Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو زبان :امکانات کا نیا منظرنامہ

وصیہ عرفانہ

اردو زبان :امکانات کا نیا منظرنامہ

وصیہ عرفانہ

MORE BYوصیہ عرفانہ

    اردو ایک زندہ جاوید عالمی زبان ہے۔اعداد شمار کے مطابق اس وقت کرہ ٔ ارض پر تقریباً پچاس کڑور سے زائد افراد اردو سے شناسائی رکھتے ہیں۔ اردو کے مزاج میں نہایت لچیلاپن ہے۔اس زبان میں دنیا کی مختلف زبانوں سے الفاظ و تراکیب مستعار لے کر جذب و تحلیل کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔اردو زبان کی گنگا جمنی تہذیب نے بھی اس میں ایک عجب کشش اور ندرت پیدا کی ہے۔ غزل اردو زبان کی وہ اہم وراثت ہے جس نے اسے عالمی سطح پر ہمہ گیری ،پسندیدگی اور مقبولیت عطا کی ہے۔ خسرو، ولی، میروغالب کی وراثت کو ہر آنے والے دور نے حتی المقدور آگے بڑھایا اور سرسبزوشاداب کیا ۔نتیجتاً آج اردو زبان صرف اردو کی نامزد بستیوں میں ہی زندہ وتابندہ نہیں ہے بلکہ حدود و قیود سے بالاتر ہوکر دنیا کے ہر خطے میں بولی،سمجھی،پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ جن ممالک میں انگریزی زبان کی حکمرانی ہے،وہاں بھی جامعات میں اردو ایک اہم موضوع کے طور پر پڑھی جاتی ہے، اردو کے اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں اور اردو کے فروغ کے لئے انجمنیں کام کرتی ہیں۔

    اکثر ایسی باتیں سننے میں آتی ہیںکہ اردو زوال پذیر ہورہی ہے۔اردو کی ریڈرشپ کم ہورہی ہے۔کتابوں اور رسائل وجرائد کی ترسیل میں کمی آئی ہے۔یہ درست ہے کہ کتابوں اور رسالوں کی خریدوفروخت کم ہوگئی ہے لیکن یہ اردو کی زوال پذیری کی علامت بالکل نہیں ہے۔زمانے کی تیز رفتار ترقی نے انسان کو جہاں بہت ساری سہولتوں سے آشنا کیا،وہیں اس سے فرصت کے اوقات چھین لئے۔انیسویں صدی میں داستان سرائی کا فن عروج پر تھا لیکن بیسویں صدی نے ناول،ناولٹ،افسانے اور افسانچے میں اپنی تفریح کا سامان ڈھونڈ لیا۔مثنوی کی جگہ نظم،غزل،آزاد غزل،رباعی اور اشعار نے لے لی۔ہم نے اس صورت حال کو پہلے بھی اردو کا زوال نہیں سمجھا تو آج کتابوں اور رسالوں کی ریڈرشپ کی کمی کو اردو کا زوال کیسے کہہ سکتے ہیں۔

    دراصل دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو نے بھی اکیسویں صدی کے تقاضوں کو سمجھا اور خود کو وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔جس طرح وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا زندہ قوموں کی نشانیاں ہیں،اسی طرح زندہ زبان بھی وقت کے ساتھ اپنی روش بدلتی ہے تو آب حیات پی لیتی ہے۔اردو زبان کے بارے میں یہ بالیقین کہا جاسکتا ہے کہ کمپیوٹر ٹکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ کے اس دور میں اردو نئی نسل کا ہاتھ تھام کر خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کررہی ہے۔یہ ہم آہنگی خوشگوار اور خوش آئند ہے۔میری رائے میں اردو آج بھی مائل بہ عروج ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ قلم و قرطاس کی جگہ اسکرین اور فونٹ نے لے لی ہے۔دراصل اردو نے امکانات کے نئے افق ڈھونڈ لئے ہیں۔انٹر نیٹ نے جہاں سائنس،کامرس، اکنامکس، ہسٹری، جغرافیہ، عمرانیات، مذہبیات، درسی یا غیر درسی موضوعات کی فراہمی کو سہل بنایا وہیں اہل اردو نے بھی اس برقی تکنیک کے سہارے اردو ادب کو ہر خاص و عام تک پہنچادیا۔جن موضوعات کے حصول کے لئے لوگوں کو کتب خانوں،علمی اداروں اور بازاروں کے چکر لگانا پڑتے تھے،وہ آج انگلی کی ایک جنبش پر فراہم ہوجاتی ہیں۔یہی نہیں بلکہ دنیا کے مشہور اخبارات اور رسائل و جرائد انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔اردو کے بھی زیادہ تر اخبارات آج انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور ان کے آن لائن ایڈیشن بھی مل جاتے ہیں۔ٹی وی پر بھی اردو کے متعدد چینل اردو کی مقبولیت کا بیّن ثبوت ہیں۔ڈی ڈی اردو،ای ٹی وی اردو،ذی سلام،کاشر،عالمی سہاراوغیرہ کی شہرت اردو نوازوں کی رہین منت ہے۔

    کمپیوٹر پر ایسی متعدد سائٹ موجود ہیں جن پر اردو زبان کے ادبی پروگرام چلتے ہیں۔اردو زبان کے سلسلے میں ہونے والی ہر پیش رفت سے ہمیں باخبر رکھنے میں یہ سائٹس اہم رول ادا کرتے ہیں۔بزم اردو،بزم قلم، اردو محفل،اردو سخن ڈاٹ کام، شعروسخن، ریختہ ،ادبی میراث اور دیگربے شمار سائٹس اردو زبان و ادب کے فروغ کا کام بڑے پیمانے پر کررہی ہیں۔قومی کونسل برائے فروغ اردو نے ڈیجیٹل لائبریری بناکر اردو زبان کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں اہم ترین رول ادا کیا ہے۔اس لائبریری میں تمام اہم قدیم کتابیں دستیاب ہیں جنہیں آن لائن پڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت میسر ہے۔’’کتابیں:اردو لائبریری‘‘ کی سائٹ پر یونی کوڈ میں تقریباً ڈیڑھ ہزار کتابیں مفت ڈاؤن لوڈ کی سہولت موجود ہے۔نادر و نایاب کتابوں کو پڑھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے ’’دیدہ ور‘‘ سائٹ ہے۔’’اردو دوست‘‘ پر پی ڈی ایف فارمیٹ میں کتابیں ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔اردو کی جدید ترین سائٹ’’ریختہ‘‘ پر ہزاروں قدیم و جدید اور نادر کتابوں کو اَپ لوڈ کیا گیا ہے ۔اس سائٹ پر شاعروں کے کلام کو بھی سنا جا سکتا ہے۔ان سائٹس سے نہ صرف اردو کے باذوق قارئین مستفید ہوتے ہیں بلکہ محققین بھی اس نایاب ذخیرے سے استفادہ کر رہے ہیں۔ذیل میں چند ویب ایڈریس درج ہیں:۔

    http://www.urdupoint.com

    http://www.urduclassic.com

    http://www.urdughar.com

    http://www.urdunet.com/

    http://www.urdudost.com

    http://www.urdumanzil.com

    http://www.shairy.com

    http://www.siasat.com

    http://www.inquilab.com

    http://www.rekhta.org

    پہلے ہمیں اپنے مقالے یا کتابیں شائع کرانے کے لئے کاتبوں کی ضرورت ہوتی تھی۔کاتبوں کو بھی کتابت کرنے میں کافی وقت درکار ہوتا تھا اور ایک ذراسی غلطی پر صفحات تبدیل کرنے پڑتے تھے۔البتہ جو ماہر فن کاتب ہوتے تھے ،وہ نہایت باریک بینی اور مہارت سے اغلاط کو درست کر لیتے تھے۔لیکن یہ دقت طلب اور صبر آزما کام تھا۔اب اِن پیج کی کمپوزنگ نے کتابت کے جاں گسل مرحلے کو نہایت آسان کردیا۔الفاظ کی غلطیاں آسانی سے درست ہوجاتی ہیں اور اگر خیالات تبدیل کرنے ہوں تو پیراگراف کے پیراگراف بدل دینا سہل ہے۔بر سبیل تذکرہ یہ تسلیم کرنا لازمی ہے کہ کتابت ایک فن ہے اور کمپوزنگ ایک تکنیک۔کتابت کی فنکاری میں ایک الگ حسن تھا ،نزاکت تھی جو مشینی کمپوزنگ میں مفقود ہے۔لیکن کمپوزنگ آسان اور جلد مکمل ہونے والا عمل ہے۔بہرکیف ! اخبارات کے نامہ نگار بھی اب خبر بناکر ڈاک کی بجائے میل یا وہاٹس ایپ سے سکنڈوں میں اخبارات کو بھیج دیتے ہیں۔

    یہ درست ہے کہ جتنی آسانی سے دوسری زبانوں نے انٹرنیٹ سے استفادہ کیا،اتنی سہولت سے اردو کی رسائی نہ ہوسکی۔لیکن ہر دور میں اردو کے سرپھرے دیوانے مل جاتے ہیں۔متعدد لوگوں کی بتدریج کوششوں کی وجہ سے بالآخر نوری نستعلیق نے کمپیوٹر کی دنیا میں اردو کی ایک واضح شناخت قائم کی۔اس شناخت کو مضبوطی اور توانائی بخشنے کے لئے نئی نسل کو اردو زبان یعنی اِن پیج کی ٹکنالوجی کو سمجھنا ہوگا۔ جامعات میں اردو اور انفارمیشن ٹکنالوجی کو نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔کمپیوٹر پر اردو میں کام کرنے کی مہارت پیدا کرنی ہوگی۔قومی کونسل برائے فروغ اردو نے اپنے رسالے ’’اردو دنیا‘‘ میں ۲۰۱۱ء میں اِن پیج پر کام کرنے کے لئے تکنیکی سلسلے وار مضمون شائع کیا تھا جو اردو والوں کے لئے نہایت مفید ثابت ہوا۔

    بہر کیف ! یہ موضوع تفصیل طلب ہے اور یہاں اس مختصر وقت میں طوالت ممکن نہیں۔مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کتب و رسائل کی خریدو فروخت کی کمی اردو کے زوال کی علامت قطعی نہیں ہے۔زمانہ بدلتا ہے تو ترجیحات بھی بدلتی ہیں۔بدلتے ہوئے ترجیحات کے زیر اثر انسان کی ردّ و قبول کی صلاحیت میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور انسان کی زبان بھی تبدیلیوں کی زد میں آتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلیاں مثبت ہیں یا منفی۔کیا یہ امر خوش آئند اور مثبت نہیں ہے کہ سماجی روابط کے آلات مثلاً فیس بک، وہاٹس ایپ، انسٹاگرام،ٹوئٹر،میسنجر،ای میل وغیرہ نے اردو رسم الخط کی ٹائپنگ کو اپنے سسٹم کا جزو بنایا۔یہ اردو کی ضرورت اور مقبولیت کی دلیل ہے کہ تمام سمارٹ فون میں اردو کا فونٹ استعمال کیا جاسکتا ہے۔اب محبان اردو پر لازم ہے کہ ان سوشل سائٹس اور موبائل کے استعمال کے دوران اردو رسم الخط اختیارکریں تاکہ ان سوشل سائٹس اور موبائل میں اس زبان کی ضرورت اور اہمیت قائم رہے۔ میرے خیال میں جدید تکنیک اردو زبان کے حق میں رحمت ثابت ہورہی ہے۔اب لوگ آن لائن اردو سیکھ رہے ہیں۔انٹرنیٹ پر اردو سے اردو ہی نہیں بلکہ انگریزی سے اردو، فارسی سے اردو،عربی سے اردو ،ہندی سے اردو کی لغتیں موجود ہیں۔سماجی روابط کے پلیٹ فارم پر محبان اردو کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ تمام چیزیں بلا شبہ اردو زبان کے امکانات کا نیا منظر نامہ مرتب کررہی ہیں۔ قوی امید ہے کہ آئندہ بھی نئے نئے امکانات کے روژن کھلتے رہیں گے۔سچ تو یہ ہے کہ جب تک اردو کے چاہنے والے باقی ہیں،اردو اپنی بقا کی خود ضامن ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے