اردو افسانہ: منزل بہ منزل
اردو کے نئے افسانے کی تشکیل میں مغربی ادب کی نت نئی تحریکوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مغربی ادب کا اثر مجموعی طور پر تو پڑا ہی لیکن بعض ممتاز افسانہ نگاروں کا اثر بھی ہمارے ادیبوں نے انفرادی طور پر قبول کیا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں نے اس اثر کو مشرقی سانچے میں ڈھال کراپنی شخصیت اور مزاج کے رنگ میں سمو کر منفرد طریقے سے پیش کیا۔
اردو کے نئے افسانے کاآغاز صحیح معنی میں نئے ادب کی تحریک سے ہوا۔ اور افسانہ بہ حیثیت ایک صنفِ ادب کے تسلیم اور مقبول ہوا۔ پریم چند نئے ادب کے پیش رَو ہیں۔ شروع شروع میں پریم چند کے افسانوں میں مقصدیت اور داستانی رنگ غالب رہا۔ لیکن ان کے بعد کے افسانوں میں مقصدیت فن کے سانچے میں ڈھل کر سامنے آئی اور انہوں نے آدرش اور حقیقت نگاری کی روایت کو جنم دیا۔ پریم چند نے اس روایت میں کئی تجربے کیے۔ اردو افسانہ اپنے ابتدائی تیس برسوں میں جن جن مراحل سے گذرا ہے۔ پریم چند کے افسانے اس کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ ہندوستان کی قومی تحریک نے جس نئے شعور کو جنم دیا پریم چند نے اسے افسانوں کے روپ میں پیش کیا۔ حقیقت پرستی کی روایت نئے افسانے کو پریم چند سے ملی۔ اور مغرب کے حقیقت پرست ادیبوں سے بھی۔ پریم چند کی حقیقت پرستی میں آدرش کی تکمیل کی خواہش شامل تھی۔ ان کے سامنے زولاؔ کی مثال نہیں بلکہ ٹالسٹائیؔ اور روماںؔ رولاں کی مثال تھی۔ علی عباس حسینیؔ، سدرشنؔ، اشکؔ اور سہیلؔ عظیم آبادی، پریم چندؔ کے ورثے کو لے کر آگے بڑھے۔
قریب قریب اسی دورمیں سلطان حیدر جوشؔ نے بھی مقصدی حقیقت نگاری کی روایت کو مستحکم کیا اور ایک خاص ماحول کے پس منظر میں اصلاحی افسانے تحریر کیے۔ سجاد حیدر یلدرمؔ نے افسانے کو رومانیت کی روایت سے روشناس کرایا۔ اس روایت کو یلدرمؔ کے علاوہ نیاز فتحؔ پوری، ل احمدؔ اکبر آبادی، مجنوںؔ گورکھپوری اور حجابؔ امتیاز علی نے پروان چڑھایا۔ اس طرح نئے افسانے کی تشکیل میں آدرش، حقیقت نگاری، رومانیت اور فن کا جمالیاتی احساس کارفرما رہے ہیں۔ آدرش حقیقت نگاری کی روایت سے اردو کے قریباً سب ہی افسانہ نگار متاثر ہوئے ہیں۔ وہ بھی جن پر رومانی رنگ غالب ہے، حقیقت پرستی سے دامن نہیں بچا سکے۔ جیسا کہ کرشن چندر کے افسانے ہیں، حیات اللہ انصاری، احمد ندیمؔ قاسمی اور بلونت سنگھ نے حقیقت اور رومان کے امتزاج کو اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ زندگی اور فن کا پرمسرت احساس ذہن میں پیدا ہونے لگا ہے۔ غلام عباسؔ نے ’’آنندی‘‘ میں اس احساس کو اجتماعی سطح پر لاکر ایک ایسی فینٹسی PHANTASY کو جنم دیا ہے جو حقیقت سے بھی زیادہ حقیقی ہے۔
۱۹۳۶ء تک ہمارے افسانے میں حقیقت، رومان اور فن کی نزاکتوں نے مل کر ایک ایسی روایت کو جنم دیا ہے جو آج تک ہمارے افسانہ نگاروں کی جودتِ طبع کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
نئے افسانے کی تشکیل میں دوسرا اہم اثر ’’انگارے‘‘ کی اشاعت ہے۔ یہ مجموعہ روایت سے جارحانہ بغاوت کا اولین نشان تھا۔ جس میں سیاسی جبر، سماجی پس ماندگی، معاشی عدمِ مساوات اور جنسی گھٹن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا تھا۔ ’’انگارے‘‘ نے جہاں اردو ادب کو مغرب کی نئی تحریکوں سے روشناس کرایا وہاں سماجی حقیقت نگاری کی روایت کو بھی مستحکم کیا اور ادب کو بین الاقوامی نظر ملی۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی ادب برائے زندگی اور ادب برائے انقلاب کا نعرہ بلند ہوا۔ جس میں اختر حسینؔ رائے پوری کی تحریریں اہم ثابت ہوئیں۔
’’انگارے‘‘ کے مصنف فرانسیسی فطرت نگار ادیبوں، مارکسیت اور فرائیڈ کے نظریے سے متاثر تھے۔ لیکن پریم چندؔ اور ’’انگارے‘‘ کے افسانہ نگاروں میں جمہوریت، سماجی انصاف، مساوات اور آزادی کی اقدار مشترک تھیں۔ پریم چندؔ ٹالسٹائیؔ اور گاندھیؔ جی سے متاثر تھے۔ اس لیے ان میں آدرش کی تکمیل میں اصلاح اور تعمیر کا جذبہ زیادہ نمایاں تھا۔ جب کہ ’’انگارے‘‘ کے مصنفین نے تخریب اور بغاوت کو زیادہ اہمیت دی۔ انہوں نے طبقاتی کشمکش، جنسی ناآسودگی اور پروٹسٹ پر زور دیا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ پریم چند کے افسانے اور ’’انگارے‘‘ کے افسانے اردو افسانے میں نئے موڑ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ کوئی افسانہ نگار پریم چندؔ سے متاثر ہوا ہے یا ’’انگارے‘‘ سے رومانیت پرست ادیبوں سے یا موپساؔں اور چیخوفؔ سے۔ لیکن یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ سائنس، عقلیت پرستی، فرائیڈ کے نظریۂ جنس ولاشعور، ڈارونؔ کے نظریۂ ارتقاء۔ مارکسؔ اور برٹرینڈرسلؔ اور آئنؔ سٹائن نے جس نئے ذہن کی تشکیل کی ہے وہی نئے افسانے کاخالق ہے اور ہر ادیب نے اسے اپنے مزاج، اپنی صلاحیت، انفرادیت اور اپنی تخلیقی اپج کے مطابق پیش کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک اسی نئے ذہن کی پروردہ ہے۔
مارکسیت کے زیراثر سماجی حقیقت نگاری کو افسانے میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں مارکس کا اثر قبول کرنے کے باعث افسانہ نگاروں میں نقطۂ نظر کی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ فرائیڈ کے زیر اثر نہ صرف مواد بلکہ تکنیک میں بھی تنوع ملتا ہے۔ سیاسی اور سماجی مسائل اور طبقاتی کشمکش کے ساتھ ہمارے افسانہ نگاروں نے جنس کو بھی حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے پیش کرنا شروع کیا۔ عصمتؔ چغتائی نے مسلم معاشرے میں جنسی گھٹن اور کجرویوں کو بہ کمال خوبی اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ جنس کو وہ انفرادی مسئلہ کے بجائے سماجی مسئلہ تصور کرتی ہیں۔ ممتاز مفتی سماجی پس منظر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی جنسی کجرویوں پر براہ راست زور دیتے ہیں، بلکہ ان لاشعوری محرکات کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں جو ذہنی کشمکش کو جنم دیتے ہیں اور سطح پر نہیں آتے۔ ممتاز مفتیؔ ان محرکات کا تجزیہ اور اظہار نفسیاتی اور عملی نقطۂ نظر سے کرتے ہیں۔ ان کے افسانے نفسیاتی کیس ہسٹری سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔
منٹوؔ کے افسانے اس لحاظ سے عصمتؔ اور ممتازؔ مفتی کے افسانوں سے مختلف ہیں۔ منٹوؔ موپساؔں سے متاثر ہیں (گو وہ اسے تسلیم نہیں کرتے تھے) اور ہیجانی جذبات کی تصویر کشی میں خاصی مہارت رکھتے تھے۔ وہ ان کرداروں کو پیش کرتے ہیں جو جنسی طور پر آزاد زندگی بسر کرتے ہیں۔ مروجہ سماجی اقدار کی رو سے وہ بدچلن یا آوارہ لوگ ہیں لیکن جن میں صداقت اور انسانیت کا جذبہ بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کے افسانوں کا کلائمکس اس جذبے کااظہار ہے۔ منٹو کی حقیقت نگاری میں اسی آدرش کا امتراج ہے۔ منٹوؔ کا نفسیاتی مطالعہ مستند نہیں لیکن فن کارانہ ضرور ہے اور اسی باعث منٹوؔ بحیثیت افسانہ نگار سب سے آگے ہے۔
فرائیڈؔ کے نظریے کے زیر اثر تکنیک کے نئے نئے تجربے ہوئے۔ حسنؔ عسکری، احمد علیؔ، قرۃ العینؔ حیدر اورکسی حدتک عزیزؔ احمد نے تحلیلِ نفسی، خواب، شعور کے بہاؤ، آزاد تلازم اور سر ریلسٹ طرز کے افسانے لکھے۔ احمد علی کے افسانوں میں تاثریت، اظہاریت اور سرایلسٹ رجحانات نمایاں نظر آتے ہیں۔ کافکا کی رمزیت کااثر احمد علی پر سب سے زیادہ ہے۔ ان کی نظر میں فلسفیانہ گہرائی اور ماورائے حقیقت کی عکاسی بڑی فنکارانہ ہے۔ گہری رمزیت، فلسفیانہ انداز، خالص مشرقی مزاج، مغربی طرز۔ احمد علی کے افسانوں کی خصوصیات میں سے ہیں۔ ماورائے ادراک حقیقت کی عکاسی جس شدت اور گہرائی سے انہوں نے پیش کی ہے وہ ان کا ہی حصہ ہے۔ احمد علی کے بعد شاید ہی کسی افسانہ نگار کو ویژن کی یہ گہرائی نصیب ہوئی ہے۔
حسنؔ عسکری نے چیخوفؔ سے اثرلیا ہے۔ لیکن مغرب کی جدید تحریکوں، شعور کے بہاؤ اور آزاد تلازم کے ذریعے اسے پیش کیا ہے۔ عسکریؔ نے چند افسانے ہی لکھے ہیں لیکن انہوں نے ایک منفرد طرزِ نگارش کو جنم دیا ہے جو اردو ادب کو نئی روایت سے روشناس کراتی ہے۔ عزیزؔ احمد پر فرانسیسی فطرت نگاری کاگہرا اثر ہے۔ عزیزؔ احمد آلڈسؔ ہکسلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کئی افسانے ایسے تحریر کیے ہیں جن کی تعمیر تصورات پر ہوئی ہے۔ ’’مدن سینا اور صدیاں‘‘ ایسا ہی افسانہ ہے جو عشق کے بدلتے ہوئے تصورات پیش کرتا ہے۔ تین DIMENSIONS میں پیش کیا گیا یہ افسانہ ان کے نقطۂ نظر اور فن کی عکاسی بخوبی کرتا ہے۔
قرۃالعین حیدرؔ ورجیناوُلف کے اسٹائل سے متاثر ہیں۔ انہوں نے شعور کے بہاؤ کے زیر اثر کامیاب اور پراثر افسانے لکھے۔ قرۃ العین حیدرؔ کے فن کا ارتقاء دراصل ان کے ذہنی ارتقاء کی غمازی کرتا ہے۔ اتنے قلیل عرصے میں حیات و کائنات اور انسانی تہذیب اور معاشرے کاجو شعور انہوں نے حاصل کیا ہے اردو ادب میں اس کی مثال شاید ہی کسی دوسرے ادیب کے ہاں ملے گی۔ اردو میں ان سے بہتر افسانہ نگار موجود ہیں، لیکن کتنے افسانہ نگار ایسے ہیں جن کے ذہن نے واقعی ارتقاء کی منزلیں اتنی تیزی سے طے کی ہیں۔
ژنگؔ کانظریہ فرائیڈؔ کے تحلیلِ نفسی سے زیادہ گہرا اور ہمہ گیر ہے لیکن نئے افسانے نے ژنگؔ سے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ دیویندر ستیارتھی کے افسانے پڑھنے سے یہ خیال ضرو رہوتا ہے کہ وہ اجتماعی لاشعور کے سرچشمے سے زیادہ قریب ہیں۔ ان کے ذہن کی تعمیر لوک گیتوں اور دیومالائی عناصر سے ہوئی ہے جس کا رنگ ان کے افسانوں پر غالب ہے۔
اس پس منظر میں راجندر سنگھ بیدیؔ کے کرداروں کی جڑیں بھی ہماری تہذیب اور ہمارے معاشرے میں بہت گہری ہیں۔ بیدیؔ ان کرداروں کے اندرونی کرب اورجذبات کی تصویر کشی میں نئے افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ کامیاب ہیں۔ ان کی ویژن اور فنی مہارت ان کے افسانوں کو نہ صرف کامیاب بلکہ عظیم بنادیتی ہے۔ بیدیؔ روسی افسانہ نگاروں سے متاثر ہیں۔ ان پر چیخوفؔ کااثر نمایاں ہے۔ روزمرہ کے معمولی واقعات اور احساسات کو فنی بلندی پر لے جانا اور اس میں انسانی دکھ درد کی بولتی ہوئی تصویر پیش کرنا بیدیؔ کے فن کی معراج ہے۔
کرشنؔ چندر کے افسانوں میں مارکسؔ اور فرائیڈؔ، رومان اور حقیقت، حسن پرستی اور انقلاب باہم گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ کرشنؔ چندر نے فن اور تکنیک کے مسلسل تجربے کیے ہیں۔ ان کا ذہن اردو افسانے کی مستقل تجربہ گاہ ہے۔ ظاہر ہے نئے تجربات کرنے میں کبھی کبھی فنی پہلو کے کمزور ہونے کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ ان کے حالیہ افسانے جذبات کو تو چھولیتے ہیں لیکن ذہن پر کوئی دیرپا نقش نہیں چھوڑپاتے۔ لیکن ادب کو تازگی، زندگی اور شگفتگی بخشنے کے لیے تجربے کرنالازمی ہے۔ کرشن چندرؔ نے ادب کی ہر زندہ روایت کواپنے افسانوں میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ اور اسے اپنے قلم کے جادو سے بے مثال بنادیا ہے۔
اردو افسانہ ارتقاء کی اس منزل پر پہنچ چکا ہے جہاں موضوع اور مواد، رجحان اور تحریک، تکنیک اور فن، ہیئت او راسٹائل میں نت نئے تجربے ہو رہے ہیں اور روایت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جارہا ہے۔ اس لیے اس میں تازگی بھی ہے اور پختگی بھی۔ اردو افسانہ مغرب کے بہترین افسانوں کی روایت اور مشرقی مزاج کو اپنے اندر سموکر ادب کی نئی روایت کو جنم دے رہا ہے۔ حقیقت کی معاشرتی تفسیریں، سیاسی مسائل، جنسی الجھنیں، انفرادیت میں ڈوبے ہوئے خیالات اور احساسات۔ اجتماعی شعور، موڈ کی گرفت اور پھیلی ہوئی وسیع زندگی۔ مخصوص ماحول کی عکاسی اور بین الاقوامی واقعات، زندگی کے پیچیدہ اور گوناگوں رشتے، نفسیاتی پہلو، کائناتی تصور، انسانیت پرستی، کردار نگاروں کی گہرائی، خارجی حقائق، داخلی کیفیات، لاشعور کی دنیا اور تحلیلِ نفسی، شعور کا بہاؤ، آزاد تلازم، اظہاریت و رمزیت، سر ریلزم، مارکسیت، تہذیبی شعور، اردو کانیا افسانہ سب کو محیط کیے ہوئے ہے۔
جدید تر افسانہ نگاروں سے یہ خطرہ تو نہیں کہ وہ انگلینڈ کے انگری ینگ مین کی طرح فلاحی ریاست اورقومی تعمیر سے بغاوت کربیٹھیں گے یا امریکہ کے BEATS کی طرح بغیر آدرش کے باغی بن جائیں گے۔ یہ دونوں رجحانات موجودہ سماج اور اس کے اقدار سے انحراف کرتے ہیں اور ذہنی ناپختگی کو عیاں کرتے ہیں۔ مغرب کو تہذیبی زوال سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ جس کے باعث شکست کااحساس ناگزیر ہے۔ جب کہ ہندوستان میں نئے معاشرے اور نئی اقدار کی تشکیل کا خواب آور عمل افسانہ نگاروں کونئے جذبے اور نئی امید سے روشناس کراتاہے۔
افسانہ نگاروں کی نئی پود انسان کو ایک فرد کی حیثیت سے قابل قدر سمجھتی ہے۔ موجودہ افسانے میں فطرت پرست نقطۂ نظر کے خلاف شخصیت کے پیچیدہ اور پوشیدہ عناصر کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے باعث سماجی حقیقت نگاری کواب زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔ اور اسی باعث فرائیڈؔ کانظریہ بھی زیادہ مقبول نہیں رہا۔ یہ دونوں نظریات فلسفہ جبریت کے حامل ہیں۔ نئے افسانے میں انفرادی احساسات اور ردِّعمل کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ انفرادی عمل، ارادے کی آزادی، اخلاقی ذمہ داری اورشخصیت کے نقطۂ نظر کو افسانے میں پیش کیا جارہا ہے۔ نئے افسانے کاکردار ٹاٹیپ نہیں بلکہ منفردہے۔ فن، شخصیت اور نقطۂ نظر کی یہ آمیزش نئے افسانے کے درخشاں افق کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ذہن کی بلوغت کی غماز ہے۔ اور اگرنئے افسانہ نگار کی تخلیقی کرب سے گزرنے کے لیے تیار ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ عظیم افسانے کی تخلیق نہ کرسکیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.