اردو افسانے کا نسوانی لحن
’’ہم زندگی کا احترام اُس وقت تک نہیں کرسکتے، جب تک کہ ’’ہم جنس‘‘ کا احترام کرنا نہ سیکھیں۔‘‘ (ڈاکٹر ہیولاک ایلس)
مشرق اور مغرب، ہر دو اطراف کے مذہبی مفکرین کا خیال ہے کہ مرد ازل سے صاحبِ فہم و فراست ہے اور عورت ناقص العقل۔ حقوقِ نسواں کی عالمی تحاریک کے زیرِ اثر ’’برابری کا درجہ‘‘ مل پائے گا یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہمارا قدیم ماضی اور ماضی قریب تو کم از کم اِس بات کی گواہی نہیں دیتا۔
ہمارے ہاں عورت کو زندگی کرنے کے مساویانہ حقوق نہ ملنے کے سبب جملہ تہذیبی نشوونما اور سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی سطح پر بھی عورت کا تخلیقی اشتراک اُس طور میسر نہ آسکا، جیسا کہ مغرب میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باوجود شعری سطح پر زیب النساءمخفی (بنتِ اورنگ زیب عالمگیر) تا شاہدہ حسن، اور افسانے کی سطح پر عباسی بیگم، نذر سجاد، آصف جہاں اور انجمن آراءسے خالدہ حسین تک نسوانی تخلیق اظہار نے تہذیبی، سماجی اور ادبی سطح پر بھرپور اثرات مرتب کیے۔
فرانسیسی مستشرق گارسیں دتاسی نے لکھا ہے کہ، ’’میں نے زیب النساءکی اردو نظمیں دیکھیں اور پڑھی ہیں۔‘‘ 1 لیکن بطور شاعرہ زیب النساءزیبی مخفی کا ذکر اُس کے اپنے زمانے میں ممکن نہ تھا۔ خود میر محمد تقی میر نے اپنی شاعرہ بیٹی، بیگم کا ذکر تذکرہ ’’نکات الشعرائ‘‘ میں نہیں کیا، محض اس لیے کہ عورتوں کے جذبات کو (خواہ وہ تخلیقی اور خیالی ہی کیوں نہ ہوں) بے نقاب کرنا سماج میں بُری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
دوسری طرف ہوس گیری کا یہ عالم ہے کہ حکیم فصیح الدین رنج نے جب ایک سو چُہتر اردو شاعرات کا ا وّلین تذکرہ ’’بہارستانِ ناز‘‘ (۴۶۸۱ئ) میں قلم بند کیا تو اپنے زمانے کی معروف شاعرہ مُنی بائی حجاب کا ذکر یوں کرتے ہیں،
’’عمر میں ابھی انیسویں سال کی گرہ پڑی ہے۔ شاعری کے رستے میں قدم تو رکھا ہے مگر سنبھل کر چلیں، یہ منزل کڑی ہے۔ پہلے ہم گداختہ دلوں سے اپنا دل لگائیں۔ معشوقی کو بالائے طاق رکھیں، عاشق بن جائیں۔ آج کل کی شاعرات سے اب بھی بہتر ہیں۔ مشتری اور زہرہ کی ہم سر ہیں۔ دُور دُور کی سیر بھی کرچکی ہیں، پیمانۂ زندگی خوب بھر چکی ہیں، بس ایک ہم سے ہی ملاقات ہونا باقی ہے۔ یقین ہے کہ یہ آرزو بھر آئے گی، اگر سچی مشتاقی ہے۔‘‘ 2
غرض یہ کہ مرد کا معاشرہ تھا اور ماضی قریب کا ہندوستانی سماج، رسوم و رواج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور توہّمات گلے کا ہار تھے۔ ایسے میں عورت حد درجہ مظلوم تھی اور مظلوم بھی اس قدر کہ روحانی اور جسمانی قیود کا شکار ہو کر ایک طرح کی مفلوج زندگی گزاررہی تھی۔ نتیجہ کے طور پر اُس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مرد کے مقابلے میں حد درجہ کم تھی۔ تخلیقی اظہار کیوں کر ممکن ہوتا۔
انگریزی عملداری (1860ء) میں چند علم دوست انگریز حکام کی راہنمائی میں جابجا علمی اور ثقافتی انجمنوں کا قیام عمل میں آیا۔ آگرہ، بنارس، شاہجہاں پور اور لکھنو میں معاشرتی اصلاح نیز تعلیم نسواں پر زور دیا گیا۔ اس سلسلے میں گورنر شمال مغربی صوبہ جات سرولیم میور اور ڈائریکٹر تعلیمات مسٹر کیمپس کی مساعی قابلِ ذکر ہے۔ لگ بھگ1864ءمیں گورنمنٹ آف پنجاب نے تعلیم نسواں کی طرف توجہ کی جس کے نتیجہ میں مدرسہ جات برائے خواتین اور نارمل اسکول معرضِ وجود میں آئے۔ لیکن اس ضمن میں مردانہ معاشرے کی بے توجہی نے اس کوشش کا عدم وجود برابر کردیا۔ ان مدرسوں میں معمولی گھرانوں کی لڑکیاں داخلہ لیتیں۔ اعلیٰ درجہ کے مسلم گھرانے اپنی لڑکیوں کو ان اسکولوں میں داخلہ دلوانا کسرِ شان تصو ر کرتے۔ لڑکیوں کی کم سنی میں شادی بھی اس حوالے سے بڑی رکاوٹ تھی۔ ابتداءمیں سرسید تحریک کا دائرہ اثر ہندوستان کے مقامی مرد تک محدود تھا۔ یہ دیکھ کر نذیر احمد دہلوی نے اصلاح نسواں کی ضرورت کے پیش نظر تربیت اولاد پر توجہ مبذول کی۔ نذیر احمد دہلوی کے تمثیلی قصے ’’مراة العروس‘‘ (1869ء)، ’’منتخب الحکایات‘‘ (1869ء)، ’’بنات النعش‘‘ (1872ء) اور رشید النساءبیگم کا ’’اصلاح النسائ‘‘ (1881ء) ایک طرح سے مسلم گھرانوں میں گھریلو مکتب کا آغاز ہیں۔ خاص طور پر ’’مراة العروس‘‘ میں ہندوستانی عورت کی اصلاح اور تعلیم کے لیے جہاں گھرداری کے معاملات سے متعلق دو ابواب مختص کیے گئے ہیں وہیں اسے جغرافیہ، جرِ ثقیل، مقناطیس، اجرامِ فلکی اور علم تاریخ کے ساتھ ساتھ ایک پاکباز انگریز گھرانے کا احوال بھی سنایا گیا۔
19 ویں صدی کے نصف آخر میں عورت کے لیے چار قسم کا ادب سامنے آیا،
۱۔ چھوٹے چھوٹے رسائل کی صورت ناصحانہ ادب۔ مقصد تعلیم اور اصلاح تھا از قسم ’’مجالس النسائ‘‘ از حالی 1874ء
۲۔ مذہبی رسائل۔ احادیث اور تفاسیر کی روشنی میں حقوق و فرائض سے متعلق، از قسم ’’رسالہ تحفہ الزوجین‘‘ از مولوی محمد قطب الدین خاں 1858ء۔ نیز آدابِ معاشرت و اخلاقی سے متعلق رسائل از قسم ’’آداب النسائ‘‘ از حافظ سید محمد بنگلوریہ 1858ء/ ’’چند بند‘‘ از نذیر احمد دہلوی1871-72ء/ ’’رسالہ علم الاخلاق‘‘ از مولوی سید کرامت حسین۔
۳۔ تمثیلی قصے۔ مقصد اصلاحِ نسواں از قسم ’’مراة العروس‘‘، ’’بنات النعش‘‘، ’’توبتہ النصوع‘‘، ’’فسانۂ مبتلا‘‘، ’’ایامیٰ‘‘ اور ’’رویائے صادقہ‘‘ از نذیر احمد دہلوی، ’’اصلاح النسائ‘‘ از رشید النساءبیگم1849ء، ’’عفتِ نسواں‘‘، ’اور ’’شعلہ پنہاں‘‘ از اکبری بیگم (قبل 1906ء)۔
۴۔ معلوماتی کتب کے تراجم۔ از قسم ’’رسوم ہند‘‘ جاری کردہ محکمہ تعلیم 1968ء/ ’’منتخب الحکایات‘‘ ترجمہ نذیر احمد دہلوی 1869ء/ ’’سیرِ ظلمات‘‘ ترجمہ ظفر علی خاں۔
عورت، جسے مرد نے ہمیشہ سربستہ راز تصور کیا، مرد تخلیق کاروں کا موضوع رہی، لیکن عورت کی نزول نفسی کیفیات کو پوری طرح بیان کرنے کے لیے ہمیشہ عورت ہی کی ضرورت محسوس کی گئی۔
ابن العربی کا قول ہے کہ، ’’ہر جزو، اپنی کُل کی طرف لوٹتا ہے۔ آدم نے حوّا کو اپنی پسلی سے جُدا کرکے دیکھا اور اُس کی طرف راغب ہوگیا۔‘‘
یقینا واپسی کا راستہ جنس کے شاداب خطے سے ہو کر نکلتا ہے لیکن ہمارے ہاں جسمانی قربت ہی پر قناعت کی گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے محمدی بیگم (والدہ امتیاز علی تاج) نے صغرا ہمایوں مرزا کی سرپرستی میں ’’تہذیبِ نسواں‘‘ لاہور کا اجراء (1898ء) کرکے نسوانی اظہار کو ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا۔ ’’تہذیب نسواں‘‘ ہندوستان کا پہلا ہفتہ وار زنانہ اخبار تھا۔ بقول قرة العین حیدر اسی زنانہ اخبار کے اجراءسے ’’معمولی تعلیم یافتہ پردہ نشیں خواتین میں تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔‘‘ 3
’’مدرسة النسواں‘‘ علی گڑھ (قیام، 1906ء) کا مجلّہ ’’خاتون‘‘ علی گڑھ، منشی محبوب عالم کا مُجلّہ ’’شریف بی بی‘‘ لاہور، بیگم شیخ محمد اکرام (مدیرہ) کا مُجلّہ ’’عصمت‘‘ دہلی (اجراء، 1908ء)، بیگم احتشام (قلمی نام، مسز خاموش) کا مُجلّہ ’’رسالہ پردہ نشین‘‘ آگرہ (اجراء، 1912ء)، راشد الخیری کا ہفتہ وار مُجلّہ ’’سہیلی‘‘ دہلی اور ’’بنات‘‘ دہلی (اجراء1915ء) اور قمر النساءبیگم (والدہ اختر جمال) کا مُجلّہ ’’اُمہات‘‘ بھوپال (اجراء1920ء) نے بیسیوں خواتین افسانہ نگار پیدا کردیں۔ راشد الخیری کی ’’تربیت گاہِ بنات‘‘ دہلی (قیام 1923ء) ایک اور جرات مندانہ اقدام تھا جسے سجاد حیدر یلدرم کی ’’آزادی نسواں تحریک‘‘ نے بڑھاوا دیا۔ جس سے یہ ہوا کہ چلمن کے پیچھے سے جھانکنے والی سرشار کی سپہرآراءلکھنو، دہلی، علی گڑھ اور لاہور کی مقفل حویلیوں کی چہار دیواریوں سے نکل کر ممبئی کی چوپاٹی پر کُھلی ہوا میں سانس لینے لگی۔ 4
عجیب اتفاق ہے کہ اردو کی اوّلین افسانہ نگار خواتین، عباسی بیگم، نذر سجاد حیدر، آصف جہاں اور انجمن آراءکے پہلے طبع زاد افسانوں کا سال اشاعت ایک ہی ہے یعنی 1915ء۔ یوں تاریخی اعتبار سے ان افسانہ نگار خواتین سے قبل اردو کے افسانوی افق پر صرف اور صرف دس نام ہی دکھائی دیتے رہے ہیں، یعنی راشد الخیری (1903ء)، علی محمود (1904ء)، وزارت علی اورینی (1905ء)، سجاد حیدر یلدرم (1906ء)، سلطان حیدر جوش (1907ء)، پریم چند (1908ء)، محمد علی ردولوی (1910-11ء)، خواجہ حسن نظامی (1912ء)، نیاز فتح پوری اور سدرشن (1913ء)
اوّلین افسانہ نگاروں میں عباسی بیگم کا پہلا افسانہ ’’گرفتار قفس‘‘ مطبوعہ ’’تہذیبِ نسواں‘‘ لاہور، 1915ءہے۔ عباسی بیگم (والدہ حجاب امتیاز علی) کا تعلق مدراس کے ایک متمول اور روشن خیال گھرانے سے تھا۔ عباسی بیگم کے ابتدائی افسانے ’’تہذیب نسواں‘‘ لاہور، ’’عصمت‘‘ دہلی، ’’خاتون‘‘ علی گڑھ اور ’’تمدن‘‘ دہلی میں شائع ہوئے اور کچھ ہی مدت بعد انھیں بطور افسانہ نگار ’’مخزن‘‘ لاہور اور ’’زمانہ‘‘ کانپور نے بھی قبول کرلیا۔
عباسی بیگم ایک آدرشک حقیقت نگار تھیں۔ افسانہ ’’گرفتار قفس‘‘ میں پردہ نشیں عورت کو ایک ایسے پرندے سے تشبیہ دی گئی ہے جسے پنجرے میں قید کردیا گیا ہو۔ افسانہ ’’ دو شہزادیاں‘‘ میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد سے متعلق ایک تاریخی واقعہ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ شہزادہ شجاع کی اپنے باپ اورنگ زیب کے خلاف بغاوت اور شکست کے نتیجہ میں جلا وطنی نصیب ہوتی ہے۔ ایسے میں شجاع کی دو بیٹیاں بھاگ کر ایک جنگل میں پناہ لیتی ہیں۔ ان کا قیام ایک جھونپڑی میں ہے ا ور کسمپرسی کا عالم۔ ایسے میں ایک نو عمر لڑکا ’’عالیہ‘‘ اُدھر آنکلتا ہے۔ جو اپنی ظریفانہ حرکات سے شہزادیوں کا غم غلط کرتا ہے۔ شہزادیاں بھی اس سے مانوس ہوجاتی ہیں۔ کچھ مدت بعد پتا چلتا ہے کہ اس علاقے کے ایک رئیس کو جنگل میں ان کی موجودگی کا علم ہوگیا ہے۔ یہ قیامت کی گھڑی تھی اور موت صاف نظر آرہی تھی۔ ایسے میں ایک شہزادی اُس لڑکے کو الوداع کہتے ہوئے اپنی انگوٹھی بطور یادگار دے دیتی ہے۔ خلاف توقع اس رئیس کے محل میں شہزادیوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔ جب تمام خواص اور عمائدین رخصت ہوجاتے ہیں تو رئیس اپنے تخت سے نیچے اتر کر شہزادیوں سے پوچھتا ہے،
’’کیا تم نے جنگل کے اس پُرانے رفیق ’’عالیہ‘‘ کو پہچان لیا؟‘‘
حقیقت یہ تھی کہ عالیہ ہی اُس علاقے کا رئیس تھا۔ محبت کی نفسیات سے متعلق یہ افسانہ خاصے کی چیز ہے۔ جب کہ افسانہ ’’ظلم بیکساں‘‘ ایک سیدھا سادہ بیانیہ افسانہ ہے جس میں عورت کو مرد کے ظلم و ستم کا شکار دکھایا گیا ہے۔ نذر سجاد حیدر کا پہلا افسانہ ’’خونِ ارماں‘‘ 1915ءمیں شائع ہوا اور پھر یکے بعد دیگرے ’’حور صحرائی‘‘، ’’نیرنگ زمانہ‘‘ اور ’’حق بہ حق دار‘‘ جیسے افسانے لکھ کر شہرت پائی۔ ان کے افسانوں کا لینڈ اسکیپ خاص طور پر اُتر پردیش اور علی گڑھ کا علاقہ ہے۔
نذر سجاد حیدر کے افسانوں میں آزادی نسواں کے حوالے سے عورت کی تعلیم، آزادی اور رجعت پسندی کے ردّ کے آثار خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی نظر اپنے دور کی سیاست پر بھی گہری تھی۔ یہی سبب ہے کہ تحریک عدم تعاون پر انھوں نے کُھل کر لکھا۔ ان کے افسانہ ’’حورِ صحرائی‘‘ (مطبوعہ 1926ئ) کے لیے ایک اخباری خبر نے پلاٹ مہیا کیا، جس میں بتایا گیا تھاکہ جنگل میں ایک شیر کی کچھار سے دو صحت مند بچے برآمد ہوئے جنھیں شیرنی نے ماں بن کر اپنا دودھ پلایا تھا۔
آصف جہاں آزادی نسواں کی علمبردار تھیں۔ انھوں نے عورت اور مرد کے باہمی رشتے کو اپنا موضوع بنایا۔ اُن کا پہلا افسانہ ’’شش و پنج‘‘ (1915ئ) کے عنوان سے شائع ہوا۔ پھر وقفے وقفے سے انھوں نے متعدد یادگار افسانے لکھے خصوصاً ’’تیسری تاریخ کا چاند‘‘ (1918ئ)، ’’مشق ِ ستم‘‘ (1920ئ)، ’’سالگرہ‘‘ (1920ئ)، ’’ندامت‘‘ (1924ئ)، ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ (1925ئ)، اور ’’عجلت بے جا‘‘ (1925ئ) نے بہت شہرت پائی۔
انجمن آراءکا افسانہ ’’ریل کا سفر‘‘ (1915ئ) خاص طور پر یاد رکھا جائے گا، جس میں ریل کے پہلے سفر کے دوران عورت کی بے بسی اور مجبوری قابل ِ دید ہے۔ مرد کی ہوس پرستی پر یہ ایک شدید طنز ہے۔ اِن چار اوّلین افسانہ نگار خواتین کے 1915ءمیں سامنے آنے کے فوراً بعد نئے ناموں کی جیسے ایک کہکشاں سج گئی۔
اُمّت الوحی کی افسانہ نگاری کا آغاز 1916ءمیں تہذیب نسواں، لاہور اور ’عصمت‘ دہلی سے ہوا۔ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ جب کہ اصلاح پسندی قدرِ مشترک۔ 1927۱ءمیں ان کا افسانہ ’’شاہد وفا‘‘ شائع ہوا اور یہی ان کا شہرت کا باعث بھی ہے۔ ’’شاہدِ وفا‘‘ کے تین مرکزی کردار ہیں۔ سعید، سلمہ ایک نوبیاہتا جوڑا ہے جس کی خوشیوں کا محور ان کا نومولود بیٹا ہے۔ بچے کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس مہرالنساءکو ملازم رکھا جاتا ہے۔ جو بچے سے محبت کی آڑ میں سعید پر ڈورے ڈالتی ہے۔ سعیداشارے کنائیوں میں بیوی پر صورت احوال واضح کرتا ہے لیکن سلمہ، مہرالنساءکی بے بسی اور مجبوری کو دیکھتے ہوئے خدا ترسی کے سبب اسے ملازمت سے علاحدہ نہیں کرتی۔ تاوقتیکہ مہرالنساءپوری طرح سعید کے حواس پر چھا جاتی ہے۔ سلمہ سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ان دونوں کی شادی پر رضا مند ہوگئی۔ اب مہرالنساءکمال مہارت سے سعید کو اس کی وفا شعار اور خدا ترس بیوی سے بدٰظن کردیتی ہے اور سعید اپنی بیوی کو عین اُس وقت اپنے گھر سے نکال دیتا ہے جب وہ امید سے ہے۔
خود راکردن علاج نیست کے مصداق سلمہ بے کسی کے عالم میں دوسرا بچہ جنتی ہے۔ افسانے کے دوسرے حصے میں سعید اور مہرالنساءکو بے اولاد رکھا گیا ہے جب کہ سلمہ پر دوسری افتاد یہ پڑی کہ سعید اس سے اس کی زندگی کا سہارا جمیل (بیٹا) بھی چھین لیتا ہے۔ کچھ مدت بعد مہرالنساءبیمار پڑتی ہے تو سلمہ اپنے ہی گھر میں بھیس بدل کر بطور ملازمہ پہنچ جاتی ہے۔ اب وہ اپنے ہی گھر میں بطور خدمت گار ملازم ہے اور سعید کے بیمار پڑنے پر اُسے اپنا خون دینے کے سبب جان گنوا بیٹھتی ہے۔ آخری وقت میں سعید کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جان بچانے والی سلمہ تھی تو وہ کفِ افسوس مَلتاہے لیکن اس کی یہ پشیمانی سلمہ کو موت سے نہیں بچا سکتی۔
یہ افسانہ دوہرے پلاٹ کا حامل ہے اور اس تکنیک کو اُمّت الوحی نے پہلی بار برتا۔ اس افسانے کی مقبولیت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ قیام پاکستان کے بعد اداکار و ہدایت کار نذیر نے اس کہانی پر مشہور فلم ’’نوکر‘‘ بنائی۔ جس میں سلمہ کا کردار مشہور اداکار سورن لتا اور سعید کا کردار نذیر نے ادا کیا تھا۔
اُمّت الوحی کے سات افسانوں کا مجموعہ ’’شاہد وفا‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
خاتون اکرم نے مختصر افسانہ لکھنے کے ساتھ پہلی بار طویل مختصر افسانے لکھنے کی ابتدا کی۔ ان کے بیشتر افسانے 1918ءتا 1920ءکی تخلیقات ہیں۔ خاتون اکرم نے رسوم باطلہ اور نئی تہذیب کی خرابیوں کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کے افسانوی کردار سرسید احمد خان کے مضمون ’’گزرا ہوا زمانہ‘‘ (مطبوعہ، ’’تہذیب الاخلاق‘‘ علی گڑھ بابت، 21 مارچ 1973) کے انداز میں اپنے بُرے افعال سے متعلق بھیانک خواب دیکھ کر گزشتہ زندگی سے تائب ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طریقہ کار کی ایک مثال ان کا افسانہ ’’بالائی آمدنی‘‘ ہے۔
خاتون اکرم کا نمائندہ افسانہ ’’آرزو کی قربانی‘‘ ایک ایسی ہٹ دھرم خاتون کی کہانی ہے جو بے جا
رسوم کی پابند ہے اور نئی تہذیب کی گرویدہ۔ اس نے محض ایک رنگا رنگ تقریب کا اہتمام اپنے گھر پر کرنے کی خاطر اپنی تین سالہ بیٹی ثریا کو شدید گرم موسم میں روزہ رکھوایا اور افطار پارٹی کے اہتمام میں جُت گئی۔ افطار کے وقت جب ثریا کی ڈھنڈیا پٹی تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ معصوم لڑکی اپنے کمرے میں پانی سے بھری صراحی پر منہ رکھے ابدی نیند سورہی ہے۔ اس نے ماں کے خوف سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا اور پیاس کے سبب جان دے دی۔
خاتون اکرم کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلستانِ خاتون‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور اس کے بعد دو طویل مختصر افسانے ’’پیکر وفا‘‘ اور ’’بچھڑی بیٹی‘‘ کے عنوانات سے الگ الگ کتابی صورت میں سامنے آئے۔
سعیدہ اختر نے 1919ءمیں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’کوکب‘‘ تھا لیکن اس کے بعد محض چند افسانے لکھ کر ادبی اُفق سے غائب ہوگئیں۔ سعیدہ اختر کے افسانے تکنیکی اعتبار سے بیانیہ لیکن کرداروں کا ڈوب کر مطالعہ کرنے کے غماز ہیں۔ انھوں نے ایک افسانوی مجموعہ ’’ستارے‘‘ کے نام سے یادگار چھوڑا۔
زبیدہ زری نے لگ بھگ 1920-21ءمیں افسانہ نگاری شروع کی اور تسلسل کے ساتھ اس دور کے تمام اہم ادبی جرائد خصوصاً ’’ہمایوں‘‘ اور ’’ادبی دنیا‘‘ میں لکھتی رہیں۔ ان کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے اور اصلاح پسندی کا وہ زور و شور بھی نہیں جو ابتدائی دور کی خواتین افسانہ نگاروں کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔
زبیدہ زری کے افسانوں کو پریم چند کی ادبی روایت میں رکھ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ’’ادب زری‘‘ کے عنوان سے ایک افسانوی مجموعہ یادگار چھوڑا۔
آمنہ نازلی نے افسانہ نگاری کے ساتھ ڈراما نگاری بھی کی۔ آمنہ نازلی کے افسانوں اور ڈراموں میں زبان و بیان کا وہ اعلیٰ معیار دیکھنے کو ملتا ہے جسے اکثر مرد افسانہ نگار بھی چُھو کر نہیں گزرے۔ اُن کے افسانوں کی اہم خصوصیات میں موضوعات کا تنوع اور حد درجہ اختصار ہے۔ اُن کے ایک افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو،
’’خالہ امی نے پلیٹ پوش ہٹا کرایک لمبی سی پسلی اٹھائی، ’’اوئی بُوا یہ حصّہ‘‘
’’کیا کہیں سے حصہ آیا ہے، بیگم صاحبہ؟‘‘ سعیداً باورچی خانہ سے لپک کر آئی۔
’’ہاں ہاں، بھاوج کے گھر سے، ذرا دیکھو تو اُس گھر میں کیا بلیاں رہتی ہیں جو چھیچھڑوں کے ڈھیر لگادیئے۔‘‘
خالہ امی نے دوبارہ کپڑا ہٹا کردو بوٹیاں چٹکی سے پکڑ کر لٹکائیں۔ لمبے لمبے چھیچھڑوں میں پتلی پتلی پسلیاں، کہیں غدودوں کے گُچھے جھلّی میں لپٹی ہوئی مُنحنی سی بوٹی۔ خالہ امی تو خالہ امی، اُس وقت بُوا سعیداً کو بھی غصہ آگیا۔‘‘
(افسانہ، ’’بقرعید کے حصّے بخرے‘‘)
آمنہ نازلی کے دو افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں سے ’’ننگے پاﺅں‘‘ نے بہت شہرت پائی۔
ابتدائی دور کی دیگر افسانہ نگار خواتین میں حجاب امتیاز علی کی دو خالاﺅں رابعہ سلطان بیگم اور خیر النساءبیگم، سیدة النسائ، صُغرا ہمایوں مرزا، نسیم ایوب، زبیدہ سلطان اور عزیز النساءکے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
اردو افسانے میں اصلاحِ نسواں (بہ حوالہ راشد الخیری) قوم پرستی، سماجی اصلاح پسندی، داستانوی رومانیت (بہ حوالہ پریم چند اور سدرشن)، ماضی میں پناہ لینے کا رویہ، نفسیات سے شغف اور داستان طرازی (بہ حوالہ محمد علی ردولوی) کی ملی جلی صورتیں خواتین کے افسانوں میں بھی ظاہر ہورہی تھیں کہ سجاد حیدر یلدرم نے ترکی ادب کے تراجم کی معرفت خالصتاً یورپی وضع کی رومانیت متعارف کروائی۔ اس سے قبل ہمارے افسانوی ادب میں رومانیت کا مشرقی رویہ تو موجود تھا لیکن اب نیاز فتح پوری نے اپنے دور کے مروج افسانے سے محض اصلاح نسواں اور سماجی اصلاح پسندی کو موضوعی سطح پر چنتے ہوئے رومانی ذات کے حوالے سے معاشرتی سطح پر انقلاب برپا کرنے کی ٹھانی۔ یوں اردو افسانے میں بلند آہنگی اور نشتریت کی جگہ انسانی داخل کا اثر و نفوذ بڑھا نیز سرسید احمد خان کی متعارف کردہ خشک بے جان نثر کی جگہ ادبِ لطیف نے لے لی۔ اب مجنوں گورکھ پوری نے مرد اور عورت کی محبت کو معاشرتی جکڑ بندیوں سے آزاد دیکھا اور ٹامس ہارڈی و ہیگل کے گہرے اثرات قبول کرتے ہوئے رومان اور فلسفے کے باہمی امتزاج سے ارد و افسانے میں نرول رومان پسندی کی ایک نئی الم پسند لہر متعارف کروادی۔ اس نئی رومان پسند لہر میں مسز عبدالقادر اور حجاب امتیاز علی (حجاب اسماعیل) کا حصہ بہت نمایاں ہے۔ 1920ءمیں اس نئی رومانی لہر کی اولین نمائندہ نسوانی آواز راحت آراءبیگم کے افسانوں کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ’’پریمی‘‘، ’’بانسری‘‘، اور ’’غنچہ‘‘ کے عنوانات سے شائع ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ راحت آراءبیگم کا اپنا کوئی مخصوص رنگ نہیں۔ انہوں نے یلدرم اور نیاز فتح پوری کے ساتھ پریم چند کے متحارب رنگوں کو باہم ملا کر پیش کردیا۔
نرول رومانی انگ کی پہلی بھرپور صورت مسز عبدالقادر (اصل نام، غلام زینب خاتون) کے افسانے ہیں۔ مسز عبدالقادر کا پہلا افسانہ ’’لاشوں کا شہر‘‘ لگ بھگ 1920ءکی تخلیق ہے۔ یوں ’’لاشوں کا شہر‘‘ سے افسانہ ’’صدائے جرس‘‘ تک ان کے افسانوں پر امریکی ناول نگار اور افسانہ نگار ایڈگرایلن پو کی چھاپ بہت گہری ہے۔ خاص طور پر افسانہ ’’بلائے ناگہاں‘‘ اور ایڈگرایلن پو کے افسانے‘‘The Black Cat ’’ کی حیرت انگیز مشابہت خاص طور پر قابل توجہ ہے۔
مسز عبدالقادر کے افسانوں میں حد درجہ کی پُراسراریت اور تجسّس انسانی نفسیات کی حیرت انگیز جہتوں کی چہرہ نمائی کے وسیلے ہیں۔ جب کہ بعض افسانوں خصوصاً ’’راکھشس‘‘، ’’سمادھ کا بھوت‘‘، ’’بلائے ناگہاں‘‘، ’’لاشوں کا شہر‘‘، ’’صدائے جرس‘‘، ’’راہبہ‘‘، ’’ارواحِ خبیثہ‘‘، ’’شگوفہ‘‘، ’’کاسۂ سر‘‘، ’’ناگ دیوتا‘‘، ’’رسیلا‘‘ میں خوف اور دہشت کی کیفیات انہیں اردو ادب میں سب سے الگ تھلگ اور نمایاں مقام عطا کرتی ہیں۔
مسز عبدالقادر نے ایڈگر ایلن پو کے گہرے اثرات کے تحت افسانہ نگاری کا آغاز کیا اور اس میں اُن کی اپنی نفسی کیفیات نے بھی اہم رول ادا کیا۔ بقول مسز عبدالقادر،
’’سیاحت کے دوران میں نے انجیل، تورات، زبور اور قرآن مجید کا تفصیلاً مطالعہ کی۔ اس تمام مطالعہ کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میرا فلسفہ آواگوں پر یقین ہوگیا اور مجھے یہ خیال آنے لگے کہ میرا دوسرا جنم ہے اور اس لیے میرا اس دنیا میں دل نہیں لگتا۔ لیکن یہ اعتقاد ہندو عقیدے کی و جہ سے نہیں ہوا کیونکہ مجھے ہندوﺅں سے بہت نفرت ہے بلکہ میرا یہ اعتقاد مطالعہ سے اور اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر ہوا کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ جب میں کسی چیز کو دیکھتی تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ میں اس چیز کو پہلے بھی دیکھ چکی ہوں لیکن یہ یاد نہ آتا کہ یہ چیز پہلے کہاں دیکھی تھی۔‘‘ 5
اس نفسی کیفیت کے زیرِ اثر انھوں نے ڈوب کر لکھا،
’’فرزانہ کی چیخیں بند ہوچکی تھیں۔ وہ بے حس و حرکت پڑی تھی۔ میں اس بدحواسی میں اٹھا۔ مرتعش ہاتھوں سے بندوق اٹھائی اور ایک لاش کی پیشانی کا نشانہ لے کر داغ دی۔ گولی ٹھیک نشانہ پر بیٹھی۔ اس لاش کا آدھا سر اڑ گیا۔ مگر وہ بدستور بڑھ رہی تھی۔ حتی کہ لاشیں بالکل قریب آگئیں۔ بڑھی ہوئی مایوسی اور بے بسی سے میرا دل بیٹھ رہا تھا۔ میں دیوار کے سہارے کھڑا ہوگیا۔ اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی سخت چیز میرے بدن پر مَس ہوئی۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔‘‘ (افسانہ، ’’لاشوں کا شہر‘‘)
افسانوی مجموعہ ’’وادی قاف‘‘ کے افسانے متنوع منظرناموں اور مناظرِ فطرت (خصوصاً قہار فطرت) اور ’’راہبہ‘‘ کے افسانے دنیا بھر کی گم نام سیاحت گاہوں کے حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر دو مجموعوں میں قہار فطرت کے مقابل انسان کھڑا ہے،
’’اس کا بدن بخار سے پھنک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں لال انگارہ ہورہی تھیں۔ ادھر اُدھر سر پٹختا تھا اور ’’مجھے بچاﺅ بچاﺅ‘‘ کہہ کر جگر خراش چیخیں مارتا، کبھی کہتا ’’ہائے چچی حفیظ گرم سلاخوں سے میرا بدن داغ رہی ہے۔‘‘ کبھی کہتا۔ ’’ ریشمہ مجھے آتشیں بھالا نہ مارو۔ ہائے مجھے دوزخ کے فرشتے پابجولاں کرکے لے چلے ہیں، مجھے چھڑاﺅ۔‘‘
’’غرض کہ اسی طرح چیختا چلاتا صبح کے وقت مر گیا۔ ادھر طوفان بھی تھم گیا تھا۔‘‘
(افسانہ ’’پاداش عمل‘‘ سے اقتباس)
مسز عبدالقادر خود بتاتی ہیں،
’’میں نے کبھی کسی کہانی کا پلاٹ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ جب کبھی مجھے کسی کہانی کے پلاٹ کی ضرورت پڑے تو میں کسی ویران اور سنسان کھنڈر میں چلی جاتی ہوں تو وہاں ماحول کے تاثرات سے کہانی کا پلاٹ خود بخود سوجھ جاتا ہے۔‘‘
(بحوالہ، ’’خود نوشت حالاتِ زندگی‘‘، مملوکہ مرزا حامد بیگ)
اُن کے افسانے نہ صرف موضوعی سطح پر منفرد ہیں بلکہ اسلوبیاتی سطح پر بھی الگ ذائقہ کے حامل ہیں۔ تحیر خیزی اور دہشت ناکی کی پیش کش کے ساتھ ان کا رومانی رویہ انھیں اردو کے بڑے رومانی افسانہ نگاروں میں اہم مقام دلاتا ہے۔
مسزعبدالقادر کے چار افسانوی مجموعے ’’لاشوں کا شہر اور دوسرے افسانے‘‘ (طبع اول، 1936ئ، ’’صدائے جرس‘‘ (طبع اوّل، 1939ئ)، ’’راہبہ اور دوسرے افسانے‘‘ (1946ء)اور ’’وادی قاف اور دوسرے افسانے‘‘ (طبع اول، 1954ئ) کے عنوانات سے شائع ہوئے۔
اردو افسانے میں نرول رومانی لہر کے حوالے سے دوسری توانا آواز حجاب امتیاز علی کی ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ حجاب امتیاز علی کے لڑکپن میں اُن کی والدہ (عباسی بیگم) کی ناوقت موت نے حجاب کو یکسر تنہا ہی نہیں کردیا بلکہ مسز عبدالقادر کی طرح وہ بھی ذہنی اذیت کا شکار رہیں۔ اس عالم میں انھوں نے نثر لطیف لکھ کر نوجوانی میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ فکشن نگاری کی سطح پر طویل مختصر افسانہ ’’میری ناتمام محبت‘‘ مطبوعہ، نیرنگ خیال‘‘ لاہور ۲۳۹۱ءسے انھیں لازوال شہرت ملی۔
پہلے پہل انھوں نے حجاب اسماعیل کے نام سے لکھا۔ امتیاز علی تاج سے شادی کے بعد حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے لگیں۔ اُن کے افسانے رومانی کردار نگاری اور رومانی فضا بندی کے ساتھ اجنبیت کا احساس لیے ہوئے ہیں۔ اس پر مُستزاد رومان پرور اور سحر آفریں ماحول ہے۔ جس کا جنم جنوبی ہند کے ضلع کرشنا کے مضافات اور دریائے گوداوری سے ہوا۔ کنول کے پھول، کیوڑے کے جنگلات، تاڑ کے سربلند درخت، دھان کے کھیت۰ حواصلیں، کال کلیچیاں، سنگھا پوری مینائیں اور اگیا بیتال سے پیدا ہونے والی ہیبت ناکی۔ یہ اردو میں بصری رومانیت کا پہلا تجربہ تھا۔ لیکن حجاب کے افسانوں کی طلسماتی فضا اور رومان میں ڈوبے ڈاکٹر گار، چچا لوث، دادی زبیدہ، رُوحی، صبوحی، صوفی اور ریحانی جیسے کرداروں کی نقل و حرکت پُراسرار تو ہے، مسز عبدالقادر کے افسانوی فضا کی طرح ہیبت ناک ہر گز نہیں۔
حجاب امتیاز علی نے تاریخ، نفسیات، سائنس، علم نجوم اور مذاہب عالم کا مطالعہ جم کر کیا تھا، اِ س لیے وہ کردار نگاری کی سطح پر دادی زبیدہ، جسوتی، سرجعفر، ڈاکٹرگار، زوناش اور چچا لوث جیسے بڑے رومانی کردار خلق کرپائیں۔ یہ سب کردار حجاب کے تخلیق کردہ فنٹاسٹک ماحول میں جیتے ہیں۔ یہ حجاب کی خیالی ریاستوں شموگیہ اور کیباس کے باشندے ہیں۔ جو اکثر چہل قدمی کرتے ہوئے حجاب کے خلق کردہ خیالی جنگل ناشپاس تک چلے جاتے ہیں۔
حجاب امتیاز علی اپنی افتادِ طبع کی تشکیل سے متعلق خود بتاتی ہیں،
’’میری ادبی زندگی کا گہرا تعلق میرے بچپن کی تین چیزوں سے ہے۔ فضا، ماحول اور حالات میرے بچپن کا ابتدائی زمانہ جنوب میں دریائے گوداوری کے ہوشربا کناروں پر گزرا۔
ہوتا یہ تھا کہ کالی اندھیری راتوں میں گوداوری کے سنسان کناروں پر ہندوﺅں کی لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ جلانے کے دوران ہڈیاں اور سر اس قدر ڈراﺅنے شور کے ساتھ چیختے تھے کہ انہیں سن کر ہوش اڑ جاتے تھے۔ اس سرزمین پر گوشت پوست سے عاری انسانی ڈھانچے اور ہڈیاں جگہ جگہ پڑی رہتی تھیں اور چیخ چیخ کر انسان کے فانی ہونے کا یقین دلایا کرتی تھیں۔ ا تنا ہی نہیں بلکہ جب ان ساحلوں پر رات پڑتی تو ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں جل اٹھتا تھا اور ٹیلوں فاصلے سے غول بیابانی کی طرح ان ویرانوں میں روشنیاں رقصاں نظر آتی تھیں۔ یہ دہشت خیز منظر ہیبت ناک کہانیوں کے لکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ غرض ان کا حسن اور رات کی خوفناکی یہ تھی فضا۔ ایسی فضا میں جو شخص بھی پلے اور بڑھے اس میں تھوڑی بہت ادبیت، شعریت اور وحشت نہ پیدا ہو تو اور کیا ہو۔
تیسری بات حالات کی تھی۔ جنھوں نے مجھے کتاب و قلم کی قبر میں مدفون کردیا۔ مدفون کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ اگر میں نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ادبی مشاغل میں دفن نہ کردیا ہوتا تو میں کبھی کی ختم ہوگئی ہوتی۔ وہ زمانہ مرے لیے بے حد حزن و ملال ا تھا۔ مری والدہ ابھی جواں سال ہی تھیں کہ اللہ کو پیاری ہوگئیں ان کی موت مرے خرمن پر بجلی بن کر گری۔ اس زمانے میں میرا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ لڑکپن تھا، اس پر شدید ذہنی دھچکا ماں کی موت کا تھا۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اعصابی بنا دیا تھا۔‘‘ 6
حجاب امتیاز علی کے ان خالص رومانی افسانوں کے ساتھ ساتھ ایسے رومانی افسانے بھی لکھے جن میں زندگی کے تلخ حقائق کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس خصوص میں ’’عناصر میں ظہور ترتیب‘‘ اور ’’پے انگ گیسٹ‘‘ جیسے افسانے الگ ذائقے کے حامل ہیں لیکن اُن کے آخری افسانے ’’درزی‘‘ تک اُن سے مخصوص رومانی فضا قائم و دائم رہی۔
حجاب امتیاز علی کے متعدد افسانوی مجموعے بہ عنوان، ’’میری ناتمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے‘‘ (طبع اول، 1932)، ’’لاش اور دوسرے ہیبت ناک افسانے‘‘ (طبع اول، 1933)، ’’کاﺅنٹ الیاس کی موت‘‘ (طبع اول، 1935)، ’’تحفے اور دوسرے شگفتہ افسانے‘‘ (طبع اول، 1939)، ’’صنوبر کے سائے اور دوسرے رومانی افسانے‘‘ (1939ءسے قبل)، ’’ممی خانہ اور دوسرے ہیبت ناک افسانے‘‘ (1946ءسے قبل)، ’’ڈاکٹر گار کے افسانے‘‘ (1946ءسے قبل) اور ’’وہ بہاریں یہ خزائیں‘‘ (طبع اول، 1946ء) شائع ہوچکے ہیں۔
رومان نگاری کی اس روایت میں سحاب قزلباش کا افسانوی مجموعہ، ’’بدلیاں‘‘، زبیدہ سلطان کے دو افسانوی مجموعے ’’لمحات رنگین‘‘ اور ’’شبستان‘‘، سعیدہ عبدل کا افسانوی مجموعہ ’’پرچھائیاں‘‘، مشہوراداکارہ خورشید کا مجموعہ ’’آبشار‘‘، سعیدہ بزمی کا افسانوی مجموعہ، ’’حجاب‘‘ اور نجمہ انوارالحق کا افسانوی مجموعہ ’’پھول کی زبانی‘‘ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ان باقاعدہ رومانی افسانہ نگار خواتین کے علاوہ فلمی دنیا سے متعلق تین نام ایسے ہیں جنھوں نے جزوقتی طور پر اچھے رومانی افسانے لکھے۔ ان میں اسٹیج کی ملکہ شریفہ بائی اور مشہور زمانہ اداکار نثار کی اداکارہ بیٹی حسن بانو (اصل نام، روشن آراءپ، 1919) مشہور مغنیہ جدن بائی کی اداکارہ بیٹی نرگس (اصل نام، کنیز فاطمہ پ، 1928) اور ادکارہ منورما (پ، 1926) کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
رومانی افسانہ نگار خواتین میں طاہرہ دیوی شیرازی کا نام بھی شامل کیا جاتا رہا ہے۔ جس کا بارہ افسانوں پر مشتمل ایک افسانوی مجموعہ بھی 1935ءمیں شائع ہوا، لیکن درحقیقت طاہرہ دیوی شیرازی کا وجود نہ تھا۔ اس نام کے پردے میں چراغ حسن حسرت اور ضمیر جعفری تھے۔
1932ءمیں پروفیسر محمد مجیب کا افسانوی مجموعہ ’’کیمیا گر اور دوسرے افسانے‘‘ اور ’’انگارے‘‘ مرتبہ احمد علی اردو افسانے کے نسوانی لحن کو بھی نئی جہت عطا کر گئے۔ یہ اعلامیہ تھا مذہبی اور معاشرتی جکڑ بندیوں سے بغاوت کا۔ جبکہ رشید جہاں کا نام ’’انگارے گروپ‘‘ کا دوسرا اہم نام ہے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’سلمیٰ‘‘ بہ زبان انگریزی، ازابیلا تھوبرن کالج، لکھنو کے کالج میگزین میں 1932ءمیں شائع ہوا۔ ازاں بعد اس افسانے کا ترجمہ آل احمد سرور نے کیا اور اب وہ افسانہ رشید جہاں کے افسانوی مجموعہ ’’شعلہ جوالا‘‘ میں شامل ہے۔
رشید جہاں کا تعلق آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی سے تھا۔ ’’انگارے‘‘ میں شامل اُن کا افسانہ ’’دلّی کی سیر‘‘ یوں تو اس مجموعے میں شامل دیگر افسانوں کی نسبت بے ضرر شے ہے لیکن آگے چل کر انھوں نے جن موضوعات پر ہاتھ ڈالا وہ ان کی بے پناہ جرأت فکر اور جرأت بیان کو ظاہر کرتا ہے۔ بلکہ کہاجاسکتا ہے کہ آج بھی ’’سودا‘‘ جیسا افسانہ لکھنا مرد افسانہ نگاروں کے بس کی بات نہیں۔
’’ماشاءاللہ کیا کہنے، آپ کیوں پہلے جائیں گے ! یہ خوب رہی کہ آپ تو وہاں مزے کریں اور ہمارا جوش یہیں کھڑے کھڑے ختم ہوجائے۔۔۔ اس اندھیرے میں وہ تینوں مرد برابر ہلتے ہوئے نظر آرہے تھے ایک عورت اور تین مرد اور تینوں اتنے سخت بے چین اور بے تاب، فیصلہ مشکل تھا۔ ان کی آوازیں جوش حیوانی سے اسی طرح کانپ رہی تھیں جس طرح کہ ان کے جسم متحرک تھے۔ یہ عورت بالکل خاموش تھی۔ بازار میں جب ایک کتیا کے پیچھے تین چار کتے پڑتے ہیں اور اسی طرح جوش اور بے تابی دکھاتے ہیں تو کم بخت کتیا بھی اتنے خریداروں کا ہجوم دیکھ کر جان چھپا کر بھاگتی ہے لیکن یہ انسان عورت جس کو مالداروں اور نیک شریف عورتوں نے کتیا سے بھی نیچا کردیا تھا ایک ہاتھ سے کار پکڑ کر جھولتی رہی۔‘‘
’’سودا‘‘ (رشید جہاں)
رشید جہاں کے افسانوں میں چرکہ لگانے اور چوٹ کرنے کا عنصر نمایاں ہے۔ جیسے اُس دور کی ادبی فضا پر چھائی ہوئی رومانیت کا ردِ عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن بقول قرة العین حیدر،
’’1938ءتک پہنچتے پہنچتے دنیا بدل چکی تھی۔ گھر آنگن وہی تھے۔ مگر باہر کی دنیا میں ’’آندھیاں‘‘ چل رہی تھیں۔ ڈیوڑھیوں پر لٹکے ہوئے ٹاٹ کے ٹکڑے اور محل سراﺅں اور کوٹھوں کے ڈرائنگ رومز کے مخملیں پردے، سب کے سب اس آندھی میں پھٹپھٹانے لگے تھے اور اُن کے اٹھنے سے اندر کی ایک بالکل نئی اور غیر متوقع جھلک دکھائی دے گئی تھی۔‘‘ 7
رشید جہاں نے ناقص اقتصادی نظام اور فرسودہ معاشرت کی غلط روش کو اس طور پر اجاگر کیا کہ سب ششدر رہ گئے۔ رشید جہاں وہ پہلی باہمت خاتون ہیں جنہوں نے حد درجہ جرأت اور بے باکی کے ساتھ سماج کی کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مرد کی انسانی دوستی، غیرت اور حمیت کو للکارا۔
افسانہ ’’استخارہ‘‘ میں ایک مظلوم دلہن کی افسانوی روداد بیان کی گئی ہے۔۔۔ ایک طرف مولانا خادم علی اپنی تیسری بیوہ کنیز کے بطن سے سالانہ ایک بچے کی آمد کو یقینی بنانے میں مصروف تھے اور دوسری طرف زچگی کے موقع پر اس امر کے لیے بھی استخارہ لینے کو اپنا ایمان جانتے ہیں کہ زچگی ہسپتال میں کرائی جائے یا کسی دائی کے حوالے کنیز کو کیا جائے۔ چنانچہ کنیز خادم علی کے استخارے کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ مگر اس افسانے کا انجام معنی خیز ہے،
’’کنیز اب اتنی سخت بیمار تھی اور بچنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن سانس ہے تو آس ہے۔ خادم علی نے عمر میں پہلی دفعہ استخارہ کی بغیر اجازت ایک کام کیا اور وہ یہ تھا کہ جا کر لیڈی ڈاکٹر کو بلالائے۔‘‘
رشید جہاں نے محمد حسن عسکری کے نام ایک خط میں اپنا نظریہ فن بیان کرتے ہوئے لکھا تھا،
’’میں اپنے افسانوں میں یہی کوشش کرتی ہوں کہ جو میرے خیالات ہیں، ان کی ترجمانی ایمانداری سے کروں۔‘‘ 8
افسانہ ’’سڑک‘‘ میں جولائی اگست 1947ءکا ہندوستان پوری طرح اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ رشید جہاں نے ڈراموں کے علاوہ کل 19 افسانے لکھے۔ جو ان کے تین افسانوی مجموعوں ’’عورت اور دیگر افسانے‘‘ (طبع اول، نومبر1937)، ’’شعلہ جوالا‘‘ (طبع اول، 1928) اور ’’وہ اور دوسرے افسانے‘‘ (طبع اول، 1977) میں شامل ہیں۔
شکیلہ اختر (بیگم اختر اورینوی) کا تعلق بہار سے ہے۔ کچھ یہی سبب ہے کہ ان کے بیشتر افسانوں کا لینڈ اسکیپ بہار کے دیہات رہے۔ دیہی معاشرت کی پیش کش کے حوالے سے ان کے مشاہدے کی گہرائی اور بیان کی سادگی خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ ترقی پسند نظریات کے سبب مالک اور مزارع کی باہمی کش مکش خاص طور پر شکیلہ اختر کا من پسند موضوع رہالیکن کبھی کبھار انھوں نے افسانہ ’’تین ستارے‘‘ (1944) جیسے رومانی افسانے بھی لکھے۔ ’’آنکھ مچولی‘‘ ان کا نمائندہ افسانہ شمار کیا جاتا ہے لہٰذا اسی افسانے سے ایک اقتباس دیکھیے،
’’وہ بچپن سے بہت شوخ و چنچل اور بڑی ہنس مکھ تھی، دیکھنے والے اسے دیکھ کر کرکہتے ’’ہنستے ہی ہنستے تو گھر بستے ہیں‘‘ اور جب اس کی زندگی کا دوسرا اور سب سے اہم دور شروع ہوا تو اس کے تبسم اور زیادہ رنگین ہوگئے اور ہنسی کی سریلی جھنکاریں ستاروں کی طرح تاب ناک ہوگئیں۔ اسے تنہائی سے وحشت ہوتی تھی، اسی لیے وہ رنگ و بو کی طرح ہر محفل پر چھائی رہتی۔‘‘ (افسانہ، ’’آنکھ مچولی‘‘)
شکیلہ اختر کے پانچ افسانوی مجموعے بہ عنوان ’’درپن‘‘ (1943۱)، ’’آگ میں پھول‘‘، ’’آنکھ مچولی‘‘ (1947)، ’’لہو کے مول‘‘ اور ’’ڈائن‘‘ (1956) منظر عام پر آئے۔ ا س کے باوجود ان کے لاتعداد افسانے ادبی رسائل میں بکھرے پڑے ہیں جنھیں سمیٹنے کی صورت میں کئی مجموعوں کا مواد مل سکتا ہے۔
رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کا خاص موضوع متوسط گھرانوں کی روز مرہ زندگی ہے، جس میں سماج کی بے انصافیاں اور یکایک نمودار ہونے والے انہوں نے واقعات فرد کی زندگی کو تلپٹ کردیتے ہیں، ایک مثال، ’’نئی نویلی‘‘
نظریاتی طور پر رضیہ سجاد ظہیر سرکردہ ترقی پسند خاتون تھیں۔ اپنے میاں سجاد ظہیر کی ہمراہی میں آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی سے قربت کے سبب ان کے افسانوں میں معاشرتی اونچ نیچ کے باہمی تفاوت کا تجزیہ خصوصی طور پر توجہ طلب ہے۔ ان کے نمائندہ افسانوں میں ’’لنگڑی ممانی‘‘، ’’نیچ‘‘، ’’معجزہ‘‘اور ’’نگوڑی چلی آوے‘‘ خاص طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ رضیہ سجاد ظہیر کے دو افسانوی مجموعے ’’اللہ کی مرضی‘‘ اور ’’رنگ روتے ہیں‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔
عصمت چغتائی نے ابتدا میں حجاب اور نیاز فتح پوری کے زیر اثر رومانی افسانے لکھے لیکن 1938ءتک اُن کے افسانے اشتراکی فکر کے نمائندہ بن گئے۔ ہندوستان کے گھٹن زدہ ماحول کی لاچار عورت عصمت چغتائی کا موضوع خاص ہے اور اس حوالے سے عصمت کا باغیانہ لہجہ سب کو حیران کر گیا۔ بقول پطرس بخاری، ’’انھوں نے بعض ایسی پرانی فصیلوں میں رخنے ڈال دیئے ہیں کہ جب تک وہ کھڑی تھیں، کئی رستے آنکھوں سے اوجھل تھے۔‘‘
عصمت کے اولین افسانے ’’کافر‘‘ مطبوعہ ’’ساقی‘‘ دہلی1938ءکی اشاعت کے بعدیکے بعد دیگرے ’’خدمت گار‘‘، ’’بچپن‘‘ اور ’’ ڈھیٹ‘‘ جیسے چُلبلے افسانے ۸۳۹۱ءہی میں سامنے آگئے اور 1940ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’کلیاں‘‘ شائع ہوا تو مولانا صلا ح الدین احمد نے انھیں ’’بصیرت کی ایک نہایت بے باک اور صداقت شعار ترجمان‘‘ قرار دیا۔
عصمت چغتائی کے شاہکار افسانوں، ’’لحاف‘‘، ’’ساس‘‘، ’’چھوئی موئی‘‘، ’’پنکچر‘‘، ’’ایک بات‘‘، ’’چابڑے‘‘، ’’جڑیں‘‘، ’’ننھی کی نانی‘‘اور مٹھی مالش‘‘ کی گونج اردو افسانے کے ایوان میں موجود تھی کہ انھوں نے مغل بچہ‘‘ اور ’’گلدان‘‘ جیسے دو شاہکار افسانے لکھ کر سب سے الگ اور نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ اب وہ اپنے یکسر منفرد کرداروں اور احساسات کے تعمیر کردہ جہان کی باسی تھیں جسے کوئی اور چھوکر بھی نہیں گزرا۔
عصمت چغتائی کے متعددافسانوی مجموعے بہ عنوان ’’کلیاں‘‘ (1940)، ’’چوٹیں‘‘ (1942)، ’’ایک بات‘‘ (1952)، ’’چھوئی موئی‘‘ (1952)، ’’دو ہاتھ‘‘ (1962)، ’’زہر‘‘، ’’پہلی لڑکی‘‘، ’’خرید لو‘‘، ’’ لحاف‘‘، ’’بدن کی خوشبو‘‘ اور ’’آدھی عورت، آدھا خواب‘‘ شائع ہوا۔
برانٹے سسٹرز کی طرح خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے نام اردو کے افسانوی اُفق پر طویل مدت چمکے ہیں۔ خدیجہ مستور نے افسانہ نگاری کا آغاز 1938ء میں ہفت روزہ ’’خیام‘‘ لاہور میں لکھنے سے کیا اور ان کا پہلا باقاعدہ افسانہ ’’پہیا‘‘ مجلہ ’’عالمگیر‘‘ لاہور1941ءمیں شائع ہوا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے اس دور کے اہم ادبی پرچوں از قسم ’’ساقی‘‘ دہلی اور ’’ادب لطیف‘‘ لاہور میں افسانہ ’’جوانی‘‘، ’’موہنی‘‘، ’’یہ بڈھے‘‘، ’’ یہ ہم ہیں‘‘، ’’ کیا پایا‘‘، ’’لاشیں‘‘، ’’پتنگ‘‘ اور ’’دہائی‘‘ جیسے افسانے لکھ کر اپنی پہچان کروائی۔ ۵۴۹۱ءمیں جب ان کا افسانہ ’’ہُنہ‘‘ اور افسانہ ’’یہ گاﺅں ہے‘‘ شائع ہوئے تو اس دور کے اہم نقاد احتشام حسین نے آل انڈیا ریڈیو لکھنو کے ایک ادبی جائزے میں ان کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا۔ یہ خدیجہ مستور کا آغاز تھا۔
اس زمانے میں ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔ جس کی فرنٹ لائین پر رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے ساتھ خدیجہ مستور بھی کھڑی دکھائی دیں۔ ان کے ابتدائی افسانوں میں معاشرتی حقائق کا بیان بھی ہے اور رومانی لحن بھی۔ اس طریقہ کار کے نمونے ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’’کھیل‘‘ میں ملتے ہیں جب کہ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’بوچھاڑ‘‘ ترقی پسند افسانے کے پہچان ہے۔ اب ان کے افسانوں میں آزادی کی تڑپ، جنسی گھٹن، افلاس اور محرومی جیسے موضوعات فنکارانہ چابک دستی سے بیان کیے گئے۔ اس حوالے سے خاص طور پر افسانہ ’’ہُنہ‘‘، ’’چیلیں‘‘ اور ’’چپکے چپکے‘‘ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
جزئیات نگاری کا کمال دیکھنا ہوتو خدیجہ مستور کے افسانے دیکھیے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا تیسرا مجموعہ ’’چند روز اور‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں ایک افسانہ ’’ایک خط‘‘قیام پاکستان سے قبل 1945ءکا تحریر کردہ ہے۔ 1947ءکے بعد ان کے دیگر دو افسانوی مجموعے ’’تھکے ہارے‘‘ اور ’’ٹھنڈا میٹھا پانی‘‘ کے عنوانات سے سامنے آئے۔
’’ہینڈ پمپ‘‘ اور ’’مینوں لے چلے بابلا‘‘ خدیجہ مستور کے نمائندہ افسانے ہیں۔ خدیجہ مستور کی طرح ہاجرہ مسرور کی پیدائش بھی لکھنو کی ہے لیکن ان دونوں کا بچپن اُتر پردیش کے مختلف قصبہ جات میں گزرا اور دونوں کو ادبی دنیا سے متعارف کروانے کا سہرا ’’خیام‘‘ لاہور اور ’’عالمگیر‘‘ لاہور کے مدیر عبدالحلیم شبلی کے سر بندھتا ہے۔ ہاجرہ مسرور کا پہلا افسانہ ’’لاوارث لاش‘‘ کے عنوانات سے 1941ءکے ہفت روزہ ’’خیام‘‘ میں شائع ہوا۔ یوں 1944۱ءتک وہ ادبی حلقوں میں متعارف ہوچکی تھیں۔ جس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کا ایک شاندار افسانہ ’’بندر کا گھاﺅ‘‘1944ءکے مجلہ ’’ساقی‘‘ دہلی میں شائع ہوا۔ اس افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو،
’’پنجرے کا پنچھی اڑان کے لیے پَر تول رہا تھا۔
رات کو ماں نے پلنگ پر لیٹتے ہی چابیوں کا گُچھا کمر بند سے کھول کر دیتے ہوئے کہا۔
’’لو یہ اور کوٹھڑی کا تالا کھول کر زینے کے دروازے میں ڈال دو۔ آج تو بچے کی پتنگ پر نیت خراب کی۔ کل کو گھر کا صفایا کردے گا۔ اے ہاں نگوڑا!‘‘ اور پھر اپنا گھڑا جیسا چمکتا ہوا پیٹ کھول کر اطمینان سے ٹانگیں پساردیں۔ اپنے بھر حفاظت کرچکی تھیں۔ لیکن ادہر شروع ہوگیا کاٹ پیچ۔ وہ کوٹھڑی کا تالا کھولتے ہوئے سوچ رہی تھی ’’چھت سے چھت تو ملی ہے آج اس سے وہ سب کچھ کیوں نہ کہہ ڈالوں جو ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک دل میں بھرا ہوا ہے۔‘‘ زینے کا دروازہ مقفل کردیا گیا لیکن گچھے سے اس کی چابی غائب ہو کر تکیہ کے نیچے پہنچ گئی۔‘‘
1944ءمیں ہاجرہ مسرور نے اوپر تلے ’’ہائے اللہ‘‘، ’’موہنی‘‘، ’’تل اوٹ پہاڑ‘‘، ’’نیلم‘‘، ’’میرا بھیا‘‘ اور فروزاں جیسے عمدہ افسانے لکھ کر افسانہ نگاروں کی فرنٹ لائن میں اپنی جگہ بنالی۔ 1945ءمیں ان کے دو افسانے ’’گربہ مسکین‘‘ اور ’’کوٹھی اور کوٹھڑی‘‘ سامنے آئے جن کا ذکر ممتاز شیریں نے ’’نیا دور‘‘ بنگلور (1945) کے ادبی جائزے میں کیا۔
اپنی بہن خدیجہ مستور کی طرح ہاجرہ مسرور بھی انجمن ترقی پسند مصنفین سے جڑی ہوئی تھیں اور ان کا پسندیدہ موضوع سماجی ناانصافیوں میں گھری ہوئی عورت ہے۔ ہاجرہ مسرور کے افسانوں کا ابتدائیہ خوبصورت جزئیات نگاری کے سبب خاموشی کے ساتھ رفتہ رفتہ سارے منظرنامے تک پھیلتا ہے اور اختتامیہ یکلخت سکڑ کر ایک نئی ترتیبی ہئیت اختیار کرکے چونکا دیتا ہے۔ افسانہ ’’ننھے میاں‘‘ کا ابتدائیہ ملاحظہ ہو،
’’مردانے کمرے میں ننھے میاں اور ان کے دوست بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ باتیں بھی ایسی جو بار بار کانا پھوسیوں میں تبدیل ہوجاتیں لیکن نہ جانے کیوں ننھے میاں کی خوب صورت آنکھیں بوجھل ہوئی جارہی تھیں اور پورا چہرہ لال بھبھوکا۔ وہ رہ رہ کر پہلو بدل رہے تھے ان کا دوست جو عمر میں ان سے بھی کم دکھائی دیتا تھا اپنی پتلیاں گھما گھما کر کھسر پھسر کرتا جارہاتھا۔
’’اماں بس کرو‘‘ ننھے میاں بری طرح کسمسا کر بولے۔
’’سنو تو یار! پھر ایک دن وہ آگئی جھانسے میں۔۔۔‘‘ وہ پھر سرگوشیاں کرنے لگا۔
’’ننھے میاں کا چہرہ ایک بڑا سا دہکتا ہوا انگارہ معلوم ہونے لگا۔‘‘
(افسانہ، ’’ننھے میاں‘‘)
ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں سماجی الجھیڑوں پر چٹکیاں لینے اور زہر خند کا انداز نمایاں ہے (مثالیں، ’’بندر کا گھاﺅ‘‘ اور ’’ہائے اللہ‘‘) یہاں نوجوان لڑکیوں کے جنسی مسائل کو عصمت چغتائی کی طرح ہر قیدو بند سے آزاد کرکے نہیں دیکھا گیا بلکہ ہلکے ہلکے اشارے کنائے ہیں۔ البتہ ہاجرہ کے ہاں عصمت کی نسبت طنز کی کاٹ زیادہ گہری ہے مثال، ’’چراغ کی لَو‘‘
ہاجرہ مسرور کے اولین افسانوی مجموعے ’’چرکے‘‘ (1944) میں شامل پانچ افسانے، ’’چاند‘‘، ’’ڈھونگ‘‘، ’’اندھیرے میں‘‘، ’’تھپڑ‘‘ اور ’’کدھر‘‘ طبقہ نسواں کی مظلومیت اور بے بسی کے آئینہ دار ہیں۔ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’ہائے اللہ‘‘ ۶۴۹۱ءمیں نکلا۔ دیگر افسانوی مجموعوں میں ’’چوری چھپے‘‘، ’’اندھیرے اجالے‘‘، ’’تیسری منزل‘‘اور ’’چاند کی دوسری طرف‘‘ یادگار ہیں۔
شیلا سمیر کا تعلق جموں و کشمیر سے تھا۔ بعد میں پنجاب آبسیں۔ اُن کا ایک نمائندہ افسانہ ’’برکت‘‘ بشیر ہندی کی مرتب کردہ انتھالوجی ’’میرا پسندیدہ افسانہ‘‘ (1942) میں شامل ہے۔ افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو،
’’گاﺅں میں ڈاک والے کا آنا ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے۔ میں سمٹ کر، پلو نیچا کرکے دیوار سے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ خط لال دین کے نام تھا۔ میرے ہونٹ پھڑک رہے تھے۔‘‘ (افسانہ، ’’برکت‘‘)
کوشلیا اشک (بیگم اوپندرناتھ اشک) کا پہلا افسانہ ’’تھکان‘‘1943ءمیں شائع ہوا۔ 1944ءمیں انھوں نے ’’فیصلہ‘‘ اور ’’نمو‘‘ جیسے کامیاب افسانے لکھے۔ اُن کا افسانہ ’’جگن ناتھ‘‘ اردو افسانوں کی اہم انتھالوجیز میں شامل ہے۔
سرلا دیوی (کرشن چندر اور مہندر ناتھ کی ہمشیرہ) نے بہت کم لیکن بہت عمدہ لکھا۔ ان کا افسانہ ’’چاند ہوگیا‘‘ نقوش، لاہور افسانہ نمبر 1955ءکا بہترین افسانہ ہے۔ اسی طرح ناہید عالم بہت عمدہ لکھنے والی تھیں لیکن کم لکھا۔ ان کا افسانہ ’’رخشی‘‘ مطبوعہ ’’سویرا‘‘ لاہور شمارہ، ۴ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اختر جمال کا پہلا افسانہ ’’پیاسی دھرتی‘‘ قدوس صہبائی کے ادبی مجلہ ’’انصاری‘‘ دہلی 1945ءمیں شائع ہوا تھا۔ اُس کے بعد انھوں نے ’’افکار‘‘ بھوپال اور ’’نقوش‘‘ لاہور سے شہرت پائی۔ اختر جمال کو ترقی پسند افسانے کے نسوانی لحن کی آخری نمائندہ آواز کہہ سکتے ہیں۔ یہ بنیادی طو رپر امن کی پرچارک ہیں۔ ان کے چار افسانوی مجموعے بہ عنوان ’’پھول اور بارود‘‘ (1967)، ’’انگلیاں فگار اپنی‘‘ (1971) ’’زرد پتوں کا بن‘‘ (1981) اور ’’سمجھوتہ ایکسپریس‘‘ (1990) شائع ہوئے۔
خواتین افسانہ نگاروں میں اس ترقی پسندانہ لحن کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے نام دکھائی دیتے ہیں جو موضوعاتی تنوع، تکنیک کے تجربات اور اسلوب کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں بطور خاص صالحہ عابد حسین، تسنیم سلیم چھتاری، شائستہ اکرام اللہ، صدیقہ بیگم سیوہاروی، قرة العین حیدر، جیلانی بانو، ممتاز شیریں، جمیلہ ہاشمی، الطاف فاطمہ، واجدہ تبسم اور بانو قدسیہ بہت نمایاں ہیں۔ صالحہ عابد حسین (بیگم ڈاکٹر عابد حسین) کے افسانوں کا پہلا مجموعہ، ’’بات چیت‘‘ (1928ئ) تھا۔ اس کے بعد اُن کے تین دیگر افسانوی مجموعے ’’ساز ہستی‘‘، ’’تونگے‘‘ اور ’’نراس میں آس‘‘ کے عنوانات سے شائع ہوئے۔
معاشرتی مسائل اور گھریلو زندگی کی پیش کش میں صالحہ عابد حسین کی شگفتگی بیان اور لطافت فکر ان کی خاص پہچان ہے۔
’’شام کا وقت تھا۔ بے وقت کی بارش نے موسم خوش گوار کردیا تھا۔ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ جن کے بیچ بیچ میں گہرے نیلے آسمان کی جھلک بڑی دل کش تھی۔ سورج کی گول تھال دھیرے دھیرے مغرب کے اُفق کی طرف سرک رہی تھی اور اس کے چاروں طرف قوس و قزح کے حسین رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ پکّے کھیتوں کی سنہری بالیاں ہوا سے ہلکورے لے رہی تھیں۔ گھاس کا دھانی رنگ کچھ اور نکھر آیا تھا۔‘‘
(افسانہ، ’’تفریح‘‘ سے اقتباس)
تسنیم سلیم چھتاری کی پیدائش نینی تال کی ہے اور ان کے افسانوں کا خاص موضوع سفید پوش طبقے کے سماجی اور نفسیاتی مسائل رہے ہیں (ایک مثال، ’’کاش‘‘)۔ متوسط اور اعلی درجے کی روز مرہ زندگی کی پیش کش میں انھیں خاص ملکہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موضوعات میں رنگا رنگی نہ ہونے کے باوجود انھیں ایک زمانے میں حد درجہ مقبولیت حاصل رہی۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو،
’’سائنس کا گھنٹہ تھا اور اسٹرانومی پڑھائی جارہی تھی۔ ایک لڑکے نے پروفیسر سے پوچھا۔ ’’تارے کیوں ٹوٹ جاتے ہیں ؟‘‘ پروفیسر صاحب اس وقت لیکچر میں گم تھے۔ انھوں نے اس سوال پر دھیان نہیں دیا۔
اسی لڑکے نے پھر یہی سوال کیا اور پروفیسر صاحب نے دوبارہ بھی نہیں سنا تو میرے قریب سے ایک دوسرے لڑکے نے آہستہ سے کہا۔
’’مجھ سے پوچھو۔۔۔ جب کسی کی موت آتی ہے تو تارا ٹوٹتا ہے۔‘‘
’’جب کسی انسان کی موت آتی ہے تو آسان سے ایک چمکتا ہوا تارا ٹوٹ کر تاریکیوں میں ڈوب جاتا ہے۔‘‘ اس فقرے سے سب کے کان آشنا تھے۔ یہ بات لاکھ مرتبہ چمکتے تارے کی طرح دل کے آسمان پر طلوع ہوئی تھی اور تکلیف کی اندھیری گہرائیوں میں کھو گئی تھی۔
’’مجھے اس جواب نے وہ ساری کہانی یاد دلا دی جس میں ایک تارہ نکلا، چمکا اور پھر اپنے پیچھے یاد کی گہری لکیر چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیا۔‘‘
(افسانہ، ’’ٹوٹ گیا اِک تارا‘‘)
تسنیم سلیم چھتاری کے بیان میں مزاح کی چاشنی او رشوخی ان کی الگ سے پہچان کا باعث بنی۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’’کسک‘‘ (1942) اور ’’قصص شرر کے بعد‘‘یادگار ہیں۔
شائستہ اکرام اللہ کی نظر اردو افسانے پر بہت گہری ہے۔ انھیں اردو فکشن کی تنقید لکھنے کے حوالے سے خواتین میں اولیت حاصل ہے لیکن انھوں نے خود بہت کم افسانے لکھے۔ ان سے ایک افسانوی مجموعہ ’کوششِ ناتمام‘‘ یادگار ہے۔
صدیقہ بیگم سیوہاروی کے افسانوں میں موضوعات اور منظرناموں کا تبدیل ہوتا ہوا ایک طویل سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھیں ماضی کو حال میں دیکھنے دکھانے پر حد درجہ عبور حاصل ہے۔ ان کا قلم تنگ و تاریک گلی محلوں، بنگال کے قحط زدہ علاقوں کے ساتھ ساتھ اطلس و کمخواب سے سجے ایوانوں کا احاطہ یکساں قدرت کے ساتھ کرتا ہے۔ ایسے میں بیان کی شگفتگی اور ہندی گیتوں کی فضا بندی میں اُن کے منفرد اسلوب کی پہچان ہے۔ مثالیں، ’’ملہار ہے یا دیپک‘‘ اور ’’روپ چند‘‘۔
’’اگر ندی کے پاس سوکھے درخت کا تنا نہ ہوتا تو لوگ ضرور پوچھتے کہ آج تک بوڑھا روپ چند ندی کے کنارے کیسے بیٹھا رہ گیا تھا، یہ تیز و تند ہوا کے جھونکے اس کا کچھ بھی تو نہ بگاڑ سکے تھے، ریت کے ٹیلے بنتے اور بگڑتے رہے مگر وہ درخت نہ تو کبھی ہرا ہوا اور نہ اس پر کبھی پھل پھول ہی کھلے اور نہ پت جھڑ میں اس کے نیچے سوکھی پتیاں ہی نظر آئیں۔‘‘ (افسانہ، ’’رُوپ چند‘‘)
صدیقہ بیگم سیوہاروی کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہوئے، جن میں سے ’’پلکوں میں آنسوں‘‘، ’’ہچکیاں‘‘، ’’دود ھ اور خون‘‘، ’’آنکھ مچولی‘‘، ’’درد کے افسانے‘‘ اور ’’رقصِ بسمل‘‘ خاص طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
قرة العین حیدر کا پہلا افسانہ ’’ہمایوں‘‘ لاہور1944ءمیں سامنے آیا۔ اُن کے ابتدائی افسانے خصوصاً ’’دیودار کے درخت‘‘، ’’ میری گلی میں ایک پردیسی‘‘ اور ’’خوابوں کے محل‘‘ واضح طور پر رومانی لحن کے حامل ہیں۔ یوں قرة العین حیدر کی افسانہ نگاری کا آغاز رومانی افسانہ نگاروں کے زیر اثر ہوا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ قرة العین حیدر نے ماحولیاتی سطح پر اُس مراعات یافتہ طبقے کی عکاسی کی جس کے بارے میں متوسط اور زیریں طبقے میں آدھی ادھوری معلومات پائی جاتی تھیں۔ قرة العین حیدر کے پہلے افسانوی مجموعے ’’ستاروں سے آگے‘‘ (طبع اوّل 1947ء) کے افسانوں کی رومانی فضا بندی، کتھا کلی اوربرج کی محفلوں اورکرداری سطح پر بورژوا نسوانی کردارو ں کی بظاہر لایعنی مصروفیات میں بھی ایک معنویت تھی۔ اُن افسانوں میں ترقی پسند افسانہ نگاروں کی طرح بنگال کا قحط دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن مایخل اینجلو کو زیر بحث لانے والے بالائی طبقے کے کرداروں کی عکاسی اتنی بے معنی نہیں جتنی کہ اُس دور کے ناقدین کو دکھائی دی۔ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کی پیش کش کے مقابل ماضی قریب کے مراعات یافتہ طبقے کی عکاسی قرة العین حیدر کی عطا ءخاص ہے۔
قرة العین حیدر کا ایک منفرد اسلوبِ تحریر ہے جسے تاریخ اور سماجیات کے گہرے مطالعے نے جِلا بخشی ہے۔ ان کے ہاں لفظیات کی سطح پر حسیاتی تاثر کی موسیقیت نے جنم لیا ہے جس کی خوبصورت امثال ’’فصل گل آئی یا اجل آئی‘‘، ’’یہ داغ داغ اجالا‘‘، ’’کارمن‘‘ اور ’’سرراہے‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ان کے شاہکار افسانوں میں ’’کارمن‘‘، ’’جب طوفان گزر گیا‘‘، ’’دحلہ بہ دجلہ یم بہ یم‘‘، ’’فوٹوگرافر‘‘ اور کیکٹس لینڈ‘‘ بہت نمایاں ہیں۔
’’فوٹوگرافر نے چونک کر اُن کو دیکھا اور پہچاننے کی کوشش کی۔ پھر خاتون کے جھریوں والے چہرے پر نظر ڈال کر الم سے دوسری طرف دیکھنے لگا۔ خاتون کہتی ہیں۔۔۔ اُن کی آواز بھی بدل چکی تھی۔ چہرے پر درشتی اور سختی تھی اور انداز میں چڑچڑاپن اور بے زاری اور وہ سپاٹ آواز میں کہے جارہی تھیں،
’’میں اسٹیج سے ریٹائر ہوچکی ہوں۔ اب میری تصویریں کون کھینچے گا بھلا، میں اپنے وطن واپس جاتے ہوئے رات کی رات یہاں ٹھہر گئی تھی۔ نئی ہوائی سروس شروع ہوگئی ہے۔ یہ جگہ راستے میں پڑتی ہے۔۔۔‘‘
’’اور۔۔۔ اور۔۔۔ آپ کے ساتھی؟‘‘ فوٹوگرافر نے آہستہ سے پوچھا۔
کوچ نے ہارن بجایا۔
’’آپ نے کہا تھا نا کہ کارزارِ حیات میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ اُسی گھمسان میں کہیں کھو گئے۔‘‘
کوچ نے دوبارہ ہارن بجایا۔
’’اور اُن کو کھوئے ہوئے بھی مدت گزر گئی۔۔۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘
خاتون نے بات ختم کی اور تیز قدم رکھتی کوچ کی طرف چلی گئیں۔ والرس کی مونچھوں والا فوٹوگرافر پھاٹک کے نزدیک جاکر اپنی ٹین کی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’زندگی انسانوں کو کھا گئی۔ صرف کاکروچ باقی رہیں گے۔‘‘
(افسانہ، ’’فوٹوگرافر‘‘ کا اختتامیہ)
قرة العین حیدر کے افسانوی مجموعوں میں ’’ستاروں سے آگے‘‘ (1947)، ’’شیشے کا گھر‘‘ (1956) ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ (1967)، ’’فصل گل آئی یا اجل آئی‘‘، ’’ جہاں پھول کھلتے ہیں‘‘، ’’جگنوﺅں کی دنیا‘‘، ’’ تلاش‘‘، ’’ روشنی کی رفتار‘‘، ’’کلیسا میں قتل‘‘اور ’’میرے بہترین افسانے‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جیلانی بانو کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔ انھوں نے آزادی سے قبل ’’ادب لطیف‘‘ لاہور اور ’’افکار‘‘ بھوپال سے افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ خود جیلانی بانو کا کہنا یہ ہے کہ انھوں نے موپاساں اور چیخوف کا مطالعہ گہری نظر سے کیا۔ شاید اسی لیے ان کے افسانوں کی سب سے بڑی پہچان ان کے ابتدائیے ہیں اور ابتداءہی سے قاری کُلّی طور پر ان کی گرفت میں چلا جاتا ہے۔
جیلانی بانو کے افسانوں خصوصاً ’’ادھوری بات‘‘ اور ’’اکیلا‘‘ میں بچوں کی صورت میں آسودگی حاصل کرنے کی تمنا ایک انوکھے لحن کی حامل ہے۔ ایک افسانے کا ابتدائیہ دیکھیے،
’’آج بھی اندھیرے کمرے میں لیٹا میں خیالی ہیولوں سے کھیل رہا تھا۔‘‘
اور جب بھی اندھیرا چھا جاتا تم نہ جانے کہاں سے نکل آتی ہو جیسے تم نے تاریکی کی کوکھ ہی سے جنم لیا ہو، اور مجبوراً مجھے جلے ہوئے سگریٹ کی راکھ کی طرح تمھیں بھی زمین پر جھٹک دینا پڑتا ہے۔
’’میں نے کبھی تمھارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ کبھی تمھارے لیے نظمیں نہیں لکھیں۔ کبھی تمہاری یاد میں تارے نہیں گنے۔ پھر کیوں میں تمھیں یاد کیے جاﺅں۔۔۔؟‘‘ (افسانہ، ’’موم کی کی مریم‘‘)
جیلانی بانو کے چار افسانوی مجموعے بہ عنوان ’’اجنبی چہرے‘‘، ’’ روشنی کے مینار‘‘، ’’نروان‘‘ اور نغمے کا سفر‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔
ممتاز شیریں کا تعلق آندھرا پردیش سے تھا تاہم بچپن میں ہی میسور چلی گئیں اور اُس کے بعد بنگلور اور کراچی میں قیام رہا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ان کے شوہر صمد شاہین کے مرتب کردہ ادبی مجلہ ’’نیا دور‘‘ بنگلور میں چھپنے والے تنقیدی جائزے ’’1943ءکے افسانے‘‘ کی اشاعت سے ہوا۔ اس تنقیدی جائزے نے انھیں ملک گیر شہرت دلا دی۔ اس کے اگلے برس ان کا پہلا افسانہ ’’انگڑائی‘‘، ’’ساقی‘‘ دہلی 1944ءمیں شائع ہوا۔ اس افسانے کی اشاعت سے قبل انھوں نے انگریزی اور فرانسیسی فکشن کو پوری طرح کھنگال ڈالا تھا۔ لیکن اِس بے پناہ مطالعے کا انھیں ایک نقصان بھی اٹھانا پڑا، اور وہ یہ کہ ان کے بعض افسانوں کی بُنت میں شعوری کاوشوں، منصوبہ بندی اور اس دور کی ادبی تحریکات کا اجتماع، ایک مصنوعی فضا بندی کا باعث بنا۔ (امثال، ’’میگھ ملہار‘‘ اور ’’دیپک راگ‘‘)
جہاں تک ان کے ابتدائی افسانوں خصوصاً ’’انگڑائی‘‘، ’’ آئینہ‘‘، ’’ اور گھنیری بدلیوں میں‘‘ کا تعلق ہے تو ان کے موضوعات خصوصی طور پر اہمیت رکھتے ہیں مثلاً افسانہ ’’انگڑائی‘‘ ہم جنسی کے موضوع پر اردو کے اولیں افسانوں میں شمار ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ممتاز شیریں کے افسانوی کردار ایک خاص قسم کی خود پسندی کا شکار ہیں۔ افسانہ ’’شکست‘‘ اور ’’رانی‘‘ پر ترقی پسند تحریک کے اثرات بھی ظاہر ہوئے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد محمد حسن عسکری کی طرح ممتاز شیریں نے بھی ’’نیادور‘‘ کراچی کی معرفت پاکستانی ادب کی تحریک چلائی اور ان دو افسانوں کے لکھنے پر ہمیشہ شرمندگی کا اظہار کیا۔ ممتاز شیریں لکھتی ہیں،
’’شکست‘‘ اور ’’رانی‘‘ گو میں نے پورے جذباتی خلوص سے لکھے ہیں اور ان میں ہمدردی کے ساتھ غریب طبقے کی مصیبت زدہ زندگی کو پیش کیا ہے لیکن میرے لیے یہ پیش کش، بہرحال ایک شعوری کوشش تھی۔۔۔ ’’شکست‘‘ اور ’’رانی‘‘ کے جذباتی خلوص کے باوجود ان میں ادبی خلوص کی کمی تھی۔‘‘ 9
’’وہ گڑگڑارہی تھی۔ پھر وہ خاموشی سے آنکھیں پونچھتی ہوئی باہر نکل آئی اور گھر آکر پانچوں بچوں کو ساتھ لے آئی۔ اُف وہ بچے ! آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں، صرف ایک پھٹی لنگوٹی باندھے، ننگ دھڑنگ پیٹ پیٹھ سے جا لگا تھا اور پسلیوں کی ہڈیاں اتنی اُبھر آئی تھیں کہ انھیں اچھی طرح گنا جاسکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے تین دن سے نہیں تو دو ایک دن سے تو کچھ نہیں کھایا تھا۔ وہ مشکل سے گھسٹ گھسٹ کر چل رہے تھے اور چھوٹے بچوں کو تو ماں کھینچے لیے آرہی تھی۔‘‘
(افسانہ، ’’رانی‘‘)
کیا عجیب اتفاق ہے کہ ممتاز شیریں کے خود ردّ کردہ افسانوں میں سے ’’شکست‘‘ کو 1959ءمیں ایک آسٹریلئن انتھالوجی میں جگہ ملی اور اُن کا پہلا افسانہ ’’انگڑائی‘‘ تاحال ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث ہے۔
ممتاز شیریں کے دو افسانوی مجموعے ’’اپنی نگریا‘‘ اور ’’میگھ ملہار‘‘ آزادی کے بعد شائع ہوئے۔
آزادی کے فوراً بعد اُبھر کر سامنے آنے والی افسانہ نگاروں میں جمیلہ ہاشمی، الطاف فاطمہ، واجدہ تبسم، اور بانو قدسیہ اپنے اپنے منفرد موضوعات اور اندازِ تحریر کے سبب نمایاں ہیں۔
جمیلہ ہاشمی اور الطاف فاطمہ کے افسانوں میں سماجی اور نفسیاتی مسائل کی شکار عورت کی تصویر کشی کا اپنا اپنا انداز ہے لیکن یہ دونوں، ایک دوجے سے یکسر الگ بیانئے اکثر اُس حیرت کو جگاتے ہیں جو لوک دانش کا خاصہ رہا ہے۔
جمیلہ ہاشمی کے ہاں دیہی منظرنامہ، کھری سکھ معاشرت کی عکاسی، کرداروں کی انا پیشگی اور روہی کے منظرنامے سے مخصوص دھیمے دھیمے درد کی لَے ایک انوکھا تاثر رکھتی ہے۔ اور اس حوالے سے ’’لہو رنگ‘‘، ’’سرخ آندھی‘‘، ’’بن باس‘‘، ’’آتما کی شانتی‘‘ اور ’’ناستک‘‘ جیسے افسانے جمیلہ ہاشمی کی پہچان ہیں۔
’’ماں مندر سے ابھی تک نہیں لوٹی۔ ٹوپے کی طرف جانے والے راہ پر بنے گرجا کا گھنٹہ بِنا رُکے بج رہا تھا۔ شام کی نیلی دُھند بادلوں میں کھو گئی ہے۔ نیچے وادی کے گھروں میں جلتے دیوں کی روشنیاں دُور سے یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے برکھا کے دنوں میں کھیتوں پر جگنوﺅں کی براتیں اتری ہوں۔‘‘
(افسانہ ’’ناستک‘‘ سے اقتباس)
الطاف فاطمہ کے ہاں تجرد کی زندگی کا تجربہ اور ملازمت پیشہ نسوانی کردار نگاری بے مثل ہے۔ اس خصوص میں ان کا افسانہ ’’بیچلرز ہوم‘‘ یادگار ہے۔ جب کہ الطاف فاطمہ اور جمیلہ ہاشمی کے افسانوں میں شاندار زبان لکھنے کا عمل ایک اضافی خوبی ہے۔
’’جس دن وہ روانہ ہوئی ہے، وہ دن کتنا سرد تھا! صبح سے کُہر کا دُھندلکا چھایا ہوا تھا۔ کمرے کی کھڑکیوں اور برآمدے میں سے سامنے کی سڑک بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ لان کا سبزہ اور سفیدے کے اونچے درخت بھی کُہر کی چادر میں چُھپے جارہے تھے۔ دوپہر کے وقت سورج کی اِکا دُکا کرنیں چوری چوری جھانکنے لگیں تو میں برآمدے میں کرسی پر جا بیٹھا۔‘‘ (افسانہ ’’بیچلرز ہوم‘‘ سے اقتباس)
جمیلہ ہاشمی کے دو افسانوی مجموعے، ’’اپنا اپنا جہنم‘‘ اور ’’آپ بیتی، جگ بیتی‘‘ اور الطاف فاطمہ کے بھی دو افسانوی مجموعے ’’وہ جسے چاہا گیا‘‘ اور ’’جب دیواریں گریہ کرتی ہیں‘‘ یادگار ہیں۔
واجدہ تبسم نے حیدرآبادی جاگیردار طبقے کے زوال اور جنس نگاری کی معرفت ایک انوکھا اسلوب وضع کیا، جس کی مثال نہ تو منٹو کے ہاں دیکھنے کو ملتی ہے نہ ممتاز مفتی، شیر محمد اختر، عصمت چغتائی، اور رحمان مذنب کے ہاں۔ یہ سب سے جداگانہ لطف ہے جو واجدہ تبسم کے افسانوں، ’’اُترن‘‘، ’’ نتھ اترائی‘‘، ’’دیار حبیب‘‘، ’’ گلستان سے قبرستان تک‘‘ اور ’’محبت‘‘ سے مخصوص ہے،
’’نکو اللہ، میرے کو بہوت شرم لگتی ہے۔‘‘
’’ایو، اِس میں شرم کی کیا بات ہے ؟ میں نئیں اتاری کیا اپنے کپڑے؟‘‘
’’اوں۔۔۔‘‘ چمکی شرمائی۔
’’اب اتارتی کی بولوں انا بی کو؟‘‘ شہزادی پلشا، جن کی رگ رگ میں حکم چلانے کی عادت رچی ہوئی تھی، چلا کر بولیں۔ چمکی نے کچھ ڈرتے ڈرتے، کچھ شرماتے شرماتے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پہلے تو اپنا کُرتا اُتارا، پھر پاجامہ۔‘‘
(افسانہ ’’اترن‘‘ سے اقتباس)
واجدہ تبسم کے افسانوں کے مجموعوں میں ’’شہر ممنوع‘‘، ’’توبہ توبہ‘‘، ’’محبت‘‘، ’’ کنگن محل‘‘، ’’ (1971ئ) ’’جیسے دریا‘‘ (1970)، ’’آئینہ کے سامنے‘‘ (طبع دوم، 1978)، ’’روزی کا سوال‘‘ (طبع دوم، 1977)، ’’کیسے سمجھاﺅں‘‘ (1977)، اُترن‘‘، ’’پوجا کا مان‘‘، ’’پھول کھلنے دو‘‘ اور زخمِ دل‘‘ بہت مقبول ہوئے۔
بانو قدسیہ نے مشرقی عورت کی معاشرتی زندگی کو اُس کے روحانی اور جنسی مسائل سمیت چنا ہے۔ جب یہی موضوع پھیل کر جانوروں اور پرندوں کے طرزِ زیست کے مشاہدے کی گہرائی میں جا نکلتا ہے تو ’’کال کلیجی‘‘ جیسے شاہکار افسانے جنم لیتے ہیں۔ بانو کے ہاں تصوف کی لہر ایک انوکھا آہنگ ہے۔ جس کی خوب صورت مثال افسانہ ’’انترہوت اداسی‘‘ ہے،
’’یہ پہلی بار تھی، اُس کے بعد دو بار اور ایسے ہوا۔۔۔ بالکل ایسے۔ جب میرا بایاں پاﺅں بانس کی سیڑھی کے آخری ڈنڈے پر تھا اور میرا دایاں پاﺅں صحن کی کچی مٹی سے چھ انچ اونچا تھا تو پیچھے سے ماں نے میرے بال ایسے پکڑے جیسے نئے نئے چوزے پر چیل جھپٹتی ہے۔۔۔‘‘
’’بول، بول اس بھری دوپہر میں تُو کہاں سے آرہی ہے ؟ گشتی۔۔۔‘‘
(افسانہ ’’انتر ہوت اداسی‘‘ سے اقتباس)
بانو قدسیہ کے افسانوی مجموعہ میں ’’بازگشت‘‘، ’’ امربیل‘‘، ’’کچھ اور نہیں‘‘، ’’دانت کا دستہ‘‘ اور ’’ناقابل ذکر‘‘ (طبع اول، 1985) یادگار ہیں۔
ساٹھ کی دہائی میں ابھر کر سامنے آنے و الی افسانہ نگاروں میں آمنہ ابوالحسن، خالدہ حسین اور عذرا بخاری نمایاں ہیں۔
آمنہ ابوالحسن نے متوسط ہندو مسلم گھرانوں میں زندگی کا جتن کرتی ہوئی عورت کے خواب رقم کیے۔ ان کے افسانوں میں یکایک نمودار ہونے والے ان ہونے واقعات فرد کی زندگی کو تلپٹ کررہے ہیں، جس کی مثال ’’میری میّا‘‘، ’’من کا موتی‘‘ اور ’’ستون‘‘ جیسے خوبصورت افسانے ہیں،
’’کسی ناقابلِ یقین واقعے، کسی اچانک ظہورپذیر حادثے کی ایک لہر سرتاپا قدم اُسے جھنجھوڑ گئی۔ اُس نے آنکھیں مَل کر دیکھا۔ وہ جاگ رہا تھا۔ تو پھر ایسا غیر معمولی حسن، ایسا پُرکشش وجود‘‘ (افسانہ ’’من کا موتی‘‘ سے اقتباس)
آمنہ ابوالحسن کا افسانوی مجموعہ ’’ کہانی‘‘ سراہا گیا۔
خالدہ حسین نے ابتدائی افسانے خالدہ اصغر اور خالدہ اقبال کے ناموں سے لکھے۔ اُن کے بیشتر افسانوں کا منظرنامہ متوسط درجے کے گھرانوں سے متعلق ہے اور کردارو ں میں محسوساتی سطح پر ایک انجانا خوف پل رہا ہے، جس کے ڈانڈے کبھی تو نفرت، کبھی اذیت اور بعض اوقات تشکیک سے جا ملتے ہیں۔
خالدہ حسین نے ’’سواری‘‘ اور ’’ایک رپورتاژ‘‘ جیسے عمدہ افسانے لکھ کر ساٹھ کی دہائی میں سب کو حیران کردیا تھا۔ پھر پندرہ برس کے تعطل کے بعد انھوں نے ’’اے ڈیڈ لیٹر‘‘، ’’ پرندہ‘‘، ’’سایہ‘‘ اور ’’مکڑی‘‘ جیسے صوفیانہ رچاﺅ اور بالغ عصری شعور کے حامل افسانے لکھے۔ قہار فطرت کے مقابل انسان کی بے بسی کی کہانی خالدہ حسین نے بڑے سبھاﺅ کے ساتھ لکھی ہے۔ ان کے ہاں تکنیکی سطح پر استعارہ، علامت اور تجرید کا ورتارا معنویت کے نئے جہان سامنے لاتا ہے۔ اب تک اُن کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں، ’’پہچان‘‘ (1980)، ’’دروازہ‘‘ (1984) اور ’’مصروف عورت‘‘ (1989)
عذرا بخاری کے افسانوں کا موضوع اص مشرق کی مجبور اور بے بس گھریلو عورت کا تجربہ اور دکھ ہے۔ جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا چلا آیا ہے۔ انھوں نے جنس کے حوالے سے عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم کی طرح کھل کر نہیں بین السطور لکھا ہے۔ ان کے بیانیہ افسانوں میں ’’دیوانے فرزانے‘‘ اور ’’کفارہ‘‘ یادگار ہیں جب کہ نیم علامتی اسلوب کے افسانوں میں ’’آرزو کی موت‘‘ عمدہ افسانہ ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’فاصلے‘‘ شائع ہوچکا ہے۔
ساٹھ کے دہے کی دیگر افسانہ نگاروں میں نکہت حسن (افسانے، ’’سونی سنسان سڑک‘‘، ’’زبان‘‘، ’’کھلونے والا‘‘)، رشیدہ رضویہ (افسانہ، راندے ووں)، فہمیدہ ریاض (بوڑھا اور لڑکا، دو عورتیں، ایک محبت کی کہانی، دامنی)، رضیہ فصیح احمد (منو چچا، کبھی شعلہ کبھی شبنم، موڑ، بارش کا آخری قطرہ، بڑماں)، سیدہ حنا (پتھر کی نسل)، فہمیدہ اختر (مجاہد کا بیٹا)، فرخندہ لودھی (گوبر ٹیکس، آدھی رات)، عطیہ پروین) دل کا کانٹا) اور حسانہ انیس (پچھتاوا) کے نام بیانیہ افسانے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ستر کی دہائی اردو افسانے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی لیکن مین اسٹریم کے افسانہ نگاروں میں نسوانی لحن بہت کم اُبھر کر سامنے آیا۔ لے دے کر زاہدہ حنا، خالدہ شفیع، رفعت مرتضیٰ، ذکیہ مشہدی، مسرت لغاری، نگہت مرزا، نزہت نوری، سعیدہ نور، قدسیہ انصاری، اور نیلوفر اقبال کے نام دکھائی دیتے ہیں اور ان میں سے بھی زاہدہ حنا کو چھوڑ کر تمام کے تمام نام بیانیہ افسانے سے متعلق ہیں۔ یعنی ستر کے دہے میں جس نوع کا تکنیکی تنوع دیکھنے کو مل رہا تھا، افسانے کا نسوانی لحن اس سے محروم تھا۔ البتہ زاہدہ حنا کے افسانوں میں وجودیت کے فلسفہ کے زیر اثر انسانی جدوجہد کی معنویت اُبھری ہے۔ زاہدہ حنا کا موضوعِ خاص وجودی سطح پر عورت اور مرد کا ازلی تنازعہ ہے جس کی خوبصورت مثالیں ’’ساتویں رات‘‘ اور ’’تتلیاں ڈھونڈنے والی‘‘ جیسے افسانے ہیں۔ زاہدہ حنا کے دو افسانوی مجموعے، ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘ (طبع اول، 1983) اور ’’راہ میں اجل ہے‘‘ (1993) شائع ہوچکے ہیں۔ خالدہ شفیع (چاندی کا گھاﺅ، ریپ، اک تری خاطر)، رفعت مرتضے (سفر، آدم کی ہڈی)، ذکیہ مشہدی (چرایا ہوا سکھ)، مسرت لغاری)ریپلیکا، سمجھوتا، شریف زادی، کینسر)، نگہت مرزا (بری بات، نامراد) نزہت نوری (مسیحا) سعیدہ نور (بازار، کانج کے پتلے)، قدسیہ انصاری (جھوٹی رکابی، کوری چادر) اور نیلوفر اقبال (حساب، دستاویزی ثبوت، گھنٹی) بھرپور بیانیہ افسانے ہیں۔
1980ءتاحال، افسانوی افق پر عطیہ سید، نیلم احمد بشیر اور طاہرہ اقبال ہی کے نام نمایاں دکھائی دیتے ہیں، لیکن وہ اردو افسانے کی ’مین اسٹریم‘ کا حصہ تب بنیں گی جب خالدہ حسین کے افسانوں جیسا تکنیکی تنوع ان کے ہاں جھلک دکھائے گا۔ فی الوقت تو عطیہ سید کے نمائندہ افسانوں ( ’’ایبل اور میں‘‘، ’’بنت اسرائیل‘‘ اور ’’خزاں میں کونپل‘‘) میں وقت کا تصور اور سفر مستقیمی ہے، لہذا گزرا ہوا زمانہ اوریادوں کے سلسلے دکھائی دیتے ہیں التبہ ان کے افسانوں میں وصال کی نسبت فراق کی اپنی معنویت ہے۔ نیز انسانی تاریخ اور نفسیات سے شغف عطیہ سید کے افسانوں میں گہرائی پیدا کرتا ہے اور نیلم احمد بشیر کے بیانیہ افسانوں میں کرداری مطالعے خاص معنویت کے حامل (مثالیں، بچت، شریف، اپنی اپنی مجبوری، چائے کی پیاس) مغربی طرز زیست پر نیلم احمد بشیر کی نظر گہری اور قابل مطالعہ ہے۔ جب کہ پنجاب کے محتلف دیہی علاقہ جات کا مشاہدہ اور ان سے مخصوص پنجابی لحن طاہرہ اقبال کے افسانوں کی پہچان۔
مجمل طور پر اردو افسانے کا نسوانی لحن یہ ثابت کرتا ہے کہ عورت کی جذباتی دنیا، مرد کے مقابلے میں کہیں زیادہ رنگا رنگ اور بھرپور ہے۔ جزئیات نگاری، خواتین افسانہ نگاروں کا وصفِ خاص ہے، نیز نفسیاتی الجھیڑوں اور جذباتی تناﺅ کا بیان حد درجہ متنوع۔
حواشی و حوالہ جات
(۱) ’’مقالات گارساں دتاسی‘‘، ترجمہ، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری و عزیز احمد، اورنگ آباد،
انجمن ترقی اردو (ہند) جلد اول، 1935ء جلد دوم، 1943ء
(۲) ’’بہارستانِ ناز‘‘ مولفہ حکیم فصیح الدین رنج، طبع اول، 1864۱ء، طبع دوم، 1869ء، طبع سوم، 1888ء
(۳) ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ (ناول) از قرة العین حیدر (جلد اول)، طبع اول، 1977ء
(۴) مجلہ ’’پگڈنڈی‘‘ امرتسر (یلدرم نمبر) ص، 36
(۵) ایک خط سے اقتباس، مشمولہ، ’’مسز عبدالقادر‘‘ مقالہ برائے ایم اے اردو، یونیورسٹی اورنٹل کالج لاہور
(۶) ’’میری ادبی زندگی‘‘ مطبوعہ، ’’نیرنگِ خیال‘‘ لاہور
(۷) ’’افسانہ‘‘ (مضمون) مشمولہ، ’’پکچر گیلری‘‘ از قرة العین حیدر، لاہور، قوسین، ص 38
(۸) ’’میرا بہترین افسانہ‘‘ مرتبہ، محمد حسن عسکری، دہلی، ساقی بک ڈپو، طبع اول، 1943ء
(۹) دیباچہ ’’میگھ ملہار‘‘ از ممتاز شیریں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.