اردو شاعری میں قومیت
فلسفہ سیاسیات میں قوم اور قومیت کا مفہوم بہت ہی بحث طلب سوال بن گیا ہے۔ لیکن شعر و ادب میں اس کی حیثیت اتنی الجھی ہوئی نہیں ہے کیونکہ شاعر کے شعور میں قومیت کا احساس ایک جذبے، ایک منصفانہ حق اور ایک انسانی قدر کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں یہ علمی پہلو نمایاں نہیں ہوتے کہ قومیت کن کن چیزوں سے مل کر بنتی ہے بلکہ آزادی، انصاف اور ترقی کی خواہش قومیت کا روپ اختیار کرکے شاعر کے جذبے میں داخل ہو جاتی ہے اور وہ اپنے وطن کی عظمت اور بڑائی کا راگ گانے لگتا ہے اور وہ اپنے وطن کے لئے دنیا بھر سے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔ یوں وہ اپنے اہم وطنوں کو ترقی کی راہ دکھاتا ہے اور آگے بڑھنے پر اکساتا ہے۔ وطن پرستی اورحب الوطنی کا یہ احساس غلام قوموں کے یہاں قومی اور سیاسی احساس بن جاتا ہے، جو قومی آزادی کی جدوجہد میں آگ اور بجلی بن کر چمکتا ہے اور طوفان بن کر لوگوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔
شاعری، شاعر کے مجموعی علم اور شعور، مکمل آگہی اور واقفیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو شاعر کے تجربہ یا احساس کا جزو بنتا ہے۔ خارجی حالات شاعر کی قوت متخیلہ کو ابھارتے ہیں۔ وہ اس کے ذہن اور جذبے میں بن سنور کر شاعرانہ روپ اختیار کرکے شعر کہلاتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ شاعر کے مادی تجربات کا عکس ہی ہوتے ہیں جو جذباتی اور تخیلی راہوں سے گزر کر داخلی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اس بحث کا مقصد یہ ہے کہ قومیت کا جذبہ جب کسی ملک میں رونما ہوتا ہے تو اس ملک کی زندگی کے ہر شعبہ میں اس کا اظہار ہونا ضروری ہے اور شاعر چونکہ سب سے زیادہ حساس ہوتا ہے اس لئے قومیت مختلف شکلیں بدل بدل کر رونما ہوتی ہے۔ شکلوں سے میرا مطلب یہ ہے کہ جب صاف صاف اظہار خیال کا موقع نہیں ہوتا، جب بعض خیالات کا ظاہر کرنا جرم قرار پاتا ہے، اس وقت جذبات اشاروں اور علامتوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور بھیس بدل کر ظاہر ہوتے ہیں لیکن ان کا ظاہر ہونا بند نہیں ہو سکتا۔ چکبستؔ نے اسے کس جوش سے ظاہر کیا ہے۔
زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
مرے خیال کو بیڑی پہنا نہیں سکتے
یا فانیؔ بدایونی نے جذبے کے ابال کی اسی حالت کو اس طرح سے کہا ہے،
نکل ہی جائیں گے نالے دہن سے خوں ہوکر
زباں نہیں کھلے گی رگ زباں صیاد
بہرحال قومیت کا جذبہ دب نہیں سکتا۔ اردو کے قدیم شعرا کے یہاں حب الوطنی کا تصور غور کرنے کی چیز ہے کیونکہ قومیت وطن سے وابستہ ہوتی ہے اور چاہے اس کا سیاسی تصور واضح نہ ہو، اخلاقی اور ملکی جذبہ اس سے ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ قدیم اردو شعرا نے ہندوستان کی رسموں، تیوہاروں، عادتوں و غیرہ کا ذکر اس محبت اور خلوص سے کیا ہے کہ ان کی وطن دوستی کسی طرح مشکوک نہیں ہو سکتی۔ اردو کے سب سے پہلے بڑے شاعر قلی قطب شاہ نے بسنت اور برسات کے ترانے گائے ہیں۔ فائزؔ اور میر تقی میرؔ نے دلی اشنانوں، پنگھٹوں اور ہولی جیسے تیوہاروں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ نظیرؔ اکبرآبادی نے تو آگرہ متھرا کے تمام ہندو مسلمان تیوہاروں پر نظمیں لکھی ہیں۔
اس وقت ہندوستان کی غلامی اور آزادی کا مسئلہ سامنے نہیں تھا پھر بھی وہ وطنی چیزوں کا ذکر ضروری سمجھتے تھے کیوں کہ وہ اسی ملک کی خاک سے اٹھے تھے اور اسی سے بحث کرتے تھے لیکن میں اسے اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ قومیت کا اصل جذبہ سیاسی کشمکش ہی کی زندگی میں نمایاں ہوتا ہے اور نشوونما پاتا ہے۔ آزادی کا جذبہ ضرورت کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ جب ہندوستان غلام بن گیا اور اس کو اس غلامی کااحساس بھی ہوا، اس وقت اس قومیت نے جنم لیا، جس نے معمولی چنگاری کی طرح ظاہر ہوکر جنگل کی آگ کی شکل اختیار کر لی اور غیر ملکیوں کو ہندوستان سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ اس لئے اس جذبہ کے اصل نشوونما کا زمانہ غدر۷ ۱۸۵ء کے بعد سے قرار پائےگا۔
غدر بھی ایک انقلاب تھا لیکن وہ مٹتی ہوئی جاگیرداری کا تصادم تھا نئی صنعتی طاقت سے، اس لئے شروع میں جو قومی جذبہ دکھائی دیتا ہے، اس میں انقلابی تصور کم ہے، جاگیردارانہ تمدن کی قدروں کے برباد ہونے کا غم زیادہ ہے۔ یہ بات فطری ہے کیونکہ اس وقت تک عوام جاگیرداری کے زوال کی وجہ سے جس خراب حالت میں تھے، ان کے یہاں بدلتے ہوئے حالات کا بہت زیادہ احساس ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ اگر ہم اس کی جھلک دیکھنا چاہیں تو غالبؔ کے اشعار میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ انگریزوں کے ہندوستان میں مسلط ہونے کی سیاسی اور تاریخی اہمیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے لیکن جب ملک کی عزت اور خودداری کو غدر کے ہنگامے میں چوٹ لگی تو وہ بھی خاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنی مشہور غزل لکھی جس کے دو شعر ہیں،
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بناہے نمونہ زنداں کا
یہ مبہم جذبے ۱۸۸۵ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کی شکل میں منظم ہوئے کیونکہ اگرچہ جدید قومی شاعری کی بنیاد آزادؔ اور حالیؔ کے ہاتھوں کئی سال پہلے لاہور میں پڑ چکی تھی لیکن ان کے یہاں بھی ملکی آزادی کا تصور بہت واضح نہ تھا۔ پھر حکومت کا دباؤ کچھ ایسا تھا کہ قومیت کا جذبہ اپنی ابتدائی حالت میں تھا اور معمولی اصلاحی خواہشات سے آگے نہ بڑھتا تھا، مگر یہی وہ بیج تھا جس سے قومی اور معاشی انقلاب کا درخت اگ رہا تھا جس کی آبیاری میں ہندوستان کے ادیب اور شاعر بھی شریک تھے۔
کانگریس شروع میں متوسط طبقہ کے عہدوں کی خواہشات کی آئینہ دار تھی۔ اس کی معاشی اور سماجی انقلاب کی نوعیت بیسویں صدی کے شروع میں اس وقت رونما ہوئی جب سودیشی تحریک شروع ہوئی۔ اودھ پنج اور دوسرے اخباروں نے اس کا خیرمقدم کیا۔ اودھ پنج جتنا سیاسی حیثیت سے اہم ہے اتنا ہی ادبی حیثیت سے بھی۔ اس میں قوم پرستی اور آزادی کے تیز وتند جذبات کی ترجمانی ہوتی تھی اور اکبرؔ الہ آبادی سرکاری ملازم ہونے کے باوجود ظرافت کا لبادہ اوڑھ کر اودھ پنج میں وہ سب کچھ کہہ رہے تھے جو سیاسی لیڈر اپنی تقریروں میں کہتے تھے۔ اس وقت سیاسی تقریروں میں وہ دہکتی ہوئی آگ نہ تھی جو ایوان حکومت کو جلا سکے۔ شاعری میں بھی وہ تیزی نہیں ہے لیکن اکبرؔ کے یہ اشعار دیکھئے،
کامیابی کا سدیشی پر ہر اک در بستہ ہے
چونچ طوطا رام نے کھولی مگر پربستہ ہے
دھن دیس کی تھی جس میں گاتا تھا اک دہاتی
بسکٹ سے ہے ملائم پوری ہے یا چپاتی
تحریک سودیشی پہ مجھے وجد ہے اکبرؔ
کیاخوب یہ نغمہ ہے چھڑا دیس کی دھن میں
ظاہر ہے کہ یہ موضوع شاعری کے نقطہ نظر سے بہت اہم نہ تھا لیکن پوری تحریک میں اہم حیثیت رکھتا تھا، اس لئے اکبرؔ نے اس کا ذکر کیا۔ جتنا زمانہ گزر تا جا رہا تھا اتنی ہی جذبہ آزادی کی رفتار تیز ہوتی جا رہی تھی اور اپنے دائرہ میں متوسط طبقہ اور عوام سب کو لیتی جا رہی تھی جو نت نئے طریقوں سے مختلف مذہب اور مختلف عقائد رکھنے کے باوجود ایک ہی میں مدغم ہوکر ہندوستانی بنتے رہے تھے۔
اقبالؔ کی شروع کی شاعری اور چکبستؔ کی پوری شاعری اس عقیدے سے مملو ہے۔ اقبالؔ کا ترانہ ہندی، ہندوستانی بچوں کا گیت، ہمالہ اور نیا شوالہ ہر ایک میں ہندوستانی قومیت کا نکھرا ہوا چہرہ نظر آ رہا ہے۔ مگر قومیت کے اس احساس کو پوری جوانی چکبستؔ کی نظموں میں نصیب ہوئی۔ کون ایسا ہندوستانی ہے جس نے اقبال کا ترانہ،
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
نہ سنا ہو اور کون ہے جس نے چکبستؔ کا یہ نعرہ نہ سنا ہو کہ،
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
چکبستؔ نے ہوم رول، ہندو مسلم اتحاد، وطن کی عظمت اور اپنے قومی رہنماؤں کے مرثیوں کو ایسے پرجوش انداز میں نظم کیا کہ ان میں دو آتشہ شراب کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اسے یاد رکھنا چاہئے کہ پہلی جنگ عظیم کے زمانہ تک ہندوستان کی قومی تحریک میں وہ انقلابی عناصر رونما نہیں ہوئے تھے جن کا ذکر بعد کے شعرا کی زبان پر آیا لیکن پھر بھی انگریزی حکومت کی مخالفت، آزادی کی خواہش اور مل جل کر قوم کو دنیا میں سر بلند کرنے کا جذبہ چکبستؔ کی نظموں سے ابل پڑتا ہے۔ اپنی نظموں میں انہوں نے بھی وہی مطالبے پیش کئے جو سیاسی رہنما پیش کر رہے تھے۔ عوام کے ذہن کو اسی طرح تیار کیا جس طرح سیاسی فضا تیار کر رہی تھی۔ چکبستؔ کو ہندوستان ایک ’’لاش بے کفن‘‘ نظر آ رہا تھا اور وہ ’’صور حب قومی‘‘ پھونک کر قوم کو جگانا چاہتے تھے تاکہ قدم ملکی آزادی کی طرف بڑھ سکیں۔
یہ خاک ہند سے پیدا ہیں جوش کے آثار
ہمالیہ سے اٹھے جیسے ابر دریا بار
لہو رگوں میں دکھاتا ہے برق کی رفتار
ہوئی ہیں خاک کے پردے میں ہڈیاں بیدار
یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا
رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا
دلوں میں آکے یہ ارمان جا نہیں سکتا
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
چکبستؔ کو قومی جذبہ کا جو احساس تھا، اس میں وہ مبالغہ نہیں جوش پیدا کرتے تھے،
وطن کے عشق کا بت بے نقاب نکلا ہے
نئے افق پہ نیا آفتاب نکلا ہے
اس طرح قومیت کے ارتقاء، ہوم رول کا مطالبہ، جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کی بدحالی ہر چیز پر چکبستؔ کی نظر گئی ہے۔ اسی دور میں مولانا شبلیؔ مسلمانوں کو لے کر فرقہ وارانہ جذبات کی مخالفت کرتے ہوئے انگریزی کا نتیجہ بتا رہے تھے۔ اسی زمانہ میں یورپ کا اقتدار اسلامی ممالک پر قائم ہو رہا تھا۔ شبلیؔ کے جذبات میں اس کی بھی کسک ہے اور یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ کئی ایشیائی ملکوں میں قومی انقلابات ہو رہے تھے اور روس میں ایک زبردست سیاسی اور سماجی انقلاب ایسا بھی ہو چکا تھا جس کا اثر ٹیگورؔ اور اقبالؔ نے قبول کیا تھا۔ اس لئے شاعری میں بھی ایک بین الاقوامی رنگ کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔
پہلی جنگ عظیم کے ختم ہوتے ہی ہندوستان میں جنگ آزادی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے فتح حاصل کرکے دم لیا۔ اس وقت سے اردو شاعری میں ہم وہ ہلکے سے ہلکا اور زبردست سے زبردست رجحان تلاش کر سکتے ہیں جو ملک کی سیاسی زندگی میں دکھائی دے رہا تھا۔ ظفر علی خاں جو خلافت تحریک کے پرجوش لیڈر تھے، کانگریس میں شریک ہوکر ملکی مسائل پر زبردست طنزیہ نظمیں لکھ رہے تھے۔ نظمیں ضبط ہوتی تھیں۔ اخبار پر پابندیاں لگتی تھیں۔ وہ خود جیل میں بند کئے جاتے تھے لیکن مہاتماگاندھی کے ترک موالات اورعدم تشدد کے جذبہ سے سرشار ہوکر ظفرعلی خاں، مولانا محمدعلی، مولانا حسرت موہانیؔ سب شاعری میں ان جذبات کی ترجمانی کرتے رہے تھے جس سے انقلابی تحریک کو تقویت پہنچتی تھی۔
جس طرح حب الوطنی کا جذبہ سیاسی قوم پرستی اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد میں رونما ہوا، ویسے ہی قومی آزادی کا تصور معاشی آزادی اور سماجی انقلاب کے خیالات سے بدلا۔ اگر کوئی شخص ہندوستان کی قومی تحریک کی رفتار سے واقف ہے تو اسے اردو شاعری کا مطالعہ کرنے اور ان تغیرات کی زبردست جھلک دیکھنے میں کوئی دشواری ہی پیش نہ آئے گی کیونکہ شاعری کا جو حصہ زندگی کی جدوجہد سے قریب رہتا ہے، اس میں اس جدوجہد کا رنگ ضرور دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ جلیاں والا باغ، ترک موالات، قیدوبند، آزادی، اشتراکیت، کسان، مزدور، انقلاب ان تمام مسائل نے اردو شاعری میں جگہ پائی اوراسی تیز رفتاری سے جس سے قومی تحریک قدم آگے بڑھا رہی تھی۔
یہاں تک کہ اردو شعرا کے نئے گروہ نے جس کی سرکردگی جوشؔ ملیح آبادی نے کی۔ اس کے لب و لہجہ میں بڑی شدت، آواز میں بڑی گھن گرج، مطالبات میں بڑا زور اور انداز بیان میں غصہ اور تلخی کا پتہ چلتا ہے۔ جوشؔ نے جس واضح اور صاف طریقہ پر قومیت کا نعرہ بلند کیا، وہ اردو شاعری میں ایک بالکل نئی آواز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں خطابت اور نعرہ زنی نے بجلیاں بھر دیں اور برطانوی حکومت اس کی گرمی کو برداشت نہ کر سکی۔ جب ان کی نظم ’’شکست زنداں کا خواب‘‘ شائع ہوئی اور ایک ہندی رسالے سو تنتر بھارت میں چھپی تو وہ رسالہ ضبط کر لیا گیا اور کارکنوں پر مقدمہ چلایا گیا۔ آج سے تقریباً دس سال پہلے انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے‘‘ لکھی اور دوسری جنگ عظیم کے شروع ہوتے ہی انگریزی حکومت کو یاد دلایا کہ صرف جرمن ہی ظالم نہیں ہے کیونکہ اس نے بھی اپنے سامراجی بندھنوں کو مضبوط بنانے کے لئے ہندوستان کو تباہ کیا ہے۔ اس نظم میں ایسے مصرعے اور خیالات آتے ہیں،
دستکاروں کے انگوٹھے کاٹتے پھرتے تھے ہم
سر برہنہ پھر رہی تھی عزت ہندوستاں
آج بیٹھے ہو جو نخلِ راستی کی چھاؤں میں
کیا خدا ناکردہ کچھ موچ آ گئی ہے پاؤں میں
یہ سن کر انگریزی حکومت کو غصہ آیا اور اس نے یہ نظم ضبط کر لی۔ جوشؔ کے گھر کی تلاشی لی گئی اور وہاں جب کچھ نہ ملا تو جوشؔ نے پھر ایک نظم لکھی اور تلاشی لینے والوں کو مخاطب کرکے کہا کہ شاعر کے باغیانہ خیالات اس کی کوٹھریوں اور صندوقوں میں بند نہیں رہتے، اس کے سینے میں ہوتے ہیں۔
اردو زبان کی اس پوری نسل کی شاعری قومیت اور آزادی کا کوئی دھند لایا جذباتی تصور نہیں رکھتی بلکہ واضح طور پر ایسا انقلاب چاہتی ہے جس میں ہندوستان آزاد ہو۔ اس میں جمہوری نظام قائم ہو، ہر شخص کو خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کا موقع ملے، رنگ اور نسل کی تمیز مٹ جائے۔ ساغرؔ، مجازؔ، سردارؔ، جوادؔ، اخترؔ، شمیمؔ، ملاؔ، روشؔ، کیفیؔ، مخدومؔ، جذبیؔ، مطلبیؔ فریدآبادی اور دوسرے شعرا کے کلام کا زیادہ حصہ اسی سے بھرا ہوا ہے۔ اس وقت ان کا ایک ایک شعر پیش کرنا بھی ممکن نہیں ہے، ان میں سے ہر ایک نے قومیت کے جذبات کو صحت مند شکل میں پیش کیا۔ یہی نہیں کہ ان کی نظمیں اور کتابیں ضبط ہوئی ہیں ہیں بلکہ آغا شورشؔ کاشمیری، سید مطلبیؔ فریدآبادی، تاباں ؔ، علی سردار جعفری، جواد زیدی، احمقؔ پھپھوندوی، مجروحؔ قومیت اور آزادی کا گیت گاتے ہوئے جیل خانوں کی سختیاں بھی برداشت کر آئے۔
فرقہ واریت کے خلاف اردو شاعری نے ایسی جنگ کی کہ آج بہت سے فرقہ پرست ادیب جن میں سے بعض ہمارے مشہور ادیب بھی ہیں، یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اردو کے مسلمان شاعروں اور ادیبوں نے مسلمان قوم یعنی دو قوموں کے نظریہ کی حمایت نہیں کی اور انہیں اس بات کا رنج ہے کہ مسلمان شاعروں نے اپنی قوم کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کو یہ نہیں معلوم کہ اردو شاعری کی روایت ہی یہ ہے کہ اس میں صلح پسندی، جمہوریت اور ترقی کے جذبے جگہ پاتے ہیں۔ رجعت پسندی، فرقہ پروری اور منافرت اس کی روایات میں داخل نہیں ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.