اُردو نظم کا باوقار حوالہ ...ثمینہؔ راجہ
ثمینہ راجہ کا بنیادی تعلق میرے آبائی گائوں راجہ کوٹ تحصیل وضلع رحیم یار خان سے تھا ۔1990ء سے اسلام آباد میں مقیم تھیں ۔ثمینہ راجہ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اُردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔شاعری کا آغاز 1973 ء میں کیا اور 12 شعری مجموعے، دو کلیات اور رومانوی آیات پر مشتمل ایک انتھالوجی تصنیف کی۔ثمینہ راجہ کے اُردو نثری مضامین بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ متعدد تحریروں کے انگریزی سے اُردو میں تراجم بھی کیے۔ اُردو نظم میں ملکہ حاصل رہا ۔ شعری نشستوں میں بہت کم شرکت کرتیںتھیں ۔
ثمینہ راجہ نے بیک وقت بطور شاعرہ، مصنفہ، ایڈیٹر، مترجم، ماہر تعلیم اور براڈکاسٹرخود کو منوایا۔ نیشنل لینگویج اتھارٹی میں بطور سبجیکٹ اسپیشلسٹ بھی کام کرتی ر ہیں۔ 1998 ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن میں بطور کنسلٹنٹ اور ماہنامہ’’ کتاب‘‘ کے ایڈیٹر کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر اسلام آباد میں منعقدہ مشاعروں کی میزبانی کی ۔ ثمینہ راجہ نے پی ٹی وی پرایک مشہور ادبی پروگرام ’’اُردو ادب میں عورت کا کردار‘‘ کی طویل سیریز بھی پیش کی ۔
ثمینہ راجہ اپنے عہد کی خواتین شعرا ء میں نمائندہ اور صف ِ اَوّل کے قلم کاروں میں شامل رہیں ۔ منفرد اُسلوب اور جدید تراکیب اُن کی شاعری کا خاصہ ہیں ۔ثمینہ راجہ کی زیر اِدارت متعدد اَدبی رَسائل بھی شایع ہوتے رہے ۔ ذیل میں اُردو شعر و اَدب کی دو نمائندہ شخصیات کی ثمینہ راجہ کی فن و شخصیت پر مختصر آرا ء ملاحظہ فرمائیں :
’ ’ثمینہ راجہ شاعری کے جملہ محاسن سے پوری طرح آگاہ ہیں اور حیرت انگیز طورپر اُن کی پوری گرفت بھی ہے ۔ وہ شعراکی اس مختصر ترین تعداد سے تعلق رکھتی ہیں جو فن پر پورا عبور رکھتی ہے ۔ جہاں تک شعری موضوعات کا تعلق ہے ، ان کی شاعری میں ذات کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں ، جن پر محبت کا جگمگاتا ہوا رنگ غالب ہے ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیر ت ہوتی ہے کہ بے پناہ تخلیقی وفور کے باوجود وہ خود اپنی شاعری کی کڑی نقاد ہیں اور ضرورت سے زیادہ آواز بلند نہیں کرتیں ۔ اَوزان و بحور پر مکمل گرفت ، خوب صورت ترین آہنگ ، شدید حساسیت ، اور جدیدیت ، ان کی شاعری کے نمایاں اَوصاف ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تمام تر تخلیقات جادو کا سا اَثر رکھتی ہیں اور ان میں روحِ عصر کی دھڑکن صاف طور پر دکھائی دیتی ہے‘‘ ۔ احمد ندیم قاسمی
’’ثمینہ اس وقت شاعری کی اس منزل پر ہیں ، جہاں آدمی مدّتوں کی صحرا نوردی کے بعد پہنچتا ہے ۔ وہ نظم اور غزل دونوں میں اتنی خوب صورت شاعری کر رہی ہیں کہ آج انگلیوں پر گنے جانے والے گنتی کے شاعروں میں اُن کا شمار ہوتا ہے ۔ شاعری بہت مشکل چیز بھی ہے اور بہت آسان بھی ۔ آسان اس لیے کہ آپ کو ہر طرف بے شمار شاعر نظر آئیں گے مگر مشکل اس وقت ہو جاتی ہے جب اتنی بڑی تعداد میں لکھنے والی مخلوق موجود ہو اور اس میں اپنا ایک الگ تشخص اور قدو قامت قائم کیا جائے اور اس میں ثمینہ کو نہ صرف کامیابی ہوئی ہے بلکہ وہ ان سب سے آگے نظر آتی ہے ۔شاعری کے علاوہ ان میں ایک اور وصف بھی ہے کہ کئی اَدبی رَسائل کی مدیر ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ہی کی وجہ سے ان رَسائل کا وقار بلند ہو اہے‘‘۔اَحمد فراز
12شعری مجموعوں کی خالق ثمینہ راجہ طویل عرصہ کینسر کے مرض میں مبتلا رَہ کر 2012ء میں51سال کی عمر میں اسلام آباد میں انتقال کر گئیں۔
ثمینہ راجہ کی نظم میں محبت اور آرزو کے نسائی اور انسانی تناظر، ماضی اور ماضی کی زندگیوں کی یادیں، نئے زمانے کے سماجی ، افسانوی ،نفسیاتی مسائل اور مابعدالطبیعاتی مضامین نہایت عمدگی سے ملتے ہیں ۔ثمینہ راجہ اپنے عہد کی نامور شاعرہ رہیں۔ انہیں غزل اور نظم دونوں پر مکمل عبور حاصل رہا ۔چند اُردو نظمیں بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
مجھے نیا طلسم دے
خدائے دل !
مجھے بتا میں کیا کروں
کہ راز مجھ پہ ہوں عیاں
کہ رنگ مجھ پہ کِھل اُٹھیں
ہووقت مجھ پہ مہرباں ،
مرے یہ پائوں
راہ کی تپش سے اب جھلس گئے
مری نظر بھی تھک گئی
مجھے ملا نہیں نہالِ سبز کا کوئی نشاں
نہ شہر میں کوئی صدائے آشنا
نہ صبحِ دلبری ۔۔ نہ شامِ دوستاں
مرا نصیب سوچکا
مرا طلسم کھو چکا ،
خدائے دل !
٭
اچانک
سرد تھے ہونٹ
بہت زرد تھی یہ شاخِ بدن
سخت پتھرائی ہوئی تھیں آنکھیں
دشت کی طرح تھی ساری دنیا
آسماں ، درد کا لمبا صحرا ،
جانے کیا بات چلی باتوں سے
جانے کس طرح ترا ذکر چھڑا
ایسا لگتا ہے تنِ مردہ میں
روح پھونکی ہے کسی نے تازہ
٭
کتابوں میں لکھی ہوئی زندگی
کئی بار ایسا ہوا ہے
کتابوں کو پڑھتے ہوئے
سخت حیران ہوکر
مرے دل نے آنکھیں مَلیں
اور حیرت سے آنکھوں کو سکتہ ہوا
دیر تک سوچتی رَہ گئی
کیا حقیقت میں بھی ایسی ہوگی
کتابوں میں لکھی ہوئی زندگی ؟
(نظموں کا مجموعہ : ھویدا )
٭
یہ عشق سپہر رنگ میرا
یہ زیست اگرچہ پُر خطرہے
جنگل میں یہ شام کا سفر ہے
لیکن مرے ساتھ چل رہا ہے
سایا کہ خیال یا تصّور
اِس عرصۂ زندگی میں شاید
آئے مری طرح اِک مسافر
اک نرم ، لطیف مسکراہٹ
ہر گام پہ دیتی ہے پناہیں
ہر سمت سے مجھ کو گھیرتی ہیں
وہ راز کی طرح چُپ نگاہیں
اِک عشق سپہر رنگ پھر سے
آنکھوں میں قیام کر رہا ہے
اک خواب کے فاصلے سے کوئی
اِ س دل سے کلام کر رہا ہے
شعری مجموعہ : شہرِ سبا
٭
نیند آتی نہیں
آنکھ حیران ہے
آنکھ کے سامنے
صبح آتی ہے ...آکر گزر جاتی ہے
شام آتی ہے ...پَل بھر ٹَھہر جاتی ہے
رات آتی ہے ...اور پھر گزرتی نہیں
چاند تارے زمیں پر اُتر آتے ہیں
بات کرتی ہے سرگوشیوں میں ہَوا
پھول ہی پھول سانسوں میں کِھل جاتے ہیں
دھیان کے روزنوں سے ...ترے خواب سب
جھانگکتے ہیں ۔۔۔مگر پاس آتے نہیں
جھلملاتی ہیں ...مگر پاس آتے نہیں
ایک اُمید پر مسکراتی نہیں
رات آتی ہے ...آکر ٹھہر جاتی ہے
نیند آتی نہیں !
نظموں کا مجموعہ: بازدید
٭
وقت کے اُس نگارخانے میں
آج پھر اِس شب بہاراں میں
مانگتا ہے یہ دل ذرا مہلت
چند لمحوں کی ، چند ساعتوں کی
زندگی سے نظر بچائے ہوئے
خواب کا اِک دیا جلائے ہوئے
پھر سے اُس سر زمین تک جائے
جس جگہ چاند کی حکومت تھی
اور ستاروں کی بزم آرائی
جب سَمے کے حسین گلشن میں
آرزو کے سپید پھول کھلے
اور خوشبو نے کی پذیرائی
جس جگہ دل سے آن لپٹی تھی
ایک موجِ ہَوائے دلداری
اور کسی چشمِ سادہ نے پائی
اَوّلیں عشق کی سمجھ داری
آج پھر اس شب نگاراں میں
مانگتا ہے یہ دل ذرا فرصت
زندگی سے نظر بچانے کی
پھر سے اُس سرزمیں کو جانے کی
خواب کی روشنی میں چلتے ہوئے
وقت کے اُس نگار خانے میں
ایک بُھولے ہوئے فسانے میں
شعری مجموعہ:عَدن کے راستے پر
٭
پورے چاند کی رات
آنکھ تلک اُتری آتی ہے پورے چاند کی رات
جیون کی لمبی راہوں پر سایا اک ساتھ
ہونٹوں پر ایسی ہی لالی ۔۔۔
ماتھے پر ایسے ہی ستارے
مانگ میں جگمگ جگمگ اَفشاں
اور چُنری میں جگنو سارے
پلکوں کے پیچھے اِک سپنا
اُس سپنے میں نین تمہارے
یاد آئی ہے آج مجھے اِک پچھلے جنم کی بات
بھول گئی اب
ہاتھ سے کیسے چُھوٹا تھا وہ ہاتھ
شعری مجموعہ: دل لیلیٰ
٭
آنکھیں جو کُھلیں تو
اب یاد نہیں کہ شہرِ جاں میں
وہ کیسی عجب ہَوا چلی تھی
جو مجھ کو مری ہی زندگی سے
اُس سمت اُڑا کے لے گئی تھی
پائوں کے تلے تھی دھند گویا
اور سر پہ سنہری چاندنی تھی
آنکھوں میں عجیب سی تھی ٹھنڈک
چہرے پہ گل آب کی نمی تھی
کچھ دُور ستار بج رہا تھا
یا وَجد میں کوئی راگنی تھی
آہستہ سے میرا نام لے کر
اک شخص نے کوئی بات کی تھی
آنکھیں جو کھلیں تو میں نے دیکھا
میں کوچۂ عشق میں کھڑی تھی
شعری مجموعہ: عشق آباد
عکس ریز
کس کے غم کا اُجلا شیشہ ۔۔ روشنی کے رُخ پر رکھا ہے
چاروں اور بدن کے جس کی نیلی نیلی لُو پھیلی ہے
جس کے حسن کے آگے ساری دنیا کی ہر ضَو ۔۔ میلی ہے
جس کی اک جنبش سے دھرتی ، پائوں تلے چلنے لگتی ہے
جس کی حدّت سے ۔۔۔سرما کی سر د ہَوا جلنے لگتی ہے
انے کس کی یاد کا چہرہ ۔۔۔ روشنی کے رُخ پر رکھا ہے
جس کے سامنے ، چاروں جانب پھیلے چہرے
دھند ہوئے ہیں
جانے پہچانے جو نام ، زباں پر تھے
سب بھول گئے ہیں
جس کی آسیبی نظروں سے ۔۔ان آنکھوں پر
کچھ اَن جانے ، کچھ اَن دیکھے ۔۔ ہلکے ہلکے عکس بنے ہیں
دل کے بدن پر ۔۔ جس کے ناخونوں سے گہرے نقش بنے ہیں
شعری مجموعہ: حیرت کدۂ ہجر
ثمینہ راجہ نے اُردو نظم کے ساتھ ساتھ اُردو غزل کو توانائی بخشنے کے لیے بھی خوب محنت و ریاضت کی ہے ۔ غزل میں نت نئے مضامین پیش کیے ۔ چند اُردو غزلیں ملاحظہ فرمائیں :
تنہا، سرِ انجمن کھڑی تھی
میں اپنے وصال سے بڑی تھی
ہاں صرف نہیں تھی بنتِ ناہید
انجم تھی، فلک پہ میں جَڑی تھی
اک پھول تھی اور ہَوا کی زد پر
پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی
اک عمر تلک سفر کِیا تھا
منزل پہ پہنچ کر گِر پڑی تھی
طالب کوئی میری نفی کا تھا
اور شرط یہ موت سے کڑی تھی
وہ ایک ہوائے تازہ میں تھی
میں خوابِ قدیم میں گڑی تھی
وہ خود کو خدا سمجھ رَہا تھا
میں اپنے حضور میں کھڑی تھی
آنکھوں میں رُکے تھے سرد آنسو
وہ دل کے قرار کی گھڑی تھی
٭
گو سایۂ دیں پناہ میں ہوں
زندہ تو خود اپنی آہ میں ہوں
اُس منزلِ خواب کی طلب میں
مدّت سے فریبِ راہ میں ہوں
کیا وہ بھی مرا ہی منتظر ہے
اک عمر سے جس کی چاہ میں ہوں
باہر تو لگا ہے سنگِ مر مر
میں دفن مگر سیاہ میں ہوں
پھر شاخ پہ مجھ کو پھوٹنا ہے
غلطاں، ابھی خاک و کاہ میں ہوں
غم دینے کو تو نے چُن لیا ہے
خوش ہوں کہ تری نگاہ میں ہوں
کیسے تری حیرتی نہ ٹھہروں
گُم، انجم و مہر و ماہ میں ہوں
جو عشق مثال بن چکا ہے
اُس منزلِ غم کی رَاہ میں ہوں
( شعری مجموعہ: اور وِصال )
٭
فرق اپنی آرزو میں سرِ مُو نہ آئے گا
دل کو قرار اب کسی پہلو نہ آئے گا
کیا چشمِ نم سے روٹھ گیا ہے ترا جمال
کیا اب یہ ماہتاب، لبِ جُو نہ آئے گا
تجھ سے ہَوا نژاد کی اب جستجو نہیں
پَل بھر کو آبھی جائے تو قابو نہ آئے گا
کیا سیرِ باغ و راغ، کہاں لطفِ صد چراغ
جب تُو مثالِ پیکرِ خوشبو نہ آئے گا
یہ آنکھ ٹوٹ جائے گی فرطِ ملال سے
لیکن ترے خیال سے آنسو نہ آئے گا
وہ رات ہے کہ چاند ستاروں کا ذکر کیا
اب روشنی کے نام پہ جگنو نہ آئے گا
اب کون قیدِ سنگ سے مجھ کو رہائی دے
اب تو کسی نظر کو یہ جادو نہ آئے گا
بجھتی ہوئی یہ رات، یہ دم توڑتے چراغ
دل مانتا نہیں ہے کہ اب تُو نہ آئے گا
(شعری مجموعہ:: ہفت آسمان )
٭
دشت میں اِک طلسمِ آب کے ساتھ
دور تک ہم گئے سراب کے ساتھ
پھر خزاں آئی اور خزاں کے بعد
خار کھلنے لگے گلاب کے ساتھ
رات بھر ٹوٹتی ہوئی نیندیں
جُڑ گئیں سحرِ ماہتاب کے ساتھ
ہم سدا کی طرح بجھے ہوئے تھے
وہ تھا پہلی سی آب و تاب کے ساتھ
چھوٹی عمروں کی پہلی پہلی بات
کچھ تکلف سے ، کچھ حجاب کے ساتھ
اور پھر یہ نگاہِ خیرہ بھی
ڈوب جائے گی آفتاب کے ساتھ
رات کی طشتری میں رکھی ہیں
میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ
اُس گلی میں نہ کوئی کیسے جائے
شام کو اِس دلِ خراب کے ساتھ
یہ فقط رسم ہی نہیں اے دوست
دل بھی شامل ہے انتساب کے ساتھ
پری خانہ
٭
دو قطعات
دنیا سے نہیں تھا ربط کوئی
اک رابطہ بس کتاب سے تھا
آگاہ تھا راحتوں سے بھی تن
اور آشنا ہر عذاب سے تھا
۔۔۔
تاروں سے تہی تھیں اپنی راتیں
اور دن تھے بہت ہی خالی خالی
دل، شوق و مراد کا طلب گار
آنکھیں، کسی خواب کی سوالی
شعری مجموعہ: ہجر نامہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.