Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو شاعری کی ادبی سماجیات

محمد حسن

اردو شاعری کی ادبی سماجیات

محمد حسن

MORE BYمحمد حسن

    نظامی بیدری نے جب اردو کی پہلی مثنوی ’کدم را وپدم راو‘ لکھی ہوگی تو اسے اندازہ بھی نہ ہوگا کہ اردو شاعری کے لئے نئی روایت قائم ہورہی ہے۔ اس روایت کا روپ رنگ فارسی شاعری کی دروبست سے فراہم ہوا تھا۔ بحریں وہیں کی تھیں، مثنوی کے مصرعوں کی تراش قافیے کی کھنک اورہر مصرعے سے دوسرے مصرعے کا ربط و آہنگ سب کچھ فارسی روایت کا حصہ تھا لیکن اس پیکر میں جو روح جلوہ گر تھی وہ ملکی روایات کی تھی اور ان میں جو کہانی بیان ہوئی تھی وہ دو ہندوستانی دلوں کی کہانی تھی۔ نظامی بیدری کی مثنوی کے طرز پر کئی مثنویوں کا انصرام کیا گیا اوریہ کم سے کم دکنی دور کی مثنویوں کی ایک مسلمہ روایت بن گئی۔ حتی کہ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے اردو مثنویوں کاتجزیہ کرتے وقت اس طرز خالص کو ایک منفرد رنگ تسلیم کیا۔

    اس قسم کی سبھی مثنویوں میں متعدد خصوصیات مشترک ہیں، ان میں عشقیہ قصے نظم کیے گئے ہیں اور یہ عشقیہ قصے عام طور پر پہلے سے مشہور روایات کا حصہ تھے۔ انھیں منظوم کرنے سے شاعر کا مقصد محض بیانیہ نہیں بلکہ اپنے دورکو سماجی ذریعہ اظہار بخشنا ہے۔ (۲) عام طورپر اس قسم کے قصے کے ذریعہ وہ انسانی فطرت یا اخلاق کے کوئی ایک پہلو پر زور دینا چاہتا ہے اور اسی کے مطابق وہ ان قصوں میں کہیں کہیں مناسب ردو بدل کرلیتا ہے اوراپنی ضرورت کے مطابق انہیں ڈھال لیتا ہے تاکہ انھیں واضح جہت دے سکے۔

    ان قصوں میں جس قسم کے کردار پیش کیے گئے ہیں وہ سب کے سب بڑے مثالی کردار ہیں اور ان کے جذبات و احساسات میں بڑی قوت اور شدت ہے۔ نظرآنے والے کردار، نظر آنے والے مقاصدکے لئے، نظر آنے والے ذرائع سے برسرپیکارنظر آتے ہیں۔

    عشق کا جو تصوریہاں پیش کیا گیا۔ وہ محض دنیوی لذت کا تصور نہیں ہے بلکہ اس میں وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے اور اس کے لئے جاں نذر کرنا بہت ادنا کمال قرار دیا جاتا ہے۔ ان کہانیوں کے پہلو بہ پہلو وہ مثنویاں ہیں جن میں مذہبی معجزے یا طلسماتی قصے بیان ہوئے ہیں۔ مذہبی معجزے گو حیرت میں ڈالنے والے ہیں اوران میں فوق فطری عناصر سے خوب خوب کام لیا گیا ہے مگر ان میں ایک ایسا اعلا تصورپیش کیا گیا ہے جس میں قوت ایمانی سبھی دشواریوں پر قابو پالیتی ہے۔ مثنویوں کی تیسری قسم رزمیہ تھی جس میں جنگوں کا بیان موجود تھا۔ یہ جنگیں خیالی اور فرضی نہ تھیں بلکہ واقعی سرزمین دکن کے مختلف علاقوں میں لڑی گئیں اورمختلف سیاسی گروہوں کے درمیان لڑی گئیں۔ یہ سچ ہے کہ ان میں شاعروں نے فرضی قصوں کے افسانے بھی کیے اورمقامی طور پر مشہور اور مقبول روایات کو بھی ان واقعات میں جگہ دی، جن سے یہ واقعات محض تاریخی صداقت کے آئینہ دار رہے بلکہ حقیقت کی ایسی تصویر بن گئے جن میں تخیل نے رنگ آمیزی کی ہے اور جا بجا تخلیقی قوت نے ترمیم اوراضافے کردیے ہیں لیکن ان سب مثنویوں کے کردار بھی یک رخے ہیں۔ ان کے پاس محض عمل ہے، فکر نہیں ہے ان کے پاس ظاہر ہے باطن نہیں ہے، وہ سر تا پا عمل کے مجسمے ہیں اوران کے باطن اندرونی کشمکش سے خالی ہیں۔ وہ حسن، شجاعت اورانصاف کے پتلے ہیں، اخلاق کی سبھی خوبیاں ان میں موجود ہیں۔

    جو لڑائیاں انھوں نے لڑی ہیں وہ حقیقی ہیں اور ان کے میدان جنگ محض فرضی نہیں ہیں۔ یقین نہ آئے تو نصرتی کی مثنوی ’علی نامہ‘ کا وہ منظر پڑھ لیجئے، جن میں اپنے ممدوح کی فتح کے بعد میدان جنگ کا منظر کھینچا گیا ہے۔ یہاں صدہا لاشیں بے گور و کفن پڑی ہیں، کسی کا سر غائب ہے کسی کا دھڑ، کسی کے خون سے زمین لالہ زار ہے تو کسی کا گوشت گدھ کھارہے ہیں اور شاعر اس منظر کو شادی و شادمانی کے منظر کے طورپر بیان کر رہا ہے، جہاں گیدڑوں اورمردم خور جانور براتی ہیں اور موت نغمہ سرا ہے۔ ہر درد ناک منظر ایک پُر کیف نظارے میں بدل جاتا ہے اور شاعر جنگ میں فتح حاصل کرنے کے نشے میں سرشار شاعرانہ تشبیہوں اوراستعاروں کے ذریعے سب کچھ بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ انھی کے ساتھ ساتھ ایک اور قسم ان مثنویوں کی بھی ہے جن میں داستانی رنگ غالب ہے۔ قصہ ابو تمیم انصاری ہو یا طوطی نامہ دونوں میں یہی رنگ غالب ہے۔

    قصہ ابو تمیم میں کس طرح قصہ در قصہ واقعات آگے بڑھتے ہیں اور حضرت ابو تمیم کے معرکے اورمہمات مثنوی کے ثانوی قصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ طوطی نامہ میں کس طرح سوداگر کی بیوی کو طوطی ہر رات کو نئے نئے قصے سناکر اپنے شوہر سے دغا بازی کرنے سے باز رکھتی ہے، ہر رات اسکے نئے قصے پوری مثنوی کا تانا بانا بُن کر رکھ دیتے ہیں۔ غرض دکنی مثنویوں کا پورا ذخیرہ تاریخی اورنیم تاریخی، افسانوی اور داستانی، رزمیہ اور بزمیہ عناصرکا ایک ایسا نگار خانہ ہے، جس میں سماجی رشتوں کی قربت اورروایتی ذخیرہ واقعات کی دل کشی صاف جھلکتی ہے۔

    مثنوی نگار گو یا یہاں بھی اپنے دور کا مغنی اور عکاس ہے۔ طبع زاد قصے اس کا میدان نہیں وہ یا تو روایات کے ذخیرے سے قصے اور کردار لیتا ہے اور انھیں اپنے تخیل اور اسلوب سے زندہ اور تابناک بنا دیتا ہے یا پھر تاریخ سے خوشہ چینی کرتا ہے۔ ان کا اختتامیہ سراج اورنگ آبادی کی مثنوی ’سراج سخن‘ ہے جس میں اپنے زمانے کا مشہور قصہ بیان کردیا گیا ہے اور اس کا سارا حسن سلاست بیان کے علاوہ حسن کی طرحداری اور عشق کی بے اختیاری میں مضمر ہے۔ یہاں عشق لذت سے شروع ضرور ہوتا ہے مگر محض لذت پر ختم نہیں ہوتا اورایک ایسی عیب سرمستی، اضطراب اور بے قراری چھوڑ جاتا ہے جسکی معرفت عرفان حاصل ہوسکتا ہے جسے صوفیا کی اصطلاح میں قنطرۃ الحقیقت کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ عشق کا یہی شعلہ بھڑک کر ماسوائے خس و خاشاک کو جلاکر خاک کرسکتا ہے اور انسان کی شخصیت علائق کی گندگی سے آزاد ہوکر کندن ہوسکتی ہے۔ مثنوی کے اس سرمایے پر قرار واقعی اضافہ دہلی اور لکھنؤ میں ہوا جہاں میرؔ اثر اور میرؔ کی مثنویاں اور بعد کو میر حسن کی مثنوی ’سحر البیان‘، مصحفی کی مثنوی ’بحر المحبت‘، تقی خاں ہوسؔ کی مثنوی ’لیلیٰ مجنوں‘، نسیم کی ’گلزارِ نسیم اور شوقؔ کی مثنویاں لکھی گئیں۔

    گو ان سے قبل شمالی ہند کا صرف قابل قدر کارنامہ افضل کا کارنامہ ’بکٹ کہانی‘ ہے جس کا اجتماعی آہنگ اور لوک رنگ ظاہر ہے۔ افضل حیرت خیز حد تک عوامی فضا سے قریب ہیں اورموسموں کا ذکر اورزمین کی سگندھ جی موہے لیتی ہے۔ قلی قطب شاہ حاتمؔ، اورنظیرؔ اور دوسرے شعرا کی چھوٹی چھوٹی مثنویوں کا ذکر یہاں تحصیل حاصل ہے۔ گویا یہ بھی ایک خاص قسم کے شعری اظہار کا مظہر ہیں۔ خاص طور پر قلی قطب شاہ اور نظیرؔ کے مسلسل شعری شہ پاروں نے نظم کی ابتدا کی جس نے بعدمیں الگ صنف کی حیثیت سے فروغ پایا۔

    دہلی اورلکھنؤ کی مثنویوں میں بھی اجتماعی آہنگ غالب ہے۔ گو میرؔکی مثنویوں کو چھوڑ کر ان میں وہ وفورِ جذبات، عشق کا وہ مثالی تصور، وہ تصور پرستانہ رنگ ڈھنگ نہیں ملتا۔ یہ سبھی مثنویاں یا تو اپنے زمانے کے معلوم و معروف قصوں پر مبنی ہیں یا روایتی قصوں کو نظم کرتی ہیں، کردار یا تو شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یا تجارت پیشہ ہیں اور ان سبھی مثنویوں میں ایک والہانہ کیفیت اور سپردگی پائی جاتی ہے۔ دہلی کی مثنویوں میں زیادہ اور لکھنؤ کی مثنویوں میں کم۔ مثلاً میرؔ کی مثنویات میں بھی گو قصے یا تو روایتی ہیں یا ان کے دور کے سنے سنائے ہیں یا کم سے کم ایک مثنوی آپ بیتی ہے مگر ان میں کوئی طبع زاد تخلیقی عنصر کم سے کم قصے اور کرداروں کی تراش خراش کے سلسلے میں موجود نہیں ہے۔ البتہ ایک نیا عنصر ان میں ضرور شامل ہوگیا ہے وہ ہے ذاتی اور انفرادی لہجہ، جو اس سے قبل نایاب تھا اور اسی انفرادی لہجے نے نہ صرف میرؔ کو غزل کی نئی صنف کا سب سے زیادہ شاعر بنادیا بلکہ اس دور کے شعری اظہار میں ایک نئے آہنگ کا اضافہ کردیا۔ میرؔ سے قطع نظر اس دور کے دیگر شعرا میں یہ انفرادی آہنگ نمایاں نہیں ہوا اوران کی مثنویاں پرانے قصوں کو نئی اخلاقی اورمتصوفانہ معنویت دینے میں لگی رہیں اس کی سب سے واضح مثال میرؔ اثر کی مثنوی خواب و خیال ہے جو گو حالیؔ کے نزدیک نہایت پست اور رکیک سطح پر پہنچ کرمعاملات حسن و عشق کا جسمانی روپ پیش کرتی ہے مگر میر اثرؔ نے اسے عشق مجازی کی سخت نکتہ چینی اور عشق حقیقی کی عظمت بیان کرنے کے لیے لکھا تھا، وہ خود لکھتے ہیں،

    بات ہے بے سرشتہ و بے اصل

    ہجر کیدھر کا اورکہاں کا وصل

    جلوہ پردازیٔ جہانِ مثال

    نام اس کا یہی ہے خواب و خیال

    ہیں گے سودائیوں کے حالاتیں

    شورشِ عشق کی خرافاتیں

    آگے چل کر لکھتے ہیں،

    عشق صوری بڑی ملامت ہے

    حاصل اس سے یہی ندامت ہے

    کہتے ہیں اس کو ہی ضلال مبین

    نفع دنیا ہے کچھ نہ حاصل دین

    صرف خسران دین و دنیا ہے

    منفعت اس میں اور تو کیا ہے

    گر ملاقات ہو توکیا حاصل

    ہجر اور وصل دونوں لا حاصل

    اور آگے چل کر لکھتے ہیں،

    بوالہوس ہیں ہوا پرست نفس

    عشق وہ ہے جو ہو شکست نفس

    نفس کافر کو کوئی مار سکے

    یہ تو مارے مرے نہ کاٹے کٹے

    آپھی اپنا حریف ہے نہیں غیر

    ہے خودی سے یہاں خدائی سے بیر

    اپنے ہاتھوں یہ کون مرتا ہے

    کام فضلِ خدا ہی کرتا ہے

    مدد پیر سے ہلاک کرے

    مثل اکسیر مار خاک کرے

    جس قدر پیر پر ہو اپنے فدا

    اس قدر ہوئے ہے فنا و بقا

    اور اس کے سوا ہے سب اُلفت

    ہے سراسر کدورت و کُلفت

    لیکن اس کدورت و کلفت کی داستان کو میر ؔ اثرنے بڑے مزے لے کر بیان کیا ہے۔ کوئی ایسا پہلو نہیں جو چھوٹ گیا ہولیکن میر ؔاثر کی مثنوی معلومات عشق کے اس بے محابہ بیان کے علاوہ اول تو واقعات کے اعتبار سے ہلکی ہے، دوسرے کردار نگاری میں بھی اس کا پایہ بلند نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے دہلی کے حالات مثنوی نگاری کے لئے سازگار نہ رہے ہوں۔

    آخر ایسا کیوں ہوا کہ مثنوی کا ارتقا ساتھ ساتھ نہیں ہوا، بلکہ جہاں کہیں مثنوی کا فروغ ہوا وہاں اچھی اور معیاری غزلوں کا چلن نہیں رہا۔ دہلی میں میرؔ کی غزلوں نے فروغ پایا مگر مثنوی بے جان ہوگئی، خود میرؔ کی مثنوی میں جو رنگ و آہنگ آیا ہے وہ مثنویوں کی عام روش سے الگ ہے۔ اُدھر لکھنؤ میں مثنوی کا فروغ ہوا تو غزلیں بے نور ہوگئیں۔ غزلیں کہی بہت سی گئیں، مگر ان میں وہ کیفیت نہیں رہی۔ بہ ظاہر اس کی ایک وجہ بھی نظر آتی ہے کہ مثنوی سمٹے ہوئے سماج کا ذریعہ اظہار ہے جہاں کہانیاں گردش میں ہوں اور روایت سے قصے اور افسانے مل سکتے ہوں۔ معاشرے سے شاعر کا رشتہ گہرا ہو اور اسے گہرے رشتے کو نئے شعری پیکر میں ڈھالنے کی سہولت حاصل ہو۔ غزل بکھرتے ہوئے سماج کا ذریعہ اظہار ہے جہاں دھیرے دھیرے معاشرہ دور ہوتا جاتا ہو اور سماجی رشتے آہستہ آہستہ دھندلاتے جارہے ہوں۔ غزل فرد کی آپ بیتی ضرور ہے مگر اس کی اپنی عمومیت اسے دوسروں کا افسانہ بھی بنا دیتی ہے۔ غزل کے لئے باطنی کیفیت، داخلیت اور نجی لہجہ ضروری ہے، یہ نہیں تواجتماعی روایات کے اظہار سے غزل زیادہ فروغ نہیں پاسکتی۔

    غزل کا فروغ ایک طرف اور مثنوی کا فروغ دوسری طرف۔ لکھنؤ صرف مثنوی ہی کا مرکز نہیں ٹھہرا بلکہ مرثیے کا بھی یہیں عروج ہوا۔ لکھنؤ ایک بناوٹی احساس تحفظ میں مبتلا تھا، بکسر کی لڑائی کے بعد سے اودھ کی نوابی رسمی طور پر دہلی کے تابع رہی لیکن عملاً ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں نے وہاں نظم و نسق سنبھال لیا ا۔ اودھ مستقل طور پر ایک خوابِ شیریں میں مبتلا تھا گو سیاسی اور اقتصادی طور پر حکومت کی جڑیں کھوکھلی ہوچکی تھیں، لیکن عام باشندوں ہی کو نہیں شاعروں اورادیبوں تک کو اس زبردست خطرے کا احساس نہ تھا جو ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ اودھ کے جذباتی اور فکری مزاج کی آئینہ داری میر حسن کی ’سحر البیان‘، نسیم کی ’گلزار نسیم‘ اور بعد کو شوقؔ کی مثنوی ’زہر عشق‘ سے ہوتی ہے۔

    ’سحر البیان‘ اور ’گلزار نسیم‘ اسی شائستگی اورمصنوعی ٹھہراؤ کا مظہر ہیں۔ یہ مثنویاں یوں تو فوق فطری عناصرکی داستانیں ہیں لیکن ان پر ایک طرف تو اجتماعی آہنگ کی مہریں صاف نظر آتی ہیں۔ دوسرے جس تہذیب کا عکس ان میں جھلکتا ہے وہ ہند ایرانی تہذیب ہے جس میں شہزادی شہزادوں سے لے کرجن اور پری تک رنگے ہوئے ہیں، ان کے لباس حلیے، چہرے، مہرے صاف بتاتے ہیں کہ ان میں ہندوستان اور ایران کی تہذیبیں مل جل گئیں ہیں یہاں نجم النساء جوگن بنتی ہے اور گل بکاؤلی اودھ کی شہزادیوں کی طرح گفتگو کرتی ہے۔ غیر مذہبی لہجہ اور ایک سیکولر فضا مثنویوں پر چھائی ہوئی ہے۔ البتہ یہاں کمی ہے تو عشق میں گہرائی اور سنجیدگی کی۔ سارا کاروبار شوق حیات کی سطح پر ہے گو زبان سے عاشق و معشوق دونوں ایک دوسرے پر جان کھوتے ہیں لیکن یہاں نہ جذبے کی شدت ہے نہ خلوص، البتہ لذت ہی اصل حیات بن چکی ہے۔

    ایسا لگتا ہے کہ جس سماج کے لیے یہ مثنویاں لکھی جارہی ہیں اس نے اپنے کو سطحی حسیت پر ضامند کرلیا ہے۔ پھر ان مثنویوں میں تخیل کی اڑان بہت واضح ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ شاعر تخیل کے پردے پر حقیقت سے گریز کا سامان پیدا کر رہا ہے اور جو اصل زندگی میں نہ پاسکا اسے تخیل کی مدد سے پاکر جذباتی آسودگی حاصل کرنا چاہتا ہے، اس احساس سے خود نوابین و شاہان اودھ بھی خالی نہ تھے۔ اس کے شواہد ہیں کہ خود آخری بادشاہ واجد علی شاہ نے جب اپنے کو امورسلطنت میں مشغول کرنا چاہا اورانگریز ریزیڈنٹ نے مخالفت کی تو انھوں نے اپنے احساس مجبوری کو لہو و لعب اور رقص و سرود کے پردے میں چھپالیا۔ یہی صورت ان سے قبل آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کے ساتھ پیش آچکی تھی۔ مثنویوں نے لکھنؤ کے احساس شکست کو ایک جذباتی آسودگی بخش دی اور آخر کار ’زہر عشق‘ کی مجبور نازنین کی طرح اس لطیف، نازک، اور شائستہ تہذیب کو بھی اپنا بھرم رکھنے کے لئے خود کشی کرنی پڑی۔

    مرثیہ بھی تخیل کے اسی گریز کا نتیجہ تھا۔ مرثیہ میں واقعات اورکرداروں کو ہندوستانی روپ رنگ ملا، قصہ نیم مذہبی، نیم تاریخی، نیم روایتی تھا۔ شاعر کے ذہن نے اس میں حسب منشا رنگ آمیزی بھی کی لیکن مرثیے کی بنیادی آویزش کی نوعیت عجیب و غریب تھی۔ اس کے نیک کردار پیمبر صفت تھے ان کی روحانی قوت بے مثال، اخلاقی محاسن میں لاثانی، شجاعت میں فرد حسن و جمال میں یکتا، انسانیت کی اعلا ترین قدروں سے متصف، اللہ کے ایسے نیک بندے کہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہی جو چاہیں پالیں، مگر اس کے باجود یہ نیک اور ستودہ صفات بندے بے گناہ شہید ہوتے ہیں اور شکست کھاتے ہیں۔ ان کی شکست دراصل منشائے الہٰی ہے اور وہ اسے باوجود ذاتی شجاعت اوربے مثال فراست کے بے چوں و چرا تسلیم کرلیتے ہیں۔ اسی قسم کی صورت حال اس وقت کے نظام کو درپیش تھی۔ لکھنؤ اعلیٰ ترین نفاست، شائستگی اور لطافت کا مرکز تھا، لیکن اسکے باوجود سیاسی شکست اس کا مقدر بن چکی تھی۔ مرثیہ نگار اس تہذیب کے ماتم کناں تو تھے جو ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہی تھی، مگرتوکل اور قناعت کے ساتھ نیک سرشتوں کی ایثار و قربانی کا جواز پیش کر رہے تھے۔ اس اعتبار سے مرثیہ اپنے دور کی اہم ضرورت کو پورا کر رہا تھا۔

    (۲)

    دہلی میں یہ تہذیبی بساط اور زیادہ تیزی سے اُلٹ رہی تھی اور اسی کے ساتھ مثنوی کی سلطنت غزل کے ہاتھ آگئی۔ غزل بھی کیسی سوز و گداز سے لبریز، تجربے سے معمور، کیفیت سے چور، اس غزل کے پیچھے داخلیت کی کھنک تھی۔ اس کا لہجہ نجی اور ذاتی تھا، اس کے مضامین میں جہاں ایک پرت روایت کی تھی وہاں دوسری پرت زندگی کے ان تجربات کی تھی جو فرد اور سماج کی زندگی میں ہلچل مچائے ہوئے تھی۔ غزل کی یہ آواز ایک ایسے معاشرے سے ابھر رہی تھی جو سماجی اور اقتصادی طور پر اس سے قبل مثنوی کو مقبول بنانے والے رنگ و آہنگ سے مختلف تھے، نہ اسے دلجمعی میسر تھی نہ استحکام، یہ اور بات ہے کہ سودؔا اور میرؔ نے بھی مثنویاں اورمرثیے لکھے ہیں۔ غزل کی یہ کیفیت میرؔ کے دور سے غالب کے دور تک دہلی میں چھائی رہی اور ایسی چھائی کہ غزل کے آگے کسی دوسری صنف کا چراغ نہ جل سکا۔

    غزل کیا تھی؟ غزل دو مصرعوں میں بات مکمل کرنے والے اُس شعری سلسلے کا نام جو ایک ہی بحر اور قافیہ استعمال کرے، مخصوص علامتوں کو کام میں لائے، جس کی نوعیت داخلی اور غنائی ہو، یہ صنف اچانک ہندوستان میں نہیں ابھری، اس کے پیچھے ایران کا تہذیبی پس منظر تھا اور اس کی علامتوں کا نظام صدیوں کی تاریخ سے جڑا ہوا تھا۔ غزل کو سمجھنے کے لئے ایک نظر اس کے علامتی نظام پرڈالنا ضروری ہے اورممکن ہے اس علامتی نظام کے ذریعے ہم غزل کے تہدیبی مزاج اور اس کے طبقاتی کردار کو بھی سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں اور یہ دیکھ سکیں کہ غزل کے علامتی نظام میں بھی وقتاً فوقتاً حالات کے مطابق تبدیلیاں کیوں ہوتی رہی ہیں اوران تبدیلیوں کے پیچھے کون سے سماجی محرکات اورطبقاتی آویزشیں کارفرما رہی ہیں۔

    غزل کی داستان ہنوزناتمام ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آج کی غزل مقبول ہے لیکن اسکے تسلسل اور تواتر نے نیا رنگ ڈھنگ اختیار کرلیا ہے اور پرانی غزل کا روایتی آہنگ بڑی حد تک شکستہ ہوچکا ہے۔ غزل میں فردکی آواز تو ابھری مگر وہ ایسے معاشرے کے پس منظر میں ابھری جو مشترکہ علامتوں کے گہوارے میں پلا تھا اور جو ایک تہذیبی مقدر رکھتا تھا۔ اس کے عشق و عاشقی کے پیمانے، حسن، محبوب کے تصورات بڑی حد تک مشترک تھے اس کے پیچھے ایک نئی تہذیب کاجلوہ صد رنگ چھپا ہوا تھا اور تصوف اور عشق، قلندری اور درد مندی میں ہر شخص کو اپنی داستان کے ٹکڑے مل جاتے تھے۔ یہاں مثنوی اورمرثیے کی طرح روایتی قصوں کی مشترک میراث نہ تھی، مشترک علامتوں کی وراثت تھی جس کی مدد سے غزل گو چند اشارے اور گنی چنی علامتوں سے ایک جہان معنی سجا سکتا تھا۔

    اس وراثت کا سارا درو بست مدنی تہذیب سے متعلق تھا اوراس تہدیب پر صناع اور دستکار طبقے کی زندگی چھائی ہوئی تھی گو ہمارے دورتک آتے آتے غزل کے پیچھے مختلف طبقوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، لیکن غزل کی مدنیت آج بھی اسی طرح قائم ہے اور اس کی علامتوں کے پیچھے بنتے بگڑتے سایوں نے آج بھی اس رشتے کو ترک نہیں کیا ہے۔ جس طرح داستان نے طبع زاد تخلیقی عناصرکے لئے گنجائش نکالی تھی مگرمعاشرے کے اجتماعی آہنگ اور روایتی تناصر سے اپنا رشتہ جوڑے رکھاتھا اور تخیل کے لئے نئے راستے نکال لیے تھے اسی طرح غزل نے اجتماعی آہنگ اور روایتی عناصر سے اپنا رشتہ جوڑنے کے ساتھ ساتھ تخیل اور تخلیقی عناصرکے لئے اپنے دامن میں وسعت پیدا کرلی۔

    (۳)

    غزل کو سب سے بڑا صدمہ ۱۸۷۴ء کے قریب پہنچا جب مولانا محمد حسین آزادؔ کی انجمن پنجاب نے ایک ایسے مشاعرے کاانتظام کیا جس میں کسی مخصوص موضوع پر تسلسل اورربط رکھنے والے اشعار’ نظم‘ کے عنوان سے پڑھے گئے۔ پھریہ نئی صنف محفل ادب میں مقبول ہوئی، رسالوں اور اخباروں پرچھا گئی اوراسے حالیؔ اور شبلیؔ جیسے نقاد ملے۔ یہاں فرد تو اتنا زیادہ نہیں ابھرا جتنا سماج۔ سماجی اصلاح کی جس آواز نے اردوناول کو جنم دیا تھا وہی آواز نظم کا نقطہ بنی۔ حالیؔ اور آزاد کی نظموں کے پیچھے نیچرل شاعری کا جو رنگ و آہنگ موجود ہے وہ بار بار اس نئی زندگی کی بشارت دیتا ہے جو سرسید احمد خاں اوران کے ساتھیوں کے زیر اثر ابھر رہی تھی۔ یہ محض مغرب کی نقالی نہیں تھی بلکہ اس اقتصادی اور تہذیبی چیلنج کانتیجہ تھی جو برطانوی تسلط کے بعد ہندوستانی سماج کو درپیش تھا۔

    اب ایک ایسا طبقہ اُبھر رہا تھا جو مدنی صناعوں کے طبقے سے مختلف تھا۔ اسے ایسے ذرائع اظہار چاہئیں تھے جو معاشرے سے دور ہونے والے فرد کو آسودہ کرسکیں، جس میں وہ محض اپنی ہی نہیں اپنے اس معاشرے کی تصویر دیکھ سکے جس میں فرد آہستہ آہستہ مرکزی حیثیت پانے لگا تھا۔ غزل سے جو تصوف ابھرا تھا اس کی لَے مدھم ہونے لگی، غزل کی علامتوں کی گونج خاموش ہونے لگی اور آہستہ آہستہ نظم میں نئے اسالیب ابھرنے لگے۔ شروع شروع میں بیانیہ شاعری کا چرچا ہوا جس میں مناظر قدرت کی تصویر کشی، وطن کی عظمت، آزادی کی برکت اور علم کی فضیلت کے تذکرے تھے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ فرد اب اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ سماج اور اس کی روایات سے بندھا رہنے کی بجائے اب اسے اپنے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنا چاہتاتھا، پھر جب سیاست کا غلغلہ اٹھا تو اس کے اثرات بھی مرتب ہونے لگے اورنظم حالیؔ کی مسدس سے سفر کرتی ہوئی رفتہ رفتہ چکبست اور اقبال تک پہنچی، جس کے بعد جوشؔ اور اختر شیرانی کی رومانیت اور ترقی پسند شاعروں کی سماجی معنویت نے اسے ایک نیا رخ دے دیا۔ طرز و اسلوب کے اعتبار سے تْخیل، جذبہ اور فکر نے اس نئی صنف کے زمین آسمان بدل ڈالے اور اختر الایمان تک پہنچتے پہنچتے اس میں ایک نیا معیار جھلکنے لگا۔

    اس نئے معیار کی طرف مختصراً اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ حالیؔ اور آزادؔ کے دور میں نظم کے محض تسلسل پر اصرار تھا۔ عام طورپرکسی ایک موضوع کو مختلف سیاق و سباق میں پیش کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ مثلا حب وطن، پرندوں میں کس طرح پایا جاتا ہے۔ انسانوں میں اس کا کیا روپ ہے اور پھر انسانوں کے مختلف طبقوں میں اس کی کیا نوعیت ہے گویا ایک مرکزی تصورکی مختلف پہلوؤں سے لی ہوئی تصویروں سے مرکب ہے اورنظم گویا ایک طرح کا منظوم انشائیہ یا Essay بن کر رہ جاتی ہے چونکہ زور بیان پر زیاد ہ ہے اور بیان میں بھی مشاہدہ اہم ہے اور تخیل کی مدد سے مختلف مشاہدات کی فراہمی پر توجہ زیادہ ہے۔ لہٰذا نظم میں کیفیت اور احساس تعمیر بنیادی جگہ حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کے بجائے نظم چاروں طرف بکھری ہوئی زندگی کا ایک حصہ بن کر ابھرتی ہے۔

    شاعر فوٹو گرافر کے منصب پر قناعت کرنے پر راضی ہے۔ شبلی کی سیاسی شاعری کا بھی یہی حال ہے۔ چکبست کی بیانیہ نظمیں اور اقبال کی مناظرِ فطرت کے متعلق نظمیں بھی اسی قبیل کی ہیں۔ دھیرے دھیرے مناظر کے بیان کی مدد سے مرکزیت پیدا کرنے کے بجائے ان نظموں میں تصور یا خیال کی مدد سے تسلسل اورمرکزیت پیدا کی جانے لگی جس کی سب سے اچھی مثالیں اقبال کی ’’مسجد قرطبہ‘‘ اور ’’ساقی نامہ‘‘ میں ملتی ہیں۔ ’مسجد قرطبہ، فلسفیانہ تصورات سے شروع ہوتی ہے۔ بیانیہ حصے پر آکر ذرا سی دیر کے لئے ٹھہر جاتی ہے اور پھر اسی بیانیہ حصے کو نئی فلسفیانہ بلکہ نیم سیاسی، نیم تہذیبی بصیرت کا نقطۂ آغاز بنا لیتی ہے اورانسانی زندگی کے بارے میں ایک عمومی بصیرت پر ختم ہوتی ہے۔

    جوش نے ایک تصور کے متعلق تشبیہوں، استعاروں کی مدد سے تکرار کونظم کی تکنیک میں ڈھالا، گویا نظم میں تسلسل اور وحدت خیال ہی اہم ہو اور ارتقائے خیال اہم نہ ہو۔ جسے بعدکو اختر الایمان کی نظموں نے فراہم کیا۔ اس سفر کے دوران فیض کی خوبصورت اور عہد آفریں نظمیں بھی ہیں اورمجازؔ، سردارؔ، جاں نثار اورمخدومؔ کی نظمیں بھی جنہوں نے نظم کو نئی توانائی اورنئے درو بست سے آشنا کردیا۔

    اب نظم محض ایک اسلوب پر قائم نہ رہی، اس کے کئی رنگ اُبھرے۔ گو بدقسمتی سے اب بھی انشائیہ اور Essay کا براہ راست انداز نظم پر غالب ہے۔ ہمارے دورمیں نظم کئی سمتوں میں پھیلی ہے اور اب وہ منظوم قصے کو بھی اپنے دامن میں سمیٹتی نظر آتی ہے۔ اب فیض کی نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر لکھی جاسکتی تھی۔ ساحرؔ کی ’پرچھائیاں‘ یا اختر الایمان کی نظم ’بازدید‘ فلمی مون تاژ کے الگ الگ تاثر پاروں میں ڈھالی جاسکتی تھی۔ اختر الایمان کی نظم میر ناصر حسین ’یک کرداری‘ طنزیہ نظم کی شکل میں لکھی جاسکتی تھی یا اختر الایمان ہی کی نظم ’ایک لڑکا‘ علامتی پیرایے میں ایک لطیف رمز کی طرح لکھی جاسکتی تھی یا محض مکالموں میں ایک نظم یا کسی کہانی کو بیچ سے لے کر اس کی باقی کڑیوں کو کسی ایک کردار کی زبانی بیان کیا جاسکتا تھا۔ غرض نظم نے تکنیکی اور اسلوب کے اعتبار سے وسعت اور بو قلمونی ہی نہیں بلوغت بھی حاصل کی کیونکہ جو طبقے اس نئی صنف کے فروغ کے ذمے دار تھے وہ خود بلوغت کی منزل تک پہنچنے لگے تھے۔

    اسی دوران آزاد نظم کا چلن ہوا۔ آزاد نظم کے پیچھے اس نئے طبقے کی آواز تھی جو نئے وسائل اظہار کے درمیان پلابڑھا تھا۔ میک لوہن نے اپنی کتاب “Understanding Media” میں وسائل اظہار مثلاً فلم، ریڈیو، پریس، رسائل وغیرہ کے اثرات تخلیقی عمل پر تلاش کیے ہیں۔ آزاد نظم کا تعلق مشاعرے والی نظموں سے نہ تھا بلکہ چھپنے والی نظموں سے تھا۔ کوشش یہ تھی کہ نظم میں مروجہ بحر اور قافیے کے آہنگ سے ہٹ کر کوئی نیا آہنگ تلاش کیا جائے تاکہ عام زندگی سے اس کی مغائرت کم ہوجائے اور شاعری میں جدید دور کی زندگی کی سی بوقلمونی اور وسعت آسکے۔ آزاد نظم اور اس کے بعد کی معری اور حال کی نثری نظموں میں وہ شاعر جھلکتا ہے جو صنعتی زندگی میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ معاشرے کی روایات اور سماج کی اکائی کا ایک حصہ بنا رہنے کے بجائے ان سب سے آہستہ آہستہ دور ہوتا جارہا ہے اور اس کی انفرادیت اور اس کا بے کل باطن اس کی اندرون کی ساری ہلچل سارا اضطراب ان نظموں میں ایسی تصویروں کی شکل اختیار کر رہا ہے، جس پر اس کی اپنی انفرادیت کی گہری چھاپ ہے گویا ہم مثنوی کے دور کے بالکل دوسرے سرے پر پہنچ گئے ہیں جہاں فرد معاشرے سے کٹ کر اپنی انفرادیت میں اسیر ہے۔

    کبھی کبھی یہ دوری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی شاعری کی علامتیں بالکل نجی بن کر رہ جاتی ہیں اور اس کی باتیں مبہم گنجلک اورناقابل فہم ہوجاتی ہیں۔ جیسے جیسے ہندوستان میں صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہوتی جاتی ہے، قدیم معاشرہ ٹوٹتا بکھرتا جاتا ہے۔ دیہی اور قصباتی زندگی کا شیرازہ درہم برہم ہوتا جاتا ہے۔ اسی رفتار سے شہروں کی ہما ہمی میں پھنسا ہوا فرد اپنے کو زیادہ تنہا اور سما ج سے کٹا ہوا محسوس کرتاجاتا ہے اور اس کی شاعری میں شخصیت کی اندرونی پرتیں زیادہ نمایاں ہوتی جاتی ہیں، اجتماعی قصووں کی جگہ انفرادی شخصیت کا دکھ درد لینے لگاہے اور ترنم، غنائیت اور تغزل کے بجائے زیادہ سنگین اور زیادہ بے باک حقیقتیں نئی شعری پیکر میں ڈھلتی جاتی ہیں۔

    شعری پیکروں میں یہ تبدیلی اسلوب بیان اورطرز بیان میں یہ تغیر محض ادبی تقاضوں یا تہذیبی اثرات ہی کانتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے بدلتے ہوئے اقتصادی اور تہذیبی عناصر کارفرما ہیں۔ وہ نئی معاشی حقیقتیں مضمر ہیں جو نئے طبقوں اورنئے طبقاتی رشتوں کو پیدا کرتی ہیں اور ان تبدیل ہوتے ہوئے طبقاتی رشتوں سے فن اورادب کا سارا تانا بانا متاثر ہوتا ہے۔ یہ نتیجہ نکالنا شاید بے جا نہ ہوگا کہ دراصل نئی اصناف کا عروج نئے طبقوں کے عروج سے وابستہ ہے گو اس وابستگی کا سراغ لگانے کے لئے اصناف کی مزاج شناسی اور ان میں تبدیلیوں کے عمل کا ذرا زیادہ غور اور توجہ سے تجزیہ کرنا ہوگا۔

    اس بحث سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اردو شاعری میں مثنوی کا عروج محض اتفاقی نہ تھا۔ یہ دراصل اس گہرے تہذیبی امتزاج کا نتیجہ تھا جو ترک ایرانی تہذیب اور ہندوستانی تہذیب کے مختلف عناصر کے درمیان اس وجہ سے عمل میں آرہا تھا کہ ہندوستان کا انتظامی ڈھانچہ اپنی تجارتی ضروریات کی بنا پر مرکزیت اوربین الاقوامیت (یعنی ہندوستان، ایران، مغربی اور وسطی ایشیا سے گہرے تجارتی مراسم کی طرف مائل تھا اس زمانے کی اقتصادی ضرورتوں نے شہروں اور قصبوں کو جنم دیا اور ان شہروں اور قصبوں میں ارد گرد کے دیہاتوں سے نیز ہندوستان کے آس پاس کے ممالک سے صناع اہل حرفہ اوراہل کمال آکر جمع ہونے لگے اور اس اجتماع کی بنا پر ایک نئی تہذیب اور شائستگی کا عروج ہوا جس کے اجتماعی آہنگ سے مثنوی اور مرثیوں کی روایات اور کہانیوں سے اپنا رشتہ جوڑا اور ایک ایسی صنف وجود میں آگئی جو اس دور کے تہذیبی تقاضوں کو پورا کرسکتی تھی۔

    دھیرے دھیرے یہ تہذیب بکھرنے لگی۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ اس کا بکھراؤ دہلی میں ہوا۔ اہل حرفہ اور صناعوں کے مجمع منتشر ہونے لگے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے عمل دخل کے ساتھ ساتھ حرفت اور دستکاری کا میدان محدود ہوتا گیا، منڈیاں ویران ہونے لگیں اور تجارت و حرفت سے حاصل شدہ مال و دولت ملک سے باہر جانے لگی۔ البتہ ایک جھوٹی آسودگی اور مصنوعی اطمینان لکھنؤ جیسے چند مراکز میں باقی رہ گیا، جہاں مثنوی کی روایت زندہ رہی لیکن دہلی میں بکھرتے ہوئے سماج نے مثنوی کو خیر باد کہا اور غزل کو شعری اصناف پر اولیت حاصل ہوگئی۔ غزل نے زندگی کو اجتماع نہیں فرد کی نظر سے دیکھا۔ لیکن یہاں بھی فرد کسی نہ کسی حد تک اجتماع سے جڑا رہا اور اس کی علامتیں اسکے اپنے طبقے کے لئے قابل قبول اور قابل قسم بنی رہیں اس کی بنیادی دلچسپی انسان کے باہمی رشتوں سے باقی رہی اور ان رشتوں کی بدلتی ہوئی کیفیتوں پر غورکیا جاتا رہا جسے معاملات کانام دیا گیا۔ عشق بھی انہیں رشتوں کا ایک روپ تھا اور شاعر اپنی مخصوص علامتوں اور مضامین کی حد بندیوں میں رہ کر انسانی رشتوں کی اس دھوپ چھاؤ کا تماشائی بنا رہا۔

    پھر جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے یہ تہذیبی بساط ہی اُلٹ دی اور معاشرت سے فرد کا رشتہ اور زیادہ کٹ گیا تو نظم کی نئی صنف ابھری جس نے شروع شروع میں سماجی اصلاح کے ذریعے اپنے کو پانے کی کوشش کی اورپھر نظم کے وہ نئے اسلوب دریافت کیے جن میں ایک وطنی شاعری کی طرف لے گیا تو دوسرا نیچرل شاعری، تیسرا رومانیت کی طرف گیا تو چوتھا اس قسم کی فکری شاعری کی طرف رہبری کرنے لگا جسے اقبال کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ جیسے جیسے اقتصادی تبدیلیوں کا یہ عمل تیز سے تیز تر ہوتا گیا اورملک میں صنعتی ترقی کے ہاتھوں فرد کا رشتہ اجتماع سے کٹتا گیا ویسے ویسے نظم اسلوب اور تکنیک کی نئی منزلیں طے کر کے آزاد نظم اور آج کی علامتی اور نثری نظم کی طرف سفر کرتی گئی، آج بھی یہ سفر جاری ہے اوراسی طرح اقتصادی اور معاشی تبدیلیوں کا ہمرکاب ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے