ترقی پسند تحریک بمقابلہ محمد حسن عسکری
ترقی پسند تحریک بعض معنوں میں ہمارے یہاں سب سے زیادہ موضوع بحث رہنے والی تحریک تھی۔ اس تحریک کی حمایت اور رد میں جو چیزیں لکھی گئیں وہ ادب اور آرٹ کی تاریخ کا دلچسپ واقعہ ہے۔ معاشیاتی مابعد الطبیعیات پر استوار ترقی پسند نظریۂ ادب نے خود کو متنازع فیہ بنائے رکھنے کا اچھا خاصا انتظام کررکھا تھا۔ ادب سے جس طرح کا کام یہ تحریک لینا چاہتی تھی اس کا دائرہ بہت وسیع ہوتے ہوئے بھی چند سماجی اور سیاسی نظام کا پابند تھا۔ ادب کی سماجی حیثیت پر حد سے زیادہ زور اور انسان کی روحانی مایوسیوں، مجبوریوں اور معذوریوں سے عدم دلچسپی کے رجحان نے اس تحریک کو اپنے عروج کے زمانے میں ہی بعض اہم ادیبوں کی بے چینی کا سبب بنایا۔ یہ لوگ جس نئے توازن اور نئے آہنگ کی تلاش میں تھے اس کے لئے ترقی پسند نظریۂ ادب میں بہت کم جگہ تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ادب کے ہر شعبہ میں کچھ ادیبوں نے اپنے لئے الگ راہ نکالی۔ شاعری اور افسانے میں تو یہ راستہ قدر ے خاموشی سے طے ہوا لیکن تنقیدی رد عمل میں بڑا شور تھا۔ محمد حسن عسکری اس شور کی سب سے طاقتور آواز تھے۔ ترقی پسندوں سے ان کی چھیڑ چھاڑ تو بہت پہلے شروع ہوگئی تھی لیکن اصل محاذ اس وقت قائم ہوا جب انہوں نے ساقی میں جھلکیاں لکھنا شروع کیں۔ جھلکیاں کی پہلی تحریر میں ہی انہوں نے یہ بات کہہ دی تھی کہ میرے خیالات محض میرے تعصبات ہیں جو تیزی سے بدلتے رہتے ہیں اور جن کا دارو مدار ہے کیمیاوی، حیاتیاتی، عمرانی اور بیسیوں دوسرے افعال پر۔
عسکری صاحب کے یہ تعصبات اس بے اطمینانی کی شکل میں بھی ظاہر ہوئے جو انہیں ترقی پسند نظریۂ ادب سے تھی۔ ترقی پسند تحریک نے ادب اور زندگی کے مسائل میں اجتماعیت کی وکالت کی تھی۔ یہاں فرد کی حیثیت ثانوی تھی۔ فرد اس بھیڑ کا ایک معمولی سا حصہ تھا، جسے ہم سماجی یا اجتماعی نظام کہتے ہیں۔ فرد کی حیثیت سے ایک انسان کے داخلی تجربات اور پیچیدگیوں کے لئے ترقی پسند اجتماعیت نے بہت کم گنجائش نکال رکھی تھی۔ سماجی مرکزیت کو قائم رکھنے میں اجتماعیت سے بہت بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہیں لیکن یہی اجتماعیت بعض دفعہ اپنی انتہا کو پہنچ کر انفرادیت کا گلا بھی گھونٹ دیتی ہے۔ اس بات کا جیسا احساس محمد حسن عسکری کو تو وہ بیسویں صدی کے کسی دوسرے اردو نقاد میں کم سے کم مجھے تو نظر نہیں آتا ۔ اردو ادب میں تیزی سے پھیلتے اس رجحان کے متعلق عسکری صاحب نے بعض بہت بنیادی سوالات اُٹھائے انہوں نے لکھا کہ’’ اجتماعیت کے شکنجے پر انسان بہت دن جکڑا رہ چکا ، اب اس کے اعصاب ذرا سی ڈھیل چاہتے ہیں۔ یورپ تو اس کے مزے خوب لے چکا ہے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ جنگ کے بعد اور ملک کی تشکیل نو کے زمانے میں اجتماعیت پرستی وبا کی طرح پھیلے گی اور ادب اور کلچر کے لئے اس سے زیادہ مہلک چیزیں کم ہی ہوں گی۔ انگلستان کے ادیبوں اور مفکروں نے تو یہ خطرہ اس حد تک محسوس کرلیا ہے کہ انفرادی نقطۂ نظر کی اہمیت سمجھانے اور Personalism کی ترویج کے لئے ایک رسالہ بھی Transformation کے نام سے نکالا گیا ہے اور اس کے لکھنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کل تک بڑے کٹر اجتماعیت پرست تھے لیکن ہمارے ہاں اس خطرے کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ حالانکہ شاید ہم ہی سب سے زیادہ اس کے شکار بننے والے ہیں۔ ابھی تک اس کا اندازہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ اس ایک فقرے ’قوم کی تعمیر‘ میں جو مختلف جماعتوں سے مختلف معنوں میں سننے میں آتا ہے، ادب اور کلچر کے لئے کیا دھمکی پوشیدہ ہے اور کیا سائنس کے لئے نہیں؟ اجتماعیت خواہ وہ فسطائیوں کی ہو یا اشتراکیوں کی، یا پاکستانیوں کی، میں سب کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں ۔‘‘
اسی مضمون میں آگے چل کر انہوں نے فرد بن جانے کی خواہش اور اس کے دوسرے مضمرات پر نہایت ہی عمدہ بات کہی۔ انہوں نے لکھا :
’’فرد بن جانا ‘‘ سن کر بہت سی نظروں کے سامنے سیاسی، سماجی، اخلاقی نراج کے بھتنے اُٹھنے لگیں گے ۔ لیکن فرد بننے کی کوشش اور اشتراکی نظام سے تعاون ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔ انفرادیت پرستی کی رسموں میں ایک بہت ضروری رسم اپنی انفرادیت کے محدود ہونے کا اعتراف بھی ہے۔ خود آگاہی مجبور کرتی ہے کہ زندگی کے دوسرے اُصولوں کا وجود تسلیم کیا جائے، دوسروں کے درد میں بھی ایک بالکل مختلف اور اتنی ہی قابل وقعت انفرادیت مانی جائے ۔ جس چیز کو ہماری دنیا اجتماعیت پسندی سمجھتی رہی ہے وہ دراصل انفرادیت پرستی کی بدترین شکل ہے۔ چند سربرآوردہ لوگ، خواہ ان کی کتنی ہی اعلیٰ صفات کیوں نہ فرض کرلی جائیں۔ اپنے ذاتی خیالات کو عوام کی مرضی کہہ کہہ کر لوگوں کے حلق میں ٹھونستے رہے ہیں۔ میرے لئے تو اجتماعیت کی صرف وہ شکل قابل قبول ہوسکتی ہے جہاں انسانی جسم کے ہر ہر عضو کو اپنی انفرادیت برقرار رکھنے اور اسے ترقی دینے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔
(جھلکیاں، مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری،لاہور، ۲۰۰۰ء،ص :۷۸۴)
بعض لوگوں کو یہ باتیں رجعت پسندانہ لگیں گی لیکن اجتماعیت اور انفرادیت پرا تنی Seminal گفتگو اردو میں بہت کم لوگوں نے کی ہے۔ جس انفرادیت پرستی سے ترقی پسند بدکے رہتے تھے عسکری صاحب نے اس کا دوسرا رخ لوگوں کے سامنے رکھا انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ انسان کے انفرادی تجربے کا راستہ بھی اجتماعیت سے ہو کر آتا ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب ترقی پسندوں نے انفرادی داخلی اظہار کو اس طرح مطعون کیا تھا کہ ملاح بھی پانی مانگنے لگے۔ دراصل ترقی پسندوں کے برعکس عسکری صاحب فرد کو بہت سے انسانوں کے درمیان رہنے والے ایک انسان کی حیثیت سے نہیں بلکہ خود ایک کائنات کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں جس میں وہ اپنے کو خود مختار سمجھے اور معاملات کو طے کرنے میں آزاد ہو۔ عسکری صاحب کے اس ذہنی رویے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنی تحریروں میں آرٹ کو بنیادی اہمیت دیتے تھے ان کے نزدیک تخلیق بذات خود اپنا جواز رکھتی ہے اس کی موجودگی ثابت کرنے کے لئے کسی سماجی یا سیاسی حوالے کی ضرورت نہیں۔ ان کے نزدیک ادب کی کارروائی میں سماجی اور سیاسی حالات مخصوص انداز میں وقتاً فوقتاً اثر انداز ہوتے ہیں مگر ادب کا تعلق سماج اور سیاست سے اس طرح کا کبھی نہیں ہوتا جس طرح ہمارے ترقی پسند احباب سوچتے ہیں۔ ترقی پسندوں کے اس رویے کو عسکری صاحب درست نہیں سمجھتے جس میں کچھ چیزوں پر حد سے زیادہ زور دے کر بعض بنیادی معاملات سے بالکل کنارہ کرلیا جاتا ہے۔ ادب میں جنسی معاملات کے اظہار کا معاملہ ان میں سے ایک ہے۔
ترقی پسند نظریۂ ادب میں سماجی سروکار نے اتنی جگہ گھیر رکھی ہے کہ جنس اور اس سے جڑے معاملات کے لئے یہاں کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔ جب کسی تحریر کو ادبی فن پارے کے بجائے صرف سماجی دستاویز کی حیثیت سے پڑھے جانے کا مطالبہ ہو تو انسان کی بنیادی جبلتوں کی موت کوئی تعجب کی بات نہیں رہتی۔ جنسی معاملات کے اظہار کے تعلق سے ترقی پسندوں میں ایک حبس کا ماحول نظر آتا ہے۔ ترقی پسند نظریہ ساز ادب میں جنسی معاملات کے بے باکانہ اظہار کو درست نہیں سمجھتے تھے نیز جو چیز جنس کی ترغیب دے اس کا ادبی اظہار میں جگہ پانا ترقی پسند نقطۂ نظر سے ایک غلط فعل تھا۔ عسکری صاحب کے لئے یہ خیالات بڑے پریشان کن اور ادب کی آزادی پر پہرہ بٹھانے کے مترادف تھے چنانچہ انہوں نے لکھا کہ’’ فحش کی یہ ترغیب والی تعریف غالباً ترقی پسندوں کی طرف سے ہوئی ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بہت پھیل جاتا ہے۔ فحش کے سوال سے کہیں آگے یا تو یہ فیصلہ ہوجائے کہ جنس قطعاً گندی اور غیر شریفانہ چیز ہے اس لئے اس سے لذت کا اظہار اور اس کی ترغیب بھی نامناسب ہے۔ میں ماننے کو تیار ہوں لیکن اگر تاکید جنس پر نہیں بلکہ ترغیب پر ہے تو ادب کے ذریعہ سے انقلاب یا سماجی تبدیلی کی ترغیب دلانا بھی اتنی ہی نامناسب چیز ہے۔ ترغیب کا مسئلہ چھیڑ کر ترقی پسند ایک ایسے پڑوس میں جاپہنچتے ہیں جس کے سایہ سے بھی وہ بھاگتے ہیں۔ یعنی جیمز جوائس .......جوائس کا نظریہ یہ ہے کہ جمالیاتی جذبہ میں ’حرکت‘ نہیں ہوتی بلکہ ’قرار‘ ۔ آرٹ نہ تو کسی چیز کی خواہش ہمارے دل میں پیدا کرتا ہے اور نہ کسی چیز سے نفرت۔جو آرٹ اس اصول کا پابند ہے، وہ مناسب آرٹ ہے اور جو خواہش یا نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے غیر مناسب آرٹ ہے۔ خواہ وہ فحش ہو یا اخلاقیات۔ ‘‘
ترقی پسندوں نے جنس اور ترغیب کے مسئلے کو چھیڑا تو ضرور تھا لیکن ادبی معاملات میں اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں پر ان کی نظر بہت کم تھی ۔ جنس سے جھجک، ڈر اور نفرت کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بعض پاکیزہ ترین جذبات جو صرف عریانی کے حوالے سے ہی بیان کئے جاسکتے تھے ترقی پسند ادب میں جگہ نہ پا سکے ۔ جنس سے پاکیزہ تر ین جذبات کے اظہار کی خدمت بھی لی جاسکتی ہے یہ ترقی پسند سوچ بھی نہیں سکتے تھے عسکری صاحب کو ان باریکیوں کا احساس تھا چنانچہ انہوں نے برکلے اور لارنس کے حوالے یہ بات کہی کہ’’ یہ قطعاً انفرادی طور سے فنکا رپرمنحصرہے کہ وہ عریانی سے کیا کام لیتا ہے اور اس سے پاکیزہ ترین جذبات کے اظہار کی خدمت لی جاسکتی ہے اور لی گئی ہے۔ برکلے نے کہہ رکھا ہے کہ آرٹ کا مقصد تعریف کرنا ہے لیکن ہمارے زمانہ میں تعریف کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر برکلے خود تعریف کرسکا ہے تو زندگی سے بھاگ کر، مابعد الطبیعیاتی جذبے اپنے اوپر طاری کرکے...... لارنس نے تعریف کی ہے مگر زندگی کے ایک خاص مظہر کی، ایک مخصوص شعلے کی جو آدمی کو ایسے لپیٹ لیتا ہے کہ بے اختیار منہ سے تعریف نکل ہی آتی ہے۔ لیکن عامیانہ زندگی کی سطح پر اُتر کر، اس کی ظاہری کیفیت کو قبول کرکے ناک بھوں چڑھائے بغیراس میں ربانیت یا خدا کے جلوے یا کسی آفاقی اُصول کی تلاش کئے بغیر تعریف کرنا ہر آدمی کا کام نہیں ہے اور پھر ہمارے زمانہ میں کہ جب فرد اور سماج میں اتنی مغائرت اور مخالفت ہو۔ لیکن جوائس نے اسی طرح تعریف کی ہے اور ’یولی سیز‘ کے اس حصہ میں جس کی وجہ سے کتاب کو ضبط کرلیا گیا تھا، میر ین بلوم ایک معمولی عورت ہے اور ایسی ہی شہوت پرست۔ اس میں کوئی بات بھی بلند یا پاک نہیں۔ اور ایسی ہی ایمانداری اس کی خود کلامی میں برتی گئی ہے لیکن اس کی عریاں خیالی اسے ٹھوس بنا دیتی ہے۔ اس کا رشتہ ہماری دنیا، ہماری زمین سے مضبو ط ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر میں اس کی جنسیت زمین اور زندگی کی حمد کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور یہ جذبہ اتنا ہی اعلیٰ و ارفع ہے جتنا کوئی اور۔‘‘
لارنس کے علاوہ چوسراور باتھ کے یہاں بھی اس طرح کے ٹھوس ادبی تجربے کا اظہار جنسیت کے حوالے سے ہوا ہے لیکن ترقی پسند حضرات اسے ایک مخصوص طرح کے جنسی پروپگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو ادب تخلیق کیا گیا اس کے ایک حصے پر بھی پروپگنڈا ہونے کا الزام ہمیشہ سے لگتا رہا ہے۔ یہ بات اکثر کہی جاتی رہی ہے کہ ایک مخصوص سیاسی فکر کو ترقی پسند ادب کے ذریعہ لوگوں پر تھوپنے کی کوشش کی گئی اور ایک عرصے تک اس بات میں فرق کرنا بھی مشکل ہوگیا کہ ادب اور غیر ادب میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے ساتھ ایک ہی سانس میں لوگ پروپگنڈہ کا لفظ اتنی بار استعمال کرچکے ہیں کہ اب اس بات میں کوئی ندرت بھی باقی نہیں رہی۔ اکثر لوگ اس لفظ کا استعمال کرکے ترقی پسند تحریک کو مطعون کرتے رہے ہیں۔ بات اگر صرف مخالفت کی ہو تو کوئی بات نہیں لیکن اگر اختلاف ادبی ہے تو پھر اس مسئلے کے ہر پہلو کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ ترقی پسندوں سے عسکری صاحب کا اختلاف چونکہ ادبی بنیادوں پر استوار تھا لہٰذا اس سلسلے میں ان کی رائے خاصی چونکانے والی ہے۔ مئی ۱۹۴۴ء کی’ جھلکیاں‘ میں انہوں نے جدید شاعری کے معترضوں کو مخاطب کرکے یہ بات کہی ’’کہ جب آپ نئی شاعری پر صرف و محض اشتراکیت کا پروپگنڈہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو پھر اپنے نظریے بھول جاتے ہیں جو آپ صرف اعتراض کرنے کے لئے گڑھتے ہیں‘ اپنی رہنمائی کے لئے نہیں۔ پہلے تو آپ نے دعویٰ کیا کہ شاعری میں رنگینی ہونی چاہئے، دوسری ہانک لگائی کہ نئی شاعری اخلاقیات کا پروپگنڈہ کیوں نہیں کرتی اور اب آپ کو اخلاقیات کے پرچار پر بھی اعتراض ہے...... کیونکہ اشتراکیت ایک اخلاقی نظام بھی تو ہے۔ پہلے یہ تصفیہ کیجیے کہ آپ کو اعتراض اشتراکیت پر ہے یا پرچار پر۔ اگر پرچار پر ہے تو پھر اپنے اخلاقی نظام کی قصیدہ سرائی ہم سے کیوں چاہتے ہیں ؟ اگر اشتراکیت سے آ پ کو اتفاق نہیں تو نہ ہو، آپ کو اپنی پسند کا اختیار ہے، اسی طرح دوسروں کو بھی۔ اگر شاعر کا اشتراکیت پر ایمان ہے تو وہ اس کی شاعری میں تو حارج نہیں ہوسکتی۔ پھر سارے نئے شاعر اشتراکی بھی تو نہیں۔ راشد تو بلکہ خلاف ہیں اور میراجی غیرجانبدار سے۔ رہے فیض یا تاثیر تو ان کی شاعری میں بھی پروپگنڈہ نہیں پایا جاتا، نہ وہ شاعری کے موضوعات کو سیاسیات تک محدود کرنا چاہتے ہیں ۔ سیاسی اور سماجی نظمیں لکھنے کے باوجود فیض اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹوں اور جسم کے دلآویز خطوط میں کشش پاتے ہیں۔ ‘‘
ترقی پسندوں کے بعض بنیادی نظریات پر اس طرح کی گفتگو ہماری تنقید میں بہت کم ہوئی ہے۔ خود ترقی پسند شعریات کو ادب میں رائج کرنے والے ناقدین نے بھی اس طرح کے مباحث سے سٹنے کی ہمت اپنے اندر بہت کم پائی۔ احتشام حسین صاحب کی بعض تحریریں البتہ اس سلسلے میں کچھ مباحث کو سمیٹتی ہیں لیکن وہ بھی ایک حد تک پھر احتشام صاحب تو پکے ترقی پسند تھے اور عسکری صاحب کو ترقی پسندوں نے اپنا مخالف مشہور کررکھا تھا۔ عسکری صاحب سے تو یہ امید بھی نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اشتراکیت، نئی شاعری اور پروپگنڈے پر ایسی رائے دیں گے جو ترقی پسندوں کو کمک پہنچائے لیکن انہوں نے یہ رائے دی۔ شاید ایسے ہی موقعوں کے لئے انہوں نے ایک دفعہ یہ بات کہی تھی کہ نئی حقیقتوں کا تقاضا ہو تو میں اپنی رائے ایک نہایت ہی بے شرم آدمی کی طرح تبدیل کرلیتا ہوں۔ ترقی پسندوں کے متعلق عسکری صاحب کا یہ بیان ان لوگوں کے لئے پیش کررہا ہوں جنہوں نے عسکری صاحب کو پڑھے بغیر ان پر ترقی پسندوں کے نرے مخالف ہونے کا لیبل چسپاں کررکھا ہے :
پروپگنڈا بھی کوئی بھوکا بھیڑیا نہیں کہ شاعری کو فوراً نگل ہی لے گا۔ حالانکہ میں ترقی پسندوں سے اکثر جھگڑتا رہتا ہوں لیکن جب تک ہم پرچاری شاعری کو دنیا کی سب سے بڑی شاعری نہیں کہنے لگتے میں پروپگنڈا سے بالکل نہیں گھبراتا۔ انسانی تاریخ میں یہ ایک ایسا سنگین وقت آیا ہے کہ اس کے اثرات سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ وہ شاعر ہو یا فلسفی۔ اس خلفشار میں چند جماعتیں ایسی نظر آتی ہیں ، جن سے توقع ہے کہ تخلیقی کام کرنے والے سے اوروں کی بہ نسبت زیادہ شریفانہ سلوک کریں گی۔ بعض لوگوں کو ان جماعتوں کے اُصولوں میں دنیا کے مسائل کا زیادہ تسلی بخش حل بھی نظر آتا ہے۔ تو ایسے نازک دورمیں کہ جب تہذیب اور تمدن کی زندگی بھی خطرے میں ہے، اگر کوئی شاعر اپنا حقیقی کام تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ کر صرف اور محض ان اصولوں کے پرچار کی خاطر دو چار نظمیں لکھتا ہے تو وہ اپنا فرض ادا کررہا ہے، شاعری کو غارت نہیں کررہا ۔
(جدید شاعری (۲)، مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری، لاہور، ۲۰۰۰ء،ص :۸۵۲)
یہاں عسکری صاحب وہی بات کہہ رہے ہیں جو الیٹ نے ادیب اور شہری والی بحث میں کہی تھی کہ ادیب ہر وقت تو ادب نہیں لکھ رہا ہوتا، ایک شہری کے ناتے بھی اس کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں دراصل اس معاملے میں سارا مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب ہم ان دونوں شخصیتوں کو آپس میں گڈمڈ کردیتے ہیں۔ جو لوگ عسکری صاحب پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے صرف ترقی پسندی کی مخالفت کی انہوں نے عسکری صاحب کی اس طرح کی تحریروں کو کبھی رک کر نہیں دیکھا۔ عسکری صاحب نے ترقی پسندی کے ہر زاویے کو خالص ادبی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ یہ بات شاید سب سے پہلے عسکری صاحب نے ہی کہی کہ عام نوجوان اس تحریک میں اتنی کشش کیوں محسوس کررہے ہیں ۔ ان کے خیال میں اشتراکیت کی طرف کھینچنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ’’ معمولی صلاحیت کا شاعر بغیر کسی آفاقی نظام سے رشتہ قائم کئے محض بے ربط احساسات کے بھروسے زیادہ دن تک شاعری نہیں کرسکتا، آخر وہ کسی نہ کسی نظام کا سہارا لینے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے خواہ وہ وقتی طو رپر ہی ہو۔ یہ سہارا مذہب یا قصص الاضام یا شہوانیت ، کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے۔ اتفاق سے زیادہ تر لوگوں نے اشتراکیت کا انتخاب کیا ہے، ہندوستان ہی میں نہیں ساری دنیا میں۔ کسی آفاقی نظام پر یقین کے بغیر عام فن کار کا تخیل اتنا مہمل، بے جان اور بانجھ ہوجاتا ہے کہ مصوری کو موت سے بچانے کے لئے یہ رائے دی گئی کہ مصور تجارتی کمپنیوں کے اشتہار بنایا کریں۔ کم سے کم لکس سوپ کے پرچار سے اشتراکیت کا پروپگنڈا تو بہتر ہے۔ اور تو الگ رہے سوریلسٹوں کو دیکھئے جو ہر پابندی یہاں تک عقل کی پابندی تک سے آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کی لاچاری اور بے بسی قابل غور ہے۔ان کے بنیادی اصول ہیں :
۱۔ ذہن میں لاشعور کی نمائندگی
۲۔ مارکسی نقطہ نظر سے موجودہ سماج پر تنقید
ممکن ہے اشتراکیت گھناؤنی اور قابل نفرت ہو لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ دنیا بے اختیار اس کی طرف کھنچی چلی جارہی ہے۔‘‘
۳۶ء کی تحریک سے جو لوگ محض یہ سوچ کر جڑے تھے کہ ایک بھاری بھرکم تحریک سے جڑنے میں ہی عافیت ہے ان سے عسکری صاحب اکثر نالاں رہا کرتے تھے۔ عسکری صاحب کا بنیادی مسئلہ ادب اور آرٹ تھا وہ نئے ادیبوں کے اس رویے سے ناخوش تھے کہ وہ افسانہ لکھتے وقت محض خام واقعات کو ظاہری سطح پر برت کر بڑا افسانہ پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ عسکری صاحب اس حقیقت سے خوب واقف تھے کہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کچھ لوگ محض جذبات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں کچھ مخصوص طرح کے بنے بنائے موضوعات کو بار بار دہرایا جارہا ہے۔ ادب اور آرٹ کے بنیادی تقاضوں سے کٹ کر غیر ادبی معیارات کے حوالے سے افسانے تخلیق کئے جارہے ہیں چنانچہ جون ۱۹۴۷ء کی جھلکیاں میں اردو افسانے کے عام رجحان سے بحث کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ’’ بنگال کے قحط نے افسانہ نگاروں کی ایک نئی فصل پیدا کی ہے۔ ان میں سے ہر افسانے کی تان بلا مبالغہ اس پر ٹوٹتی ہے کہ بھوک سے تنگ آکر کسی نوجوان لڑکی نے اپنی عصمت بیچ دی۔ ان افسانہ نگاروں کو فرائڈ کے شوقینوں سے ڈرنا چاہئے۔ بہرحال یہ افسانہ تبلیغی فرض بھی تو ادا نہیں کرتا کیونکہ اتنی سستی جذباتیت اچھا پروپگنڈا بھی نہیں بن سکتی۔ لیکن اگر واقعی ان میں کوئی افادیت ہے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ لوگوں کو جمع کرکے ان کے سامنے ایسے افسانے پڑھے جائیں تاکہ جذبات کی گرمی کے وقت ان سے چندہ تو مل جائے۔‘‘
ترقی پسند تحریک کی شعریات مرتب کرنے والے ناقدین نے اس طرح کی سستی جذباتیت کی روک تھام کے لئے کوئی واضح لائحہ عمل تیار نہیں کیا تھا ۔ نئے لوگوں کو وہ یہ بتانے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو پائے کہ ادب جذبات کے اظہار کا نہیں بلکہ اس کی تہذیب کا نام ہے۔ ترقی پسندوں نے روایت پر گفتگو کی لیکن یہاں بھی وہ صالح اور غیر صالح کی بحث میں الجھے رہے۔ ترقی پسند ناقدین نے ادب میں صالح اور غیر صالح کی بحث چھیڑتے وقت اس بات پر زیادہ زور دیا کہ روایت کی جو چیز یں اچھی ہیں ہم اسے لے لیں اور جو اخلاقی یا سماجی نقطہ نظر سے بری یا ناقابل اعتماد ہیں انہیں چھوڑ دیں۔ اس تھیوری کو جب وہ بعض شعرا اور خصوصاً اکبر الٰہ آبادی جیسے شاعر کے لئے استعمال کرتے ہیں تو عجیب و غریب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ عسکری صاحب کو ترقی پسندوں کی یہ تفریق درست نہیں لگتی چنانچہ اکبر کے متعلق لکھتے ہوئے مئی ۱۹۴۵ء کی جھلکیاں میں انہوں نے لکھا:
اکبر کے متعلق ترقی پسندوں کا سرکاری رویہ یہ کہتا ہے کہ وہ اکبر کے دو ٹکڑے کرتے ہیں ایک ترقی پسند اور دوسرا رجعت پسند ...... ترقی پسند اکبر وہ ہے جو ہندوستان پر انگریزوں کے اقتدار کا مخالف ہے اور رجعت پسند اکبر وہ جو انگریزی تعلیم ، بے پردگی، لا مذہبی اور مادہ پرستی پر طنز کرتا ہے۔ ترقی پسندوں کے نزدیک پہلے والا اکبر قابل قبول ہے اور دوسرا اکبر مردود۔ا گر ترقی پسندوں کو اکبر نمبر ایک پسند ہے تو ایک طرح سے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ اپنے اپنے ذاتی تعصب کا ہے اور تعصب کا بہرحال لحاظ کرنا چاہئے۔ لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف و محض غیروں کے اقتدار سے نفرت اور آزادی کی آرزو بذات خود بہت زیادہ بلند چیز نہیں ہے یعنی جمالیاتی اور ثقافتی نقطۂ نظر سے۔میرا مطلب یہ نہیں کہ مجھے کسی کی غلامی پسند ہے۔ کہنا میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آزادی تو زندگی کی سب سے پہلی ضرورتوں میں سے ہے جیسے روٹی،پانی یا ہوا۔
اگر کوئی آدمی آزادی طلب کرتا ہے تو اس میں غیر معمولی بات کیا ہے؟ نہ اس کے لئے کسی فو ق الانسانی بصیرت کی ضرورت ہے۔ اور تو اور میں تک چاہتا ہوں کہ میرا دماغ ترقی پسندوں کا غلام بن کر نہ رہے۔ اگر اکبر نے غیروں کی غلامی سے بیزاری کا اظہار کیا ہے تو کون سا کمال ہے؟ ہر خوددار آدمی سے ہمیں یہی توقع ہونی چاہئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس سلسلے میں وہ اپنے زمانے کے بہت سے مسلمانوں سے آگے تھے ، استعماریت کے ہتھکنڈوں کو وہ شاید اس زمانے کے اکثر لیڈروں سے اچھی طرح سمجھتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر محض ان کی سیاسی بیدار مغزی کی بنا پران کی یادگار منائی جائے تو میں اس جلسے میں شرکت نہیں کروں گا چاہے کسی تیسرے درجے کے سیاسی والنٹیر کی یادمیں چراغاں کرلوں۔کیونکہ اپنی تعریف و تحسین کو سیاسی دائرے کے اندر محدود کرلینا اکبر کی اہمیت کو گھٹانا ہے۔ اکبر کو صرف آزادی ہی کی فکر نہیں تھی بلکہ ان کی نظر میں کلچر کے زیادہ اہم محرکات اور انسانی زندگی کی دوسری زیادہ بنیادی حقیقتیں بھی تھیں۔ ترقی پسند اس چیزکو بالکل گول کرجاتے ہیں یا شاید یہ بات دیکھنا پسند نہیں کرتے کہ اکبر نمبر ایک کے وجود کا دارومدار کلیتاً اکبر نمبر دو پر ہے اور اس حد تک کہ دونوں کو الگ کرنا خطرناک ہے۔ اکبر نمبر دو کی نظر کہیں زیادہ گہری تھی اور اس نے اپنے آپ سے وہ سوال پوچھا تھا جو ہر بڑے مفکر اور فن کار نے اپنے آپ سے پوچھا ہے ۔
(اکبر الٰہ آبادی (۲)، مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری، لاہور، ۲۰۰۰ء،ص :۹۳۵)
اکبر کا معاملہ ہو یا روایت کا عسکری صاحب اور ترقی پسندوں میں جو اختلاف تھا وہ دراصل بنیادی طور پر ادب اور غیر ادب کے مسئلے سے جڑا تھا۔ ترقی پسند ناقدین نے ادب کی جو تعریف متعین کرنے کی کوشش کی اس سے عسکری صاحب خاصے غیر مطمئن تھے۔ عسکری صاحب واحد نقاد ہیں، جنہوں نے ترقی پسند وں سے نظری اختلاف کیا یہ کام کلیم الدین احمد جیسے پڑھے لکھے ناقد سے بھی ممکن نہ ہوسکا۔ وہ اکیلے ترقی پسندوں کے خلاف صف آرا تھے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ترقی پسند ادیب عسکری کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اس انتہا پسند انہ رویے کو ہوا دینے میں کچھ تو عسکری صاحب کے اس کاٹ دار اسلوب کا بھی ہاتھ ہے جو انہوں نے ترقی پسندوں پر لکھتے ہوئے روا رکھا تھا۔ اس تکلیف دہ حد تک کاٹ دار مگر دلچسپ اسلوب کی چند مثالیں دیکھیں:
اس پچھلے ایک صدی کے ادب پر تنقید کرتے ہوئے میرامطلب کہیں بھی یہ نہیں ہوگا کہ یہ ادب انسانیت کے لئے ضرر رساں ہے یا تنزل پرست ہے، جیسا کہ بہت سے سیاسی رضا کار اکثر کہا کرتے ہیں۔ یہ تنبیہ بھی ضروری ہے کہ میرے مضمون میں کسی لفظ کے معنی وہ نہیں ہیں، جو مارکسیوں کے یہاں ہوتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ لفظوں کو ان کے چھوٹے سے چھوٹے اور تنگ سے تنگ معنوں میں استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ ان کی اصطلاحیں اتنی مادیت آلود ہوتی ہیں کہ ان سے تانبے کے زنگ آلود پیسوں کی بدبو آتی ہے۔ اسی لئے میں نے تو کمیونسٹوں کا اخبار تک پڑھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ دونی میں تو ننگی تصویروں والا رسالہ آجاتا ہے ۔
(ہیئت یا نیرنگ نظر؟ ،مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری،لاہور، ۲۰۰۰ء،صفحہ :۱۴)
151
کسی ترقی پسند اشتعال انگیزکی یاددہانی کے بغیر مجھے خوب معلوم ہے کہ فرد کے متعلق یہ نظریہ خیر سو فیصد غلط تو نہیں مگر ہاں ناکافی ضرور ہے۔ فرد ایک علیحدہ کائنات سہی مگر یہ کائنات ایسی ہی دوسری کائناتوں سے ہر لمحے ٹکراتی رہتی ہے۔ یہ نئے فنکار بھی اس تصادم سے بے خبر نہیں ہیں اور اس سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، ان کا علم ان فنکاروں کو جس شدت سے ہے اور یہ علم جس ٹریجڈی کی شکل اختیار کرلیتا ہے وہ چیز مارکس اور اینگلز کے نصیب میں نہیں۔ یہ لوگ تو خیر پھر بھی بے چارے پمفلٹ باز قسم کے آدمی تھے ارونگ ریلیٹ جیسے ادب کے مصلحین تک اگر اس احساس کو اپنی رگوں میں دس منٹ ٹھہر جانے دیتے تو خون تھوکتے پھرتے۔ ہارورڈ میں بیٹھ کر خیر و شر کا فلسفہ بگھارنے میں تو کچھ خرچ نہیں ہوتا۔
(ہیئت یا نیرنگ نظر؟ ،مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری،لاہور، ۲۰۰۰ء،صفحہ :۱۶)
151
اس اعتبار سے مارکسیت ایک اخلاقی اور جذباتی نظریہ ہے مگر اس جذباتیت کے باوجود مارکسیت کو جذبات سے متعلق ہونے سے انکار ہے اور محض منطقی اور علمی نظریہ ہونے کا دعویٰ! خیر، اس میں بھی کوئی حرج نہیں تھا اگر مارکسیت خارجی زندگی کے معاشی اور سیاسی پہلوؤں کی منصوبہ بندی کرکے مطمئن ہوجاتی اور انسان کی اندرونی زندگی کا نظام مرتب کرنے کا کام کسی اور نظریے کے سپرد کردیتی۔ لیکن مارکسیت انسانی معاملات میں وحدہٗ لاشریک رہنا چاہتی ہے اور کسی دوسرے نظریے کا دخل اسے گوارا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس میں کوئی نظام جذبات فراہم کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ چنانچہ معاشیات اور سیاسیات کے محدود دائرے کے باہر بے چارہ مارکسی کچھ کھو سا جاتا ہے اور زندگی کے اہم ترین جذباتی مسائل میں اپنا رویہ ٹھیک طرح قائم نہیں کرسکتا اور اگر وہ اپنے معاشی نظریات کی روشنی میں جلدی سے کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتاہے تو اس کی کیفیت خاصی مضحکہ خیز ہوجاتی ہے ۔ ذرا ذرا سی بے ضرر چیزوں سے وہ اس طرح بھڑکنے لگتا ہے جیسے بھڑوں کے چھتے سے اور عام تہذیبی مسائل میں کچھ چڑا ہوا سا رہنے لگتا ہے کہ جہاں کوئی بات کی اور لگا بگڑنے۔
(مارکسیت یا ادبی منصوبہ بندی؟ ،مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری،لاہور،
۲۰۰۰ء،صفحہ :۹۳)
151
انقلاب کے زمانے میں ایسے ایسے لوگ اس سے متاثر ہوجاتے ہیں جو عام حالات میں بڑے امن پسند ہوتے ہیں بلکہ شاعر اور ادیب تو اس تصور کو اور بھی جلدی قبول کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے زمانے کی غیر شعوری خواہشوں سے بڑا قریبی تعلق ہوتاہے اور تو اور خود شیلیؔ جو انقلابیوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ظلم کا مقابلہ آہنسا کے ذریعے کرو، بھی عموماً انقلاب کا ذکر قتل و غارت گری کے بغیر نہیں کرسکتا۔ یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات اسے ایسے انقلاب ہی سے وحشت ہونے لگتی ہے جس میں انسانوں کو قتل کرنا ضروری ہو مگر خونی مناظر سے لطف لینے میں وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ شیلی کیا معنی ، انقلاب فرانس کے بعد سے لے کر یورپ بھر میں جتنی انقلابی شاعری ہوئی ہے اس میں خون بہانے کا ذکر کافی ہے بلکہ ٹھیٹ مارکسیت کے زیر اثر جو انقلابی نظمیں لکھی گئی ہیں، وہ بھی اس سے خالی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ذے لوئیس، اسپنیڈر، آڈن جیسے سنجیدہ لوگوں کی نظموں میں بھی یہ بات ملتی ہے۔ خود ہمارے یہاں اردو میں بھی یہی حال رہا ہے۔ اب سے دس سال پہلے کی سیاسی نظمیں یاد کیجیے ان میں خنجر و شمشیر، آگ اور خون کا کتنا ذکر ہوتا تھا۔ خصوصاً احسان دانش کی ایک نظم میں تو انتہا ہوگئی ہے ........ وہ نظم جس میں شاعر انقلاب کے متعلق خواب دیکھتا ہے۔ ادب کے علاوہ آرٹ میں بھی یہی رنگ ہے۔
(ادب اور انقلاب؟ ،مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری،لاہور، ۲۰۰۰ء،صفحہ :۱۰۶)
151
خدا شکر خورے کو شکر دیتاہے۔ جاپانیوں کا نہ سہی قحط کا حملہ ہوا۔ کسی نے چور بازار میں چاول بیچ کر روپے بٹورے، کسی نے افسانے لکھ کر شہرت۔ چلئے دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے کسی نہ کسی کے بھلے کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اس زمانے میں قحط کے موضوع کو ایسا تقدس حاصل ہوا کہ طالب علموں تک نے اپنے جنسی تجربات کے بجائے بھوکوں کے متعلق لکھنا شروع کردیا۔ زوریہ تھا کہ اگر رسالے کے مدیر نے افسانہ چھاپنے سے انکار کردیا تو وہ شقی القلب اور بے رحم ٹھہرے گا۔ غرض بنگال کی مصیبتوں کے طفیل ہمارے افسانہ نگاروں کو کچھ دن خاصی آسانی رہی، گڑھے گڑھائے افسانے ملتے رہے۔ واقعات‘ جذبات سب مہیا تھے ، کسی چیز کے لئے کاوش کی ضرورت ہی نہ تھی۔
(منٹو فسادات پر؟ ،مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری،لاہور، ۲۰۰۰ء،صفحہ :۱۳۹)
151
ایک ایسا ہی مجرب اور خاندانی نسخہ ترقی پسند وں کے پاس بھی ہے۔ یہ نسخہ ’ہوالمارکس‘ سے شروع ہوتا ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں: طبقاتی کشمکش ، مادی جدلیات، ذرائع پیداوار اور اسی قسم کی دوسری کھادیں۔ رہا سوال کنجر کے لنگوٹے کا، تو وہ کسر کاڈویل کی کتاب Illusion and Realityسے پوری ہوجاتی ہے ۔ بس یہ دو چار چیزیں آپ کو از بر ہوجائیں تو پھر یہ سمجھئے کہ آپ کو اسم اعظم آگیا۔ عقل کا حملہ ہو یا احساس کا شب خون، سب سے مکمل محافظت ہوگئی۔ سیاست، معاشیات، فلسفہ، مذہب، یہاں تک کہ ادب جس سرزمین میں جی چاہے دندناتے پھریے، سب راستے آپ پر کھلے ہوئے ہیں۔ یہ نقشہ ہر جگہ آپ کی رہنمائی کرے گا۔ بلکہ اصلی ترقی پسند تو وہ ہے جو جان جان کر اینڈی بینڈی بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو پھنسائے اور ذرا کے ذرا میں ہنستا کھیلتا باہر نکل آئے۔ اور اس کا سانس تک نہ بگڑا ہو۔بس یوں سمجھئے کہ ترقی پسند لفظ بہ لفظ سیموئل بٹلر کے پیورٹین عالم دین کی طرح ہیں۔
(ادب اور حقیقت؟ ،مشمولہ:مجموعہ محمد حسن عسکری،لاہور، ۲۰۰۰ء،
صفحہ :۹۷۵)
اس طرح کی تحریروں نے عسکری صاحب کو ترقی پسندوں میں آج بھی خاصا غیر مقبول بنا رکھا ہے۔ ترقی پسندی کے عروج کے زمانے میں تو منٹو جیسے بڑے فن کار کو بھی عسکری کی دوستی کا نقصان اُٹھانا پڑا ۔منٹو کے سیاہ حاشیے کو ترقی پسندوں میں محض اس وجہ سے مقبولیت نہ مل سکی کہ اس کا دیباچہ محمدحسن عسکری نے لکھا تھا۔ ترقی پسندوں سے اختلاف اور تنازع محمد حسن عسکری کی ادبی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے لیکن اس معاملے پر گفتگو کرتے وقت ہمیں سلیم احمد کی یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ’’ یہ مخالفت کسی قدامت زدہ نقطۂ نظر سے نہیں پیدا ہوئی تھی اور نہ ادب برائے ادب والوں سے کوئی تعلق رکھتی تھی جو ترقی پسندوں کے خلاف ردِّعمل میں بقول عسکری صاحب صرف ’اداس بھیڑوں ‘ کا ادب پیدا کرنے لگے تھے ۔ بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں یا واقف ہونے کے باوجود اس کا اظہار کرتے ہیں کہ میرا جی سے اپنی عقیدت اور محبت کے باوجود عسکری صاحب میراجی گروپ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور اختلاف کے باوجود ترقی پسندوں ہی کو اہمیت دیتے تھے۔دراصل ترقی پسندوں سے عسکری صاحب کا اختلاف ’انقلاب کے خلاف انقلاب‘ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ عسکری صاحب یہ سمجھتے تھے کہ ترقی پسند ۳۶ء کی باغیانہ روح سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں اور سیاسی قوتوں کا آلہ کار بن کر اس تحریک کی حقیقی معنویت کو بھول بیٹھے ہیں ۔ ترقی پسندوں سے عسکری صاحب کی بغاوت ۳۶ء کی تحریک کی روح کو برقرار رکھنے کی سب سے اہم کوشش تھی۔ عسکری صاحب کے بارے میں یہ بیان صرف ذاتی انکشاف کی حیثیت نہیں رکھتا ، جن لوگوں نے عسکری صاحب کی تحریروں کا عمیق مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ’فن برائے فن‘ اور ’ہیئت اور نیرنگ نظر‘ جیسے مضامین میں ان کا نقطۂ نظر حلقۂ اربابِ ذوق والوں کی جمالیات پرستی سے ایک مختلف چیز ہے۔ وہ تو فرانس کے زوال پسندوں کا مطالعہ ایسے اخلاقی نقطۂ نظر سے کرتے ہیں جو انسانی شعور میں حقیقی انقلاب پید اکرسکتا ہے۔ فرائڈ اور رائخ سے ان کی دلچسپی اور یونگ کی مخالفت بھی اسی نقطۂ نظر کا ایک اظہار ہے۔ اپنے معرکہ آرا مضمون ’انسان اور آدمی‘ میں انہوں نے روسو کے انسان اور اس کے جدید ترین مظہر روسی انسان پر گہری تنقید کی تھی لیکن اس مضمون کے بعد انہوں نے اپنا دوسرا مضمون ’آدمی اور انسان‘ لکھا جس میں اس انسان پر کڑی نکتہ چینی کی جسے امریکی ادب میں پیش کیا جارہا تھا اور صاف لکھا کہ اسٹالن کے بعد روس کی صورتحال بدل چکی ہے اور اس لئے روس میں پیدا ہونے والے ’نئے انسان‘ سے انہیں امریکی انسان کی نسبت زیادہ توقعات ہیں۔ ‘‘
سلیم احمد کی یہ رائے ان لوگوں کی یہ بہت اہم ہے جو عسکری صاحب کو محض ترقی پسندوں کا مخالف سمجھتے رہے ہیں۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ عسکری صاحب خود بھی اس تحریک کی اصلی روح سے متاثر تھے خود سلیم احمد نے یہ بات کہی ہے کہ عسکری صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ’’ میں اپنے آپ کو ۳۶ء کی تحریک سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتا۔ ان کا یہ فقرہ انہیں سمجھنے کے عمل میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ۳۶ء کی تحریک برصغیر کی سب سے بڑی ادبی تحریک سمجھی جاتی ہے جو اپنی روح کے اعتبار سے باغیوں کی تحریک تھی۔ ذاتی طور پر میں اسے سرسیّد تحریک سے بھی بڑی تحریک سمجھتا ہوں کیونکہ سرسید تحریک کی مرکزی روح صرف اصلاحی ہے۔ سرسید تحریک اپنے زمانے کے سیاسی، معاشی، اخلاقی اور تہذیبی حالات سے غیر مطمئن تھی مگر اسے صرف اس حد تک بدلنا چاہتی تھی جس حد تک اس کی بنیادوں پر کوئی ضرب نہ پڑے۔ اس تحریک کے لوگوں کا رویہ ایسے لوگوں کا رویہ تھا جو اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی مرمت کرنا چاہتے ہیں یا اس پر نیا رنگ و روغن پھیرنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس ۳۶ء کی تحریک پرانے مکان کو ڈھا کر نئی بنیادوں پر نئی تعمیر کے خواب لائی تھی۔ یہ ان باغیوں کی تحریک تھی جو بنائے کہنہ کی تخریب تمام میں یقین رکھتے تھے اور اس کے بعد پھر نئی عمارت بنانا چاہتے تھے لیکن یہ بات اہم ہونے کے باوجود پوری صداقت نہیں ہے۔ ایک بہت بڑا بنیادی فرق اور ہے جو سرسید تحریک اور ۳۶ء کی تحریک کو مختلف بناتا ہے۔ سرسید تحریک معاشرے کو بدلنے میں ادب کو استعمال کرنے کے باوجود دوسرے عناصر پر زیادہ بھروسہ کرتی تھی۔ مثلاً تعلیم یا سیاسی سرگرمیاں لیکن ۳۶ء کی تحریک کا بنیادی یقین یہ تھا کہ معاشرے کو ادب کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تحریک خارجی تبدیلیوں سے زیادہ انسانوں کی باطنی تبدیلیوں میں یقین رکھتی تھی اور اندر کے انقلاب کو حقیقی انقلاب سمجھتی تھی۔ ان معنوں میں اس تحریک کامقصد صرف ایک خاص قسم کا ادب پیدا کرنا نہیں تھا بلکہ وہ ادب کے ذریعے ایک نیا طرزِ زندگی تخلیق کرنا چاہتی تھی۔ کم از کم عسکری صاحب اس تحریک کا یہی مطلب سمجھتے تھے اور ان کی ساری زندگی اسی طرز زندگی کو برقرار رکھنے، اس کی قوت میں اضافہ کرنے، اس کی معنویت کو دریافت کرنے اور بار بار دریافت کرتے رہنے میں گزری۔ چنانچہ بعض خارجی اسباب کی بنا پر جب اس تحریک کی روح میں کوئی کمزوری نمایاں ہوئی یا اس سے انحراف کا عمل ظاہر ہونا شروع ہوا تو سب سے پہلے عسکری صاحب ہی نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ جو لوگ ترقی پسند وں سے عسکری صاحب کے اختلاف اور تنازع کو اچھی طرح نہیں سمجھتے، وہ صرف یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ عسکری صاحب نے ترقی پسندوں کی مخالفت کی۔
اپنے مضمون’ ’مارکسیت اور ادبی منصوبہ بندی‘‘ میں عسکری صاحب نے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’انسانی تاریخ اور انسانی تفکر کی تاریخ میں مارکسیت کی جو حیثیت اور اہمیت ہے، وہ اتنی مسلّم ہے کہ بار بار اس کا ذکر کرنا بھی تضیع اوقات ہے۔ تعصب کی دشواریاں حائل نہ ہوں تو یہ بات مان لینے میں کسی کو عذر نہ ہوگا کہ مارکسیت نے انسانی زندگی کو سمجھنے کی کوشش ایک ایسے طریقے سے کی ہے جو بڑی حد تک قرین قیاس اور مربوط ہے اور جس نے چند قابل قدر رجحانات کو آگے بڑھانے میں مدد کی ہے۔‘‘
دراصل عسکری صاحب جیسے لوگ ادب کے جھوٹے پیغمبروں کی طرح محض مخالفت اور تنازعے پر اکتفا نہیں کرتے ان کا کام تو تخلیقی جوہر اور ایک نئی امید کی تلاش ہے۔ تخلیقی قوتوں سے بھرپور دنیا عسکری صاحب کا ایک ایسا خواب تھا جس نے انہیں ہمیشہ مضطرب رکھا وہ ۳۶ء کے باغیوں کی طرح دنیا کو بدلنے کے لئے ’’انقلاب ‘‘ کا نعرہ تو نہیں لگاتے لیکن ان کی روح ادب کے ذریعہ ایک بڑی تبدیلی کی خواہش مند ضرور تھی سلیم احمد نے درست لکھاہے :
۳۶ء کی تحریک نے اپنے زمانے کے ’حاضر و موجود‘ سے بغاوت اور زندگی کے غیر تخلیقی اسلوب کی نفی کی جو بنیاد ڈالی تھی اس کے جھوٹے پیغمبروں کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ حالات سے ابتدائی پسپائی کے بعد اُن میں سے بیشتر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں اور اس ماحول سے سمجھوتہ کرچکے ہیں جس کو رد کرنے کے لئے اس تحریک نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا تھا۔ دراصل اس تحریک نے صرف تین ہی سچے پیغمبر پیدا کئے۔ میراجی، منٹو اور عسکر ی اور پورا معاشرہ گواہ ہے کہ اپنی زندگی میں انہوں نے سیاسی اور معاشی سمجھوتے اور سودے بازی کی ہر شکل کو رد کیا۔ اور سچے باغیوں کی موت مرے ۔ میرا جی کے خون آلود چہرے کو عسکری صاحب نے بیسویں صدی کے سچے فنکار کا چہرہ کہا تھا اور منٹو کو تو وہ اپنے قلب و روح کی سب سے بڑی قوت سمجھتے تھے۔ انہوں نے منٹو کی موت کا ایسا غم کیا جیسے کوئی اپنے ضمیر کی موت کا ماتم کرتا ہے لیکن عسکری صاحب کا ضمیر میرا جی اور منٹو کے بعد بھی زندہ رہا اور وہ آخر تک اس انقلاب کا بروئے کار لانے کی کوشش کرتے رہے جس انقلاب کے بغیر ادب تو کیا انسانیت بھی زندہ نہیں رہتی۔
**
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.