Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو غزل کی زبان

بشیر محمود اختر

اردو غزل کی زبان

بشیر محمود اختر

MORE BYبشیر محمود اختر

    اردو اور فارسی ادبیات میں غزل کی صنفِ دل ربائی او ررعنائی کا ایک بڑا ہی لطیف نمونہ ہے۔ غزل دل بہلاتی ہی نہیں، اپنے اندر دل موہ لینے والی کیفیت ہی نہیں رکھتی بلکہ کیف و سرور کی بلندیوں پر بھی لے جاتی ہے۔ اردو ادب میں جتنی مقبولیت اس صنفِ سخن کو حاصل ہے اور کسی کونہیں۔ اس کی مقبولیت کی وجہ اس کے مخصوص موضوعات اور اس کی ایک متعین ہیئت ہے۔ پھر غزل اپنی ایک خاص زبان اور ایک خاص لب و لہجہ کے باعث اثر آفریں صنف سخن مانی جاتی ہے۔

    غزل کانام آتے ہی اس کی خاص ہیئت، اس کی زبان اور اس کے موضوعات ذہن میں ابھرنے لگتے ہیں۔ دراصل کسی بھی صنف کے مواد اور ہیئت کاتصور ایک ساتھ رونماہوتاہے، دونوں لازم و ملزوم ہیں، ایک کے بیان میں دوسرے کاتذکرہ آجانا ایک ضروری بات ہے۔ اس لیے اردو غزل کی زبان پراظہار رائے سے پیشتر اردو غزل کے مضامین و موضوعات کاجائزہ لینا لازم ٹھہرتاہے، اس لیے بھی کہ اردو غزل کی زبان دراصل اپنے موضوعات و مضامین کی رعایت سے تعمیری مراحل سے گزرتی رہی اور انہی کے زیر اثر ایک خاص اسلوب و انداز اختیار کرتی رہی ہے۔

    لغوی اعتبار سے تو غزل کامفہوم عورتوں سے یا عورتوں کی باتیں کرنا ہے، محبت کی گفتگو اور جوانی کے تذکرے کو بھی غزل کہتے ہیں لیکن غزل کا مواد غالباً کسی بھی غزل گو کے ہاں تمام تر اسی مفہوم کے تحت نہیں آتا۔ غزل اصطلاحی معنوں میں اس صنفِ سخن کانام ہے جس میں حسن و عشق کی لطیف و ارادت اور راز و نیاز کی مختلف کیفیات کااظہار ہو یعنی غزل بنیادی طور پر انسانی جذبات و محسوسات کی عکاس ہے، اس میں شاعر کی تخئیلی رنگ آمیزی کابڑا ہاتھ ہوتاہے۔ اس میں جذبے کی بے ساختگی کے ساتھ درد اورگداز کاامتزاج بہت ضروری ہے۔ غزل درحقیقت حسن و عشق اور ناز پروری اور نیاز مندی کے جذبات کی داستان ہے۔ بقول ڈاکٹر یوسفؔ حسین، ’’غزل جذبے کا بیان ہے تخئیل کی زبانی۔‘‘ ظاہر ہے کہ نرم و نازک معاملات کے اظہار کے لیے ان کی نرمی اور نازکی کی مناسبت سے زبان ایسی ہونی چاہیے جس میں تیزی یا درشتی کاشائبہ تک نہ ہو، الفاظ نہایت لطیف اور مانوس ہوں، لب و لہجہ آشنا اور عام گفتگو کا سا ہو۔

    اردو غزل کی زبان براہِ راست فارسی سے متاثر ہے، اس لیے اس کی تشکیل فارسی غزل کی زبان کی مرہون منت ہے۔ ابتدامیں مضامین اکثر و بیشتر فارسی سے آئے تھے، اس لیے وہ اپنے ساتھ الفاظ و محاورات، تشبیہات و استعارات کاایک سرمایہ بھی لائے، ان کے معانی کے ساتھ تلازمات کی ایک دنیا آباد تھی، وہ سب اردو غزل کی زبان کی تعمیر میں معاون ثابت ہوئے۔

    یہ بات تو طے ہے کہ غزل گو شاعر ان باتوں کااظہار کرتا ہے جو دل سے تعلق رکھتی ہیں لیکن دل کی باتیں کھلم کھلا بیان نہیں جاسکتیں، ان کے اظہار کے لیے ایک لطیف پردہ داری درکار ہوتی ہے، اس وجہ سے شاعر اظہارِ اشتیاق اور تذکرۂ حسن و جمال کے لیے اختصار وابہام کی راہ اختیارکرتاہے، اس کامدعا رمز و کنایہ کی زبانی ادا ہوتا ہے، اس کے الفاظ محض اپنے ظاہری معانی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ علامتوں کاروپ دھارتے ہیں اور اپنے اندر جہانِ معانی پوشیدہ رکھتے ہیں۔ یہ درحقیقت غزل کی مخصوص روایتی زبان سے وابستگی کا نتیجہ ہے۔ مثلاً جب ہم میرؔ کا یہ شعر پڑھتے ہیں کہ،

    ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے

    کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا

    تو یہاں چراغِ سحری کی ترکیب سے محض لغوی معنی ہی مراد نہیں لے سکتے، یہ ترکیب اپنے روایتی پس منظر کی روشنی میں عجیب جادو جگاتی ہے، رات کے آخری پہر میں چراغ کی جھلملاتی ہوئی لوَ کا تصور اپنے ساتھ ہر روبہ زوال یا قریب الاختتام شے کا خیال لاتا ہے۔ الفاظ وتراکیب کی یہی ایمائی معنویت غزل کی زبان کا حسن ہے۔

    اسی طرح غزل کے الفاظ نے اپنے مستقل استعمال سے ایک خاص پس منظر مہیا کرلیا ہے اور ایک خاص معنویت اپنالی ہے۔ وہ جب بھی ہمارے سامنے آتے ہیں، اپنے پورے پس منظر اور ساری معنویت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔گل و بلبل، شمع و پروانہ، بہار و خزاں، قطرہ و دریا وغیرہ الفاظ کی اپنی اپنی ایک سرگزشت ہے جو غزل کی زبان میں کہی جاتی ہے، ان کے معانی میں امتیاز وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں مجاز سے گزرکر حقیقت کی سرحد شروع ہوتی ہے لیکن کامیاب غزلیں وہی خیال کی جاتی ہیں جن میں مجاز و حقیقت کی تفریق مشکل ہو، اور تصوف تغزل کا ہم رنگ ہوجائے۔

    یہاں دردؔ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حقیقت اور مجاز کی سرحدوں کو ملایا اور ان میں ہم آہنگی پید اکی، یہی وجہ ہے کہ عموماً ان کے حقیقی عشق کے اشعار کو بھی مجاز سے تعبیر کیا جاتا رہا، ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں،

    تمنا ہے تیری اگر ہے تمنا

    تری آرزو ہے اگر آرزو ہے

    نظر میرے دل کی پڑی دردؔ کس پر

    جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے

    رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور

    شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

    دردؔ کے ملنے سے اے یار براکیوں مانے

    اس کو کچھ اور سوادید کے منظور نہ تھا!

    دردؔ کے اسی انداز کے اشعار پسندیدہ قرار پائے لیکن خالص صوفیانہ لب و لہجہ کے اشعار زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوسکے کیونکہ تیز صوفیانہ لے غزل میں سمانے سے قاصر ہے۔ غزل درحقیقت جذبات واحساسات کی عکاس ہوتی ہے، جتنا جذبہ پرخلوص ہوگا اور احساس شدید ہوگا، اسی قدر غزل کا رنگ گہرا ہوگا۔ یہ بات ہمیں میرؔ کے یہاں ملتی ہے، انہوں نے انسانی عشق و محبت کے جذبات کو الفاظ کاجامہ پہنایا ہے۔میرؔ جس شدت سے محسوس کرتے ہیں اسی شدت سے محسوس کرواناچاہتے ہیں، اس لیے ان کی غزل کی زبان بہت بے ساختہ اور سوز وگداز سے پر ہے۔ دل سے نکلی ہوئی بات نشتر کی طرح دل میں اترجاتی ہے، مثال کے طور پر ان کے یہ شعر د یکھیے،

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے

    یہ نمائش سراب کی سی ہے

    بارہا اس کے درپہ جاتا ہوں

    حالت اب اضطراب کی سی ہے

    نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

    پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

    میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں

    ساری مستی شراب کی سی ہے

    بظاہر الفاظ معمولی اور سیدھے سادے ہیں لیکن غضب کی تاثیر رکھتے ہیں۔ ان شعروں کالہجہ معانی کی توضیح و تشریح میں معاون ثابت ہوتاہے۔ میرؔ نے فی الحقیقت غزل کی زبان اور اس کے لب و لہجہ کا ایک خاص معیار معین کردیا ہے۔ میرؔ کے بعد عموماً اسی معیار پر دوسرے شعراکی غزلوں کو جانچا جاتا رہاہے۔ چنانچہ میرؔ کے مقابلے میں سوداؔ کو ایک کم تر غزل گو ثابت کیے جانے کا ایک سبب من جملہ اور اسباب کے یہ بھی تھا۔ اگرچہ سوداؔ کے تغزل سے انکار ممکن نہیں، انہوں نے غزل کے بڑے حسین اور دل نشین اشعار کہے لیکن یہ بات تسلیم کیے بغیر بھی چارہ نہیں کہ سوداؔ کا مزاج مِن حیث المجموع غزل کانہ تھا، ان کی طبیعت میں وہ داخلیت، دروں بینی اور خستہ مزاجی نہ تھی جو انہیں ایک اچھاغزل گو بننے دیتی، اس لیے ان کی زبان میں آرائش کااحساس ہوتاہے اور ان کی غزل میں بلند خیالی اور وصف نگاری کے اوصاف ملتے ہیں۔

    ان وجوہ سے ان کی غزل میں قصیدے کا رنگ و آہنگ آگیااوررجز کی سی لے کاگمان ہونے لگا۔ اس میں ان کی دربار داری کا بڑا عمل دخل تھا۔ شیخ چاندؔ کے الفاظ میں، ’’سوداؔ نے غزلوں میں قصیدے کی زبان استعمال کی ہے جس میں عربی فارسی ترکیبوں کی بہتات ہے اورقصیدے کی طرح غزلوں میں بھی سنگلاخ زمینیں اختیار کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ غزل کے مضامین کے اصل جوہر کو پیچیدہ اورکسی قدر مشکل طرز نے چھپادیا اورعام مقبولیت سے محروم کردیا۔‘‘

    سوداؔ اور میرؔ نے ایک ہی مضمون پر طبع آزمائی کی ہے، لیکن الفاظ اورلب و لہجے میں جو فرق ہے وہ دراصل دو مزاجوں اور دو مختلف ذہنیتوں کافرق ہے۔ سوداؔ کہتے ہیں،

    جہاں کے پیچ غم ِدل کہوں سو کس سے کہوں

    سوائے غم کے مرا کوئی غم گسار نہیں

    یہ شعر اگرچہ غزل کے اچھے اشعار میں سے خارج نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ بات کہاں جو میرؔ کے اس شعر میں ہے،

    اپنا ہی ہاتھ سرپہ رہا اپنے یاں مدام

    مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباں نہیں

    سوداؔ کا یہ شعر،

    سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات

    آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی

    میرؔ کے اس شعر کو نہیں پہنچتا،

    رات ساری تو کٹی سنتے پریشاں گوئی

    میرؔ جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو

    اس شعر کاپہلا مصرعہ رات اور رات کی پریشاں گوئی کی طوالت کو پوری طرح واضح کرتا ہے۔ رات، ساری، پریشاں کے الفاظ میں ’’الف‘‘ کی تکرار اورکھنچاؤ پوری کیفیت کاابلاغ کرنے میں کوشاں ہے۔ دوسرے مصرعے میں جی، کوئی، گھڑی اور بھی میں ’’ی‘‘ کاحرف ایک خاص سکون اور دھیمے پن کامظہر ہے، اسی قسم کے خصائص غزل کا لہجہ معین کرتے ہیں جو غزل کی زبان کا ایک اہم وصف ہے۔

    اردو شاعری میں دہلوی اور لکھنوی دبستانوں کی تقسیم دراصل ماحول و مزاج کے اختلاف کانتیجہ ہے۔ دہلوی شاعری میں حالات کی اثر آفرینی کے تحت درون بینی، خستگی اور سوز وگداز کے عناصرنمایاں طور پر ملتے ہیں، اس کے برعکس لکھنؤ میں بے فکری، لطف اندوزی اور عیش و نشاط کا میلان نمایاں ہے، اس لیے خارجیت، صنعت گری اور عریانی وہاں کی شاعری میں خوب رچی بسی ہوئی ہے۔ان دبستانوں کے مختلف انداز فکر نے زبان کی مختلف دلالتوں کو اظہار کاوسیلہ بنایا، اسی سبب سے ان کی غزلوں کی زبان میں خاصہ تفاوت نظر آتا ہے۔

    مثال کے طو رپر مصحفیؔ نے روایتی شاعری اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنؤ آکر مروجہ اسالیب بیان کو بھی اپنانے کی کوشش کی، لیکن لکھنوی اثرات کے باوجود ان کی شیریں کلامی، صفائی اور روانی میں ان کا کمال ظاہر ہوتاہے۔ درحقیقت وہ بنیادی طور پر دہلوی مزاج کے شاعر تھے اور کلام میں معاملہ بندی اور تغزل کے پہلو بہ پہلو اخلاق و تصوف کارنگ جھلکتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں،

    ہے غریبی میں خبر کس کو وطن والوں کی

    کیا گرفتار سے پوچھو ہو چمن والوں کی

    شاہد رہیواے شب ہجر

    جھپکی نہیں آنکھ مصحفیؔ کی

    کبھو تک کے در کو کھڑے رہے، کبھو آہ بھر کے چلے گئے

    ترے کوچے میں جو ہم آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے

    مصحفیؔ کے مقابلے میں ان کے ہم عصر انشا لکھنوی دربار و ماحول سے بڑے متاثر تھے، اس سے ان کی طبعی بے باکی اور زبان کی شوخی نے فروغ پایا، جس نے رفتہ رفتہ بے اعتدالی اور ناہمواری پیدا کردی، لیکن آخر عمر میں کچھ سنبھل گئے تھے۔ بقول امداد امام اثر، ’’جب تک نواب سعادت علی خاں کی مصاحبت میں عمر ضائع کرتے رہے، ان کی غزل گوئی بے مزہ رہی مگر جب ترکِ خدمت کرکے گوشہ نشینی اختیار کی تو ان کے کلام میں فی الجملہ شستگی و سوزو درد و گداز کا مزہ آگیا۔‘‘ ان کے اسی زمانے کی وہ غزل ہے، جس کا مطلع ہے،

    کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

    بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

    انشاکی طبیعت فی الحقیقت بقول قدرت اللہ قاسم، ’’شوخ و ہنگامہ آرا وخود بیں‘‘ تھی۔ اسی لیے لکھنؤ کی فضا انہیں بڑی راس آئی اور وہاں وہ خوب کھل کھیلے۔ان کے لکھنوی دور کی غزلوں میں طویل و عجیب ردیف قافیے، مشکل تراکیب و الفاظ، خارجی متعلقات کے تذکرے ملتے ہیں، پھر ان کی ظرافت بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی، ’’اکثر تمسخر او رپھکڑپن سے گزرتی ہوئی فحشیات اور شہدے پن تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘ ان سب اسباب نے ان کی غزلوں کی زبان کو نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ ایسے موضوعات اور ایسی زبان جو انشا استعمال کرتے ہیں، غزل کے لیے سازگار نہیں۔مثلاً یہ دو اشعار دیکھیے،

    یہ جومہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر

    اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر

    لگی غلیل سے ابرد کی دل کے داغ کو چوٹ

    پر ایسے ہے کہ لگے تڑ سے جیسے زاغ کو چوٹ

    اسی طرح آتشؔ و ناسخؔ اور غالبؔ و ذوقؔ کے موازنے سے یہ بات واضح کی جاسکتی ہے کہ غزل کی زبان غزل گو کے مزاج و ماحول کے اثرات کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ آتشؔ کو لکھنوی ماحول اور مصحفیؔ کی شاگردی سے خارجی مضامین اور مرصّع سازی کے ساتھ ساتھ بیان کی صفائی اور محاورہ بندی کاشوق عطا ہوا۔ آتش نے صرف غزل کی صنف کو برتااور اس کی زبان کی تراش خراش کاخاص خیال رکھا۔ ان کے یہ اشعار پیش نظر رہیں،

    پیام برنہ میسر ہوا تو خوب ہوا

    زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

    حال ہے مجھ ناتواں کامرغِ بسمل کی تڑپ

    ہرقدم پر ہے یقیں یاں رہ گیا واں رہ گیا

    بہارِ لالہ و گل سے لگی ہے آگ گلشن میں

    گریباں پھاڑ کر چل بیٹھیے صحرا کے دامن میں

    لیکن ناسخؔ اپنی بلند آہنگی سے غزل سرائی کے تقاضے پورے نہ کرسکے۔ انہوں نے الفاظ کے شکوہ، تشبیہات کی بھرمار، رعایتِ لفظی اور زبان کی صفائی پر زور دیا ہے، لیکن جذبات و احساسات کی شدت جو غزل کا لازمہ ہے، ناسخؔ کے یہاں نہیں۔ اسی لیے ان کی زبان غزل کی مخصوص زبان نہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور کے الفاؔظ میں، ’’ناسخ کی زبان لاکھ مستند سہی مگر وہ دردمند دل نہیں رکھتے، ان کے یہاں کوئی بڑا جذبہ یا گہرا ولولہ نہ تھا۔‘‘ یہی سبب ہے کہ ان کے داخلی مضامین کے اشعار کی تعدا دبہت کم ہے۔ ذوقؔ پر بھی ناسخؔ ہی کا رنگ غالب ہے، ناسخؔ ہی کی طرح مضامین کی بلندی اور خارجیت پر نظر ہے، انہوں نے زبان اور اسلوب کا کچھ خیال نہ کیا اور ان کا کلام تاثیر سے محروم رہ گیا، اصل میں ان کا موزوں میدان قصیدہ ہے۔

    غالبؔ کی غزل رمزیت و ایمائیت کا کمال ہے۔ ان کے ہاں شوخی، نازک خیالی اور معنی آفرینی بلا کی ہوتی ہے۔ انہوں نے غزل کی زبان کو بڑی شگفتگی اور بلاغت بخشی ہے۔ غالبؔ کاتغزل بقول ڈاکٹر یوسفؔ حسین، ’’اردو زبان میں رمزنگاری کاآخری نقطہ ہے۔‘‘ ان کی رمزیت کاخاص پہلو یہ ہے کہ آپ شعر کامجازی یا حقیقی کوئی سا مفہوم مراد لیں، اس کالطف برقرار رہے گا۔ غالبؔ کی وہ غزل جس کا مطلع ہے ؎

    پھر مجھے دیدۂ تریاد آیا

    دل جگر تشنۂ فریاد آیا

    لفظی اور معنوی رعایت کے باوجود ایمائی تاثیر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ غالبؔ کی غزل بڑی پہلودار ہوتی ہے۔ یہ دراصل ان کے اسالیب بیان کاسرچشمہ ہے۔ غالبؔ کا یہ شعر دیکھیے،

    سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں

    خاک میں کیاصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

    اسی مضمون پر ناسخ نے بھی طبع آزمائی کی تھی،

    ہوگئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں

    اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستاں پیدا

    ناسخؔ نے اپنی بات استدلال سے منوانے کی کوشش میں ویسا ہی اسلوب بھی اختیار کیا ہے، اس کے برعکس غالبؔ کے شعر کی رمزی کیفیت اور مخصوص تاثیر اپنی مثال آپ ہے۔

    ایک اور بڑے غزل گو جنہوں نے غزل کی زبان کی تعمیر میں بڑا حصہ لیا، داغؔ ہیں۔ داغؔ کی زبان غزل کی مخصوص زبان ہے۔ وہ معاملہ نگاری، بیان کی شوخی اور لذت پرستی پر فریفتہ تھے، اس لیے انہوں نے زبان کی سادگی اور فصاحت کو اپنا خاص شعاربنایا، ان کی زبان دہلی کی بول چال کی زبان تھی۔ فراقؔ گورکھپوری نے خوب کہا ہے کہ، ’’دہلی کی بھرپور زندگی اور لال قلعہ کی رنگ رلیاں داغؔ کے کلام میں کچھ اس طرح جلوہ گر ہوگئی ہیں کہ دیکھنے سننے والے دیکھتے سنتے رہ جاتے ہیں۔‘‘ ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں،

    لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد

    ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں

    اڑگئی یوں وفا زمانے سے

    کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

    دل لگی دل لگی نہیں ناصح

    تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں

    جب جوانی کامزہ جاتارہا

    زندگانی کا مزہ جاتا رہا

    وہ قسم کھاتے ہیں اب ہر بات پر

    بدگمانی کا مزہ جاتا رہا

    راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

    اور کھل جائیں گے دوچار ملاقاتوں میں

    داغؔ نے اپنی غزل کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا اور جن اسالیب بیان کو اختیار کیا انہیں اپنی شخصیت کاجزو بنالیا، اس لیے ان کے اظہارات میں خلوص کافیضان شامل ہے۔ داغؔ کے رنگِ تغزل کی مقبولیت دیکھ کر امیر مینائی نے بھی یہی انداز اختیار کرنا چاہا، لیکن نہ ان کا داغؔ ایسا ماحول تھا اور نہ ان کے ہاں ویسی واردات، اس لیے ان کی غزل گوئی داغ کی غزل گوئی کی منزل سے بہت پیچھے رہی اور ان کی زبان مجموعی طور سے غزل کی زبان اور لب و لہجے پر پوری نہ اترسکی۔

    روایتی غزل کا دبستان روایتی مضامین کے سہارے گامزن رہا، اس کے یہاں اسلوب وانداز ایک بڑی چیز تھی۔ قافیہ پیمائی اور محاورہ بندی ضروری خیال کی جاتی تھی، مبالغہ آرائی مضحکہ خیز حدتک بڑھی ہوئی تھی، اس دبستان کے بعد کے شعراء مثلاً ریاضؔ، جلالؔ، شادؔ، فانیؔ، اصغرؔ، حسرتؔ، جگرؔ وغیرہ نے غزل میں کئی توانائی پیدا کی اور اس کی زبان میں زیادہ شادابی اور صداقت پسندی کو سمویا لیکن اسے روایت سے ہٹنے نہ دیا۔ اس دبستان کے ساتھ ساتھ سرسید کی تحریک اصلاح کے زیر اثر اور حالیؔ کے تکمیلِ مقصد کے لیے اقبالؔ نے غزل سرائی شروع کی۔

    اقبالؔ نے روایتی غزل کاسانچہ رکھا۔ رموز و علائم بھی وہی رہنے دیے، اسی زبان کو کام میں لاکر ایک نئی معنویت اور نئی تقویت عطا کی، ایک نیا ذہن دیا وار چند خاص مطالب کے مؤثر ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ جو مضامین اقبالؔ پیش کرنا چاہتے تھے وہ غزل کی روایت کے منافی پڑتے تھے، لیکن انہوں نے غزل کی علامات سے اظہار مدعا کاکام لیا۔ اسلوب و انداز ایسا دل آویز اختیار کیا کہ جدت اور تازگی کا احساس ہونے لگا۔ اسلوب و انداز عام طور سے اقبالؔ وہی احتیار کرتے ہیں جو غنائی شاعری کا ہوتا ہے، مثلاً وہ غزلیں دیکھیے جن کے مطلع ہیں،

    ترے عشق کی انتہا چاہتاہوں

    مری سادگی دیکھ کیا چاہتاہوں

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

    گیسوئے تابدار کواور بھی تابدار کر

    ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر

    اقبالؔ نے بالِ جبرئیل میں غزل کے امکانات کو بڑا تابناک کردیا ہے۔ بقول آل احمد سرورؔ، ’’غزل کو بلند سے بلند خیالات اور نازک سے نازک تصورات کاحامل بنادیا ہے، اردو غزل جہاں جاسکتی ہے اقبالؔ نے اسے پہنچادیا، اس سے آگے کی فضا میں پرواز سے غزل کے پرجلتے ہیں۔‘‘

    مختصر یہ کہ غزل کی زبان ایک مخصوص لب و لہجے، ایک منفرد رنگ و آہنگ سے عبارت ہے۔ اس کی سادگی و صفائی، شیرینی و نغمگی اس کے بنیادی خصائص شمار ہوتے ہیں، یہی عناصر اپنے ایک حسین امتزاج سے غزل کی زبان کی تشکیل کرتے ہیں اور وہی غزل غزل کے معیار پر پوری اترتی ہے جو اس زبان میں اپنے کو خوب رچا بسالے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے