دلی، آگرہ اور لکھنو کا مقابلہ جاری تھا۔
۱۹۱۴ء کی جنگ تک ہمارے ادب میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی دھاروں کا میل ہوچکا تھا۔ سیاسی بیداری نے ملکی و غیرملکی، حاکم و محکوم اور گورے کالے کے امتیاز کو خوب نکھار دیا تھا۔ واحد قومیت کا احساس صحیح معنوں میں پہلی مرتبہ اسی زمانہ میں اجاگر ہوا۔ انگریزی تعلیم اور مغربی ادب کے مطالعے نے آہستہ آہستہ آزادی کی اس آنچ کو ہوادی۔ پڑھے لکھے انگریزی خواندہ ڈرپوک قسم کے لوگوں نے کھلم کھلا سیاست کے میدان میں آنے سے گریز کیا اور ہولے ہولے اصلاحی قدم اٹھانا شروع کیے۔ آزادؔ، حالیؔ، شبلیؔ اور اسمٰعیلؔ وغیرہ نے نظم و نثر کے رخ کو یکسر بدل دیا اور مروجہ اندازِ بیان و خیال کے خلاف بغاوت کی۔ پرانی ڈگر پر چلنے والوں کے لیے ان لوگوں کے نت نئے تجربے اور افکار اسی قدر وحشتناک اور پرخطر تھے جس قدر آج نئے ادب کے بیباک ادیبوں اور شاعروں کے مشاہدات اور تصورات۔ باوجود اپنے دقیانوسی مذہبی اعتقادات اور پرانے تصوراتِ حیات کے یہ لوگ ترقی پسند تھے۔ ملی اور ملکی بندشوں میں پھنس کر بھی ان کی تصانیف میں قومیت، یگانگت، انصاف، سکوں اور رواداری کے عناصر شہروں اور صوبوں کی باہمی مخالفتوں پر غالب نظر آتے ہیں۔ اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ ان کی اصلاحوں کا قصد پرانی اسلامی شان اور تفوق کو دوبارہ زندہ کرنا تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے بھی ان کی نظریں ماضی پر جمی ہوئی تھیں اور انسانیت، آفاقیت، آزاد خیالی تمام عالم کے انسانوں کی برادری کے نظریے ہنوز عالمِ وجود میں نہ آئے تھے۔
سرمایہ دارانہ نظام جو بذاتہٖ صنعتی انقلاب اور مشینی دور کا نتیجہ تھا اور جو وقت کے تھوڑے بہت فرق کے بعد تمام دنیا پر چھا گیا تھا۔ ہر جگہ ایک سی کیفیات پیدا کرچکا تھا۔ مزدور اور سرمایہ دار کے طبقے تمام دنیا میں بن گئے۔ کسان اپنی سماجی اور فکری پستی کے سبب مزدور کی صف میں آگیا۔ اس اجتماعی اتحاد کو وقت کی دیگر سہولتیں آسان بنا رہی تھیں۔ ایجادات و انکشافات نے پانی اور خشکی کی دقتوں کو مٹادیا تھا۔ ملکی دیواریں گرتی جارہی تھیں اور دنیا ایک بڑے گھر کی صورت اختیار کر رہی تھی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ انسانوں کے دل و دماغ سے ان ملکی قومی اور نسلی امتیازات کو نکال دیا جائے جن کی وجہ سے نسلِ انسانی، غلامی، مفلسی، جہالت، جنگ، جبر و استبداد اور اسی طرح کی دیگر مصیبتوں میں گرفتار ہے۔ ملکی آزادی عام آزادی کا ایک جزو ہے۔ اگر ہندوستانیوں کاخوابِ آزادی شرمندۂ تعبیر ہو جاتا تو یہ بات صرف کاغذ ہی پر رہ جاتی۔
جنگِ عظیم کے بعد مغربی ادب پر یاسیت کاایک عام عالم طاری ہوگیا۔ جمہوریت کے دلدادہ جنگ کے نتائج سے اس قدر دل برداشتہ ہوگئے کہ آزادی اور جمہوریت محض نقش خیالی نظر آنے لگے۔ ہندوستان میں اس کااثر بالکل برعکس ہوا۔ سیاسی جوش و خروش کے ساتھ لوگوں کی طبیعتوں میں تمام پرانے رسم و خیال کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔ ابتدا میں انگریزی تعلیم کے حصول اور مغربی ممالک کے پہلو بہ پہلو چلنے کی مخالفت کرکے مولوی اور پنڈت معدودے چند کی نظروں ہی سے گرے تھے۔ لیکن سیاسی مساعی کی ناکامیابی نے ان کے لیے کسی پلیٹ فارم پر جگہ باقی نہ چھوڑی۔ حکومت کی آئینی مخالفت اور بین الاقوامی معاملات کی سمجھ بوجھ کے قابل وہ تھے نہیں۔ لہٰذا ان کی حیثیت وہ نہ رہی جوجاگیردارانہ ادوار میں تھی۔ سائنسی تعلیمات اور دنیا کی ہر ادا کی نفسیاتی اور معاشرتی تحلیل و تشریح کے رواج نے عملی دنیا میں ایمان کی جڑیں پہلے ہی کھوکھلی کردی تھیں۔ علماء کے پس منظر میں چلے جانے کے بعد مذہبی قیود تو کچھ کم ہوگئیں اور کچھ ناقابل برداشت۔ آزاد خیالی کے چسکے نے مذہب کو انفرادی صورت دے دی اور اس طرح انسان آزادانہ طور پر مسائل زندگی پر غور کرنے لگا۔ سیاسی، سماجی، معاشیاتی اور مذہبی نظریات کے تغیر و تبدل نے عام اقدارِ حیات و ادب پرجو بھرپور اثر ڈالا۔ وہ آج کل کے ادب سے ظاہر ہے۔
مختلف تحریکوں کے تدریجی ارتقاء اور ان کے اسباب سے مجملاً بحث کرنے کے بعد نئے ادب کے جھکاؤ کو سمجھنا سہل اور مفید ثابت ہوگا۔ ترقی پسند ادب کو گزشتہ تمام ترقی پسندانہ تحریکوں کی انتہا کہناقطعی درست نہیں جیسا کہ میں نے پیشتر عرض کیا ہے۔ اول تو معیاراتِ حسن و ادب اور نظریاتِ زندگی یکسر بدل چکے ہیں۔ دوسرے زندگی کی ضرورتوں نے نئی کروٹ لے لی ہے اور ماحول اور مزاج زمانہ کی بدلی ہوئی حالت نے اکثر قدما کی ترقی پسندانہ تخلیقات کو رجعت پسندانہ رنگ دے دیا ہے۔ مثلاً کسی وقت دلی اور لکھنو کی کھینچا تانی سے گریز کرنا اور رواداری کے ساتھ ایک درمیانی راستہ پر چلنا ترقی پسندانہ تحریک تھی۔ مگر جب یوپی، پنجاب، دکن، بنگال کی بات چھڑگئی تو شہری زبان دانی کی بات پرانی ہوگئی۔ اس طرح صوبہ جاتی مناقشات کے بعد ملکی ادبی اتحاد کی باری آئی اور ملکی ترقی کے پیش نظر بنگالی، گجراتی اور بہاری، بلوچی کی رسہ کشی کا خاتمہ کرکے ایک متحدہ پالیسی پر غور کرنا ضروری ہوگیا۔ جب ملک کے گوشہ گوشہ میں کل ہند تحریک کا چرچا ہونے لگا تو ادبی گروہ بھی اپنا سرمایۂ خیال لے کر اس کی کامیابی کے لیے کوشاں ہوگئے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کا وجود اسی تگ و تاز کا نتیجہ تھا۔ اسی انداز کی انجمن کی بنیاد محمد حسین آزاد نے شاعری کی ایک نئی راہ نکالنے کے لیے ڈالی تھی۔ موضوعات کے انتخاب اور خارجی مشاہدات کے محاکات نے نفس شاعری میں جو وسعتیں پیدا کیں۔ وہ آج ایک نیا روپ اختیار کرچکی ہیں۔ البتہ ان تحریکوں کی بنیادیں مختلف تصورات پر قائم تھیں۔ ایک کی اساس کلیتہً ادبی تحریکوں پر رکھی گئی تھی اور دوسری کی ایک سیاسی نظریہ پر۔ گویا کہ ایک حدتک ادب کی باگ ڈورسیاست کے ہاتھ میں آگئی۔
۱۹۳۶ء کے اعلان سے جس پر منشی پریم چند، مولوی عبدالحق، نیاز فتحپوری، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، ڈاکٹر عابد حسین وغیرہ وغیرہ کے دستخط تھے۔ اس تحریک کی باقاعدہ طور پر تبلیغ و اشاعت شروع ہوئی۔ رجعت پسندی کی اس منظم مخالفت کے خمیر میں جدید نقطۂ نظر کے مطابق خود رجعت پسندی کے مہلک جراثیم موجود تھے۔ اس حقیقت اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے منشا کو سمجھنے کے لیے اس اعلان کے الفاظ کو دہرانا بے جانہ ہوگا،
’’ہم ہندوستانی تمدن کی اعلیٰ ترین روایتوں کے وارث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس لیے زندگی کے جس شعبے میں رجعت پسندی کے آثار پائیں گے انہیں افشا کریں گے۔ ہم اس انجمن کے ذریعہ ہر ایسے جذبہ کی ترجمانی کریں گے جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہتر زندگی کی راہ دکھائے۔ اس کام میں ہم اپنے اور غیرملکوں کی تہذیب و تمدن سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے۔ یہ بھوک، افلاس سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں۔‘‘
’’ہم تمام اُن آثار کی مخالفت کریں گے جو ہمیں لاچاری، سستی اور توہم پرستی کی طرف لے جارہے ہیں۔ ہم تمام ان باتوں کو جو ہماری قوتِ تنقید کو ابھارتی ہیں اور رسموں اور اداروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں۔ تغیر اور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔‘‘
اس میں شبہ نہیں کہ انہیں بزرگوں کی جسارت اور مساعی کی بدولت موجودہ ادب اس عروج پر پہنچ سکا ہے۔ علاوہ ازیں ۱۹۳۶ء کی باتوں کو ۴۵ء کے پیمانہ سے ناپنا ٹھیک نہیں۔ دنیا کی رفتار بہت تیز ہے اور ہوا کی ہر لہک تنقیدکاپیام لاتی ہے۔ لیکن جہاں تک بے لاگ تنقیدکا سوال ہے۔ اس اعلان کو اجتماعِ ضدین کہنا غلط نہ ہوگا۔ ان کے نیک ارادے، اصلاح پسندی اور ترقی پرستارانہ جذبات قابل قدر سہی، لیکن آج کی آزاد خیالی ان کے اس اعلان کو اصولی تضاد کا مرکب سمجھے گی۔ اس تحریک کا سنگِ بنیاد وطنیت کے فرسودہ تصور پر رکھاگیا تھا جو بذاتہ رجعت پسندی کی دلیل ہے۔ زندگی کا مفہوم اس قدر تنگ بنادیا گیا تھا کہ اس کے معنی صرف ہندوستانیوں کی زندگی رہ گئے تھے۔ حالانکہ مشینی دور اور سرمایہ دارانہ نظام نے جماعتی امتیازات کو نمایاں کرکے تمام عالم کی مشکلات کو ہم رنگ بناڈالا تھا۔ پھر بھی افلاس، بھوک اور غلامی جیسے عالمگیر روگ ان کے نزدیک صرف ہندوستان ہی کی بیماریاں تھیں۔ ’’زندگی کے بنیادی مسائل‘‘ کا حل وطن کی چہار دیواری ہی میں مقید رہ کر تلاش کرنا ان ہی کی دانشمندی تھی۔ ’’غلامی‘‘ کا انسداد غلامانہ ذہنیت سے ممکن نہیں۔ غالباً ا ن کی نظر میں انگریز کی غلامی، غلامی تھی اور کسی ایک طبقہ کی غلامی آزادی۔ غلامی اور محکومی کا یہ مفہوم ماضی کی فرسودہ یادداشت ہے۔ ’’وطن کو نئی اور بہتر زندگی کی راہ‘‘ دکھانے کی تمنا اپنی جگہ سعی مستحسن سہی۔ لیکن زندگی کو بحیثیت مجموعی بہتر بنائے بغیر یہ سعی خود ایک فتنہ کی جڑ ہے۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے۔ کیا جرمنی اسی اصول کے لیے کشت و خون پر آمادہ نہیں ہوا۔ کیا انگریزوں نے اسی نیک ارادے کے تحت ہند کی سرزمین پر پیر نہیں جمائے تھے۔ کیا جاپان کی کوششیں اپنے ملک کو بہتر بنانے کے لیے نہیں۔ اگر یہ درست ہے تو رجعت پسندی اور ترقی پسندی میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ قدماء اور جدید ترقی پسندوں میں یہی فرق ہے۔ ان کے نزدیک دیسی بدیسی، گورے کالے، ہندو مسلمان، عیسائی پارسی، انگریز، امریکن، روسی جرمنی، چینی جاپانی کی تفریقوں اور تعصبات کو قائم رکھتے ہوئے زندگی اور ادب کی اصلاح ناممکن ہے۔ آج کی ترقی پسندی وہ تحریک ہے جو ان نسلی، ملکی، ملی، مذہبی، جماعتی، حکومتی اور طبقاتی تفرقات او رمصیبتوں کو مٹاکر نسل انسانی کو ایک برادری کی صورت دینا چاہتی ہے۔ آزادی کا سنگِ بنیاد محض حقوق انسانی اور آزادی کے وسیع ترین تخیل پر رکھا جاسکتا ہے۔ غلامی کی بیخ کنی صرف نسلی امتیازات کو فناکرکے ہوسکتی ہے۔ ہندی اور حجازی، ترکی و شیرازی، فرانسیسی و جرمنی وغیرہ کے تنازعات انہیں رجعت پسندانہ تصورات کا نتیجہ ہیں۔ انسانِ کامل، مافوق البشر شاہین اور ساونت کے تخیلات ٹھیٹ رجعت پسندا اور زمانہ جاہلیت کی یادگاریں ہیں۔ ان کی نفسیاتی تشریح میں آئندہ چل کر پیش کردوں گا۔
بغاوت یا انقلاب کو ترقی پسندی سمجھنا ناسمجھی ہے۔ انقلاب ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہوسکتا ہے لیکن بذاتہ مقصد نہیں ہوسکتا۔ انقلاب اور ترقی پسندی میں صرف وہیں تک ساتھ ہے۔ جہاں تک ان رسمیات کی مخالفت کی جاتی ہے جو زندگی کو محدود اور خیالات کو تنگ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ شخص جو بھوک، افلاس اور غلامی کے موضوعات پر قلم اٹھاتا ہے انقلابی ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اگر اس کا مقصد بھوک، افلاس اور غلامی کومٹاکر ان کی جگہ تعیش، تن آسانی اور ذہنی و عملی کجرویوں کو دینا ہے تو وہ انقلابی تو ضرور ہے لیکن ترقی پسند نہیں۔ اسی طرح سے اگر کسی ترقی پسند کی نظر میں وہ زمانہ ہے جس میں آج کل کے امیر اور زردار، سرمایہ دار اور منعم، فقیر اور فقیرزادہ رہوں گے تو وہ ترقی پسند نہیں۔ کسی ایک جماعت کو خواہ وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو حاکم بن کرجینے کاحق نہیں۔
ہمارے اکثر نام نہاد ترقی پسند ادیب اور شاعر ایسے زمانہ کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس میں عیاشی اور بے حسی ایک چھوٹے سے گروہ سے ہر خاص وعام میں منتقل ہوجائے گی۔ یہ ترقی پسندی نہیں، جہل نوازی اور خودفریبی ہے۔ عوامی دور کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ میرے اور آپ کے جو جی میں آیا سو آزادی سے کر گزرے۔ عورت کی آزادی اور حسن و اخلاق کی اعلیٰ ترین قدروں کا قیام لازم و ملزوم ہیں۔ ملک و مال کی مساوی تقسیم میں عورت کو شامل کرنا گزرے وقتوں کی باتیں ہیں جب لونڈیوں اور چھوکریوں کی لوٹ اور خرید و فروخت رسماً اور مذہباً جائز تھی۔ ملکیت کایہ حیا سوز تخیل ترقی پسندی میں سمانے کے قابل نہیں۔ عورت کے اس غلط تصور کے ساتھ جنسی بحث شروع ہوجاتی ہے۔ فی زمانہ کچھ حضرات ترقی پسند ادب کو عورت، عریانی، فحاشی، دہریت، اشتراکیت، روحانی اداروں کی تذلیل، سرمایہ دار، مزدور، کسان، بے ڈھنگی شعر گوئی، ابہام، بغاوت اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کامرکب تصور فرماتے ہیں۔ ہر جنسیاتی معاملہ ہمیشہ کی طرح جدید ادب میں بھی جگہ پاسکتا ہے۔ لیکن اسے ترقی پسند ادب کہنا بالکل ایسی بات ہوگی جیسے آرایش محفل کو ترقی پسند ادب سمجھنا۔ اگر اتفاق سے ان جنسیاتی تذکروں کو نیا ادب بھی کہہ دیاجائے تو بھی ترقی پسندی پر دلالت نہیں کرتا۔ جنسی تذکرے پرانی چیزیں ہیں اور اگر عریانیت کو جدید رجحان بھی فرض کرلیا جائے تو بھی جدید عریانیت پرانے معیار تک پہنچنے کے لیے مدت چاہتی ہے۔ اس میدان میں نئی راہیں نکالنا دشوار ہے۔ کیونکہ پرانا ادب (اور نیا غیرترقی پسند ادب بھی) اسی تحقیق و جستجو سے بھرپور ہے۔ تمام نئے لکھنے والوں کو ترقی پسند ادیب اور شاعر گرداننا ناقابل اصلاح غلطی ہے۔ سرمایہ، مزدور، کسان، آزادی، انقلاب اور عوامیت کے نعروں کی تکرار ادب کو ترقی پسند نہیں بناسکتی۔ ترقی پسندی کا تعلق اس قدر سرمایہ دار، مزدوراور کسان سے نہیں جتنا کہ انسان کی بنیادی ضرورتوں سے۔ فن کار کا یہ کام نہیں کہ وہ محنت اور سرمایہ کی کشمکش سے براہ راست بحث کرے۔ کیونکہ اگر ایسا ہے تو ان بدعنوانیوں کے مٹنے کے بعد ادب بھی مٹ جائے گا۔ فن کار اپنے خیال کی بنیاد ان حقیقتوں پر قائم کرتا ہے جو ابدا لاباد تک باقی رہیں گی۔ زندگی کے تغیرات ان کی ظاہری صورتوں میں تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔ اصل ماہیت میں نہیں۔ فنکار کا معیار تخیل اور حقیقت سے مل کر وہ رفعت حاصل کرلیتا ہے جو ایک طرف زندگی کی پیچیدگیاں حل کرتا ہے اور دوری طرف اعلیٰ نمونہ زندگی پیش کرتا ہے۔ نئے ادب کا بیشتر حصہ وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ لیکن جو ادب ترقی پسندی کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے بیش قیمت سرمایہ ہے۔ تمثیلاً عورت اور جنس کا قدیم و جدید ترقی پسند تخیل اس بنیادی فرق کا آئینہ دار ہے۔ رجعت پسند کی نظر میں عورت کی حیثیت کھلونے سے زیادہ نہیں۔ اس کا بچے جننا بھی صرف ایک ضمنی فعل ہے۔ مرد کے مقابلہ میں وہ ناقص العقل ہے۔ مختصر یہ کہ وہ ہر طرح سے کمزور اور محتاجِ التفات و کرم ہے۔ اس کے برعکس ترقی پسند کی نظر اس کے جسم و جنس سے زیادہ اس کی ذہنی اور روحانی پابندیوں، اس کی نفسیاتی کیفیات، اس کی سماجی دقتوں اور اس کی ان تمام مجلسی پستیوں پر ہوگی جو اس کی ذات کو ہمیشہ کھلونہ بنائے رہی ہیں۔ وہ اس کے حقوق، اس کے مرتبہ اور اس کی آزادی کے جائز مطالبات کو پیش کرتا ہے۔ مشرق و مغرب کے جنسیاتی فرق اور حسن و حیا کے تصورات کا بظاہر بُعد اس کے لیے بے معنی ہے۔ ایک کی پستی اور غلامی چند در چند پا بندیوں میں نمایاں ہے۔ دوسری کی پستی، آزاد روی اور حسن فروشی میں، مرد کی تابع فرمان دونوں ہیں۔
اشتراکیت کے متعلق ناقدین کی آرا اس قدر الجھی ہوئی ہیں کہ مطلب نہ تو خود ان پر واضح نظر آتا ہے اور نہ قائدین پر۔ اشتراکیت مذہب کی ضد نہیں بلکہ معاشیاتی اور سیاسی تقاضوں کا متوازن اندازہ ہے، جس کے مطابق اجتماعی زندگی آزادی سے پنپ سکتی ہے چونکہ انفرادی صلاحیتوں کو اجاگر ہونے کا بہترین موقع صرف اسی ماحول میں میسر آسکتا ہے۔ لہٰذا عوام و خواص میں ذہنی تفریق قطعی فطری اور لابدی چیز ہے۔ یہ سوچنا کہ جاہل اور قابل اس نظام میں ایک سطح پر رہتے ہوں گے۔ حد درجہ کی کج فہمی ہے۔ اشتراکی نظام میں ’’عوام‘‘ و ’’خواص‘‘ کے تصورات بجائے ملک و میراث اور سرکاری اعزازات کے علم و دانش میں اور دیگر ذاتی صلاحیتوں پر قائم ہیں۔ معترضین کا یہ فرمانا کہ ترقی پسند ادیب و شاعر روس کے راگ الاپتے ہیں، ایک حد تک درست ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اطلبوالعلم ولوکان بالصین کی روشنی میں کسی ملک کی تہذیب سے مستفید ہونا گناہ نہیں۔ علاوہ ازیں ہندوستان اور روس کے قبل ازجنگِ عظیم کے سیاسی، اقتصادی، قومی اور مذہبی حالات کی یگانگت خود ہندوستان کی مشکلات کا حل پیش کرتی ہے۔ محدود اور تنگ نظر لوگ بھی اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ روس کا قریب ترین ترقی یافتہ ہمسایہ ہونا روس اور ہندوستان کو عندیاتی طور پر قریب کرسکتا ہے۔ لیکن رجعت پسند جو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے دلدادہ ہیں اور جن کے لیے انسان کی ذہنی، عملی اور فکری آزادی سب سے بڑا خوف ہے اس کے مخالف ہیں۔ مذہب اُن کا پرانا اور بہترین حربہ ہے۔
اَن پڑھ مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض ترقی پسندوں پر یہ ہے کہ وہ مارکس اور فرائیڈ کے نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔ دعوے کے اصولی تضاد سے قطع نظر کسی زمانہ میں بھی ادب تعلیمات کے پرچار سے سبکدوش نہیں ہوا۔ ترقی پسند ادب کو ایک خاص طرززندگی کا پروپیگنڈا بتانے والوں کو تاریخ ادب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اس غلط فہمی سے بچ سکیں اور اس استدلال سے گریز کریں۔ ادب زندگی کا آئینہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ رہا سوال مارکس اور فرائیڈ کی تعلیمات کا سو ان میں بعد القطبین ہے۔ فرائیڈ کے نظریہ کے مطابق جنس زندگی میں سب سے اہم حیثیت رکھتی ہے۔ مارکس معاشیات کو مسائل زندگی کا سرچشمہ قرار دیتا ہے اور زندگی کی تشکیل میں دولت و سرمایہ کی مساوی تقسیم ضرور سمجھتا ہے۔ فرائیڈ زندگی کی اساس جنسی رجحانات پر قائم کرتا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں بروئے کار رہتے ہیں۔ اس کے نزدیک کوئی انسانی فعل جنسی تحریک سے خالی نہیں۔ مارکس مادی اشیاء کے حصول اور ملکیت سے بحث کرتا ہے۔ فرائیڈ نفسیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ترقی پسند ادیب مارکس کا بآسانی پیرو ہوسکتا ہے۔ کیونکہ عوامیت کا تخیل، آزادی رائے، عورت مرد کے مساوی حقوق، سرمایہ کی تقسیم، ملکیت کا نظریہ، معاشرت کا انداز، حاکم و محکوم کا بنیادی تصور وغیرہ وغیرہ وہ مسائل ہیں، جن کا حل زندگی کو بہتر بناسکتا ہے۔ یہی ترقی پسند کا مقصد ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ جنسی نطریات میں بھی آفاقیت کا عنصر موجود ہے اور ان کا عمل اور ردعمل عالمگیر ہے۔ لیکن وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر یہی جنسی جذبات افراد کے ہر فعل و قول پر حاوی ہوجائیں تو اجتماعیت ناممکن ہے اور انسان و حیوان کی تمیز مٹ جائے۔ فرائیڈ کے نظریہ کی مخالفت خود اس کے شاگرد الفریڈایڈلر نے کی ہے۔
جنسی جذبہ تمام افعال انسانی کاسرچشمہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے۔ جب انسان کے دیگر جبلی احساسات اپنی قوت اور اٹھان کھو بیٹھیں۔ اس موقعہ پر فطرت انسانی کی نفسیاتی تحلیل ناموزوں نہ ہوگی۔ ذہن انسانی کے ارتقاء اور اس سطح کا جاننا جہاں ہم پہنچ چکے ہیں بہت ضروری ہے۔ اس کو ذہن نشین کیے بغیر ادیب اپنے اعلیٰ نصب العین کو چھوڑ کر ترقی معکوس کا شکار ہوسکتا ہے اور اس معراج کو کھوسکتا ہے جو نسل انسانی کی تدریجی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ انسانی جبلت چار مختلف النوع حسوں کا مرکب ہے۔ (۱) انسانی جبلت۔ (۲) حس خوردنوش (۳) حسِ جنس (۴) حسِ امویت۔ ان جسموں کی نشوونما بلندی اور پستی دونوں طرف ہوسکتی ہے۔ زندگی کی ابتدائی صورتوں میں ان قوتوں کا رجحان بالعموم پستی کی جانب رہا ہے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اور اجتماعیت پیداہوتی گئی۔ ان قوتوں کے بہاؤ کا رخ بھی بدلتا گیا۔ مل جل کر رہنے سے ان حسیات میں خفیف سی ہم رنگی پیدا ہوتی گئی۔ ابتدائی صورت میں جنگجوئی جو کہ فطرت انسانی کا خاصہ ہے۔ غیرشعوری طور پر پنپتی رہی اور نتیجتہً استبدادیت عالم شہود میں آئی۔ حسِ خوردونوش کی تنزلی صورت حرص، لالچ یا طمع تھی جو دورِ جہالیت میں قطعی نمایاں نظر آتی ہے۔ حسِ جنس پہلی دو حسوں کی تقویت سے عرصہ تک دبی رہی لیکن چونکہ پہلی دونوں قوتیں پوری شدت کے ساتھ مائل بہ پستی تھیں۔ اس لیے اس جذبہ کی رَو بھی انحطاطی رہی۔ جس کا لازمی نتیجہ تعیش تھا۔ استبداد، طمع اور تعیش نے احساس امویت پر بھرپور اثر ڈالا اور اس حس کا تخلیقی وصف ختم ہوکر مردم بیزاری کی حد کو پہنچ گیا۔ رفتہ رفتہ بے بصر حسوں نے شعورانہ جذبات کی تشکیل شروع کردی اور یہی جبلتیں ارتقائی کامیابی کے خوش گوار نتائج کا منبع بن گئیں۔ حس جنگ نے استبداد کی پریشان حالی سے خلاصی پائی تو اس کی پہلی بڑی منزل جذبۂ قومیت اور وطنیت تھا۔ دوسری جذبہ اجتماعیت۔ تیسری اشتمالیت۔ اسی طرح خوردنوش، حرص و طمع کے چنگل سے بری ہوئی تو مذہب، فلسفہ اور تصوف وجود میں آئے اوباشی جنس کی انحطاطی صورت تھی۔ اس کی ترقی حسن و اخلاق اور ادب کی تخلیق کاپیش خیمہ بنی۔ اس کااخیر اشاریت اور ابہام ہے۔ حسِ امویت پر جذبۂ تخلیق کی بنیاد ہے۔ اس کی ترقی یافتہ صورتیں ایجاد و انکشاف سائنس اور میکانکی ثابت ہوئیں۔ اس ذہنی ارتقا کو اس نقشے سے سمجھنا سہل ہوگا۔
انحطاط مزاج تصوف ابہام و اشاریت میکانکی
آزادی۔۔۔ عروج اجتماعیت فلسفہ ادب سائنس
جذبہ ۱۔ قومیت ۲۔ وطنیت ۱۔ پرستش ۱۔ حسن ۲۔ محبت ایجاد۔ انکشاف
۳۔ نسل ۲۔ مذہب ۳۔ اخلاق
حس قوت (جنگ) خوراک جنس امویت
پستی استبدادیت حرص اوباشی تنفر
اس تشریح سے واضح ہوگا کہ ترقی پسندی کا انحصار سطحیات کی ہمواری پر ہے۔ ترقی پسند ادب میں درجۂ عروج کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ بایں ہمہ اگر چاروں جبلتوں کی یکساں نشوونما اور توازن کی سعی نئے ادب میں مفقود ہے تو ترقی پسندی صرف نام کی شے رہ جاتی ہے۔ تمثیلاً نطشے کامافوق البشر اور اقبال کا مردِ مومن، نسل اور مذہب کی بلندی پر پہنچ کر گرجاتے ہیں اور اجتماعیت کی طرف بڑھنے کی بجائے پہلی سیڑھی یعنی قوت پر آنے کے بعد استبدادیت کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ شاہین کا تخیل۔ قوت اور استبدادیت کے رجعت پسندانہ نظریات کا غماز ہے۔ پہلے دونوں جذبات کی شدت کی بنیاد پر دوسری حسیات سے ارتباط اور اعتدال کا موقع نہیں رہتا۔ نئے ادب کے زمرہ میں آنے والے اکثر و بیشتر ادیب اور شاعر جنسی الجھنوں میں پڑ کر غیرارادی طور پر اوباشی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں اور صرف جنسی جذبہ کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ذہنی ارتقا کاتوازن بگڑ جاتا ہے اور فکر میں ٹھیراؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ نہ چلنے والے اوج اور پستی میں تمیز نہیں کرتے۔ ان مختلف النوع قوتوں کے ارتباط کے معنی یہ نہیں کہ ہر شعبہ کی منفرد حیثیت اور اٹھان ماری جائے۔ اس کا مدعا صرف یہ ہے کہ ایک تحریک کی مسلسل ترقی دوسری طرف معکوس نہ ہو۔ مثلاً ادب و فلسفہ کاارتباط نقطہ عروج پر پہنچنے کے بعد بھی جذبۂ تنفر کا حاصل ہوتا رہا ہے۔ اس بحث سے ظاہر ہے کہ اجتماعی ترقی کا دارومدار ادب، سائنس، فلسفہ اور اجتماعیت کے واضح اور متوازن خیالات پر ہے۔
ترقی پسندی کی راہ میں آج کل سب سے بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ ادب اور سائنس میں باہمی اور باربط سمجھوتہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادب میں جدید عناصر کی بے حد کمی نظر آتی ہے۔ ماضی کے تصورات کو بیش قیمت سرمایہ سمجھنا دانشمندی ہے۔ لیکن انہیں کی بنیاد پر تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ تخیلی عمارتیں استادہ کرنا نہ صرف رجعت پسندی بلکہ بے عقلی ہے۔ آگ، پانی، ہوا اور خاک کی حکمرانی حاصل کرنے کے بعد ادب کے مزاج میں قابل محسوس تبدیلی پیدا ہونا لازمی تھی۔ لیکن افسوس ہے کہ پرانی باتوں کو بہ اندازِ دگر دہرانے کے علاوہ نئے ادیبوں نے کچھ نہیں کیا۔ بہت کم افسانے اور نظمیں ایسی ملیں گی جن سے ہندوستان کی بحر و بر پر فوقیت مترشح ہو۔ ہندوستان کی بدحالی، جہالت اور قدامت پسندی کے علاوہ اس بڑی کمی کاایک سبب یہ بھی ہے کہ فی زمانہ سائنس دان، فنکار اور محتسب کاقطعی غیرضروری مثلث قائم ہوگیا ہے۔ سائنس دان کا کام حقیقتوں کی جستجو ہے۔ فنکار اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور محتسب کا کام صرف نکتہ چینی ہے۔ یہ استدلال قطعی غیرمنطقی ہے۔ اگر سائنس دان حقیقتوں کی مادی جستجو کرتا ہے تو فنکار تخیلی۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ تخیلی دریافت مقدم حیثیت رکھتی ہے۔ محتسب کا درجہ ناقد کانہیں جو زمانہ کی نبض کو دیکھتے ہوئے بدلی ہوئی قدروں کے پیش نظر ادب کے حسن و قبح کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور دونوں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے بلکہ دہقانی پہرہ دار کا سا ہے جو ہر نئی چیز کی روک تھام کرتا ہے۔ خواہ نئی چیز اچھی ہو یا بری۔ اردو ادب میں تنقید کا معیار اونچا نہیں۔ نئے ادب کی بہت سی خامیاں خواہ وہ ترقی پسندی کی صورت میں ہوں یا غیرترقی پسندی کی صورت میں ہمارے ناقدین کے تعصبات کے بل بوتے پر پل رہی ہیں۔ تنقید کو برائی سمجھنا عام مرض ہے۔ بعض تنقید کو قصیدہ گوئی تصور فرماتے ہیں۔ بیچ کی راہ پر چلنے والے ظاہری اور سطحی برائیوں کی برائی اور نمایاں خوبیوں کی حسب دلخواہ تعریف کو صحیح تنقید خیال فرماتے ہیں۔ یہ صورت بہتر سہی۔ لیکن صحیح ترین تنقید نہیں۔ تصویر کے دونوں رخوں سے بحث کرنے سے زیادہ اہم فرض ناقد پر یہ عائد ہوتا ہے کہ وہ شاعر یا ادیب کے بنیادی خیال کی صداقت، رفعت اور اس کے ذریعہ اظہار کی کامیابی یا ناکامی سے تعلق رکھے۔ خیال کا انوکھا پن اس قدر قابل قدر نہیں ہوتا جتنا کہ اس کا جاندار اور زمانہ کا نمائندہ ہونا یا بہتر صورتِ حالات کا پیامبر ہونا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ناقد یا تو صرف قصیدہ خواں نظر آتے ہیں یا متعصب بدگو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سرخ رنگ کو مرغوب رکھنے والے بہترین انقلابی بن بیٹھتے ہیں اور لغوو مہمل گو ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں میں جگہ پاتے ہیں۔ لال رنگ سے انسیت نہ تو گناہ ہے اور نہ حجِ اکبر۔ لیکن صرف اس پسندیدگی کی بناپر کسی کوانقلابی، ترقی پسند اور اچھا شاعر یا ادیب سمجھنا اپنے ذوق اور اصولِ تنقید کا منہ کالا کرنا ہے۔ تنقید کی عام کوتاہی نے لچرگو اور ہذیان نویسوں کو بہترین شاعر اور ادیب ہونے کے مغالطے میں مبتلا کردیا ہے۔ ایسے بیوقوفوں کی بھی کمی نہیں جو ان کو ترقی پسند اور نہایت رفیع الشان فنکار گرداننے لگتے ہیں۔ جس طرح ادب و حیات کو پرانے پیمانوں سے ناپنا اور زندگی کو چھوڑی ہوئی ابتدائی حالتوں میں لے جانے کی فکر کرنا عین رجعت پسندی اور بے عقلی ہے۔ اسی طرح ہر نثر نما شعر گو اور ماؤف الخیال ادیب کو جدید ترقی پسند شاعر سمجھنا ناسمجھی ہے۔ ادب عالیہ میں خالص سیاست، معاشیات، جنسیات، عمرانیات یا ڈاکٹری اور سرجنی کو جگہ دینا بھی ادب عالیہ کو نئے معنی پہنانا ہے۔ انہیں اسباب کے باعث ہمارے ادب میں طرح طرح کے نقائص رہ جاتے ہیں۔
ترقی پسند ادب کا پس منطر اور اس کے مزاج کے عناصر ترکیبی سمجھنے اور ترقی پسند ادیب کے فرائض پر غور کرنے کے بعد مرؤجہ ترقی پسند ادب کی خصوصیات پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا۔ ترقی پسند ادب، سائنس، مذہب، فلسفہ، علم النفس، علم المعیشت، علم الاخلاق وغیرہ وغیرہ کے انکشافات میں پیدا ہوا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو سے کماحقہٗ واقفیت نے ترقی پسند ادیب کی نظر میں گہرائی اور وسعت پیدا کردی ہیں۔ ترقی پسند ادیب کا مقصد اولیٰ لسانی انقلاب پیدا کرنا ہے جو حکومتی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکے گا اور جس کے بغیر زندگی کو پہنائیاں میسر نہیں آسکتیں۔ مشرق و مغرب کاتصور اس کی نگاہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ کرۂ ارض اس کا گھر ہے اور نسل انسانی اس کی ملکیت، عورت اس کے لیے نہ تو دیوی بن کر پابند تقوےٰ رہ سکتی ہے اور نہ مطربہ و طوائف بن کر تاجر جسم۔ اس کا درجہ اور حقوق اسی قدرقابل تعظیم ہیں جس قدر مرد کے۔ وہ جماعتی تفوق کاحامی نہیں۔ وہ عوام کی حکومت، عوام کی بہبود اور عوام کے جائز مطالبات کا نمائندہ ہے۔ ترقی پسندا دب کا جوہر عام انسانی مسرت کے حصول کی جدوجہد ہے۔ اس کے لہجہ میں یاسیت کی نقاہت نہیں۔ فراریت، ترقی پسند ادب کی ضد ہے۔ ترقی پسند ادب میں حسن و اخلاق کی قدریں ہمہ گیر اور آفاقی ہیں۔ ملکی اور ملی نہیں۔ زمان و مکان کی قیود سے ان کی ماہیت میں فرق نہیں آتا۔ تخیل پرستی، لذتیت، اطمینان بے جا او رداخلیت، انحطاط اور بے عملی کی پیداواریں ہیں۔ ان کا اس ادب میں کوئی مرتبہ نہیں۔ ان کی جگہ حقیقت پسندی، عمل اور امید ترقی پسندی کی واضح نشانیاں ہیں۔ ترقی پسند ادب نفسیاتی اور سماجی آزادی کا نقیب ہے۔ جھوٹی اور مصنوعی قدریں اس کے فریب کے لیے کافی نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.