اردو ادب میں طنز و ظرافت
(۱)
زندگی درد و غم کا دوسرا نام ہے۔ ہماری زندگی ہی ہماری مصیبتوں کا پیش خیمہ ہے۔ ہم اس دنیا میں ستائے جانے کے لئے لائے گئے ہیں۔ انسان کمزور ہے اور اس کا ماحول لاپروا۔ انسان حساس ہے اس لئے اس کادل بہ آسانی رنج و الم کا نشانہ ہو سکتا ہے۔ اس کے دل میں فطرت نے ایسی امنگیں، ایسی تمنائیں ڈال دی ہیں کہ وہ فطری طور پر ان امنگوں، ان تمناؤں کو عملی جامہ پہنانے پر مجبور ہوجاتاہے، لیکن جہاں اس کی تمناؤں نے عملی صورت اختیار کی وہیں اس کی تکلیفوں کی داستان شروع ہو گئی کیونکہ جس دنیا میں اسے لایا گیا ہے وہ اس کی تمناؤں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔ یہ دنیا، نہ اس کی تمناؤں سے آگاہ ہے اور نہ اس سے آگاہ ہونا چاہتی ہے۔ کمزور لیکن حساس انسان اس بے حس لیکن طاقتور دنیا سے ٹکراتا ہے اور تکلیفیں سہتا ہے۔
یہ زندگی کی حقیقت ہے لیکن یہ پوری حقیقت نہیں۔ اگر یہی پوری حقیقت ہوتی تو شاید زندگی دشوار ہو جاتی۔ زندگی میں ایسے واقعات، ایسے مناظر، ایسے لمحے بھی آتے ہیں جب انسان اس تلخ حقیقت کو وقتی طور پر بھول جاتا ہے۔ پس منظر میں ہمیشہ یہی تلخ حقیقت مہیب دیو کی طرح موجود رہتی ہے لیکن پیش منظر میں اکثر ایسے واقعات، ایسے مناظر، ایسے متبسم لمحے بھی ملتے ہیں کہ انسان اس خوفناک اور تاریک پس منظر کے باوجود بھی مسکرا اٹھتا ہے یا قہقہے بلند کرتا ہے۔ یہ واقعات، مناظر اور لمحے بھی زندگی کے اجزا ہیں اور جو حضرات انہیں پس پشت ڈال دیتے ہیں وہ یونان کے گریاں فلسفی کی طرح زندگی سے پوری واقفیت نہیں رکھتے۔
کہا گیا ہے کہ انسان ہنسنے والا جانور ہے۔ یہ پوری حقیقت نہیں لیکن اس مقولے میں انسان کی ایک اہم خصوصیت کا انکشاف ہے۔ فطرت نے انسان کو ہنسی کا مادہ عطا کیا ہے اور ہنسی مختلف وجوہ کی بنا پر آتی ہے۔ یہاں ہنسی کی ماہیت اور اس کے اسباب پر روشنی ڈالنے کا موقع نہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ ہم ہنستے ہیں جیسے ہم غصہ کرتے ہیں، نفرت یا محبت کرتے ہیں، جاگتے یا سوتے ہیں۔ اور ہنسی صحت کے لئے ضروری ہے۔ اگر ہنسی کا مادہ انسان سے سلب کر لیا جائے، اگر وہ اسباب نیست و نابود ہو جائیں جن کی وجہ سے ہم ہنستے ہیں تو پھر انسان ممکن ہے کہ فرشتہ ہو جائے لیکن وہ انسان باقی نہ رہےگا۔ غالباً فرشتے ہنستے نہیں اور ہنسی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جہاں ہر شے مکمل، موزوں و متناسب ہو وہاں ہنسی کا گزر نہیں ہو سکتا۔ ہنسی عموماً عدم تکمیل، بے ڈھنگے پن کے احساس کا نتیجہ ہے۔ جسے اس کا حساس نہیں یعنی جسے ہنسی نہیں آتی اسے ہم انسان شمار نہیں کریں گے۔
ادب میں انسان کے تمام دماغی اوصاف، ا س کے سارے حواس کو برروئے کار لایا جاتا ہے۔ ہنسی بھی ایک انسانی خصوصیت اور زندگی کی ناتمامی کا نتیجہ ہے۔ اس لئے ادب میں اس کا بھی وجود ناگزیر ہے۔ ادب زندگی، زندگی کے ہر شعبے، زندگی کے نشیب وفراز، زندگی کے جملہ محاسن و معائب کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہنسی بھی انسانی زندگی کا ایک اہم عنصر ہے اس لئے ادب ہنسی کا بھی ترجمان ہے، زندگی کے تمسخر انگیز پہلو کی عکاسی ادب میں اسی قدر ضروری ہے جس قدر زندگی کے رقت انگیز پہلو کی۔ زندگی میں روشنی بھی ہے تاریکی بھی، خوشی بھی ہے اور غم بھی۔ ہم روتے بھی ہیں اور ہنستے بھی ہیں۔ ادب اس روشنی اور تاریکی، اس غم اور خوشی، اس ہنسی اور آنسو کا آئینہ ہے۔
عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ ادب کا وہ حصہ جو ہنسی کا ترجمان ہے زیادہ اہم نہیں۔ یہ محض تفریح طبع کا ذریعہ ہے اور بس۔ کہا جاتا ہے کہ انسان ہمیشہ سنجیدہ متین، زندگی بسر نہیں کر سکتا ہے۔ وہ ہر وقت اہم، پیچیدہ اور گہرے امور میں دلچسپی نہیں لے سکتا۔ اس لئے اسے ضرورت محسوس ہوتی ہے تفریح طبع کی، دل بہلانے کی، دماغ میں شگفتگی پیدا کرنے کی۔ جس طرح ہم روزانہ کام کی تھکن، یک رنگی، دشواری سے وقتی نجات حاصل کرنے کے لئے سنیما چلے جاتے ہیں، بجنسہ اسی طرح ہم سنجیدہ، مشکل تحریروں کے مطالعہ سے تنگ آ جاتے ہیں تو ان ہلکی لطیف تحریروں کی طرف رجوع کرتے ہیں جن سے سنجیدہ تحریروں کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر غلط ہے۔
موضوع سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ، بوجھل ہو یا ہلکا، دشوار ہو یاآسان، پیچیدہ ہو یا سیدھا سادہ، غرض ہر قسم کا موضوع محض خام مواد ہے جس سے ادیب مصرف لیتا ہے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں ادیب ہے تو وہ ہر قسم کے موضوع پر اپنے آرٹ کے سارے ساز و سامان صرف کرتا ہے اور پڑھنے والا دونوں قسم کی تحریروں، سنجیدہ اور مزاحیہ تحریروں کو ایک نظرسے دیکھتا ہے۔ موضوع مزاحیہ سہی لیکن اگر ادیب نے اپنے موضوع پر بحث کرنے میں صنعت کارانہ سنجیدگی سے کام لیا ہے تو پڑھنے والا بھی سنجیدگی کے ساتھ پڑھتا ہے۔ موضوع سنجیدہ یا غیر سنجیدہ ہو سکتا ہے لیکن آرٹ ہمیشہ سنجیدہ ہوتا ہے۔ اردو انشا پرداز اس حقیقت سے واقف نہیں۔
میں نے کہا ہے کہ ہنسی عدم تکمیل اور بےڈھنگے پن کے احساس کا نتیجہ ہے۔ جس دنیا میں ہم سانس لیتے ہیں وہ تکمیل سے خالی ہے۔ انسان اور انسانی فطرت میں بھی یہی ناتمامی ہے اس لئے ہنسی کے مواقع کی کمی نہیں۔ دنیا اور زندگی کی ناتمامی اور ناموزونیت مسلم ہے۔ ہم محض اس ناتمامی کے احساس کا اظہار کر سکتے ہیں یا اس احساس کے ساتھ ساتھ اس نقص کو دور کرنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ دوسرے احساس میں پہلے احساس کا وجود ضروری ہے لیکن پہلے احساس کے ساتھ دوسرے احساس کا وجود لازمی نہیں۔ پہلے قسم کے احساس کا نتیجہ خالص ظرافت ہے۔ دوسرے کا نتیجہ ہے طنز اور ہجو۔
خالص ظرافت نگار کسی بے ڈھنگی شے کو دیکھ کر ہنستا ہے اور پھر دوسروں کو ہنساتا ہے۔ وہ اس نقص، خامی، بدصورتی کو دور کرنے کا خواہش مند نہیں۔ ہجوگو اس سے ایک قدم آگے بڑھتا ہے۔ اس ناقص و ناتمام منظر سے اس کا جذبۂ تکمیل حسن، موزونیت، انصاف جوش میں آتا ہے اور وہ اس جذبہ سے مجبور ہوکر اس مخصوص مذموم منظر کو اپنی ظرافت اور طنز کا نشانہ بنانا ہے۔ نظری اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ خالص ظرافت اور ہجو کی راہیں الگ الگ اور منزلیں جدا جدا ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ کرنا عموماً دشوار ہے۔
خالص ظرافت نگار ہو یا ہجو گو دونوں صناع ہیں۔ دونوں کے کارنامے تخلیقی ہوتے ہیں۔ ظرافت نگار محض کسی بے آہنگی کا مضحکہ خیز بیان نہیں کرتا۔ وہ اس بے آہنگی کی تخلیق بار دگر کرتا ہے اور اسے دلچسپ تر بنا دیتا ہے۔ اس لحاظ سے ظرافت نگار اور کسی دوسرے صناع میں بنیادی فرق نہیں۔ وہ بھی مشاہدہ سے کام لیتا ہے، اس کی آنکھیں دنیا کی زندگی کے وسیع اور بوقلموں مناظر کو دیکھتی ہیں اور ان میں ایسی چیزوں کا انتخاب کرلیتی ہیں جو اس کے مخصوص آرٹ کے لئے موزوں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے وسعتِ نظر ضروری ہے۔ وہ دنیا کے ہر گوشے، زندگی کے ہر شعبے سے واقف ہوتا ہے کیونکہ اس کا مواد ہر جگہ ہے اور اگر اسے اپنے فن کی اہمیت کا صحیح احساس ہے تو وہ کسی چیز سے قصداً احتراز نہیں کرےگا۔ وہ اپنا مواد کاوش کے ساتھ جمع کرتا ہے، اس پر غور کرتا ہے۔ مشاہدہ کی کمی یا بے رنگی کو رنگینی تخیل، رعنائی خیال کی مدد سے پورا کرتا ہے اور دیکھی ہوئی یا تصور کی ہوئی چیزوں کو صنعت کارانہ حسن و صداقت سے مزین کرتا ہے۔ اس کے دل میں اصلاح کا جذبہ موجزن نہیں ہوتا۔ وہ صناع ہے خامیٔ اصلاح نہیں۔ اس کے کارنامے بھی صحیح معنوں میں تخلیقی ہوتے ہیں۔ یہ کارنامے ہماری تفریح کا باعث ہوتے ہیں لیکن تفریح اصل مدعا نہیں۔ اس کا مقصد ایک حسین، مکمل و موزوں کانارمے کی تخلیق ہے۔ جو تفریح ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ ایک حد تک اتفاقی ہے۔
ظرافت نگار کسی مشاہدہ کو دیکھ کر مسکرا ٹھتا ہے لیکن اور کسی قسم کا جذبہ اس کے دل میں نہیں ابھرتا۔ اسی جگہ ظرافت نگار اور ہجو گو کی راہیں الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ ہجو گو بے ڈھنگے، ناقص، بدصورت مناظر کو دیکھ کر بیتاب ہو جاتا ہے۔ ناانصافی، بے رحمی ریاکاری کی مثالیں دیکھ کراس کے دل میں نفرت، غضب، حقارت اور اسی قسم کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں، اس کی ہجو میں انہی جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ وہ بھی صناع ہے، اس لئے وہ اپنے جذبات کو محض سیدھے سادھے طور پر بیان نہیں کرتا۔ وہ اپنے جذبات سے ان کی شدت کے باوجود علیحدگی اختیار کرتا ہے اور ان سے الگ تھلگ ہوکر، انہیں اپنے قابو میں لاکر ان کا صنعت کارانہ اظہار کرتا ہے اور اس صنعت کارانہ اظہار کی وجہ سے جذبات کی شدت میں کمی نہیں زیادتی ہوتی ہے۔ ہجو گو ایک بلند پایہ اخلاق کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنے بلند مقام سے انسانی کمزوریوں، خامیوں، فریب کاریوں کو اپنی طنز کا نشانہ بناتا ہے۔
لیکن ہجو گو انسان ہے اور انسانی حدود میں گھرا ہوا ہے۔ اس لئے اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر اس کی ہجووں کی ابتدا کسی ذاتی جذبہ سے ہوتی ہے لیکن اگر وہ اپنے فن کی اہمیت اور اس کی ضروریات سے آگاہ ہے تو وہ اپنے ذاتی جذبہ سے علیحدگی اختیار کرتا ہے اور اسے ایک قسم کی عالمگیری عطا کرتا ہے۔ بہر کیف ہجو گو سارے جذبات پر تصرف رکھتا ہے۔ وہ ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے۔ وہ ہمدردی، ترحم، انصاف، فیاضی کے جذبات کو ابھارتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ غصہ، بغض، حقارت کے جذبات کو بھی بھڑکاتا ہے۔ ظرافت نگار کے مقابلہ میں اس کی جذباتی دنیا زیادہ وسیع و کشادہ ہے۔
(۲)
ہجو کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں، نظم ونثر، عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں اور جو فرق ہے تو اسے ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ یعنی وزن، اگر وزن نہ ہو تو پھر ہجو یہ نظم ونثر میں تمیز ممکن نہیں۔ شاعر اور نثر نگار دونوں ہجو کے میدان میں ایک ہی مقصد لے کر گامزن ہوتے ہیں۔ دونوں کی راہیں اور منزلیں ایک ہیں۔ صرف ایک اشہبِ وزن پر سوار اور دوسرا پا پیادہ ہے۔ یہ طرز خیال غلط فہمی پر مبنی ہے۔ شعر اور نثر میں اہم اور بنیادی فرق ہے۔ وزن شعر میں ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں۔ دور حاضر میں بعض مغربی شعراء نے ثابت کر دکھایا ہے کہ وزن شعر کی لازمی خصوصیت نہیں۔ وہ ایک مخصوص صورت میں اپنے احساس شعری کی ترجمانی کرتے ہیں جسے نظم معریٰ کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی نثر کے جملہ کو وزن کے جامہ سے آراستہ کر دیا جاتا ہے تو وہ شعر کے زمرہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔
شعر ہمارے تجربات حسین وبیش قیمت تجربات کا حسین و موزوں اور کامل ترجمان ہے۔ نثر میں ہمارے خیالات کا صاف، مختصر اور بے کم و کاست اظہار ہوتا ہے۔ دونوں کی راہیں جدا جدا اور منزلیں الگ الگ ہیں جس طرح غزل یا نظم اور مقالہ میں صنفی اور بنیادی فرق ہے بجنسہ اسی طرح ہجویہ نظم اور ہجو یہ نثر میں بھی صنفی اور بنیادی فرق ہے۔ اس جگہ ایک دوسری غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ عموماً یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ہجویہ نظم میں شاعری، بلند پایہ شاعری کا وجود ممکن نہیں۔ عام گفتگو میں شاعری جذبات کی ترجمانی کا دوسرا نام ہے۔ ہجویہ نظم میں کسی شخص کے معائب یا کسی عام انسانی نقص کا طنزیہ انکشاف ہوتا ہے، اس لئے ان نظموں میں بظاہر جذبات کا (اورجذبات سے خاص قسم کے جذبات مراد ہوتے ہیں) وجود نہیں ہوتا۔ اس روایتی نقطۂ نظر میں جذبات صرف وہی ہیں جن سے غزلیں بھری پڑی ہیں۔ انہیں احساسات، مخصوص و محدود احساسات کو شعریت کا حامل سمجھا جاتا ہے جو حسن و عشق سے وابستہ ہوتے ہیں، جو بے ثباتی دنیا، موت یا زیادہ سے زیادہ وطن کی محبت، آزادی کی لگن سے سرورکار رکھتے ہیں، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہجویہ نظم جذبات کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
ہجو گو شاعر ناانصافی، بے رحمی، ظلم اور اسی قسم کے انسانی نقائص کے مشاہدہ سے متاثر ہوتا ہے اور اسی مشاہدہ سے متاثر ہوکر اس کا جذبۂ نفرت، غضب، حقارت جوش میں آتا ہے۔ انہیں جذبات کا اظہار وہ اپنی نظم میں کرتا ہے۔ اگر جذبۂ عشق ایک پر زور طاقت ہے تو جذبۂ نفرت بھی ایک طاقتور زور ہے۔ اگر کوئی حسین فطری مناظر ہمارے ذوق حسن کو بھڑکاتا ہے تو کوئی کریہہ انسانی منظر ہمارے احساسِ غضب کو برانگیخہ کرتا ہے۔ اگر معشوق کے جسمانی حسن کی تعریف میں ہم رطب اللسان ہو سکتے ہیں تو کسی شخص کے اخلاق قبیح کاحقارت آمیز انکشاف بھی کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہجویہ نظم میں بھی جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور پیمانۂ شعر میں ہر قسم کے جذبات سما سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں جس طرح غزل کے اشعار یا کسی رومانی نظم میں شدت جذبات کا وجود ہو سکتا ہے، اسی طرح ہجویہ نظم میں بھی جذبات کی شدت ہو سکتی ہے اور اگر کسی شعر یا تنظیم میں بلند پایہ شاعری ہو سکتی ہے تو پھر ہجویہ نظم میں بھی بلند پایہ شاعری کا وجود ممکن ہے۔
اردو میں ہجویہ شاعری کو زیادہ فروغ نہ ہوا۔ ریختی اور ہزلیات سے یہاں بحث نہیں۔ خالص ہجو کی طرف بہت م شعراء نے توجہ کی اور ان میں صرف دوچار ہی کم وبیش کامیاب ہوئے۔ سوداؔ کے معاصرین میں مکیں ؔ، ضاحکؔ وغیرہ نے اس میدان میں تگ و دو کی لیکن آگے نہ بڑھ سکے۔ انشاؔ، مصحفیؔ کی نوک جھونک سے دنیا واقف ہے لیکن ان کی ہجویں محض ذاتی بغض و عناد کی ترجمان تھیں اور اس قسم کی ہجووں میں بھی ان کا رتبہ بلند نہیں۔ اودھؔ پنچ کے سلسلہ میں شہبازؔ، ظریفؔ وغیرہ نے اس صنف میں طبع آزمائی کی مگر کوئی زندہ کارنامہ نہ پیش کر سکے۔ موجودہ زمانہ میں بعض ترقی پسند شعراء نے اور ان کے ہم مسلک شعرا نے طنز و ظرافت سے کام لیا۔ لیکن ان کی طنز و ظرافت محض سطحی ثابت ہوئی۔ اردو میں صرف چار شعراء ایسے ہیں جن کی ہجویہ نظمیں قابل ذکر ہیں۔ سوداؔ، اکبرؔ، اقبال اور جوشؔ۔ رشید احمد صاحب کہتے ہیں، ’’بہترین طنز کی اساسی شرط یہ ہے کہ وہ ذاتی عناد و تعصب سے پاک اور ذہن و فکر کی بے لوث برہمی یا شگفتگی کا نتیجہ ہو۔ اس معیار پر سوداؔ کی ہجویں تمام وکمال پوری نہیں اترتیں۔‘‘
یہ صحیح نہیں، ہجو گو شاعر اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر و بیشتر کسی ذاتی جذبہ عناد، بغض و تعصب سے متاثر ہوکر آمادہ ہجو گوئی ہوتا ہے۔ اس لئے عموماً ہجووں میں ذاتی عنصر کا وجود ناگزیر ہے۔ اساسی شرط یہ ہے کہ شاعر اپنے جذبہ کو عالمگیری عطا کر سکے۔ یعنی وہ اپنی شخصیت کو علیحدہ کرکے اپنے جذبۂ نفرت و غضب کو عام انسانی نقائص کے خلاف برانگیختہ کرسکے۔ مثلاً زید، عمرو، بکر یعنی کسی فرد یا سماج نے شاعر کے ساتھ ناانصافی برتی، اس ناانصافی کی وجہ سے اس کے دل میں غم و غصہ نے ہیجان برپا کیا۔ کامیاب ہجو گو شاعر اپنے جذبات کے ہیجان کو قابو میں لاتا ہے اور مخصوص واقعہ سے قطع نظر کرکے ناانصافی، عالمگیر ناانصافی کو اپنی طنز کا نشانہ بناتا ہے۔ ’’ذہن وفکر کی بے لوث برہمی‘‘ کے نمونے کم ملتے ہیں۔ شاعر انسان ہے اور اس کے جذبات ذاتی ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے ذاتی جذبات کو عالمگیر بنا سکتا ہے، لیکن جب تک وہ فرشتہ یا خدا نہ ہو جائے اس وقت تک وہ ’’ذہن و فکر کی بے لوث برہمی‘‘ کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔
ہجو گو انسان، ایک برہم انسان ہے اور اس کی برہمی بے لوث نہیں بالوث ہوتی ہے، ممکن ہے کہ اس برہمی کا سبب بظاہر نظر نہ آئے اور اس کے تحت شعور کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہو، اس لئے بہترین طنز کی اساسی شرط یہ نہیں کہ وہ ذاتی جذبہ محض ذاتی نہ رہے بلکہ عالمگیر ہو جائے۔ اگر سوداؔ کی ہجویں ناقص ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے احساسات کو قابو میں نہیں لاتے، ان سے علیحدگی اختیار نہیں کرتے اور انہیں شعلۂ تخلیق کی مدد سے ذاتی آلائشوں سے پاک نہیں کرتے۔
سوداؔ میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ایک بلند پایہ ہجو گو کے لئے ضروری ہیں۔ وہ زندہ دل اور شگفتہ طبیعت واقع ہوئے تھے۔ بقول آزادؔ ان کے دل کا کنول ہر وقت کھلا رہتا تھا، وہ خود ہنستے تھے اور دوسروں کو ہنسا سکتے تھے، لیکن اس زندہ دلی کے باوجود جب وہ برہم ہوتے تو پھر ان کی برہمی کی انتہا نہ ہوتی۔ ان کی برہمی سے ان کے معاصرین آشنا تھے اور اس سے خائف رہتے تھے کیونکہ ان کے ترکش میں طنز کے ہزاروں تیر تھے جن کی چوٹ بے پناہ تھی، لوگ ان سے خائف رہے تھے لیکن وہ کسی سے ہراساں نہ ہوتے۔ ان کا تخیل تیزرو اور بلند پرواز تھا، وہ ایک لمحہ میں بوقلموں تصویریں مرتب کر سکتے تھے۔ ایک سے ایک رنگین و مضحکہ خیز۔ ’’قصیدہ در ہجواسپ مسمّٰی بہ تضحیک روزگار‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں،
ناطاقتی کا ان کے کہاں تک کروں بیاں
فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار
مانندِ نقشِ نعل زمیں سے بجز فنا
ہرگز نہ اٹھ سکے وہ اگر بیٹھے ایک بار
ہر رات اختروں کے تئیں دانہ بوجھ کر
دیکھے ہے آسماں کی طرف ہو کے بے قرار
ہے اس قدر ضعیف کہ اڑ جائے باد سے
میخیں گر اس کی تھان کی ہوویں نہ استوار
ہے پیر اس قدر کہ جو بتلا دے اس کا سن
پہلے وہ لے کے ریگ بیاباں کرے شمار
لیکن مجھے زروئے تواریخ یاد ہے
شیطاں اسی پہ نکلا تھا جنت سے ہو سوار
مانند اسپ خانۂ شطرنج اپنے پاؤں
جز دستِ غیر کے نہیں چلتا ہے زینہار
دیکھا! سوداؔ کو کیسی سوجھتی ہے، خوب سوجھتی ہے لیکن وہ اپنے اشہبِ تخیل کی جولانی کو روکتے نہیں۔ اسی وجہ سے ان کی ہجویں رطب و یابس سے بھری پڑی ہیں اور اعتدال، تناسب کی کمی نظر آتی ہے۔ اگر ان کی سوجھ میں بوجھ کا کچھ زیادہ دخل ہوتا تو یہ ہجویں زیادہ بلند پایہ ہوج اتیں۔ ہجویہ نظموں میں جزئیات کے حسن، ان کی بو قلمونی اور موزونیت سے حسن نظم میں افزائش ہوتی ہے لیکن اگر جزئیات کی ایسی فراوانی ہو کہ نظم کا حسن صورت مستور یا ناقص ہو جائے تو یہی جزئیات عیب شمار کی جاتی ہیں۔ یہی عیب سوداؔ کی نظموں کا اہم ترین عیب ہے۔ ان نظموں میں جزئیات کی ایسی فراوانی ہے کہ گویا اشجار کی زیادتی سے جنگل نظر نہیں آتا۔
اردو شعرا اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ہر نظم کی ایک صورت ہوتی ہے جو الفاظ، نقوش، خیالات سے الگ اور بلند ہوتی ہے اور کسی نظم کی کامیابی کے لئے اس حسن صورت کا وجود لازمی ہے۔ سوداؔ اس حسن صورت سے واقف نہ تھے۔ ان کے تخیل کی سبک روی اور بلند پروازی فراوانئی جزئیات کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ان کی نظموں کو ضرورت سے زیادہ طویل اور ڈھیلی بنا دیتی ہے۔ اگر اختصار سے کام لیا جاتا تو ان کے حسن میں اضافہ ممکن تھا۔ اس فراوانی کے ساتھ سوداؔ ضرورت سے زیادہ مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ مبالغہ مشرقی شاعری کا بڑا عیب ہے لیکن مبالغہ بجائے خود کوئی بری شے نہیں۔ یہ شاعری اور دوسرے فنون کے لئے ضروری بھی ہے اور حسین بھی معلوم ہو سکتا ہے۔ ایک مغربی نقاد کہتا ہے کہ مبالغہ آرٹ کی جان ہے۔ یہ سب صحیح لیکن مبالغہ جب حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو پھر اہم ترین عیب بن جاتا ہے مثلاً اس گھوڑے کی ہجو میں یہ اشعار بھی ملتے ہیں۔
کہتا تھا کوئی ہے بُزِ کو ہی نہیں یہ اسپ
کہتا تھا کوئی ہے گاولایت کا یہ حمار
کہتا تھا کوئی مجھ سے ہوا تجھ سے کیا گناہ
کتوال نے گدھے پہ تجھے کیوں کیا سوار
اس مخمصہ میں تھا ہی کہ ناگاہ ایک روز
فتنے کو آسماں نے کیا مجھ سے پھر دوچار
دھوبی کمہار کے گدھے اس دن ہوئے تھے گم
اس ماجرے کو سن کیا دونوں نے واں گزار
ہر اک نے اس کو اپنے گدھے کا خیال کر
پکڑے تھا دھوبی کان تو کھینچے تھادم کمہار
بر پشمی اس کی دیکھ کے کرخرس کا خیال
لڑکے بھی واں تھے جمع تماشے کو بے شمار
پہلے دو شعر تک مضائقہ نہ تھا۔ یہاں جائز حد تک اس گھوڑے کی ہجو کی گئی ہے، لیکن بقیہ اشعار میں ضرورت سے زیادہ مبالغہ ہے۔ پھر ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ پہلے شعر میں بھی کہنے والے واقعی گھوڑے کو ’’بزکوہی‘‘ یا ولایت کا حمار نہیں سمجھتے۔ دوسرے شعر میں بھی کہنے والے نے محض ظرافت، اچھی ظرافت سے کام لیا ہے، لیکن بعد کے شعروں میں اس گھوڑے کو واقعی گدھا تصور کیا جاتا ہے اور پھر اسے خرس بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ مبالغہ ذوق لطیف کے لئے بے لطفی کا سبب ہوتا ہے۔ پھر یہاں تکرار بھی ضرورت سے زیادہ ہے۔ گھوڑے کو گدھے سے تشبیہ دی جا چکی ہے پھر بار بار اسی تشبیہ کی تکرار مذاق صحیح پر گراں گزرتی ہے۔ تکرار بھی سوداؔ کا ایک عام نقص ہے۔ وہ ایک ہی بات کو بار بار مختلف پیرایہ میں بیان کرتے ہیں جس سے طبیعت گھبرانے لگتی ہے۔
گھوڑے کی ہجو دلچسپ ضرور ہے لیکن دلچسپی کے باوجود بھی یہ بلند پایہ ہجویہ شاعری کی مثال نہیں۔ یہاں موضوع اہم نہیں، جذبات کی شدت بھی نہیں اور نہ مختلف عناصر کی شدت کے ساتھ آمیزش ہوئی ہے۔ غرض یہاں ایک بھی ایسا عنصر نہیں جو بلند پایہ شاعری کے لئے ضروری ہے۔ یہی کمی دوسری نظموں میں بھی نمایاں ہے۔ دوسری ہجووں میں فدویؔ، ضاحکؔ، حکیم غوثؔ، شیدی فولاد خاں کوتوال، دولت مند بخیل وغیرہ کو طنز کا شکار بنایا گیا ہے۔ ’’قصیدہ شہر آشوب‘‘ اور مخمس شہر آشوب میں سنجیدگی ومتانت کے ساتھ زیادہ اہم امور کی طرف توجہ کی گئی ہے لیکن ان سب نظموں کو پیش نظر رکھ کر بھی یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ سوداؔ کا میدان تنگ ہے۔ وہ جملہ انسانی نقائص، سماج کی ناانصافی، مختلف طبقوں اور پیشوں، کل انسانیت کو حلقہ ہجو میں داخل نہیں کرتے۔ سوداؔ میں سنجیدگی و متانت موجود تھی۔ اگر وہ سنجیدگی ومتانت کو اپنی سب نظموں میں برقرار رکھتے، اگر وہ سنجیدگی و متانت کے ساتھ اہم انسانی اور سماجی نقائص کا انکشاف روا رکھتے تو ان کی اہمیت زیادہ سے زیادہ ہوجاتی۔ بہر کیف سوداؔ نے اچھی ہجویں لکھی ہیں۔ شیدی فولاد خاں کوتوال اس طرح اپنی لاچاری کا اظہار کرتا ہے۔
خلق جب دیکھ کرکے یہ بیداد
کرتے ہیں کوتوال سے فریاد
بولے ہے وہ کہ میں بھی ہوں ناچار
گرم ہے چوٹٹوں کا اب بازار
کرتے ہیں مجھ سے اب بجاکر ڈھول
میری پگڑی کا میرے سر پر مول
یارو کچھ چل سکے ہے میرا زور
دیکھو تو ٹک کہاں کہاں ہے چور
مٹ سکے مجھ غریب سے یہ خلل
ہے امیروں کے گھر میں چور محل
دیکھئے گر بتاں کو بھی بخدا
ہاتھ میں ہے انہوں کے دزدِ حنا
کس کو ماروں میں کس کو دوں گالی
چوری کرنے سے کون ہے خالی
یہ طنز کی عمدہ مثال ہے اور یہاں طنز ظرافت کے دوش بدوش ہے،
دیکھئے گر بتاں کو بھی بخدا
ہاتھ میں ہے انہوں کے دزدحنا
سوداؔ میں ظرافت کا مادہ طنز پر غالب ہے۔ غالباً اسی ظرافت کی ہمہ گیری کی وجہ سے ان نظموں میں شدت جذبات کی کمی ہے۔ ’’مخمس شہر آشوب‘‘ کے علاوہ شاید ہی کہیں پر اثر اور شدید جذبات کی مثالیں مل سکیں۔ سوداؔ ایسے شگفتہ طبیعت واقع ہوئے تھے کہ وہ غضب، نفرت، حقارت اور اسی کے تیز وتند جذبات سے آشنا نہ تھے۔ وہ غصہ ہوتے تھے لیکن وہ ہجو لکھ کر اپنے دل کا بخار نکال لیتے تھے۔ یعنی غصہ انہیں ہجو گوئی پر آمادہ کرتا لیکن جہاں انہوں نے قلم اٹھایا، جہاں ان کا تخیل مائلِ پرواز ہوا تو پھر غصہ فرو ہو جاتا اور اس کے بدلے ان کے دماغ میں نئے نئے مضامین، انوکھے خیالات، دلچسپ، رنگین، جاذبِ نظر تصویروں کی آمد سے انہیں ایک قسم کی مسرت ہوتی اور ان کی نظم غضب کے بدلے اس مسرت کا اظہار ہوتی۔ وہ مسرت جو ایک صناع کو اپنے کارنامہ کی تخلیق میں ہوتی ہے۔ اس وجہ سے قاری بھی کبھی غضبناک اور برہم نہیں ہوتا بلکہ قوتِ ایجاد اور اس کے حسین و دلکش نتائج کو دیکھ کر مسرور ہوتا ہے۔ بہر کیف یہ مثل روز روشن ہے کہ سوداؔ کی ہجویہ شاعری کے نقائص وحدود کے باوجود بھی اردو میں اس وقت تک سوداؔ سے بہتر کوئی دوسرا ہجو گو شاعر نہیں پیدا ہوا۔
تعجب ہے کہ شعراء مابعد پر سوداؔ کا مطلق اثر نہیں ہوا۔ سودا آ کے بعد اکبرؔ کا نام آتا ہے لیکن اکبرؔ نے سوداؔ سے استفادہ نہیں کیا اور اپنے لئے ایک نئی راہ نکالی۔ وسعت اور تنوع مضامین کے لحاظ سے اکبرؔ کو سوداؔ پر افضلیت حاصل ہے لیکن اس افضلیت کا ذمہ دار اکبر کا عہد ہے۔ اس عہد کی تصویر عبدالماجد صاحب نے ان الفاظ میں کھینچی ہے، ’’اکبر جب دنیا سے روشناس ہوتے ہیں تو ان کے ملک و قوم کی یہ حالت ہے کہ غدر ۱۸۵۷ء کے فرو ہوئے چند سال گزر چکے ہیں۔ ہندوستان بیرونی مداخلت و تسلط کے شکنجہ میں پورے طور سے کسا ہوا ہے۔ مسلمانوں کی قوم خصوصیت کے ساتھ اپنی شامتِ اعمال کے نتائج بھگت رہی ہے۔ اسلامی اخلاق، اسلامی آداب، اسلامی شعائر، مدت ہوئی رخصت ہوچکے۔ نفاق، خود غرضی و غداری، نفس پروری اور عیش پرستی کی گرم بازاری ہے۔ اس کے مقابلہ میں برطانیہ کی عظمت کا نقش ہر دل پر بیٹھا ہوا ہے۔ داد خواہی کے لئے انگریزی عدالتیں ہیں، تعلیم کے لئے انگریزی مدرسے ہیں، سفر کے لئے انگریزی سواریاں ہیں، علاج کے لئے انگریزی شفا خانے ہیں، عزت وحکومت کے لئے انگریزی عہدے ہیں حصول معاش کے لئے انگریزی پیشے ہیں، زینت و آرائش کے لئے انگریزی مصنوعات اور انگریزی بازار ہیں۔ غرض جس طرف بھی رخ پھرتا ہے۔ حد نظر تک ایک غیرمحدود لامتناہی پرچم انگریز ی اقبال کا لہراتا ہوا نظر آتا۔
اب مغرب کا جادو ساری قوم پر چل گیا۔ علم و فضل کا معیار کمال یہ قرار پایا کہ انگریزی زبان آ جائے۔ تلفظ انگریزوں کا سا ہو جائے اور انگریزی علوم سے واقفیت ہو جائے۔ تہذیب و شائستگی کی معراج یہ ٹھہری کہ کھانا انگریزی کھایا جائے۔ لباس انگریزی پہنا جائے اور انگریزی تقلید میں خاندان مشترکہ کے وجود کو ذلیل سمجھ کر ضعیف والدین اور دوسرے اعزہ سے قطع تعلق کر لیا جائے۔ شرافت و عزت کا منتہائے خیال یہ قائم ہوا کہ ہر ممکن ذریعہ سے انگریزی عہدے حاصل کئے جائیں۔ عقل و دانش کا یہ مفہوم قرار پایا کہ انگریزی مصنف کے قول پر بے چوں و چرا ایمان لے آیا جائے اور اپنے علوم و فنون، اپنے شعائر و رسوم، اپنے عقائد و خیالات کو یکسر اوہام کالقب دے کر انگریزیت کے صنم دلربا کے قدموں پر نثار کر دیا جائے۔ یہ فضا تھی جس میں اکبرؔ نے آنکھیں کھولیں۔‘‘
یعنی وہ زمانہ تھا جب دو مختلف تمدنوں میں زبردست تصادم ہوا تھا اور اس تصادم کا نتیجہ یہ تھا کہ اسلامی تمدن کے شیرازے بکھرنے لگے تھے اور انگریزی تمدن اپنی دلفریبی کا سکہ لوگو ں پر جما رہا تھا، اپنے محاسن فراموش ہو چلے تھے اور حسنِ غیر میں نگاہیں محو تھیں۔ اکبرؔ پرانے تمدن، پرانے نظام کے پرستار تھے اور وہ نئے تمدن، نئے نظام کے نقائص کا انکشاف کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے ان کی طنز کے سامنے ایک نامحدود میدان نظر آیا کیونکہ انگریزی تمدن کا اثر زندگی کے ہر شعبے پر محیط تھا۔ سوداؔ کے سامنے یہ نامحدود میدان نہیں تھا۔ ان کے زمانے میں اسلامی تمدن کے شیرازے بکھرنے لگے تھے لیکن انگریزی تمدن نے اپنا جادو شروع نہیں کیا تھا۔ سوداؔ زیادہ سے زیادہ مٹنے والی تہذیب، لٹی ہوئی شان وشوکت، گزری ہوئی عظمت کو حسرت بھری نظر سے دیکھ سکتے تھے۔ ہر طرف زمانے میں انتشار کی صورت نمایاں تھی۔ پراگندگی ہر طرف دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور یہ پراگندگی طبیعت میں بھی موجود تھی۔
سوداؔ اسی پراگندگی کا اظہار اپنے ’’مخمس شہر آشوب‘‘ میں کرتے ہیں۔ وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہ سکتے تھے۔ ان کے زمانے میں سماج کی طنزیہ تنقید ممکن ہی نہ تھی جو اکبرؔ کا مخصوص حصہ ہے۔ اکبرؔ کا قدم پرانی تہذیب پر جما ہوا تھا اور وہ اس محفوظ ومثبت مقام سے نئی تہذیب کی بڑھتی ہوئی فوج کا مقابلہ کرتے ہیں اور تن تنہا اس یلغار کو روکنا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد میں وہ اپنی فطری طنزوظرافت سے مدد لیتے ہیں۔ ان کی تیز اور باریک بیں نگاہیں دشمن کی کمزوریوں کو دیکھ لیتی ہیں اور وہ ان کمزور کڑیوں کی اپنی طنز و ظرافت سے قطع و برید کرتے ہیں۔
مضامین کی وسعت اور تنوع مسلم ہے۔ لیکن اکبرؔ، سوداؔ کے مرتبہ تک نہیں پہنچتے کیونکہ ان کا آرٹ سوداؔ کے آرٹ سے بنیادی طور پر کم رتبہ ہے۔ سوداؔ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے نظم کا پیرایہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کی نظمیں ضرورت سے زیادہ طولانی اور ڈھیلی ہیں پھر بھی وہ نظمیں ہیں۔ اکبرؔ نہایت مختصر قطعے، رباعیوں کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ جس قسم کی ہجویں اکبرؔ لکھتے ہیں ان کے لئے یہ مختصر سانچے زیادہ موزوں ہیں۔ اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی جس قسم کے سانچے اکبرؔ کی نظموں میں ملتے ہیں وہ سانچوں کی حیثیت سے نسبتاً کم مرتبہ ہیں۔ ان سانچوں میں وسعت، پیچیدگی ممکن نہ تھی۔ ان کی تنگ دامانی ان کا اصل نقص ہے۔ اکبرؔ کا آرٹ مختصر تصویریں یا نقشے بنانے کا ہے اور یہ مختصر تصویریں حسین بھی ہیں اور مؤثر بھی اور اپنے مقصد میں کامیاب۔ ملاحظہ ہو،
وہ فقط وضع کے کشتہ ہیں نہیں قید کچھ اور
بھینس کو گون پہنا دیجئے عاشق ہو جائیں
اب نہ جنگی علم نہ جھنڈا ہے
صرف تعویذ اور گنڈا ہے
کیا ہے باقی جناب قبلۂ من
کچھ حدیثیں ہیں ایک ڈنڈا ہے
سووہ ڈنڈا بھی ہے اب ضبط پولس
ہے زباں گرم قلب ٹھنڈا ہے
تھے کیک کی فکر میں سو روٹی بھی گئی
چاہی تھی شے بڑی سو چھوٹی بھی گئی
واعظ کی نصیحتیں نہ مانیں آخر
پتلون کی تاک میں لنگوٹی بھی گئی
یہ ہے اکبرؔ کا آرٹ۔ مختصر پیمانہ میں وہ ایسی ہجویں لکھتے ہیں جو تیر بہدف ہو جاتی ہیں۔ وہ ایسے ایسے شعر تراشتے ہیں جو نشتر کی طرح دلوں میں چبھتے ہیں۔ وہ ان شعروں کے تراشنے میں کاوش سے مصرف لیتے ہیں اور جانفشانی کے ساتھ ان کی جلا، تیزی کاٹ کو حد کمال تک پہنچا دیتے ہیں۔ اکثر یہ اشعار یا مختصر قطعے دماغ میں ہیجان برپا کرتے ہیں اور ایک وسیع منظر سامنے لاکھڑا کرتے ہیں اور قاری اس منظر کے پھیلتے ہوئے دامن میں گم ہو جاتا ہے۔
تھے معزز شخص لیکن ان کی لائف کیا کہوں
گفتنی درج گزٹ، باقی جو ہے ناگفتنی
بتائیں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
لیکن نہ موت آئے تو بوڑھے بھی کیا کریں
یہ مثالیں بلا تخصیص پیش کی گئی ہیں۔ ان شعروں میں محض ایک مختصر خیال کا اظہار نہیں۔ ہر شعر گویا ایک تنگ رستہ ہے جس سے گزر کر ہم کسی وسیع میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ جو بات ان شعروں میں کہی گئی ہے وہ بجائے خود زیادہ اہم نہیں۔ اصل اہمیت ان باتوں کی ہے کہ کہنے میں نہیں آئی ہیں جنہیں قاری اپنے ذہن رسا کی مدد سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ آرٹ سوداؔ کی نظموں میں نہیں ملتا، سودا سب باتیں تفصیل سے کہہ ڈالتے ہیں۔ اکبر کچھ کہتے ہیں اور باقی خیالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن اس کچھ میں سب کچھ کہہ جاتے ہیں اور کہیں بھی خیالات مبہم اور غیرمتعین نظر نہیں آتے۔
بہر کیف سوداؔ کی نظموں میں یہ آرٹ نہیں ملتا اور نہ سوداؔ کو اس آرٹ کی ضرورت تھی۔ جن سانچوں کا استعمال سوداؔ کرتے تھے وہ تنگ داماں نہ تھے۔ ان میں ہر قسم کی وسعت، پیچیدگی، تخیل کی جولانی کی گنجائش تھی، سوداؔ کے تخیل کو وسعت کی ضرورت تھی، تنگی میں اس کا دم غالباً گھٹنے لگتا۔ اکبرؔ کا تخیل تنگی میں خوش ہے۔ اسے کسی قسم کی پریشانی محسوس نہیں ہوتی۔ مطلب یہ نہیں کہ سوداؔ کی تصویریں ہمیشہ مفصل اور وسیع پیمانہ پر ہوتی ہیں۔ مختصر اور مؤثر تصویریں یہاں بھی ملتی ہیں۔ یہاں بھی دو مصرعوں اور اکثر ایک مصرع میں ایک مرقع پیش کر دیا جاتا ہے۔ ایسا مرقع جو زندہ چلتا پھرتا نظر آتا ہے،
ضعیفی نے کی اس کی فربہی گم
گیا ہاتھی اور رہ گئی دم
کھانا آوے تو اس طرح ٹوٹے
جیسے کوئی کسی کا گھر لوٹے
بسکہ مطبخ میں سردی رہتی ہے
ناک باورچیوں کی بہتی ہے
وہ جو سودا بکے ہے لایعنی
آپ کرتا ہے دزدی معنی
اصل یہ ہے کہ سوداؔ مفصل یا مختصر اور ہمیشہ زندہ مرقعے پیش کرتے ہیں۔ اکبرؔ کسی ظرافت آمیز خیال یا کسی تیز طنز کا بیان کرتے ہیں۔ سوداؔ میں ڈراما نگاری کی قوت ہے اس لئے جو تصویریں وہ مرتب کرتے ہیں وہ جیتی جاگتی ہماری آنکھوں کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔ اکثر محض انوکھے خیال، ہنسنے اور ہنسا دینے والے نکتے، تیزوتند طعن و طنز سے ہمارے دماغ کو محظوظ کرتے ہیں اور اسے متحرک کرتے ہیں۔ یعنی اکبرؔ میں نکتہ سنجی (WIT) ہے۔ یہ مادہ سوداؔ میں بھی موجود ہے لیکن اس حد تک نہیں لیکن ظرافت میں سوداؔ اکبر سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔
اکبرؔ اگر مفصل نظمیں کامیابی کے ساتھ لکھ سکتے تو ان کی ہجویں شاعرانہ نقطہ نظر سے زیادہ بلند پایہ ہو جاتیں۔ اگر وہ اپنے خیالات کا تسلسل کے ساتھ اظہار کرتے، اگر وہ مختلف نقوش کو مجتمع کرکے ایک نقش کامل تیار کرتے، اگر ان کی نظموں میں خیالات کی باریکی پیچیدگی کے ساتھ ساتھ ہوتی، اگر وہ مختلف جذبات، شدید جذبات پر قابو رکھتے تو ریزہ خیالی کا الزام جو ان نظموں پر عائد ہوتا ہے وہ عاید نہ ہوتا۔ بہر کیف اکبرؔ کے ادبی ماحول کا لحاظ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ لائق ستائش ہے۔ سیاسی اسباب کی وجہ سے جو قابل ہجو صورتیں پیدا ہوگئی تھیں انہیں وہ چن چن کر طنز کے خنجر سے قطع کرتے ہیں۔ ان کی آنکھیں ہر چیز کو دیکھ لیتی ہیں، معمولی باتوں کو بھی وہ نہیں چھوڑتے۔ ان کی ہجو زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے، جہاں وہ مغرب کا اثر دیکھتے ہیں، جہاں انہیں مادیت کا گمراہ کن اثر نظر آتا ہے تو وہ فوراً آمادہ پیکار ہو جاتے ہیں۔
’’بے تمیزی، کورانہ تقلید، بدمذاقی اور تنگ نظری‘‘ انہیں چیزوں کے وہ مخالف تھے اور انہیں سے وہ جنگ آزما تھے۔ ان کے عہد کا مرقع ان کی ہجووں کو جمع کرکے مرتب کیا جا سکتا ہے اور یہ ان ہجووں کی تاریخی اہمیت ہے اور اسی مرقعے کے ساتھ ساتھ اس عہدے پر بے مثل انفرادی تنقید بھی ملتی ہے۔ اکبرؔ کے رنگ نے قبول عام کی سند حاصل کی، انہیں وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو شاید سوداؔ کی نظموں کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ رشید احمد صاحب لکھتے ہیں، ’’اکبر اپنے رنگ میں منفرد رہے، ان کے رنگ میں بعض لوگوں نے لکھنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔‘‘ جن لوگوں نے اس رنگ میں لکھنے کی کوشش کی ان میں سے ایک اقبالؔ بھی ہیں۔ ’’بانگ درا‘‘ کے اخیر میں جو ظریفانہ اشعار ہیں، ان میں صاف اکبرؔ کا رنگ جھلکتا ہے۔ ملاحظہ ہو،
مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں
مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں
رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے
داں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدِ نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
شیخ صاحب بھی تو پردہ کے کوئی حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے
صاف ظاہر ہے کہ ان شعروں میں اقبالؔ نے اکبرؔ کا تتبع کیا ہے، سطحی نظر غالباً ان میں اور اکبرؔ کے شعروں میں تمیز بھی نہیں کر سکتی، خیالات، طرز بیان، لب و لہجہ، اختصار، غرض سبھی خصوصیات وہی ہیں جو اکبرؔ کی ہجوؤں میں ملتی ہیں لیکن دوسرے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رنگ اقبالؔ کے لئے فطری نہ تھا اور وہ طبیعت پر زور دے کر اس قسم کے اشعار موزوں کرتے ہیں۔ اقبالؔ میں وہ شوخی، زندہ دلی، شگفتہ مزاجی نہ تھی جو روز ازل سوداؔ اور اکبرؔ کو فطرت نے ودیعت کی تھی۔ ان کا دل کنول کی طرح کھلا ہوا نہیں تھا۔ وہ سنجیدہ و متین واقع ہوئے تھے اس لئے جب وہ ہنسنے ہنسانے پر اتر آتے ہیں تو ان کی ہنسی مصنوعی معلوم ہوتی ہے اور ان کی ظرافت میں آورد کی جھلک ہوتی ہے،
وہ مس بولی ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے
مہذب ہے تواے عاشقٍ قدم باہر نہ دھر حد سے
نہ جرأت ہے نہ خنجر ہے تو قصد خودکشی کیسا
یہ مانا درد ناکامی گیا تیرا گزر حد سے
کہا میں نے کہ ’’اے جان جہاں‘‘ کچھ نقد دلوادو
کرائے پر منگالوں گا کوئی افغان سرحد سے
یہاں وہ سبکی، وہ تیزی نہیں جو اکبرؔ کے شعروں میں ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ہاتھی خوش طبعی پر آمادہ ہے۔ غالباً اقبالؔ نے خود محسوس کیا کہ اس رنگ میں وہ نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، اس لئے انہوں نے اس راہ کو جلد ترک کر دیا لیکن بعض دوسری نظموں میں جن میں وہ قصداً متانت و سنجیدگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، ان میں وہ اکثر قصداً یا بلا قصد طنز سے مصرف لیتے ہیں۔ ان نظموں میں وہ اکبرؔ یا کسی دوسرے شاعر کی تقلید نہیں کرتے بلکہ انہوں نے اپنا ایک علیحدہ رنگ قائم کر لیا۔ ’’جمیعتِ اقوام، ایک بحری قزاق اور سکندر، موسولینی، اجتہاد، جہاد، پنجابی مسلمان‘‘ یہ چند مثالیں ہیں جو ’’ضرب کلیم‘‘ میں ملتی ہیں۔ ان نظموں کو پڑھ کر ہم ہنستے نہیں زیادہ سے زیادہ متبسم ہوتے ہیں۔ اکثر تبسم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہاں طنز خالص طنز ہے، اور یہ طنز اقبالؔ کی سنجیدگی و متانت کی کامیاب ترجمان ہے۔ ’’نفسیاتی غلامی‘‘ ملاحظہ ہو،
شاعر بھی ہیں پیداعلما بھی حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ
بہترہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
ظاہر ہے کہ یہ طرز زیادہ رنگین اور متنوع نہیں لیکن یہاں کسی کی تقلید نہیں۔ یہ رنگ انفرادی ہے اور اپنی انفرادیت کی وجہ سے ہماری توجہ کا مستحق ہے۔
موجودہ زمانہ میں اکثر شعرا، سیاست مذہب اور مذہبی پیشوا، مروجہ اخلاق کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔ یہ سب براہ راست یا بالواسطہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اقبالؔ سے متاثر ہوئے ہیں لیکن جوشؔ کے علاوہ کوئی ذکر کا مستحق نہیں۔ جوشؔ میں ایک حد تک طنزوظرافت کا مادہ موجود ہے۔ مولوی، خانقاہ، شیخ، میں یہ مذہب کی بعض صورتوں کی ہجو کرتے ہیں۔ اس طرح اکثر سیاست کے میدان میں بھی جا نکلتے ہیں لیکن جوشؔ کا مخصوص عیب یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کو (اور یہ خیالات نئے، انفرادی نہیں) بہت اہم سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ ان سے اپنی شخصیت کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ یعنی ان کے خیالات ذاتی رہتے ہیں، عالمگیری اختیار نہیں کرتے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں،
الاماں! خانقاہ کی دنیا
معصیت کی گناہ کی دنیا
دوڑتا ہے یہاں ٹھہر کے سمند
یاں تو کل ہے حرص کا پابند
یاں قناعت سے عارفانِ خدا
کام لیتے ہیں سکہ سازی کا
ہر ادا میں ہے تاجرانہ کمال
ہربن موہے ایک دستِ سوال
کون بہتر ہے ایزد باری!
ان کا تقویٰ کہ میری میخواری
یہ خانقاہ کی دنیا کی ہجو نہیں، اپنی عذرداری ہے۔ قاری شاید وقتی طور پر متاثر تو ہوتا ہے لیکن ایسے اشعار کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ جوشؔ مسلسل اشعار یا نظمیں لکھتے ہیں۔ وہ اکبرؔ کی طرح مختصر قطعوں یا دو تین شعروں پر اکتفا نہیں کرتے۔ ان کی نظموں میں تکرار و مبالغہ کی وہ زیادتی نہیں جو سوداؔ کا مخصوص عیب ہے۔ یہ سب سہی لیکن جوشؔ کی ہجو یہ نظموں میں اس دلچسپی کی کمی ہے جو سوداؔ او راکبرؔ کی نظموں کی خصوصیت ہے اور دلچسپی کی کمی یا فقدان زیادہ اہم عیب شمار کیا جاتا ہے۔
اس مختصر سی تنقید سے ظاہر ہو گیا کہ اردو میں صرف اکبرؔ اور سوداؔ ہجویہ شاعری کے میدان میں مستقل عزم کے ساتھ گامزن ہوئے اور اس میدان میں آگے بڑھے لیکن یہ دونوں بھی ایسے کارنامے نہیں پیش کرسکے جن کا مغرب کے اعلیٰ ہجویہ کا رناموں کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا۔ اس میدان میں سوداؔ اور اکبرؔ کی کاوشوں کے باوجود بھی لامحدود گنجائشیں باقی ہیں اور اگر اردو شعراء اس طرف توجہ کریں تو بہت کچھ ک رسکتے ہیں، لیکن محض توجہ کافی نہیں۔ ہجو ایک فن، ایک اہم فن ہے۔ ہجویہ نظم ایک صنفِ شاعری، ایک دلچسپ اور اہم صنفِ شاعری ہے اور اس صنف میں بھی بلند پایہ شاعری ممکن ہے۔ اگر شعراء اس فن کے امکانات و مقاصد کو سمجھیں، اسے فن کی حیثیت سے برتیں اور جو خصوصیتیں ایک ہجو گو شاعر کے لئے ضروری ہے، انہیں بہم پہنچائیں تو ترقی فن ممکن ہے ورنہ نہیں۔ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ زمانے میں کوئی ایسا شاعر نظر نہیں آتا جس سے اس صنف شاعری کی ترقی کی امیدیں وابستہ ہوں۔
(۳)
اردو نثر میں طنز و ظرافت کی وہ کمی نہیں جو نظم میں ملتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ نسبتاً نثر میں طنزوظرافت کی افراط ہے اور اس افرادط میں بیسویں صدی کے مصنفین کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں ایسے حضرات کی کافی تعداد ہو گئی ہے جو طنزیہ اور ظریفانہ مضامین صرف لکھتے ہی نہیں بلکہ لکھنے پر مصر ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس قدر جلد ممکن ہو اس کمی کے الزام سے اردو کے دامن کو پاک کر دیا جائے۔ ان کے قلم سے مضامین کا سیلاب جاری ہے، وہ اس کا لحاظ نہیں کرتے کہ یہ مضامین معیاری ہیں یا نہیں۔ وہ کیفیت کو کمیت پر قربان کر دینے کے لئے تیار ہیں۔ بہرکیف ان مصنفین اور انشا پردازوں کو تین گروپ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلے گروپ میں وہ انشا پردازہیں جن کا نصب العین خالص ظرافت ہے اور جو ہنسنے ہنسانے کے علاوہ کوئی دوسرا اندرونی مدعا نہیں رکھتے اور اگر رکھتے بھی ہیں تو اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ دوسرا گروپ پُرمقصد ہے جو نقائص کو مٹانا چاہتا ہے یا کم سے کم ان نقائص کو دیکھ کر برافروختہ ہو جاتا ہے۔ اس گروپ کے انشا پرداز کا جذبۂ غضب جوش میں آتا ہے اور وہ اس جذبۂ غضب کی اپنی ہجووں میں ترجمانی کرتا ہے۔ اس قسم کے انشا پرداز خالص طنز کے عوض ظرافت اور طنز، زیادہ تر طنز سے مصرف لیتے ہیں۔ ہنسنا ہنسانا ان کا نصب العین نہیں ہوتا لیکن اکثر وہ اس میں بھی کامیاب ہوتے ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد کسی نقص کو رفع کرنا یا اپنے جذبۂ نفرت، غضب و حقارت کی ترجمانی ہے۔ تیسرا گروپ وہ ہے جس کی ظرافت کا فلسفیانہ رنگ ہوتا ہے۔ یہاں مقصد ظرافت نہیں بلکہ اپنے فلسفۂ زندگی کی یا ان مشاہدوں کی جن پر اس فلسفہ کی بنا ہے، ظرافت آمیز نقاشی ہے۔
(۱) پہلے گروپ میں سب سے پہلا نام غالبؔ کا ہے۔ غالبؔ کی طرز تحریر کی خصوصیتوں کے بارے میں حالیؔ لکھتے ہیں، ’’وہ چیز جس نے ان کے مکاتبات کو ناول اور ڈرامے سے زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے وہ شوخیٔ تحریر ہے، جو اکتساب یا مشق و مہارت یا پیروی و تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ ہم دیکھتے ہیں بعض لوگوں نے خط و کتابت میں مرزا کی روش پر چلنے کا ارادہ کیا ہے اور اپنے مکاتبات کی بنیاد بذلہ سنجی وظرافت پر رکھنی چاہی ہے مگر ان کی اور مرزا کی تحریر میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو اصل اور نقل یا روپ اور بہروپ میں ہوتا ہے۔ مرزا کی طبیعت میں شوخی ایسی بھری ہوئی تھی جیسے ستار کے تار میں سُر بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور قوت متخیلہ جو شاعری اور ظرافت کی خلاق ہے، اس کو مرزا کے دماغ سے وہی نسبت تھی جو قوت پرواز کو طائر کے ساتھ۔ اگرچہ مرزا کے بعد نثر اردو میں بے انتہا وسعت اور ترقی ہوئی ہے۔ علمی، اخلاق، پولٹیکل، سوشل اور ریلیجس مضامین کے لوگوں نے دریا بہادیے ہیں۔ بائیو گرافی اور ناول میں متعدد کتابیں نہایت ممتاز لکھی گئی ہیں۔ باوجود اس کے مرزا کی تحریر خط و کتابت کے محدود دائرے میں بلحاظ دلچسپی اور لطف بیان کے اب بھی اپنا نظیر نہیں رکھتی۔‘‘
میں تو یہ کہوں گا کہ مرزا کی تحریر صرف خط و کتابت کے محدود دائرے ہی میں اپنا نظیر نہیں رکھتی بلکہ اس وقت تک بھی کوئی اردو انشا پرداز بلحاظ دلچسپی اور لطف بیان کے غالبؔ کی تحریر کی مثال نہیں پیش کر سکا۔ یہ صحیح ہے کہ مرزا کے بعد نثر اردو میں بے انتہا وسعت اور ترقی ہوئی ہے۔ علمی، اخلاقی، پولٹیکل، سوشل اور ریلیجس مضامین کے لوگوں نے دریا بہا دیے ہیں۔ بائیو گرافی اور ناول میں بھی متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ غالبؔ کی نثر ہر قسم کے موضوعات کے لئے موزوں و مناسب نہیں، اس کا دائرہ کسی حد تک محدود ہے اور یہ امر بھی مسلم ہے کہ اکثر غالبؔ اپنے خطوط میں مسجع عبارت لکھنے کا التزام کرتے ہیں لیکن ان سب باتوں کو تسلیم کرنے کے بعد یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ابھی تک اردو میں جو خالص ظرافت کے نمونے، ایسے نمونے جو ادبی معیار پر بھی پورے اتریں، نظر آتے ہیں وہ غالب کے معیار سے بہتر کہاں، اس معیار کی گرد کو بھی نہیں پاتے۔
خصوصاً موجودہ زمانے میں اس طرف توجہ کی گئی ہے اور متعدد مصنفین اس میدان میں اترے اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی غالبؔ کی بلند مرتبت شخصیت کا حامل نہیں۔ کسی کا تخیل بھی غالب کے تخیل کی باریکی، تیزی، زور بلند پروازی کو نہیں پہنچتا۔ ان کی ذہنیت میں وہ گہرائی اور پختگی نہیں جو غالبؔ کی ذہنیت کی نمایاں خصوصیت ہے۔ کہیں غالبؔ کی شوخی، رنگینی، بے ساختگی، بوقلمونی، قوت ایجاد کی مثال بھی نہیں ملتی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کی انشا ادبی معیار کے لحاظ سے غالبؔ کی معیار کو نہیں پہنچتی۔
غالب کی زندگی میں ان کی وہ قدر نہ ہوئی جس کے وہ مستحق تھے اگرچہ وہ عسرت و تنگدستی میں زندگی بسر نہ کرتے تھے لیکن دنیا کی دولت و حشمت سے انہیں اس قدر میسر نہ تھا جتنا وہ چاہتے تھے۔ پھر بھی ان کی طبیعت میں غضب کا ابھار تھا جو کبھی انہیں نچلے نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔ ان کی طبیعت کا ابھار ان کے ہر ہر لفظ، ہر ہر جملے سے ٹپکتا ہے۔ یہی چیز ہے جو اور کہیں نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ رنج و افسردگی کے بیان میں بھی وہی ابھار ہے۔ اصل یہ ہے کہ ظرافت ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ جہاں قلم اٹھایا اور ظرافت کے پھول جھڑنے لگے۔
’’میاں کس حال میں، کس خیال میں ہو، کل شام میرن صاحب روانہ ہوئے۔ یہاں ان کی سسرال میں قصے کیا کیا نہ ہوئے۔ ساس اور سالیوں اور بی بی نے آنسوؤں کے دریا بہا دیے۔ خوشدامن صاحبہ بلائیں لیتی ہیں۔ سالیاں کھڑی ہوئی دعائیں دیتی ہیں۔ بی بی مانند صورتِ دیوار چپ، جی چاہتا ہے چیخنے کو مگر ناچار چپ۔ وہ تو غنیمت تھا کہ شہر ویران، نہ جان نہ پہچان ورنہ ہمسایہ میں قیامت برپا ہو جاتی۔ ہر ایک نیک بخت اپنے گھر سے دوڑی آئی۔ امام ضامن علیہ السلام کی نیاز کا روپیہ بازو پر باندھا۔ ۵۰ روپے خرچ راہ دئے مگر ایسا جانتا ہوں کہ میرنؔ صاحب اپنے جدکی نیاز کا روپیہ راہ ہی میں اپنے بازو سے کھول لیں گے اور تم سے صرف پانچ روپے ظاہر کریں گے۔ اب سچ جھوٹ تم پرکھل جائےگا۔‘‘
یہاں صرف ظرافت موجود نہیں بلکہ گویا غالبؔ نے ایک زندہ سین پیش کیا ہے۔ ڈرامہ نگاری کی قوت غالبؔ میں موجود تھی۔ وہ محض کسی شے، کسی واقعہ، کسی سین کا بیان ہی نہیں کرتے بلکہ اسے نظر کے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں۔ پوری تصویر صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس کی قسم کی مثالیں ہر جگہ ملتی ہیں۔ شوخی سے تو خطوط بھرے پڑے ہیں۔
’’دھوپ بہت تیز ہے۔ روزہ رکھتا ہوں مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں۔ کبھی پانی پی لیا، کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا بھی کھا لیا۔ یہاں کے لوگ عجیب فہم رکھتے ہیں۔ میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تو روزہ نہیں رکھتا، یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور بات ہے۔‘‘
اس شوخی کے ساتھ متانت و سنجیدگی بھی موجود ہے، لیکن اس میں بھی اپنی انفرادیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مثلاً جب یوسف مرزا کو ان کے باپ اور ان کے بیٹے کی تعزیت میں خط لکھتے ہیں تو اس میں لہجہ سنجیدہ و متین ہو جاتا ہے اور الفاظ میں ایک خاص قسم کا اثر پایا جاتا ہے۔ شوخی و بذلہ سنجی سے وہ قطع نظر کرتے ہیں، تکلفات سے یک قلم کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور سیدھے سادھے مؤثر پیرایہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان مثالوں اور ان جیسی مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ صرف ہنسنے ہنسانے پر قادر نہ تھے، وہ رونے رلانے کی بھی قدرت رکھتے تھے لیکن اس طرف انہوں نے زیادہ توجہ نہ کی۔ غالباً ان کی شوخ طبیعت اور ان کا فلسفہ ’’مصری کی مکھی بنو، شہد کی نہ بنو۔‘‘ دونوں مانع آئے ورنہ اس قسم کی عبارت میں بھی بے مثل ہوتے۔
’’ناتوانی زور پر ہے، بڑھاپے نے نکما کر دیا ہے۔ ضعف، سستی، کاہلی، گرانجانی رکاب میں پاؤں ہے باگ پر ہاتھ ہے۔ بڑا سفر دور دراز در پیش ہے۔ زاد راہ موجود نہیں۔ خالی ہاتھ جاتا ہوں مگر ناپرسیدہ بخشد یا تو خیر اور اگر باز پرس ہوئی تو دوزخ جاوید ہے اور ہم ہیں۔ ہائے کسی کا کیا اچھا شعر ہے،
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرکے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے۔‘‘
اگر اردو انشا پرداز چاہتے ہیں کہ وہ میدان ظرافت میں آگے بڑھیں، اگر ان کی خواہش ہے کہ وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ہنستی بولتی تصویریں مرتب کر سکیں، اگر ان کی تمنا ہے کہ وہ ظرافت کے ایسے نمونے پیش کریں جنہیں فنا نہ ہوتو پھر وہ اپنی راتیں اور اپنے دن غالب کے مطالعہ میں صرف کریں۔
غالبؔ کے خطوط کے بعد ’’اودھ پنج کی زعفران زار نظم ونثر‘‘ سامنے آتی ہے۔ اودھ پنج کے لکھنے والوں میں ہرقسم کے لوگ تھے۔ وہ مختلف مذاق رکھتے تھے۔ اودھ پنج کے مضامین کے متعلق چکبستؔ نے یوں اظہار خیال کیا ہے، ’’قوموں کے مذاق سلیم نے جو ظرافت کا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے ہم اودھ پنج کی ظرافت کو بحیثیت مجموعی اعلیٰ درجہ کی ظرافت نہیں کہہ سکتے۔ لطیف ظرافت اور بذلہ سنجی و تمسخر میں بہت فرق ہے۔ اگر لطیف اور پاکیزہ ظرافت کا رنگ دیکھنا ہے تو اردو زبان کے عاشق کو غالبؔ کے خطوط پر نظر ڈالنا چاہیے۔ اودھ پنج کے ظریفوں کی شوخ و طرار طبیعت کا رنگ دوسرا ہے۔ ان کے قلم سے پھبتیاں ایسی نکلتی ہیں جیسے کمان سے تیر۔ ان کا ہنسنا غالبؔ کی زیر لب مسکراہٹ سے الگ ہے۔ یہ خود بھی نہایت ہی بے تکلفی سے قہقہے لگاتے ہیں اور دوسروں کو بھی قہقہے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔‘‘
کسی کو اتفاق نہ ہو لیکن مجھے چکبست سے کامل اتفاق ہے کہ ’’اودھ پنج کی ظرافت کو بحیثیت مجموعی اعلیٰ درجہ کی ظرافت نہیں کہہ سکتے۔‘‘ بلکہ میں تو کہوں گا کہ بحیثیت مجموعی اودھ پنج کی ظرافت کو ادبی ظرافت نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ’’بذلہ سنجی و تمسخر‘‘ اور ظرافت کے ادبی مفہوم میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ جو طنز اور ظرافت اودھ پنج کے مضامین میں ملتی ہے وہ کچی، خام، ناقص اور طفلانہ ہے۔ ان مضامین کی یہ خامی نہیں کہ ان میں غالبؔ کی زیر لب مسکراہٹ نہیں ملتی۔ اس میں بھی مضائقہ نہیں کہ اودھ پنج کے ظریف خود بھی نہایت بے تکلفی سے قہقہے لگاتے ہیں اور دوسروں کو بھی قہقہے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ زیر لب مسکراہٹ اور بےتکلف قہقہہ، دونوں میں ادبی شان نمایاں ہو سکتی ہے۔ اودھ پنج نے مغربیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا چاہا تھا۔ یہ کام ایک حد تک ضروری بھی تھا اورمستحسن بھی، لیکن اودھ پنج نے جو خدمتیں انجام دیں وہ وقتی تھیں۔ ان کی اہمیت تاریخی ہے ادبی نہیں۔ اودھ پنج کی ظرافت میں ادبی شان کی نمایاں کمی ہے۔ جو ظرافت یہاں ملتی ہے وہ ادبی نہیں بازاری ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو،
’’وہ مارا۔ کیوں جی۔ تم لاکھ شور و غل مچایا کئے، ہم نے اپنی تہذیب کا لگا لگا ہی دیا۔ سڑے ہوئے کٹھل میں لگا لگانا کیسا، ہم سے کہیے تو بڑے بڑے بانس لگادیں لیکن یہ اتنی لمبی چوڑی باتیں ہی کاہے پر ہیں، ذرا ہم بھی تو سنیں، آپ نے ابھی تک سناہی نہیں، اجی بی زہرہ کا نکاح ہو گیا۔ مشتری کے بھی کوئی خریدار پیدا ہوئے ہیں۔ اب تو سب کی سب رنڈیا تھرتھرا کے بیٹھنے کو ہیں۔ خیریت سے ذرا نئی گڑھیا میں منہ دھو رکھئے۔ خدانخواستہ نہ اور رنڈیوں کو مراق نہ خفقان نہ آتو جی کی ہی طبیعت ایسی رنڈیاں گھر نہ پڑیں تو کیا کریں۔‘‘
اودھ پنج سے پہلے دور کے لکھنے والوں میں سجاد ؔ حسین، سرشارؔ، ظریفؔ، ہجرؔ، آزادؔ، شہبازؔ، برقؔ، شوقؔ، اکبرؔ کا نام خصوصیت سے لیا جاتا ہے اور اس کے دوسرے دور میں سب سے ممتازنام سید محفوظ علی صاحب کا شمار کیا جاتا ہے۔ میں خالص ظرافت کے سلسلے میں سجادؔ حسین، سرشارؔ اور محفوظؔ علی صاحب کا ذکر کافی سمجھتا ہوں۔ سجادؔ حسین اور سرشارؔ دونوں نے اردو میں غالباً پہلی مرتبہ ایک ظریف کردار پیش کیا ہے۔ حاجی بغلول اور خوجی کے کیرکٹر اردو ادب میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہی حقیقت کہ اردو ادب ان سے بہتر کیرکٹر نہ پیش کرسکا، اردو ادب کی ایک سنگین تنقید ہے۔ رشید احمد صاحب فرماتے ہیں، ’’حاجی بغلول ایک طور پر ڈکنس کے پک وک ابراڈ کا نامکمل اور ایک حیثیت سے ناقص چربہ ہے لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ حاجی بغلول اردو طنزیات اور ظرافت میں منفرد حیثیت رکھتا ہے اور اب تک اس کا جواب اردو میں کہیں نظر نہیں آیا۔‘‘
اگر کوئی شے، کسی خاص ادب میں اپنا جواب نہیں رکھتی ہو تو اس سے اس کی اہمیت اور قدروقیمت پر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ حاجی بغلول اور پک وک میں وہی فرق ہے جو ایک مدھم شمع اور آفتاب میں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ حاجی بغلول کا کیرکٹر اردو طنزیات اور ظرافت میں منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن جہاں کسی دوسرے ادب سے مقابلہ کیا، پھر اس کیرکٹر کی تہی مائیگی ظاہر ہو جاتی ہے۔ حاجی بغلول صرف ’’ایک طور پر‘‘ اور ’’ایک حیثیت سے‘‘ ہی پک وک کا مکمل اور ناقص چربہ نہیں، حاجی بغلول سراسر نامکمل اور ناقص ہے۔ اس کی اہمیت یہی ہے کہ اس سے ایک نئی راہ کھلتی ہے۔
خوجیؔ کا کردار حاجی بغلول سے بہتر ہے۔ یہاں کسی کا مکمل اور ناقص چربہ نہیں۔ یہ ایک تخلیقی کارنامہ ہے کافی رنگین اور متنوع، خوجی خود ظریف ہیں اور اس ظرافت کا سبب ہیں جو دوسروں میں ہے۔ وہ خود بھی ہنستے ہیں اور لوگوں کو ہنساتے بھی ہیں اور لوگ ان پر ہنستے بھی ہیں۔ وہ ایک منفرد ہستی رکھتے ہیں اور ان کی شخصیت مختلف عناصر سے بنی ہے۔ خوجی کا کردار کسی ایک خصوصیت یا کسی خاص طرز گفتار پر مبنی نہیں اور ان کی شخصیت ان کے گفتار وکردار سے ٹپکی پڑتی ہے۔ ان کے کردار پر دوسروں کے الفاظ اور اعمال سے مزید روشنی پڑتی ہے۔ ان کی شخصیت دوسروں کی شخصیتوں سے متصادم ہوتی ہے اور اس تصادم کی وجہ سے ان کی ہستی پر نت نئی روشنی پڑتی ہے۔ خوجیؔ کے کمالات کی فہرست مرتب کرنا ممکن نہیں۔ فرماتے ہیں،
’’سلو میاں خواجہ بدیع ہفت زبان ہے، وہ کون سی زبان ہے جس سے یہ واقف نہیں۔ فرمائیے عربی فارسی، ترکی اور فرانسیسی سب میں عبور، انگریزی زبان کا بادشاہ۔‘‘ پھر فرماتے ہیں، ’’حضرات! سنئے آپ خوب جانتے ہیں کہ عالم آدمی مستغنی ہوتا ہے اور میری استغنا سے بھی آپ خوب واقف ہیں۔ مجھے دنیا میں کسی سے دب کے چلنا شاق گزرتا ہے اور وجہ کیا کہ ہم کسی سے دب نکلیں۔ جب طمع ہمارے مزاج میں چھو نہیں گئی، لالچ سے منزلوں بھاگتے ہیں، حرص کے قریب نہیں جاتے ہیں، پھر ہمارے نزدیک بادشاہ اور وزیر اور امیر اور غریب اور مفلس سب یکساں۔‘‘ خوجی نے دنیا دیکھی ہے۔ ان کے ساتھ مختلف ومتنوع قسم کے واقعات پیش آئے ہیں، ساری دنیا نے ان کی قدر کی ہے۔ ’’مصر میں وہ اعزاز ہوا کہ سبحان اللہ، استنبول اور قسطنطنیہ میں تو وہ قدر افزائی ہوئی کہ زمانہ واقف ہے۔‘‘
ہم خوجی کے کسی اور محاسن کی قدر کریں یا نہ کریں لیکن ان کی قوتِ ایجاد کی ضرور قدر کرتے ہیں۔ ان کی قوت ایجاد بلا کی ہے۔ بات کی بات میں وہ ایک ایپک مرتب کر سکتے ہیں۔ ’’صف شکن علی شاہ‘‘ کی داستان ملاحظہ ہو، ’’حضور بات یہ ہوئی کہ غلام لب چشمۂ سارا یک پیالی میں آہستہ آہستہ افیون گھول رہاتھا کہ بس درخت کی طرف سے نظر اٹھاتا ہوں۔ نور کا عالم! یا الہٰی یہ کیا ماجرا ہے۔ یا خدا یہ کیا اسرار ہے۔ غور کرکے دیکھا تو روشنی! پہلے تو میں سمجھا کہ چنار کا درخت، مگر دم کے دم میں ہمارے حضور صف شکن پھر سے آن کر ہاتھ پر بیٹھ گئے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چھوٹا سا دریا تھا اس طرف ہم اس طرف غنیم، لب دریا مورچہ بندی ہو گئی اور گولیاں چلنے لگیں۔ دفعتاً بس خداوند میں کیا دیکھتا ہوں کہ صف شکن موجود، آتے ہی دیکھا آؤ نہ تاؤ، ایک کنکری لے کر اس زور سے پھینکی کہ ایک توپ پھٹ اور ہزار ٹکڑے ہوئی۔
’’میں مزے مزے افیون گھول رہا تھا اور افسر اور سوار اور پیادے سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے کہ پہاڑ پر سے تالیوں کی آواز آئی۔ ہیں! یا الٰہی یہ تالیاں کس نے بجائیں۔ سب کے سب پھر غور سے دیکھنے لگے۔ پیالی لبوں تک ہی لے گیا تھا کہ اوپر کو روسیوں نے باڑھ ماری۔ کوئی چار سو بندوقیں ایک ہی دفعہ سر ہوئیں اور آدھے آدمی مجروح اور مقتول ہوئے۔ مگر واہ رے میں، خدا گواہ ہے، پیالی ہاتھ سے نہ چھوٹی۔ اب سنئے کہ فوراً صف شکن علی شاہ موجود اور میرے ہاتھ پر بیٹھ کر چونچ افیون سے تر کیا اور زور سے چونچ کھولی تو دو قطرے پہاڑ تک کی خبر لائے اور پہاڑ جو پھٹا تو ارارادھوں اور لطف یہ کہ ادھر کا ایک آدمی ضائع نہ ہوا۔ بس میں نے صف شکن کا منہ چوم لیا۔ بٹیر کیا خدا جانے وہ کون چیز نایاب شے ہے۔‘‘
خوجی کے کیرکٹر میں تین کیرکٹر پہناں ہیں، خوجی جیسا وہ اپنے کو سمجھتے ہیں، خوجی جیسا انہیں ناول کے دوسرے کردار سمجھتے ہیں، خوجی جیسے وہ پڑھنے والوں کو نظر آتے ہیں۔ اس سے دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پڑھنے والا اپنے زاویۂ نظر کے ساتھ ساتھ اور دونوں زاویوں سے بھی واقف ہے۔ ان سب خوبیوں کے باوجود بھی خوجی کا کیرکٹر ناقص ہے اور یہ نقص وہی ہے جو فسانہ آزاد کا عام نقص ہے یعنی تکلف اور تکلف کا لازمی نتیجہ ضرورت سے زیادہ طوالت اور خانہ پُری۔ بقول عبدالباری آسی صاحب، ’’نگاہ خورد بین طوالت کلام کی وجہ سے ہر داستان کو لندھور بن سعدان کی داستان خیال کرنے لگتی ہے۔‘‘ بہر کیف خوجی اردو میں ایک قابل قدر کارنامہ ہے۔
سجادؔ حسین اور سرشارؔ نے زندہ کردار کی تخلیق کرنے کی کوشش، کم و بیش کامیاب کوشش کی تھی۔ سید محفوظ علی صاحب تمثیلیہ کی راہ میں قدم بڑھاتے ہیں۔ تمثیلیہ ایک مشکل فن ہے اور اس میں کامیابی نہایت دشوار ہے اس میں کامیابی کے لئے طاقتور تخیل، زبردست شخصیت اور حساس دل اور زندہ یقین کی ضرورت ہے۔ سید محفوظ علی میں یہ اوصاف موجود نہیں۔ ’’شیخ سماء اللہ صاحب کی صاحبزادیاں‘‘ تمثیلیہ کی صنف میں کوئی بلند پایہ جگہ پانے کی لائق نہیں۔ یہ ایک حد تک دلچسپ ضرور ہے لیکن اس کا حسن سطحی ہے، خیالات معمولی ہیں۔ اس میں نہ خطیبانہ ہیجان ہے اور نہ کوئی زندہ شعلہ زن حقیقت کا انکشاف۔
’’آسیہ (آہ سرد بھرکر) ہاں بہن سچ کہا، خدا کی شان، کبھی ہم اس پڑوس میں تمیز والے سمجھے جاتے تھے۔ سینا پرونا ہم جانتے تھے، کھانا پکانا ہم جانتے تھے۔ آج پھوہڑ ہم، بدتمیز ہم، گندے ہم، مگر اس کی وجہ جانتی ہوں۔ آیا پیسہ آئی مت، گیا پیسہ گئی مت، گانٹھ میں دام تو سب کریں سلام۔‘‘
جس کی نگاہوں کے سامنے تمثیلہ کی اعلیٰ مثالیں موجود ہیں وہ اس قسم کی مثال سے مرعوب و متاثر نہیں ہو سکتے۔ میں نے کہا ہے کہ یہ آرٹ نہایت دشوار ہے اور بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس آرٹ کے جاننے اور برتنے والے اردو میں موجود نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محفوظ علی صاحب نے ’’پنچانہ رنگ‘‘ کو ترک کرکے اسپکٹیٹر سے قریب ہونے کی کامیاب اور مستحسن کوشش کی۔ خواجہ حسن نظامی فرماتے ہیں، ’’نثر میں سب سے بہتر ظرافت لکھنے والے مولوی محفوظ علی صاحب بی۔ اے ساکن بدایوں ہیں۔ ان سے زیادہ نچرل اور بے ساختہ، چلبلی اور از سرتاپا مرصع ظرافت کوئی نہیں لکھتا، یا میرے علم میں نہیں ہے۔‘‘
یہ تنقید نہیں تعریف ہے اور اس تعریف میں صحت صرف اس قدر ہے کہ محفوظ علی صاحب کا لب ولہجہ اودھ پنچ کے مقابلہ میں زیادہ متین و سنجیدہ ہے۔ وہ تمسخر سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان کے قلم سے پھبتیاں نہیں نکلتیں۔ وہ نہایت بے تکے سے قہقہے نہیں لگاتے اور نہ دوسروں کو قہقہے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے سنجیدہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کے خیالات میں گہرائی نہیں اور ان کی تنقیدی قیمت نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی سنجیدگی، سبکی، لطافت، باریکی کی منافی ہے اور اکثر تو یہ ناقابلِ برداشت بے رنگی کا سبب ہو جاتی ہے۔
’’میرے تجربہ میں صاحب دین ایک مختلف المزاج و الکیفیت چیزہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک صاحب دین کامزاج کسی دوسرے صاحب دین کے مزاج کے ساتھ تو ہمیشہ گرم تر رہتا ہے مگر غیر صاحبِ دین کے ساتھ سردخشک اور غصہ ریل کے سفر کی حالت میں گرم خشک ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی دوسرے صاحب دین کے لئے چاہے وہ فہرست چندہ لے کر آئے یا دعوت چائے، ایک صاحب دین ہمیشہ سریع الفہم ہے۔ مگر غیر صاحب دین کے لئے چاہے وہ خفیف درخواست ہی لے کر آئے وہ نہایت بطی الفہم۔‘‘
محفوظ علی صاحب کے بارے میں خواجہ حسن نظامی کی رائے تسلیم کرنے کے قابل نہ تھی لیکن انہوں نے اپنی ظرافت پر نہایت جامع تنقید کی ہے، ’’میری طبیعت کی افتاد شوخی و ظرافت کے خلاف واقع ہوئی ہے۔ میں زیادہ غم و درد کے مضامین میں اپنے دل کو مائل پاتا ہوں۔ جس قدر جی کا بہاؤ دکھ کی جانب ہے سکھ کی جانب نہیں۔ مگر جناب اکبر کی ہم نشینی اور کچھ اس احساس کے سبب کہ نثر اردو میں مفید ظرافت کا رواج بڑھے، مجھ کو بھی شوق ہوا کہ اردو کے اس میدان میں طبع آزمائی کروں۔ میری ظرافت درحقیقت ظرافت نہیں ہے۔ میں نے خود اقرار کیا ہے کہ یہ اردو ہے اور لوگوں میں زندہ دلی اور لطیف نکتہ چینی کا شوق پیدا کرنے کو یہ طورمار تیار کیا ہے۔
اکثر مضامین میں جناب اکبر کا پیرایہ میرے پیش نظر ہے۔ وہ نظم کے دو جملوں میں جو بات کہتے ہیں میں نے اس کو ایک بڑے مضمون نثر میں ادا کیا ہے۔ بعض مضامین کی شوخی کھلی ہوئی، بعض کی عبارت اوپر کی سطح سے سنجیدہ معلوم ہوتی ہے مگر اثر دل پر ظرافت کا ہوتا ہے۔ دانستہ بھی ایسا کیا ہے کہ بعض شوخ مضامین کو رکاکت میں گرجانے کے اندیشہ سے متانت کی چادر اڑھا دی ہے۔ ہنسی مذاق میرا کام نہ تھا مگر میں نے محض زبان اردو کی خاطر اس میں دخل دیا ہے۔ گویا میں جانتا ہوں کہ لطافت و ظرافت جس کا نام ہے وہ ان مضامین میں نہیں ہے تاہم نہ ہونے کے مقابلے میں کچھ ہونا بہتر تھا۔‘‘
خواجہ صاحب کی ظرافت فطری نہیں اکتسابی ہے۔ وہ اپنے کو لئے دئے ہوئے ہیں۔ وہ ہمیشہ قدم سنبھل سنبھل کر رکھتے ہیں، وہ ہمیشہ اپنے دامن کو سمیٹے ہوئے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی از خود رفتہ نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ذراتصنع اور آورد کا شبہ ہوتا ہے۔ مقتول کا رقص، ’’کل میدان جنگ میں ایک مقتول تڑپتا تھا۔ میں نے اس کے سر کو زانو پر رکھا اور اس کے رقاص جسم کی بہار دیکھی، ملک الموت نے کہا اس کو میری گود میں دے دو۔ میں نے کہا ٹھہرو! اس کے رقص کی سیر تو کر لوں۔ فرشتہ بگڑا اور بولا کوئی اپنی جان سے جاتا ہے آپ کو اس میں مزا آتا ہے۔ میں نے کہا بھائی ہر قوم کا ایک رقص اور اس میں ایک لطف ہے۔ صوفی باطنی تلوار سے مجروح ہوکر ناچتا ہے اور زخمی ظاہری تیغ سے، دونوں میں ایک ادا ہے۔ مرنے والے نے کہا ناچنے کا لفظ صوفی کی توہین ہے۔ میں بولا سب مہذب ناچتے ہیں۔ بادشاہ اور بیگم تک اس لفظ پر عمل کرتے ہیں پھر صوفی کو رقص میں کیا عار ہے، تہذیب مادی ہو یا روحانی دونوں کا ایک ہی شعار ہے۔‘‘
یہ ہے خواجہ صاحب کا رنگ۔ خواجہ صاحب کی اصل اہمیت ان کی انشا ہے۔ وہ نہایت ہی آسان، سادہ، پرلطف طرز میں لکھتے ہیں۔ خصوصاً جب وہ رعایت لفظی کے دام میں نہیں جا پھنستے اور ہمیشہ سنجیدگی و متانت سے کام لیتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ اور ان کی پاکیزہ اردو سے اگر نوجوان انشاء پرداز استفادہ کریں تو بہت کچھ ترقی کر سکتے ہیں اور اپنی انشا کو بہت سے نقائص سے پاک کر سکتے ہیں۔ خواجہ صاحب کی پاکیزہ اردو کی ایک مثال ملاحظہ ہو، ایسے مثال جس میں ظرافت مطلق نہیں، ’’دیوانی اس پریم کی ہزاروں ریتیں ہیں۔ کہیں پروانہ چراغ پر آکر جل جاتا ہے، کہیں بلبل پھولوں کو گلے سے لگاتا ہے، لوہے کو مقناطیس کی محبت دی گئی ہے کہ دیکھتا ہے تو بے اختیار اس کی طرف دوڑتاہے، تنکا کہربا پر فریفتہ ہے، دیدار پاتا ہے تو لپک کر سینہ سے چمٹ جاتا ہے مگر چکوے چکوئی کی محبت یہی ہے کہ وہ جدائی کی بہار دیکھیں۔ وہ آپس میں مل نہیں سکتے، ساری عمر ترستے ہیں۔ اسی واسطے تو کہا ہے کہ چکوا چکوئی کو نہ ستاؤ کہ وہ تو خود محبت کے ستائے ہوئے جدائی کے صدمے اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘
مزاح نگار کی حیثیت سے اس وقت پطرس، رشید احمد صدیقی، شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی مرحوم کافی شہرت رکھتے ہیں۔ شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی اپنی شہرت کے باوجود بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اصل یہ ہے کہ ان دونوں کی ذہنیت ترقی کے مدارج طے کرنے کے دوران میں ایک خاص مقام پر پہنچ کر رک گئی ہے اور یہ ذہنیت وہی ہے جسے ’’انڈر گریجویٹ‘‘ ذہنیت کہتے ہیں۔ دونوں استعداد بہم پہنچانے سے پہلے مصنف بن بیٹھے۔ ان کے کارناموں کو اگر کسی طالب علم کا کارنامہ شمار کیا جائے تو لائق تحسین ہے، اس سے زیادہ وقعت دینا تنقید اور مذاق صحیح پر دانستہ ظلم کرنا ہے۔ ان کی خامی کا الزام ایک حد تک پڑھنے والوں پر بھی عائد ہوتا ہے۔ ان کے مضامین اس قدر مشہور ہوئے، ان کی اس قدر مانگ ہوئی کہ انہوں نے سمجھا کہ تصنیف کی دشواریوں پر انہوں نے کامل اختیار حاصل کر لیا ہے۔ اس لئے مزید کاوش کی ضرورت نہیں۔
دونوں کو شروع سے خرمن جمع کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی حالانکہ ان کی کھیتی میں خود رو گھاس کے سوا کچھ نہ تھا۔ انہیں لازم تھا کہ جو کچھ وہ لکھتے اسے محض مشق سمجھتے۔ لکھتے اور لکھ کر پھاڑ دیتے اور آہستہ آہستہ مطالعہ، مشاہدہ غوروفکر میں وسعت، باریکی اور گہرائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ دونوں کو سوجھتی ضرور ہے لیکن جو کچھ سوجھتی ہے وہ محض سطحی قسم کی چیز ہے۔ بذلہ سنجی اور تمسخر، لطیف ظرافت کا بدل نہیں ہو سکتے اس کے ساتھ ساتھ ان میں ترقی کی گنجائش نہیں ان کا رنگ اپنی جگہ پر پختہ ہو گیا ہے۔ دونوں کے مضامین سے ایک ایک مثال ملاحظہ ہو،
’’ہندوستان کی جہالت پر تو خیر رونا آتا ہے لیکن یورپ اور امریکہ کی تہذیب ملاحظہ فرمائیے کہ وہاں ہر معزز آدمی کی شناخت صرف یہ ہے کہ اس کے سرپر، گود میں، آگے پیچھے، ادھر یا ادھر ہانپتا ہوا زبان نکالے دم ہلاتا ہوا کتا ضرور ہے اور اگر کسی مغربی آدمی کے ساتھ کتا نہ ہو اس کے متعلق یہ بھی شبہ کیا جا سکتا ہے کہ آیا وہ آدمی بھی ہے یا نہیں اور اگر آدمی ہے تو یونہی سا ہے۔ مغربی خواتین کا یہ حال ہے کہ بغیر کتے کے ان کو لطف زندگی ہی حاصل نہیں ہوتا۔ جب تک ان کے نرم و معطر آغوش میں ایک پلا نہ دبا ہو، وہ اپنے عدم وجود کو یکساں سمجھتی ہیں اور اگر پلا دبا ہوا ہے تو اس سے ایسی محبت کرتی ہیں کہ انسان اس پر رشک کرے، اسے اس طرح چومتی چاٹتی اور دبوچتی ہیں کہ ان کے عشاق کتا بن کر نہ پیدا ہونے پر فطرت سے شاکی ہو جاتے ہیں یا کتا بن جانے کے لئے دست بدعا ہوتے ہیں۔ قدر سگ انگریز داندیا بداند اس کی میم۔‘‘
’’چودھری صاحب نے اب وہاں دہائی دینا شروع کر دی اور میں پڑے پڑے ان کی کوششوں کی داد دے رہا تھا۔ وہ چلا رہے تھے، ابے نالائق شیخ برحمتک۔ اشدۃ المن الرقص۔ ارے اخرج من الگرداب، ارے موذی ناؤ نکال۔ چکراکر وہ پھر میرے اوپر گرے۔ میں نے آنکھ کھول کر دیکھا ساری دنیا گھوم رہی تھی۔ چودھری صاحب نے پڑے پڑے دھاڑ کر کہا، ایہا الشیخ۔ ابے الو۔ ابن الالولد الخنزیر۔ قسم خدا کی۔ واللہ۔ ارے بھائی۔ شیخ ارے اشدۃ المن الرقص۔ ارے مرے۔ ابے روک۔ روک۔ ارے نکال۔ یا اللہ۔ ابے ایہا الشیخ من الموذی اخرج من الماؤ گرداب۔ نالائق۔ بدمعاش۔ واللہ بھائی شیخ۔ مگر تو بہ کیجئے، بھلا ان باتوں سے کہیں ناؤ رکنے والی تھی۔‘‘
ان مثالوں سے دونوں کی شخصیت اور ذہنیت نمایاں ہے اور دونوں کی ذہنیت ترقی کرنے سے رک گئی ہے۔ شوکت تھانوی کے سارے کارنامے پر ان کے اس مصرع سے روشنی پڑتی ہے، قدر سگ انگریز داندیا بداند اس کی میم۔ یا اس دوسرے مصرع سے، تو مشق ناز کر سارا اندھیرا میری گردن پر۔ جو شخص ایسے مصرعے موزوں کرکے سمجھے کہ اس نے ایک ظرافت کا شاہکار پیش کر دیا ہے، اسے ظرافت کے معنی سے کوئی شناسائی نہیں ہو سکتی۔ شوکت تھانوی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا نچوڑ ان مصرعوں میں ہے اور ظاہر ہے کہ یہاں وہی انڈر گریجویٹ ذہنیت ہے، جس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ یہی انڈر گریجویٹ ذہنیت اس دوسری مثال میں بھی نظر آتی ہے۔ الشذری کسی طالب علم کا شاہکار ہو سکتا ہے۔ پورے افسانے، سارے جزئیات سے مصنف کی کمزوری اور خامی ظاہر ہوتی ہے۔ جب میں اپنے طالب علموں کو کبھی کہتا ہوں کہ کوئی دلچسپ مقالہ لکھو اور اس میں جس قدر ممکن ہو طنز و ظرافت سے مصرف لو تو وہ اس قسم کی چیزیں پیش کرتے ہیں،
میں پطرس کو شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی دونوں پر ترجیح دیتا ہوں اور ترجیح دینے کی وجہ یہی ہے کہ پطرسؔ کی ذہنیت نسبتاً زیادہ پختہ ہے۔ اس میں وہ سطحیت نہیں۔ پطرس غلط اردو لکھتے ہوں، ان کی ظرافت اکتسابی ہو لیکن ان نقائص کے باوجود بھی محض اپنی شخصیت کی گہرائی کی وجہ سے شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ان کی ظرافت کی ایک اچھی مثال یہ ہے، ’’علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا۔ سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے۔ دودھ یتی ہے، بکری کو لیجئے دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔
کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آکر طرح کا ایک مصروع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں سے ایک کتے نے مطلع عرض کیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا تو ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف سے ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھئے۔ کمبخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے۔ وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ آرڈر آرڈر پکارا لیکن ایسے موقع پر پردھان کی بھی کوئی نہیں سنتا۔‘‘
یہ ایک مشاعرہ کا بیان دلچسپ بیان تھا، اب ایک دوسرا بیان بھی ملاحظہ ہو، ’’جلسہ شروع ہوا، ایک نے مصرع اٹھایا۔ سینکڑوں نے نعرہ لگایا اور ہزاروں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ مجمع کی یہ حالت ہوئی جیسے کسی کے بگڑے ہوئے منھ زور و بے لگام ریڈیوسٹ پر ماسکو سے روسی قوالی سننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خدا خدا کرکے ایک صاحب کی باری آئی جن کا لہجہ نکیرین کا اور جن کی شاعری عذاب قبر سے مشابہ تھی۔ پہلے تو پڑھنے سے اس لجاجت سے معذوری ظاہر کی جیسے پھانسی کے تختہ پر جانے سے گریز کر رہے ہیں، لیکن جب اصرار خاطر خواہ اور بےپناہ ہوا تو معلوم نہیں کدھر سے ایک رجسٹر نکالا جس پر معلوم ہوتا تھا کہ غدر کے بعد سے اب تک میونسپلٹی کے تمام اندراجات فوتی و پیدائش موجود ہیں۔ پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ مجمع سے ہنگامہ بلند ہوا، اتنے میں کسی منچلے نے بجلی کا سلسلہ بند کر دیا، دوسرے نے شامیانے کی طنابیں کاٹ دیں۔ جناب صدر سکریٹری مشاعرہ مصرع طرح سب کے سب شامیانے کے نیچے گل حکمت ہو گئے۔‘‘
جو فرق ان دنوں مثالوں میں نظر آتا ہے وہی فرق پطرسؔ اور رشید احمد صاحب میں موجود ہے۔ پطرسؔ میں وہ بے ساختگی، وہ آمد، وہ جوش نہیں جو رشید احمد صاحب میں موجود ہے۔ پطرس کی انشا بھی نسبتاً پھیکی، بے جا اکتسابی معلوم ہوتی ہے۔ رشید احمد صاحب کی یہ ایک ممتاز خصوصیت ہے کہ ان کی تحریروں میں ایک ادبی شان ہوتی ہے جو شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی اور پطرس کی تحریروں میں نظر نہیں آتی۔ مزاح نگار ایک ادیب ہے۔ اس کا کام صرف ہنسنا ہنسانا نہیں۔ وہ محض مشاہدہ اور قوت ایجاد سے کام لے کر صرف ایسے واقعے، ایسے کردار کی تخلیق نہیں کرتا جس سے بے اختیار ہنسی آ جائے۔ وہ اس واقعہ یا کردار کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالتا ہے اس لئے اسے الفاظ کی جستجو اور انتخاب میں کاوش کی ضرورت ہوتی ہے۔
کوئی واقعہ یا کردار کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو اگر اسے حسین اور موزوں الفاظ کے ذریعہ پیش نہ کیا جائے تو دنیائے ادب میں اس کی وقعت نہیں ہو سکتی۔ عموماً اردو مزاح نگار اس حقیقت کو فراموش کرتے ہیں انہیں سوجھتی ہے اور خوب سوجھتی ہے۔ لیکن جب تک ان کی سوجھ میں بوجھ اور خصوصاً ادبی حسن کی جلا نہ ہو تو پھر وہ کسی مصرف کی نہیں۔ رشید احمد صاحب کی سوجھ میں ہمیشہ بوجھ کا عنصر بھی غالب رہتا ہے اور اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ مزاح نگاری کو بھی ادب کی ایک صنف سمجھتے ہیں اس لئے اپنی تحریروں میں ادبی محاسن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے کہا تھا کہ شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی کی ذہنیت خام ہے۔ رشید احمد صاحب کی شخصیت اور ذہنیت دونوں اس الزام سے پاک ہیں۔ وہ مصنف بننے کی تمنا نہیں رکھتے۔ ان کی طبیعت میں سنجیدگی و متانت ہے، وہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور ان کی ظرافت میں خیالات کی گہرائی ہوتی ہے یعنی وہ محض اپنی ظرافت سے ہمیں محظوظ ہی نہیں کرتے بلکہ ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ قہقہہ کے بعد طبیعت اس سنجیدہ معنی کی طرف رجوع کرتی ہے جو عموماً ان کی تحریروں میں موجود رہتا ہے۔ یعنی ان کی ظرافت محض سطحی نہیں اس میں کچھ اور بھی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ان کے خیالات سے اتفاق کریں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے موضوع پر کافی غور و فکر کے بعد قلم اٹھاتے ہیں اوروہ چند واضح متعین خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں،
’’آئیے لگے ہاتھوں میں آپ کو چوری کے صحیفۂ اخلاق کا مطالعہ کرادوں۔ گو زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ دوسرے معاملات کی مانند چوری کے صحیفۂ اخلاق اور چور میں بہت بڑا تفاوت پیدا ہو گیا ہے۔ شاعروں کے مانند چوروں کی بھی بہت سی اقسام ہیں لیکن ذراتوقف فرمائیے۔ یہ ریڈیو ہے، ممکن ہے ہماری آپ کی برادری میں بعض ایسے تنگ نظر اور بے وقوف چور بھی ہوں جو میری اس حرکت پر مجھ سے ناراض ہو جائیں کہ میں نے ان کو شاعروں سے کیوں تشبیہ دی لیکن ان کے اطمینان کے لئے اقرار کرتا ہوں کہ میری نیت چوروں کی دل آزادی نہیں ہے شاعروں کی ہمت افزائی ہے، اس لئے کہ بغیر چوری کے شاعری ناممکن ہے۔ چوری کے فروغ سے شاعری کا فروغ ہوتا ہے جیسے بے روزگاری کا فروغ بیداری ہے۔ آپ تو جانتے ہوں گے کسی ملک و قوم کی بیداری کا معیار وہاں کی بےروزگاری ہے۔ غیر متمدن اقوام میں بےروزگاری نہیں پائی جاتی۔‘‘
رشید احمد صاحب کا مخصوص عیب یہ ہے کہ وہ اکثر موضوع سے بہک جاتے ہیں۔ ’’آپ معاف فرمائیں میں یقیناً موضوعِ گفتگو سے دور جا پڑاہوں۔‘‘ اس قسم کے جملے اکثر لکھتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی کمزوری کا احساس ہے، اگر یہ بہکنا ارادی ہو اور اسے جائز حدود کے اندر رکھا جائے تو یہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے لیکن رشید احمد صاحب ضرورت سے زیادہ بہک جاتے ہیں اس لئے اکثر پڑھنے والے کی طبیعت میں الجھن سی پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ بھی بسیار نویسی کے دام میں جا پھنستے ہیں۔ جو الفاظ انہوں نے عظیم بیگ چغتائی کے متعلق لکھے ہیں وہ ان پر بھی چسپاں ہوتے ہیں، ’’امید ہے کہ رسالوں کے مختلف او ربے شمار ایڈیٹر صاحبان بھی ان پر رحم فرمائیں گے کیونکہ مرزا صاحب کی مروت ان کو بسیار نویسی پر مجبور کرتی ہے اور بسیار نویسی کا دوسرا نام کم سے کم صحیفۂ ظرافت میں لغویت بھی ہے۔‘‘
بسیار نویسی کا لازمی نتیجہ ہے غور و فکر کی کمی۔ نیازؔ فتحپوری نے ٹھیک کہا ہے، ’’لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کا دماغ تھک گیا ہے اور وہ غوروتامل کی کلفت میں نہ خود مبتلا ہونا چاہتے ہیں نہ کسی کو مبتلا کرنا چاہتے تاہم کوئی نہ کوئی سنجیدہ نتیجہ ان کی تحریر سے ضرور پیدا ہوتا ہے۔‘‘ موجودہ مزاح نگاروں میں رشید احمد صاحب سب سے زیادہ فطری صلاحیت رکھتے ہیں۔ کاش وہ مختصر تحریروں کے علاوہ بسیط، پیچیدہ، زیادہ اہم ظریفانہ کارناموں کی طرف بھی توجہ کرتے!
دوسرے گروپ میں وہ ظرافت نگار آتے ہیں جن کا مقصد اصلاح ہے۔ جو بعض چیزوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں یا جو کسی خاص مشاہدہ سے متاثر ہوکر اپنے جذبۂ غضب کا اظہار کرتے ہیں۔ اس گروپ میں پنچ کے لکھنے والوں میں نواب سید محمد آزادؔ کا نام داخل ہے۔ انہوں نے نثر میں وہی کام کرنا چاہا تھا جسے اکبرؔ نے نظم میں حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ وہ بھی مغربیت کے خلاف تھے اور اس کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا چاہتے تھے لیکن اردو نثر میں اتنی ممتاز کامیابی نصیب نہیں ہوئی جتنی اکبر کو نظم میں میسر ہوئی۔ آزاد میں نہ زور تخیل ہے، نہ وہ قوت ایجاد جو اکبرؔ کا مخصوص حصہ ہے۔ ان میں وہ شوخی اور شگفتگی بھی نہیں اور ان کی طنز کے تیر اس قدر کارگر بھی نہیں ہوتے، ان کی طنز کا نمونہ یہ ہے، ’’یہاں ہوٹلوں اور مکاناتِ عام میں اکثر نوکروں کی جگہ خوبصورت طرحدار تربیت یافتہ، چست اور چالاک کمسن عورتیں ہیں اور یہی لوگ ہر قسم کے کام دن کو اور رات کو دیتی اور کرتی رہتی ہیں اور اس خوش اخلاقی اور مروت سے پیش آتی ہیں کہ آدمی ان پر جان دینے لگتا ہے۔ حضور کے سر مبارک کی قسم۔ میری تو یہ کیفیت ہے کہ بے اختیار ان کو مارے محبت اور اخلاق کے گلے سے لگا لینے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
آزادؔ میں وہ تنوع نہیں جو اکبرؔ میں نظر آتا ہے۔ ان کی طنز زندگی کے ہر رخ پر حاوی نہیں۔ اس طنز کی کاٹ گہری نہیں۔ اکبرؔ کے مقابلہ میں آزادؔ کی طنزیں سطحی معلوم ہوتی ہیں۔ جوش و ہیجان، نفرت و غضب کے محرکات بھی موجود نہیں، طرز سیدھا سادہ اور دھیما ہے، ’’میں تو یہاں پڑھنے آیا ہوں مگر کیا خاک کتابیں دیکھوں، کوئی آن، کوئی وقت، کوئی لحظہ بھی تو آئینہ دل کسی پری وش کے جلوے سے خالی نہیں رہتا۔ جب کسی فرنگی کی واٹز سلک کی گون پر آنکھ پڑ جاتی ہے، مجھے تمہارا گرنٹ کا پائیجامہ کس نفرت سے یاد آتا ہے۔ جب کسی میم کو دوسرے صاحب کے ساتھ بے تکلفانہ ناچتے کودتے دیکھتا ہوں، تمہاری شرم ایک تیر کی طرح دل کے پار ہو جاتی ہے۔ جب کسی معزز لیڈری کو بیف کے ٹکڑے پر ہاتھ صاف کرتے دیکھتا ہوں تو تمہاری چپاتیوں کو حنائی انگلیوں سے کھٹکنا یاد آتا ہے اور کیا جی گھبراتا ہے۔‘‘
آزادؔ کے زمانہ کا لحاظ کرکے اور یہ بھی مد نظر رکھ کر، ان کے سامنے کوئی اچھا نمونہ اردو میں موجود نہ تھا، ان کی کوششیں لائق تحسین ہیں لیکن ان کی اہمیت تاریخی ہے اور ان سے ادب وانشاء، لب ولہجہ کے متعلق موجودہ زمانے کے نوجوان مزاج نگار بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آزادؔ کے بعد موجودہ طنزئین میں تین نام سامنے آتے ہیں۔ ابوالکلام آزادؔ، ظفرؔ علی خاں اور ملا رموزی۔۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ اپنے رنگ میں منفرد ہیں۔ ان میں وہ شئے موجود ہے جو دوسرے رہروان راہِ طنزیات میں مطلق نہیں۔ اردو انشاء پرداز کسی مسئلہ یا واقعہ یا خیال کو ظریفانہ رنگ میں پیش کرتے ہیں، وہ اس مسئلہ یا واقعہ یا خیال کو طنزیہ طور پر بھی پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن عموماً یہ مسئلہ، واقعہ یا خیال ان کے دلوں میں زبردست ہیجان نہیں پیدا کرتا۔ اس سے ان کے دماغ میں ایک محشر بپا نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے زیادہ حصہ اردو طنزیات کا سطحی، سرودبے جان معلوم ہوتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے طبیعت حساس پائی تھی، وہ صرف حس ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے احساسات شدید ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات ابلنے لگتے ہیں، ان کے خیالات میں بلا کا طوفان برپا ہوتا ہے۔ ان جذبات و خیالات اور ان کی شدت سے وہ خود بھی متاثر ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی متاثر کرتے ہیں،
’’جو تاریکی چھٹی صدی عیسوی میں جہالت نے پھیلائی تھی جبکہ اسلام کا ظہور ہوا تھا ویسے ہی تاریکی آج تہذیب و تمدن کے نام سے پھیل رہی ہے جبکہ اسلام اپنی غربت اولی میں مبتلا ہے۔ اگر اس زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی تاریکی بت پرستی تھی تو اس کی جگہ آج ہر طرف نفس پرستی چھا گئی ہے۔ پہلے انسان پتھر کے بتوں کو پوجتا تھا، اب خود اپنے تئیں پوجتا ہے۔ خدا کی پرستش اس وقت بھی نہ تھی اوراس کے پوجنے والے آج بھی نہیں! دنیا کی وہ کون سی پرانی بیماری ہے جو آج پھر عود نہیں کرآئی ہے۔ جبکہ وہ بیماری تھی تو کیا اس کی حالت ویسے ہی نہ تھی جیسی کہ آج ہے۔ پہلے وہ پتھر کے چٹان پر بیماری کی کروٹیں بدلتی ہوگی اب چاندی اور سونے کے پلنگ پر لیٹ کر کراہتی ہے۔ لیکن بیمار کے بستر کے بدل جانے سے بیماری حالت نہیں بدل سکتی۔‘‘
دیکھا اس قسم کی شاندار، پرزور، زندہ تحریر کے سامنے جملہ طنزیہ تحریریں بے رنگ و بے اثر معلوم ہونے لگتی ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں ہر ہر لفظ خلوص سے پر ہے، جو کچھ کہا گیا ہے وہ پہلے دل میں محسوس کیا گیا ہے، ہجو گو بلند پایہ اخلاق کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنے بلند مقام سے انسانی کمزوری، بدتمیزی، بےرحمی، ناانصافی کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس مشاہدہ سے اس کا دل بیتاب ہو جاتا ہے، وہ شدت احساس سے مجبور ہوکر چاہتا ہے کہ ان چیزوں کو کچل ڈالے۔ بدی کے اس پھولتے پھلتے درخت کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دے، وہ الفاظ کے ذریعہ اپنے جذبات و خیالات کے اٹھتے ہوئے طوفان کو ایک زبردست طوفان بنا دیتا ہے۔ ایسا طوفان جو اپنی فوق فطری طاقت سے ساری گندگیوں کو پاک صاف کردیتا ہے۔ ابوالکلام آزادؔ کی تحریروں میں یہی فوق فطری زور ہے اور اس زور کی وجہ سے ان کی انشاء محض انشا یعنی لفظوں کا مجموعہ نہیں معلوم ہوتی، یہ ایک کھینچی ہوئی تلوار، ایک بڑھتا ہوا سیلاب، ایک اٹھتا ہوا طوفان اور ایک دنیا کو ہلا دینے والا بھونچال ہے۔ یہ ایسا عصائے موسوی ہے جو افعی بن کر ہر شے کو نگل جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو،
’’لیکن خون بہانے کی ایسی شیطانی قوتیں، آگ برسانے کے ایسے جہنمی آلے اور موت و ہلاکت پھیلانے کی ایسی شدید ابلیسیت تو کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ زمین کی پشت پر ہمیشہ درندوں نے بھٹ بنائے اور اژدہوں نے پھنکاریں ماریں۔ مگر نہ تو ایسی درندگی ابھی تک کسی میں تھی جیسی موجودہ متمدن اقوام کی قوتوں کو حاصل ہے اور نہ اب تک ایسا سانپ اور اژدہا پیدا ہوا جیسا کہ ان لڑنے والوں میں سے ہر فریق کے پاس ڈسنے، نگلنے اور چیرنے پھاڑنے کے لئے عجیب عجیب ہتھیار جمع ہیں، پھر اس اژدہے کو دیکھو جو جنوب سے منہ کھولے بڑھ رہا ہے۔ اس ہاتھی کو دیکھو جو مشرقی یورپ کے بھٹ سے چیختا ہوا اٹھتا ہے اور اس خوفناک چیتے کودیکھو جو لامارکؔ اور روسو کی سرزمین میں خون اور گوشت کے لئے پلاہے۔ یہ کیسے عجیب ہیں! یہ کیسے خوفناک آلات سے مسلح ہیں؟ ان سب کا باہم ایک دوسرے پر گرنا اور چیرنا پھاڑنا، کرۂ ارض کا کیسا ہولناک بھونچال جو کبھی نہیں آیا۔ ایسا طوفان جو کبھی نہیں اٹھا، ایسی آتش فشانی جو کبھی نہیں ہوئی اور خداوند کا ایسا غصہ جو اب تک کبھی زمین پر نہ ہوا۔‘‘
اگر اردو ادب اس قسم کی طنزکی زیادہ مثالیں پیش کر سکتا تو پھر وہ طنزیات کے میدان میں دوسرے ادبوں کے مقابلہ میں اس قدر پیچھے نہ رہتا۔ اس قسم کی مثالیں ابوالکلام آزادؔ صاحب کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتیں۔ یہ تحریر زندہ ہے اور اس کا ہر ہر لفظ زندگی کا حامل ہے اور ہر لفظ بولتا چالتا، متحرک نظر آتا ہے۔ یہ طرز تحریر مولانا ابوالکلام کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ ان کی شخصیت کا نتیجہ ہے۔ یہ اپنے طور پر بالکل منفرد ہے اور مولانا ابوالکلام کی عبارت سلیس یا محدد نہیں ہوتی۔ ان کی روش عام روشوں سے یک قلم علیحدہ ہے اور یہ ایک حد تک اجنبی بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس میں شان ہے، رعب و دبدبہ ہے، زور ہے اور کہیں کہیں ثقالت بھی ہے۔ اس میں وہ سبکی باریکی، سلاست، روانی نہیں جو دوسرے انشا پردازوں کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔
مولانا ابوالکلام نے عام طرز سے علیحد ہ ہوکر شاہراہِ اردو سے دور ہٹ کر اپنی راہ الگ نکالی ہے۔ ہر شخص کا یہ کام نہیں لیکن ان کی شخصیت کو اسی نئی راہ کی ضرورت تھی اور اگر وہ عام روش اختیار کرتے تو شاید اپنی انفرادیت کو کھو بیٹھتے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کا مخصوص رنگ ہے۔ وہ ہر کام، ہر موقع کے لئے موزوں بھی نہیں۔ اس قسم کی انشا کا دائرہ محدود ہے۔ یہ خاص خاص موضوعات کے لئے مناسب ہے اور اس کا بے موقع و محل استعمال مضحک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ نے اسے موقع و محل سے استعمال کیا ہے اور جس قسم کے خیالات کا وہ اظہار کرتے ہیں ان کے لئے یہ نہایت موزوں و کامیاب ہے۔ جوخطیبانہ ہیجان اور جوش، مولانا ابوالکلام آزادؔ کی تحریرو ں کی نمایاں خصوصیت ہے، وہ مولانا ظفر علی خاں کی تحریروں میں موجود نہیں۔ مولانا ابوالکلام کی آواز بلند آہنگ ہے، مولانا ظفر علی خاں کی دھیمی ہے۔ مولانا ابوالکلام میں بے پناہ جوش ہے۔ مولان اظفر علی خاں میں خلوص کے باوجود بھی وہ بے پناہ جذبات کی شدت نہیں۔ مولانا ابوالکلام کی انشاایک زندہ متحرک قوت ہے۔ مولانا ظفر علی خاں کی انشا نسبتاً سردوساکت نظر آتی ہے۔ لیکن صرف نسبتاً ہی۔ ورنہ ان کی تحریر میں بھی زور ہے، ایک ایسی قوت جو اسے عام سطح سے بلند کرتی ہے۔
’’آج دنیا کا نظام حکومت جن اخلاقی قوتوں کی بنیاد پر قائم ہے وہ غرق آہن جہاز ہیں، ازدر دم توپیں ہیں۔ فلک پرواز طیارے ہیں، قطاراندر قطار عسکریوں کی جگر گزار سنگینیں ہیں۔ صف اندر صف پولیس کی جمعیت فرسا لاٹھیاں ہیں، جن سے جابرانہ قوانین کی ہیبت زیردستوں کے قلوب میں بٹھائی جاتی ہے۔ ملوکیت کا یہ عفریت جس نے عسکریت کی گود میں پرورش پائی ہے، آج ربع مسکون پر چھایا ہوا ہے اور ناتوانوں کے جسم کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ مغرب اس خونخوار دیو کا زاد بوم تھا۔ کاش یہ اپنے وطن میں رہتا مگر اس نے ایشیا کو بھی اپنا گھر بنا لیا اور اس وقت مشرق اقصیٰ اس کی جہنمی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔‘‘
اس مثال میں ظفر علی خاں کی انشا اپنے بلند ترین مقام پر ہے، لیکن یہ بلند ترین مقام بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی انشا کے معمولی مقام سے بہت نیچے واقع ہوا ہے۔ دونوں خلوص کے حامل ہیں۔ دونوں سیاسی طنز کی راہ میں گامزن ہیں لیکن جوپائیداری ابوالکلام آزاد کی تحریر کا حصہ ہے، وہ ان کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ نسبتاً ظفر علی خاں کی تحریریں ہنگامی چیز سی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ دلچسپ ہیں، اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوتی ہیں لیکن انہیں بقائے دوام غالباً حاصل نہیں۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ ہندوستان کی سیاسی کش مکشوں نے موجودہ ادب پر اثر ڈالا ہے اور برابر ڈال رہی ہیں۔ ان کش مکشوں کا اثر آئینہ ٔ ادب میں مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوا ہے۔ ایک طرف تو ہمارے ترقی پسند شعراء اور ادیب ہیں جو اپنے ترقی پسند خیالات سے دنیا کو بلند آہنگ آواز میں مطلع کر رہے ہیں۔ اسی کا ایک نتیجہ وہ ہجویں یاہجویہ تحریر یں ہیں جن کی مثالیں ابوالکلام آزادؔ، مولانا ظفر علی خاں، قاضی عبدالغفار و غیرہ میں ملتی ہیں۔
عموماً جن خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے وہ نئے نہیں، جن چیزوں کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ وقتی چیزیں ہیں اور موجودہ سیاسی دور کے گزر جانے کے بعد ان کی محض تاریخی اہمیت باقی رہے گی۔ اس لئے عموماً یہ نظمیں اور ہجویں بھی تاریخی اہمیت رکھتی ہیں اور آئندہ دور کا مؤرخ ان کی مدد سے اس زمانے کی تصویر مرتب کرنے میں کامیاب ہوگا۔ عموماً وقتی، جلد گزر جانے والے موضوعات پر لکھنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ تصنیف کی اہمیت محض تاریخی باقی رہ جاتی ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض مصنف اپنی کبھی نہ مٹنے والی انشا کی مدد سے ان وقتی دلچسپی رکھنے والے موضوعات کو بقائے جاوداں عطا کرتے ہیں لیکن ایسے مصنف بہت کم ہوتے ہیں اور ابوالکلام آزادؔ اس قسم کے ایک انشا پرداز ہیں۔ ظفر علی خاں اس گروہ میں داخل نہیں۔
مولانا ابوالکلام آزادؔ اور مولانا ظفر علی خاں کا دائرہ محدود ہے۔ ملا رموزی کا موضوع سیاسیات نہیں اس لئے ملا رموزی میں تنوع مضامین زیادہ ہے مجھے ملارموزی کی گلابی اردو سے بحث نہیں۔ ’’گلابی اردو‘‘ غالباً اپنے نیاپن کی وجہ سے مشہور ہو گئی لیکن اس کی ادب میں کوئی جگہ نہیں۔ اس قسم کی چیز وقتی طور پر اور کم خوراک میں اچھی لگتی ہے لیکن زیادہ مقدار میں ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ ’’گلابی اردو‘‘ بالکل قابل اعتناء نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’نکات‘‘ کی کیا اہمیت ہے۔ ملا رموزی اپنے نکات کے مقصد پر یوں روشنی ڈالتے ہیں،
’’بہر ہ نکات یا نکات کے عنوان سے جو لکھا جائےگا اس کا پہلا مقصد تو یہ ہوگا کہ رسالہ ’’بیدار‘‘ کے پڑھنے والوں میں جو حضرات ہنسی مذاق، تفنن، خوش دلی کی نعمت سے ابداً محروم رہتے ہیں یا جن کے دماغوں سے تفریح و ظرافت کی تازگی ضائع ہو چکی ہے، انہیں گدگدایا جائے اور بتلا دیا جائے کہ رات دن کے ۲۴ گھنٹوں میں ہر لمحہ رومانی بنے رہنا ہی متانت نہیں بلکہ کسی وقت مسکرا دینا، کھلکھلانا یا قہقہہ لگانا بھی طبی اصول سے مفید صحت ہے۔
دوسرا مقصد اس عنوان سے یہ ہوگا کہ آپ کو ہنسی ہنسی میں سیاست، مذہب، تہذیب و تمدن، اخلاق و معاشرت اور ادب و قومیت کے باریک نکتے سمجھا دئے جائیں گے۔ جن کا تعلق آپ کی روزمرہ زندگی سے ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں بعض نکتے ایسے بھی ملیں گے جن کے اندر مذاق اور دل لگی کے علاوہ انتہاکی متانت و سنجیدگی اختیار کی جائے کیونکہ بعض مواقع پر نری ظرافت بھی خطاب وبیان کی تاثیر و اہمیت کو کم کر دیتی ہے مگر ایسے سنجیدہ نکات پر آپ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ نکات کا لکھنے والا ملا رموزی بھی کسی مہاجن کی باسی کڑھی بن گیا ہے جس میں کوئی چٹپٹا ابال بھی نہیں آتابلکہ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ ہماری ظرافت کی ایک ایک سطر میں بھی کام کی باتوں کو تلاش کرتے رہیے۔ وہ ملیں گی اور بکثرت ملیں گی انشاء اللہ۔‘‘
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملا رموزی نے ظریف طبیعت پائی ہے اور اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نکات میں سیاست، مذہب، تہذیب و تمدن اخلاق و معاشرت اور ادب و قومیت کے نکتوں سے بحث کی گئی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ملا رموزی کی ظرافت اور ان کے متین نکات کی ادبی قدروقیمت کیا ہے۔ پروفیسر عبدالقادر سروری کی رائے یہ ہے، ’’ملا رموزی کی ہمیشہ باقی رہنے والی تحریروں میں بہت کم ایسی ملیں گی جس میں ظرافت صرف ظرافت کی خاطر کا اصول مد نظر رکھا گیا ہے۔ ان کی کسی تحریر کا مقصد ہمارے مذموم رواجات کی برائیوں کا استیصال ہے۔ کسی کے ذریعہ ہماری حالت کا احساس پیداکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہیں وہ اڈیسنؔ کی طرح ہمارے معاشرتی عیوب بے نقاب کرتے ہیں۔ جو باتیں مصلحین کی زبان پر بھی نہیں آتیں وہ ان کی زبان سے بے تامل نکل پڑتی ہیں، اور ان کی وسعت کا تو جواب نہیں کہ جس مقام تک ہمارے واعظین اور لیڈروں کا گزر بھی نہیں یہ وہاں بے روک داخل ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’غرض ابھی ایک وسیع اور شاندار مستقبل ہمارے سامنے ہے جس کا راستہ ملا رموزی نے کھول دیا ہے۔ یقیناً ملا رموزی کی ظرافت نگاری اخبارات و رسائل سے نکل کر مستقل ادبیات میں جگہ کرے گی اور قوم کے پژمردہ دلوں کے لئے مسرت ِ پائیدار ثابت ہوگی اور ملک کے تاریک گوشوں کے لئے بھی روشنی کا کام دےگی۔‘‘
مجھے اس رائے سے مطلق اتفاق نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ملا رموزی کی ظرافت میں ’’ظرافت، صرف ظرافت کی خاطر کا اصول‘‘ مد نظر نہیں رکھا گیا ہے۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ کوئی مقصد ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی ظرافت وسیع مضامین پر حاوی ہے، لیکن مجھے اس بیان سے قطعی وکلی اختلاف ہے کہ ’’ملا رموزی کی ظرافت نگاری اخبارات وسائل سے نکل کر مستقل ادبیات میں جگہ کر لےگی۔‘‘
ہر زبان اور ہر زمانہ میں مختلف قسم کے ادیب ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو صحیح معنی میں ادیب نہیں کہے جا سکتے۔ وہ لکھ تو لیتے ہیں اور ان کی لکھی ہوئی چیزیں کافی مشہور اور ہر دلعزیز بھی ہوتی ہیں، لیکن ہر ذی فہم جانتا ہے کہ یہ چیزیں ادب کا جزو نہیں اور نہ ہو سکتی ہیں اور وہ مصنفین بھی اپنی حقیقت اور اپنے مقام سے باخبر ہوتے ہیں۔ دوسرے ادیب وہ ہیں جنہیں ادیب بننے کی خواہش ہے، جو ادیب ہونے کی مطلق صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کے کارنامے پیدا ہونے سے پہلے ہی مردہ ہوتے ہیں۔ کچھ ادیب ایسے بھی ہوتے ہیں اور زیادہ تعداد ایسوں ہی کی ہوتی ہے، جو اپنے زمانے میں ادیب کہلاتے ہیں اور جنہیں دوسرے بھی ادیب شمار کرتے ہیں، لیکن جن کی ادبی عمر صرف ان کے دور تک رہتی ہے اور اس دور کے گزر جانے کے بعد وہ فراموشی کی خلیج میں ڈال دئے جاتے ہیں۔ ملا رموزی اسی قسم کے ادیبوں میں داخل ہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی اہمیت کو خود ان کا عہد مانے یا نہ مانے لیکن وہ بقائے دوام کی نعمت ازل سے ساتھ لاتے ہیں۔ ایسے ادیب کم ہوتے ہیں اور ملا رموزی ایسے ادیبوں میں نہیں۔ ان کی تحریریں بس ایسی ہیں کہ موجودہ زمانے میں لوگ پڑھیں گے، کسی حد تک محظوظ ہوں گے لیکن اس زمانے کے گزر جانے کے بعد اسی قسم کے دوسرے مصنفین پیدا ہو جائیں گے اور ان کی طرف دنیا متوجہ نہ ہوگی۔ شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی۔ عبدالقادر صاحب نے ملارموزی کا اڈیسنؔ سے مقابلہ کیا ہے لیکن ملا رموزی کا صحیح مقابلہ موجودہ انگریزی مقالہ نگاروں سے ہے، جو آج کل تو مشہور و معروف ہیں لیکن جن کی ادبی عمر غالباً ان کی عمر طبعی کے برابر یااس سے کم ہے، وجہ یہ ہے کہ ملا رموزی کی نہ وہ ذہنیت ہے نہ وہ شخصیت اور نہ وہ انشا جس میں پائیداری کا عنصر ہوتا ہے اور جو بقائے دوام کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں چند مخصوص عیوب بھی ہیں جن کی طرف رشید احمد صاحب نے اشارہ کیا ہے،
’’وہ اس حقیقت کو فراموش کر جاتے ہیں کہ سب باتیں لکھنے کی نہیں ہوتیں یا ان الفاظ اور لب ولہجہ میں نہیں لکھنا چاہیے جن میں ملا صاحب لکھنے کے عادی ہیں۔ ملا صاحب کی تحریروں میں ایک چیز اکثر کھٹکتی ہے اور اس چیز کا احساس سوا ملا صاحب کے ہر ایک کو ہے یعنی وہ دوسروں کی پگڑی اور اپنا نام اچھالنے کی فکر میں زیادہ رہتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کے سبب سے ان کی بہترین ظرافت بدترین طنز اور بہترین طنز بدترین ظرافت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جو چیز پیشہ بنالی جائےگی وہ ہمیشہ قبح نظر آئے گی اور جو چیز بطور مشغلہ تفریح برسرکار رہےگی وہ ہمیشہ مقبول و محبوب ہوگی ملا رموزی صاحب نے ظرافت اپنا پیشہ سا بنا لیا ہے۔‘‘
ملا رموزی انتخاب، انتخاب موضوعات اور انتخاب الفاظ سے کام نہیں لیتے۔ انہیں موقع و محل، تناسب، موزونیت کا لحاظ نہیں رہتا اور انہوں نے ظرافت اپنا پیشہ سا بنا لیا ہے یعنی ان میں وہ علیحدگی جو ایک کامیاب ادیب کے لئے ضروری ہے موجود نہیں۔ ان سب باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ ملارموزی میں صناعی، ایسی صناعی جو پائیدار ہو اس کی کمی ہے،
’’خدا جانے یہ کنگ پرائمر پڑھے ہوئے ہندوستانی اپنے قومی لباس چھوڑ کر کوٹ پتلون کس جذبہ کے ماتحت استعمال فرما رہے ہیں اور تو کچھ نہیں، لباس کی اس یگانگت سے ہمیں تکلیف یہ ہوتی ہے کہ ہم ہر پتلون پوش کو مسلمان سمجھ کر السلام علیکم کہہ کر گزرتے ہیں اور وہ آہستہ سے معاف کیجئے میں ہندو ہوں کہہ کر شرمندہ ہو رہے ہیں۔ بس اس اسٹیشن پر ایسے ہی ایک ہندو بھائی ہمارے ڈبے میں عین اس وقت گھس پڑے جب ہم صبح کے ناشتے کے لئے ڈھائی آنے پاؤ والی پوریاں لوگوں کی نظریں بچاکر لینے کے لئے پلیٹ فارم پر گھوم رہے تھے۔ انہوں نے ڈبہ ذرا خالی پاکر ایک سیٹ پر نیا انگریزی وضع کا بستر بچھایا اور مع کوٹ پتلون اس پر لیٹ گئے اور ایک کتاب کھول کر سینے پر تان لی۔ پھر ایک پتلون کی جیب میں لیٹے لیٹے اس طرح ہاتھ ڈال لیا گویا سر اسٹن وزیر خارجہ وکٹوریہ اسٹیشن لندن سے جمیعۃ الاقوام کی شرکت کے لئے اپنے خانے کے اسپیشل میں جینوا جا رہے ہیں، کبھی کبھی پتلون کی جیب سے ہاتھ نکال کر سر سہلالیتے تھے گویا کسی بڑے ہی زبردست سیاسی معاہدے کو ملاحظہ سے حل فرما رہے ہیں۔‘‘ تصویر کافی صاف کھینچی ہے اور بس۔ اس میں کوئی صاف بات نہیں، کوئی انفرادیت نہیں کوئی پائیداری نہیں۔
تیسرے گروپ میں وہ انشا پرداز ہیں جن کی ظرافت میں فلسفیانہ رنگ ہوتا ہے، جو اپنے فلسفۂ زندگی کو ظرافت اور طنز کے ذریعہ پیش کرتے ہیں۔ ان میں ایک خصوصیت ہوتی ہے جو دوسروں میں نہیں ملتی۔ ان کی مختلف ہجوئیں منتشر نہیں ہوتیں۔ وہ گویا ایک سلسلہ میں منسلک ہوتی ہیں اور سب مل کر مصنف کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ایس ہجوؤں میں ایک قسم کا تسلسل نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اس کے حسن میں ایک حد تک اضافہ ہوتا ہے۔ کم ازکم انتشار و پراگندگی میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس گروہ میں سلطان حیدر جوشؔ اور سجاد ؔ علی نصاری کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ سلطان حیدر جوشؔ مغربی خصوصاً انگریزی مصنفین سے متاثر ہوئے ہیں اور ان مصنفین کی تقلید کرنا چاہتے ہیں اور ایک حد تک اس مقصد میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ فلسفہ کی آمیزش کی وجہ سے ان کی ظرافت میں گہرائی آ جاتی ہے۔ یہ رنگ سلطان حیدر جوشؔ کی تخلیق کا ہے اور غالباً ان ہی پر ختم ہو گیا ہے،
’’معلوم نہیں نیچر کو اپنی ترقی کرنے والی مخلوق کے ساتھ کہاں کا بیر ہے۔ جس قدر مشکلات سے یہ پیچھا چھڑاتی ہے اسی قدر وہ ا ور زیادہ مشکلات حائل کرتی جاتی ہے۔ جب انسان نے پیدل چلنے سے قدم آگے بڑھاکر زین سواری شروع کی تو نیچر نے محض ٹھوکر لگ جانے سے آگے بڑھ کر گھوڑے پر سے گرکر مرجانا پیدا کر دیا۔ پھر انسان نے گاڑی بنائی تو اس کا الٹ جانا اور زیادہ مہلک چیز وجود میں آئی، جب ریل نے دنیائے وجود میں قدم رکھا تو ریل سے لڑجانے کا سخت مہلک حادثہ بھی ساتھ ساتھ پیدا ہوا۔ مختصر یہ کہ انسان جس قدر اپنے آرام وآسائش حاصل کرنے کے زور میں آگے بڑھتا جاتا ہے۔ نیچر اسی قدر تکلیف اور مشکلات حائل کرتی جاتی ہے۔ یہی حالت سوسائٹی کی ہوئی۔ وہ جس قدر آگے بڑھتی گئی، پابندی اور دھوکہ سے گلو خلاصی حاصل نہ کر سکی مگر اس کی ترقی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ ابھی وہ سوشلزم کی اس حد تک نہیں پہنچی تھی جہاں اس کا پہنچنا مقصد تھا! اگر فرض کرلیا جائے کہ دنیا اس حد تک پہنچ بھی گئی تو اس کو فی الواقع آگے بڑھنا کہیں گے یا پیچھے ہٹنا۔ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ وہ ترقی کرے گی یا پھر اسی پہلے وحشی انسان کے بین بین ہو جائےگی اور کچھ عجب نہیں کہ اس مرتبہ پھر وہ انسان سے بندر کے قالب میں پہنچ جائے کیونکہ بندر کو انسان سے بدرجہا بے فکری، مساوات اور مسرت حاصل ہے۔‘‘
یہ ہے سلطان حیدرؔ جوش کا رنگ اور اس رنگ میں گہرائی اور پختگی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس قسم کی تحریر میں بے ساختگی اور برجستگی کی کمی ہے لیکن کہہ سکتے ہیں کہ بیساختگی اور برجستگی اس قسم کی فلسفیانہ ظرافت کے لئے موزوں بھی نہیں۔ جو بات ان کی تحریروں کو ممتاز بناتی ہے وہ غور و فکر کا وجود، خیالات و تجربات کی گہرائی اور سنجیدہ اور متین لب ولہجہ ہے۔ سلطان حیدر جوشؔ ایک مخصوص شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی انفرادیت ان کے الفاظ سے عیاں ہے۔ وہ نوجوان مزاح نگاروں کی طرح غیر ذمہ دارانہ طور پر محض ہنسنے ہنسانے کے لزومات کی تلاش نہیں کرتے اور انہیں تلاش کرکے قارئین کے سامنے پیش نہیں کرتے، وہ سستی شہرت کے طلبگار نہیں اس لئے وہ عام فہم اور عام پسند قسم کی چیزوں سے احتراز کرتے ہیں اور سطحی رنگینی، سطحی رعنائی خیال کبھی ان کا مطمح نظر نہیں رہی ہے، اس لئے ان کے مضامین کبھی شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی، ملا رموزی کے مضامین کی طرح عام پسند نہیں ہو سکتے لیکن ان کے مضامین شاید پڑھے جائیں گے۔ جب شوکت تھانوی وغیرہ کے نام سے بھی لوگ واقف نہ رہیں گے۔
ان کے مضامین کا حلقہ اثر لازمی طور پر محدود ہے۔ یہ مضامین ان ہی لوگوں کو متاثر و محظوظ کر سکتے ہیں، جنہیں خود غوروفکر کی عادت ہے، جو خیالات کی کش مکش سے بچنا نہیں چاہتے ہیں، جو ادب کو محض تفریح طبع کا ذریعہ نہیں سمجھتے۔ ان سب اوصاف کے باوجود سلطان حیدر جوشؔ کے مضامین میں چند مخصوص عیوب بھی ہیں۔ ان کی ظرافت فطری نہیں اکتسابی معلوم ہوتی ہے۔ ان کے تخیل میں غیر معمولی باریکی، بلند پروازی اور فراوانی نہیں ہے۔ ان کی انشا غیرمعمولی دلچسپیوں کی حامل ہے، ’’آہ دنیا، ترقی یافتہ دنیا تمام متمول، تمام قابلیت، تمام سائنس، تمام قوت ایجاد و اختراع صرف اس بات پر صرف کر رہی ہے کہ گھنٹوں کے بجائے منٹوں میں گروہ کے گروہ نیست و نابود ہو جائیں۔ خوبصورت اور قد آور نوجوان عین عالمِ شباب میں اسی پرانی خیالی عزت کے پیچھے اپنی بیش بہا جانوں کو قربان کررہے ہیں اور سونے کے بڑے بڑے انبار لوہے کی گولیوں اور چیزوں کے لئے لٹائے جارہے ہیں۔ صدیوں پرانی صناعی کی قابل قدر یادگاریں اور اس کے ساتھ ہی نیچر کی خانہ ساز بھولی بھالی صورتیں اسی طوفان بے تمیزی کی رو میں بہی چلی جاتی ہیں۔‘‘
اس میں ایک زو رہے، ایک روانی ہے۔ ایک اثر ہے لیکن یہ زور، یہ روانی، یہ اثر فطری نہیں، بلکہ سلطان حیدر جوشؔ کے قصد و ارادہ کا نتیجہ ہے، اس وجہ سے اس میں سبکی اور لطافت نہیں بلکہ ایک قسم کی گرانی محسوس ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ یک قلم مصنوعی نہیں، یہ غوروفکر کا مادہ سجاد علی انصاری میں بھی موجود تھا، نوجوانی کا تقاضا تھا اس لئے ان کے الفاظ میں نرمی کے عوض تیزی تھی۔ ان کے طنز میں کاٹ بھی زیادہ تھی، لیکن وہ سلطان حیدر جوشؔ کی طرح پختہ کار انسان نہ تھے۔ اس لئے ان کے خیالات میں وہ گہرائی، وہ تسلسل، وہ جامعیت نہیں۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا اس قدر احساس بھی نہیں۔ بظاہر سجاد علی انصاری کو ذمہ داری کا زیادہ احساس معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ذمہ داری اس قسم کی زیادتی کی حامل ہے جو عموماً ان نوجوانوں میں نظر آتی ہے جو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہتے ہیں اور احساس میں غلو سے مصرف لیتے ہیں۔ اس قسم کا غلو ان میں نظر آتا ہے لیکن اس غلو اور صحیح ذمہ داری کے صحیح احساس میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ بہر کیف نسبتاً سجاد علی انصاری میں ذمہ داری کا مادہ دوسرے نوجوان انشا پردازوں سے زیادہ ہے۔
’’فرشتے کی انتہا یہ ہے کہ شیطان ہو جائے، ایک حقیقت جب مٹتی ہے دوسری حقیقت ہو جاتی ہے۔ خدا نے ابتداء میں صرف فرشتوں کو پیدا کیا تھا۔ اس وقت تخلیقِ شیطنت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ خود ملکوتیت میں عناصر شیطنت مضمر ہیں۔ سلسلہ ارتقاءسے شیطان خود بخود پیدا ہو جائےگا۔ معلم الملکوت کی فطرت میں ملکوتیت کے وہ تمام عناصر مکمل ہو چکے تھے جو تخلیق شیطنت کے لئے لازمی تھے۔ فطرتاً اس کے لئے یہ محال تھا کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی ملکوتیت پر قانع رہے۔ وہ شیطنت پر مجبور ہو گیا۔ اس کے سامنے ایک نئی حقیقت کی وسعتیں پیدا ہو گئی تھیں۔ وہ کسی طرح فرشتہ نہیں رہ سکتا تھا۔‘‘
یہ ہے سجاد انصاری کا رنگ، اس میں فلسفیانہ رنگ نمایاں ہے۔ وہی رنگ جو سلطان حیدر جوشؔ میں بھی موجود ہے لیکن یہاں وہ پختگی نہیں، وہ گہرائی نہیں، متانت و سنجیدگی بہرحال موجود ہے۔ اس قسم کی طنز اور عام پسندطنز میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ یہ کامیاب ہو یا نہ ہو لیکن یہ کچھ دوسری چیز ہے، اس سے بالکل مختلف جس کی مانگ اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر کیا کرتے ہیں۔ فلسفیانہ ظرافت میں بہت کچھ گنجائش باقی ہے۔ سلطان حیدر جوشؔ صاحب نے اس کی ابتداء کی ہے۔ سجاد انصاری میں اس کی کچھ مثالیں ملتی ہیں لیکن اس رنگ کی ابھی ابتدا ہے اور اس کی وسعتیں منتظر ہیں کسی ایسے رہرو کی جو اس راہ میں جرأت کے ساتھ قدم آگے بڑھائے۔
(۴)
طنزو ظرافت کے میدان میں رہرو تو بہت ہیں لیکن شاید پانچ نام ایسے ہیں جو بقا کے ذمہ دار ہیں۔ سوداؔ، اکبرؔ، غالبؔ، سرشارؔ، ابوالکلام آزاد۔
ابھی اردو میں ادبی طنز اور ظرافت کے لئے لا محدود گنجائشیں ہیں۔ نظم اور نثر دونوں میں۔ اگر اردو انشا پرداز اس فن کی اہمیت کو سمجھیں، اس کی خصوصیتوں سے شناسائی بہم پہنچائیں تو بہت کچھ ترقی ممکن ہے۔ (’’معاصر‘‘ جلد ۳، نمبر۴۔ ۵۔ ۶ فروری، اپریل ۱۹۴۲ء)
(نوٹ ’’اُردو ادب میں طنز اور ظرافت سے متعلق پروفیسر سید محمد محسن نے کچھ شبہات ظاہر کئے تھے۔ ’’معاصر‘‘ جلد ۴، نمبر۱، ذیل کی سطروں میں انہیں شبہات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ) محسنؔ صاحب نے صحیح کہا ہے کہ تنقید میں جن الفاظ کا استعمال ہو وہ صاف اور متعین مفہوم رکھتے ہوں۔ میں نے ’’اپنی مختلف تحریروں میں اس مسئلہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً ’’معاصر‘‘ جلد۱، نمبر۵ صفحہ ۳ پر یہ جملے ملیں گے،
’’اصل یہ ہے کہ عموماً انسان کا دماغ ذرا کاہل ہوتا ہے، نہ وہ صاف طور پر سوچتا ہے اور نہ اپنے خیالات کو صاف، غیر مبہم پیرایہ میں بیان کرتا ہے۔ غور و فکر ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے محنت و مشق کی ضرورت ہے اور ہر شخص میں اس دماغی محنت و مشق کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ تعلیم ناقص ہوتی ہے اور اس صلاحیت سے صحیح مصرف لینا نہیں سکھاتی۔ عام بول چال، روز مرہ کے تعلقات میں انسان کو اس نقص کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ وہ کم و بیش کامیابی کے ساتھ اپنا کام چلاتا ہے، لیکن سائنس میں اسے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے خیالات کو بےکم و کاست بیان کرے اور انہیں دوسروں تک پہنچا سکے۔ اس لئے سائنس میں الفاظ علامات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ہر علامت ایک مخصوص چیز کا اظہار ہوتی ہے اور اس طرح خیالات صفائی کے ساتھ معین اور غیر مبہم پیرایہ میں الفاظ کا جامہ پہن لیتے ہیں۔ تنقید میں بھی اظہار خیال کے لئے صاف و معین الفاظ کی ضرورت ہے ایسے الفاظ کا استعمال لازمی ہے جن کے مفہوم مقرر شدہ ہیں یا جن کے مفہوم اور الفاظ (جو ان کے آگے پیچھے مستعمل ہوں) کے مفہوم کی وجہ سے صاف و مقرر ہوجائیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق محسنؔ صاحب کی رائے میری رائے سے مختلف نہیں۔
دوسری بات جو محسنؔ صاحب نے کہی ہے وہ ہنسی کے سبب سے متعلق ہے۔ محسنؔ صاحب نفسیات کے ماہر ہیں اس لئے انہیں ہنسی اور دوسری چیزوں کے اسباب سے خاص دلچسپی ہے۔ میں نے کہا ہے کہ مجھے ہنسی کے سبب سے (جس مفہوم میں محسنؔ صاحب اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں) بحث نہیں۔ ملاحظہ ہو، ’’فطرت نے انسان کو ہنسی کا مادہ عطا کیا ہے اور ہنسی مختلف وجوہ کی بنا پر آتی ہے۔ یہاں ہنسی کی ماہیت اور اس کے اسباب پر روشنی ڈالنے کا موقع نہیں۔‘‘ اس لئے ان کی تحریر کا یہ دلچسپ اور اہم حصہ جہاں تک اس کا میرے مقالے سے تعلق ہے، غیر متعلق ہے۔ میں نے کہا ہے کہ ہنسی عموماً عدم تکمیل، بے ڈھنگے پن کے احساس کا نتیجہ ہے اور محسنؔ صاحب بھی اس سے اتفاق ظاہر کرتے ہیں۔
’’اس میں شک نہیں کہ ہنسی یا احساس ظرافت کے لئے کسی ناموزونیت اور بےڈھنگے پن کا مشاہدہ ضروری ہے۔‘‘ میرے اس جملے اور دوسرے جملے میں کوئی تضاد نہیں، ’’ہنسی بھی ایک انسانی خصوصیت اور زندگی کی ناتمامی کا نتیجہ ہے۔‘‘ یعنی اگر زندگی ناتمام نہ ہوتی تو پھر کسی ناموزوں، بے ڈھنگی شے کا مشاہدہ ممکن نہ ہوتا یہی بات میں نے ایک دوسری جگہ واضح کر دی ہے، ’’جس دنیا میں ہم سانس لیتے ہیں وہ تکمیل سے خالی ہے۔ انسان اور انسانی فطرت میں بھی یہی ناتمامی ہے، اس لئے ہنسی کے مواقع کی کمی نہیں۔‘‘
ان جملوں سے صاف ظاہر ہے کہ مجھے ہنسی کے فوری اور خارجی سبب سے بحث نہیں ہے۔ ہنسی کے حقیقی سبب پر کچھ لکھنے سے قصداً احتراز کیا ہے اور جو کچھ میں نے لکھا ہے اس سے محسنؔ صاحب بھی متفق ہیں۔ پھر میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ ہمیں دنیااور زندگی کی ناتمامی اور ناموزونیت کی وجہ سے ہنسی کے مواقع ملتے ہیں اور ہم ہنستے ہیں تو کسی ناموزوں واقعہ کے مشاہدہ سے۔ مجھے امید ہے کہ میرے اس بیان سے محسن صاحب کے وہ شبہات جن کا تعلق اس خاص نکتہ سے ہے رفع ہو جائیں گے۔
اب میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے کیوں ہنسی کے سبب کے سبب پر بحث کرنے سے احتراز کیا۔ بات یہ ہے کہ تنقید ایک مستقل فن ہے۔ یہ فن دوسرے علوم و فنون سے مصرف لیتا ہے لیکن کوئی دوسرا فن فنِ تنقید کا بدل نہیں ہو سکتا۔ نقاد مختلف علوم و فنون سے واقف ہوتا ہے لیکن اسے اس واقفیت سے ناجائز مصرف لینا نہیں چاہیے۔ یعنی اسے اپنی تنقید کو تاریخ، معاشیات، نفسیات، وغیرہ میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ خصوصاً اسے ایسے تاریخی، معاشیاتی، سیاسی، نفسیاتی مسئلوں سے اپنا دامن بچائے رکھنا چاہیے جو تنقید سے سروکار رکھتے ہوں اور جن پر تاریخ، معاشرت، نفسیات کے ماہرین متفق نہ ہوں۔ ہنسی کا سبب بھی اسی قسم کا ایک مسئلہ ہے۔ اس سبب کی تلاش ہمیں تنقید کی سرحد سے باہر لے جاتی ہے اور نفسیات کی قلمرو میں پہنچا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مسئلہ آسان نہیں اور اس پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک مفصل مقالے کی ضرورت ہے۔ جس کی گنجائش میرے مضمون ’’اردو ادب میں طنز و ظرافت‘‘ میں نہ تھی۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ نفسیات ابھی نیا اور نوخیز سائنس ہے اور اپنی حیرت انگیز ترقیوں کے باوجود بھی یہ انسانی دماغ کی اتھاہ گہرائیوں سے مطلق واقف نہیں۔ انسانی دماغ بھی کائنات کی طرح وسیع ہے۔ اس کی پیچیدگی، اس کے تاریک رستے اور گوشے، اس کے باریک اور دشوار قوانین سے مکمل واقفیت میسر نہیں۔ بہر کیف محسن صاحب کہتے ہیں کہ’’ ہنسی عموماً طمانیت و تسکین کا صوری اظہار ہے۔‘‘ وہ پھر فرماتے ہیں کہ ’’ہنسی حقیقت میں اپنی موزونیت، اپنی عدم کمتری اپنے مکمل ہونے کے احساس کی آئینہ دار ہے۔‘‘ لیکن یہ تعریف بھی ہنسی کی تمام صورتوں پر حاوی نہیں۔ مثلاً اس ہنسی کو لیجئے جسے عرف عام میں ’’کھسیانی ہنسی‘‘ کہتے ہیں۔ اس قسم کی ہنسی اپنی موزونیت کی آئینہ دار نہیں۔ یہ اپنی ناموزونیت کی پردہ دار ہے۔ پھر ہنسی کا ایک سبب اعصاب کی کمزوری ہوتی ہے۔ جو لوگ NERVOUS ہوتے ہیں، وہ بات بات پر بلاوجہ ہنستے یا مسکراتے ہیں اور یہ ہنسی ان کی موزونیت، طمانیت یا تسکین کا صوری اظہار نہیں۔ اس قسم کی مختلف مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
میں نے ظرافت، طنز، ہجو کو تین انگریزی لفظوں کے مقابلہ میں استعمال کیا ہے جو ترتیب وار ہیں SATIRE, IRONY, HUMOURہجو اور ہجو گو شاعر کے متعلق میں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے بھی محسن صاحب کو کچھ اختلاف ہے۔ ہجو گو شاعر، انسان بھی ہے اور شاعر بھی۔ ایک طرف تو وہ ایک برہم انسان ہے اور اس کی ہجوؤں کی ابتدا ذاتی عناد اور تعصب سے ہوتی ہے لیکن وہ شاعر یعنی صناع بھی ہے اور شاعر یا صناع کی حیثیت سے وہ اپنے ذاتی جذبات سے علیحدگی اختیار کرتا ہے اور اپنے ذاتی جذبہ کو عالمگیری UNIVERSALITYعطا کرتا ہے۔ یہ علیحدگی (DETACHMENT) ہر صناع کے لئے ضروری ہے ورنہ وہ کامیاب صناع شمار نہیں کیا جا سکتا۔ محسنؔ صاحب نے شاید اس نکتہ کو نظرانداز کر دیا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہجو کو طنز کا مترادف قرار دیا ہے یہ صحیح نہیں۔ رشید احمد صاحب نے طنز کو ہجو کے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ اسی لئے میں نے ان کی تعریف کو غیر صحیح قرار دیا ہے۔ پھر میرے ان دو جملوں میں کوئی تضاد نہیں، ’’ہجو گو شاعر ایک برہم انسان ہے اور اس کی برہمی بے لوث نہیں بالوث ہوتی ہے۔‘‘ اور ’’ہجو گو ایک بلند پایہ اخلاق کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنے بلند مقام سے انسانی کمزوریوں خامیوں اور فریب کاریوں کو اپنی طنز کا نشانہ بناتا ہے۔‘‘
میں نے ابھی کہا ہے کہ ہجو گو شاعر اپنے ذاتی جذبات سے علیحدگی اختیار کرتا ہے اور انہیں عالمگیری عطا کرتا ہے۔ ہجو اگر وہ ذاتی عناد اور تعصب کا اظہار ہے تو زیادہ قدر و قیمت نہیں رکھتی اور اس کا اثر دیرپا اور عالمگیر نہیں ہوتا۔ انسانی کمزوریوں، خامیوں اور فریب کاریوں کی جو مذمت ہوتی ہے وہ بلند اخلاق کے نقطۂ نظر سے ہوتی ہے، اگر یہ بلند اخلاقی نقطۂ نظر موجود نہ ہو تو پھر مذمت کی اہمیت باقی نہیں رہتی اور اس کا کوئی اثر بھی نہیں ہو سکتا اس لئے ہجو گو شاعر ایک بلند اخلاقی مقام سے ان خامیوں کا انکشاف کرتا ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محسن صاحب نے ہجو میں صناعت کے وجود کو فراموش کر دیا ہے اور ان خصوصیتوں سے سروکار نہیں رکھا جو ہجو گو کو صناع بناتی ہے۔
محسن صاحب نے ہجو اور طنز کا فرق بھی ظاہر کیا ہے اور اس سلسلہ میں مجھ سے اتفاق ظاہر کیا ہے، ۔ ’’مجھے پروفیسر موصوف سے اتفاق ہے کہ طنز گو ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے، وہ ہمدردی، ترحم، انصاف فیاضی کے جذبات کو ابھارتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ غصہ، بغض و حقارت کے جذبات کو بھی بھڑکاتا ہے۔‘‘ میں نے جو لکھا ہے اس کا تعلق ہجو گو سے ہے، ملاحظہ ہو، ’’بہر کیف ہجو گو سارے جذبات پر تصرف رکھتا ہے، وہ ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے، وہ ہمدردی، ترحم، انصاف، فیاضی کے جذبات کو ابھارتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ غصہ، بغض، حقارت کے جذبات کو بھی بھڑکاتا ہے۔ ظرافت نگار کے مقابلہ میں اس کی جذباتی دنیا زیادہ وسیع وکشادہ ہے۔‘‘
میں نے ظرافت اور ہجو، ظرافت نگار اور ہجو گو میں تفرقہ کیا ہے۔ میں نے ہجو کو برابر SATIRE کے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ہجو گو ظرافت اور طنز دونوں سے مصرف لیتا ہے۔ خالص ظرافت نگار اور ہجو گو میں البتہ فرق ممکن ہے اور اس فرق کو میں نے صاف طور پر ظاہر کیا ہے۔ طنز ایک آلہ ہے جسے ہجو گو استعمال کرتا ہے۔ اس لئے طنز اور ہجو میں تفرقہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محسنؔ صاحب طنزکو SATIRE کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں اور ہجو کو کسی مخصوص و محدود معنی میں، اسی وجہ سے وہ ہجو کو ’’ایک قدیم اور غیر مہذب صنف شاعری‘‘ قرار دیتے ہیں اور طنز نگار کو مکمل ادیب سمجھتے ہیں۔ میں کہہ چکاہوں کہ میں نے ظرافت، طنز اور ہجو کو ترتیب وار SATIRE, IRONY, HUMOUR کے مقابلہ میں استعمال کیا ہے۔ اگر محسن صاحب یہ بات پیش نظر رکھیں تو ان کے شبہات رفع ہو جائیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.