اردو زبان
اردو زبان صحیح معنوْں میْں ایک مخلوط زبان ہے، جیسا کہ اس کے ایک تاریخی نام ’’ریختہ‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ یوْں تو دنیا کی اکثر زبانیْں دخیل الفاظ کی موجودگی کی وجہ سے مخلوط کہی جا سکتی ہیْں، لیکن جب کسی لسانی بنیاد پر غیر زبان کے اثرات اس درجہ نفوذ کر جاتے ہیْں کہ اس کی ہیئتِ کذائی ہی بدل جائے تو وہ لسانیاتی اصطلاح میْں ایک مخلوط یا ملواْں زبان کہلائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے اردو کی نظیر کہیْں ملتی ہے تو فارسی زبان میْں، جس کی ہند ایرانی بنیاد پر سامی النسل عربی کی کشیدہ کاری نے کلاسیکی فارسی کو جنم دیا۔ عربی کے اس عمل کی توسیع جب فارسی کے وسیلے سے تیرھویْں صدی عیسوی میْں ہندوستان کی ایک ہند آریائی بولی، امیر خسرو کی ’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘‘ پر ہوتی ہے تو اردو وجود میْں آتی ہے۔ اس لسانی عمل کی توسیع کی دیگر مثالیْں کشمیری، سندھی اور مغربی پنجابی ہیْں، لیکن ’’زبانِ دہلی‘‘ کی طرح یہ کبھی بھی کل ہند حیثیت اختیار نہ کر سکیْں۔
اردو کا نقطۂ آغاز 1193میْں مسلمانوْں کا داخلۂ دہلی ہے۔ اس کا پہلا مستند شاعر امیر خسرو دہلوی ہے جس کا بیشتر ہندوی کلام غیر مستند سہی، لیکن جس کا شاعرِ ہندوی ہونا مسلّم ہے۔ خسرو کی مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ میْں ہمیْں پہلی بار ہندوستان کی معروف زبانوْں کی فہرست ملتی ہے۔ یہ تعداد میْں بارہ ہیْں۔ سندھی، لاہوری (پنجابی)، کشمیری، ڈوگری (ڈگر؟)، کنڑ (دھور سمندری)، تلنگی، گجراتی (گجر)، تمل (معبری)، مغربی بنگالی (گوڑی)، مشرقی بنگالی ( بنگال)، اودھی (اَود)، اور سب سے آخر میْں ’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘‘ (یعنی دہلی اور اس کے نواح کی بولیاْں)،
ایْں ہمہ ہندو یست کہ ز ایامِ کہن
یہ ’’مصطلحے خاصہ‘‘ ہیْں۔ (یعنی اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہیْں) ان کے علاوہ ایک اور زبان، برہمنوْں کے نزدیک برگزیدہ ’’سنسکرت نام ز عہدِ کہن‘‘ بھی ہے جس کے بارے میْں خسرو رقم طراز ہیْں۔ ’’عامہ ندارد خبر از کن مکنش‘‘
خسرو نے ’’زبانِ دہلی‘‘ کے ساتھ ’’پیرا منش‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ ’’پیرامن‘‘ (اطراف) جاٹوْں اور گوجروْں کی زبان پر مشتمل تھا۔ جاٹوْں سے منسوب کھڑی بولی اور ہریانوی ہیْں اور گوجروْں سے متعلق برج بھاشا۔ اِنھی کے نسوانی حسن کے بارے میْں خسرو اس طرح رطب اللسان ہیْں،
گجری کہ تو در حسن و لطافت چو مَہی
***
ہر گاہ بگوئی کہ ’’دَہی لیہو دَہی‘‘
جاٹوْں کی زبان کھڑی اور ہریانوی (ا) بنیاد بولیاْں ہیْں، یعنی ان میْں اسماء صفات، اور افعال کا خاتمہ بالعموم (آ) پر ہوتا ہے۔ برج بھاشا (او) بنیاد کہی جا سکتی ہے جس میْں اسماء، صفات اور افعال کا خاتمہ عموماً (او) پر ہوتا ہے۔ اسی لیے ’’پرانی ہندی‘‘ کے مصنف چندر دھر شرما گلیری نے اسے کھڑی کے مقابلے میْں ’’پڑی بولی‘‘ کہا ہے۔
دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوْں کا یہ ملغوبہ پرانی دِلّی کے بازاروْں، حصاروْں اور خانقاہوْں میْں تقریباً سو سال تک اپنی ابتدائی شکل میْں ارتقا پاتا رہا تا آْں کہ چودھویْں صدی کے ربعِ اول میْں یہ فتوحاتِ علائی و تغلق کے ذریعہ گجرات کے راستے دکن تک پہنچ جاتا ہے۔ گجرات میْں اس کا مقامی نام ’گجری‘‘ پڑا جو غالباً ’’گذری‘‘ کا مہنّد ہے۔ ’’گذری‘‘ بازار کو کہتے ہیْں، لیکن اس کا عمومی نام ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ قائم رہا۔ دکن میْں سترھویْں صدی عیسوی میْں اس کا مقامی نام ’’دُکھنی‘‘ یا ’’دکنی‘‘ پڑتا ہے، حالاْں کہ وجہی کی ’’زبانِ ہندوستان‘‘ کی ترکیب اور فرشتہ کی ’’ہندوستانی‘‘ میْں یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ اس کا تعلق شمالی ہند سے ہے۔ سرزمینِ دکن میْں جہاْں یہ سلطنتِ بہمنیہ کے قیام کے بعد پھلی پھولی مراٹھی، کنّڑ اور تلگو زبانیْں رائج تھیْں۔ پہلی کا تعلق ہند آریائی سے ہے جب کہ آخری دو دراویدی زبانیْں ہیْں۔ مراٹھی چونکہ متجانس ہند آریائی زبان تھی، اس لیے اس سے لین دین کا کاروبار زیادہ رہا۔ حالاْں کہ جن محققین نے دکنی پر مراٹھی کے اثرات کا شد و مد کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ اکثر یہ بھول جاتے ہیْں کہ جن الفاظ کی نشان دہی وہ مراٹھی سے کرتے ہیْں ان میْں سے بیشتر نواحِ دہلی کی بولیوْں میْں تلفظات کے ہیر پھیر کے ساتھ آج تک رائج ہیْں۔ ڈاکٹر عبدالستار دلوی نے ’’دکنی اردو‘‘ میْں ایسے کئی سو الفاظ کی فہرست دی ہے جن میْں سے 80 فی صد الفاظ کی شناخت شمال کی ’’ہندوی‘‘ میْں بہ آسانی کی جا سکتی ہے۔۔۔ مراٹھی سے قطع نظر تلگو اور کنّڑ کے اثرات کا بھی دکن کے بعض محققین ڈاکٹر زورؔ وغیرہ نے تذکرہ کیا ہے۔ یہ اثر عام طور پر چند الفاظ اور محاورات پر مشتمل ہے اور وہ بھی تحریری نہیْں تقریری زبان پر۔۔۔ گوجری اور دکھنی میْں نمایاْں فرق نہیْں جس کا ثبوت احمد گجراتی کی مثنوی ’یوسف زلیخا‘ ہے جو اس نے گول کنڈہ کے فرماْں روا محمد قلی قطب شاہ کی دعوت پر گجرات سے گول کنڈہ آکر لکھی تھی۔۔۔ اِن لسانی شہادتوْں کے پیشِ نظر میرے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ گجرات تا بیجا پور تا گول کنڈہ، ادبی حیثیت سے ایک ہی محاورہ رائج تھا، جسے ہم چودھویْں صدی عیسوی کی ’’زبانِ دہلی‘‘ کہہ سکتے ہیْں۔ چوْں کہ شمال سے نواحِ دہلی کی ایک سے زائد بولیاْں دکن پہنچی تھیْں اس لیے کچھ عرصے تک ان میْں آنکھ مچولی ہوتی رہی تا آْں کہ وجہی، نصرتی، غواصی جیسے با کمالوْں کے ہاتھوْں میْں پہنچ کر ان کی معیار بندی ہو جاتی ہے۔
1686اور 1687سنہِ عیسوی میْں بیجاپور اور گول کنڈہ کے سقوط کے بعد اورنگ آباد ایک بار پھر سلطنتِ دہلی کا صدر مقام بن جاتا ہے۔ اورنگ زیب دکن میْں 1682میْں لال قلعہ، دہلی کی سکونت ترک کر کے مستقل طور پر اورنگ آباد میْں قیام پذیر ہو گیا تھا۔ شمال اور جنوب کے سارے دروازے ایک بار پھر کھل گئے۔ اورنگ آباد، شاہ جہان آباد کا ایک محلہ معلوم ہونے لگا۔ ایسے میْں ولیؔ دکن کی خاک سے اٹھے، 1700میْں دہلی پہنچے، اور شاہ گلشن کے مشورے پر ریختہ کو ’’بموافقِ محاورۂ شاہجہان آباد‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ دیکھتے دیکھتے پچاس سال کے عرصے میْں دہلی میْں ریختہ گویوْں کی ایک کھیپ سی نکل پڑی۔۔۔ مرزا مظہر جانجاناْں اور حاتم نے زبان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ متروکات کے نام پر اور ’’مرزا ایانِ دہلی‘‘ کی سند لے کر بے شمار ہندی کے الفاظ پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ حاتمؔ کو شرم آئی تو اپنے ضخیم دیوان سے 1755میْں ایک ’’دیوان زادہ‘‘ کی تولید کی۔ اس کے بعد سوداؔ نے اپنے قصائد کے ذریعے اس میْں فارسی لغات کا دہانہ چھوڑ دیا۔
(ماخوذ از ’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘، خطبۂ پروفیسر ایمے ریٹس، علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1988، ص59)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.