ڈراما صرف لکھا نہیں جاسکتا اس کی جڑیں جب تک تہذیبی اظہار میں پیوست نہ ہوں اس وقت تک اس کا ارتقا ممکن نہیں۔ ہندوستان میں کلاسیکی ڈرامے کی روایات تابناک ہیں، لیکن اردو نے مدتوں اس عظیم الشان روایت سے رشتہ نہیں جوڑا اس کی بہت سی وجہیں تھیں لیکن ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ اردوکا تعلق جس ترک ایرانی اور ہند ایرانی مدنی تہذیب سے تھا، اس میں ڈرامے کی روایت موجود نہ تھی۔
مدتوں پہلے سنسکر ت ڈرامے کے زوال کے بعد ڈرامے کی روایت دیہی معاشرت کا حصہ بن چکی تھی، وہاں رام لیلا بھی زندہ تھی اورنوٹنکی بھی لیکن اردو صناع اور اہل حرفہ کے جن شہری مجمعوں میں پلی بڑھی، ان میں دیہات کی معاشرت کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور چونکہ اہل حرفہ اور صناع خود کبھی دیہات سے ہی آئے تھے لہٰذا اپنے ماضی پر اپنے حال کی فوقیت جتانے کے لئے وہ دیہی تہذیب کو گنوارو کہہ کر اس سے اپنی برٔت کا اظہار کرتے تھے۔
ڈراما محض ادبی تصنیف نہیں ہے اس کا تعلق اسٹیج سے ہے اور جب تک اسٹیج کی روایت زندہ نہ ہو اس وقت تک ڈرامے کی تخلیق ممکن نہ تھی۔ اسٹیج کا تعلق کئی فنون لطیفہ سے ہے ان میں موسیقی اور اداکاری، رقص اور آرائش و زیبائش خواہ وہ اسٹیج کی ہو یا فنکار کی، سبھی لازمی جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ سب فنون ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں، لازمی طورپر ان کا تعلق مربوط اور ہم آہنگ سماج سے ہے۔ جب تک سماج ایک کڑی میں گندھا رہتا ہے اس وقت تک ذرائع اظہار بھی کم و بیش منسلک اور مربوط رہتے ہیں۔ ہندوستانی سماج چونکہ مختلف مذاہب، مختلف قومیتوں اورمختلف تہذیبوں کا سماج تھا اس لیے اس میں وہ سماجی یک رنگی پیدا نہیں ہوسکتی جو یکساں طور پر پوری قوم کے دلوں کو گرما سکے اوریکساں طورپر عوام کی ہر سطح کو متاثر کرسکے۔ قومی وراثت کی اس رنگا رنگی نے ہندوستان کو قومی اسٹیج سے محروم رکھا۔ آہستہ آہستہ یہ قومی شعور اکبر کے بعد کے دور میں دھیرے دھیرے مختلف علاقوں میں پیدا ہورہا تھا جس کے نتیجے کے طور پر بھکتی تحریکیں اور اردو کا سیکولر اور غیر مذہبی ادب اُبھرا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ لے اور بڑھتی توشاید نئے قومی شعور کا پیش خیمہ بنتی اور آہستہ آہستہ ہندوستان کا یہ نیا قومی شعورشہروں اور قصبوں سے ہوتا ہوا دیہاتوں تک پہنچتا اورپورے ملک کی شیرازہ بندی کرنے میں کامیاب ہوجاتا مگر عین اس وقت جب یہ تاریخی اور تہذیبی عمل جاری تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی کی فاتحانہ یورش نے اس سلسلے کو درہم برہم کردیا اور اس تہذیبی ارتقا کے عمل کو روک کر مغربی عناصرکا دھارا لا ڈالا۔
اس تہذیبی سلسلے کی درہمی برہمی بعض مراکز میں بہت نمایاں تھی اور بعض مراکز میں بہت موہوم اور مبہم۔ دہلی میں اس مٹی ہوئی تہذیب کا ماتم سب سے زیادہ واضح تھا لیکن لکھنؤ چونکہ ایک مصنوعی آسودگی میں مبتلا تھا اور خود فرماں روا اور عوام تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے مکمل سیاسی قبضے کی نوعیت سے بے خبر تھے اس لیے اس سلسلے کی درہمی اتنی واضح طور پر یہاں سامنے نہ آئی اور وہ تہذیب جو دہلی کے صناع اور اہل حرفہ طبقے کے ذریعے وجود میں آرہی تھی، لکھنؤ میں پنپتی رہی اور یہاں کی معاشرتی اور مجلسی زندگی سے مربوط ہوگئی۔ یہ ربط دھیرے دھیرے عوامی سطح تک پہنچنے لگا اور انھیں اپنے رنگ میں رنگنے لگا۔ اس کا دائرہ ایسا وسیع ہوا کہ اس دورکے عوامی ذرائع اظہار کو مدنی زندگی بھی اپنانے لگی اور اسے اپنے طرز کے قصوں، کہانیوں اور روایتی لوک قصوں کا وسیلہ بنانے لگی۔
ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اس دور کی ہند ایرانی تہذیب اب اپنا کوئی ایسا اعلیٰ آدرش نہ رکھتی تھی جو مستقبل کے لئے نئی توانائی کا امین اور ترقی کا نیا حوصلہ اورارمان، بصیرت اور روشنی دے سکے۔ لہٰذا ہر پھر کر اس نے اپنا رشتہ دیہی تہذیب یا شہر کی عوامی تہذیب کے بعض عناصر سے جوڑ لیا اور ان عناصر میں بھی اس تہذیب کو سمونے کی کوشش کی جو اہل حرفہ اور صناع طبقے نے ہند ترک ایرانی تہذیب کے ملاپ سے تیار کی تھی گویا آگے کا راستہ مسدود پاکر مدنی تہذیب اپنے اظہار کے لئے عوامی وسیلے تلاش کر رہی تھی۔
انہی وسیلوں میں تھی کتھک کی تجدید، انہی وسیلوں میں تھا ٹھمری کا نیا روپ اور انہی وسیلوں میں تھا رہس اور اندر سبھا کا نیا روپ، جسے واجد علی شاہی دور نے اپنے تہذیبی اظہار کے لئے منتخب کیا۔ رہس مبارک کیا تھا؟ رادھا کنہیا کے مختلف عشقیہ قصوں کوجو عام مجلسی روایت کا حصہ بن چکے تھے، غیر مذہبی انسانی روپ میں پیش کرنے کی ایسی کوشش تھی جس میں ناچ اور سنگیت کے لئے ہر طرح گنجائش نکل آئے۔ اس رہس میں اسٹیج کے رسمی لوازم نہ تھے نہ پردہ تھا کہ اٹھایا اور گرایا جاتا، کردار سامنے آگئے تو گویا پردہ اٹھ گیا، رخصت ہوگئے اور اسٹیج خالی ہوگی تو گویا پردہ گر گیا۔
سنسکرت ڈراموں کی روایت کا اتنا اثر ضرور تھا کہ بدوشک کا ایک مزاحیہ کردار بار بار آکر مزاحیہ باتیں کر کے ہنساتا ہے اورکرشن مراری کی فکر مندی کا مذاق اڑتا ہے۔ کرشن اور رادھا کے کردار روایتی ہیں، لیکن یہاں ان کا روپ مذہبی اور روحانی نہیں محض عشقیہ داستان کے کرداروں کا ہے جو لکھنؤ کے تمدن کا ایک جزو بن چکے ہیں جو ہند ایرانی تہذیب کا سنگم تھا۔ اس رہس مبارک میں حسیات پر زندہ رہنے والے سماج کی تصویر کشی موجود ہے، جس کے نزدیک قدریں محض لذت کے گرد گھوم رہی ہیں اور زندگی سماجی معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔ یہی حال کچھ کچھ امانت کے اندر سبھا کا ہے جو دراصل ایک تصنیف نہیں طرز تصنیف ہے۔ اندر سبھا (۱)، گویا مثنویوں کا ڈرامائی روپ پیش کر رہی تھیں، جن میں ’سحر البیان‘ اور ’گلزار نسیم‘ کی فضا اور ان کے واقعات اور کردار منظوم ڈراموں کی شکل میں ابھر رہے تھے۔ ان قصوں میں وہی تہذیب اور وہی اقدار جلوہ گرتھیں۔ راجا اندر کے دربار میں سبز پری کی آمد، جوگن کا آنا اور بین بجاکر سارے دربار کو مسحور کرلینا اوراپنے سنگیت سے اپنی ساری شرطیں منوالینا، یہ سب اس ڈرامے کی لازمی اجزا تھے جو انسان اور فوق فطری عناصرکے درمیان کھیلاجارہا تھا۔
یہاں انسان اپنی فہم و فراست، سنگیت اور رقص کے کمال سے فوق فطری عناصر پر بھی فتح پاتا ہے اور ایک بار پھر اپنی عظمت کا سکہ منوا لیتا ہے۔ یہاں قدر اول وفاداری ہے ساری دنیا میں خیریت ہے۔ راجا اندرکی حکومت ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چھائی ہوئی ہے، اس سے سرتابی کی مجال کسی کو نہیں۔ اگر اس سے کام لینے کی صورت ممکن ہے تو وہ محض اطاعت اور انقیاد سے ممکن ہے، اس کا دل جیت کر ہی اسے فتح کیا جاسکتا ہے اور جوگن کی بانسری اور سنگیت کے کے جادو کی طاقت سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل وہ حسیات کا غلام اورلذت کا بندہ ہے حسن کا شیدائی اور رنگ رلیوں کا رسیا ہے، اپنی مرضی کا مختار ہے، نہ قانون کاپابند ہے، نہ جمہوری رائے عامہ کا۔ حکومت اسکے نزدیک دادِ عیش دینے کا نام ہے۔ یہ تصویر بہت کچھ اس دور کے اودھ کی تصویر ہے جہاں حکومت اپنے انتظامی جوہر سے محروم ہوچلی تھی اور سلطنت عیش و عشرت کا دوسرا نام ہوتی جارہی تھی۔
کشمکش کی نوعیت بھی ظاہر کرتی ہے کہ ابھی تک آویزش ابتدائی نوعیت کی ہے اورکردار سادہ اور یک رخے ہیں۔ قصوں نے وہ بساط جمائی ہے جو ڈراموں کی دنیا میں نئے رنگ ڈھنگ سے سجنے لگی ہے۔ مقصد صرف محبوب کے حصول تک محدود ہے اورڈرامے کی ساری پیچیدگیاں پرستان کے اصول و ضوابط سے محبت کے ٹکرا جانے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ گویا یہاں محبت صرف دل کی بے اختیاری کی شکل ہی میں سامنے نہیں آتی بلکہ قانون سے لوہا منوالینے والی قوت کی حیثیت سے بھی ابھری ہے جو اپنی توانائی کی مدد سے گویا انسانی فطرت کے مطابق قانون کی تہذیب اور اصلاح کرنے سے بھی نہیں چوکتی بلکہ راجا اندر پر فتح یاب ہوسکتی ہے۔ آویزش کے ذریعے نہیں اس کا دل جیت کر اور ا ٓخر کار اسی حربے سے محبت کی فتح ہوتی ہے۔
کلاسیکی ہندوستانی اسٹیج کے بارے میں یہ تنقید بار بار کی جاتی رہی ہے کہ وہ ٹریجڈی سے نابلد ہے۔ المیہ دراصل فطرت اور انسانی خواہشات کے تصادم سے عمل میں آتا ہے۔ ہندوستان میں فکری سطح پر فطرت سے تصادم اور اس کی تسخیر کے بجائے اس سے مناسبت اورمطابقت پیدا کرنے کا جذبہ کارفرما رہا ہے۔ عہد قدیم سے لے کر تصوف تک فطرت کو انسان کو جزو یا انسان کو فطرت کا جزو جانتے رہے ہیں۔ کالی داس کے ڈرامے، شکنتلا‘ میں پیڑوں کی ڈالیاں اورہرن تک۔ گویا ’شکنتلا‘ کو آشرم سے رخصت کرتے ہیں فضا کے نظارے تک غمگین ہو اٹھتے ہیں۔ گویا اسکے دکھ میں شریک ہوں۔ جب فطرت سے تصادم نہ ہو تو پھر المیے کیونکر وجود میں آسکتے ہیں۔ ایک ایسے سماج میں جو ابھی تک جاگیرداری کے قدیم تصورات سے باہر نہ نکلا ہو اور فطرت کو رفیق اور دمساز جان کر اس سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہو ایسے کردار اوراشخاص کا تصور ممکن نہ تھا جو فطرت کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں خود ٹوٹ اوربکھر کررہ جائیں۔ یہاں تو فوق فطری عناصرانسان کی کوششوں اورکاوشوں میں شریک ہوتے ہیں اورجہاں کہیں انسان کی فراست کام نہیں کرتی وہاں بھی انھی عناصر کی دستگیری حاصل ہوتی ہے۔
اِندر سبھا کی منزل پر غورطلب بات یہ ہے کہ قصہ گوئی کے دورکی طرح اس دور میں بھی روایتی لوک کہانی سے ڈرامائی اظہار کا رشتہ جُڑا ہوا ہے۔ سماج کی اکائی بھی ٹوٹی نہیں ہے اور تہذیب سے ڈراما نگار کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ وہ اپنے سماج ہی کا ایک ناگزیر جزو ہے۔ اس کے سارے قصے روایت کاجزو ہیں جن میں وہ اپنے تخلیقی جوہر کے مطابق کچھ تبدیلیاں اوراضافے تو کرتا رہتا ہے، مگرہر پھر کر اسی چوکٹھے میں رہتا ہے، اس کے گاؤں کی طرزمیں اس کے ناچ رنگ سبھی کچھ ایک ایسی مجلسی بساط کا پتا نشان دیتے ہیں جن میں دور دور تک رنگینی اوراجتماعی خوش دلی چھائی ہوئی ہے۔ فرد ابھی ابھرا نہیں ہے، کردار کی کوئی باطنی زندگی نہیں ہے اور وہ سب ایک ایسے بھرے پُرے سماج کا حصہ ہیں جس میں فوق فطری عناصر بھی جی کھول کر حصہ لیتے ہیں اور تماشے کا جزو بن جاتے ہیں یہاں سارا زور حسیاتی سطح پر ہے۔ لذت اور حیات ہی سب کچھ ہیں، یہاں تہذیبی رنگینی تو ہے مگر توانائی اور گہرائی موجودنہیں ہے جو اپنے فکری اور اقتصادی تقاضوں کی بنا پر تہذیبی ہم آہنگی Cosmopolitanism اور Secularism تک توجا پہنچا ہے مگراس سے آگے بڑھ کر مستقبل کا کوئی خواب پیش کرنے کے قابل نہیں رہا ہے وہ خلش سے خالی ہے اور اس کے پاس ایسی کوئی نوائے سینہ تاب نہیں جو ارتقا کی ضامن ہو۔
آغا حیدر حسن امانتؔ نے بہت کچھ چوری چھپے اندر سبھا کو ذریعہ اظہار بنایا۔ مدتوں یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ یہ ان کی اپنی تصنیف ہے، اندر سبھا کی غزلوں میں اپنا تخلص امانتؔ کی جگہ استادؔ قرار دیا اور شرح اندر سبھا میں اپنے اس تامل کا سبب یہ بیان کیا کہ یہ اس دورکی تہذیب سے گری ہوئی بات سمجھی جاتی تھی کہ شرفا ڈرامے لکھیں اور ناٹک کھیلیں۔ مداری لال کی اندر سبھا کو تو عوامی اندر سبھا سمجھا ہی جاتا رہا اوراس کا ادبی مرتبہ امانتؔ سے کم تر سمجھا گیا۔ ان بیانات سے اندازہ ہوگا کہ اندر سبھائیں گو عوامی سطح تک آئیں لیکن ان میں شہری کلچر کی چھاپ بھی قائم رہی اور اس طبقے کی آواز بھی گونجتی رہی جو شہروں میں نئی تہذیب کا معمار بنا ہوا تھا وہی اہل حرفہ اوراہل کمال جواس مشترکہ ہندوستانی ایرانی تہذیب کے امین تھے یہاں بھی سرگرم عمل تھے۔
یہ بحث اب پرانی ہوچکی ہے کہ اندر سبھا کی تصنیف میں واجد علی شاہ کی ترغیب یا تشویق کو کوئی دخل تھا یا نہیں؟ یا اندر سبھا کو لکھنؤ میں فرانسیسی اثرات سے کسی حد تک منسلک کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ واجد علی شاہ ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ کے مصنف ضرور تھے۔ ’رہس مبارک‘ ان کے ایما سے کھیلا جاتا تھا جس کی تفصیل پروفیسرمسعود حسن رضوی نے ’اردو ڈراما اوراسٹیج‘ میں بیان کی ہے لیکن محمد عمر اور نور الہٰی صاحبان کے ’ناٹک ساگر‘ والے بیانات کے برخلاف واجد علی شاہ کا کوئی تعلق اندر سبھا سے نہ تھا اور نہ یہ ان کے دور میں قیصر باغ میں اسٹیج ہوئی یہ تو گویا اس دور کے ادبی پیرایۂ اظہار کے طور پر ابھری اور لکھنؤ کے گلی کوچوں میں مقبول ہوگئی کیونکہ اپنے دورکے تہذیبی سیاق و سباق کواندر سبھا نے زبان دے دی تھی اور اس وسیلہ اظہار کے ذریعہ لکھنوی کلچر بول اٹھا تھا۔
رہی فرانسیسی اوپیرا کے اثرات کی بحث، ممکن ہے جزوی طور پر یہ اثرات پڑے ہوں لیکن حق یہ ہے کہ اول تو اوپیرا کی طرح پردے اندر سبھا میں کبھی استعمال نہیں ہوئے۔ دوسرے فرانسیسی اثرات لکھنوی سماج میں ایسے جاری و ساری نہ تھے کہ امانتؔ تک پہنچتے جو اپنی تہذیب کے رسیا اور اپنی ہی روایت کے شیدائی تھے۔ اس لحاظ سے اندر سبھا کو لکھنؤ میں قصہ گوئی کے دور کی طرح ایک ایسے تہذیب کا اظہار ماننا چاہئے جو ابھی سماجی رشتوں سے دور نہیں ہوئی ہے اور س میں فرد اپنے زمانے کی معاشرت میں پوری طرح گھلا ملا ہوا ہے البتہ قصوں کے برخلاف یہاں اخلاقی مقصد پیش کرنا نہیں ہے اندر سبھا دو گال ہنس بول لینے کا سامان فراہم کرتی ہے کوئی اخلاقی نصیحت نہیں کرتی گویا یہ اپنے دور کے قصوں کے عام رنگ و آہنگ کا حصہ ہے۔
اس کے بعد ہندوستانی سماج میں جو تبدیلیاں ہوئیں انھوں نے دور رس نتائج پیدا کیے۔ اندر سبھا کی جگہ پارسی تھیٹر نے لے لی اور تھیٹر کو تجارتی مقصد کے لئے استعمال کیا۔ ڈراما ہمارے لیے نیا نہیں تھا لیکن مغرب سے تھیٹر کے ادارے کی برآمد ضرور نئی تھی، اس کی پبلک بھی نئی تھی اور اس کا عمل دخل ظاہر ہے ایسے شہروں تک محدود تھا جو مغربی کلچر کی زد میں آرہے تھے۔ شروع شروع میں پارسی تھیٹر نے مقبول قصوں ہی کو ڈرامے کی شکل میں اسٹیج پر پیش کیا کچھ ترجمے ہوئے جن کا معیار ادبی نہ تھا۔ کچھ مثنویوں کوڈرامے کی شکل دے دی گئی مثلاً واجد علی شاہ کی مثنوی ’غزالہ رو ماہ پیکر‘ کا ڈراما تیار ہوا اور اسے شائع بھی کیا گیا، کچھ تھیٹریکل کمپنی کے مالکوں نے خود طبع آزمائی کی جس کا سب سے واضح نمونہ ڈراما ’خورشید‘ ہے۔
ان سب قصوں میں عوامی مقبولیت اور اخلاقی رنگ قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کمرشیل اسٹیج سماجی مفاہمے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور اس مفاہمے نے فرد کا رشتہ سماج سے کٹنے نہیں دیا۔ کمرشل اسٹیج کی سب سے بڑی دریافت آغا حشر کاشمیری ہیں جن کے ڈرامے ایک مدت تک ہلچل مچاتے رہے۔ حشرؔ کا آرٹ ادبی اعتبار سے احسنؔ، بے تابؔ اورطالبؔ کے ڈراموں کا تکملہ تھا۔ آغا حشر نے اردو اسٹیج ڈراموں کو ادبیت دی، وہ گھن گرج بخشی، جس نے نئے تھیٹریکل تکنیک کا آغاز کردیاجو حشر اسٹائل کہلاتا ہے۔
حشرؔ نے جو قصے لیے ان میں طبع زاد قصے شاذ و نادر ہی تھے۔ یہی حال ان کے پیش رووں کا بھی تھا۔ ان کے قصے کہیں شیکسپیئر سے مستعار ہیں کہیں مثنویوں سے، کہیں صنمیات اور دیومالا سے کبھی اس دور کے مشہور واقعات سے مثلاً راجا ہریش چندر پرانا قصہ ہے جس میں راجا ہریش چندر کی سچائی اور صداقت بیان کی گئی ہے۔ بلوامنگل سور داس کے متعلق مشہور زمانہ روایت ہے۔ ’قتل تمیزن‘ مشہور طوائف کے قتل کا قصہ ہے جس کا اس زمانے میں بڑا چرچا تھا۔ یہودی کی لڑکی میں کچھ طبع زاد حصے ہیں، کچھ شیکسپیئر سے ماخوذ ہیں۔ گویا قصوں کا طرز و اسلوب یہاں اس اعتبار سے تو بدلا کہ فرد کا تصور ابھرنے لگا اور فوق فطری عناصر ڈرامے میں مفقود ہوگئے۔ اندر سبھا کی فضا تبدیل ہوگئی لیکن جس فرد کا تصور ابھرا اس کا رشتہ اس کے سماج سے خاصا گہرا تھا اورپورا ڈرامائی آرٹ ایک اجتماعی آہنگ سے معمور تھا۔
حشر اسٹائل خود اسی اجتماعی آہنگ کا حصہ تھا وہ اسٹائل بڑا بلند آہنگ معلوم ہوگا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اس دور کے اسٹیج کی ضروریات کوپورا کرتاتھا، آ ج کی طرح بڑے بڑے اسٹیج تھے نہ ہال، نہ مائیکروفون کی آسانیاں حاصل تھیں، نہ اسٹیج کی تکنیک آج کی طرح سے ترقی یافتہ تھی۔ ڈرامہ عام طور پر منڈیوں یا پنڈالوں میں دکھائے جاتے تھے، ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا۔ اداکار کے سامنے ایک بہت بڑا سوال مائیکروفون کی مدد لیے بغیر اپنے مکالمے کی روح کو مجروح کیے بغیر اپنی آواز کو منڈوے کی آخری صف میں بیٹھے ہوئے فرد تک پہنچانے کا تھا، اس لیے اسے مکالمے بہت بلند آواز میں بولنے پڑتے تھے۔ اس لیے لازم تھا کہ ڈراموں کے مکالمے گھن گرج کی زبان میں لکھے جائیں، ان میں روانی، جوش اور ڈرامائیت ہو، بلند آہنگی ہو جو اونچی آواز کا ساتھ دے سکے، اس لیے بلند آہنگی آغا حشر کے مکالموں کی خصوصیت ہی بن گئی۔
مکالمے عام طورپر لمبے ہوتے تھے اور مناسب جگہوں کے علاوہ کسی اور مقام پر رُکے بغیر انھیں پوری روانی سے ادا کرنا ہوتاتھا، ساتھ ہی ساتھ اشعار کا کھٹکا بھی تھا جو ادا کار کو سانس لینے کا موقع بھی فراہم کرتا تھا اور مکالمے کو زیادہ موثر بنا دیتا تھا، اسلوب بھی جگہ جگہ مقفیٰ نثر سے سجایا جاتا تھا، مثلاً اس قسم کے مکالمے ملاحظہ ہوں۔ چنگیز نے اپنے حریف ناصر کو گرفتار کرلیا ہے، اس سے مخاطب ہے،
چنگیز، مغرور، تو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، پھر بھی یوں اکڑا ہوا ہے،
سر سے غرورِ مسندِ مخمل نہیں گیا
رسّی تمام جل گئی پر بل نہیں گیا
ناصر، ہمت والے مصیبت سے کب ڈرتے ہیں تارے دن کے عوض رات کو نکلتے ہیں،
بھری برسات میں جن ندی نالوں میں روانی ہے
انھیں گرمی میں دیکھو تو نہ موجیں ہیں نہ پانی ہے
ان مکالموں میں مقفیٰ نثر بھی استعمال ہوئی، اشعار بھی موجود ہیں، بلند آہنگی بھی ہے جو آغاؔ حشر کے اسٹائل کی خصوصیات تھیں۔
پارسٹی تھیٹر کے ڈراموں نے اخلاقی اور سماجی مقصد کو بھی سامنے رکھا اور کمرشل نقطۂ نظر اپنانے کے باوجود ڈراموں میں سماجی اصلاح کا ایک پہلو بھی پیش نظر رکھا جو اس دورکی روح عصر کے عین مطابق تھا۔ پارسٹی تھیٹر کا کاروبار تو بڑا تھا، ڈرامے کو سماجی مقصد سے ایسا جوڑ دیا گیا تھا کہ سرسید احمد خاں نے ایم ایے او کالج کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے خود ڈراما کیا تھا اور خود اسٹیج پر آئے تھے اور شبلی بھی اس میں شریک تھے، اس سے ڈرامے کے اخلاقی آہنگ کا واضح ثبوت فراہم ہوتا ہے۔
پارسی تھیٹر کے بعدڈرامے کا عروج ہوا اور اردو اسٹیج کا زوال، بدقسمتی سے اردو ڈرامے اور اسٹیج کے رابطے گہرے نہ رہے اورڈرامے یا تو محض پڑھنے کے لئے لکھے گئے یا اسٹیج کا وجود نہ ہونے کی وجہ سے دکھائے نہ جاسکے۔ لیکن لکھے جانے والے ڈراموں میں امتیاز علی تاجؔ کا ڈراما ’انارکلی‘ بھی تھا جس نے ڈرامے کی دنیا میں امتیاز حاصل کیا۔ ایک نئے دورکا آغاز ہوا۔ پارسٹی تھیٹر سے ’انارکلی‘ تک ڈراموں کا ایک سلسلہ ہے جو دھیرے دھیرے ڈرامے کو ادبی صنف کی حیثیت سے نکھار رہا تھا۔ مرزا محمد ہادی رسواؔ کا ڈراما ’لیلیٰ مجنوں‘، عبد الماجد دریابادی کا ’زود پشیماں‘، ظفر علی خاں کا ڈراما ’جنگ روس و جاپان‘، سجاد انصاری کا ناتمام ڈراما ’رومِ جزا‘ سب اسی کاوش کی مختلف کڑیاں ہیں ان سب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ڈرامے کو سنجیدہ مسائل کے لئے ذریعۂ اظہار بنایا جائے اس کا معاملہ محض قصہ گوئی تک محدود نہ رہے بلکہ اقدار کی کشمکش اور تہذیبی مسائل کا رنگ و آہنگاس میں جگہ پالے۔
امتیاز علی تاجؔ نے قصہ تو تاریخ ہی سے لیا، لیکن اسے اقدار کی کشمکش کے اظہار کا وسیلہ بنا لیا۔ سب سے پہلی خوبی یہ تھی کہ اس میں کردار محض Type نہیں ہیں وہ واضح طورپر نیک و بد کے خانوں میں بانٹے بھی نہیں جاسکتے اورجنہیں بُرا کہا جاسکتا ہے ان کی بُرائی کے بھی صاف انسانی جواز موجود ہیں اور اس نقطۂ نظر سے ان سے ہمدردی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً دل آرام کا کردار کیسا ہی کیوں نہ ہو بعض فطری کمزوریوں کے عکس سے خالی نہیں، اس کی سازشی طبیعت اس کی بدنہادی شہزادہ سلیم سے اس کی ناکام محبت کی بنا پر ہے، اسی طرح گو اکبر انار کلی کو زندہ دفن کرادیتا ہے لیکن اسکے نزدیک سلیم اورانارکلی کی محبت محض ایک شہزادے اور ایک معمولی کنیز کا رومان نہیں ہے، جسے وہ اپنی مزاحمت سے ختم کردیتا ہے بلکہ یہ سلیم کے متعلق اس کے خوابوں کا خاتمہ ہے، وہ تواپنے تخت پرایک بیدار مغز محنتی اور سیاسی امور سے گہرا شغف رکھنے والے حکمراں کو بٹھانا چاہتا تھا اور سلیم اس کی توقعات کے برخلاف ایک رومانی نوجوان نکلا جس کے نزدیک محبت مغلیہ تخت و تاج سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ اس اعتبار سے اکبر سے بھی ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے اورکئی نقادوں نے اس ڈرامے کو بنیادی طورپر اکبر کے المیے سے تعبیر کیا ہے۔
بہر حال ’انارکلی‘ میں پہلی بار کردار محض سیاہ اور سفید رنگوں کے نہیں تھے بلکہ ان میں انسانی کردار کی پیچیدگی اور تہہ داری موجود تھی، پھر ان کے کرداروں میں محض یک رُخاپن بھی نہیں ہے گو باطنی زندگی کی پرت زیادہ نمایاں نہیں ہے لیکن اس کے واضح اشارے ان کرداروں میں موجودہیں۔ انارکلی اور ثریا کے مکالموں میں گویا خود کلامی کی سی کیفیت ہے جو انارکلی کے باطن کو بے نقاب کرتی ہے، اسی طرح سلیم کی خود کلامی سے اس کا اندرونی کرب ظاہر ہوتا ہے اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار ڈراما واقعات اور کرداروں کے ٹکراؤ سے اوپر اٹھ کر اقدار کی آویزش کی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ یہاں مسئلہ صرف سلیم اورانارکلی کی محبت کی کامیابی یا ناکامی کا نہیں ہے۔ بلکہ شہزادے اورکنیز کی سماجی سطحوں کے فرق کا ہے۔ سماجی مساوات اوربرابری کا ہے کیا محبت ان تقسیموں سے بلند ہوسکے گی؟ محبت جیسا سادہ اور سیدھا سا جذبہ سماج کی ’مسلمہ‘ مگر بے انصافی پر مبنی اقدار سے جا ٹکراتا ہے اورپورے معاشرتی نظام کے آگے سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
انارکلی کے بعدکے دور میں ڈرامے کی دنیا میں بہت کچھ ہوا ہے گو اب بھی ادبی تنقید اس صنف کے ساتھ انصاف نہیں کرسکی ہے۔ ڈاکٹر عابد حسین کا ڈرامہ ’پردۂ غفلت‘ گو سماجی ڈراما تھا اورمسلم سماج میں آنے والی تبدیلیوں پر مبنی تھا، مگر اقدارکی کشمکش کے موضوع کو اس نئے نئے نقطۂ نظر سے ڈرامے میں سمویا تھا۔ محمد مجیب کے ڈرامے، حبہ خاتون، خانہ جنگی، اور بعد کوْ آزمایش، بھی اسی روات کی کڑی ہے۔ ’خانہ جنگی‘ میں اورنگ زیب اوردارا کی آویزش گو تاریخ کا حصہ تھی مگر اسکے پیچھے اقدار کی کشمکش بھی پوشیدہ تھی اور اسی کشمکش کو ڈرامے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اشتیاق حسین قریشی کے ڈرامے ’دھویں کی پھانسی‘، ’انجام‘ وغیرہ بھی اسی روایت کا حصہ ہیں۔
لیکن اس دور تک پہنچتے پہنچتے ڈراما دوسرے قسم کے تکنیکی مسائل اور وسائل سے دوچار ہوچکا تھا۔ فلم کا رواج ہوا تو اسٹیج کی مقبولیت متاثرہوئی۔ پہلے خاموش فلمیں بنیں پھربولتی ہوئی فلموں کا رواج ہوا۔ تھوڑے دنوں بعد ریڈیو کا چلن ہوگیا اور ریڈیو نے جہاں اور اصناف کی طرف توجہ کی وہاں ریڈیو ڈرامے کی نئی صنف کو بھی فروغ دیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ مختلف کالجوں اوریونیورسٹیوں کی تہذیبی سرگرمیوں کے سلسلے میں شوقیہ ڈراما کمپنیوں اورکلبوں نے یک بابی ڈراموں کو اسٹیج کرنا شروع کیا۔ یہی یک بابی ڈرامے رسالوں میں جگہ پانے لگے اور ریڈیو پر بھی انہی کا چلن ہوا۔
ہمارے آپ کے دیکھتے دیکھتے اب پچھلے ۲۷سال سے نیشنل اسکول آف ڈراما، کا قیام عمل میں آیا ہے۔ پونا میں فلم اورٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ بنا ہے اورملک کے مختلف اداروں میں ڈرامے کے متعلق تربیت اور تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے۔ طویل ڈرامے اسٹیج پر کھیلے جانے لگے ہیں۔ ٹیلی ویژن کا بھی آغاز ہوگیا ہے اورٹیلی ویژن ڈرامے بھی اپنے مخصوص مسائل کے ساتھ اُبھرنے لگے ہیں۔
لیکن اس دور تک پہنچتے پہنچتے اردو اسٹیج نے کئی اور رنگ دیکھے۔ ۴۶۔ ۱۹۴۵ء کے لگ بھگ ہندوستان گیر پیمانے پر ترقی پسند تحریک زیر اثر IPTA(اپٹا) ہندوستانی عوامی تھیٹر کا قیام عمل میں آیا جس نے ڈرامے کو متاثرکیا۔ اردومیں بھی کئی ڈرامے لکھے گئے گو ان کی ادبی اہمیت زیادہ نہیں تھی، اہم بات یہ تھی کہ ڈرامے میں سماج معنویت کا عروج ہوا اوراس کے دور رس نتائج مرتب ہوئے، اس ضمن میں پرتھوی تھیٹر اور بیگم قدسیہ زیدی کے ہندوستانی تھیٹر کی تحریک اور علی گڑھ میں اردو تھیٹرکے قیام کا بھی ذکر بے محل نہ ہوگا۔ پرتھوی تھیٹرز نے اردوڈرامے اسٹیج کیے ان کے کھیل ’پٹھان‘، ’غدار‘، ’تپسیہ‘، ’دیوار‘ بہت مشہور ہوئے اور سماجی مقصدیت قومی جذبے اور سوشلسٹ تصورات کو لے کر ان ڈراموں نے ایک نیا آہنگ پیدا کیا۔ پھر بیگم قدسیہ زیدی کے اسٹیج کیے ہوئے ڈراموں نے اردو میں اسٹیج میں نئی ضروریات اور تقاضوں کو عام کیا، برنارڈ شا کے ڈرامے پک مے لی ان (Pygmalion) کو انھوں نے ہندوستانی روپ دیا اور ’آزر کا خواب‘ کے نام سے اسٹیج کیا۔
Charlie’s Aunt ’خالد کی خالہ‘ کے نام سے اسٹیج ہوا۔ قدیم سنسکرت ڈراموں میں ’شکنتلا‘ اور ’مٹی کی گاڑی‘ اردو ترجموں کی شکل میں اسٹیج کیے گئے۔
ادھر ریڈیو نے ہمارے اچھے لکھنے والوں کو ریڈیائی ڈراموں کی طرف متوجہ کیا۔ کرشن چندر نے ڈرامے لکھنے شروع کیے اور ’’سرائے کے باہر‘ جیسا ڈراما لکھا۔ راجندر سنگھ بیدی کے ’ساتھ کھیل‘ بھی اسی دورکی پیداوار ہیں۔ ان ڈراموں میں نقل مکانی کی کہانی کو انھوں نے بعدمیں فلم ’دستک‘ کی شکل میں پیش کیا۔ سعادت حسن منٹو نے ’ اس منجدھار میں‘ لکھا اور یک بابی ڈرامے کی طرف توجہ مبذول ہوئی اور ریوتی سرن شرما نے ’دشمن‘ اور ’انسان‘ جیسے ڈرامے لکھے۔ منظوم ڈرامے بھی لکھے جانے لگے جن میں ساغر کے ڈرامے ’شکنتلا‘ اور ’انارکلی‘ قابل ذکر ہیں۔ مزاحیہ ڈراموں کا بھی عروج ہوااور ابھی حال میں علامتی ڈرامے کو بھی فروغ حاصل ہواہے۔ اسطرح ڈرامے میں اجتماعی آہنگ کی بجائے فرد کا تصور ابھرا اور آج کا ڈراما زیادہ سے زیادہ باطنی اور نجی لب و لہجے کو اختیار کرتاجارہا ہے۔ مگر اس رجحان کا سب سے نمایاں اظہار حال ہی میں ساگر سرحدی کے ڈرامے ’تنہائی‘ میں ہوا ہے جو ان دنوں دہلی میں اسٹیج کیا جارہا ہے۔
لیکن اسی کے ساتھ ساتھ نیم سوانحی، نیم تہذیبی ڈراموں کا تذکرہ ضروری ہے ان میں وہ ڈرامے میں جو غالبؔ صدی کے موقع پر اسٹیج کیے گئے اور اس کے بعد بھی برابر ان کا سلسلہ جاری ہے۔ محمد مہدی کا ڈراما ’’غالبؔ کون‘‘ حبیب تنویر کا ڈراما ’’میرے بعد‘‘ رفعتؔ سروش کا ڈراما ’’غالب‘‘ اور ’’جہاں آرا‘‘ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ منجو قمر ید اللہی اور رفیعہ سلطانہ نے بھی ؎غالب پر ڈرامے لکھے اسی طرح حال میں محمد مہدی کا ڈراما ’’غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے‘‘ ایک طنزیہ ڈرامے کی شکل میں دہلی میں اسٹیج ہوا۔ ’’تماشا اور تماشائی‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اس کے علاوہ اس دورکے اردو ڈرامائی ادب کی اہم دریافت حبیب تنویر ہیں جن کے ’’آگرہ بازار‘‘ نے اردوڈرامے کی دریافت کو نئے ڈرامائی تکنیک اوراسلوب سے ہم آہنگ کیا۔ حبیب تنویر نے اپنی توجہ چھتیس گڑھی بولیوں کی طرف زیادہ منتقل کردی ہے لیکن ان کے ڈراموں میں تکنیک سے گہری واقفیت اردو ڈرامے کی مزاج شناسی اور عصر حاضر کی آگہی سے مناسبت موجودہے۔
اس طرح گویا ہم عصر حاضر کے ڈراموں تک آپہنچے۔ ڈراما آج بھی اردو میں غزل اور ناول کا سا مقام پیدا نہیں کرسکا ہے۔ لیکن اس ڈرامائی اظہار کی مختلف شکلوں کے مطالعے سے بھی ہم پھر ایک بار انھیں نتائج تک پہنچتے ہیں جن تک اردو کے افسانوی اورشعری اظہارکے مختلف اصناف کے ارتقا کے مطالعے سے پہنچے تھے۔ یعنی ڈرامائی اظہار میں تکنیک، اسلوب اورمزاج ہی کی نہیں اصناف کی تبدیلیاں نہ محض اتفاقی ہیں نہ محض ادبی اور نہ فنی تقاضوں کا نتیجہ ہیں بلکہ ان کے پیچھے معاشی ضرورتیں اور ان معاشی اور اقتصادی ضرورتوں کے پیدا کردہ سماجی رشتوں کی تبدیلیوں کا اثر صاف جھلکتا ہے۔
جس طرح جاگیر دارانہ دور میں مرکزیت کی تلاش نے شہری مراکز اور مدنی تہذیب کا آغاز کیا تھا اور اس سماجی اور معاشرتی ہم آہنگی نے شاعرمیں مثنوی اور افسانوی اظہار میں قصے کو جنم دیا تھا اسی طرح اندر سبھا کوجنم دیا اورڈرامے کا موضوع بنا دیا۔ یہاں بھی فرد کا رشتہ اجتماع سے جُڑا ہوا تھا اور عام طور پر مشہورکہانیوں اور روایتوں کی مدد سے جو مثنوی یا دیومالا میں موجود تھیں ڈرامے تیار کیے گئے۔ اندر سبھاؤں پر بھی اسی مشترک تہذیب کا سایہ تھا جس کا عکس ہم نے قصوں اورمثنویوں میں دیکھا ہے انہی کی طرح اندر سبھاؤں میں بھی فوق فطری عناصر موجود تھے اور انہی کی طرح زندگی کا ایسا تصور تھا جس میں اسباب و علل کے رشتے دھندلاجاتے ہیں۔
پھر جس طرح مغرب کے عمل دخل کے بعدنئی تہذیبی بساط بچھی اور فرد سماجی سیاق و سباق سے جڑا رہنے کے باوجود اخلاق کی آواز بلند کرنے لگا اور سماج کو ایک نئے نہج پر ڈھالنے کی کوشش میں لگ گیا اسی طرح ڈرامے میں بھی اس قسم کی آوازیں ابھریں، فرق صرف یہ تھا کہ اس دور میں ڈراما چونکہ اسٹیج سے وابستہ تھا اور اسٹیج کاروباری لوگوں کے ہاتھ میں تھا اس لیے اخلاقیات کی لے زیادہ نہیں اُبھری۔ یہ آوازیں مدھم تھیں اور صرف اس حد تک انھیں ڈرامے میں شامل کیا گیا اور اسٹیج پر روا رکھا گیا جس حد تک وہ عوام کے لئے قابل قبول ہوں۔
لیکن ڈراموں کی بلند آہنگی اوران کا براہ راست طرز خطاب بھی اس مبلغانہ عنصر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے علاوہ ڈرامے نے مغربی تراجم کو اپنے دامن میں جگہ دی۔ دیومالا کے قصوں کو سماجی اوراخلاقی معنویت کے ساتھ اپنایا اور تاریخی اور نیم تاریخی قصوں میں تخیلی رنگ آمیزی کر کے انھیں اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔ گویا ڈرامے نے داستان اورناول کی درمیانی سرحد پر رہ کر ارتقا کی ایک نئی منزل تک رسائی حاصل کرلی۔
پھر وسائل اظہار کے طریقے بدلے، ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن آئے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ صنعتی زندگی کی ہما ہمی اور شہروں میں امنڈتی ہوئی زندگی کی پیچیدگیاں بھی آئیں جن سے فرد ڈرامے میں بالکل دوسرے انداز سے دوچار ہوا۔ آخر کار ڈراما اقدار کی کشمکش کی داستان بن گیا اورہمارے معاشی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کے پیچ و خم ڈرامے میں بھی مختلف شکلوں سے ابھرنے لگے۔ فرد ڈرامے کو بھی اپنا ذریعہ اظہار بنانا چاہتا ہے لیکن اس اظہار کی نوعیت نظم اور علامتی افسانے سے مختلف ہے لیکن ڈراموں کی نئی تکنیک ان میں مجرد اور علامتی تجربوں کی نوعیت اور فردکی باطنی زندگی کی پیچیدگیوں پر زور سے ثابت ہوتا ہے کہ صنعتی زندگی کے پھیلاؤ اور نئے اقتصادی اور معاشی عناصر کے فروغ نے ایسے طبقوں کو جنم دیا ہے جو دوسری اصناف کے ساتھ ساتھ ڈرامے میں بھی اظہار پارہے ہیں۔
ہم نے اپنا سفر اس سوال سے شروع کیا تھا کہ ادب کو کس حد تک انسانی زندگی کے باطنی پہلو کے سمجھنے کے لئے تاریخی اور تہذیبی مطالعے میں معاون سمجھا جاسکتا ہے۔ اس منزل تک پہنچتے پہنچتے شاید ہم نہ صرف اس سوال کا جواب اثبات میں دے سکتے ہیں لیکن یہ بھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ خود ادبی تبدیلیوں اور اصنافِ ادب کے عروج و زوال کے پیچھے بھی محض اتفاقات یا صرف ادبی تقاضے کام نہیں کرتے بلکہ ان کے پیچھے کارفرما عوامل و محرکات کی تلاش کی جائے تو تہذیب اورسماج کے اقتصادی اورمعاشی ڈھانچے میں ہونے والی تبدیلیوں کا عکس بھی دیکھا جاسکتا ہے گویا ادب کا حقیقی مطالعہ تہذیبی سیاق و سباق ہی میں ممکن ہے اوراسی پس منظر میں اُبھرتے اورڈوبتے ادبی رجحانات کے اسباب جانے جاسکتے ہیں اور خود اپنی اوراپنے دورکی بھی بہتر طور پر شناخت کی جاسکتی ہے۔
حاشیہ
(۱) اندر سبھا دراصل وہ ڈرامائی صنف ہے جس میں انسان اور پری کی محبت کا قصہ منظوم شکل میں رقص، سنگیت اور اداکاری کے ذریعے اسٹیج پر پیش کیا جائے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.