اردو اور ہندی کا لسانی اشتراک۔۲
اردو اور ہندی کے رشتے کے بارے میں یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ اردو اور ہندی ایک زبان ہیں یا دو زبانیں۔ بعض حضرات انہیں ایک زبان کے دو اسلوب بھی مانتے ہیں اور اسالیب کی اس تفریق کی ذمہ داری نئی بورژواژی کے سر ڈالتے ہیں جس نے دونوں کے بولنے والوں کو الگ الگ اپنی لسانی میراث کا احساس دلایا اور زبانوں کی راہیں الگ کر دیں۔
وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ بعض چیزوں کی تعمیر میں خرابی کی صورت مضمر ہوتی ہے۔ دونوں زبانوں کی ثقافتی ترجیحات کے سرچشمے الگ الگ تھے اور اس کے ذمہ دار خود ہم تھے، البتہ اس صورت حال کا استحصال کیا برطانوی سامراج نے۔ اپنے مفاد اور اقتدار کے پیش نظر غیرملکی سامراج نے کس طرح ہندوستانی تہذیبی منطقوں کی تفریق کو مضبوط کیا اور اس کا گہرا اثر ہندی اور اردو کی تفریق پر پڑا، اس کا اندازہ آج مشکل نہیں۔ رہے جاگیرداری کے اثرات تو اردو نے تو آنکھ ہی جاگیرداری عہد میں کھولی تھی۔ لیکن اردو کی نشوونما صرف دربار سے متعلق نہیں رہی، خانقاہ اور بازار سے بھی اسے اتنا ہی رابطہ رہا ہے۔
اس عہد میں جو مشترک ہندوستانی تہذیب کی فضا تیار ہو رہی تھی اور جس میں مذہبی واجبات سے قطع نظر معاشرتی، جمالیاتی اور سماجی سطح پر مل جل کر رہنے کی ایک مشترک تہذیبی فضا تیار ہو رہی تھی، اس میں ترسیلی رابطے کے طور پر زبان سے تو سروکار تھا، اس کے ناموں سے مطلب نہیں تھا۔ اس زمانے میں اردو کا ایک نام ہندی یا ہندوی بھی تھا۔ شمالی ہندوستان کی یہ ریختہ زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کے تاریخی اور تہذیبی سابقے سے وجود میں آئی تھی۔ صوفیوں، سنتوں، فقیروں اور تاجروں کے ذریعے نہ صرف پورے شمال میں بلکہ جنوب میں گجرات اور دکن تک پھیل گئی تھی۔ ’’ریختہ‘‘، ’’ہندی‘‘، ’’ہندوی‘‘ کے علاوہ ’’گجری‘‘، ’’دکنی‘‘، ’’اردو‘‘، ’’اردوے معلی‘‘، ’’ہندوستانی‘‘ سب اسی ایک ہی زبان کے مختلف نام تھے۔
تیرہویں صدی سے اٹھارھویں صدی تک چھ صدیوں کے طویل عہد میں ہندوستانی زبان کے اس نہایت وسیع لسانی دھارے میں کسی طرح کے تفرقے یا تنازعے کا کوی جزردمد نہیں ملتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ سلسلہ اس زمانے سے شروع ہوتا ہے جب انگریزی سامراج اپنے استحکام کے لیے ہندوستان کی تہذیبی زندگی میں دست درازی شروع کرتا ہے۔ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں لیکن اس ضمن میں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ عہد وسطیٰ میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں تہذیبی یگانگت ورواداری اور اتحاد پسندی و موانست کے رشتے نہایت استوار تھے اوراس کا اثر نوزائیدہ زبان کی تشکیل اور ہیئت پر بھی پڑ رہا تھا۔ جدید سیاسی شعور اور قومیت کے احساس کے ساتھ ساتھ تہذیی منطقوں کا سوال شدومد سے سامنے آیا، اور اسی کے ساتھ ساتھ رواداری اور اتحاد پسندی کے رشتوں پر کاری ضرب برطانوی سامراج نے لگائی جس کے ایک نہیں سیکڑوں شواہد موجود ہیں۔
غیرملکی سامراج نے اپنی حکمت عملی کے نتیجے کے طور پر جب مذہب، ذات، برادری، فرقہ، نسل، علاقہ ہر حربے کو استعمال کیا تو زبان تو سامنے کی چیز تھی اور تہذیبی سماجی شیرازہ بندی کا اہم ترین وسیلہ بھی تھی۔ چنانچہ اس کازد میں آنا اور جھگڑے فساد کی جڑبن جانا لازمی بات تھی۔ بہرحال اس کی جتنی ذمہ داری سامراجی حکمت عملی پر ڈالی جا سکتی ہے، اتنی ذمہ داری خود ہم پر بھی عاید ہوتی ہے۔
اردو اور ہندی کے لسانی رشتے کے بارے میں میں بعض بنیادی باتیں اپنے پہلے مضمون مطبوعہ 1973میں بیان کر چکا ہوں۔ اگر ان میں سے کچھ کی تکرار ہوگی بھی تو محض ضمناً۔ اصل مقصد اس مبحث کے بعض دوسرے پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ اردو کے بارے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ عام اندازے کے مطابق اردو کے ستر فیصد الفاظ پراکرتوں کے ذریعے سے آئے ہیں یعنی ہندی ہیں۔ باقی تقریباً تیس فیصد الفاظ عربی فارسی ترکی کے ہیں۔ ان مستعار الفاظ کی کل تعداد چودہ پندہ ہزار سے زیادہ نہ ہوگی۔ ان لفظوں کو اردو نے کس طرح اپنی خراد پر اتارا اور کس طرح انہیں اپنایا، اس تاریخی عمل کے بارے میں معلومات زیادہ نہیں۔ اس بحث کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ان لفظوں میں جو مخصوص آوازیں ہیں، اردو نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اور انہیں کس طرح اردوایا اور ہندوستانیایا۔ مثال کے طور پر اردو کے ذخیرۂ مستعار میں ذ، ز، ض، ظ کی آوازیں اصل کی رو سے اپنی اپنی حیثیت رکھتی ہیں یعنی عربی میں ان چار حروف کی چار مختلف آوازیں ہیں۔ اردو میں یہ سب آوازیں ایک ہو گئیں۔
اسی طرح کا سلوک اردو نے س، ث، اور ص کے ساتھ بھی کیا ہے اور ان کا باہمی صوتی فرق بھی اردو میں زائل ہو گیا ہے۔ ت اور ط اور ح اور ہ کی آوازوں میں بھی اردو میں کوئی فرق نہیں رہا۔ یہ سب کی سب آوازیں اردو نے ہندوستانی نہج پر اتاری ہیں۔ عروض میں الف اور ع کے احکامات الگ الگ سہی لیکن عام تلفظ میں اردو کے تمام مصوتے جو الف کے ساتھ لکھے جاتے ہیں وہ ع کے ساتھ بھی وارد ہوتے ہیں اور الف اور ع کا صوتی فرق نہ ہونے کے برابر ہے۔ چھوٹے مصوتوں کا معاملہ اس سے بھی دلچسپ ہے۔ مستعار لفظوں کے چھوٹے مصوتوں میں ایسی ایسی کایا پلٹ ہوئی ہے کہ باید وشاید۔ اصل ترکیب جِدوجہد ہے یعنی بالکسر اول، عام طور پر جَدوجہد یعنی بالفتح اول بولا جاتا ہے۔ اصل لفظ رِفعت ہے بالکسر رے، لوگ رَفعت بالفتح رے بولتے ہیں۔ اصل اُسلوب ہے بالضمۂ الف، اکثر و بیشتر لوگ اَسلوب کہتے ہیں یعنی بالفتح الف۔ یہی معاملہ حضور اور بزرگ کا ہے۔ اصل لفظ تجربہ ہے بسکون جیم وبالکسررے جب کہ بالضمہ رے و بالفتح رے بھی سنائی دیتا ہے۔ اصل وِرثہ بالکسرواؤ تھا۔ اردو میں بالفتح واؤ بولا جانے لگا۔ اصل عقل اور دخل اکثر بہ حرکت دوم بولے جاتے ہیں، اگرچہ محتاط گفتگو میں نہیں لیکن محتاط سے محتاط اور بڑے سے بڑا پڑھا لکھا بھی غدر یا بدر کو جو اصلاً بسکون دال ہیں بہ حرکت اول پڑھتا ہے یعنی غدر کی بات یا بدر صاحب۔ البتہ اصل کا احترام ترکیب میں واجب ہو جاتا ہے یعنی بدرالدین طیب جی۔
غرض اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں جن میں مصوتوں کی یا تو نوعیت بدل گئی ہے یا ان کا مقام بدل گیا ہے۔ یہ سب اردوانے کے ہندوستانی عمل کا کرشمہ ہے۔ ایسا گرامر میں بھی ہوا ہے۔ مثلاً ہم امیر، وزیر، فقیر کی جمع امیروں، وزیروں، فقیروں بھی بولتے ہیں اور ان کی مستعار جمع امرا، وزرا اور فقرا بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ لیکن ہر مستعار لفظ پر یہ دہرا قاعدہ لاگو نہیں ہوتا۔ مثلاً صندوق عربی لفظ ہے لیکن اس کی عربی جمع صنادیق ہم کبھی استعمال نہیں کرتے اور ہمیشہ ہندی صندوقوں ہی لکھتے بولتے ہیں۔ اسی طرح شمس عربی میں مؤنث ہے، اسے اردو میں ہندی سورج کی وضع پرمذکر بولا جاتا ہے۔ ہندیا نے کے اس عمل کا اثر تلفظ اور گرامر کے علاوہ معنی کی تبدیلیوں پر بھی پڑا ہے۔ مثلاً عرصہ جگہ کے معنی میں تھا جیسے عرصہ تنگ ہونا لیکن عام طور پر ہم عرصہ کو وقت اور مدت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح امیر کے اصل معنی حاکم یا سردار کے تھے اور غریب کے معنی اجنبی کے۔ ہم ان لفظوں کو روپے پیسے والے اور مفلس کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔
گلاب گل کے عرق کے معنی میں تھا خاص پھول کے لیے گل تھا۔ ہم نے اسے پھول کی پتیوں سے نچوڑے ہوئے عرق سے ہٹاکر پھول کے معنی عطا کر دیے۔ اب گلاب پھولوں کا بادشاہ ہے۔ اسی طرح مرغ کوئی بھی پرندہ تھا ہم نے اسے خاص پرندے سے منسوب کر دیا اور اس سے مرغا اور مرغی بھی بنا لیے۔ اصل لفظ مصالح تھا، اس سے مصالحہ بنا، صلح سے جو امن اور اچھائی کے معنی میں تھا۔ اردو میں ’’مصالحہ‘‘ کھانوں میں کام آنے والے ’’مسالا‘‘ کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اسی طرح ’’تکلیف‘‘ کو ایرانی فرض اور ذمہ داری کے معنی میں بولتے ہیں، ہم زحمت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ’’خفا‘‘کے معنی ’’گلا‘‘ گھونٹنا ہیں، ہم ناراض ہونا کے لیے بولتے ہیں۔ ’’ناخوشی‘‘ ہم ناراضی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، لیکن اہل ایران نے ’’ناخوشی‘‘ کو بیماری کے معنی دے دیے ہیں۔ اسی طرح ’’تیغ‘‘ہمارے یہاں تلوار ہے اور ایران میں استرے کے معنی میں رہ گیا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے ہندوستانی کانفرنس لکھنؤ کے خطبۂ صدارت میں ایک دلچسپ بات کہی تھی،
’’ان فارسی الفاظ سے جنہیں ہم فارسی سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، اہل ایران ان پر چونکتے ہیں اور ہماری ہنسی اڑاتے ہیں یعنی وہ الفاظ فارسی نہیں رہے۔ ہم نے اردو میں ان کو دوسرے معنی دے دیے ہیں، اور اب وہ لفظ بالکل ہمارے ہو گئے ہیں۔ آپ ان کو اپنی زبان سے نکال دیجیے۔ آپ کے یہاں سے نکل کر وہ لفظ بالکل نکھرے ہو جائیں گے، کیونکہ فارسی یا عربی ان معنوں میں انہیں قبول نہ کرےگی۔‘‘
اس بارے میں انہوں نے اپنے ذاتی تجربے سے ایک پرلطف مثال ’’ظریف ومتین‘‘ کی پیش کی۔ ظریف ہم اس شخص کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی طبیعت میں مذاق ہو یا جو خوش طبع ہو۔ متین ہم سنجیدہ آدمی کو کہتے ہیں۔ لیکن ایک ترکی اخبار میں انہوں نے ایک جوتا بیچنے والے کے اشتہارات دیکھے جو کہتا تھا کہ اس کے جوتے ’’ظریف ومتین‘‘ ہیں۔ یعنی کیا یہ جوتے بیک وقت مذاق بھی کریں گے اور نہایت متانت سے بھی پیش آئیں گے۔ لیکن اشتہار دینے والے کا یہ مطلب نہیں تھا۔ وہ تو یہ اعلان کر رہا تھا کہ اس کے جوتے ’’ظریف‘‘ یعنی آرام دہ بھی ہیں اور ’’متین‘‘ یعنی مضبوط بھی۔
معنوی تبدیلیوں کا یہ عمل قدم قدم پر ملتا ہے۔ اردو کا کمال یہ ہے کہ اس نے مستعار اور دیسی عناصر میں ایسا توازن پیدا کیا ہے کہ اس کی نظیر دوسری زبانوں میں آسانی سے نہیں ملتی۔ مثلاً روزمرہ کو لیجیے۔ چشم بمعنی آنکھ اردو شاعری کی لفظیات میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
یہ جو چشم پُرآب ہیں دونوں
ایک خانہ خراب ہیں دونوں
چشم نرگس، چشم فسوں گریا کیفیت چشم عام ترکیبیں ہیں لیکن اگر اردو میں کہنا ہو ’’اس کی آنکھیں دُکھنے آئی ہیں‘‘ تو یہاں آنکھیں کی جگہ چشم استعمال نہیں ہوتا۔ اردو اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ یہ روزمرہ کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ غلط ہے۔ مثلاً ذیل کے شعر کے نحوی ڈھانچے میں چشم کے استعمال کا محل نہیں۔
دل کا کوئی قصور نہیں ہے آنکھیں اس سے لڑپڑیاں
مار رکھا سوان نے ہم کو کس ظالم سے جا لڑیاں
آتش آگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن ’’چولہے میں آتش جلا دو‘‘ اردو میں کہا ہی نہیں جا سکتا۔ اردو روزمرہ کی رو سے یہ غلط محض ہے۔ اردو میں ہمیشہ ’’چولہے میں آگ جلا دو‘‘ ہی کہا جائےگا۔ اگر دیسی لفظ کا محل ہے تو دیسی لفظ ہی استعمال ہوگا مستعار اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ اردو کے لسانی تمول اور پختگی کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ ذیل کے دو شعر ملاحظہ ہوں۔ پہلے میں آگ کا لفظ استعمال ہوا ہے دوسرے میں آتش کا۔ ایک کی جگہ پردوسرے کا استعمال (قطع نظر ضرورت وزن) نحوی طور پر ممکن ہی نہیں۔ یہ سلیقے، روز مرہ اور مذاق سلیم کے خلاف ہوگا۔
دل کے پھھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
ظاہر ہے اردو مستعار اور دیسی لفظوں سے لامحالہ برابر کا سلوک کرتی ہے اور جہاں جس کا محل ہوتا ہے اسے استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس ہندی میں تدبھوکو چھوڑکر تت سم کی طرف پلٹنے کا جو رجحان پایا جاتا ہے یا پراکرتوں کی سادگی کو تج کر سنسکرت کی اجنبیت کی طرف رجوع کی جو کوشش ہے یا عربی فارسی کے رچے بسے لفظوں کو کھدیڑ کر جس طری چن چن کر مترادفات سجائے جاتے ہیں ان کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ زبان بوجھل بن جاتی ہے اور اپنی فطری سادگی اور روانی سے محروم ہوکر تصنع کا شکار ہو جاتی ہے۔
اب ایک نظر رسم الخط پر بھی ڈال لی جائے جس پر منگولوں کے ذریعے لادے جانے یا بدیسی ہونے یا تفرقے کی بنیاد ہونے کے کیسے کیسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اردو رسم الخط میں 36 حروف ہیں۔ ان میں سے 14حروف کی آوازوں کی جو کایا پلٹ اردو نے کی ہے اس کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔ اب ذرا آوازوں اور حروف کے اضافوں پر بھی نظر ڈالیے۔ ہکار آوازیں عربی میں نہیں ہیں۔ بندشی آوازوں میں پورے ہکارسیٹ یعنی بھ پھ تھ دھ جھ چھ کھ گھ کا اضافہ اردو میں پراکرتوں کی دین ہے۔ اسی طرح معکوسی آوازیں ٹ ڈ ڑاور ان کے ہکار روپ ٹھ ڈھ ڑھ بھی ہندی اثرات کے تحت اضافہ ہوئے۔ یہ کل 14 آوازیں ہیں۔ یعنی اردو رسم الخط میں ایک تہائی سے بھی زیادہ انڈک آوازوں کااضافہ ہو چکا ہے۔ اردو بولتے لکھتے ہوئے ان آوازوں سے مفر نہیں۔ لب ولہجہ، لفظوں کے بل اور سر لہروں کا اضافہ اس پر مستزاد۔ غرض اس رسم الخط کی، جو ہم نے صدیوں پہلے اردو کے لیے لیا تھا، اردوانے کے عمل کے دوران اتنی کایا پلٹ ہو چکی ہے کہ نہ صرف اس کی اصل آوازوں میں سے بہت سی آوازوں کو ہم نے بدل دیا ہے بلکہ اس میں ایسی ایسی آوازوں اور علامتوں کے اضافے بھی کیے ہیں جو نہ عربی میں ہیں نہ فارسی میں۔
یہ حقیقت ہے کہ اردو کا ایک صفحہ تو کیا ایک پیرا بھی ان آوازوں کے بغیر لکھا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر کسی اردو کتاب یا اخبار کا ایک صفحہ بھی اگر کسی ایرانی یا عرب کے سامنے رکھا جائے تو وہ اسے صحیح نہیں پرھ سکےگا۔ ایسے رسم ا لخط کو جو قبولے جانے کے دوران تنسیخ وتوسیع کے زبردست نامیاتی عمل سے گزر چکا ہے اور نصف سے بھی زیادہ بدل چکا ہے، اس کو اب غیرملکی کہنا اور اس کی بنا پر ہندی اور اردو کی خلیج کو وسیع کرنا کہاں کی انصاف پسندی اور دانش مندی ہے۔
یہ تو اردو کے مستعار سرمایے کی بحث تھی۔ اب ذرا ہندی کے مستعار سرمایے یعنی ان فارسی عربی لفظوں یا ان کے اجزا پر نظر ڈالی جائے جو ہندی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ہندی میں استعمال ہونے والے عربی فارسی کے الفاظ قدرتی طور پر وہ ہیں جو اردو میں کثیرالاستعمال ہیں اور کثرت استعمال ہی کی وجہ سے ہندی کے لیے ناگزیر ہو گئے ہیں۔ ہندی کی بنیادی لفظیات پر کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ Basic Vocabulary of Hindi کے نام سے کیلاش چندر نے علی گڑھ سے ایک کتاب شائع کی تھی۔ وزارت تعلیم حکومت ہند نے بھی دوہزار لفظوں کی Basic Hindi Vocabulary شائع کی ہے اور اس طرح کا کام سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف ہندی سے بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ ان تمام مطبوعات میں ہمارے نقطۂ نظر سے سیتا رام شاستری کا ہندی میں استعمال ہونے والے عربی، فارسی، ترکی الفاظ کا وہ سروے جو رسالہ گویشڑا میں شائع ہوا ہے، خاص اہمیت رکھتا ہے۔
اس میں ایسے دو ہزار تین سو عربی فارسی لفظ کے سامنے اس کا سنسکرت مترادف بھی دے دیا گیا ہے اور یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ہندی میں صرف چار سو پچاس عربی فارسی کے بنیادی لفظ ایسے ہیں جن کے متبادل فراہم نہیں کیے جا سکتے، باقی سب لفظوں کو بدلا جا سکتا ہے۔ جن لفظوں کے متبادل فراہم کیے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح کے ہیں، مثلاً ’’حضور‘‘ کے معنی ’’شریمان‘‘ یا ’’حویلی‘‘ کے معنی ’’بھون‘‘ درج کیے گئے ہیں۔ یہ غور کیے بغیر کہ ان لفظوں کے کچھ ثقافتی وسماجی مفاہیم بھی ہو سکتے ہیں، جو مترادفات کی زد میں نہیں آ سکتے، اس لیے کہ معنیاتی فضا بدل جاتی ہے۔ اس فہرست میں مترادفات درج کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا گیا کہ لفظی طور پر جو مترادف دیا گیا ہے کیا وہ فعلی اور ترکیبی شکلوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً ہوا کے آگے وایو تو رکھ دیا گیا ہے لیکن یہ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ کیا ہوا دار، ہوابازیا ہوائی چھوڑنا، ہوا باندھنا، ہوا خراب ہونا، ہوا ہو جانا کا مسئلہ لفظ ’’وایو‘‘سے حل ہو سکتا ہے؟
ہندی اور اردو الفاظ کے اشتراک کے ذیل میں افعال، امدادی افعال اور مرکب افعال کی تفصیل پہلے پیش کی جا چکی ہے۔ اسی طرح جسم کے حصوں کے نام یا رشتے داریاں (ماں، باپ، بھائی، بہن، بیٹا، بیٹی، دادا دادی، نانانانی، چچا، ماما وغیرہ) یا گنتیاں یا موسموں کے نام یا ضمیر یں یا الفاظ تمیز یا حروف جار سب ایک ہیں۔ نیز دو عنصری الفاظ (راج دربار، عجائب گھر، ڈاک گھر، چٹھی رساں) دونوں زبانوں کی گنگا جمنی خصوصیت پر دال ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ لسانی بوجھ ان سابقوں اور لاحقوں پر پڑتا ہے جو سیکڑوں ترکیبوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاًبے (بے کل، بے گھر)، دان (پان دان، پھول دان)، بان (گاڑی بان، رتھ بان)، دار (تھانے دار، سمجھ دار)، باز (دھوکے باز، بٹیرباز) یا ہندی لاحقے جو عربی فارسی لفظوں کے ساتھ لگتے ہیں مثلاً لا (جوشیلا، نشیلا)، پن (دیوانہ پن)
اسی طرح اشتراک کی یہ فضا کھانے، مٹھائیوں اور پھلوں پھولوں کے ناموں میں بھی ملتی ہے۔ (حلوہ، گلاب جامن، برفی، فالودہ، قلاقند، سیب، شریفہ، اخروٹ، پستہ، بادام، انار، انگور یا روغنی روٹی، رومالی روٹی، حبشی حلوہ، موتی پلاؤ، نرگسی پلاؤ، نرگسی کوفتہ۔) دونوں زبانوں کا باہمی اشتراک وارتباط ناقابل شکست حد تک ضرب الامثال اور کہاوتوں میں بھی ملتا ہے۔ مثلاً چولی دامن کا ساتھ، گوشت کا ناخن سے جدانہ ہونا، چہرہ فق ہونا، پاؤں تلے سے زمین نکلنا، باغ باغ ہونا، کشتی کنارے آ لگنا، گھی کے چراغ جلانا، خون سفید ہونا وغیرہ سے ظاہر ہے کہ اگر ایسے محاوروں یا کہاوتوں میں عربی فارسی کے لفظ شامل نہ ہوں تو محاورہ یا کہاوت بن ہی نہیں سکتی۔ یہ وہ سرمایہ ہے جسے ہندی والے بھی اپنا سمجھ کے برتتے ہیں۔
ہندی اردو کی کچھ کہاوتیں ایسی بھی ہیں جو واضح طور پر مذہبی اثرات لئے ہوئے ہیں یعنی مفت کی مرغی قاضی کو بھی حلال، میاں بیوی راضی تو کیا کرےگا قاضی، دو ملاؤں میں مرغی حرام، نماز بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑے، سو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی۔ یہ کہاوتیں جیسی اردو میں استعمال ہوتی ہیں ویسی ہندی میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔
فرض کیجیے عام لفظوں کو تو مترادفات کے ذریعے بدل بھی لیا جائے لیکن ناموں کا کیا کیجیےگا۔ بعض ناموں میں تو زبانوں کا سنجوگ عجیب وغریب شکلیں اختیار کرتا ہے۔ مثلاً بدھ یعنی گوتم بدھ کے مجسموں کی رعایت سے فارسی نے بدھ سے ’’بت‘‘ بنا لیا۔ گروتیغ بہادر کا نام کس نے نہیں سنا۔ نیپال کبھی مسلمانوں کے زیرنگیں نہیں رہا، لیکن شمشیر جنگ رانا اور ببرجنگ رانا زبانوں کی آمیزش کا کھلا ہوا ثبوت ہیں۔ اسی طرح چودھری، کنور اور راجا کے القاب مسلمانوں کے ناموں کے ساتھ عام استعمال ہوتے ہیں۔ صاحب اور سردار ہندوؤں اور سکھوں کے ناموں کے جزو ہیں۔ اور تو اور صاحب رام، مالک رام، حاکم رائے، نوبت رائے، خوشی چند، شادی لال، چمن لال، حضور سنگھ، گوربخش سنگھ، ذیل سنگھ، ہوشیار سنگھ، عجائب سنگھ، بختاور سنگھ جیسے نام ہندوؤں سکھوں میں عام طور پر سنائی دیتے ہیں جن میں عربی فارسی لفظوں کی بھرمار ہے۔
ان عناصر کے پیش نظر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو رسم الخط اور اس کی لفظیات بدیسی ہے اور یہ تمام اثرات بھی بدیسی ہیں، تو انہیں کیسے قبول کر لیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ایسے تمام اثرات کو رد کر دیا جائے تو ہندوستان گیر حیثیت سے ہندی کا تصور کرنا بھی مشکل ہوگا۔
اس بحث سے چند نتیجے آسانی سے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ اردو اور ہندی اپنی بنیاد اور جڑ سے ایک ہیں۔ ان کی نشوونما اس طور پر ہوئی کہ اب یہ دو آزاد، مستقل بالذات اور الگ الگ زبانیں ہیں۔ البتہ کئی سطحوں پریہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتیں۔ اس باہمی اشتراک کی وجہ سے موجودہ لسانی صورت حال کچھ اس طرح کی ہے کہ اگر ہندی اور اردو کو دو دائروں کی شکل میں ظاہر کیا جائے تو دونوں دائرے ایک دوسرے سے ملتے ہوئے نظر آئیں گے اور دونوں دائروں کا نصف سے زیادہ حصہ ایک دوسرے پر منطبق ہوتا ہوا معلوم ہوگا۔
دوسرے یہ کہ اردو میں تقریباً تین چوتھائی الفاظ دیسی ہیں یعنی یہ وہی ہیں جو ہندی میں استعمال ہوتے ہیں۔ عربی فارسی سے مستعار سرمایہ صرف دس پندہ ہزار لفظوں کا ہے اور یہ بھی سب کا سب استعمال نہیں ہوتا۔ گمان ہے کہ اردو شاعروں اور ادیبوں کے یہاں اس سرمایے کا بھی زیادہ سے زیادہ نصف حصہ یعنی چھ سات ہزار لفظ استعمال ہوتے ہیں اور یہ سرمایہ بھی اردوانے اور ہندیانے کے نامیاتی عمل سے گزرا ہے اور اس میں صوتی، صرفی، نحوی اور معنوی تبدیلیاں ہوئی ہیں تب کہیں جاکر یہ اردو کا جزوبدن ہو سکا ہے۔ دوسری طرف ہندی میں عربی فارسی سے مستعار اردو کے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی تعداد دو ڈھائی ہزار کے لگ بھگ ہے، اور یہ وہ لفظ ہیں جو کثیرالاستعمال ہیں اور جن کے بغیر ہندی میں طرح طرح کی دقتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
ہندی کے ساتھ اردو کے بقاے باہم کے لیے اس بات کے عرفان کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی طور پر اردو ہند آریائی زبان ہے۔ نیز اپنے ذخیرۂ الفاظ اور رسم الخط کے معاملے میں وہ اتنی غیرملکی نہیں جتنی قرار دی جاتی ہے۔ جب اردو اتنی روادار ہو سکتی ہے کہ اپنی کل لفظیات میں تین چوتھائی کی حد تک یعنی چالیس پینتالیس ہزار الفاظ ہندی کے برت سکتی ہے اور پراکرتوں کے تدبھو کی بہترین امین بھی ہے تو کیوں نہ ہندی بھی اردو کے دو ڈھائی ہزار لفظوں کے بارے میں فیاضی کا ثبوت دے اور انہیں اپنی بنیادی لفظیات کے طور پر تسلیم کرے اور ان کے استعمال کو ذہنی تحفظات اور تعصبات کا شکار نہ ہونے دے۔ اس سے دونوں زبانوں میں باہمی اشتراک اور لسانی بھائی چارے کی فضا مضبوط ہوگی اور علاحدگی پسند (الگاؤ وادی) سیاست دانوں کی تنگ نظرانہ تاویلیں اور غلط بیانیاں اس رشتے کو نقصان نہ پہنچا سکیں گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.