اردو شاعری تقسیم کے بعد
اردو ادب میں دوبڑے ہی کٹھن دَور آئے۔ ایک تو وہ دَور تھا جب اردو میں ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی۔ ہر نئی چیز خواہ وہ موافق ہو یا ناموافق، ترقی پسندی کی دلیل سمجھی جانے لگی، نئے خیالات اورنئے رجحانات اردو شاعری میں لائے گئے۔ موضوعاتِ شاعری بھی بدلے۔
اقبالؔ نے اپنے تبحر علمی اور بے پناہ شاعرانہ صلاحیت سے اردو شاعری کو ایک نئی زندگی دی تھی۔ ایک نئی فصابنائی تھی لیکن اس دور کے شعرا نے اقبالؔ کااثر قبول کرتے ہوئے بھی ان سے انحراف کرنا اپنا مسلک بنایا۔ کلاسیکل ادب کو فرسودہ اورناقص قرار دے کر اس کی تقلید کو غلط بتایا، غزل کی بجائے نظم پر زور دیا گیا۔
اس میں شک نہیں کہ اس دور میں بھی قدیم اسکول کے اچھے اور جانے پہچانے شعرا موجود تھے۔ مثلاً اس دور میں بھی حسرتؔ، وحشتؔ، فانیؔ، یگانہؔ، آرزوؔ، جگرؔ اور فراقؔ نے اچھی غزلیں کہیں، جن میں سے بیشتر مشہور بھی ہوئیں۔ لیکن عام رجحان نئی تحریک کے ساتھ تھا، جس کا مقصد غزل کی بجائے نظم کو ترقی دینا تھااور سماجی مسائلِ زندگی کو ادب سے قریب تر کرنا تھا۔ چنانچہ جوشؔ، فیضؔ، مجازؔ، اخترالایمان، جذبیؔ، علی سردار جعفریؔ، مخدومؔ محی الدین اور پرویز شاہدی نے اس دور میں نظمیں کہیں۔ ان شعراء نے نظموں میں نئے تجربے بھی کیے۔ کہہ سکتے ہیں یہ دور صرف نظموں کا تھا۔
پھر اردو شاعری کادوسرا اور غالباً سب سے کٹھن دور وہ ہے جو تقسیم ہند کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے ساتھ دوچیزیں وجود میں آئیں۔ ایک تو فسادات او دوسری آزادی۔
یہ وہ دوچیزیں تھیں جن سے ملک کا ہر طبقہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آزادی کے ساتھ سفاکی اور غارت گری کا سیلاب امڈا اور سارا ملک خس و خاشاک کی طرح اس سیلابِ عظیم میں بہہ گیا۔ ہندوستان آگ کی ایک ایسی بھٹی بن گیا تھا، جہاں انسانیت دم توڑنے لگی۔ ان حوادث و سوانح کا زبردست اثر ادب پر بھی ہوا۔ کوئی فنکار ایسا نہ تھا جو ان حوادث سے متاثر نہ ہواہو۔ چنانچہ اگر اس دور کے ادب کوآزادی فسادات کے ادب سے منسوب کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
ناصرؔ کاظمی نے اس دور کے فنکار کابڑا ہی اچھا نقشہ کھینچا ہے،
سہمے سہمے بیٹھے ہیں راگی اور فنکار
بھور بھئے اب ان گلیوں میں کون سنائے جوگ
گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
دلّی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ
فسادات کے اوپر ناصرؔ کاظمی نے اور بھی اچھے اشعار کہے ہیں،
شہر درشہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشن طرب منائے گئے
کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھانہ جائے
لب و لہجہ بدلہ ہوا ہے، ماحول و حالات کی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔
اسی طرح مختار صدیقی کی نظم ’بازیافتہ‘ ندیمؔ کی آزاد نظم مغویہ، اس تباہ حالی کے دور کی ترجمان ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حالات و ماحول کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ جگر جیسے شاعر کو جن کاتعلق قدیم اسکول سے ہے، یہ کہنے پر مجبور کیا کہ،
فکرِ جمیل خوابِ پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
پھر اسی افراتفری اور چیخ و پکار کے دورمیں بعض مشہور شعراء نے آزادی پر اشعار کہے۔ ان میں فیض کی نظم ’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گریزہ سحر‘ نشورؔ کی نظم ’جیت کس کی ہے ‘ یا پھر حفیظ ہوشیار پوری کا یہ شعر،
کچھ اس طرح سے بہار آئی ہے کہ بجھنے لگے
ہوائے لالہ و گل سے چراغ دیدۂ دل
یہ سب ملک کی آزادی سے متعلق ہیں۔ مجازؔ اور ساحرؔ نے بھی آزادی سے متعلق نظمیں کہی ہیں، جو کافی مقبول بھی ہوئی۔ان باتوں سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تقسیم کااثراردو شاعری پر کافی پڑا ہے۔
نتیجہ کے طور پر اردو شاعری میں اور اردو شعرا کے رجحانات میں کئی نمایاں فرق پیدا ہوئے۔ ترقی پسند شعرا، جنہوں نے ۱۹۳۶ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک غزل کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی، پھر سے غزل کی طرف مائل ہوئے۔ فیضؔ، مجازؔ، ساحرؔ، ندیمؔ اور جذبیؔ نے اچھی غزلیں کہیں۔
کلاسیکل ادب جسے کبھی فرسودہ تصور کرکے ٹھکرادیا گیا تھا، پھر سے اپنایا گیا۔ میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور شادؔ سے متاثر ہوکر غزلیں کہیں۔ اس دَور میں جوشؔ، ندیمؔ اور سردار جعفریؔ نے جو نظمیں کہیں، ان میں بیشتر پر اقبالؔ کا اثر تھا۔چنانچہ کلاسیکل ادب کی اردو شاعری میں واپسی نے جدید شاعری کو پھر سے قدیم اسکول کے قریب کردیا۔ البتہ بعض تبدیلیوں کے ساتھ۔یہی وجہ ہے کہ تقسیم کے بعد جو شعرا خاص طور پر ابھرے، انہوں نے بھی کلاسیکل رنگ میں غزلیں و نظمیں کہیں اور غالباً یہ کہناصحیح ہوگا کہ تقسیم کے بعد کے ہراچھے شاعر کے یہاں قدیم اسکول کے شعرا کاکچھ نہ کچھ اثر ضرور ہے۔
دوسرانمایاں فرق جو تقسیم کے بعد اردو شاعری میں ملتاہے، وہ نظم اور غزل کے فارم اورڈکشن کی تبدیلی ہے، کیونکہ اس دور میں غزل و نظم دونوں میں مزید نئے تجربے کیے گئے۔ یوں تو ۳۶ء سے لے کر ۴۶ء تک کی شاعری بھی موضوع اور فارم کے ساز سے بہت کچھ بدل چکی تھی، لیکن اس کااثر صرف نظموں ہی تک تھا۔
تبدیلیوں اور تجربوں کے اس دور میں قدیم اسکول کے شعرا بھی کچھ زیادہ پیچھے نہیں رہے۔ وہ بھی ان حالات سے متاثر ہوئے۔ چنانچہ وحشتؔ، حسرتؔ، یگانہؔ، آرزوؔ، جگرؔ، فراقؔ اور پھر ان سے ذراہٹ کر جمیلؔ مظہری، اجتبی رضویؔ، حفیظؔ ہوشیار پوری، سیف الدین سیفؔ، زیڈ اے بخاری اور مجروح سلطان پوری نے غزلیں اور نظمیں کہیں، جن کا لب و لہجہ پہلے سے کہیں بدلاہوا تھا۔ ماحول اور حالات کا عکس تھا۔ موضوعاتِ غزل بہت کچھ بدل چکے تھے۔ فضا اب محدود نہیں رہی تھی۔ یگانہؔ، جگرؔ اور فراقؔ کی بعض اچھی غزلیں اسی دور کی ہیں۔
جمیل مظہری نے تقسیم سے پہلے زیادہ تر نظمیں کہیں تھیں۔ ان کی طبیعت کامیلان بھی دراصل نظموں کی طرف ہے۔ان کی نظمیں ’ڈرو خدا سے ڈرو‘، ’یہ کیا ہو اتم کو‘ اور ’عشقِ نا تمام‘ اردو نظم گوئی میں ایک اہم اضافہ کہی جاسکتی ہیں۔ لیکن تقسیم کے بعد جمیلؔ مظہری نے غزلوں کی طرف توجہ زیادہ کردی ہے اور ان کا مخصوص رنگ جو فکر اور رومان کا امتزاج ہے، غزلوں میں بھی نمایاں ہے۔ انہوں نے ہندی الفاظ بھی پہلی بار کامیابی کے ساتھ غزل میں استعمال کیے ہیں، جن سے بڑی شیرینی پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً اس طرح کے دو شعر ہیں،
اٹھاکے شعلے ہمارے دل میں الاؤ سے دور چپ کھڑی ہو
نہ ڈالا جاتا ہے تم سے پانی نہ تاپی جاتی ہے آگ تم سے
تم سے چھٹ کہ چیت میں اب کے جو بھی حالت اس کی ہو
جس نے اے متواری رادھا تم سے ہولی کھیلی ہو
اجتبیٰ رضوی نے شاعری میں تصوف اور شدتِ جذبات کو جگہ دی ہے۔ رومان اور تصوف کی آمیزش نے اجتبی کی شاعری کوایک ایسی انفرادیت عطاکی ہے جو نشورؔ کے علاوہ ان کے ہم عصروں میں نہیں ملتی۔ عصرِ رواں میں اجتبی کی اپنی الگ آواز ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مغربی پاکستان ان کی ذات سے تقریباً ناواقف ہے۔
حسرتؔ اور آرزوؔ کی شاعری صحیح معنوں میں تقسیم سے پہلے ہی ختم ہوچکی تھی اور اس کادورِ انحطاط تھا۔ البتہ حفیظؔ ہوشیار پوری، سیف الدین سیفؔ، اور زیڈ اے بخاریؔ نے اس دَور میں کچھ اچھے اشعار کہے ہیں جوان کے مخصوص طرزِ بیان اور مخصوص فکر کے حامل ہیں۔
اثرؔ صاحب کے کلام کی خاص خوبی زبان و بیان کی صفائی رہی ہے۔ تقسیم کے بعد بھی یہ خوبی ان کے یہاں ملتی ہے۔
اکبرؔکی طنزیہ شاعری میں وسعت و گہرائی کی کمی تھی۔ شادؔ عارفی نے اس صنف میں اچھے تجربے کیے ہیں۔ ان کی آواز سب سے مختلف اور نئی ہے اور ان کے اشعار اردو شاعری میں ایک اچھے اضافہ کادرجہ رکھتے ہیں۔ تقسیم کے بعد انہوں نے غزل کی طرف توجہ زیادہ کردی ہے۔ ان کی نظموں میں اب وہ پہلا سااثر نہیں ہے، پھر بھی ان کا منفرد رنگ غزلوں اور نظموں دونوں میں ہی نمایاں رہتا ہے۔ کاش شادؔ عارفی صاحب ’’دسہرہ اشنان‘‘ اور ’’نوکرانی‘‘ جیسی کچھ اورنظمیں اردو شاعری کو دے سکتے۔
اس صنف میں نئے تجربات کا ذکر ناکافی ہوگا اگر سید محمد جعفریؔ اور احسن احمد اشکؔ کانام نہ لیا جائے۔ ان لوگوں نے بھی طنزیہ اندازِ بیان کو تقویت پہنچائی ہے۔
تقسیم کے بعد اردو شاعری کے رجحانات کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان شعرا کے کلام کاجائزہ لیں، جنہوں نے بالواسطہ یا براہِ راست اس دور کے شعرا کو (میری مراد نئی نسل سے ہے) متاثر کیا ہے۔ فیضؔ، میراجیؔ اور ن۔م راشدؔ کا نام اس سلسلے میں لیا جاسکتا ہے۔
میراجیؔ اور فیضؔ نے غالباً نئی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور تقسیم کے بعد کی شاعری پر ان دونوں کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ راشدؔ کااثر بھی کم نہیں ہے۔اس سلسلے میں ایک نام اور بھی لیاجاسکتاہے۔ میری مراد نشورؔ واحدی سے ہے، جنہوں نے بالواسطہ اس دور کے کچھ شعرا کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ آئیے اِن کے اثرات کو ہم علیحدہ علیحدہ دیکھیں اور پھر ان کاتجزیہ کریں۔
میراجیؔ اور راشدؔ کی حیثیت اردو شاعری میں آزاد اور معرا نظموں کے بانی کی ہے۔ (حالانکہ اسمعیل میرٹھی اور عظمت اللہ نے ان اصنافِ شاعری پر تجربے کیے تھے) جنس (SEX) اور امیجری ان کی شاعری کے سب سے اہم پہلو تھے۔ ابہام بھی ان ہی کے سہارے اردو شاعری میں داخل ہوا۔
سب کو معلوم ہے اک صنف سخن ہے ابہام
بعض نئے شاعروں کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابہام واقعی ایک صنفِ سخن ہے۔
بہرحال میراجیؔ اور راشدؔ دونوں ہی تقسیم سے پہلے اردو شاعری میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ ان شعرا کا اپنا کوئی اہم کارنامہ اردو شاعری میں نہیں اور نہ ان کے یہاں اچھی شاعری کی کوئی مثال ملتی ہے، پھر بھی ان کا اثر تقسیم کے بعد کے شعرا پر زبردست رہا۔خصوصاً میراجیؔ کا۔ چنانچہ میراجیؔ اسکول کی پیروی آج بھی شعراکرتے ہیں، ان میں ایک دو بڑے نام بھی ہیں۔
مختار صدیقی، اخترالایمان، یوسف ظفرؔ، مخدوم محی الدینؔ، ضیاؔ جالندھری، مجید امجدؔ، اور منیر نیازیؔ اسی اسکول سے متعلق ہیں۔ ان میں کئی راشدؔ سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔
اب رہے فیضؔ تو بقول شاہدؔ احمد دہلوی، ’یہ دور ہی فیض کا ہے ‘۔ اور یہ حقیقت ہے۔ انہوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر اس دور کے کم و بیش ہر شاعر کو متاثر کیا ہے۔ ان کے رنگ میں لوگوں نے نظمیں و غزلیں کہی ہیں۔ تشبیہیں اور استعارے اور ترکیبیں جو فیضؔ کے یہاں خاص طور پر پائی جاتی ہیں، اس دور کے شعرا میں مقبول رہیں۔ ان کے اندازِ بیان کو لوگوں نے اپنایا اور ان کے ہراچھے اور برے تجربوں کی پیروی کی۔ چنانچہ اِن چیزوں کا زبردست اثر تقسیم کے بعد کی شاعری پر ہوا۔ بیشتر شعرا فیضؔ کی تیزگامی کاساتھ نہیں دے سکے اور ان کے مخصوص رنگ میں کامیاب نہیں ہوسکے، جس کی وجہ سے انہیں سخت نقصان پہنچا۔ غالباً فیضؔ کی تقلید کا سب سے خراب اثر ساحرؔ کی شاعری پر ہوا ہے، جو اپنے اندر ایک اچھے شاعر کی تمام تر صلاحیتیں رکھتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکے۔
فیضؔ کی شاعری کے جو اثرات عصرِرواں پر ہیں، وہ اچھے ہیں یا برے، ان کا فیصلہ تو آنے والا زمانہ ہی کرسکے گا۔ بہرحال اتنا کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ انہوں نے اردو شاعری کو کچھ اچھی نظمیں اور غزلیں دی ہیں۔ اور پھر ان اصناف میں اچھے اورنئے تجربے بھی کیے ہیں جو افسانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی نظمیں ’سرمقتل‘، ’ شورش بربط و نے ‘، ’روشنیوں کے شہر‘ اور تازہ ترین ’حمد‘ بے حد مقبول ہوئیں اور ان میں کافی جان بھی ہے۔
فیضؔ کے سلسلے میں ایک بات اور کہنی تھی، وہ یہ کہ ان کے یہاں ناہمواری نہیں ہوتی۔ میری مراد اس سے یہ ہے کہ ان کے یہاں تیسرے درجے کی کوئی چیزہمیں نہیں ملتی۔وہ اپنے مخصوص معیار کا برابر خیال رکھتے ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ جوش، فراق، اور جمیل مظہری سے زیادہ نئی نسل کو متاثر کرسکے ہیں اور مقبول خواص و عوام رہے ہیں۔
میں نے کہا کہ نشوؔر واحدی نے بھی بالواسطہ نئی نسل کے کچھ شعرا کو اپنے کلام سے متاثر کیا ہے۔ اس سے میری مراد ان کے اندازِ بیان اورمخصوص رنگ سے ہے جس نے اس دور کے کچھ شعرا کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں عزیز حامد مدنیؔ اور محبوب خزاںؔ کانام لیا جاسکتا ہے۔ ان کے یہاں بھی نشورؔ کی طرح سادہ اور پرکار قسم کے الفاظ استعمال میں آتے ہیں۔ ابہام بھی غالباً ان کے درمیان مشترک ہے۔ ویسے یہ بات ضرور ہے کہ نشورؔ کی شاعری تخلیقی شاعری کی اچھی مثال ہے۔ ان کے اشعارکو پڑھ کر یہ کہاجاسکتا ہے کہ نشورؔ واحدی کی آواز اس دور کے تمام شعراء سے مختلف ہے۔
اردو کے ان شعرا کے علاوہ تقسیم کے بعد کی شاعری جن عناصر سے متاثر ہوتی رہی ہے، ان میں مغربی ادب اور دوسری زبانوں کے ادب کو بھی دخل ہے۔ ان کے اثرات نے اردو شاعری میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات نے بھی اس دور کی شاعری پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں، جو بہت زیادہ گہرے نہیں تو گہرے ضرور ہیں۔
چنانچہ تقسیم کے بعد کی شاعری نے مغربی شعرا کاگہرا اثر قبول کیا ہے، ان میں جو چند نام خاص طور پر نمایاں ہیں، ان میں ایذرا پونڈ، ٹی ایس ایلیٹ، لورکا، ئیٹس (YEATS) اور مشرقی ادب سے لی پوا اورمیرابائی ہیں۔
اب مجھے چند باتیں نئی نسل کے سلسلے میں کہنی ہیں، خصوصاً ان شعرا کے متعلق جو تقسیم کے بعد خاصے ابھرے جن کا منفرد لب و لہجہ ہے، مخصوص طرز بیان ہے، جن کی اپنی آواز ہے اور جنہوں نے اپنی شاعری سے ابھرتے ہوئے نئے شعرا کو متاثر کیا ہے۔ ایسے شعراکی فہرست میں مختارؔ صدیقی، ناصرؔ کاظمی، جمیل الدین عالیؔ اور ابن انشاؔ کے نام خاص طور پر لیے جاسکتے ہیں۔
مختارؔ صدیقی کی شاعری تقسیم کے بعد نکھری ہے۔ ان کے لب و لہجہ میں بڑاہی سوز و گداز ہے۔ ’’میریت‘‘ ان کے یہاں خاص طور پر نمایاں ہے۔ان کی شاعری نے شادؔ، میراجیؔ اور راشدؔ کااثر خاص طور پر قبول کیا ہے۔ مختارؔ نے اردو شاعری میں کئی اچھے اورنئے تجربے بھی کیے ہیں۔ ان کی نظمیں ’’قریۂ ویراں‘‘ اور ’’برف باری کی ایک رات‘‘ نئے تجربات کی اچھی مثالیں ہیں۔
میں نے اوپر کہا ہے کہ تقسیم کے بعد بعض شعرا نے اساتذہ کے رنگ میں اور ان کے مخصوص لب ولہجہ میں شاعری کی ہے۔ شاید میرؔ سب سے زیادہ مقبول رہے ہیں۔ لیکن جس شاعر نے سب سے زیادہ کامیابی کے ساتھ ان کے طرز کو اپنایا ہے، وہ مختارؔ صدیقی ہیں۔
ناصرؔ کاظمی نئی نسل کے ان چند شعرا میں ہیں جن کی تعداد حسن عسکری کی زبان میں دوڈھائی سے زیادہ نہیں۔ بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ناصرؔ نے بھی اردو شاعری میں نئے تجربے کیے ہیں۔ ان کی اپنی آواز ہے، اپنا لب و لہجہ ہے اور ایک منفرد رنگ ہے۔ شدتِ احساس غالباً اس دور کے شعرا میں سب سے زیادہ ناصرؔ کے یہاں ہے۔ ان کے ہاں امیجری اور علامتی شاعری کی بھی اچھی مثالیں مل جائیں گی۔
عالیؔ کانام آتے ہی ذہن ان کے دوہوں کی طرف جاتا ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ دوہوں کی مقبولیت میں عالیؔ اورعالیؔ کی مقبولیت میں دوہوں کو بڑا دخل ہے۔ ہندی کے سہل اور جانے پہچانے الفاظ کا استعمال نہایت ہی کامیابی کے ساتھ عالیؔ نے کیا ہے، جس سے دوہوں میں بلا کی شعریت اور فصاحت پیدا ہوگئی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ تقسیم کے بعد کی شاعری میں دوہے کی موجودہ ہیئت اور پھر اس کی مقبولیت ایک اہم اضافہ ہے۔عالیؔ نے غزلیں بھی کہی ہیں اور گیت بھی۔ غزل میں ان کی شاعری نے غالبؔ، اقبالؔ اور جگرؔ کے اثرات کو زیادہ قبول کیا ہے۔
کچھ اسی طرح کی باتیں ابن انشاؔ کے ساتھ ہیں۔ وہ بھی تقسیم کے بعد کافی ابھرے اور ان کی نظموں نے مقبولیت بھی حاصل کی ہے۔ ان کے یہاں میرؔ، ولیؔ اور نظیرؔ کابڑاگہرا اثر ملتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، تقسیم کے بعد کے بیشتر شعرا نے کلاسیکل لٹریچرکو اپنانے کی کوشش کی ہے۔
ان شعراء کے علاوہ نئی نسل میں اور بھی ایسے نام آتے ہیں جن کا ابھی سے منفرد انداز بیان ہے اور جن کی آواز اب کافی جانی پہچانی جاتی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں عزیز حامد مدنیؔ، محبوب خزاںؔ، شہرت بخاریؔ، سلیمؔ احمد، شہزادؔ احمد، منیر نیازی، مصطفےٰ زیدیؔ اور فرید جاویدؔ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
ایک بات کی وضاحت اور بھی ہونی ضرور ہے، وہ یہ کہ تقسیم کے بعد جہاں غزل، نظم اور دوہے کے اصناف میں نئے اور اچھے تجربے ہوئے ہیں وہاں گیت کی صنف کو بھی ترقی دی گئی ہے۔ چنانچہ حفیظؔ جالندھری، جمیل الدین عالیؔ، قتیلؔ شفائی، اور تنویرؔ نقوی نے کامیاب گیت لکھے ہیں۔
اب آخر میں مجھے دوباتیں کہنی ہیں۔ میں نے اس مضمون میں ان شعرا کا ذکر کیا ہے جنہوں نے تقسیم کے بعد کی شاعری پر کوئی نقش نہیں چھوڑا ہے یا پھر وہ جو چند ایک غزل یا نظم لکھ کر گئے یا وہ شعراء جو کسی نامعلوم وجہ سے مشہور ہوگئے مگر درحقیقت شاعر نہیں ہیں، یہ اور بات ہے کہ بعض مخصوص رسالوں میں یسے نام سرفہرست پر بھی آجاتے ہیں۔
تقسیم کے بعد کی شاعری کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ گو اس دور میں غزل و نظم اور دوسرے اصناف شاعری میں کافی نئے اہم تجربے ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے پھر بھی اس دور میں اقبالؔ کی نظم ’مسجد قرطبہ‘ یا’ طلوع اسلام‘ جیسی مکمل کوئی نظم اردو شاعری میں نہیں ملتی۔البتہ غزلوں میں کچھ ترقی ضرور ہوئی ہے جو ہمت افزا ہے۔
پھر بھی اردو شاعری منتظر ہے ایک ایسے شاعر کی جو غالبؔ یا اقبالؔ جیسی شاعرانہ صلاحیت کا مالک ہو، کہہ سکتے ہیں، اردو شاعری میں ایک بڑے شاعر کی جگہ خالی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.