اردو کے فروغ میں مجلاتی صحافت کا رول
اردو میں مجلاتی صحافت کی ایک عظیم اور شاندار روایت رہی ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اردو میں صحافت کے آغاز و ارتقا کی بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روزناموں کے مقابلے میں رسائل و جرائد نے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ بلکہ اردو صحافت میں یہ رسائل و جرائد سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ عام طور پر یہ کہا جاتا کہ اردو میں 1858 سے قبل نثر داستانوں کی دنیا کی سیر کر رہی تھی ۔ اس کے ذخیرے میں طلسماتی فضا کے علاوہ زندگی کے حقائق اور ہم عصر مسائل عنقا تھے۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اسی عہد میں نثر نے بلندیوں کا سفر بھی طے کیا۔یہی وہ عہد ہے جس میں نثر کا دامن رنگا رنگ اسالیب سے بھر گیا۔ایک طرف غالب نے نثر کو براہِ راست تخاطب اور سادگی کا جوہر عطا کیا تو دوسری جانب سر سید احمد خان نے اردو نثر کو سائنسی اور اور تکنیکی اظہار کا ذریعہ بنایا ۔
اردو میں مجلاتی صحافت کا ارتقا یہیں سے ہوتا ہے ۔ سر سید احمد خان نے پہلی دفعہ صحافت کی اہمیت کو بھانپ کر ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ جیسا ادبی ، تہذیبی اور تعلیمی رسالے کا آغاز کیا ۔ اس رسالے نے اردو قارئین کو پہلی دفعہ یہ بتایا کہ نثر کی طلسماتی فضا کے علاوہ بھی اور رنگ ہیں اور ایسے رنگ ہیں جن میں زندگی کی تصویروں کو بے حجاب دیکھ سکتے ہیں ۔یہ وہ نکتہ آغاز تھا کہ جس بعد نثر میں تنوع پیدا ہوتی ہے اور صحافت کے ذریعے ادب کا رشتہ زندگی سے استوار ہوتا ہے۔ مجلاتی صحافت میں اگر ابتدائی عہد کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اولاً ادب اور صحافت میں کوئی حد فاصل نہیں تھا بلکہ ادب کے ساتھ ہی صحافت کا نام لیا جاتا تھا۔مگر موجودہ عہد میں صحافت اور ادب کی سرحدیں جداگانہ ہی نہیں ان میں ایک واضح اور نمایاں فرق ہے ۔ آج ادب کچھ اور ہے۔ اور صحافت با لکل ہی الگ صنف اور شعبے کی حیثیت حاصل کر چکی ہے
رسائل وجرائد کے موجودہ منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو اس میں خوشگوار اضافے دیکھنے کو ملیں گے۔ اردو میں اب ہر طرح کے رسائل دستیاب ہیں ۔ اب تو موضوعاتی سطح پر بھی مختلف اداروں سے نکلنے والے رسائل کا جائزہ لیں تب بھی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے ۔ادبی، سیاسی ، تہذیبی، تعلیمی ، مذہبی اور تفریحی ہر طرح کے اردو رسائل بازار میں موجود ہیں اور قارئین کا ایک بڑا حلقہ ہےجو اپنی اپنی پسند کے اعتبار سے ان رسالوں کو پڑھتا ہے۔ مذہبی رسائل کے حوالے سے ان دنوں ایک خوشگوا ر اضا فہ یہ ہوا ہے کہ پہلے عام طور پر اسے قدامت پسند کہا جاتا تھا اور ان پر تبصرے اور تجزیے بھی نہیں ہوتے تھے۔ لیکن اب ضرورت ہے کہ جس طرح وہ وقت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے اپنے مواد اور معیار میں تبدیلیاں لا رہے ہیں، انھیں بھی اس منظر نامے میں جگہ ملنی چاہیے۔
مثال میں دہلی سے نکلنے والا رسالہ ’’ جام نور ‘‘ کو دیکھیں اب یہ رسالہ امریکہ سے آن لائن شائع ہورہا ہے ۔ ظاہری ساخت اور نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک مذہبی رسالے میں شمار کیا جاتا ہے مگر ایسا کہنا قطعی درست نہیں ہے کیونکہ اس رسالے کے مشمولات کو دیکھیں تو ان میں حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی موجود ہے اور مختلف دانشوروں کے خیالات بھی ہوتے ہیں ۔ یہاں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ دانشور صرف مذہبی حلقے کے ہی ہوں ۔ بلکہ اس بات کو ترجیح دی جاتی ہے کہ اس میدان کے ماہرین کی رائے شامل کی جائے۔ علاوہ ازیں دینی اعتبار سے بین الاقوامی سطح پر جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی تفصیلات بھی اس رسالے میں موجود ہوتی ہیں۔ا ور اس ادارے نے کئی خصوصی نمبر بھی شائع کیے جن میں دینی مباحث کو نئے منظر نامے میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ ایک بڑی بات ہے کے اس طرح کے رسالوں نے اپنا کینواس کافی وسیع کیا ہے۔یقیناً یہ رسائل آنے والے دنوں میں مشعل راہ ثابت ہوں گے۔ یہ چند رسائل کے نام محض مثال کے طور پر پیش کیے گئے ہیں جن میں دانستہ ان رسالوں کا ذکر نہیں ہے جن کی حیثیت اردو میں ایک مستند رسالوں کی ہے ۔ جیسے شب خون ، عصری ادن ، میزان ، شاعر ، تہذیب الاخلاق، فکر ونظر ، امروز ، اردو ادب، اردو آنگن اور کئی جامعات اور اداروں سے نکلنے والے رسالے جیسے اردو دنیا ، بچوں کی دنیا ، امنگ، نیادور اور کئی رسالےجوبند ہوگئے جیسے پاسبان، آواز وغیرہ ۔
لیکن خوشی کی بات ہے کہ ا ب کئی اردو کے ڈیجٹل رسالے منظر عام پر اگئے ہیں اور ان کی پذیرائی بھی ہورہی ہے اور پذیرائی اس لیے ہورہی ہے کہ کیونکہ ان کی رسائی اردو والوں تک بہت آسانی سے سوشل میڈیا کے ذریعےہورہی ہے ۔ ان میں کئی ایسے رسالے ہیں جن کی ماہیت بہت واضح نہیں ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکات ہے کہ اردو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے کو تبدیل کر رہی ہے اور کیس بھی زبان کے زندہ رہنے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ وقت کے تقاضے کو سمجھے ۔ میں یہ بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ڈیجٹل رسالے وقت کی ضرورت ہیں ان میں بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اہل اردو اس جانب توجہ دیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.