اردو کے نثری ادب پر انقلاب روس کا اثر
انقلاب روس کا تمام اقوام مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام، سر مایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ ایک نیا انقلابی فلسفہ، انقلابی طریقۂ کار مثالی حیثیت سے ہمارے سامنے آیا۔ ساتھ ہی سا تھ روس کی نئی حکومت نے براہ راست اور بالو اسطہ مشرق کی ان قوموں کی مدد کرنا شروع کی جو سامراجی محکومی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔
چنانچہ ترکی، ایران، افغانستان نے سوویت حکومت کی پشت پنا ہی حاصل کرکے سامراجی جوے کو اتار پھینکا۔ کمال اتاتر ک، رضا شاہ پہلوی، شاہ امان اللہ، چین کے قومی رہنما سن یات سین روسی انقلاب کے عظیم رہنما لینن سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔ اقوام مشرق کے ان آزادی خواہ رہنماؤں کو احساس تھا کہ دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آ گئی ہے جو نہ صرف یہ کہ سامراجی نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر سامراج کی مخالفت اور محکوم اقوام کی آزادی کی طرف دار اور حمایتی ہے۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے یہاں پر زبردست آزادی کی لہراٹھی تھی۔ نان کو آپریشن اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں میں ہندوستانیوں نے شریک ہوکر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔
اسی زمانے میں ہندوستان کے کئی انقلابی افغانستان سے گذر کرتا شقند پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر روسی انقلاب اور مارکسی نظریے سے متاثر ہوئے اور انھوں نے اس کی کوشش کی کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات اور کمیونسٹ طریقۂ کار کی ترویج کی جائے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان میں مارکسی لٹریچر کی در آمد اور اس کی اشاعت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پھر بھی ہندوستان کے انقلابی غیر قانونی طریقے سے اس قسم کا لٹریچر حاصل کر لیتے تھے۔ ہمارے صنعتی مرکزوں کے مزدوروں کے ایک حصے، نوجوان دانش وروں اور طلبہ میں مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ ہونے لگا تھا۔ بمبئی، کلکتہ، لاہور، امرت سروغیرہ میں ایسے رسالے اور ہفتہ وار نکالے جاتے جن میں مارکسی خیالات اور روس کی انقلابی حکومت کے کارناموں اور عالمی کمیونسٹ تحریک کے متعلق اطلاعات اور خبریں فراہم کی جاتیں۔ گوکہ ان رسالوں کی عمر کم ہوتی تھی پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے تھے۔
اردو ادب کی ایک بہت بڑی خوش گوار خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ہر اہم موڑ، ہماری آزادی کی جدوجہد کے ہر نئے عہد کی اس نے عکاسی کی ہے۔ ہندوستانی عوام کے دل کی دھڑکنیں، ان کی بلند ترین آرزوئیں، ان کے دکھ اور درد، ان کے ذہنی اور نفسیاتی پیچ و خم کی تصویریں ہمیں عہد بہ عہد اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔ انقلاب روس (نومبر۱۹۱۷ء) کے وقت میری عمر بہت کم تھی لیکن لکھنؤ کے روزنامہ ’’سیارہ‘‘ کی وہ سرخی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے جس میں انقلاب روس کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی ’’یورپ کی لال آندھی‘‘ کے عنوان سے دی گئی تھی۔ اس روز نامے کے ایڈیٹر میرے چچا شبیر حسین قتیل مرحوم تھے۔ تھوڑے عرصے بعد ’’سیارہ‘‘ سے ایک بڑی ضمانت طلب کر لی گئی اور اسے اپنی اشاعت روک دینا پڑی۔ قتیل صاحب نے اس ’’سیارہ‘‘ کے آخری شمارے کو اس شعر سے شروع کیا تھا،
مراد رد بست اندر دل اگر گو یم زباں سوزد
و گردم درکشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد
(میرے دل میں آج ایسا درد ہے کہ جس کا اگر بیاں کروں تو زبان جل اٹھے اور اگر (نہ بولوں) سانس کھینچوں تو اس کا ڈر ہے کہ میری ہڈیاں جلنے لگیں۔) اس شعر سے برطانوی ظلم کے خلاف ہندوستانی قوم کے غم و غصے کا اظہار ہوتا ہے۔
یہ امر بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مارکس کے شہرہ آفاق کمیونسٹ مینی فسٹو کا پہلا اردو ترجمہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ہفتہ وار ’’الہلال‘‘ میں قسط وار شائع کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی نے کیا تھا جو اس زمانے میں ’’الہلال‘‘ کے ایڈیٹو ریل اسٹاف میں کام کرتے تھے۔ مولانا ملیح آبادی ( جیسا کہ بعد کو وہ کہلائے) ہمارے اس دور کے ان مفکرین اور عالموں میں سے ہیں جنھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سے سالہا سال تک اردو میں ترقی پسندی، عقلیت پسندی نیز مارکسی خیالات کی ترویج کی۔ وہ پکے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روشن خیال شخص بھی تھے اور مولانا حسرت مو ہانی کی طرح ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اور کمیونزم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
عربی اور علوم دینیہ کے عالم ہونے کے علاوہ وہ اردو کے نہایت عمدہ نثر نگار اور ہمارے چوٹی کے جرنلسٹوں میں بھی تھے۔ اپنے مضامین، رسالوں اور کتابوں میں انھوں نے روسی انقلاب کے واقعات، روس کی سوویت حکومت کی پالیسیوں اور کمیونسٹ نظریات کی مسلسل، بڑے سہل اور دل کش انداز میں ترویج کی۔ کیا اچھا ہوا گر مولانا ملیح آبادی کے اس قسم کے تمام مضامین جوان کے اخبار ’’روزانہ ہند‘‘ (کلکتہ) میں سالہا سال شائع ہوئے اور ان کی قسم کی دیگر تحریروں کا ایک مجموعہ شائع کیا جائے۔ اسی طور سے مولانا حسرت موہانی کا وہ خطبۂ صدارت بھی قابل دید ہوگا جو انھوں نے کانپور میں منعقد کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانفرنس میں پڑھا تھا۔ افسوس کہ یہ اب وست یاب نہیں ہوتا۔
چند سال پیشتر سوویت دیس میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ انقلاب روس کے تھوڑے ہی عرصے بعد لاہور سے لینن کی حیات پر ایک چھوٹی سی کتاب اردو میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب نہ صرف اردو میں بلکہ شاید ہندوستان میں لینن کی پہلی سوانح حیات ہے۔
بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں اردو میں دو شخصیتوں نے مار کسی خیالات اور انقلابی کمیونسٹ تحریک کے مختلف تاریخی اور فلسفیانہ پہلوؤں پر متعدد کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ یہ امرت سر کے اشتراکی ادیب باری اور ٹیکا رام سخن ہیں۔ باری صاحب تو اشترا کی ادیب کے نام سے ہی مشہور ہو گئے۔ ہندوستان کے اردو داں مارکسی ہمیشہ ان کے ممنون احسان رہیں گے۔ گوکہ ان میں اس قدر زیادہ سہل پسندی تھی کہ مارکسزم کے مکمل فلسفیانہ نکتوں کی پیچیدگیوں کو وہ اپنی تحریروں میں حذف کر دیتے تھے تاہم ان کی تحریروں نے ایک بہت بڑے گروہ کو متاثر کیا اور مارکسزم کا طرف دار بنایا۔
غالباً اردو زبان میں سب سے ضخیم اور تاحال سب سے زیادہ مستند کتاب مارکسزم پر چودھری شیر جنگ کی ہے، جو سن ۱۹۴۵ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب کارل مارکس کے سوانح حیات اور مارکسی نظریات کے متعلق ہے اور بڑے سائز پر پانچ سو صفحوں سے زیادہ کی ہے۔ چودھری شیر جنگ دہشت پسند انقلابیوں کے گردہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ اپنی طویل گرفتاری کے دوران وہ مارکسسٹ ہو گئے اور اسی زمانے میں یہ کتاب انھوں تحریک کی جسے اپنی رہائی کے بعد شائع کرایا۔
۱۹۳۰ء کے بعد اردو ادب پر مارکسی نظریات اور خیالات کا اثر بہت نمایاں طور سے نمودار ہونے لگا۔ ۱۹۳۵ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی زمانے میں اختر حسین رائے پوری نے انجمن ترقی اردو (ہند) کے رسالے اردو میں ادب کے انقلابی اور ترقی پسند نظر یے کے متعلق طویل مضمون شائع کیا۔ اردو تنقید میں مارکسی نقطۂ نظر کا آغاز اسی مضمون سے ہوتا ہے اور گو آج ہم کو اس مضمون میں بہت سی خامیاں اور کج رویاں نظر آتی ہیں لیکن یہ خامیاں راقم مضمون کی کم ہیں، وہ اس دور کے مارکس دانش وروں کی عام خامیاں ہیں۔ بہ ہر حال اردو ادب میں مارکسی تنقید کی اولیت اسی مضمون کو حاصل ہے۔ اس مضمون نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد اردو ادب پر عام طور سے مارکسی نظریات کا اثر تیزی سے پھیلا۔ لاہور کے رسالے ’’ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر کچھ عرصے کے لیے فیض احمد فیض ہوئے۔ انھوں نے بھی کئی ادبی مضامین لکھے، جن میں مارکسی اثر نمایاں ہے۔ ۱۹۳۸ء میں سردار جعفری، مجاز اور سبط حسن کی ادارت میں لکھنؤ سے ماہ نامہ ’’نیا ادب‘‘ شائع ہونا شروع ہوا تو گویا ترقی پسند ادیبوں کے مارکسی گروہ کا ایک باقاعدہ مرکز بن گیا۔ مجنوں گورکھ پوری اور احتشام حسین کے ابتدائی تنقیدی مضامین، جو مارکسزم سے متاثر تھے، پہلے اسی رسالے میں شائع ہوئے۔ اردو کا شعری ادب کمیونسٹ تحریک سے متاثر تھا ہی، افسانوی بھی اس تحریک سے متاثر ہوا۔
یہ تاثر سب سے واضح اور دل کش شکل میں سب سے پہلے کرشن کے افسانوں میں نمایاں ہوا۔ سعادت حسن منٹو گو مارکسی نہیں تھے تا ہم ان پر اور راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کی نثر اور طرز فکر حقیقت پسندی اور انسان دوستی، آزادی خواہی کی ایک ایسی ذہنیت کو ظاہر کرتی تھیں، جن پر اشتراکی فلسفہ حیات کا اثر تھا۔
۱۹۴۲ء میں بمبئی سے اردو ہفتہ وار ’’قومی جنگ‘‘ (جس کا نام بعد کو ’’نیا زمانہ‘‘ ہو گیا) شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اردو کا پہلا ہفتہ وار تھا جو ہندستان میں کمیونسٹ تحریک کے قانونی ہونے کے بعد بڑے اہتمام سے شائع ہوا۔ گویہ ایک سیاسی پرچہ تھا لیکن اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں زیادہ تر مارکسی ادیب تھے (سردار جعفری، سبط حسن، کیفی اعظمی، ظ انصاری، عبداللہ ملک، کلیم اللہ، محمد مہدی، سجاد ظہیر و غیرہ۔) اردو صحافت، اردو نثر اور اردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کو اس ہفتہ وار نے بھی متاثر کیا۔ اسی ہفتہ وار کے ساتھ اردو کی مارکسی کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی ایک ادارہ ’’قومی وارالاشاعت‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا۔ اس ادارے نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ ’’کمیونسٹ مینی فسٹو‘‘، ’’سوشلزم‘‘ اور دیگر کئی مارکسی کلاسیکی کتابیں شائع کیں۔ ہندستان میں مارکسی ادب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ادارہ تھا جو ۱۹۵۸ء تک قائم رہا۔
تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں اردو کتابوں کی اشاعت کا کام نسبتاً دشوار ہو گیا اور پاکستان میں مارکسی خیالات کی ترویج پر پابند یاں عائد ہو گئیں لیکن دوسری طرف ہمارے ملک میں اور عالمی طور پر اشتراکی اثرات میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ یہ امر نہایت اہم ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں کارل مارکس کی بنیادی کتاب سرمایہ (داس کیپٹال) کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ادھر ماسکو کے بیرونی زبانوں کے اشاعت گھر نے روسی اور اشترا کی ادب کے اردو تراجم نہایت نفاست اور خوب صورتی سے شائع کیے ہیں اور یہ کتابیں اردو کے ہندستانی مارکیٹ میں دست یاب ہو سکتی ہیں۔
اب ہم اردو میں لینن کی کتابوں کے علاوہ روس کے اشتراکی ادیبوں میکسم گور کی، شولوخوف، بورس پالی وائے، استروسکی اور روس کے کلاسیکی ادیبوں تالستائی، چیخوف، ترگنیف، دستوفسکی، لرمنتوف کے شاہکار پڑھ سکتے ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے اردو ادیبوں نے کیے ہیں لیکن وہ شائع ماسکو سے ہوئی ہیں۔ یقیناً اردو ادب ان سے متاثر ہو رہا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ زمانہ گزر نے پر وہ اثر جو روسی انقلاب کے زمانے سے شروع ہوتا ہے اور جو اشتراکیت کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے اثر کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، اردو ادب اور اس کی نثر کو اس طرح متاثر کرےگا کہ اس میں زیادہ انسان دوستی، زیادہ حقیقت پسندی، زیادہ فکر اور گہرائی پیدا ہو اور ہمارے وطن کی تہذیبی زندگی کو اپنے خلوص، سچائی اور تابناکی سے مالا مال کر دے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.