اردو ادب ادبی سماجیات کے آئینے میں
ایک زمانہ تھا شاعری پیشہ تھی اور معزز اور مقتدر پیشہ۔ شاعر درباروں میں جگہ پاتے، امیروں اور منصب داروں کے ایوان میں عزت سے بٹھائے جاتے، قصیدے لکھتے اور انعام پاتے، وظیفے مقرر کیے جاتے اور ملک الشعرا قرار پاتے۔ جو اس پیشے کو قبول نہ کرتے وہ قلندری کی زندگی گزارتے اور عزت پاتے۔ مجموعی طور پر ۱۹ویں صدی تک اردو کے شاعر کی تصویر صوفی، عاشق اور قلندر کی تھی، جسے مال و دولت اتنی عزیز نہ تھی جتنی اپنی آزاد روی اور دل زدگی عزیز تھی۔ شاید اس کی آمدنی کا کوئی مستقل اور مستحکم وسیلہ نہ تھا۔ دو چار کے علاوہ کوئی فارغ البالی کا خواب نہ دیکھ سکتا تھا گویا شاعری خطرناک انداز میں زندہ رہنے کا سودا تھا۔
مثالیں بہت سی ہیں۔ دکن کے اِنے گنے شاعروں سے قطع نظر دربار سے انشاؔ اور مصحفیؔ سے قبل کوئی بھی باقاعدگی سے وابستہ نہیں رہا اور ان سے قبل حاتمؔ ہو یا آبروؔ، نظیرؔ ہوں یا میرؔ، سوداؔ ہوں یا دردؔ، میر اثر ہوں یا میر حسن، کوئی بھی درباری شاعر نہیں رہا اور ان سب کی مجموعی تصویر وہی صوفی، عاشق اور قلندر ہی کی ہے۔ (باستثنائے چند) یہ بھی اہم بات ہے کہ یہ سب کے سب اپنے کو اہل حرفہ میں گنتے ہیں اور اشرافیہ میں شمار کرتے ہیں، شہر آشوب میں مختلف پیشہ وروں اور اہل حرفہ ہی کے ساتھ اپنا ذکر کرتے ہیں۔ میرؔ نے تو صاف صاف کہا ہے مگر حال سب کا یہی ہے۔
صنّاع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے
انشاؔ اور مصحفیؔ دربار سے وابستہ ہوئے اور شاعری دربار داری بنی تو شاعر کی تصویر بھی مصاحب اور دنیا دار صاحب منصب امیر کی ہونے لگی وہ یا تو محفل کی رونق بن گیا وہ خوار و زبوں صوفی، عاشق اور قلندر نہیں رہا۔ اس کی امیج اب بیک زباں داں اور ماہر کلام کی ہوگئی۔ ناسخؔ سے لے کر (باستثنائے آتش و انیس) اسیر تک یہی صورت ہے۔ شاعر اب گویا تہذیب کا امین اور زبان کا پارکھ بن گیا گو اب بھی وہ مدرسے سے باہر تھا مگر ا س کا رشتہ تخلیق اور احساس سے زیادہ زبان کی تراش خراش اور مجلسی شائستگی سے زیادہ گہرا ہوگیا۔
۱۸۵۷ء کے بعد انگریزی کا عمل دخل ہوا تو لکھنے والے کی امیج پھر بدلی۔ پرانے طرز کی امیج نے ہندوستانی نوابوں اور راجاؤں کے دربار کا رخ کیا۔ داغؔ، امیرؔ، جلالؔ، تسلیم اس کی نشانی تھے نئے دور میں شاعری گہنا گئی اور نثر کا بول بالا ہوا۔ لکھنے والے افسر، معلم یا مختلف محکمہ ہائے تعلیمات کے منشی اور محرر ہوگئے۔ میر امن اور فورٹ ولیم کے لکھنے والے تو خیر باقاعدہ منشی تھے ہی انجمن پنجاب میں محمد حسین آزادؔ کا اور دہلی میں حالیؔ کا بھی یہی منصب تھا۔
سرسید، نذیر احمد اور سید علی بلگرامی وغیرہ سرکاری نوکریوں کی طرف چلے گئے۔ گویا شاعری کی قلندری والی امیج ختم ہوئی اور شاعر (اور مصنف) کے لیے دنیاوی کاروبار میں کامیابی اور کامرانی بھی ضروری سمجھی جانے لگی۔ ۱۹ویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے صحافی، وکیل اور اسکولوں، کالجوں میں پڑھانے والے معلمین بھی اس میدان میں آگئے۔ مثلاً ناول نگاروں میں سرشارؔ اور شررؔ صحافی تھے۔ مرزا رسواؔ اور رسیر اور بعد کو معلم، پریم چند بھی شروع میں معلم ہی رہے۔ چکبست اور اقبال وکیل تھے۔ اس دور تک عورتیں یا تو ادب کے میدان میں آئی ہی نہیں تھیں یا کم سے کم ان کو ادبی استناد حاصل نہیں ہوا تھا یا ان کا حلقہ خواتین تک محدود تھا۔ محمدی بیگم، نذر سجاد حیدر اور ’’روشنک آرابیگم‘‘ کی مصنفہ اور آمنہ نازلی بعد کو مقبول ہوئیں۔ اردو ناول میں ہندو ناول نگاروں کی کمی نہیں تھی اور وہ سرشار اور پریم چند جیسے اہم اور مقتدر تھے، مگر پریم چند سے پہلے کسی اردو ناول نگار نے ہندو کردار پیش نہیں کیے تھے، یہی حال افسانے کا بھی تھا۔ سجاد حیدر او رنیاز فتح پوری تک کے افسانوں میں کوئی ہندو کردار نہیں ہے اور قصے صرف شہر کے اعلا متوسط طبقے تک محدود ہیں۔
پھر آزادی کی تحریک چھڑی تو قیدو بند کا قصہ شروع ہوا۔ ادیب اور شاعر کی امیج پھر بدلنے لگی۔ اب مرفہہ الحالی یا سرکار دربار میں عزت یا سرکاری نوکریوں کے اعتبار سے جانچے جانے کے بجائے شاعر کو حق گوئی، بے باکی، قلندری، دنیاوی کامرانی سے بے نیازی اور آزاد روی کا پیکر سمجھا جانے لگا چنانچہ حسرتؔ موہانی، مولانا محمد علی، ابو الکلام آزاد ؔ، ظفر علی خاں جیسے مصنف مثالی کردار بن گئے۔ انہیں میں نوکری چھوڑ کر پریم چند بھی شامل ہوگئے۔ وکیلوں کے آزادانہ پیشے سے سرعبد القادر، سرسلیمان، سرتیج بہادر سپرو وغیرہ شریک ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بعد میں جج اور جسٹس بھی مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں مشاعروں کا چلن ہوا اور شعرا کی سرپرستی ریاستوں اورر جواڑوں کی بجائے عوام کے ہاتھ آگئی۔
اب ایسے شاعروں کا تصور بھی ممکن ہوگیا جو مشاعروں کی کمائی سے زندہ رہ سکیں (جیسے جگر مرادآبادی) ادبی رسالے نکلنے لگے اور ان رسائل اور اخبارات کی مدد سے بھی ادیب کو روٹی روزی ملنے لگی (مثلاً نیاز فتح پوری اور دیوان سنگھ مفتون) صیغۂ تعلیم سے بھی کچھ لوگ وابستہ ہوئے اور تھیٹر، فلم اور ریڈیو کی مقبولیت بڑھنے کے بعد اردو کے شاعر وں اور ادیبوں کی اچھی خاصی تعداد ان اداروں سے بھی وابستہ ہوئی۔ (مثلاً آغا حشر کاشمیری، آرزو لکھنویاور سعادت حسن منٹو وغیرہ)
۱۹۳۶ء میں ترقی پسند تحریک نے ادب کا رشتہ قومی آزادی کی جدوجہد سے ملا دیا۔ اشتراکی نقطۂ نظر مقبول ہو اتو سیاسی طور پر سرگرم کل وقتی کارکنوں کی صف میں بھی مخدو م محی الدین، سردار جعفری، کیفی، مجروح جیسے نام نظر آنے لگے۔ سجاد ظہیر، ڈاکٹر اشرف جیسے مقتدر مصنّفین کی زیر سرکردگی ’’نیازمانہ‘‘ کی ادارت میں ادیبوں کا اچھا خاصا حلقہ شامل ہوگیا۔ مجاز ریڈیو سے ہارڈنگ لائبریری پہنچے، جوش’کلیم‘ کی ادارت سے سرکاری رسالے ’’آج کل‘‘ کی ادات تک پہنچے، فراق الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی سے متعلق ہوگئے۔
آزادی کے کافی عرصے بعد تک تصویر کچھ یہی رہی۔ ۱۹۵۰ء تک ادیب کی تصویر باغ کی نہ سہی تو ایک آزاد منش قلندر صفت انسان کی ضرور تھی گو نقاد زیادہ تر یونیورسٹیوں سے متعلق تھے اور اکثر فنکار اور شاعر سرکاری نوکریوں سے باہر تھے، کرسی اور وردی سے بے پروا، یا تو کسی آزادانہ مشغلے جیسے وکالت، صحافت سے متعلق تھے یا پھر ریڈیو، فلم وغیرہ سے روزی کما رہے تھے۔ جگر اور جوشؔ کے زمانے سے شاعری کی تصویر میں شراب نوشی کا تصور بھی شامل ہوگیا اختر شیرانی اور مجازؔ نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اب شاعر کی تصویر کامیاب اور مرفہ الحال سرکاری افسر کی نہ تھی بلکہ ایسے خود دار اور دنیاوی کامرانی سے بے نیاز نوجوان کی تھی جس کی زندگی میں کوئی زبردست المیہ پوشیدہ ہے اور جو سماج کے ضابطوں کو ٹھکراکر باغی کی زندگی بسر کرتا ہے بقول کسی خاتون کے ’’اس سے عشق کیا جاسکتا ہے شادی نہیں کی جاسکتی۔‘‘
چنانچہ شاعروں کی کمزوریوں کو نہ صرف برداشت کیا جاتا تھا بلکہ انھیں شاعرانہ شخصیت کا لازمی حصہ سمجھا جاتا تھا۔ یہی نہیں ارباب اقتدار تک ان کی تلخ باتوں کو بھی برداشت کرلیتے تھے۔ جوشؔ ملیح آبادی کی ناز برداری وزیراعظم نہرو تک کرتے تھے۔ عام طور پر شاعر اور ادیب حکومت کے خوف یا سماج کے اندیشے کے بغیر اپنے طور پر سوچنے اور شعر کہتے کی ہمت کرسکتا تھا۔ جگر مرادآبادی نے فسادات کے زمانے میں اور اس کے بعد نئے ہندوستان میں نابرابری اور اقلیت کشی پر جو کچھ لکھا وہ اس کی مثال ہے۔
سماجی باغی اور بت شکن کی یہ تصویر میراجی، منٹو، مجاز، سے لے کر جامی اور نریش کمار شاد تک قائم رہی مگر ترقی پسند تحریک کے بکھرنے کے بعد اور نہرو حکومت کو اشتراکی حمایت حاصل ہونے کے بعد شاعر اور ادیب حکومت کی ملازمتوں کا رخ کرنے میں قباحت محسو س نہیں کرتا تھا۔ اب شاعر اور ادیب کی تصویر پھر بدلی اب اُجلے کالر، خوش، سلیقگی، ہونٹوں میں پائپ اور اِستری کلف کے کوٹ پتلون کے ساتھ اردو شاعر یا ادیب کا تصور کیا جانے لگا۔ اب جگرؔ صاحب کے بکھرے بال، مجازؔ کی واسکٹ، اختر شیرانی کی مخمور آنکھیں، حسرت موہانی کی فلاکت ماضی کی تصویریں بن چکی ہیں۔
اس طرح ہم دور جدید تک پہنچے۔ ظاہر ہے کہ آج کے شاعر، ادیب سیکڑوں ہیں اور سب کے بارے میں معلومات میسر نہیں ہیں ابھی تک ا سکی کوشش بھی نہیں کی گئی ہے کہ ان کے خاندان‘‘ پیشے اور کاروبار اور زندگی کی دیگر تفصیلات کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔ اس لیے موجودہ حالات میں صرف چند ادیبوں ہی کے بارے میں کچھ کہنا ممکن ہے۔ زیر نظر جائزے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل ادیبوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ (تقدیم و تاخیر کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔)
شاعروں میں، اختر الایمان، فراق، جذبی، مجروح، کیفی، تاباں، ساغر، ملاّ، سردارجعفری، وجد، شاذتمکنت، وحید اختر، وامق، ندا فاضلی، بشیر بدر، شہریار، شہاب جعفری، جگن ناتھ آزاد، زبیر رضوی، مخمور سعیدی، پرکاش فکری، حسن نعیم، اعزازافضل، دوراں، عمیق، کلیم عاجز، کمار پاشی، کرشن موہن، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، مظہر امام، فضا، حرمت الاکرام، علیم صبا نویدی، رفعت سروش، ممتازمرزا، عزیز قیسی۔
مشاعرے کے شاعروں میں:۔ ملک زادہ منظور احمد، ایاز جھانسوی، وسیم بریلوی، شمسی مینائی، بیکل اتساہی، نازش، والی آسی، قمرمرادآبادی، کیف بھوپالی، داراب وفا۔
افسانہ نگاروں میں، بیدی، عصمت، حیات اللہ انصاری، قاضی عبد الستار، واجدہ تبسم، جیلانی بانو، غیاث احمد گدّی، قرۃ العین حیدر، اقبال مجید، اقبال متین، عابدسہیل، سلام بن رزاق، رام لال، رتن سنگھ، کنور سین، جوگندر پال، بلراج مین را، آمنہ ابو الحسن، احمد یوسف، عائشہ، حسین الحق، قمر احسن، سریندر پرکاش۔
مزاح نگاروں میں، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین، خواجہ عبد الغفور، فکر تونسوی، مجیب سہانوی، نریندر لوتھر، بھارت چند کھنہ، وجاہت علی سندیلوی، شفیقہ فرحت، احمد جمال پاشا۔
نقادوں میں، فراق، کلیم الدین احمد، آل احمد سرور، اسلوب احمد انصاری، وحید اختر، باقر مہدی، شمس الرحمن فاروقی، وہاب اشرفی، سید محمد عقیل، قمر رئیس، شمیم حنفی، وارث علوی، ابن فرید، محمود ہاشمی، دیونندر اِسّر، مغنی تبسم، اصغر علی انجینئر، حامدی کاشمیری، شکیل الرحمن، عصمت جاوید، ظ۔ انصاری، سردار جعفری۔
محققین میں، قاضی عبد الودود، مالک رام، انصار اللہ نظر، رشید حسن خاں، گیان چند جین، نثار احمد فاروقی، حنیف نقوی، عابد پشاوری، عبد الستار دلوی، غلام عمر خاں۔
ظاہر ہے کہ یہ فہرست مختصر ہے اوربہت سے اہم نام چھوٹ گئے ہیں، مگراس مختصر فہرست میں شامل ناموں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا جاسکتا۔ وقت اور جگہ کی کمی کے علاوہ ایک بڑا سبب ان کے بارے میں معلومات کی کمی بھی ہے۔ بہر حال جو کچھ معلومات میسر ہیں، ان کی روشنی میں ان مصنّفین کے بارے میں تین حیثیتوں سے غور کیا جائے گا۔ پہلے ان کے پس منظر کا ذکر ہوگا، پھر ان کے پیشوں یا ذرائع روزگار کا اور آخر میں ادبی سرپرستی اور وسائل اظہار کا۔ تشنگی کا احساس قدم قدم پر ستائے گا، مگر ایک حقیر ابتدا بھی بعض اوقات جامع مباحث کے انتظار سے بہتر ہوتی ہے۔
۱۔ خاندانی پس منظر
مصنّفین کی فہرست پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی دو باتوں کا تو اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان میں اکثر مصنّفین بڑے شہروں کے رہنے والے نہیں ہیں، گو اب وہ بڑے شہروں میں رہتے ہیں، مگر ان کے خاندان کا پشتینی رشتہ اکثر قصبات سے ہے اور بعض چھوٹے شہروں سے آئے ہیں۔ یہاں بڑے شہروں سے مراد دہلی، بمبئی، مدراس، کلکتہ، پٹنہ، لکھنؤ، حیدرآباد وغیرہ ہیں۔ گاؤں سے تعلق رکھنے والے ادیب بہت کم ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان میں اکثر مصنفین جاگیردارانہ گھرانوں کے چشم چراغ ہیں، گو خود انہوں نے اس نظام سے وابستگی تر ک کر کے دوسرے روزگار یا ملازمت میں لگ گئے، مگر جاگیردارانہ نظام کے اثرات ان کے یہاں نمایاں ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ شاعروں میں اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے مکتبی تعلیم حاصل کی تھی اور انگریزی کے بجائے عربی فارسی (یا طب) وغیرہ میں دستگاہ بہم پہنچائی تھی بعد کو خود اپنی کوشش سے یا حالات کی تبدیلی کی وجہ سے انھوں نے انگریزی اور بعض دوسری مغربی زبانوں اور ادبیات کے مطالعے میں دستگاہ حاصل کرلی۔ مثال کے طور پر سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری، بیکل، نازش، ظ۔ انصاری، رشید حسن خاں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
ان تینوں باتوں کو ذرا پھیلائیے تو بہت دلچسپ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ قصبوں سے وابستگی نے ہمیں عموماً دیہات سے دور رکھا ہے۔ پریم چند کے بعد ہم دیہات کی طرف گئے بھی ہیں تو تشبیہوں کی تلاش میں یا پھر جاگیردارانہ ہمدردیوں کے ساتھ۔ دیہات کی تصویر کشی قرۃ العین حیدر اور قاضی عبد الستار ہی نے کی ہے اور دونوں کی ہمدردیاں مٹتے ہوئے جاگیردارانہ طبقے کے ساتھ ہیں۔ (شاید اس لیے بھی کہ ان کا تعلق بھی اسی طبقے سے تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو کے غیر مسلم افسانہ نگاروں کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ بیدی، رام لال، رتن سنگھ جو گندر پال، بلراج مین را، سریندر پرکاش وغیرہ کے یہاں جاگیردارانہ سماج اور اس کی اقدار بہت کم نظر آئیں گی اور اس سے جذباتی وابستگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ صنعتی نظام اور شہری زندگی کے تشنّج کا زیادہ ذکر کرتے ہیں) اس سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اردو شاعری اور بالخصوص افسانوی ادب کی لَے اتنی ماتمی کیوں رہی ہے اور ہمارے ناول اور افسانے کااکثر و بیش تر موضوع زمین داری کا خاتمہ ہندوستان کاالمیہ اور بیتی ہوئی قبل تقسیم کی تہذیب کامرثیہ کیوں رہا ہے۔ جب کہ ہندی میں ان تینوں موضوعات پر تین سے زیادہ ناول نہیں لکھے گئے۔ ہمارے یاں آنچلک (علاقائی تہذیبوں کی عکاسی کرنے والے) ناول او افسانے کیوں نہیں لکھے گئے اور ہمارے یہاں نئے صنعتی ہندوستان کے حالات اور اس کی نئی آویزشوں سے اتنی بے تعلق کیوں ہے؟
یہ سب باتیں شکایت کے طور پر نہیں کہی جاسکتیں محض گزارش احوال واقعی ہے وجہ اس کی ایک یہ بھی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات اور اردو کے ساتھ ۳۵؍ سالہ ظلم نے اردو کے عام ادیب کو ماضی سے زیادہ وابستہ کردیا اور حال سے کسی قدر بیزار یا ناامید بنادیا۔
۲۔ پیشے
پیشے او آمدنی کے اعتبار سے یہ سبھی مصنّفین (چند کو چھوڑ کر) متوسط طبقے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مزدور یا کسان نہیں ہے نہ کوئی کروڑ پتی سیٹھ ہے نہ کوئی ایسا اقتدار والا ہے کہ اس کے زیر نگیں کوئی علاقہ ہو۔ یہ شاید اس وجہ سے بھی ہے کہ ابھی تک تعلیم ہمارے نچلے طبقوں تک پہنچی ہی نہیں ہے او ادب پر ہنوز متوسط طبقے ہی کا قبضہ ہے۔ اردو کے اپنے مخصوص مسائل کی وجہ سے اردو کے مصنف کے سامنے صرف قلم کے سہارے زندہ رہنے کا امکان نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ مشغلے یا تفریح کے طور پر تصنیف و تالیف کو بھی لگائے رکھتے ہیں اور دوسرے پیشوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی یہ بھی آمدنی کا ضمنی ذریعہ بن جاتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کے لئے اس کا امکان زیاد ہے۔ (جیلانی بانو اور واجدہ تبسم) اس ضمن میں سب سے زیادہ کامیابی مشاعروں والے شاعر کو ملتی ہے۔ گو ایسے بہت کم شاعر ہیں جو صرف اس کو ذریعہ معاش بناتے ہوں، مگر مشاعروں سے خاصی آمدنی ممکن ہے۔
ادیبوں کی بہت بڑی تعداد تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے۔ مثلاً اوپر دی ہوئی فہرست کے ۳۷ شاعروں میں سے ۱۳ کا تعلق یونیورسٹیوں یا کالجوں سے ہے۔ دوسری فہرست میں ۱۰ میں سے ۳ کا تعلق تدریس سے ہے۔ افسانہ نگاروں میں ۲۳ میں سے صرف ۲ کا تعلق یونیورسٹی سے ہے۔ مزاح نگاروں میں بھی ۱۰ میں صرف ۲ مدرس ہیں جب کہ ۲۲ نقادوں میں سے ۱۶ کا تعلق یونیورسٹیوں سے ہے یا رہا ہے۔ ۱۰ محققین میں سے ۷ مدرس ہیں۔ پیشوں کے اعتبار سے صورت حال یہ ہے،
اس فہرست سے اندازہ ہوگا کہ زیادہ تر مصنفین کا تعلق تدریس یا فلم، ٹی وی یا ریڈیو سے دیگر مشاغل میں انجینئر سے لے کر انکم ٹیکس آفیسر تک سبھی قسم کے پیشے میں (اصغر علی انجینئر اور کرشن موہن) بعض احباب ایسے بھی ہیں جنہیں ملازمت یا کاروبار پسند نہیں، انھوں نے اپنے معاشی وسائل دوسرے ذریعوں سے نکال لیے ہیں۔ اس گوشوارے سے یہ بھی واضح ہوا ہوگا کہ تدریس، صحافت، ریڈیو ٹی وی، فلم اور سرکاری ملازمتوں کا مرکز چونکہ شہر ہیں اس لئے ہمارے ادیبوں کا تعلق بھی دیہات کا قصبے کے مقابلے میں شہر سے ہوگیا اور وہ اپنے قصباتی مراکز سے دور ہوگئے۔ یہاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر وہ للچائی ہوئی نظروں سے کبھی اپنے سے اوپر والے طبقے کی چمک دمک کی زندگی کو دیکھتے ہیں کبھی غصہ ہوتے ہیں تو نچلے طبقے کی کشمکش سے اسے ڈراتے ہیں اور نچلے طبقے کی نظروں سے مستقبل کے حسین چہرے کی ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں اگر اس سے مایوسی ہوتی ہے تو کبھی مذہب اور روحانیت میں پناہ لیتے ہیں کبھی حسیت زدگی اور اعصابیت میں کبھی فلسفہ طرازی میں۔ پناہ گاہیں الگ الگ ہیں۔
۳۔ ادبی سرپرستی
سرپرستی کی اصطلاح ادبی سماجیات میں Patronage کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ سرپرستی محض سرکار دربار ہی کی نہیں ہوتی، جمہوری دور میں ان سبھی اداروں کی ہوتی ہے جو ادیب کے لئے دریعہ معاش فراہم کرتے ہیں۔ اردو کو آزاد ہندوستان میں مناسب مقام نہیں ملا۔ اردو تعلیم کے انتظامات ختم کردیے گئے اردو ادارے تعطل کا شکار ہوگئے۔ سرکاری دفاتر ے س اردو کو دیس نکالا ملا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی اور اردو نفع بخش کاروبار نہیں رہی۔ کاروباریوں نے اس طرف توجہ نہیں کی اور ہندی کے بر خلاف اردو میں طباعت اور اشاعت کے کاروبار پر بڑے بیوپاری کا قبضہ نہیں ہوا۔
اردو میں نہ نو بھارت ٹائمز، دن مان، ساریکا اور دھرم یگ جیسے بڑے کاروباری پرچے نکلے، نہ مدھیہ پردیش اکادمی اور سنٹرل ہندی ڈائریکٹوریٹ کی طرح یہاں کوئی ایسے ادارے تھے جو اردو کی معیار ادبی کتابوں کو تھوک میں خرید لیں۔ ہمارے یہاں اگر کوئی کاروباری ادارہ تھا تو رسالہ ’شمع‘ تھا یا تھوڑی بہت مدد ترقی اردو بورڈ یا حال میں مختلف ریاستوں کی اردو اکادمیوں سے مل سکتی تھی۔
اس معاملے کا المناک پہلو یہ ہے کہ اردو میں کتابوں کی اشاعت اور بِکری کا کام کاروباری سطح پر کیا ہی نہیں گیا۔ زیادہ تر اس پورے کاروبار کی نوعیت شوقیہ قسم کی ہے۔ مکتبہ جامعہ جیسے پرانے اور مستند ادارے تک کا یہی حال ہے نہ کبھی مارکیٹ کا کوئی جائزہ لیا گیا نہ باقاعدہ اشاعت گھر موجود ہیں، جن کے باقاعدہ منصوبے ہوں، نہ اردو بُک اسٹالوں اور کتب فروشوں کی کوئی باقاعدہ تنظیم ہے نہ ان کی کوئی مکمل فہرست موجود ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اردو میں تصنیف و تالیف عام طور پر گھاٹے کا سودا ہے اور اس کی بڑی وجہ اس کی غیر کاروباری تنظیم یا عدم تنظیم ہے۔
اردو کے شاعروں اور ادیبوں کے معاشی وسائل عام طور پر مندرجہ ذیل ہیں،
۱۔ مشاعرے
۲۔ کتابوں کی اشاعت
۳۔ رسالوں میں مضامین کا اشاعت
۴۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے یا دیگر پروگرام
۵۔ ساہتیہ اکادمی اور دیگر اکادمیوں کے انعامات
۶۔ فلم
۷۔ تراجم، نیشنل بک ٹرسٹ، پی آئی بی وغیرہ کے لئے تراجم
۸۔ صحافت
مشاعرے پر الگ مقالہ شریک اشاعت ہے۔
کتابوں اور رسالوں کے سلسلے میں صورت یہ ہے کہ اس کاروبار کی مناسب تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے اردو کتابوں کی بکر ی محدود ہے، گو ہندوستان کی ۵۰ یونیورسٹیوں میں بی اے اور ایم اے کی سطح پر اردو کی تعلیم کا انتظام ہے اور اس کام میں ۴۰۰ سے زیادہ اساتذہ اور کم سے کم چار ہزار طلبہ مصروف ہیں جن میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلبہ کی تعداد کئی سو ہے مگر ان کے لئے کتابیں فراہم کرنے کا انتظام اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس کے باوجود اردو کتابوں کی بکری کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ سب سے زیادہ بِکری مذہبی ادب کی ہوتی ہے اور تقریباً اسی قدر کھپت فلمی، جاسوسی اور رومانی ادب کی ہے۔ رسالوں کے سلسلے میں بھی (یہی صورت شمع، بیسویں صدی، روبی اورمختلف ادبی اورنیم ادبی ڈائجسٹ مثلاً ہما، ہدیٰ، شبستان خاصے مقبول ہیں۔ یہی حال جاسوسی دنیا اور رومانی دنیا کا ہے۔)
کتابوں کی بکری کے سلسلے میں صورتحال یہ ہے کہ تصنیف و تالیف سے مصنف کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اگر کچھ ملتا ہے تو ناشر کو یا پھر اس بُک سیلر کو جو اکثر صورتوں میں نادہند ہوتا ہے اور ناشر سے بہت بڑا کمیشن حاصل کرلینے کے باجود اصل رقم بھی ناشر یا مصنف کو نہیں دیتا۔ مصنف محض صاحب کتاب بننے کے شوق میں خود کتاب چھپواتا ہے اور دوستوں کے حرف تحسین سے تسکین حاصل کرلیتا ہے، جب کہ کتب فروش اس سے تھوڑی بہت منفعت بھی حاصل کرلیتا ہے۔ صاحب تصنیف کو کچھ رقم ملتی ہے تو وہ ساہتیہ اکادمی یا اردو اکادمیوں کے انعامات ہی کی رقم ہوتی ہے۔
رسالے کی صورت حال یہ ہے کہ مندرجہ ذیل رسالوں میں گیارہ رسالے سرکاری یا نیم سرکاری ہیں۔ (آج کل، نیا دور، تعمیر، زبان و ادب، نَورس، نخلستان، پاسبان، مغربی بنگال، دلّی، تعمیر، ہریانہ، خبرنامہ) سات کاروباری رسالے ہیں۔ (شمع، بیسویں صدی، شبستان، ہما، ہدی، جاسوسی دنیا، رومانی دنیا) ۹ ماہوار رسالوں میں شب خون، شاعر، سب رس، عصری آگہی، سہیل، آستانہ، منادی، معارف، برہان ہیں جو اکثر گنڈے دار نکلتے ہیں۔ سات سہ ماہی یا شش ماہی رسالوں میں کے علاوہ کوئی بھی مضامین کا معاوضہ نہیں دیتا اور یہ معاوضہ بھی بہت معمولی ہوتی ہے۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی گنجائش بہت محدود ہے گو اردوکے بعض اچھے لکھنے والے ریڈیو اورٹیلی ویژن سے متعلق ہیں۔ (قیصر قلندر، عمیق، زبیر رضوی، کمال احمد صدیقی، انیس رفیع، اقبال مجید وغیرہ ریڈیو سے اورمظہر امام، منظور الامین، فاروق ناز کی ٹیلی ویژن سے متعلق ہیں) مگر پھربھی اردو پروگراموں کے کم ہونے اور مناسب تربیت اورٹریننگ نہ ہونے کی بنا پر عام لکھنے والوں کو اس کا فیض نہیں پہنچتا۔ فلم تعلقات کے بھروسے روزگار دے سکتا ہے۔ مجروح اور ساحر کے بعد کی نسل میں عزیز قیسی، ندا فاضلی اور دو ایک نام ہی اور ہیں جو اس میدان میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ تراجم کا بھی یہی حال ہے۔ صحافت نے اچھے ادیب پیدا کیے مگر ان دونوں صحافت سے متعلق ہونے والے ادیب بہت کم ہیں۔
اردو اکادمیاں
اردو اکادمیاں اب خیر سے ۱۰ ہوگئی ہیں۔ جموں وکشمیر اکادمی تو اردو کا کام نہ کرنے کے برابر کرتی ہے۔ باقی دلی، راجستھان، کرناٹک، مدھیہ پردیش کی اردو اکادمیوں کی جو رقمیں مل رہی ہیں وہ بہت کم ہیں اور ان پر سرکاری گرفت زیاد ہے۔ اترپردیش، بہار، آندھرا پردیش، مغربی بنگال اور مہاراشٹر کی اردو اکادمیاں البتہ فعال ہیں۔ لیکن عام طور پر اکادمیوں کا نظم و نسق ایسے ارباب اختیار کے ہاتھوں میں ہے جنہیں یاتو اردو کے معاملات سے سرے سے واقفیت ہی نہیں ہے اور وہ اردو کو محض سیاسی ہتھیار کے طورپر ہی استعمال کرنا جانتے ہیں یا پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کو اردو کے لئے کام کرنے کی فرصت نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مشاعرے ہوں یا اکادمیاں سب جگہ ادبی سرپرستی کے وسیلے عام طور پر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہیں اردوکے کام سے دلچسپی یا واقفیت یا اس کی فرصت نہیں ہے۔
اکادمیاں سارے کام کر نہیں سکتیں، یوں بھی حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے ان کے اختیارات محدود ہیں۔ اردو دنیا پچھلے ۳۵برسوں کی ناانصافیوں کو یک قلم ختم کرنا چاہتی ہے، اس لیے اکادمیوں سے کڑھتی ہے، بیزاری اور خفگی کا اظہار کرتی ہے جو بلا وجہ نہیں مگرنامناسب ہے۔ اکادمیاں صرف انعام دے سکتی ہیں، معذور ادیبوں کی مدد کرسکتی ہیں، اشاعت کتب کے لئے روپیہ اوراردو کے طالب علموں کو وظیفے دے سکتی ہیں، وہ اردو کو دوسری سرکاری زبان نہیں بنا سکتیں نہ اردوکی تعلیم کا انتظام کرسکتی ہیں اورنہ دفتر اور کچہریوں میں اس کا عمل دخل کراسکتی ہیں اورجب کبھی کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو وزیروں کی تقریریں اور سرکاری دفتر والوں کی لیت و لعل اسے ختم کردیتی ہے۔ یہی حال ترقی اردوبورڈ کا بھی ہے اور ان نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کا بھی ہے جنہیں اردو دنیا نے بڑے ارمانوں سے بنایا تھا اور اب انہیں صبر کرلیا ہے۔ انجمن ترقی اردو (ہند) تک سے بھی توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں کہ وہ تعطل کا شکار ہے۔
اس صورت حال کو سامنے رکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اردو کے لکھنے والوں کے لئے تصنیف و تالیف سنجیدہ ذریعہ معاش نہیں ہے محض مشغلہ بن کر رہ گئی ہے۔ انھیں علم ہے کہ اس سے اگر روپیہ حاصل کرنا ہے تو سطحی قسم کی سرسری کاوشیں۔ مثلاً مشاعرے میں ’چلنے‘ والی پست سطح کی غزل لکھنا، مناسب ہے۔ سنجیدہ غور و فکر، محنت اور ریاضت غیر ضروری ہے۔ اگر تصنیف و تالیف کا مقصد محض اکادمی کا انعام لینا یا ہم چشموں میں عزت و شہرت حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے بھی دیدہ ریزی اورمغز کاوی ضروری نہیں، جوڑ توڑ سعی سفارش زیادہ ضروری ہے اور اگر خود اپنا قد بڑا نہ کرسکیں تو دوسروں کی ٹانگ کھینچنا زیادہ مفید ہوگا۔
اس پس منظر میں اردو مصنفین کی صفوں میں چھائی ہوئی سازشوں، غیبت اور خوشامد، شکر رنجیوں اوربیزاری اور کلبیت کا کچھ جواز تو ملتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اکادمیوں میں انعام کے لئے پیش ہونے والی کتابوں میں سب سے زیادہ تعداد بے رنگ شعری مجموعوں کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد افسانوں کے مجموعے ہوتے ہیں۔ اِکاّ دُکاّ ناول باقی تراجم وہ بھی معمولی۔ سنجیدہ علمی ادبی کتابیں شاذ ہی نظر آتی ہیں اور شعری اور افسانوی مجموعوں میں بھی وزن و وقار، ریاضت و محنت کے آثار تقریباً ناپید ہوتے ہیں۔
مجموعی طور پر اردو کے ادیب عدم وابستگی کا شکار نظر آتے ہیں۔ وہ نہ تو اربابِ اقتدار کا حصہ بن کرملک کے اندر تہذیبی اورعمرانی تبدیلیوں کا فعال اورمحرک حصہ بنے ہیں کہ ان کے لب تبدیلی کے رجز اورنئی قدروں کے نغمے گاسکیں، نہ وہ ان انقلابی طاقتوں سے خود کو ہم آہنگ پاتے ہیں جن کی نظریں مستقبل پر ہیں، اس عدم وابستگی میں لسانی اورتہذیبی اقلیت کے مسائل کو بھی دخل ہے اور ان سب عناصر سے مل کر ایک نئی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ جو ملک کی عام فضا کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنی مخصوص پیچیدگیوں اور الجھنوں سے خالی نہیں۔
اترپردیش اردو اکادمی نے ۱۹۸۱ء میں جن ۸۶ کتابوں کو انعام دیا ان کی تقسیم سے اردو میں تصنیف و تالیف کی مختلف شقوں کی مقبولیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
۱۔ تنقید و تحقیق و تدوین۲۸
۲۔ شاعری۲۴
۳۔ مختصر افسانے ۹
۴۔ ڈراما۴
۵۔ طنز و مزاح۳
۶۔ مختلف علوم و فنون۴
۷۔ بچوں کا ادب۸
۸۔ سوانحے، خاکے، انشائیے ۳
۹۔ تراجم۳
کل ۸۶
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.