اردو غزل کی روایت اور فراق، پس نوشت
کوئی ڈھائی تین سال ہوئے جب میں نے اپنا مضمون ’’اردو غزل کی روایت اور فراق‘‘ کراچی کے ’’نیا دور‘‘ میں اشاعت کے یے بھیجا تو جمیل جالبی نے مجھ سے کہا کہ مضمون چھپ تو جائےگا لیکن اس کی اشاعت کے بعد جو غلغلہ اٹھےگا اور مضمون کے بارے میں جو کچھ لکھا جائےگا، اس کا سامنا کرنے کے لیے اور جواب دینے کے لیے تمھیں ابھی سے تیار ہونا ہو جانا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو اس بات کا شائق اور مشتاق رہتا ہوں کہ میری تحریریں درخور مباحثہ سمجھی جائیں، لہٰذا اگر کوئی مدلل تحریر نظر آئےگی تو میں حتی المقدور اس کا جواب لکھوں گا۔
بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس مضمون کی اشاعت جب ہندوستان میں ہوگی تو یہاں بھی اس پر اعتراضات ہوں گے۔ دونوں ملکوں میں اس کی اشاعت کو دوسال ہورہے ہیں۔ اس اثنا میں دو پاکستانی اور تین ہندوستانی تبصرے میری نظر سے گذرے ہیں جو اس مضمون سے متعلق ہیں۔ ان میں ایک ہندوستانی شاعر کی نظم بھی شامل ہے جس میں میرا نام تو نہیں ہے لیکن روئے سخن میری طرف ہے۔ ان میں سے ایک کے سوا تمام تحریروں کا لب لباب یہ ہے کہ فاروقی صاحب سستی شہرت کے جو یا ہیں، یا وہ فراق صاحب کے عظیم کارناموں کو حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ فاروقی صاحب اردو غزل کی روایت سے بے خبر ہیں۔ ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ فاروقی صاحب دوبغلی سے کام لیتے ہیں، جن معیاروں پر وہ فراق صاحب کو پرکھتے ہیں ان کا اطلاق وہ دوسرے شعرا مثلاً میر، یا جدید شاعروں پر نہیں کرتے۔
یہ اعتراضات ایسے نہیں ہیں کہ ان پر وقت صرف کیا جائے۔ ان میں جذباتیت زیادہ ہے اور استدلال کم، بلکہ استدلال اتنا کم ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا بات وہیں رہتی ہے کہ ہماری شاعری میں فراق صاحب کا مرتبہ ومقام کیا ہے؟ اپنا مضمون ’’اردو غزل کی روایت اور فراق‘‘ لکھنے کے پہلے اور اس کے بعد بھی، میں اس مسئلے پر غور کرتا رہا ہوں کہ ایک شخص جس کی عظمت ووقعت کا ایک زمانہ معترف ہے اور جس کی شاعری نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا، اس کی شہرت کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں اور اس کی عظمت کن بنیادوں پر قائم ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں نے اپنے طور پر تلاش لیے ہیں۔ لیکن یہاں سب جوابات کا تذکرہ مجھے مقصود نہیں ہے۔
میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فراق صاحب کی غزل میں دو خصوصیات ایسی ہیں جو ان کے کلام کی مقبولیت کی ضامن ہیں۔ اگر وہ بہتر اور محتاط شاعر ہوتے تو ان خصوصیات کی بنا پر واقعی ایسا کارنامہ انجام دے جاتے جو اس قدر ومنزلت کا مستحق ہوتا جو انھیں نصیب نہیں ہوئی، کیونکہ اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اپنی زندگی ہی میں فراق صاحب کو جو مرتبہ ملا، اس کی نظیر میر، میر انیس، اقبال اور ایک حدتک فیض کے علاوہ نہیں ملتی۔ خود فراق صاحب اس مرتبے کے مستحق کس حد تک تھے، اس کا فیصلہ وقت کرےگا۔ فراق صاحب کی ان دو خصوصیات کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ بعض پس منظری باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ پہلی کا تعلق غزل کی روایت سے ہے اور دوسری کا مغربی تعلیم کے اثرات سے۔
غزل ہماری شاعری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ طرز بیان اورا سلوب اظہار کے تجربے اور تبدیلیاں اس میں روز اول سے ہوتی رہی ہیں۔ چنانچہ آج بھی آزاد غزل اور نثری غزل جیسے تجربے ہو رہے ہیں۔ قدیم اردو میں جب غزل کیا، خود اردو زبان ہی نوعمر تھی، ہاشمی بیجاپوری نے ایسی غزلیں لکھیں جن میں متکلم یعنی Protagonist عورت ہے۔ شاہ سعد اللہ گلشن کے ولی کو مشورہ دینے کی روایت غلط ہو یا صحیح، لیکن ولی کی غزل میں ایسے مضامین اور اسالیب کثرت سے نظر آتے ہیں جن کا وجود قدیم اردو غزل میں نہیں۔ بعد میں غزل ہی کے حوالے سے مختلف اصطلاحات وجود میں آئیں اور ایہام گوئی، خیال بندی، مضمون آفرینی، شور انگیزی، کیفیت، تہہ داری وغیرہ تصورات کا چلن ہوا۔
غزل کی شعریات باقاعدہ مرتب نہیں ہوئی لیکن لوگوں کو اس بات کا دھندلا سا احساس تھا کہ کم سے کم دو طرح کی غزل ممکن ہے۔ ایک تو وہ جس میں معنی یامضمون یا خیال کی ندرت یا پیچیدگی ہو اور دوسری وہ جس میں ایسی ندرت یا پیچیدگی تو نہ ہو لیکن کیفیت یاشور انگیزی ہو یعنی ایک شق تو وہ ہوئی جس میں معنی آفرینی، مضمون آفرینی، خیال بندی ایک طرح کی چیزیں قرار پائیں اور دوسری شق وہ جس میں کیفیت اور شور انگیزی ایک طرح کی چیزیں قرار پائیں۔ میر نے اپنے ایک شعر میں تین بنیادی اصطلاحیں استعمال کرکے اردو غزل کی شعریات کے مورخ کی راہ آسان کر دی ہے،
نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی
گیا ہو میر دیوانہ رہا سودا سو مستانہ
غالب کا مشہور قول بھی ہمارے سامنے ہے، ’’بھائی شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اٹھارویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے اواخر تک کے شعرا کے یہاں ہماری غزل کی شعریات کے بارے میں اشارے مل جاتے ہیں۔ تذکروں کی بھی ورق گردانی سے اصطلاحات ہاتھ لگتی ہیں لیکن ان کی تعریف اور ان اصطلاحوں کے پیچھے جو تصورات ہیں، ان کی وضاحت اکثر نہیں ہوتی۔ بہرحال شعرا کا عمل ہمارے سامنے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غالب نے فارسی کے عشقیہ شعرا مثلاً فغانی اور نظیری کے کلام کو ’’شور انگیز‘‘ کہا ہے، یا وہ ’’لباس نظم میں بالیدن مضمون عالی‘‘ کی بات کرتے ہیں، لیکن داغ کے سوانح نگار احسن مارہروی، داغ کے حوالے سے شعر کی خوبی یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ فوراً سمجھ میں آ جائے۔ اس کی باز گشت حسرت موہانی کے مشہور شعر میں ملتی ہے،
شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
انیسویں صدی کے اواخر میں مغربی تعلیم کے غلط اثر اور حالی کی تحریروں کے ذریعہ یہ خیال عام ہوا کہ غزل میں جذبات کو سیدھے اور آسان انداز میں بیان کیا جائے۔ معنی آفرینی، پیچیدگی، خیال بندی اور مضمون آفرینی کو بےجا تصنع لفظی اور بےجان صنائع بدائع کا ہم رنگ سمجھ لیا گیا اور کیفیت اور شورش کو ’’نیچرل شاعری‘‘ کا ہم وزن قرار دیا گیا۔ یہ خیالات کسی نہ کسی شکل میں انیسویں صدی کے آخری چوتھائی میں ہی عام ہونا شروع ہو گئے تھے، کیونکہ اس وقت تک انگریزی تعلیم تھوڑی بہت پھیل چکی تھی اور انگریزی علوم کا دبدبہ قائم ہو چکا تھا۔ چنانچہ ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ (۱۸۹۳ء) کے ایک ہی سال بعد امداد امام نے ’’کاشف الحقائق‘‘ میں لکھا کہ غزل کو استعارے سے کوئی علاقہ نہیں اورغزل میں کسی قسم کی پیچیدگی نہ ہونا چاہئے، بلکہ بات جتنے سیدھے سادھے ڈھنگ سے کہی جائے اتنا ہی اچھا ہے۔
غزل کی شعریات میں خلط مبحث اس وجہ سے بھی پیداہوا کہ لوگ اس کی بنیادی اصطلاحوں کے معنی بھولنے لگے تھے۔ پھر چند ہی دنوں میں یہ اصطلاحیں بھی بڑی حد تک بھلا دی گئیں۔ امداد امام اثر نے تو غالب کی گردن پر چھری ہی پھیر دی تھی۔ لیکن حالی نے کمال دانش مندی و ذہانت سے شعر کی تعریف اس طرح کی کہ غالب کا نام مکتب شعر سے خارج ہونے سے رہ گیا۔ ’’یادگار غالب‘‘ (۱۸۹۷ء) میں انھوں نے مزید عملی تنقید اس طرح کی کہ غالب پر ’’سادگی، اصلیت اور جوش‘‘ والے نظریے کی ضرب نہ پڑی۔ اس طرح غالب کی عظمت و شہرت تو بڑھ گئی لیکن ہماری قدیم اصطلاحوں کے حوالے سے نہیں، مولانا حالی اور مغربی ادب کے حوالے سے۔ ایسی صورت میں یہ بات چنداں حیرت انگیز نہیں کہ بہت کم لوگوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ غالب رعایت لفظی کے بادشاہ ہیں اور ان کی مضمون آفرینی اکثر رعایت ومناسبت کی مرہون منت ہے۔
بہت ہی کم لوگوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ غالب سے بڑھ کر رعایت لفظی کا دلدادہ اگر کوئی غزل گو ہے تو وہ خدائے سخن میر تقی میر ہیں۔ اور اس بات کا احساس تو شاید ہی کسی کو ہوا ہو کہ میر اور غالب دونوں مضمون آفرینی اور معنی آفرینی پر یکساں دست رس رکھتے ہیں۔ ہوا صرف یہ کہ میر کا جو پیکر ہماری تنقید میں بنا وہ ایک جذبات انگیز، ’’دانش اور عقلیت‘‘ سے کم وبیش عاری، لیکن ’’سچے‘‘ شاعر کا تھا، ایسا شاعر جو ’’لفظی بازی گری، صنائع بدائع‘‘ وغیرہ تو جانتا ہی نہ تھا۔ لوگوں نے کہاکہ ظاہر ہے کہ جو شاعر اپنے دل کا حال رو رو کر سنا رہا ہو اس کو عقلی اور لفظی باریکیوں سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اور غالب کا جو پیکر ہمارے یہاں بنا وہ ایک دانش مند، مفکر، سربلند اور حساس شخص کا تھا، ایسا شخص جو میر کی طرح روتا گاتا نہیں بلکہ بڑے حاکمانہ اور تحکمانہ لہجے میں زندگی اور کائنات کے بارے میں بڑے بڑے فیصلے صادر کرتا ہے۔
مغربی ادبی معیاروں کی کچی پکی تقلید کی اس ریل پیل میں لوگ یہ بھی بھول گئے کہ میر کے یہاں زبردست حس مزاح ہے (کیونکہ مزاح کا غزل سے کیا تعلق؟) لوگ یہ بھی بھول گئے کہ غالب کے یہاں بے حد رعایت لفظی ہے (کیونکہ میر کے یہاں تو ’’آہ‘‘ ہے اور غالب کے یہاں ’’مشکل پسندی۔‘‘) لوگ یہ بھی بھول گئے کہ ذوق کا بہت سا کلام ایسا ہے کہ اگر اسے ناسخ کے دیوان میں ڈال دیا جائے تو کوئی فرق نہ کر سکےگا اور غالب نے ناسخ کی زمینوں میں کئی غزلیں کہی ہیں، لہٰذا غالب اور میر کو الگ الگ طرح کا شاعر فرض کیا گیا۔ ذوق کو محاورہ، سلاست اور روانی کا بادشاہ کہا گیا لیکن ناسخ کڈھب، بے کیف اور ناشاعر ٹھہرے۔
اصطلاحات کے گم ہونے کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ داستان امیر حمزہ کی ایک داستان ’’گلستان باختر‘‘ (۱۹۰۹ء) جو اس زمانے کی تہذیب کی زندہ تصویر ہے، اس میں راوی ضامن علی جلال کے کلام کو کیفیت سے پر بتاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جلال کی تمام تر کوشش مضمون آفرینی پر مرکوز تھی۔ وہ غالب کی طرح پیچیدہ گو اور فارسیت پرست نہ تھے، لیکن نئے نئے مضامین کی تلاش کو اصل شاعری قرار دیتے تھے۔ مثال کے طور پر جلال کے چند شعر ملاحظہ ہوں،
میں نے اٹھا کے جور ترے منہ سے اف نہ کی
خود گر پڑے ے فلک تو مرا اختیار کیا
اپنے گلے کا ہار جو وہ گل اتار دے
تربت پہ اپنی چڑھ کے یہ بیلابہار دے
کہتا ہے دل کہ ذکر تو ہوتا ہے پیش یار
اک دن ملوگے ہاتھ کہ غماز کیا ہوئے
کیا طرف داروں میں یہ درد جگر کے ہو گیا
دل کو پاتے تھے جدھر پہلے ادھر پاتے نہیں
نہ بھٹکے پھر دل سودا زدہ کبھی اپنا
کرے جو کوچہ کا کل کی رہبری چوٹی
طرفہ دکھلاتے ہیں سیر اس کی گلی میں دونوں پاؤں
سو تو جاتے ہیں بہم لیکن بہم اٹھتے نہیں
دل کو تعزیر نہ دو قتل کرو تم مجھ کو
حال دشمن پہ بھی آتا ہے ترحم مجھ کو
مستعد نیش زنی پر رگ جاں ہجر میں ہے
سانس کہتی ہے کہ سمجھے رہو کژ دم مجھ کو
زال دنیا سے جو ہیں طالب زر مرد نہیں
مال عورت کا نہ لیتے جو حمیت ہوتی
بھونا جو مرغ دل کو حرارت نے عشق کی
سوز حسد سے جل کے سمندر ہوا کباب
کیسی بہار میں ہے سیہ مست عندلیب
بوتل کا میکشوں کی مگر کاگ ہو گئی
یا رب اس سے عدو ہے ہم بستر
ڈال دے جان شیر قالی میں
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جلال کے یہاں غالب کی سی فارسیت نہیں ہے لیکن ان کا کلام بھی مضمون آفرینی ہی پر مبنی ہے۔ آخری شعر پر تو غالب بھی وجد کرتے۔ اسے ’’میٹھی سچی سادہ اردو غزل گوئی‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ غالب اور ناسخ کی غزلوں پر جلال نے متعدد غزلیں کہی ہیں، میر کی زمینوں میں کم کم۔ لیکن چونکہ ان کے کلام میں اصغر علی خاں نسیم جیسی عقلیت کوشی نہیں تھی اور غالب جیسی فارسیت بھی نہ تھی، اس لیے ضامن علی جلال کو کیفیت کا شاعر سمجھ لیا گیا۔ مزید ثبوت درکار ہو تو جلال کے شاگرد امید امیٹھوی کا بیان پڑھیے جہاں وہ لکھتے ہیں کہ میں تو فارسیت کی بنا پر نئی ترکیبیں استعمال کرنے کا خوگر تھا اور حضرت جلال ’’وہی میٹھی پھیکی سیدھی سادی اردو غزل گوئی کے دل دادہ تھے۔‘‘
لہٰذا جلال نے امید صاحب کو متنبہ کیا کہ وہ مرزا نوشہ کی طرح’’جھاڑ جھنکار‘‘ میں نہ چلیں۔ اس کے چند ہی دنوں بعد حسرت موہانی نے اپنے رسالے ’’اردوئے معلی‘‘ کے ذریعہ اس رنگ سخن کو عام کرنے کی کوشش کی جو ان کے خیال میں صحیح اردو غزل کا رنگ تھا۔ انھوں نے حالی پر بھی شدید اعتراضات کیے، لہٰذا سب لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ یہ شخص انگریزی یابدیسی خیالات کا آدمی نہیں ہے، بلکہ پکا کلاسیکی ہے۔ لیکن حسرت بھی مغربی خیالات کے افسوں میں گرفتار تھے، اگرچہ اس کی انھیں خود خبر نہ تھی۔ چنانچہ انھوں نے خوش طبعی، ظرافت، رعایت لفظی، مضمون آفرینی، معنی آفرینی ان سب کو شاعری کی محفل سے نکال باہر کیا۔
حسرت کے اعتبار سے جو چیز شاعری کی جان ہے، اسے قدیم اصطلاح میں شورش اور کیفیت کا کچھ ہلکا درجہ کہہ سکتے ہیں لیکن حسرت شاید ان اصطلاحوں سے بے خبر تھے یا انھیں قابل اعتنا نہ سمجھتے تھے۔ اب جو اصطلاحیں مرغوب و مقبول ٹھہریں، وہ تھیں ’’جذبے کی صداقت‘‘، ’’گہرائی‘‘، ’’تڑپ‘‘، ’’سوزوگداز‘‘، ’’خیال کی بلندی‘‘، ’’نزاکت‘‘، ’’لہجے کی نرمی‘‘، ’’گھلاوٹ‘‘ ’’علوتخیل‘‘ وغیرہ۔ کیا بہ لحاظ تصور اور کیا بہ لحاظ نوع، یہ اصطلاحات واضح نہیں تھیں، بلکہ اکثر تو بے معنی تھیں۔ لیکن اس زمانے میں یہی مقبول ٹھہریں۔ پرانی اصطلاحیں تو فیشن سے باہر تھیں اور بھلائی بھی جا چکی تھیں۔ نئی اصطلاحوں کے بارے میں گمان تھا کہ یہ مغربی مفکروں اور مشرقی تصورات دونوں سے مستفید ہیں، لہٰذا ان کا دور دورہ دور تک پھیلا، اور اب بھی بڑی حد تک باقی ہے۔ مسعود حسن رضوی ادیب کی ’’ہماری شاعری‘‘ (اول طباعت ۱۹۲۶ء) اس صورت حال کو پوری طرح واضح کرتی ہے۔
بیسویں صدی کی چوتھائی کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب فراق صاحب کی شاعری لوگوں کی نظروں میں آنے لگی تھی۔ اس وقت غزل کے جتنے شاعر اہم تھے، ان سب کو کسی نہ کسی نوع میں ڈال دینا آسان تھا۔ ناموں سے آپ خود واقف ہیں۔ شاد، ریاض، جگر، حسرت، فانی، اصغر، یگانہ، عزیز لکھنوی، ان سب کو اس زمانے کے مروج خانوں میں ڈال دیا گیا۔ لیکن فراق صاحب کے کلام میں جو بات تھی، اس کے لیے دو اصطلاحیں جو حالی، امداد امام اثر، حسرت اور مسعود حسن رضوی ادیب کے زیر اثر واضح ہوئی تھیں، ناکافی تھیں۔ لوگ غزل کی بعض بنیادی صفات کو اس حد تک بھول چکے تھے کہ حسرت موہانی کو غزل کے احیا کا امام فرض کر لیا گیا اور جگر کے کلام میں سرمستی اور سرشاری اور رنگینی وغیرہ دریافت کر لی گئیں۔
فراق صاحب اور جو کچھ رہے ہوں یا نہ رہے ہوں لیکن وہ کلاسیکی غزل کے ہی دائرے میں تھے۔ یگانہ اس سے کچھ باہر تھے لیکن ان کی شاعری کو بیان کرنا آسان تھا۔ کلاسیکی غزل کی اصطلاحیں ہم بھول چکے تھے، اس لیے فراق صاحب کے بارے میں ان کے مضمون مطبوعہ ۱۹۳۷ء میں جس طرح کے مغالطے ہیں، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی تصورات اور اصطلاحات سے بے خبری اور کلاسیکی شاعری کی وسعتوں سے ناواقفیت، کلاسیکی اصناف کے نمونوں کی کامیاب تنقید میں کس طرح حارج ہوتی ہے۔ یہ اور بات تھی کہ فراق جیسا معمولی شاعر ہمارے نقادوں کے لیے چنوتی بن گیا۔ لیکن یہ ہمارا المیہ ہے، فراق صاحب کا نہیں۔
فراق کے کلام کی وہ صفت جس کی بنا پر میں اسے اس زمانے کے نقادوں کے لیے چنوتی سمجھتا ہوں، وہی ’’کیفیت‘‘ ہے، جس کا ذکر میں نے کیاہے۔ نیاز فتح پوری نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا۔ انھیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ معاصر شعرا کے یہاں ’’کیفیت‘‘ شاذ ہے۔ لیکن کلاسیکی تصورات سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے (یا کسی اور وجہ سے) وہ اس نکتے کو نظرانداز کر گئے کہ ’’کیفیت‘‘ کا تعلق اسلوب سے نہیں۔ مختلف اسلوب رکھنے والے شاعروں کے یہاں کیفیت کا عنصر مشترک ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میر کا اسلوب شاہ حاتم کے اسلوب سے مختلف ہے لیکن کیفیت کے شعر دونوں کے یہاں مل جاتے ہیں۔
کیفیت شعر کی وہ قوت ہے جو آپ کو جذبات کی سطح پر متاثر کرتی ہے اور جو اکثر وبیشتر آپ کو شعر کے معنی کی تفتیش سے کم از کم فوری طور پر باز رکھتی ہے۔ دوسری گڑبڑ نیاز صاحب سے یہ ہوئی کہ انھوں نے فراق صاحب کے یہاں معنی آفرینی بھی فرض کر لی۔ ’’کیفیت‘‘ اور ’’معنی آفرینی‘‘ ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ لیکن ’’کیفیت‘‘ اور ’’معنی آفرینی‘‘ مشکل ہی سے یکجا ہوتی ہیں۔ ان کا امتزاج فراق کے کن شعروں میں ہے اور کس طرح سے ہے، نیاز صاحب نے یہ سوال چھیڑا ہی نہیں۔
اردو کے سب سے بڑے معنی آفریں شاعر یعنی غالب کے یہاں کیفیت بہت کم ہے۔ مومن کو بھی معنی آفریں یا کم سے کم نازک خیال کہہ سکتے ہیں۔ ان کے یہاں بھی کیفیت کے شعر خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ لیکن نیاز صاحب نے فراق کو ’’بہ لحاظ انداز بیان‘‘ مومن اسکول کا شاعر قرار دیاہے۔ مزید یہ کہ چونکہ نیاز صاحب یہ بھول گئے کہ کیفیت کا تعلق اسلوب سے نہیں ہے، اس لیے وہ اس نکتے کو بھی نظرانداز کر گئے کہ اگر فراق کا اپنا رنگ نہیں ہے تو اس وجہ سے کہ فراق صاحب کیفیت کے دلدادہ ہیں اور کیفیت کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ نیاز فتح پوری نے یہ تو لکھا کہ ’’اگر ہم اس وقت معلوم کرنا چاہیں کہ فراق کا اصل رنگ کیا ہے تو ہم کسی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔‘‘ لیکن اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’ذہین اور بے قرار طبیعت رکھنے والے شاعروں کو اکثر و بیشتر اسی نیرنگی میں مبتلا پایا گیا ہے۔‘‘
اب اس عارفانہ بیان اور خاص کر ’’اکثر و بیشتر‘‘ کااس نیرنگی ’’میں مبتلا پایا جانا‘‘ (گویا یہ ’’نیرنگی‘‘ کوئی علت یا بیماری ہے جس میں لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔) اردو کے تمام صاحب اسلوب غزل گویوں کو غبی اور غیرذہین ثابت کردے تو نیاز صاحب کی بلا سے۔ ان کو تو اپنے ممدوح کی ثنا کرنی تھی، سو انھوں نے اپنا فرض ادا کردیا۔ یہ ضرور ہے کہ نیاز صاحب اگر ’’کیفیت‘‘ اور ’’معنی آفرینی‘‘ کے نکات سے پوری طرح آگاہ ہوتے تو ایسا نہ کرتے کہ اپنے ممدوح کو بہ یک وقت اسلوب سے عاری لیکن مومن کے رنگ کی کیفیت کا حامل، لیکن معنی آفریں شاعر بتاتے۔
اوپر میں نے نیاز صاحب کے حوالے ان کے ۱۹۳۷ء والے مضمون سے دیے ہیں۔ ۱۹۴۱ء میں انھوں نے ’’نگار‘‘ کا جدید غزل گو نمبر نکالا اور اس میں فراق صاحب کے بارے میں معنی آفرینی کا حکم حذف کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ’’فراق کی شاعری پختگی سے سے قبل ہی ایک ایسی حلاوت اپنے اندر رکھتی ہے کہ ہمیں اس کی پختگی کی طرف سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ گذشتہ مضمون میں تو انھوں نے فرمایا تھا کہ ’’فراق کے یہاں معنی آفرینی کے ساتھ کیفیت وحلاوت کی بھی کمی نہیں۔‘‘ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا تھا کہ وہ ’’کیفیت‘‘ اور’’حلاوت‘‘ کو ایک ہی شے سمجھتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ پر خود ایک غلط فہمی ہے لیکن مندرجہ بالا اقتباس میں زبان کی لغزشوں کے علاوہ جو چیز لائق توجہ ہے، وہ یہ کہ اب نیاز صاحب ’’معنی آفرینی‘‘ کا ذکر نہیں کرتے۔ اب بھی موقعہ تھا کہ وہ فراق صاحب کی بنیادی خصوصیت (یعنی ’’کیفیت‘‘) کا مفصل ذکر کرتے لیکن کلاسیکی غزل کی اصطلاحوں کے معنی سے عدم واقفیت کا برا ہو کہ نیاز صاحب ایسا نہ کر سکے۔
بہرحال، فراق صاحب کی غزل میں ’’کیفیت‘‘ کا عنصر نمایاں ہے۔ یہ ان دو عناصر میں سے ایک ہے جو فراق کی غزل کو معاصر غزل گویوں سے الگ کرتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر فراق صاحب کے بہت سے شعر زبان و بیان کے اغلاط، بلکہ بھونڈے پن کے باوجود اس قدر مقبول ہوئے۔ اغلاط اور بھونڈے پن سے صرف نظر بھی کر لیجیے تو فراق صاحب کے یہاں اس چیز کی کثرت ہے جسے ن۔ م۔ راشد نے فراق صاحب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے Cliche کہا ہے۔
گھسے پٹے الفاظ، ایسے الفاظ جن کی استعاراتی قوت ختم ہو چکی ہے، فراق صاحب کے یہاں بکثرت ہیں۔ نگاہ ناز، بزم ناز، رنگ وبو، اہل غم، سود وزیاں، کاروبار الفت، جمال، جلوۂ حسن، جلوہ گاہ ناز، شام غم، منزل عشق، سکوت، یاس، افسانہ، بہار، کائنات، اے دوست، تمنا، ترک محبت، رات، کوئے جاناں، لب جاناں، حسن جاناں، زمان ومکاں، درد نہاں، درد ہجر وغیرہ قسم کے الفاظ و تراکیب کی ان کے یہاں بھرمار ہے۔ اس سب کے باوجود یہ کیفیت ہی ہے جو فراق صاحب کے شعروں کو الفاظ کی اس تنگ آب جو میں غرق ہونے سے کبھی کبھی محفوظ رکھتی ہے۔ اب میں کیفیت کی کارفرمائی کے نمونے کے طور پر فراق صاحب کے چند نسبتاً غیرمعروف اشعار پیش کرتا ہوں،
جو تیرے گیسوئے پر خم سے کھیل بھی نہ سکیں
ان انگلیوں سے ستاروں کو چھیڑ سکتا ہوں
میں آسمان محبت پہ رخصت شب ہوں
ترا خیال کوئی ڈوبتا ستارہ ہے
گلوں کی جلوہ گاہ ناز میں نہ ڈھونڈ اب مجھے
میں نقش تھا مٹا دیا چراغ تھا بجھادیا
ہمیں ہیں غنچۂ وگل بھی ہمیں ہوائے چمن
فراق خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں
جام دل کی تہہ میں موج خوں سی آکر رہ گئی
اپنی قسمت میں کوئی چھلکا ہوا ساغر کہاں
نثار دیدۂ بے خواب جاگنے کی طرح
جو جاگ بھی نہ سکے اس کو نیند کیا آئے
ان سب اشعار میں زبان وبیان کی غلطیاں اور اسلوب کی خامیاں ہیں لیکن کیفیت کا جادو ایسا ہے کہ سر چڑھ کے بولتا ہے۔ افسوس ہے کہ مشاعروں کے سامعین کی طرح ہمارے نقادوں نے بھی یہ بات بھلا دی کہ خالی خولی کیفیت بڑی شاعری کی ضامن نہیں ہو سکتی۔ خیر، پھر بھی یہ اشعار ایک نظر میں متاثر تو کرتے ہیں۔ جب کیفیت مفقود ہو تو فراق صاحب کا انداز اور خام کارانہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ ہوں،
سچ ہے ٹھنڈا کون کرے تیرے سوا گرمائے کون
جلتے جلتے اشکوں کو بھیگی بھیگی راتوں کو
شورش کائنات ہے خاموش
موت ہے زندگی کے دوش بدوش
آ نہ گئی آنہ گئی تیری یاد
چھا نہ گئیں چھا نہ گئیں بدلیاں
پار کیا پار کیا بحر عشق
ڈوب چلیں ڈوب چلیں کشتیاں
لب جاناں ہیں پھر تبسم ریز
ہو گئی نبض کائنات بھی تیز
ہو گئی کائنات رنگارنگ
وہ گلابی نظر نے چھلکائی
جاتی بہاریں آتی بہاریں
دونوں کا حاصل دیدۂ پرنم
محبت میں مری تنہائیوں کے ہیں کئی عنواں
ترا آنا ترا ملنا ترا اٹھنا ترا جانا
ان میں سے بعض اشعار کی بندش تو تک بندی سے ہم آہنگ ہو گئی ہے۔ لیکن فراق کی غزل کی دوسری صفت، جس نے ہمارے دانشوروں کو متاثر کیا اور صحیح متاثر کیا، اس کے عاشق کا انفرادیت پرست کردار ہے۔ اس حقیقت کو سب سے پہلے محمد حسن عسکری نے محسوس کیا تھا۔ عسکری صاحب نے ’’فراق کی شاعری میں عاشق کا کردار‘‘ کے عنوان سے ایک پورا مضمون لکھا (ساقی دہلی، مارچ ۱۹۴۶ء) اس میں انھوں نے کہا، ’’فراق صاحب نے اردو شاعری کو اایک بالکل نیا عاشق دیا ہے اور اسی طرح بالکل نیا معشوق بھی۔ اس نئے عاشق کی ایک بڑی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر ایک ایسا وقار پایا جاتا ہے جو اردو شاعری میں پہلے نظر نہیں آتا۔‘‘
عسکری کی یہ بات بالکل صحیح تھی کہ فراق صاحب کی غزل میں عاشق کا کردار، کلاسیکی، رسومیاتی عاشق کے کردار سے مختلف ہے، لیکن ان کا یہ کہنا صحیح نہیں تھا کہ اس عاشق میں ایک ایسا وقار ہے جو اردو شاعری میں پہلے نظر نہیں آتا۔ فراق صاحب کی غزل میں عاشق کا جو پیکر ہے، اس کے پیش رو میر ہیں۔ اور وقار اس کی بنیادی صفت نہیں بلکہ وقار اس میں بہت کم ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ میر اور کہیں کہیں قائم چاند پوری کے علاوہ فراق کے تمام پیش روؤں میں عاشق کا کردار اس رسومیاتی چوکھٹے میں محدود ہے جس کا خاکہ حالی نے ’’مقدمہ‘‘ میں بڑے لطف سے اڑایا ہے۔ میر اور غالب دو تنہا شاعر ہیں جن کے یہاں عاشق کے کردار میں انفرادیت پرستی نظر آتی ہے۔ میر نے عاشق کے رسومیاتی کردار کو اس طرح بیان کیا ہے گویا عاشق محض لفظی رسومیات کا مجموعہ نہ ہو بلکہ واقعی کوئی شخص ہو۔ اس نکتے کو میں اپنے دیباچۂ شرح میر میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔
میر کے عاشق کی انفرادیت پرستی کا نتیجہ یہ ہے کہ اگرچہ اس میں وہ سب صفات ہیں جو رسومیاتی عاشق میں ہوتی ہیں لیکن ہم اس سے انسان کی سطح پر دوچار ہوتے ہیں۔ تصور اور سوم کی سطح پر نہیں۔ گریہ وزاری ہو یا وحشت و آوارگی، جسم وجان کا ضیاع ہو یا وفاداری اور ثابت قدمی، میر کے عاشق میں وہ تمام باتیں ہیں جو غزل کے روایتی عاشق کا خاصہ ہیں۔ لیکن وہ عاشق کبھی براہ راست ہم سے مخاطب ہوتا ہے، کبھی ہم اس کے بارے میں اوروں سے سنتے ہیں، کبھی ہم دو یا دو سے زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے سنتے ہیں۔ کبھی وہ معشوق سے مخاطب ہوکر ہم لوگوں پر اپنے کردار کو واضح کرتا ہے۔ کبھی کوئی اور شخص اس کے بارے میں معشوق سے گفتگو کرتا ہے۔ وہ پس ماندہ اور پیش پا افتادہ ہے لیکن موقع پڑنے پر معشوق کوگالی بھی دے دیتا ہے یا اس سے اکڑ بھی جاتا ہے۔ وہ باوفا بھی ہے اور ہوس پرست بھی۔ وہ انتہائی پیچیدہ شخصیت کا حامل ہے۔
اس طرح کی سیکڑوں باتیں ہیں جن کی بنا پر میر کا عاشق غزل کار سومیاتی عاشق نہیں بلکہ ہماری آپ کی دنیا کا کوئی انسان معلوم ہوتا ہے۔ میر نے اپنے عاشق کے کردار کے ذریعہ خود اپنی انفرادیت پرستی ظاہر کی ہے۔ یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں،
جگر چاکی ناکامی دنیا ہے آخر
نہیں آئے جو میر کچھ کام ہوگا
تم کہتے ہو بوسہ طلب تھے شاید شوخی کرتے ہوں
میر تو چپ تصویر سے تھے یہ بات انھوں سے عجب سی ہے
سنا جاتاہے اے گھتیے ترے مجلس نشینوں سے
کہ تو دارو پیے ہے رات کو مل کر کمینوں سے
کہتا تھا کسی سے کچھ تکتا تھا کسی کا منہ
کل میر کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دوانا تھا
وصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا
جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے
کشتے کے اس کے خاک ملے جسم زار کا
خالی نہیں ہیں لطف سے لوہو کی دھاریاں
خوش نہ آئی تمھاری چال ہمیں
یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں
دل میں رہ دل میں کہ معمار قضا سے اب تک
ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
الاکھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں
اتنا کہا نہ ہم سے تم نے کبھو کہ آؤ
کاہے کو یوں کھڑے ہو وحشی سے بیٹھ جاؤ
میر کے بعد غالب ہمارے دوسرے بڑے انفرادیت پرست تھے۔ لیکن انھوں نے اپنی انفرادیت پرستی اس طرح ظاہر کی کہ ان کا عاشق غزل کے رسومیاتی عاشق کی منتہائے کمال پر ہے۔ روایتی عاشق کے کردار کی ہر وہ چیز جس کا حالی نے ذکر کیا ہے، اس کی اعلیٰ ترین یا شدید ترین شکل اولین یعنی Archetype غالب کے یہاں موجود ہے۔ عاشق کی ذلت ہو یاعلو ہمتی، اس کی دیوانگی ہو یا خود داری، اس کی رندی ہو یا درویشی، رشک ہو یا وفاداری، ان سب کا شدید ترین بیان غالب کے یہاں ہے۔ لیکن غالب کا عاشق میر کے عاشق کی طرح اصلی انسان یعنی کوئی شخصیت نہیں معلوم ہوتا۔ وہ تصور اور رسوم کی حدود سے بہت کم باہر نکلتا ہے۔
فراق صاحب کے یہاں عاشق کی ایک شخصیت ہے۔ وہ رسومیاتی عاشق تو ہے ہی، لیکن وہ اپنی بھی ایک حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیاز سے لے کر اسلوب احمد انصاری تک سب نے فراق کی اس صفت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فراق کے یہاں زندگی اور محبت کے نئے نئے نکات کا بیان ملتا ہے۔ یہ بزرگان علم وادب اگر غزل کی رسومیات سے کما حقہ واقف ہوتے تو انھیں یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوتی کہ وہ چیز جسے وہ زندگی اور آگاہی کے نئے نئے نکات کہہ رہے ہیں، دراصل فراق کی غزل میں عاشق کی انفرادیت پرستی کی بنا پر ہے۔
فراق نے یہ انفرادیت پرستی میر سے نہیں حاصل کی، کم سے کم براہ راست نہیں حاصل کی۔ اگر ایسا ہوتا تو میر کی نمایاں ترین صفت یعنی شاعر (متکلم) کے علاوہ دوسرے لوگوں کی گفتگو کے ذریعہ عاشق کا کردار واضح کرنا، یہ صفت فراق کے یہاں بھی ہوتی۔ کلیم الدین احمد اور آل احمد سرور نے فراق کی علمیت اور مغربی ادب سے ان کی واقفیت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ مغربی ادب کے اس مطالعہ کے پرتو فراق کے کلام میں ملتے ہیں۔ لیکن مغربی ادب سے فراق نے سب سے اہم چیز جو حاصل کی وہ یہی انفرادیت پرستی تھی۔
فراق نے انگریزی تعلیم اس زمانے میں حاصل کی جب ہمارے ملک کی انگریزی تعلیم اور ہمارے مغربی حکمرانوں کے طرز فکر میں پروٹسٹنٹ اخلاقیات Protestant Ethic کی کارفرمائی تھی۔ پروسٹسٹنٹ Protestant نظریے کا بنیادی اصول انفرادیت پرستی ہے۔ یعنی کوئی بھی شخص اتنا کمتر نہیں کہ وہ انجیل مقدس اور حقائق حیات کا مطالعہ از خود نہ کر سکے اور کوئی حقیقت ایسی نہیں جس تک فرد کی رسائی نہ ہو سکے اور ہر شخص کو حق ہے کہ وہ عرفان حق کو اپنے طور پر حاصل کرے۔ پھر فراق صاحب نے جن انگریزی شاعروں کا اثر سب سے زیادہ قبول کیا ان میں رومانی شاعر سرفہرست ہیں اور رومانی شاعروں میں بھی ورڈ زور تھ، جس کا قول تھا،
My Theme is
No other than the Heart of Man
اسی طرح فراق صاحب نے دوسرے مشہور اور انفرادیت پرست شاعر ولیم بلیک (William Black) کی ایک مشہور نظم کا تقریباً ترجمہ ہی اپنی نظم ’’جگنو‘‘ میں کر دیا ہے۔ جہاں بلیک کہتا ہے کہ تم ازل وابد کو اپنی ہتھیلی میں اٹھا سکتے ہو۔ پروٹسٹنٹ اخلاقیات پر رومانی بلند کوشی کی چھوٹ پڑے تو لامحالہ شدید انفرادیت پرستی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فراق صاحب کی غزل میں عاشق کا کردار رسومیاتی اور روایتی عاشق سے مختلف ہے۔ یہ چند مشہور اشعار ملاحظہ ہوں،
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
تو نے تو خیر بےوفائی کی
آج تو درد ہجر بھی کم ہے
آج تو کوئی آیا ہوتا
میں گریباں پکڑ کے یوں روؤں
اے جنوں تیرا اعتبار نہیں
لے حسن ومحبت کے وہ ایام بھی آئے
کچھ کم ہے ترا لطف بھی کچھ درد نہاں بھی
اہل غم کو تیرا پیمان وفا
یاد تو کیاہے مگر بھولا نہیں
تجھ کو پا کر بھی نہ کم ہو سکی بے تابی دل
اتنا آسان ترے عشق کا غم تھا بھی کہاں
یاد ہے چشم کرم کا وہ بدلنا یاد ہے
حسن افسردہ سا تھا اور عشق کو حیرت نہ تھی
زندگی کو بھی منہ دکھانا ہے
رو چکے تیرے اشکبار بہت
وہ نہ آئیں گے تو فراق ہمیں
کام ہی کیا ہے انتظار کریں
بتائیں کیا دل مضطر اداس کتنا تھا
کہ آج تو نگہ ناز نے بھی سمجھایا
ان اشعار میں بعض باتیں میر سے مستعار ہیں اور اکثر اشعار میں زبان و اظہار کی خامیاں تکلیف دہ حد تک نمایاں ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ ان اشعار کا متکلم اپنی شخصیت رکھتا ہے۔ اب ان دو چھوٹی موٹی باتوں کے بل بوتے پر آپ چاہیں تو فراق صاحب کوغزل کا شہنشاہ اعظم مان لیں۔ جو پنچوں کی رائے وہ میری بھی۔
نوٹ
زیر نظر مضمون کی اشاعت کے بعد ’’نیا دور‘‘ کراچی میں شمیم احمد مرحوم (برادر سلیم احمد مرحوم) کا ایک گالیوں بھرا مضمون بھی شائع ہوا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ فاروقی کو نثر لکھنا نہیں آتی۔ ان کی تنقیدی نظر غیرمعتبر اور ان کا ذہن کند ہے۔ کچھ دن بعد احمد ندیم قاسمی مرحوم نے اپنے کالم میں لکھا کہ فاروقی صاحب نے فراق کی حیات میں خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور اب جب فراق صاحب نہیں ہیں تو ان میں عیب نکال رہے ہیں۔ فاروقی نے اس کا جواب تو نہ لکھا لیکن بعد میں قاسمی صاحب کی خدمت میں عرض ضرور کر دیا کہ میں نے فراق صاحب کی زندگی میں بھی ان پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ شمیم احمد (وہ بھی مدت ہوئی مرحوم ہو گئے) کو انھوں نے ذاتی جواب کے بھی لائق نہ گردانا تھا۔
یہ مضمون الہ آباد میں انجمن تہذیب نو کے زیراہتمام فراق صاحب کی یاد میں منعقد ایک سمینار میں پڑھا گیا تھا۔ یہ جلسہ ۱۹۸۵ء میں منعقد ہوا تھا۔ علی احمد فاطمی اس سیمینار کے مہتمم تھے۔ فراق صاحب کے مداح اور پرستار بڑی تعداد میں موجود تھے۔ یہاں اس کی اشاعت کے پہلے فاروقی صاحب نے اس پر کچھ واجبی نظر ثانی کی ہے۔ (مرتب)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.