اردو غزل کی روایت اور اقبال
اقبال کی غزل کا مطالعہ اگر اصناف سخن کی قسمیات (Typology) کے نقطۂ نظر سے کیا جائے تو ہم بعض ایسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جو ہمیں کسی دوسرے اردو شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ تقریباً ہر صنف سخن اپنی جگہ پر بے مثال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر قماش (Pattern) کا حصہ ہوتی ہے اور اس لیے کسی بھی صنف سخن کی ایسی تعریف ممکن نہیں جو ہر طرح سے جامع اور مانع ہو۔ لیکن غزل کے ساتھ یہ صورت حال کچھ زیادہ شدید ہے۔
اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک کا تعلق غزل کی روایت سے ہے اور ایک کا غزل کی تنقید سے۔ اول تو یہ کہ غزل میں ہمارے یہاں شروع ہی سے ہر طرح کا مضمون بیان ہوتا رہا اور دوسری یہ کہ عام طور پر ہم غزل کا تصور جریدہ اشعار کے حوالے کرتے ہیں۔ پوری پوری غزلوں کا تصور ہمارے ذہن میں شاذ ونادر ہی ہوتا ہے۔ یہ دو وجہیں آپس میں متضاد ہیں۔ اس معنی میں کہ ایک طرف تو غزل کے مضامین لامحدود ہیں، لہٰذا کوئی بھی شعر غزل کا شعر ہو سکتا ہے اور دوسری طرف ہم تنہا اشعار کی روشنی میں غزل کا مزاج متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ غالب کا مطلع ہے،
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
چرخ وا کرتا ہے ماہ نو سے آغوش وداع
اس کے بارے میں طباطبائی نے لکھا ہے کہ اس شعر میں غزلیت کچھ نہیں، قصیدے کا مطلع تو ہو سکتا ہے۔ طباطبائی کے اس فیصلے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس شعر کا خیال بہت دقیق ہے۔ لیکن اس میں کوئی لطف نہیں یعنی شعر کی بنیاد جس منطق پر ہے وہ شاعرانہ نہیں۔ لیکن اگر ایسا ہے تو خود غالب نے اپنے ایک شعر کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں خیال تو ہے بہت دقیق، لیکن لطف کچھ نہیں، یعنی کوہ کندن وکاہ برآوردن۔ طباطبائی نے اس کے بارے میں کیوں نہیں کہا کہ اس شعر میں غزلیت نہیں ہے اور یہ قصیدے کا مطلع ہو سکتا ہے،
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خط جام مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
ممکن ہے طباطبائی نے مندرجہ بالا شعر کو اس لیے قابل اعتراض نہ سمجھا ہو کہ اس میں مےخواری اور حیرت کے مضمون ہیں اور یہ مضامین غزل کے رسمی دائرے میں داخل ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر مندرجہ ذیل شعر کو بھی غزل کا نہیں بلکہ قصیدے کا مطلع سمجھنا چاہیے، کیونکہ اس کی بلند آہنگی اور تقریباً جارحانہ عدم انفعالیت اور تحکمانہ انداز (یعنی ایسی صورت حال جس میں انسان مجبور و محکوم ہونے کے بجائے کائنات پر حاوی نظر آئے) یہ سب چیزیں غزل کے رسمی دائرۂ مضامین سے خارج کہی جا سکتی ہیں۔ شعر یہ ہے،
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
کلام غالب سے بے تکلف حاصل کی ہوئی ان مثالوں کو یہ کہہ کر مسترد کیا جا سکتا ہے کہ غالب خود ہی اردو غزل کی روایت کے باہر ہیں۔ طباطبائی کے فکری تضادات جو بھی ہوں، لیکن ان تضادات کو غالب کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ غالب کو اردو غزل کی روایت سے باہر قرار دینا کوئی نئی بات نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اب بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اسے تسلیم کریں گے۔ آج کے انتہائی قدامت پرست شخص کی طرف سے بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب کی غزل میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اردو غزل کی روایت میں موجود نہ تھیں۔ اب غالب نے ان کو غزل میں استعمال کر لیا تو وہ باتیں بھی غزل کی روایت کا حصہ بن گئیں۔
لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ اب اکثر لوگ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ غزل کے مضامین لامحدود ہیں اور اگر ایسا ہے تو اس کے دو معنی ہیں۔ اول تو یہ کہ غزل میں ہر طرح کا مضمون استعمال ہو سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ غزل میں ہر طرح کا مضمون استعمال ہو چکا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ غالب کے مندرجہ بالا اشعار غزل کی روایت میں شامل نہیں ہیں اوریہ کہنا بھی غلط ہے کہ اگرچہ وہ مضامین جن پر ان اشعار کی اساس ہے، وہ غزل کی روایت میں شامل نہیں تھے، لیکن اب جب غالب نے ان کو استعمال کر لیا تو پھر یہ غزل کی روایت حصہ بن گئے۔
تو کیا پھر غزل کی روایت کوئی ماروائی وجود رکھتی ہے؟ یعنی کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے کسی نے خلق نہیں کیا یا جو غزل کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھی؟ میرا خیال ہے کہ اردو کی حد تک ان سوالوں کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے۔ ہم لوگ جب اردو غزل کی روایت سے بحث کرتے ہیں تو ہماری نگاہ عام طور پر ولی سے آگے نہیں جاتی، حالانکہ قدیم اردو یعنی دکنی میں ولی سے کوئی ڈیڑھ سو برس پہلے سے غزل موجود تھی۔ جب قدیم اردو کے شعرا نے غزل لکھنی شروع کی تو ان کے سامنے فارسی کی روایت تھی اور ہندوستانی ادب کی روایت تھی۔ ان دونوں روایتوں پر وہ ذہن کارفرما ہوا جو بیک وقت ہندوستانی بھی تھا اور غیرہندوستانی بھی۔ اس ذہن کے ذریعہ اور ان روایات کے امتزاج وتصادم کے نتیجے میں جو غزل وجود میں آئی وہ نہ صرف ایرانی غزل سے مختلف ہے بلکہ اپنے زمانے کے ہندوستانی ادب سے بھی مختلف ہے۔
ظاہر ہے جن ذہنوں نے یہ غزل خلق کی ہوگی ان کے سامنے ادب، شاعری اور غزل کے بارے میں واضح یا غیر واضح کچھ تصورات و مفروضات تو رہے ہوں گے اوران ہی کی روشنی میں انھوں نے ایسی غزل خلق کی ہوگی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان غزلوں میں مضامین و موضوعات کے علاوہ تصورات اور رویوں کی بھی فراوانی ہے۔
تصوف، موعظت، عام زندگی پر اظہار رائے، اخلاق ونصیحت، عشق کی خود سپردگی، انسان کی بلندی اور بےچارگی، جنس ولذات جسمانی، ان سب باتوں پر مبنی اشعار کے ساتھ ساتھ عشاق کے کردار میں تنوع، عورت یا امرد کے بجائے مرد کا معشوق ہونا، معشوق کا عاشق کے ناز اٹھانا، یہ سب باتیں موجود ہیں۔ ان غزلوں میں شاعر معلم اخلاق سے لے کر آوارۂ شہر وصحرا اور رسوائے زمانہ تک ہر رنگ میں نظر آتا ہے۔ اردو غزل کی یہ روایت پس منظری علم کی حیثیت سے ہمارے تمام شاعروں کے ساتھ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ’’بانگِ درا‘‘ کے حصۂ غزلیات میں آخری غزل حسب ذیل ہے،
گرچہ تو زندانی اسباب ہے
قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
اے مسلماں ہر گھڑی پیش نظر
آیۂ لا یخلف المیعاد رکھ
یہ لسان العصر کا پیغام ہے
ان وعد اللہ حقٌ یاد رکھ
اگر ان اشعار کی ترتیب حسب ذیل کر دی جائے،
اے مسلماں ہر گھڑی پیش نظر
آیۂ لا یخلف المیعاد رکھ
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
گرچہ تو زندانی اسباب ہے
قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ
یہ لسان العصر کا پیغام ہے
ان وعد اللہ حقٌ یاد رکھ
تو گمان گذر سکتا ہے کہ یہ غزل نہیں، بلکہ قطعہ یا نظم ہے۔ چونکہ پہلے شعر میں مسلمان سے خطاب ہے، لہٰذا آسانی سے فرض کیا جا سکتا ہے کہ بقیہ اشعار کا مخاطب بھی وہی مسلمان ہے اور اس طرح چاروں اشعار میں ربط پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ قطعہ بھی غزل کا حصہ ہو سکتا ہے اور چونکہ قطعہ ایک طرح کی نظم ہوتا ہے لہٰذا اس منظومے کی حد تک نظم وغزل برابر ہیں اور اس لیے مندرجہ بالا اشعار کی بدلی ہوئی ترتیب کے باوجود ہمیں انھیں غزل کہنا ہی پڑےگا، اگر شاعر نے ان پر غزل کا عنوان قائم کیا ہو، جیساکہ اس وقت ہے۔
مسلسل غزل کے وجود سے ہم واقف ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ بھی ہو، لیکن ان اشعار میں غزل کا مزاج نہیں نظر آتا۔ ان کا لہجہ خطابیہ اور موعظانہ ہے۔ لیکن اس طرح ہم پھر اسی چکر میں پھنس جائیں گے کہ اگر غزل کے مضامین لامحدود ہیں تو پھر ان مضامین کو ہم غزل سے خارج کیوں کر کہہ سکتے ہیں؟ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ غزل کے مضامین لامحدود ہوں گے، لیکن غزل کا ایک خاص لہجہ ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس مفروضے کی رو سے غالب کے بھی وہ اشعار غزل سے خارج ہو جاتے ہیں جو میں نے شروع میں نقل کیے ہیں۔ غالب کو جانے دیجئے، خطابیہ اور موعظانہ لہجے کے اشعار متاخرین تک ہر غزل گو کے یہاں مل جائیں گے۔ دو چار شعر جو اس وقت سامنے ہیں، آپ بھی سن لیجئے،
کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
سانپ کو مار کے گنجینۂ زر لیتا ہے
ناگوارا کو جو کرتا ہے گوارا انساں
زہر پی کر مزۂ شیر و شکر لیتا ہے
آتش
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا
ذوق
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
نہنگ واژ دہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
ذوق
کاسۂ چینی پہ اے منعم نہ کر اتنا غرور
ہم نے دیکھا ٹھوکریں کھاتے سرفغفور کو
ناسخ
ناسخ نہ ہو جیو مگس خوان اغنیا
سنتا ہوں یہ سخن لب نان جویں سے میں
ناسخ
کریم وہ بہ تواضع کرم جو کرتے ہیں
ثمر نہڑ ہی کے دے ہے جو پر ثمر ہے شاخ
سودا
آدمی ہے تو بہم آپ میں پہنچا کچھ فضل
ورنہ بدنام نہ کر تو نسب آدم کو
سودا
انیسویں صدی کے آتے آتے ہم لوگوں میں یہ خیال عام ہوا کہ غزل میں موعظانہ اور اخلاقی مضامین کے لیے جگہ نہیں۔ اقبال ہماری قدیم تر روایت سے آگاہ تھے، اس لیے انھیں ایسے مضامین کو باندھنے میں کوئی تکلف نہ تھا۔ غزل میں ’’غیرفاسقانہ‘‘ مضامین کی قدر شکنی کا آغاز حسرت موہانی سے ہوتا ہے۔ حسرت موہانی نے اقبال پر اعتراض کیے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔ لیکن متفرق اشعار کی بنا پر غزل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں وہی قباحت ہے جس کی طرف میں اوپر اشارہ کر چکاہوں۔ اکیلا شعر چاہے وہ کتنا ہی خراب، یا کتنا ہی انوکھا کیوں نہ ہو، پوری غزل نہیں ہوتا۔
اوپر جو اشعار میں نے نقل کیے ہیں ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ غزل میں اس طرح کے اشعار کی گنجائش ہے، لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ غزل ایسے ہی اشعار پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ غزل ایسے اشعار پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ سودا، میر اور انشا کی کئی غزلیں ایسی ہیں جنھیں اینٹی غزل کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔ حامدی کاشمیری نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ہمارے زمانے میں یگانہ نے کئی غزلیں اینٹی غزل کے انداز میں کہی ہیں۔ اخلاقی یا مذہبی مضامین پر مشتمل غزلیں ذوق اور میر اور سودا کے یہاں موجود ہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں اقبال کی زیر بحث غزل کو غزل کے طور پر قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ اس طرح کی غزلوں کی بنیاد پر ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اقبال نے ہمارے غزل کی روایت میں کوئی اضافہ کیا۔
اگر ایسا ہے تو میں نے شروع میں یہ کیوں کہا کہ اقبال کی غزل کے مطالعے کے وقت ہم بعض ایسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جن کا سامنا ہمیں دوسرے غزل گویوں کے یہاں نہیں کرنا پڑتا؟ اس کی وضاحت کے لیے اصناف سخن کی شعریات پر پچھلے پچاس ساٹھ برس میں جو کام مغرب میں ہوا ہے، اس کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ اس کام میں تین مکاتب فکر کا حصہ ہے۔ سب سے پہلے تو روسی ہیئت پسند (یہاں ہیئت پسند کسی برے معنی میں نہیں استعمال کر رہا ہوں) پھر فرانسیسی وضعیاتی نقاد Structuralists اور پھر بعد وضعیاتی نقاد جن پر جرمن Phenomenology of Reading کا اثر بھی ہے۔ مثال کے طور پر، وکٹر اشکلا وسکی Shklovsky نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کوئی صنف سخن کسی ایک فن پارے میں بند نہیں ہوتی۔ یعنی کوئی فن پارہ ایسا نہیں ہے جس میں اس کی صنف کے تمام خواص پوری طرح نمایاں ہوں لیکن کسی فن پارے کو دیکھ کر ہم عام طور پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کس صنف کارکن ہے۔
روسی ہیئت پسندوں کا خیال تھا کہ اصناف کا مطالعہ اس نظام کے باہر ممکن نہیں ہے جس میں اور جس کے ساتھ ان کا باہمی رشتہ ہوتا ہے یعنی ہر صنف کی تعریف اس ربط اور رشتے کی روشنی میں ہونی چاہیے جو اس صنف اور دوسری اصناف کے درمیان ہے، نہ کہ کسی مقررہ فن پارے کی روشنی میں۔ یہ خیال سب سے پہلے یوری ٹائنیا ناف Tynianov نے پیش کیا تھا۔ اسی تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے رومان یا کبسن کا مشہور قول ہے کہ ادبی مطالعے کا مقصود ادب نہیں، بلکہ ادب پن Literariness ہے یعنی وہ چیز جو کسی مقررہ فن پارے کو ادب بناتی ہے۔
اس تصور کی روشنی میں یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ کوئی کلام غزل ہے کہ نہیں، اس کا تعین صرف ایک غزل یا اس کے چند اشعار کے حوالے سے نہیں، بلکہ دوسری اصناف سے اس کے رشتوں کو لحاظ میں رکھتے ہوئے ہونا چاہئے۔ زوتیان ٹاڈاراف Tzvetanetodorov نے بہت عمدہ بات کہی ہے کہ ہر عظیم کتاب دو اصناف کا وجود قائم کرتی ہے، ایک تو اس صنف کا جس کی حدوں کو وہ توڑتی ہے، اور دوسرے اس صنف کا، جو وہ خلق کرتی ہے۔ ٹاڈاراف کا کہنا ہے کہ صرف مقبول عام ادب، مثلاً جاسوسی ناول، کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس صنف کا ہر فرد اپنی صنف کا پورا پورا نمائندہ ہوتا ہے۔ بقول ٹاداراف، ’’عام قاعدہ یہ ہے کہ ادبی شاہکار کسی بھی صنف کا نمائندہ نہیں ہوتا، سوائے اپنی صنف کے۔ لیکن مقبول عام ادب کا شاہ کار کلیۃً وہی ہوتا ہے جو اپنی صنف پر بالکل ٹھیک اترتا ہے۔‘‘
نئے اصناف کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی ایسے عنصر کے گرد تعمیر کیے جائیں جو پچھلی صنف کے لیے لازمی رہا ہو۔ ٹاڈاراف کہتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی تنقید اصناف کی منطقی تقسیم کی ناکام کوشش میں سرگرداں رہی۔ وہ مزید کہتا ہے کہ کسی فن پارے کی صنف کا تعین کرنے میں یہ بات بھی بہت اثرانداز ہوتی ہے کہ خود مصنف نے اسے کس صنف میں رکھا ہے کیونکہ مصنف کی تقسیم ہم پر اثرانداز ہوتی اور ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ مصنف اس فن پارے میں ہم سے کس طرح کا ذہنی استجاب Mental Response چاہتا ہے۔ جیساکہ جانتھن کلر Jonathan Culler نے کہا ہے،
صنف کا تصور قاری کے ذہن میں ایک معیار یا ایک توقع پیدا کرتا ہے اور اس معیار یا توقع کے ذریعے قاری کو متن کا سامنا کرنے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کے سرورق پر ’’ناول‘‘، ’’افسانہ‘‘، ’’غزل‘‘ وغیرہ لکھا ہوا دیکھ کر، ایک طرح قاری کے ذہن کی Programming ہو جاتی ہے اور فن پارے کے ابعاد کو گرفت میں لانا اس کے لیے نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ کلر نے خوب کہا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ المیہ اور طربیہ کا وجود ہے، اس وجہ سے نہیں کہ ان کے محتویات میں کوئی نمایاں فرق ہوتا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ ہم سے الگ الگ طرح کے مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا خیالات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ اقبال نے اردو غزل کی روایت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، کیونکہ اخلاقی، فلسفیانہ، بلند آہنگ لہجے والے مضامین تو اردو غزل میں پہلے سے موجود تھے، لیکن پھر بھی انھوں نے غزل کی صنف کو ایک نیا موڑ ضرور دیا، اس معنی میں انھوں نے اپنی غزل جن عناصر کے گرد تعمیر کی وہ ان سے پہلے کی غزل کا لازمی حصہ نہ تھے۔ ان عناصر کو مرکزی یا تقریباً مرکزی حیثیت دینے کی وجہ سے اقبال نے یہ بات ثابت کر دی کہ کوئی صنف سخن کسی ایک فن پارے میں بند نہیں ہوتی۔ انھوں نے غزل اور نظم کے رشتوں، غزل اور قصیدے کے رشتوں میں تبدیلی پیدا کی اور ہمیں ان مسائل پر ازسر نو غور کرنے کا موقع فراہم کیا۔
اقبال نے ہمیں اس بات سے آگاہ کیا کہ غزل اور قصیدے کے درمیان کوئی ایسی حد فاصل نہیں جسے واجب ولازم سمجھا جائے، لہٰذا اقبال کی غزل کا مطالعہ کرتے وقت پہلی مشکل تو یہ پیش آتی ہے کہ ہمیں غزل اور قصیدہ، دونوں کے بارے میں اپنے تصورات پر نظر ثانی کرنی پڑتی ہے۔ اقبال کی شروع کی غزلوں پر داغ کے اثر کا مفروضہ ہم لوگوں نے صرف اسی لیے عام کیا ہے کہ اقبال نے غزل کے نام نہاد لہجے سے جس طرح انحراف کیا اس کے لیے کوئی جواز اور کوئی نقطۂ آغاز تلاش ہو سکے۔
ہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’بانگ درا‘‘ میں اقبال کی پہلی غزل‘‘ نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی‘‘، نہیں ہے، بلکہ ’’گلزار ہست و بود بیگانہ وار دیکھ‘‘ ہے اور یہ غزل داغ کے لہجے اور مضامین سے قطعی متغائر ہے، لہٰذا اقبال کی غزل کے مطالعہ میں پہلا مسئلہ جس سے ہم دوچار ہوتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس کا سلسلہ کسی بھی اسکول پر منتہی نہیں ہوتا، لیکن اس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں ملتی جسے ہم اردو غزل کی روایت سے قعطاً خارج قرار دیں۔ یعنی یہ غزل ہمیں اردو غزل کی روایت پر ازسر نو غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
ہماری غزل کی روایت کے محاکمے میں خلط مبحث کی زیادہ تر ذمہ داری امداد امام اثر، محمد حسین آزاد اور حالی پر ہے۔ اثر میں تو تنقیدی شعور بہت کم تھا، حالی پر اصلاحی جوش غالب تھا، لیکن محمد حسین آزاد میں تاریخی شعور کی کمی تھی اور چونکہ محمد حسین آزاد کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ قدیم اصولوں کے مزاج داں تھے، اس لیے ان کے خلط مبحث نے اس معاملے کو حالی اور اثر سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ آزاد کا خیال تھاکہ شعر کے اسالیب اور شاعری کی روایت میں کوئی فرق نہیں۔ وہ اس بات کو نظرانداز کر گئے کہ روایت دراصل وہ ڈھانچا ہوتی ہے جس کے گرد اسلوب تیار کیا جاتا ہے، لہٰذا اسلوب بدلنے سے ڈھانچا نہیں بدلتا۔
دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انھوں نے ان چیزوں کو بھی متروک و منسوخ سمجھ لیا جو دراصل رائج تھیں۔ چنانچہ غلام مصطفی خاں یکرنگ کے چند شعر نقل کرکے وہ کہتے ہیں، ’’خدا جانے ان باتوں کو سن کر ہمارے شائستہ زمانے کے لوگ کیا کہیں گے۔ کچھ تو پروا بھی نہ کریں گے اور کچھ واہیات کہہ کر کتاب بند کر دیں گے۔۔۔ میرے دوستو غور کے قابل تو یہ بات ہے کہ آج جو تمھارے سامنے ان کے کلام کا حال ہے، کل اوروں کے سامنے یہی تمہارے کلام کا حال ہونا ہے۔ ایک وقت میں جو بات مطبوعہ خلائق ہو، یہ ضروری نہیں کہ دوسرے وقت میں بھی ہو۔‘‘ اس کے پہلے، پرانی زبان کا ذکر کرتے ہوئے آزاد کہہ چکے ہیں، ’’آج اس وقت کی زبان کو سن کر ہمارے ہم عصر ہنستے ہیں۔ لیکن یہ ہنسی کا موقع نہیں، حوادث گاہ عالم میں ایسا ہی ہواہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ آج تم ان کی زبان پر ہنستے ہو، کل ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ تمہاری زبان پر ہنسیں گے۔‘‘
اس طرح کے خیالات پر وکٹوریائی عہد کے اس مفروضے کی غلط پرچھائیں ہے کہ ہر نیا خیال ہر پرانے خیال سے بہتر ہوتا ہے۔ وکٹوریائی مفکروں نے اس مفروضے کو زبان اور اسلوب اور روایت پر جاری نہیں کیا تھا۔ لیکن ان کے ہندوستانی زلہ رباؤں نے اسے یہاں بھی جاری کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے سمجھا روایت بدلتی رہتی ہے اور ہر نئی روایت ہر پرانی روایت کو منسوخ کرتی ہے۔ اس غلط خیال کی روشنی میں ہم لوگوں نے اردو غزل کی روایت سے وہ غزل مراد لی جو اقبال کے فوراً پہلے رائج تھی اور پھر یہ نتیجہ نکلا کہ اقبال کی غزل ہماری روایت سے منحرف ہے، حالانکہ اقبال کا انحراف صرف اتنا تھا کہ جو موضوعات اور لہجے پرانی غزل میں رائج تھے، لیکن انھیں مرکزی عنصر کی اہمیت حاصل نہ تھی، اقبال نے انھیں مرکزی عنصر کی طرح برتا۔
مثلاً غزل میں عربی فقرے ڈالنا اور قرآن کے حوالے دینا اقبال کی ایجاد نہیں۔ لیکن ان چیزوں کو احساس یا تجربے کے اظہار کے بجائے فکر کے اظہار کے لیے استعمال کرنا، جو متقدمین کے یہاں کہیں کہیں نظر آتا ہے، اقبال کے یہاں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چار شعر کی بلا مطلع غزل، جو میں نے اوپر ’’بانگ درا‘‘ کے حوالے سے نقل کی ہے اس صفت سے متصف نظر آتی ہے۔
لیکن اقبال کی غزل کا مطالعہ جس دوسری مشکل سے ہمیں دوچار کرتا ہے، اس کا تصفیہ اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ مصنف اپنی تصنیف کو کس صنف میں رکھتا ہے، کیونکہ اس سے آپ کو مصنف کی طرف سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ آپ سے اس تصنیف کے بارے میں کس قسم کے استجاب یعنی Response کی توقع کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ایک حیران کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ بڑے غزل گو کی حیثیت سے اقبال کی شہرت جس کلام پر ہے وہ دوسرے حصے میں پہلا نمبر سنائی والی مشہور نظم (قصیدہ؟ غزل؟) ہے۔ اقبال اس کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’یہ چند افکار پریشاں، جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے، اس روز سعید کی یادگار میں سپرد قلم کیے گئے ع ما از پئے سنائی و عطار آمدیم۔‘‘
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ اگرچہ لہجے اور مضامین کے اعتبار سے اس تحریر میں اور اقبال کی ان تحریروں میں کوئی خاص فرق نہیں، جنھیں ہم غزل کہتے ہیں اور اس تحریر میں بھی اشعار اسی طرح بے ربط ہیں جس طرح غزل میں ہوتے ہیں، لیکن اقبال نے اسے قصیدہ، غزل، نظم کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے، صرف نمبر ایک ڈال دیا ہے، لہٰذا اگر ہم اس حصے کی دوسری تحریروں کو غزل کہتے ہیں تو ہمیں اس منظومے کو بھی غزل کہنا ہوگا۔ اور اگر ہم اس منظومے کو غزل نہیں کہتے تو اقبال کے عندیے کی روشنی میں بقیہ نمبروں کو بھی غزل کہنا ذرا مشکل ہی معلوم ہوتا ہے۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اقبال نے ’’زبور عجم‘‘ میں بھی منظومات پر صرف نمبر لگائے ہیں وار ہم انھیں غزل فرض کرتے ہیں، حالانکہ ’’زبور‘‘ کے مشمولات میں مندرجہ ذیل چیزیں ایسی ہیں جو غزل کے دائرے میں مشکل ہی سے آئیں گی۔ حصۂ اول میں نمبر ایک، دو، سات ۴۱، ۶۰، ۶۴ اور ۷۴ صرف دو دو شعر ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ حصۂ اول میں نمبر ۹ اور ۴۷ اور حصۂ دوم میں نمبر ۱۸، ۱۹، ۳۰ اور ۶۵ نظمیں ہیں۔ ان میں سے کسی پر عنوان نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ کتاب میں عنوان سرے سے نہیں ہیں، اولین دو منظومات پر بالترتیب حسب ذیل عنوان ہیں، ’بخوانندۂ کتاب زبور‘ اور ’دعا۔‘
اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اگر ’’زبور‘‘ کے دیگر مشمولات پر کوئی عنوان نہیں دیا اور غزل نما نیز نظم نما ہر طرح کے کلام کو صرف نمبر کے ذریعے الگ کیا، لیکن دو مشمولات پر عنوان دیا تو ظاہر ہے کہ اقبال کی نظر میں نظم اور غزل کا فرق بے معنی تھا یا وہ اس کلام کو بھی، جسے ہم غزل کی طرح پڑھتے ہیں، نظم کی طرح پڑھا جانا پسند کرتے تھے۔
’’بال جبریل‘‘ کی ایک مشہور نظم ’’زمانہ‘‘ میں اس صورتِ حال کا ایک اور پہلو نظر آتا ہے۔ نظم کے پہلے پانچ شعر آپس میں مربوط ہیں اور عنوان سے مطابقت رکھتے ہیں۔ چھٹے شعر میں ’’مغربی افق‘‘ کا ذکر آتا ہے، جس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا ہے،
شفق نہیں مغربی افق پر یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے
طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
لیکن چونکہ شعر میں ’’طلوع فردا‘‘ اور ’’دوش و امروز‘‘ کا بھی ذکر ہے، اس لئے اسے کھینچ تان کر موضوع سے متعلق قرار دیا جا سکتاہے۔ اصل مشکل اگلے شعر سے پیدا ہوتی ہے جب مغربی تہذیب کی تنقید اور اس کے زوال کی پیشین گوئی شروع ہوتی ہے۔ جو نظم کہ وقت کا فلسفہ یا وقت کی اصلیت پر بعض تصورات کے بیان سے شروع ہوئی تھی، اب عہدِ حاضر کے ایک مسئلے کی طرف مڑ جاتی ہے جس کا نفس موضوع سے کوئی تعلق نہیں اور اس کا آخری شعر ان دونوں معاملات سے بالکل الگ کسی مرد درویش (شاید اقبال) کی ثنا کرتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ یہ کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ، جو بقیہ تمام اشعار کا متکلم تھا، اس شعر کا بھی متکلم ہے کہ نہیں،
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
اس منظومے پر اگر ’’زمانہ‘‘ عنوان نہ ہوتا تو اسے غزل فرض کرنے میں کسی کو کوئی مشکل نہ ہوتی۔ یہی حال ’’لالۂ صحرا‘‘ کا ہے، جس کے اشعار میں ربط ثابت کرنے کے لیے قاری کو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کلیم الدین صاحب کو کہنے کا موقع ملتا ہے کہ اقبال کو مربوط نظم کہنے کا فن نہ آتا تھا۔ لیکن اب تک جو شواہد بیان ہوئے ان کی روشنی میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال کو نظم اور غزل میں امتیاز کی چنداں فکر نہ تھی۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ اقبال اپنے بعض منظومات کے بارے میں یہ چاہتے تھے کہ انھیں نظم اور غزل دونوں سمجھا جائے یا انھیں نظم اور غزل سے مختلف کوئی تیسری چیز سمجھا جائے۔ یہاں ٹاڈاراف کا قول پھر یاد آتا ہے کہ بڑی تخلیق دراصل دو اصناف کا وجود ثابت کرتی ہے، ایک تو اس صنف کا، جس کی حدوں کی وہ شکست وریخت کرتی ہے اور دوسرا اس صنف کا جو وہ خلق کرتی ہے۔
’’ضرب کلیم‘‘ میں اقبال نے عنوان کا التزام رکھا ہے، لیکن جن منظومات پر انھوں نے ’’غزل‘‘ لکھا ہے، ان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے جان بوجھ کر نظم نما غزلوں پر غزل کا عنوان لگایا ہے۔ صرف پانچ غزلیں ہیں اور مشہور ترین غزل سب سے آخر میں ہے۔
دریا میں موتی اے موج بے باک
ساحل کی سوغات خاروخس وخاک
ان میں وہ انکشافی لہجہ نہیں ہے جو ’’بال جبریل‘‘ کے اکثر نمبروں میں ہے۔ لیکن انکشافی لہجہ تو ضرب کلیم ہی میں نہیں ہے۔ ہاں ’’ضرب کلیم‘‘ کے اسلوب کی شدید جزرسی Economy یہاں بھی نمایاں ہے۔ ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ میں پھر نمبر ہیں، اور ان میں بھی بعض منظومات غزل کی ہیئت میں ہیں۔ اگر ’’بال جبریل‘‘ کے ان نمبروں کو جو غزل کی ہیئت میں ہیں، غزل فرض کیا جائے تو سنائی والے منظومے کے علاوہ ’’محراب گل‘‘ کے بھی بعض منظوموں کو غزل فرض کرنا ہوگا۔ یہی عالم تقریباً سارا کا سارا ’’بال جبریل‘‘ میں ہے۔ ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں،
(۱) میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
(۲) اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
(۳) گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
(۴) اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
(۵) پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
(۶) اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
(۷) وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
(۸) عالم آب و خاک و باد سرعیاں ہے تو کہ میں
(۹) پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
(۱۰) ہر چیز ہے محو خود نمائی
(۱۱) ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
(۱۲) حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
ان میں سے ایک تا پانچ ’’بال جبریل‘‘ کے پہلے حصے میں ہیں اور چھ تا بارہ دوسرے حصے میں۔ پہلے حصے سے میری مراد ہے شروع کا وہ کلام جس پر ایک تا سولہ نمبر پڑے ہیں اور دوسرے حصے سے میری مراد ہے نمبر سولہ کے فوراً بعد کا وہ کلام جو سنائی والے قصیدے (نظم/ غزل؟) سے شروع ہوتا ہے اور جس پر پھر ایک نمبر سے شروع ہوکر اکسٹھ نمبر پڑے ہیں۔ ان میں کسی پر ’’غزل‘‘ کا عنوان نہیں دیا گیا ہے بلکہ پوری ’’بال جبریل‘‘ میں کوئی بھی کلام ایسا نہیں ہے جس پر غزل کا عنوان قائم کیا گیا ہو۔ ایسا نہیں ہے کہے اقبال عنوان دینا بھول گئے ہوں، کیونکہ اس کلام کے علاوہ، جس پر صرف نمبر ہیں، ’’بال جبریل‘‘ کے ہر مشمول پر ’’قطعہ‘‘، ’’رباعی‘‘ یا نظم کا عنوان لکھا ہوا ہے۔ صرف دو ’’رباعیاں‘‘ ایسی ہیں جو حصۂ اول کے نمبر دو اور نمبر پانچ کے نیچے بلاعنوان درج ہیں۔
یہاں میں اس بات سے بحث نہ کروں گا کہ اپنے جس کلام کو اقبال نے رباعی کہا، وہ رباعی ہے کہ نہیں۔ فی الحال مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ’’بال جبریل‘‘ کے جس کلام میں سے ہم اقبال کی غزلیں برآمد کرتے ہیں، ان پر اقبال نے غزل کاعنوان نہیں دیا ہے۔ مزید یہ کہ انھوں نے اپنی تمام ’’رباعیات‘‘ پر رباعی کا عنوان لگایا ہے، سوائے ان دو کے جو نمبر دو اور نمبر پانچ کے نیچے درج ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ایک تا سولہ اور پھر ایک تا اکسٹھ نمبر شدہ کلام کے بارے میں اقبال کا خیال تھا کہ اسے غزل کی طرح نہ پڑھا جائے۔ حصہ اول کا نمبر پانچ تو غزل کی ہیئت میں بھی نہیں ہے، کیونکہ اس کا آخری شعر،
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
بقیہ اشعار کی زمین میں نہیں ہے اور مطلع کی ہیئت میں ہے۔ اس کے بعد جو رباعی درج ہے وہ حسب ذیل ہے،
دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوے حیدر بھی عطا کر
اوپر کے اشعار سے اس کا ربط ظاہر ہے، لہٰذا میرا خیال یہ ہے کہ اقبال کی نظر میں نمبر پانچ کے تحت درج شدہ اشعار اور یہ رباعی دونوں مل کر ایک نظم بناتے ہیں۔ نہ وہ اس سے الگ ہے اور نہ یہ اس سے الگ ہے۔ ممکن ہے اقبال کا یہ عندیہ ان کے تحت شعور میں رہا ہو، لیکن یہ بات تو ظاہر ہے کہ ایسی نظم کو، جو غزل کی ہیئت ہی میں نہیں ہے، اقبال نے غزل نہ سمجھا ہوگا اور چونکہ صرف دو نمبر ایسے ہیں جن کے نیچے ایک ایک رباعی درج ہے، اور ان کے علاوہ ہر رباعی پر ’’رباعی‘‘ کا عنوان لکھا ہوا ہے، اس لیے ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ اقبال نے یہ رباعیاں ان ہی جگہوں پر اور بلا عنوان کیوں درج کیں؟ نمبر پانچ کے بارے میں تو میں عرض کر چکا ہوں کہ اس کی رباعی اور دیگر اشعار میں مضمون کا ربط ہے، لہٰذا دونوں ایک دوسرے کاحصہ ہیں۔ اب نمبر دو کو دیکھئے۔ اس کا مطلع ہے،
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
سب اشعار میں اس قدر ربط ہے کہ غزل مسلسل یا نظم کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ سب میں خدا کے ساتھ ایک عاشقانہ محبوبانہ Challenge کا رویہ ہے۔ اس کے نیچے حسب ذیل رباعی ہے،
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
اس کا بھی ربط اوپر گزرنے والے اشعار سے ظاہر ہے، اس لیے یہاں بھی میں یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ اقبال کی نظر میں نمبر دو کے اشعار اور یہ رباعی مل کر ایک مکمل نظم بناتے ہیں۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں شامل ’’ملا زادہ ضیغم لولابی کا بیاض‘‘ کے مشمولات کا ہے۔ اقبال میں جہاں بہت سی بڑائیاں ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں کوئی قاعدہ نہیں بنایا جا سکتا، بلکہ قاعدہ تو بن سکتا ہے لیکن اس سے قاری کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس معاملے میں وہ میر اور شیکسپیئر کے ساتھ ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.