Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کی عشقیہ شاعری

کلیم الدین احمد

اردو کی عشقیہ شاعری

کلیم الدین احمد

MORE BYکلیم الدین احمد

    ’’اردو کی عشقیہ کی شاعری‘‘ جناب رگھوپتی سہائے فراقؔ کی تصنیف ہے۔ فراقؔ صاحب ان چند پڑھے لکھے لوگوں میں ہیں جو ادب اور ادبی مسائل پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کرتے ہیں اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ اس موضوع پر اپنے رنگ کی غالباً پہلی کتاب ہے اور اس لحاظ سے دلچسپ ضرور ہے لیکن اس میں بعض ایسی خامیاں ہیں کہ ہماری دلچسپی بہت جلد بے اطمینانی سے بدل جاتی ہے۔ میں اس تبصرہ میں اپنی بے اطمینانی کے اسباب سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

    یہ کتاب حقیقت میں کتاب نہیں، ایک مقالہ ہے۔ اس لئے اس میں مقالے اور کتاب دونوں کی خامیاں آ گئی ہیں۔ مقالے کی کوئی حدود تو مقرر نہیں، یہ طویل بھی ہو سکتا ہے اور مختصر بھی۔ اس میں کسی موضوع پر سرسری بحث بھی ہو سکتی ہے اور پرمغز بھی لیکن یہ بات تو مانی ہوئی ہے کہ مقالے میں کتاب کی سی جامعیت ممکن نہیں ہے۔ عشقیہ شاعری تھا تو مقالہ اور مقالہ کی حیثیت سے مدینہ کے جوبلی نمبر میں شایع بھی ہو چکا ہے لیکن آج اسے کئی قابل قدر اضافوں کے ساتھ جن میں کئی نئی باتوں اور نئے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ۱۹۲۹ء کے بعد سے اب تک کی عشقیہ شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے , کتاب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ان اضافوں نے حجم کے لحاظ سے عشقیہ شاعری کو کتاب کی صورت دے دی ہے لیکن اس میں کتاب کی سی جامعیت نہیں۔ شاید فراقؔ صاحب کو اس کا احساس ہے، وہ کہتے ہیں،

    ’’میرا ارادہ یہ ہے کہ دوسرے اڈیشن میں پریم اور روپ، حسن وعشق کے متعلق کچھ سوالات اٹھاؤں گا اور ان کے جوابات کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ بھی سوچا ہے کہ دوسرے اڈیشن میں ہر دور کی عشقیہ غزلوں اور عشقیہ نظموں کا پورا حوالہ دے کر ان کے جنسی اور شہوانی نفسیات کا بھی جائزہ لینے کی کوشش کروں گا اور ان کی کلچرل قدروں کو بھی پر چنے پر چانے کا انتظام کروں گا۔‘‘

    فراقؔ صاحب کا یہ ارادہ کہاں تک مستحسن ہے، اس کی بحث آگے آئےگی۔ ان جملوں سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ بہت کچھ کہنے کے بعد بھی فراقؔ صاحب کا جی نہیں بھرا اور وہ بہت کچھ اور کہنا چاہتے ہیں اور اس بہت کچھ کہنے کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ مقالے کی جو خاص صفت ہوتی ہے وہ بھی جاتی رہی۔ مقالے میں جو سبکی، تازگی، لطافت ہوتی ہے، جو نیا، انوکھا، ذاتی نقطۂ نظر ہوتا ہے، ان میں بہت کچھ کمی ہو گئی ہے یعنی اس کتاب میں دومختلف چیزوں کے میل سے کچھ ابتری پیدا ہو گئی ہے اور گفتگو میں وہ سلیقہ، وہ منطقی انداز نہیں جس کی امید تھی۔

    اس موضوع پر لکھنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی تھیں، مثلاً تاریخی یعنی ہر عہد کی عشقیہ شاعری پر روشنی ڈالی جاتی اور جو عہد بہ عہد تبدیلیاں یا ترقیاں نظر آتیں، ان کا جائزہ لیا جاتا اور اردو شاعری کی مختلف صنفوں پر الگ الگ لکھا جاتا اور غزل، مثنوی وغیرہ میں جو عشقیہ عناصر ہیں، ان کا بیان کیا جاتا یا عشق کی مختلف قسموں سے بحث ہوتی اور غزل، مثنوی، مرثیہ وغیرہ سے نمونے پیش کئے جاتے جیسے فراقؔ صاحب غزل کے بارے میں کہتے ہیں، ’’غزل کی عشقیہ شاعری کی غرض وغایت ایک تو کھلی کھلی عشقیہ شاعری کرنا ہے، دوسرے عارفانہ یا فلسفیانہ یا محض انسانی یا انفرادی حسیات اور تاثرات کو حسن وعشق کا آئینہ مہیا کرنا ہے تاکہ اس آئینہ میں وجود اپنا نکھار دیکھ سکے۔‘‘

    فراقؔ صاحب نے مختلف طریقوں کو ملا دیا ہے۔ کہیں تاریخی انداز ہے اور قدیم وجدید تغزل کا ذکر ہے اور پھر گذشتہ چھ سال میں عشقیہ شاعری نے جو کروٹیں لی ہیں، ان کا بیان ہے۔ کبھی کبھی الگ صنفوں کی گفتگو ہے۔ غزل، مثنوی، مرثیہ واسوخت، آزاد نظم میں عشقیہ شاعری کے نمونوں کی تلاش ہے اور کبھی فلسفیانہ رنگ میں عشقیہ شاعری کی الگ الگ قسمیں بتائی گئی ہیں، نتیجہ لازمی پراگندگی ہے۔

    پھر ان چیزوں کے علاوہ بھی بہت ساری باتیں ہیں جو اکثر غیرضروری بھی ہیں اور غیرمتعلق بھی۔ کہیں فلسفیانہ عشق ہے تو کہیں اردو شاعری کی تاریخ، کبھی نظم اور غزل کا جھگڑا چکایا گیا ہے تو کہیں اردو لغت کے مسئلہ پر اظہار خیال ہے۔ ایک طرف کلچر کی بحث چھیڑ دی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی رباعیوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے ہرایک پر ایک الگ کتاب یا کم سے کم مقالہ لکھا جا سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ’’عشقیہ شاعری‘‘ جیسی مختصر سی کتاب میں یہ سب باتیں سما نہیں سکتیں، اس لئے ہر موضوع تشنہ ہے، ہر بات سرسری ہے۔ مثلاً گزشتہ پانچ چھ برسوں کے عرصے میں شاعری کے جو قابل قدر مجموعے (؟) شائع ہوئے ہیں، ان کا ذکر ناکافی ہے۔ راشدؔ، فیضؔ، اختر الایمان، یوسفؔ ظفر، اختر انصاری مجازؔ، جذبیؔ، زیدیؔ، جمالؔ، احسانؔ دانش، مخدوم محی الدین، احمدؔ ندیم قاسمی، جوشؔ، اختر شیرانی، چودھری منظورؔ احمد، نہالؔ سیوہاروی، کیفیؔ اعظمی، سلامؔ مچھلی شہری سبھوں کی تعریف ہے، تنقید نہیں۔ ایسیا معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان شعراء کی تصنیفوں کی فہرست قارئین کی آسانی کے لئے مرتب کر دی ہے یا پھر ان تصنیفوں کا اشتہار مقصود ہے۔

    ایک دوسری طرح کی مثال لیجئے۔ فراقؔ صاحب مسئلۂ عشق سے متعلق دس سوال پیش کرتے ہیں۔ طوالت کے خیال سے میں صرف تین سوال یہاں نقل کرتا ہوں، (۱) کیا میاں کو صرف بی بی سے اور بی بی کو صرف میاں سے عشق ہونا چاہئے یا ہوتا ہے۔ (۹) اور امرد پرستی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیونکہ خواہ آپ اسے غیرفطری کہیں، خواہ مکروہ اور ذلیل، خواہ آپ تعزیرات ہند کا سہارا لیں، یہ یاد رہے کہ جو لوگ امرد پرستی کے مرتکب ہیں، وہ نہ تو خود جرائم پیشہ ہوتے ہیں، نہ ذلیل نہ رذیل نہ کمینے، نہ عام طور سے خراب آدمی ہوتے ہیں بلکہ کئی امرد پرست تو اخلاق اور تمدن اور روحانیت کی تاریخ کے مشاہیر رہے ہیں جیسے سقراطؔ، سیزرؔ، مائیکلؔ اینجلو، سرمد، شیکسپیئرؔ اور دنیا بھر میں لکھوکھا آدمی جو امرد پرست رہے ہیں، وہ نہایت شریف آدمی رہے ہیں۔ (۱۰) اسی طرح عورت کو عورت سے بھی جنسی یا شہوانی محبت رہی ہے اور یہ عورتیں بھی ذلیل نہیں ہوتی تھیں۔

    فراقؔ صاحب یہ سوالات تو پیش کرتے ہیں اور ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن ان کا حل نہیں پیش کرتے۔ پھر ان سوالات کا حاصل؟ جس تیور سے یہ سوالات کئے گئے ہیں، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ میاں بی بی کو ایک دوسرے سے عشق نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہیے اور امرد پرستی بہت اچھی چیز ہے اور اسی طرح عورت کی عورت سے شہوانی محبت بھی کوئی بری چیز نہیں۔ اگر فراقؔ صاحب کا ایسا خیال ہے تو وہ اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن اس خیال کی تشہیر اس کتاب میں تو ضروری نہ تھی۔ پھر یہ بھی ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ امرد پرستی والے سوال کو اور سوالوں سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور پھر اس ضمن میں واقعہ، حقیقت اور منطق پر جو دانستہ ظلم روا رکھا گیا ہے، اس کی مثالوں سے یہ کتاب بھری پڑی ہے اور یہ ظلم ایک بڑی حد تک نوجوان انشاء پردازوں، خصوصاً ترقی پسند انشا پردازوں کی تحریروں کی عام خصوصیت ہے۔

    آئیے اس سوال (۹) کا جائزہ لیں۔ فراقؔ صاحب فرماتے ہیں، ’’یاد رہے کہ جو لوگ امرد پرستی کے مرتکب ہیں، وہ نہ تو جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور نہ رذیل، نہ ذلیل، نہ کمینے، نہ عام طور سے خراب آدمی ہوتے ہیں۔‘‘ مجھے نہیں معلوم کہ اس بیان کے لئے فراقؔ صاحب کے پاس کیا ثبوت ہے، کیا انھیں دور حاضر کے سارے امرد پرستوں کی نجی زندگی کے حالات معلوم ہیں، اگر معلوم نہیں تو پھر اس قسم کی مہمل بات کہنے سے فائدہ؟ کیا فراق صاحب کا مطلب ہے کہ امرد پرستی ایسا اچھا مذہب یا اخلاق ہے جو ہمیں رذالت، جرائم، کمینہ پن سے یک قلم محفوظ رکھتا ہے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سب لوگ امرد پرست ہو جائیں تو دنیا میں جتنی برائیاں ہیں، وہ دفع ہو جائیں گی؟ کیا انہیں اس بات سے انکار ہے کہ امرد پرست بھی جرائم پیشہ اور ذلیل وکمینہ ہو سکتے ہیں؟ کیا انھوں نے ABNORMALITY کے مسئلہ اور اس کے نتائج پر غور کیا ہے اور جو لٹریچر موجود ہے، اسے پڑھا ہے؟ پھر ان کے دوسرے جملہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر انھوں نے کبھی منطق پڑھی تھی تو اسے بالکل بھول گئے ہیں، فرماتے ہیں، ’’بلکہ کئی امرد پرست تو اخلاق اور تمدن اور روحانیت کی تاریخ کے مشاہیر رہے ہیں۔‘‘

    معلوم نہیں اس جملہ سے فراق صاحب کے خیال میں کیا ثابت ہوتا ہے، کیا انھیں اس کا احساس ہے کہ اس جملہ سے کوئی منطقی نتیجہ اخذ نہیں ہو سکتا ہے؟ کیا ان کا مطلب ہے کہ ہر امرد پرست سقراطؔ، سیزرؔ یا سرمدؔ ہے؟ یا جتنے اخلاق اور روحانیات کی تاریخ کے مشاہیر رہے ہیں وہ سب امرد پرست رہے ہیں؟ شاید وہ یہ نہیں سمجھتے کہ سقراطؔ اور سرمدؔ اور شیکسپیئرؔ کی بزرگی کا سبب ان کی امرد پرستی نہیں تھی۔

    تیسری مثال مسئلہ اردو لغت ہے۔ ممکن ہے کہ برسوں اس مسئلہ پر فراقؔ صاحب نے غور کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ برسوں کے غوروفکر کے بعد وہ اظہار خیال کرنا چاہتے ہوں لیکن اظہار خیال کا تو یہ موقع نہ تھا۔ وہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھ سکتے تھے، اسں لئے کہ یہ موضوع کچھ آسان نہیں۔ پھر جو حل وہ پیش کرتے ہیں، وہ سطحی ہے اور قبول کئے جانے کے لائق نہیں اور اس میں لسانیات کے اصول سے بے خبری ظاہر ہوتی ہے، فرماتے ہیں، ’’کوئی ہندی لغت یا ہندی شبد ساگر کا چھوٹا اڈیشن لے لیا جائے اور اس میں سے خوبصورت سنسکرت الفاظ چھانٹ لئے جائیں اور وہ الفاظ تو خاص طور سے چن لئے جائیں جن کے عربی اور فارسی ترجمے ہو ہی نہیں سکتے تب صحیح معنوں میں اور نہایت اہم معنوں میں اردو صرف ہندو مسلمان کی مشترکہ کاروباری زبان ہی نہ ہوگی بلکہ ہندو کلچر اور مسلم کلچر کا سنگم بن جائےگی۔‘‘

    پہلی بات تو یہ ہے کہ الفاظ کا انتخاب کون کرےگا؟ فراقؔ صاحب یا کوئی کمیٹی؟ پھر خوبصورتی کا کیا معیار ہوگا؟ پھر شاید فراقؔ صاحب کو معلوم نہیں کہ زبان اس طرح سے پھلتی پھولتی نہیں۔ اگر خوبصورت سنسکرت الفاظ کی اردو کو ضرورت ہوگی تو وہ الفاظ اردو میں آ جائیں گے اور اس قسم کے انتخاب کی بالکل ضرورت نہ ہوگی جس کی طرف فراقؔ صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ اردو انشا پرداز اور شاعر اگر ضرورت سمجھیں گے تو اس قسم کے الفاظ کا استعمال کریں گے اور ان میں سے بہت سے مقبول ہوں گے تو بہت سے مردود۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس مسئلہ کو چھیڑنے کی غایت صرف یہ ہے کہ فراقؔ صاحب اپنی کچھ رباعیاں نمونتاً نقل کر سکیں۔ رباعیاں اچھی ہوں یا بری ان کے نقل کرنے کا موقع ومحل یہ کتاب تو نہ تھی۔ مجھے کہنے دیجئے یہ رباعیاں مجھے بہت کھٹکیں۔

    اسی طرح فراقؔ صاحب کے اشعار بھی جن سے انھوں نے اپنی کتاب کی تزئین کی ہے، میری بے اطمینانی کا سبب ہوئے۔ فراقؔ صاحب اچھے غزل گو شاعر ہیں لیکن اس کتاب میں اگر وہ اپنے اشعار نقل نہ کرتے تو اچھا تھا۔ ہرجگہ، میرا شعر ہے، مجھے اپنا ہی شعر یاد آیا، جیسا میں نے اپنے شعر میں کہا ہے، راقم الحروف، اپنے کچھ شعر حاضر کرتا ہوں، یا پھر میرے ہی یہ اشعار، وغیرہ دیکھ کر ذوق لطیف مکدر ہو جاتا ہے۔ فراقؔ صاحب کو اس کا احساس ہے کہ ان کی یہ ترکیب اچھی نہیں اور انہیں خود بھی اس بات کا اعتراف ہے۔ کہتے ہیں، ’’میں اس مضمون میں اپنے شعر درج کرکے بہت خوش نہیں ہوں لیکن خود اپنے شعر سے اثر لینے کا مجھے بھی حق دیجئے۔‘‘

    لیکن جو بہانہ وہ ڈھونڈ نکالتے ہیں، وہ بہانہ ہی ہے اور بس۔ ہر شاعر کو اپنے شعر سے اثر لینے کا حق حاصل ہے اور وہ اثر لیتا بھی ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ جو کتاب بھی لکھے اسے اپنے شعروں کا مجموعہ بنا ڈالے۔ یہ خود نمائی اچھی بات نہیں اور فراقؔ جیسے پڑھے لکھے سمجھدار آدمی کی یہ خودنمائی بہت بری لگتی ہے۔ اس قسم کی اور بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن تفصیل کی گنجائش نہیں۔ غرض اس کتاب میں حسنِ صورت، باتوں کو مربوط ومنظم طور پر پیش کرنے کا سلیقہ، منطقی استدلال نہیں، باتیں اکھڑی اکھڑی ہیں، جلد بازی ہے، پراگندگی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مضمون ’’رواداری اور عین علالت میں لکھا گیا ہے۔‘‘ اس لئے جہاں سیکڑوں نظموں کا جائزہ لینا ممکن نہ تھا، اسی طرح ان محاسن کی طرف بھی خیال نہیں گیا۔

    حسن صورت کی خامی کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں اس کتاب میں ہماری بے اطمینانی کا سبب ہوتی ہیں۔ کہیں لہجہ پیمبرانہ ہے اور آئندہ کے متعلق نہایت تیقن کے ساتھ پیشین گوئی کرتے ہیں، کہیں نہایت اطمینان کے ساتھ قطعی فیصلے کئے جاتے ہیں، کہیں نفسیات کے مسئلے چھیڑ دیے جاتے ہیں تو کبھی مارکسی نظریوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ایسی باتوں کو جن پر بہت کچھ بحث کی گنجائش ہے، جانی ہوئی حقیقت کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ پھر اسلوب میں رومانیت ہے، لہجہ میں نوجوانی کی امنگ اور نوجوانی کی بے صبری اور بے اعتدالی ہے، کبھی کہتے ہیں، ’’دنیا میں جو دور آ رہا ہے وہ محض سیاسی یا معیشی جمہوری کا دور نہیں ہے بلکہ تمدن اور تہذیب یعنی کلچر کی جمہوریت کا بھی دور ہے۔‘‘ یا ’’نئی تہذیب اور نئے سماج میں عشق بغاوت نہ ہوگا بلکہ بغاوت وغداری کے بدلے وہ افراد میں زندہ تعلقات کا آئینہ دار ہوگا اور مستقبل کی عشقیہ شاعری اس آئینہ کی جلاسازی کرتی ہوئی نظر آئےگی۔‘‘

    ان دونوں جملوں میں پیمبرانہ شان ہے۔ آئندہ جو ہونے والا ہے اس کی پیشین گوئی ہے لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ دونوں جملوں کو موضوع زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ فراقؔ کا موضوع تو اردو کی عشقیہ شاعری ہے۔ مستقبل کا جمہوری کلچر اور عشقیہ شاعری نہیں اور یہ کہے بغیر بھی چارہ نہیں کہ مستقبل کا جو خواب فراقؔ صاحب بیان کرتے ہیں وہ ان کا دیکھا ہوا نہیں۔ دوسرے کے دیکھے ہوئے خواب کی تکرار کرتے ہیں یعنی وہ بھی اسی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں جو نوجوان ترقی پسند ادیبوں کی مخصوص کمی ہے یعنی دیکھنا تودوسروں کی آنکھوں سے دیکھنا اور سوچنا تو دوسروں کے دماغ سے۔ کبھی فرائڈ اور اس کے خوشہ چینوں کے دماغ سے سوچتے ہیں تو کبھی مارکسؔ اور اس کے متبعین کے دماغ سے۔

    کہتے ہیں، ’’صلیب وہلال جنسیاتی تمثلیں ہیں، زندگی جنسیت سے عبارت ہے۔‘‘ یہ خیال اردو میں نیا معلوم ہو تو ہو لیکن حقیقت میں نیا نہیں، جنھیں واقفیت ہے وہ جانتے ہیں کہ فراقؔ صاحب کوئی نئی بات نہیں کہہ رہے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ فراقؔ صاحب اس خیال اور اس قسم کے خیالات کو بغیر سوچے ہوئے بغیر جانچے ہوئے غیرناقدانہ طور پر اخذ کر لیتے ہیں۔ پھر فراقؔ صاحب کو اس کا احساس نہیں کہ ’’زندگی جنسیات سے عبارت ہے‘‘ تشریح طلب بھی ہے اور ثبوت کا محتاج بھی۔ زندگی اور جنسیت دونوں کی تشریح ضروری ہے۔ کیا فراقؔ صاحب کو علم نہیں کہ خود فرائڈ پر یہ اعتراض ہے کہ وہ جنسیت (SEX) کے لفظ کو غیرمتعین معنی میں استعمال کرتا ہے اور جس مفہوم میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہے، اس کی صاف صاف تشریح نہیں کرتا؟

    جنسیت کا ایک محدود مفہوم ہے، وہی مفہوم جس میں عام طور پر استعمال ہوتا ہے اور اگر زندگی عبارت ہے اس محدود قسم کی جنسیت سے تو پھر جس قدر جلد یہ ختم ہو جائے اچھا ہے۔ دوسری جانب ہم اس لفظ کو ایسے بزرگ مفہوم میں استعمال کر سکتے ہیں کہ یہ زندگی کا مترادف ہو جائے۔ اس صورت میں ’’زندگی جنسیات سے عبارت ہے‘‘ کے معنی صرف یہ ہوں گے کہ زندگی زندگی سے عبارت ہے، جو کوئی بات نہیں۔ پھر ذرا یہ بھی سوچنا چاہئے کہ زندگی کیا محض جینا ہے۔ اگر زندگی صرف جینے اور جئے جانے کو کہتے ہیں تو پھر انسانی زندگی اور جانوروں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں، اور زندگی کو صرف اس مفہوم میں استعمال کرنا، زندگی اور انسانیت اور سمجھ اور انصاف بھی کا خون کرنا ہے۔ کیا جس زندگی کی تصویر برنارڈ شا نے پیش کی ہے وہ جنسیت سے عبارت ہے؟ اگر ہے تو پھر جنسیت کوئی اور چیز ہے، وہ نہیں جسے ہم عام طور پر سمجھتے ہیں۔

    کہیں فرائڈؔ سے استفادہ ہے تو کہیں مارکسؔ کے خیالات کی غیرناقدانہ تشہیر ہے۔ کہتے ہیں، ’’وجود کے ہمہ گیر تصادم اور جدلیت میں جو ہم آہنگی چھپی ہوئی ہے، ساز ہستی کو چھیڑ کر اس ہم آہنگی کے احساس کو اکسانا غزل کی عشقیہ شاعری کی غرض وغایت ہے۔‘‘ مجھے سردست غزل کی عشقیہ شاعری کی غرض وغایت سے بحث نہیں، محض یہ دکھانا ہے کہ وجود کے ہمہ گیر تصادم اور جدلیت میں میں چھپی ہوئی ہم آہنگی کا خیال مارکسؔ سے لیا گیا ہے، فراق صاحب کی اپنی ایجاد نہیں۔ کبھی فراقؔ صاحب نے اس جدلیت سے متعلق غوروفکر کیا ہے؟ کیا انھیں کبھی اس بات کا احساس ہوا ہے کہ مارکسؔ کے خیالات کی فلسفیانہ بنیاد مضبوط نہیں؟ کیا انہیں علم ہے کہ مارکسؔ کے فلسفہ کی بنیاد ہیگلؔ کا فلسفہ ہے جس کی بنیاد کمزور ہے؟

    ہر جگہ ان کے خیالات مارکسؔ کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ جب وہ کلچر کی گفتگو کرتے ہیں، جب وہ سیاسی یا معیشی جمہوریت کے دور کے ساتھ ساتھ تمدن اور تہذیب کی جمہوریت کا خواب دیکھتے ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ اردو شاعری محض ایک طبقہ کی چیز ہوکر رہ گئی ہے یا کچھ ہمارے ادب اور شاعری کو بھی عوام کے قریب آنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرض ہر جگہ یہی رنگ ہے۔ وہی رنگ جو عام ترقی پسند تنقیدوں میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ رنگ بہت گہرا ہے لیکن بہت اچھا نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیائے ادب بہت جلد ایک رنگ میں رنگ جانے والی ہے اور وہ ہمیشہ رہنے والا رنگ ہے اور اس رنگ کا نام ہے سیاہی ہمہ گیر سیاہی۔

    فرائڈؔ اور مارکسؔ کی تقلید جس تنقیدی نظر کی کمی کی خبر دیتی ہے، اس کمی کی بہت سی اور بہت قسم کی مثالیں اس کتاب میں نظر آتی ہیں، مثلاً ایک جگہ بہ بانگ دہل کہا جاتا ہے، ’’ہم اسے سچی عشقیہ شاعری نہیں کہتے، جو ہماری رگوں میں خون نہ دوڑا دے اور ہماری زندگی کو بھرپور نہ بنا دے۔‘‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ شاعری کا، وہ عشقیہ ہو یا کسی اور قسم کی، یہ کام نہیں کہ رگوں میں خون دوڑا دے اور ہماری زندگی کو بھرپور بنا دے (معلوم نہیں کہ زندگی کو بھرپور بنانے سے فراقؔ صاحب کا کیا مطلب ہے) یہ تو وہی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے آج شاعر سے زندہ پیغام مانگا جاتا ہے، قومی شاعری کو حاصل شاعری سمجھا جاتا ہے اور انقلاب انقلاب کا نعرہ بلند کرنے کو اور بیدار ہو بیدار ہو، مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم، غریبی کو مٹا دیں گے، غریبی کومٹا دیں گے اور اسی قسم کی مہمل گوئی کو حاصل شاعری سمجھا جاتا ہے۔ شاعری پیغام نہیں، پروپیگنڈا نہیں، نعرہ بازی نہیں، کچھ اور چیز ہے۔

    بہرکیف فراقؔ صاحب عشقیہ شاعری کے بارے میں یہ دعویٰ کرنے کے بعد جب میرؔ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو عجیب چپقلش میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میرؔ کی عشقیہ شاعری ہماری رگوں میں خون نہیں دوڑاتی، ہماری زندگی کو بھرپور نہیں بنا دیتی اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ میرؔ بڑا شاعر ہے۔ غرض عجب مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک طرف ان کا نظریہ ہے جسے وہ ترک نہیں کر سکتے، دوسری طرف میرؔ کی شاعرانہ بزرگی کی اٹل حقیقت ہے، اب کیا کریں؟ اس لئے ایک طرف تو یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ میرؔ کی عشقیہ شاعری میں جو مہلک عناصر ہیں، اس کے ذمہ دار میرؔ نہیں، کہتے ہیں، ’’میرؔ کی عشقیہ شاعری میں جو مہلک عناصر ہیں۔۔۔ جو موت کے آثار ہیں، ان کی بدشگونی اس زمانے کی اداس سماجی فضا اور میرؔ کے بچپن کے حالات میں ملتے ہیں۔‘‘

    وجہ کچھ بھی ہو، اگر میرؔ کی عشقیہ شاعری میں موت کے آثار ہیں تو بقول فراقؔ وہ سچی عشقیہ شاعری نہیں ہو سکتی ہے لیکن فراقؔ میں یہ جرأت نہیں، یہ منطقی طرز خیال نہیں کہ وہ اس نتیجہ کو پہنچ سکیں، اس لئے وہ کہتے ہیں، ’’یہ اور بات ہے کہ میرؔ نے مرکھپ کے ان عناصر کو چمکا دیا ہے۔ اپنی زندگی گنوا کے موت کے عنصروں کو زندگی کے عناصر بنا دیا ہے۔‘‘ یعنی میرؔ کی شاعری اپنے مہلک عناصر کے باوجود بھی سچی شاعری ہے تو پھر فراقؔ کے نظریہ کا کیا حشرا ہوا؟ یہ اب فراقؔ جانیں۔

    چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں اور یہ مثالیں بلاتخصیص پیش کی گئی ہیں،

    (۱) شاعر تو میرؔ بڑا ہے لیکن بڑا فنکار یا غزل گو غالبؔ ہے۔

    (۲) خواجہ میر اثرؔ کی مثنوی ’’خواب وخیال‘‘ قیامت کی عشقیہ مثنوی ہے۔

    (۳) اس کے بعد انیسؔ اور دبیرؔ نے مرثیے کہے اور اردو کی غیرعشقیہ شاعری کو دنیا کی غیرعشقیہ شاعری اور غیررومانی شاعری کے دوش بدوش کر دیا۔

    (۴) مجازؔ شاعر انقلاب ہے جو معنوی اور اصولی تہیں، جو بلیغ اشارے اور سماجی فلسفہ کا عطر ان کے کلام میں ہے، ان تک آسانی سے ان لوگوں کی نظر نہیں پہنچ سکتی جو فلسفۂ تاریخ اور فلسفۂ ارتقاء وانقلاب سے واقف نہیں۔

    (۵) یہ نظم (’’رقیب سے‘‘) ایسی ہی نظم تھی۔ اردو کی عشقیہ شاعری میں اب تک اتنی پاکیزہ، اتنی چٹیلی اور اتنی دور رس اور مفکرانہ نظم وجود میں نہیں آئی، نظم نہیں ہے بلکہ جنت اور دوزخ کی وحدت کی رات ہے۔ شیکسپیئرؔ، گوئٹے ؔ، کالیؔ داس اور سعدیؔ بھی اس سے زیادہ رقیب سے کیا کہتے۔

    (۶) سماج جنسیات کی پیداوار ہے اور جنسیات سماج کی۔

    ان مثالوں اور اس قسم کی مثالوں میں بہت سے اور بہت قسم کے جھول ہیں۔ پہلا جملہ تشریح طلب ہے۔ شاعر اور فنکار یا غزل گو میں کیا فرق ہے؟ شاعر اگر میرؔ بڑا ہے تو اس کی بزرگی کے عناصر کیا ہیں۔ اس بزرگی کا سبب کیا ہے۔ کیا میرؔ بڑا فن کار نہیں؟ کیا فنکاری کچھ اور چیز ہے اور شاعری کچھ اور؟ کیا غالبؔ بڑا فن کار اس لئے ہے کہ اس کی شاعری میں تنوع زیادہ ہے اور اس کی شاعری کی دنیا میرؔ کی دنیا کی طرح محدود نہیں۔ خواجہ میر اثرؔ کی مثنوی، قیامت کی عشقیہ مثنوی نہیں۔ قیامت کی مثنوی سے کیا مراد ہے؟ مثنوی ’’خواب وخیال‘‘ زبان کی خوبی کے لحاظ سے قابل تعریف ضرور ہے لیکن ادب وشاعری کی دنیا میں اس کا پایہ بلند نہیں۔ سب سے بڑی کمی اس میں دلچسپی کا فقدان ہے (دیکھو اردو شاعری پر ایک نظر) انیسؔ ودبیرؔ کے مرثیوں کا مقابلہ ’’دنیا کی غیرعشقیہ اور رومانی شاعری‘‘ سے نہیں ہو سکتا ہے۔ اس قسم کا دعویٰ محض جذبہ وطنیت کا تقاضا ہے اور بس۔ اس کو تنقید اور سمجھ اور علمی واقفیت سے کوئی سروکار نہیں۔

    مجازؔ کی شاعری میں معنوی اور اصولی تہیں، بلیغ اشارے بالکل نہیں ملتے۔ جو تہیں اور اشارے ہیں وہ سطحی ہیں اور ان کی بنیاد مارکسی خیالات پر ہے، نہ تو مجازؔ اور نہ کسی دوسرے ترقی پسند شاعر نے فلسفۂ سماج، فلسفۂ تاریخ اور فلسفۂ ارتقا وانقلاب پر کبھی بھولے سے سوچا ہے اور نہ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، محض مستعار خیالات کی تشہیر کرتے ہیں۔ فیضؔ کا ذکر شیکسپیئرؔ، گوئٹے، کالیؔ داس اور سعدیؔ کے ساتھ کرنا اپنی بدمذاقی کا ثبوت دینا ہے۔ جہاں تمیز کی اس قدر کمی ہے، اس کی تنقید پر بھروسہ کیسے کیا جائے۔ سماج جنسیات کی پیداوار ہے اور جنسیات سماج کی، معلوم نہیں اس جملے سے کیا مطلب ہے، یہ تو تصوف کا کبھی نہ حل ہونے والا نکتہ معلوم ہوتا ہے۔

    باتیں بہت کچھ کہنے کو باقی ہیں لیکن ’’معاصر‘‘ کے صفحے زیادہ تفصیل کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن ایک اور بات کہے بغیر چارہ نہیں اور وہ فراقؔ کی انشا سے متعلق ہے۔ اس کتاب کا انتساب فراقؔ نے اپنے خاص رنگ میں کیا ہے جس کے لفظ لفظ سے رومانیت ٹپکی پڑتی ہے۔ یہ رومانیت فراقؔ کی انشا کی ہے جو ان کی تنقید کی سب سے بڑی بدنمائی ہے۔ تنقید کی زبان سیدھی سادی، صاف، متعین، سائنٹفک ہونی چاہئے لیکن فراقؔ اس رومانیت کو روکتے نہیں۔ روکنے کے بدلے اس میں غلو سے کام لیتے ہیں۔ اس رومانیت کی وجہ سے عام قارئین تو کچھ زیادہ مرعوب ومتاثر ہو جاتے ہیں، سطحی نظر فریب میں آجاتی ہے لیکن اہل نظر جانتے ہیں کہ رومانیت خود بھی بری چیز ہے اور بہت سی برائیوں کی جڑ بھی ہے۔ اسی کا فیض یہ ہے کہ فراقؔ صاحب کبھی کبھی بہک جاتے ہیں اور بہت بہک جاتے ہیں۔ باتیں صاف صاف اور سمجھ سوچ کر نہیں کرتے، لطف زبان یا شاعرانہ فقرہ تراشی کو تنقیدی صحت پر ترجیح دیتے ہیں۔

    اگر فراقؔ صاحب اس کتاب کا دوسرا اڈیشن نکالیں تو پریم اور روپ کے متعلق سوالات اٹھانے، ہر دور کی عشقیہ نظموں اور غزلوں کا پورا پورا حوالہ دینے اور کلچرل قدروں کو پرچنے پرچانے کے بدلے ان باتوں کی طرف توجہ دیں جن پر میں نے ایک سرسری نظر ڈالی، ورنہ یہ سوالات اٹھائے اور یہ بحثیں چھیڑیں تو پھر ایک کتاب کے بدلے کئی کتابیں لکھنی ہوں گی اور مجھے ڈر ہے کہ ان کتابوں کو ادبی تنقید سے کچھ زیادہ لگاؤ نہ ہوگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے