اردو اور ہندی کا لسانی اشتراک۔۱
جتنا گہرا رشتہ اردو اور ہندی میں ہے شاید دنیا کی کسی دو زبانوں میں نہیں۔ دونوں کی بنیاد اور ڈول اور کینڈا بالکل ایک ہیں۔ یہاں تک کہ کئی بار دونوں زبانوں کو ایک سمجھ لیا جاتا ہے۔ دونوں ایک ہی سرچشمے سے پیدا ہوئیں، جس کے بعد دونوں کا ارتقا الگ الگ سمتوں میں ہوا اور دو اہم لسانی اور ادبی روایتیں وجود میں آ گئیں۔ اگرچہ ہندی اپنا فیضان سنسکرت سے اور اردو پراکرتوں کے علاوہ عربی اور فارسی سے حاصل کرتی ہے جس کی وجہ سے لفظیات میں خاصا فرق ہے، تاہم نسبتی اعتبار سے سگی بہنیں ہونے کی وجہ سے دونوں میں گہرا لسانی اشتراک پایا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسی اشتراک پر اپنی توجہ صرف کریں گے۔
دونوں زبانوں کا جد امجد انڈک ہے۔ ہزاروں سال پہلے جب آریہ ہندوستان آئے تھے تو وہ انڈک زبان بولتے تھے جس میں چاروں وید لکھے گئے۔ اس کے معیاری روپ کو سنسکرت کا نام دیا گیا۔ انڈک کے ساتھ ساتھ پراکرتوں کا ظہور ہوا اور پراکرتیں رواج اور چلن سے بدل کراپ بھرنشیں بنیں۔ بودھوں اور جینیوں کا زیادہ تر ادب انہیں پراکرتوں وغیرہ میں ملتا ہے۔ دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے ہندوستان آنے کے بعد سیاسی نقشے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے تہذیبی اور لسانی نقشے میں بھی تیزی سے تبدیلیاں ہونے لگیں۔ عربی، فارسی اور ترکی کے اثر سے ہزاروں نئے لفظ اپ بھرنشوں میں داخل ہونے لگے اور اس طرح لین دین اور روز مرہ کی ضرورتوں کے لیے ایک ملی جلی ریختہ زبان سامنے آنے لگی۔ شمالی ہندوستان میں اس وقت شورسینی اپ بھرنش کا دور دورہ تھا جبکہ سندھ، ملتان، بہاول پور وغیرہ میں کیکئی اپ بھرنش رائج تھی۔ انہیں دو اپ بھرنشوں اور ان کی بولیوں نے مل کر نئی ہندوستان گیر ملواں زبان کے لیے کھاد کا کام دیا ہوگا۔
شمالی ہند میں سندھ کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کا پہلا باقاعدہ سابقہ پنجاب کے میدانوں میں ہوا۔ غزنویوں کی راجدھانی لاہور تھی۔ اسی زمانے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پنجاب میں آباد ہو گئی اور تہذیبی میل جول کے ساتھ لسانی اخذ و قبول اور اختلاط و ارتباط بھی شروع ہو گیا۔ غزنوی سلاطین کی حکومت پنجاب میں تقریباً ڈیڑھ سو سال رہی۔ ترک اور افغان ترکی، دری اور پشتو بولتے ہوئے آئے تھے، لیکن ان کی تہذیبی اور سرکاری زبان فارسی تھی جس کا اثر مقامی بولیوں پر پڑنے لگا۔ چنانچہ اس زمانے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی یکجائی سے ایک نئی ملواں زبان کا پیدا ہو جانا بالکل فطری بات تھی۔ اس زبان کو اس زمانے میں ’’ہندوی‘‘ کہا گیا۔ یہ موجودہ ہندی اور اردو کی ماں رہی ہوگی۔ اس زبان کی پیدائش کا سب سے بڑا ثبوت غزنوی دور کے فارسی شاعر مسعود سعد سلمان کا وہ کلام ہے جو محفوظ نہیں رہا، لیکن محمد عوفی نے اپنے تذکرۂ لباب الالباب اور امیر خسرو نے اپنے فارسی دیوان ’’غرۃ الکمال‘‘ کے دیباچے میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مسعود سعد سلمان ’’ہندوی‘‘ میں شعر کہتے تھے۔
غزنویوں کے بعد غوریوں کی حکومت شروع ہوئی تو راجدھانی لاہور نہیں بلکہ دہلی قرار پائی۔ اسی سے ہندی اور اردو زبان کی ملی جلی ابتدائی تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ محمود شیرانی کا خیال ہے کہ غوری کے حملوں کے بعد پنجاب سے عوام کی بڑی تعداد دہلی کی طرف چلی گئی اور اپنے ساتھ اس نئی زبان ’’ہندوی‘‘ کو بھی لیتی گئی جو غزنویوں کے زمانے میں وجود میں آ چکی تھی اور جو ’’زبان لاہوری‘‘ یعنی پنجابی سے مختلف تھی۔ دہلی کے گرد و نواح میں اس زمانے میں شورسینی کی جو قدیم بولیاں رائج تھیں، ان میں سے کھڑی، ہریانی اور برج خاصی اہم تھیں۔ چونکہ پنجابی، کھڑی اور ہریانی سے قریب تھی، اس لیے پنجاب سے آنے والوں کو برج کی نسبت کھڑی اور ہریانی میں زیادہ اپنائیت محسوس ہوئی۔ اس طرح سیاسی مرکز ثقل دہلی منتقل ہو جانے سے زبان کی ابتدائی تاریخ پر زبردست اثر پڑا۔ اس وقت نئی زبان کی حالت ایک ایسی دھات کی تھی، جو کسی بھی سانچے میں ڈھالی جا سکتی ہے۔ پنجابی اور لہندا کا اثر تو نئی زبان پہلے ہی قبول کر چکی تھی، دہلی آنے کے بعد اس نے کھڑی، برج اور ہریانی بولیوں کے عناصر سے اپنی حدود کو مزید وسیع کرنا شروع کر دیا۔
ہندی اور اردو کی مشترک نشوونما کی تیسری کڑی اس نئی ملی جلی زبان کا تیرہویں اور چودہویں صدی میں دکن پہنچنا تھا۔ دکن کی فتح تو خلجیوں کے زمانے میں ہو گئی تھی، لیکن نئی زبان کے دکن میں جڑ پکڑنے کی نوبت اس وقت پیش آئی جب محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان کی آبادی کو دہلی سے دولت آباد لے جایا گیا۔ دہلی کے عوام بہت بڑی تعداد میں وہاں پہنچے اور قدرتاً نئی زبان کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ حسن گنگو کے بہمنی خاندان کے بعد اس زبان کو قطب شاہیوں اور عادل شاہیوں کی سرپرستی حاصل رہی اور اس نے خاصی ترقی کی۔ چودہویں سے سولہویں صدی تک کے اس زمانے میں یہ زبان جو شمالی ہندوستان کی ’’ریختہ‘‘ کے مقابلے میں ’’گجری‘‘ اور ’’دکنی‘‘ کہلاتی تھی، اب باقاعدہ شعروادب کی زبان کی حیثیت سے سامنے آنے لگی۔
اس کے شاعروں میں محمد قلی قطب شاہ، وجہی، نصرتی، غواصی، مقیمی اور ابن نشاطی، فائز، ولی اور سراج خاص طور سے قابل ذکر ہیں، جن کی غزلیں اور مثنویاں قدیم اردو کا شاندار سرمایہ ہیں اور جس کو ہندی والے بھی اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان تخلیقات کی زبان پراکرتوں سے خاصی قریب تھی۔ اس کو نہ خالص ہندی کہا جا سکتا ہے نہ خالص اردو۔ اس میں ابتدائی زبان کی ایک ایسی معصومیت، سادگی اور گھلاوٹ ہے جو بعد کی زبان میں نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر محمد قلی قطب شاہ کے یہ شعر دیکھیے،
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تل جیا جائے نا
کہے تے پیا بن صبوری کروں
کہیا جائے اما کیا جائے نا
نہیں عشق جس وہ بڑا کوڑ ہے
کدھیں اس سے مل پیسیا جائے نا
قطب شہ نہ دے مج دوانے کو پند
دوانے کو کچ پند دیا جائے نا
یہی رنگ اس زمانے کی نثر میں بھی ملتا ہے۔ شروع کے کئی مصنفین نے نثر کو مذہبی کاموں کے لیے استعمال کیا۔ اس دور کی نثر میں بھی ہندی اردو کا ملا جلا انداز ملتا ہے جس کا بہترین نمونہ ملا وجہی کی ’’سب رس‘‘ ہے۔ ’’سب رس‘‘ کی زبان ملے جلے ہندی اردو اسلوب کی بے نظیر مثال پیش کرتی ہے،
’’دانا کوں یاں کیا چارا۔ نادان کی سمج میں اندھا را۔ سمجیا سوپایانئیں سمجیا سو گنوایا۔ جکوئی اس شراب کی مستی نئیں سمجیا، سو اس شراب کی مستی کیا جانے شراب کوں آپے پینا نہ یوں اچھا کہ شراب آپ کوں پیوے۔ جو شراب اسے پیا، خراب کیا تو یو کیوں جیوے۔ گھانس آگ پر کھانے جائے تو جلنا، مچھلی خشکی پر پڑے تو تلمنا۔ چمتی، ہتی کا بھار اچاسکتی ہے؟ کنکر ڈونگر کی برابری کرےگا؟ تارا چاند سوں ہم بھرےگا؟ دیوا آفتاب کے سمنکھ آئےگا، شرار شعلے پر موں بھائےگا؟ شراب پر ہر کوئی ہم نہیں بھاتا۔ عاشق کی عبادت حسن دیکھنا، راگ سنینا، شراب پینا ہے۔‘‘
دکن کے مقابلے شمالی ہندوستان میں ہندی اور اردو کو پوری طرح سامنے آنے میں ابھی مزید انتظار کرنا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سرکاری زبان فارسی تھی اور وہی تہذیب و معاشرت اور شعروادب پر چھائی ہوئی تھی۔ پھر بھی عوامی ضرورتوں سے نئی ریختہ زبان کی نشونما جاری رہی۔ ایک ملی جلی عام بول چال کی زبان کی زیادہ ضرورت بازاروں، قلعوں، لشکر گاہوں، درباروں اور خانقاہوں میں پڑتی تھی۔ چنانچہ لشکر یا لشکر گاہ یعنی قلعہ بازار کی رعایت سے اس نئی زبان کو جو کبھی ’’ہندوی‘‘ کہلاتی تھی، کبھی ’’ریختہ‘‘ اور کبھی ’’دکنی‘‘ اب ’’اردو‘‘ کہا جانے لگا۔ بعض لوگوں نے اسے ’’زبان ہندوستان‘‘ بھی لکھا ہے۔ یعنی ہندوستان کی بولی اور اسی نسبت سے اسے ہند کی بولی یعنی ’’ہندی‘‘ بھی کہنے لگے۔
شمالی ہندوستان میں اس زبان کے پہلے مستند نمونے امیر خسرو کی شاعری میں ملتے ہیں۔ اگرچہ ان کا بڑا حصہ سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچا ہے، جس سے ان کی شکل میں ضرور کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوگئی ہوگی، تاہم اس کے مستند حصوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہندی اور اردو کا روپ کیسا تھا۔ امیر خسرو کو ہندی اور اردو والے دونوں اپنا پہلا شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے یہ چند شعر دیکھیے،
گوری سوے سیج پرمکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چہوں دیس
پنکھا ہوکر میں ڈلی ساتی تیرا چاؤ
منج جلتی جنم گیو تیرے لیکھن باؤ
بالا تھا جب سب کو بھایا، بڑا ہوا کچھ کام نہ آیا
خسرو کہہ دیا آس کا نانو، ارتھ کرو نہیں چھوڑوں گا نو
یہی وہ زبان تھی جسے بھگتوں، صوفیوں، سنتوں اور جوگیوں نے اپنے اپنے کلام اور نغموں سے آگے بڑھایا، کیونکہ یہی وہ زبان تھی جس کے ذریعے وہ عوام کے دلوں تک پہنچ سکتے تھے۔ صوفیائے کرام کے ملفوظات میں اس کے بہت سے نمونے ملتے ہیں۔ کرشن بھگتوں نے اپنے علاقے کے وسیع چلن کی وجہ سے برج بھاشا کا سہارا لیا، نرگن وادی بھگتوں کے کلام میں کھڑی یعنی پرانی ہندی کے نقوش مل جاتے ہیں۔ کبیر داس کہتے ہیں،
ماٹی کہے کمہار سے تو کا روندھے موئے
اک دن ایسا ہوئےگا میں روندھوں گی توئے
چلتی چکی دیکھ کے دیا کبیرا روئے
دوے پٹ بھیتر آئے کے ثابت گیا نہ کوئے
جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئے
بال نہ بانکا کر سکے جو جگ بیری ہوئے
گرونانک کی شاعری میں بھی اسی زبان کا روپ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے،
میٹھے کو کڑوا کہیں، کڑوے کو میٹھا
رانے کو نندا کرہیں ایسا کل مانہیں ڈیٹھا
اسی کے ساتھ ساتھ ہندی کی بعض بولیوں میں باقاعدہ شاعری کا آغاز بھی ہو گیا تھا یعنی اودھی میں ملک محمد جائسی اور تلسی داس، برج میں سورداس اور راجستھانی میں میرا بائی۔ ان شاعروں کو ہندی کی ادبی روایت میں کلاسیکی حیثیت حاصل ہے۔ سترہویں صدی میں جب شاہ جہاں نے دہلی کو نئے سرے سے بسایا تو اردو کے چلن کو ایک معیاری درجہ ملنے لگا اور یہ زبان ادبی حیثیت سے سامنے آنے لگی۔ اس وقت فارسی کا زور ٹوٹ رہا تھا، چنانچہ رفتہ رفتہ اورنگ زیب کے بعد اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز ہونے لگا۔ اس کے بعد اردو، ہندی کے لسانی دھارے جو اب تک ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے، کچھ الگ الگ ہوکر آگے بڑھنے لگے اور ہندی اردو دو ادبی زبانوں کی حیثیت سے سامنے آنے لگیں، حتیٰ کہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں کچھ ہمارے عمرانی تقاضوں کی وجہ سے اور کچھ برطانوی سامراج کی حکمت عملی کی وجہ سے اور آغاز انیسویں صدی میں فورٹ ولیم کالج کے اردو اور ہندی میں الگ الگ نصاب بنانے کی وجہ سے ہندی اور اردو میں ایک خلیج پیدا ہو گئی جو بعد میں بڑھتی چلی گئی۔
اوپر ہندی اور اردو کے مشترک تاریخی پس منظر کی جو جھلک پیش کی گئی اس سے ظاہر ہے کہ ان دونوں زبانوں نے ابتدائی ارتقا کے دوران میں مل جل کر برج، ہریانی، پنجابی اور لہندا کئی بولیوں سے استفادہ کیا، لیکن دونوں نے سب سے زیادہ طاقت کھڑی سے حاصل کی۔ اس کے بعد ہندی اور اردو اگرچہ الگ الگ دو زبانیں بن گئیں، لیکن چونکہ دونوں کا معیاری روپ کھڑی پر قائم ہے اور چونکہ دونوں کی ابتدائی تاریخ کئی صدیوں تک ایک رہی ہے، اس لیے جتنا اشتراک ان دونوں کی آوازوں اور صرفی و نحوی ڈھانچے اور روزمرہ و محاورے میں آج بھی پایا جاتا ہے، شاید ہی دنیا کی کسی دو زبانوں میں پایا جاتا ہو۔
سب سے پہلے آوازوں پر نظر ڈالیے۔ اردو کی تقریباً چالیس آوازوں میں صرف چھ ایسی ہیں جو فارسی عربی سے لی گئی ہیں، باقی سب کی سب ہندی اور اردو میں مشترک ہیں۔ خاص طور سے سادہ اور ہکار بندشی آوازیں بھ، پھ، تھ، دھ، کھ، گھ، چھ، جھ وغیرہ بیس کی بیس پورے سٹ کی حیثیت سے ہندی اور اردو میں تو موجود ہیں، لیکن ایسا سٹ نہ فارسی میں ہے نہ عربی میں۔ اس کے علاہ معکوسی آوازیں یعنی ٹ، ڈ، ڑ اور ان کے ہکار روپ ٹھ، ڈھ اور ڑھ بھی ہندی اور اردو میں مشترک ہیں، سوائے ن کے جس کو پراکرتوں کے تدبھو رجحان کے تحت اردو والے سادہ بنا لیتے ہیں، گویا گنتی کی چند آوازوں کو چھوڑ کر اردو اور ہندی کے مصمتوں کا ڈھانچہ تقریباً ایک جیسا ہے۔ مصوتوں میں تو صوتی ہم آہنگی سوفی صدی ہے۔ ہندی اور اردو دونوں کے بنیادی مصوتے دس ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔
اب صرف نحو کو لیجئے۔ اگر یہ کہا جائے ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ یا ’’آپ کہاں جائیں گے؟‘‘ یا ’’کیا آپ میری باتیں سن رہے ہیں؟‘‘ یا ’’باہر اندھیرا ہے‘‘ یا ’’اس وقت کیا بجا ہے؟‘‘ یا ’’ارے بھئی کیا بات ہے اس کی‘‘ تو یہ ہندی بھی ہے اور اردو بھی۔ لفظوں کا فرق ہو سکتا ہے لیکن جملے میں لفظوں کی ترتیب بالکل ایک سی ہے۔ تذکیروتانیث کا جو فرق اردو اور ہندی میں خال خال ہے یا روز مرہ کی وجہ سے اگر کوئی اختلاف کہیں جھلک جاتا ہے تو وہ ہندی اور اردو سے مخصوص نہیں، بلکہ ایسا فرق تو دو بولیوں میں بھی راہ پا جاتا ہے۔
جملے کی جان تین چیزیں ہوتی ہیں۔ اسم، اسمِ صفت اور فعل۔ بہت سے اسم اور صفت تو ہم نے فارسی عربی سے لیے۔ لیکن اردو فعل کا ہمارا سرمایہ سارا کا سارا مشترک ہے۔ فعل کے بغیر جملے کا تصور کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، لینا، دینا، آنا، جانا، گانا، رونا، دھونا، رہنا، سہنا، سیکڑوں ہزاروں فعل جیسے ہندی میں ہیں، ویسے ہی اردو میں۔ افعال زبان کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ ان ہزاروں افعال کو دیکھ کر جو ہندی اور اردو میں یکساں طور پر استعمال ہوتے ہیں، یہ ایمان لانا پڑتا ہے کہ ہندی اور اردو دو جڑواں بہنیں ہیں جو آزادانہ طور پر ارتقا پذیر ہیں، لیکن دونوں کی ریڑھ کی ہڈی غیر مرئی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اردو کا دامن اس لحاظ سے اور بھی وسیع ہے کہ اس نے عربی فارسی لفظوں سے بھی ہندستانی قاعدے کے مطابق کئی نئے فعل بنائے جنہیں بعد میں ہندی نے بھی قبول کیا۔ مثلاً بدلنا، فرمانا، شرمانا، رنگنا، خریدنا، آزمانا، بخشنا، تراشنا، داغنا، گزرنا، لرزنا، ستانا، نرمانا، گرمانا، نوازنا، قبولنا، کفنانا، دفنانا، خرچنا وغیرہ۔
یہی معاملہ مرکب افعال کا ہے جو دونوں زبانوں میں یکساں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً بنا دینا، گر پڑنا، اڑنے پانا، چلے آنا، ٹوٹ جانا، مار ڈالنا، گھر کرنا، سن لینا، بولا کرنا، کھانے دینا وغیرہ۔ ان افعال کی حیثیت دراصل محاوروں کی سی ہے جو فعل کے دو اجزا سے مل کر بنتے ہیں اور دونوں زبانوں میں بالکل ایک طرح سے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ بھی اردو اور ہندی کی مشترکہ خصوصیت ہے کہ مرکب افعال جس کثرت سے ان دو زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں، دنیا کی دوسری زبانوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
فعلیہ محاوروں کے علاوہ ایسے محاوروں کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچےگی جو اسم یا صفت کو ملاکر بنتے ہیں اور دونوں زبانوں میں یکساں طور پر رائج ہیں۔ اختصار کے پیش نظر یہاں صرف دو اسموں یعنی آنکھ اور منہ سے بننے والے محاوروں اور روز مرہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ منہ رکھنا، منہ بنانا منہ اترنا، منہ بگاڑنا، منہ پھیرنا، منہ پھلانا، منہ تکنا، منہ چڑھانا، منہ کھلوانا، منہ مارنا، منہ کی کھانا، منہ ٹیڑھا کرنا، منہ آجانا، منہ اٹھ جانا، منہ بند ہونا، منہ پر مہر لگنا، منہ پر مردنی چھانا، منہ بھر آنا، منہ بھرائی دینا، منہ پر تھوک دینا، منہ پر مارنا، منہ پر خاک اڑنا، منہ پر تالا لگنا، منہ لے کر رہ جانا، منہ تک جگر آنا، منہ توڑ جواب دینا، منہ میں پانی بھر آنا، چھوٹا منہ بڑی بات، منہ در منہ کہنا، منہ دکھانے کے قابل نہ رہنا، منہ دھو رکھنا، منہ میں تنکا لینا، منہ دیکھتے رہ جانا، منہ ذرا سا نکل آنا، منہ لال ہو جانا، منہ پر بسنت پھولنا، منہ میں گھنگنیاں بھرنا، منہ سی دینا، منہ سے دودھ کی بو آنا، منہ کالا کرنا، منہ کو خون لگنا، منہ کے بل گرنا، منہ دیکھے کی پریت، منہ سے بولنا سر سے کھیلنا، منہ مانگی موت بھی نہیں ملتی، منہ کا میٹھا پیٹ کا کھوٹا، منہ کھائے آنکھ شرمائے، منہ پھٹ، منہ چور، چٹ، منہ دکھلائی، منہ مانگے دام، منہ بولا بھائی۔
اب آنکھ سے بننے والی ترکیبوں کو بھی ایک نظر دیکھ لیجئے، آنکھ آنا، آنکھ اٹھانا، آنکھ لڑنا، آنکھ بچانا، آنکھ بدلنا، آنکھ بنوانا، آنکھ پتھرانا، آنکھ پھڑکنا، آنکھ پھوٹنا، آنکھ پھوڑنا، آنکھ پھیرنا، آنکھ جھکنا، آنکھ چرانا، آنکھ ہلنا، آنکھ لجانا، آنکھ لگنا، آنکھ مارنا، آنکھ ملانا، آنکھیں نکالنا، آنکھیں بچھانا، آنکھیں بھر آنا، آنکھیں ٹھنڈی ہونا، آنکھیں روشن ہونا، آنکھیں موند لینا، آنکھوں میں رات کاٹنا، آنکھوں میں سمانا، آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا، آنکھوں میں پھرنا، آنکھوں میں جچنا، آنکھوں میں چڑھنا، آنکھوں سے لگا لینا، آنکھوں کا پانی ڈھلنا، آنکھوں کے آگے اندھیرا آنا، آنکھوں پر قدم لینا، آنکھوں میں لہو اترنا، آنکھوں سے اوجھل ہونا، آنکھوں سے گر جانا، آنکھیں نیلی پیلی کرنا، آنکھیں کھل جانا، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا، آنکھیں چار ہونا، آنکھیں دکھانا، آنکھیں مٹکانا، آنکھوں پر بٹھانا، آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لینا، آنکھ اٹھاکر نہ دیکھنا، آنکھ اونچی نہ ہونا، آنکھ بند کرکے کچھ دینا، آنکھ بھرکر نہ دیکھنا، آنکھ پر پردہ ڈالنا، آنکھیں ٹھنڈی کرنا، آنکھ سے آنکھ ملانا، آنکھ سے لہو ٹپکنا، آنکھ کا پانی ڈھلنا، آنکھ کا کاجل چرانا، آنکھ کی پتلی کا پھرنا، آنکھ میلی نہ کرنا، آنکھ نہ جمنا، آنکھ نیچی کرنا، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، آنکھ کا اندھا گانٹھ کا پورا، آنکھ کا تارا، آنکھ مچولی، آنکھوں آنکھوں میں، آنکھوں کے اندھے نام نین سکھ، آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں، آنکھوں کے ناخن تو لو۔ یہ صرف دو لفظوں سے بننے والے محاوروں اور مرکبات کی ایک جھلک ہے۔ مکمل فہرست اس سے کئی گنا بڑی ہوگی۔ اسی سے بعض کثیر الاستعمال الفاظ سے بننے والے ہزاروں دوسرے محاوروں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جو دونوں زبانوں کے مشترک سرمایے کا بیش قیمت حصہ ہیں۔
اردو نے فارسی عربی الفاظ کو ہندی لفظوں کے ساتھ ملاکر سیکڑوں نئے مرکب بنائے جو ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈاک خانہ، راج دربار، بے کل، بدچلن، شرمیلا، رنگیلا، پان دان، عجائب گھر، بے دھڑک، چٹھی رساں، چوہے دان، گلاب جامن، جگت استاد، سبزی منڈی، گھوڑ سوار، جیب کترا، دل لگی، سمجھ دار، سدا بہار، گھر داماد، گھڑی ساز، چڑی مار، تھانہ دار، پھول دان، بےگھر، کلا کار، تھڑدلا، گرہ کٹ، بے ڈھب، گلے باز، لنگوٹیا یار، کمرکس، جوشیلا، منہ زور، بے ڈول، شوربے چٹ، ڈھل مل یقین، بے سرا، درشنی جوان، ٹکر گدا، دیوانہ پن، سنسنی خیز، کوڑھ مغز، من مست، بے بس، جیب گھڑی، کفن چور، بے چینی، لم قدا، اٹھتی جوانی، بے ڈھنگا پن، کٹوردان، بے لاگ، سنگار دان، گوند دانی، بے ٹھکانہ، پرسال، تبارہ، تماہی، تپائی، تراہا، تسالہ، چوپایہ، چوراہا، چوگرو، چارپائی، چوگوشیہ ٹوپی، مٹر گشت، چومہری، سرچڑھانا، سرڈوب، سر ڈھکی، سرمنڈا، سرتوڑ، لاپتہ، لاپرواہی، لاچاری، ناملنسار، نوچندی، نوسکھ، امام باڑہ، اٹل باز، دلی لگی باز، اکڑ باز، دھوکے باز، دغا باز، بٹیر باز، پتنگ باز، ٹپے باز، چوسر باز، پھکڑ باز، گاڑی بان، رتھ بان، بلم بردار، ہتھیار بند، بھج بند، لنگوٹ بند، تلوار بندی، لنگوٹیا یار، تک بندی، جکڑ بند، چھپر بندی، کھربندی، مینڈھ بندی، ناکہ بندی، پاجی پرست، کنبہ پرور، بسنتی پوش، پلنگ پوش، بیاج خور، بل دار، بیل دار، بھڑک دار، پتی دار، پہرے دار، پھل دار، چمک دار، تورے دار، تھوک دار، ٹوپی دار بندوق، ٹھیکے دار، جالی دار، پھولدار، جوڑی دار، جھالروار، دھاری دار، چکلے داری، ڈیوڑھی دار، لچھے دار، لیس دار، تھوک فروش، پھل کاری، کدوکش، گھیاکش، مٹرگشت، پیچوان، نشیلا، نکیلا، جوشیلا، خرچیلا، شوروغل، باغ باڑی، تار گھر، گولر کباب، بال صفا، پنچ فیصلہ، دھن دولت، کاغذ پتر، شادی بیاہ، عید ملاپ، نقدی چٹھا، موتی محل، موتی مسجد، گل تکیہ، کفن چور، عمرپٹہ، چور محل، دماغ چٹ، پلنگ توڑ، جیب کترا وغیرہ۔
اردو اور ہندی کی بنیادی لفظیات (Basic Vocabulary) کی جامع فہرست تیار کی جائے تو اس میں فعلی مادوں (آ، جا، سو، دھو، اٹھ، لکھ وغیرہ) مصادر (کھانا، پینا، جانا، رہنا، سونا، گانا وغیرہ) فعلیہ ترکیبوں (لکھ کر، گرتے پڑتے، کر سکنا، بول چکنا، آ گیا ہوگا وغیرہ) اور فعلیہ لاحقوں (ہے، ہو، ہیں، میں، تھا، تھے، تھی، تھیں، جیو، جئے، گا، گے، گی) کے علاوہ جو الفاظ لازمی طور پر جگہ پائیں گے وہ ہیں حرف جار (نے، سے، پر، تک، کا، کے، کی، کو، میں ) حروف حصریہ (ہی، بھی، تو) کلمات استفہامیہ (کیوں، کب، کہاں، کیسے، کدھر، کس، کن) کلمات تشبیہ (ایسے، جیسے، ویسے ) کلمات اشاریہ (ادھر، اُدھر، یہاں، وہاں، جہاں ) کلماتِ زمانی (اب، جب، تب، ابھی، جبھی، تبھی، کبھی) شخصی وغیر شخصی ضمائر (میں، ہم، تو، تم، آپ، وہ) اور ان کی تصریفی شکلیں (مجھ، تجھ، اس، میرا، تیرا، ہمارا، تمہارا، انہیں، ہمیں، سبھی)، اعداد بنیادی (Cardinal Numbers)، (ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ وغیرہ) اعداد توصیفی (Ordinal Numbers)، (پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا، ساتواں، آٹھواں وغیرہ)
اسی طرح سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں تک یہ ہزاروں لفظ ہندی اور اردو میں ایک ہیں۔ ان میں ذرہ برابر فرق نہیں۔ یہی معاملہ ’’واہ اہ‘‘ اور ’’ہائے ہائے‘‘ کا ہے۔ سیکڑوں گالیاں جو قدرتی طور پر منہ سے نکلتی ہیں، دونوں زبانوں میں ایک ہیں۔ جسم کے اعضا کے ناموں میں بھی زبردست اشتراک پایا جاتا ہے۔ سر، ماتھا، آنکھیں، ناک، کان، ہونٹ، گردن، منہ، ہاتھ، پاؤں، بانہیں، ٹانگیں، پیٹ، پیٹھ، کمر، چھاتی، گھٹنا، کہنی، ایڑی وغیرہ پر ہندی اور اردو دونوں کا حق ہے۔ غرض بنیادی لفظیات دونوں زبانوں کی سو فیصد نہ سہی، ننانے فیصد تو یقیناً ایک ہے۔
اس سلسلے میں تلمیحوں اور کہاوتوں کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ اگرچہ اردو نے اپنی تلمیحیں زیادہ تر اسلامی روایات سے لی ہیں لیکن بعض تلمیحیں مثلاً کرشن، رادھا، رام، لچھمن، سیتا، راون، ارجن، بھیم، ہیر، رانجھا وغیرہ ہندستانی روایتوں سے بھی آئی ہیں۔ تلمیحوں سے کہیں زیادہ دونوں زبانوں کا اشتراک کہاوتوں میں جھلکتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ ہندی اور اردو میں سیکڑوں ایک ہی طرح کی کہاوتیں استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً جیسا دیس ویسا بھیس، لہو لگاکر شہیدوں میں شامل ہونا، ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھنا، دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا، مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، جاکو راکھے سائیاں مار نہ ساکے کوئے، لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، گھر کی مرغی دال برابر، چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات، ملا کی دوڑ مسجد تک، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، یہ منہ اور مسور کی دال، د و ملاؤں میں مرغی حرام، ٹیرھی کھیر، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچےگی، چور کی داڑھی میں تنکا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس، منہ میں رام رام بغل میں چھری، آنکھوں کے اندھے نام نین سکھ، بچہ بغل میں ڈھنڈرا شہر میں، ایک انار سو بیمار، آج مرے کل دوسرا دن، رسی جل گئی پربل نہیں گیا، دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے، جوگی کس کے میت، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت، دور کے ڈھول سہاونے، کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی، کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا، بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی، میاں بیوی راضی تو کیا کرےگا قاضی، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا، بگلا بھگت، گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی وغیرہ ان سیکڑوں کہاوتوں میں سے ہیں جو اردو اور ہندی میں کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔
سید احمد دہلوی مؤلف ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کے اندازے کے مطابق اردو کے پچپن ہزار الفاظ کے سرمایے میں تقریباً چالیس ہزار الفاظ ایسے ہیں جو سنسکرت اور پراکرتوں کے مآخذ سے آئے ہیں یا غیر زبانوں کے الفاظ کو اردو اکر بنے ہیں۔ اس طرح اردو کے ایسے الفاظ جو اردو اور ہندی میں مشترک ہیں، تقریباً پچھتر فیصد یعنی اردو کے سرمایے کا تین چوتھائی حصہ ہوئے۔ دو زبانوں میں لسانی اشتراک کی یہ غیر معمولی مثال ہے۔ اگرچہ یہ بھی صحیح ہے کہ اردو کا امتیاز ان ایک چوتھائی الفاظ سے قائم ہوتا ہے جو عربی فارسی اور ترکی کے سرچشمے سے آئے ہیں۔
اس طرح اردو کی مخصوص چستی اور کھنک بھی سامی اور ایرانی ماخذ سے آئی ہوئی آوازوں سے پیدا ہوتی ہے، نیز لب ولہجہ اور تذکیر و تانیث کے جزوی اختلافات بھی ہیں، پھر بھی کسی دو زبانوں میں تین چوتھائی الفاظ کا مشترک ہونا، فعلیہ ڈھانچہ کا ایک ہونا، بنیادی لفظیات یعنی اعداد، ضمائر اور حروف جار کا ایک ہونا اور عوامی محاوروں اور کہاوتوں کا ایک ہونا لسانی اشتراک کی عجیب و غریب مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی کوئی دوسری زبان ہندی سے اتنی قریب نہیں جتنی اردو ہے، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندی کی سب سے بڑی طاقت اردو ہے اور اردو کی سب سے بڑی طاقت ہندی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.