اردو افسانے کا مابعد الطبیعیاتی آہنگ
جس موضوع پر مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی ہے، اس پر سوچتے ہی میرے ذہن میں ایک جھپاکا سا ہوا اور کوئی انتالیس چالیس سال پرانی ایک تحریر روشن ہوتی چلی گئی۔ جی، جو مجھے یاد آرہی تھی اسے محمد حسن عسکری نے لکھا تھا۔ مجھے اس کا عنوان بہت عجیب لگا تھا، ’بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے ‘ مگر جب مضمون کے آخر میں یثرب اور وادی بطحا کی کھجور، اِدھر کا آم ہو گئی تھی تو میں نے اس سے خوب خوب لطف لیا تھا۔ اسی تحریر میں، کہ جو بعد میں ان کی کتاب ’’وقت کی راگنی‘‘ کا حصہ ہوئی، حسن عسکری نے دلچسپ پیرائے میں قدامت پسند اخبار ’’ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ‘‘ سے مقتبس کرتے ہوئے لکھا تھا کہ لوگوں کو ایذرا پونڈ سے شکایت تھی کہ انہوں نے چینی الفاظ چینی رسم الخط میں لکھ کر پڑھنے والوں کو خواہ مخواہ الجھن میں ڈالا، لیکن اگلی صدی میں شاید یہی شاعر سب سے زیادہ قابل قبول ہوگا کیوں کہ ممکن ہے سوسال کے اندرمغرب چینی زبان بول رہا ہوگا۔ عسکری نے جو لگ بھگ چالیس سال پہلے پشین گوئی کی اس کے پورا ہونے کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں کہ چین اپنے زبان کو لے کر مغرب کی منڈی میں یوں گھس گیا ہے کہ کوئی اب اس زبان اور اس کے رسم الخط کو دیکھ کر کسی الجھن میں نہیں پڑتا۔
اب جب کہ پاک چین دوستی، گوادر پورٹ اور اکنامک کوریڈور کے راستے بہت اہم اور مرکزی معاشی سرگرمی بننے جار رہی ہے توایسے میں ہمیں بھی چینی زبان کی طرف دیکھتے ہوئے جو اُلجھن ہوا کرتی تھی، وہ جاتی رہی ہے۔ عسکری مرحوم کی باتیں اور بہ طور خاص وہ مضمون جس کا میں ذکر لے بیٹھا ہوں ہم جیسوں کو بہت اُلجھاتا رہا ہے مگر انہوں نے چینی اور اردو زبان کا مشترکہ مابعد الطبیعیاتی وتیرہ نشان زد کیا اسے میں اب تک نہیں بھول پایا ہوں۔ عسکری نے جو کہا اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ’چینی تہذیب کی بقا اور استحکام چینی زبان کے رسم الخط پر منحصر ہے اور اردو زبان کارسم الخط ہمارے بنیادی عقائد کے ساتھ مربوط اور منضبط ہے۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ کائناتی اور مابعدالطبیعیاتی نقطہ نظر دونوں زبانوں میں ہے، بس اگر فرق ہے تو تاکید اور اصرار کاہے۔ اس باب میں ان کا اضافہ تھا کہ چینیوں نے معرفت کے دو اصول بنارکھے تھے، ’’ین‘‘ اور ’’یانگ‘‘، ’’ین‘‘ اگر ظاہر تھا تو ’’یانگ‘‘ باطن ہوا۔ ’’ین‘‘ ظلمت اور بدی، منفی ہونے کی علامت تھا اور ’’یانگ‘‘ نور اور نیکی اور مثبت راہ کی۔ دونوں ہر کہیں ہوتے مگر کسی میں ’’ین‘‘ زیادہ ہوتا کسی میں ’’یانگ‘‘ اور اسی سے تصویر کے دورُخ الگ الگ پہچانے جا سکتے تھے۔ یہی معاملہ اردو زبان کا بھی ہے یہاں بھی آدمی اصل الاصول کے مقابلے اپنے آپ کو چینی والا ’’ین‘‘ سمجھتا ہے اور کائنات کے مقابلے میں ’’یانگ‘‘ کہ اسے بہر حال کُل کی طرف لپکنا ہوتا ہے۔
اُردو افسانے کی تاریخ کا مطالعہ کریں توہماری ملاقات اُن ’’وجودی‘‘ کرداروں سے ہوتی ہے جنہیں بے اطمینانی(uneasiness)، تشویش(anxiety)، فکر(care)، منصوبے (project)، موت اور آزادی وغیرہ جیسی وجودی اصطلاحوں سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ توشی ہیکو از تسو(Toshihiko Izutsu)، (کہ جو بہ قول محمد عمر میمن، تیس زبانوں میں رواں تھے، اورجنہوں نے عربی فارسی، چینی، جاپانی، یونانی، سنسکرت اور یورپی زبانوں کا تقابلی مطالعہ کیا)، نے ’’وجود‘‘ کے اس اظہار کو مارٹن ہیڈیگر(Martin Heidegger) کی آخری دور کی تحریروں سے جوڑا اور صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ’’یہ تو غیر انسانی وحشیانہ حقیقی ماحول کے درمیان انسانی رقت آفرینی کا غنائی اظہار ہے‘‘ (دیکھیے، وجودیت، مشرق و مغرب از تشی ہیکو از تسو، ترجمہ محمد عمر میمن)۔ خیرabsurdityاور غیر انسانی میکانکیت کے چرکے سہتے اور اپنی تنہائی کے تعفن پر ابکائی پر مجبوراس ’’وجود‘‘ کو جہاں اُردو کے افسانے میں گزشتہ صدی کے چھٹے اور ساتویں دہے کے افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے تو وہی عین اسی زمانے اس شخصی وجود کے علاوہ وجود بالائے ذات بھی آپ کو پوری طرح موجود ملے گا، جوہری طور پر تجریدی مگر کائناتی کہ جوہری طور یہ ایک وجود سے جڑتا ہے، جو سب وجودوں کی اصل ہے؛ جی، یہی کلی حقیقت ہے اور یہی وہ وجود ہے، جو واحد ہے اور جسے کبھی اصالت الوجود کی اصطلاح سے سمجھا گیا ہے اور کبھی مطلق حقیقی وجود کی اصطلاح سے۔ اُردو اَفسانے کی یہ مابعدالطبیعیات صرف ایک یا دو دہاے ؤں کے افسانوں میں ظاہر نہیں ہوئی، ایک صدی سے زائد عمر پانے والے افسانے میں ہرکہیں محسوس کی جا سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہونا ہمارے مزاج کے عین مطابق ہے۔ بجا کہ ہم نے افسانے کی صنف مغرب سے لی مگر اس میں اپنے مزاج کو داخل کر دیا اور اسے ’’رسالتہ الطائر‘‘ کی تماثیل، ملاوجہی کے ’’قصہ حسن ودل‘‘، داتا گنج بخش کی کشف المحجوب اور اپنے ہاں کی قدیم داستانوں اور قصوں سے اخذ کرنے پر بھی ہمیشہ مائل پایاہے۔ افسانہ نگار جمیل احمد عدیل نے تو کوئی ایک چوتھائی صدی پہلے ’’نروان‘‘ کے نام سے ایسے افسانوں کا انتخاب مرتب کیا تھا جن میں یہ مابعد الطبیعیاتی عنصر بہت نمایاں ہوگیا تھا اور جنہیں بہ قول عدیل، روحانی افسانے کہا جا سکتا تھا۔ اس انتخاب میں ممتاز مفتی(سیڑھی سرکار)، احمد ندیم قاسمی(عاجز بندہ)، عزیز احمد(تصورشیخ)، قدرت اللہ شہاب( بملا کماری کی بے چین روح)، محمد خالد اختر(فورتھ ڈائمنشن)، اشفاق احمد (بیاجاناں )، انتظار حسین(زرد کتا)، سلیم اختر(تیرہواں بُرج)، جیلانی بی اے (اذان)، بانو قدسیہ(کعبہ میرے پیچھے )، منشایاد(رُکی ہوئی آوازیں )، رشید امجد(لمحہ جو صدیاں ہوا)، خالدہ حسین(مکڑی)، مرزا حامد بیگ(ایک خاکی کا معراج نامہ)، اعجاز احمد فاروقی(ایک غیر مرئی الہ آباد)، مظہر الاسلام(می رقصم)، ابدال بیلا(بند مٹھی)، محمدحمید شاہد (ایک ماخوذ تاثر کی کہانی) اور جمیل احمد عدیل(رتن مالا اور کاتبِ کلام)، کُل بیس افسانے شامل تھے۔ خیر بات ان روحانی افسانوں تک محدود نہیں ہے یہ روحانی پہلو تو زبان کی ترکیب (کہ جسے عسکری نے شناخت کیا)، اور اصالت الوجود سے جڑنے کی طرف مائل ہمارے مزاج (جس کی نشان دہی توشی ہیکو از تسو نے کی تھی)، کا غیر معمولی اور نمایاں وصف ہو چکا ہے جسے طوطی نامہ، بیتال پچیسی، قصہ چہار درویش سے لے کرانتظار حسین کے ’’آخری آدمی‘‘ اور ’’زرد کتا‘‘ تک اور رشید امجد کے ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ اوراسلم سراج الدین کے ’’سمر سامر‘‘ سے لے کرآج کے افسانہ نگار آصف فرخی کے افسانے ’’بودلو‘‘ تک ہر کہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
’’ایک چیز لومڑی کا بچہ ایسی اُس کے منہ سے نکل پڑی۔ اُس نے اُسے دیکھا اور پاؤں کے نیچے ڈال کر روندنے لگا، مگر وہ جتنا روندتا تھا اُتنا وہ بچہ بڑا ہوتا جاتا تھا۔ جب آپ یہ واقعہ بیان فرما چکے تو میں نے سوال کیا، یا شیخ لومڑی کے بچہ کی رمز کیا ہے اور اس کے روندے جانے سے بڑے ہونے میں کیا بھید مخفی ہے؟ تب شیخ عثمان کبوترنے ارشاد فرمایا کہ لومڑی کا بچہ تیرا نفس امارہ ہے۔ تیرا نفن امارہ جتنا روندا جائے گا موٹا ہوگا۔‘‘ (زرد کتا، انتظار حسین)
’’لاؤنج کا صوفہ ایک طرف کرکے چارپائی ایک طرف بچھا دی گئی اور اسٹریچر سے اُس کا وجود چارپائی پر منتقل کر دیا گیا۔ ’’گھر میں چار پائی کتنی ضروری ہے۔‘‘ کسی عورت میں دوسری عورت کے کان میں کہا۔۔ ’’اور ہمارے گھروں میں اب اس کا رواج ہی نہیں۔‘‘ لاؤنج میں ست رنگا پرندہ پر پھیلائے چہک رہا تھا اور ناچ رہا تھا لیکن اس کی چہک کسی کو سنائی نہیں دے رہی تھی، نہ اس کے رنگ کسی کو نظر آ رہے تھے۔‘‘ (ست رنگے پرندے کے تعاقب میں، رشید امجد)
’’چوپٹ راجہ نے بہانے سے بودلے فقیر کو بلوایا کہ حضرت کا طلب گار تھا اور پلکوں سے مٹی صاف کرکے کہتا تھا، میرا مرشد لعل قلندر آتا ہے۔ اور اس کو ایک قصائی کے حوالے کرکے اس کی بوٹیاں دیگ میں پکوا دیں۔ بودلے کے گوشت کا سالن سینی میں سجایا اور دسترخوان پر لگا کر شہر بھر کی دعوت کی۔ ایک رکابی پوش سے ڈھانپ کر اُن کو بھی بھیجی اور جب رکابی ان کے سامنے آئی تو اُنہوں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پھر سیدھے چوپٹ راجہ کے سامنے گئے اور تین مرتبہ آواز دی، بودلہ، بودلہ، بودلہ۔ تین مرتبہ شہر کی طرف منہ کرکے آواز دی، تین مرتبہ دریا کی طرف رُخ کرکے پکارا، ذرا دیر میں جواب آیا، میرے مرشد نے پکارا، میں لعلوں لعل آیا۔ گوشت کی بوٹیاں جن جن برتنوں میں رکھی ہوئی تھیں اُڑ اُڑ کر جمع ہونے لگیں۔‘‘
(بودلو، آصف فرخی)
کہیں ایک چینی کہاوت پڑھی تھی کہ اگر ہم دُکھ کے پکھیرو کو اپنے سروں پر منڈلانے سے روکنے پر قادر نہیں ہیں تو ہم ایسا تو کر سکتے ہیں کہ انہیں اپنے بالوں میں گھونسلا بنانے سے روک دیں۔ کہنا یہ ہے کہ جہاں اُردو افسانے میں ایسے کردار موجود ہیں جو لڑھکتے ہوئے پتھر جیسے ہیں، سرسبز ہونے کے امکانات نہ رکھنے والے اورحوادث کی ٹھوکروں پرپڑے ہوئے وجود؛ جی وہی پریم چند کے ’’کفن‘‘ والے گھیسو اور مادھو، راجندر سنگھ بیدی کے ’’متھن‘‘ کی کیرتی، منٹو کے ’’کھول دو‘‘ کی سکینہ یا انتظار حسین کے ’’کایا کلپ‘‘ کے مکھی ہو جانے والے شہزادہ آزاد بخت جیسے، وہیں یہ ہمہ وقت اپنے نفس امارہ کی لومڑی کو کچلنے والے ایقان کے ساتھ آگے بڑھنے والے اور ایک اور سطح وجود پر جینے کے لیے ست رنگے پرندے کی چہک سننے یا پھر اپنے بوٹی بوٹی ہو چکے اور بکھر چکے وجود کو حقیقت کی لطیف ترین سطحوح پربھرپورپن کے ساتھ جی اٹھنے والے ہرے بھرے کردار بھی ہو گئے ہیں، ایسے تخلیقی وجود، جو حقیقت کے ارفع تصور سے جڑ کر نہ صرف انسان کو پھر سے کائنات کے مرکز میں لاتا ہے اسے اصالت الوجود ہو جانے کی للک بھی عطا کرتا ہے۔ اُردو افسانے کا یہی وہ مابعدالطبیعیاتی اور سری آہنگ ہے جو اسے نہ صرف بہت گہری معنویت سے ہمکنار کرتا ہے، اسے ایسی قوت اور قرینہ بھی عطا کرتا ہے کہ اس کے لافانی کردار اپنے سروں پر منڈلاتے دکھ پرندوں کو اپنے بالوں میں گھونسلا بنانے سے پہلے روک دیتے ہیں۔ اس سری مزاج کی عطا یہ ہے کہ لکھنے والے کا باطن، بے پناہ تشویش، نہ ختم ہونے والی بے کلی اور شدید اکلاپے سے اوب کر ابکائی کرنے سے کہیں پہلے، وجود کی لطیف سطوح سے جڑتا ہے۔ یہی لطیف سطحیں دراصل بالائے ذات وجودہیں اور اس وسیلے سے اردو کا افسانہ نگار پوری کائنات سے بھیدوں بھرا رشتہ استوار کرتا اور تخلیقی اعتبار سے اور بھی سرسبز ہو جاتا ہے۔
کہہ لیجئے کہ اردو افسانہ محض اور صرف عمومی اور حسی حقیقت یا پھر سائنس کی اصطلاحوں میں nothingnessسے ٹائم اور سپیس کے پیمانوں میں اترنے یا پھر پازیٹو اور نیگیٹیوکے بعدوں کے ساتھ لیبارٹری میں پرکھی جا سکنے والی حقیقت تک محدود نہیں رہتا، اس نے مادے سے پیوست اور کُچل کر رکھ دینے والی حقیقت سے اُکتا کر فرار کے لیے فینتاسی کو شعار نہیں کیا اور وجودی ابکائیوں کے ذریعے تخلیقی استفراغ کے سراب میں زندگی کی تہمت لگی موت پر بھی راضی نہیں ہوا، یہ جسم کے اندر سے روح کے ساتھ ککلی کھیلتی حقیقت کو یوں دریافت کرتا ہے جیسے مادی ذرات کے گہرے وسط میں سے Higgs boson یعنی God Particle دریافت ہو جایا کرتا ہے؛ نظر میں نہ آنے والا مگردیگر ذرات کی کمیت اور شناخت وضع کرنے اور اپنے وجود کی بلواسطہ شہادت فراہم کرنے والا، یوں یہ سریت سے جڑتا ہے اور قطرے میں کائنات کو زندہ دیکھتا اور فنا سے ہمکنار ہونے والاذرہ ہو کر بھی کل اور ہمیشگی سے جڑجاتا ہے، کچھ اس ادا سے کہ جیسے ہمارے فانی وجودوں میں روح رقص کرتی ہے، اور یوں اس میں بھیدوں بھری نئی نئی دنیائیں تخلیق کرنے کے امکانات بھی پیدا ہوتے چلے گئے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.