اسلوبیات اقبال: اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام
اقبال کی شاعری اسلوبیاتی مطالعے کے لیے خاصا دلچسپ مواد فراہم کرتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلوبیات لسانیات کی وہ شاخ ہے جس کا ایک سرا لسانیات سے اور دوسرا ادب سے جڑا ہوا ہے۔ ادب کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ موضوعی اور جمالیاتی چیز ہے جب کہ لسانیات سماجی سائنس ہے اور ہر سائنس معروضی اور تجرباتی ہوتی ہے۔
ادبی تنقید کا معاملہ دوسرا ہے۔ ادبی تنقید موضوعی بھی ہوتی ہے اور معروضی بھی، اس لیے کہ تنقید کا منصب ادب شناسی ہے اور ادب شناسی کا عمل خواہ وہ ذوقی اورجمالیاتی ہو یا معنیاتی، حقیقتاً تمام مباحث اس لسانی اور ملفوظی پیکر کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں جس سے کسی بھی فن پارے کا بحیثیت فن پارے کے وجود قائم ہوتا ہے۔
اسلوبیات طریقۂ کار ہے، کل تنقید نہیں۔ کوئی بھی طریقہ کار کل تنقید نہیں ہوسکتا۔ اسلوبیات اس کا دعوی بھی نہیں کرتی۔ یہ دوسرے طریقوں کی نفی بھی نہیں کرتی، چنانچہ اس کو اپنے طور پر بھی برتا جا سکتا ہے اور دوسرے طریقوں سے ملا کر بھی۔ لیکن اسلوبیات کوئی بات بغیر ثبوت کے نہیں کہتی۔ یہ تنقیدی آرا کی صحت یا عدم صحت کے لیے ٹھوس تجرباتی بنیادیں فراہم کرتی ہے اور اس طرح ادب کے سربستہ اظہاری رازوں کی گرہیں کھول سکتی ہے یا تخلیقی عمل کے بعض پراسرار گوشوں پر روشنی ڈال سکتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس بارے میں ایسے ثبوت بھی پیش کر سکتی ہے جنہیں رد نہیں کیا جا سکتا۔
اسلوبیات کے بارے میں یہ بات خاطر نشان رہنی چاہئے کہ اسلوبیاتی مطالعے میں رہنما نظر (Guiding Insight) ادبی اور جمالیاتی ذوق یعنی تنقید ہی سے ملتی ہے لیکن اکثر و بیشتر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تجرباتی ذہنی رویے کے دوران ایسے ایسے امور پر نظر پڑتی ہے یا ایسے ایسے نکتے سوجھ جاتے ہیں جن کی مدد سے تنقید کی نئی راہیں سامنے آتی ہیں۔ تنقید اور اسلوبیات میں ادبی ذوق اور سائنسی رویے کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے باہمی لین دین جاری رہتا ہے، اور اس طرح اسلوبیات تنقید سے جو کچھ لیتی ہے اس سے کئی گنا کرکے تنقید کو لوٹا دیتی ہے۔
ادب کا رشتہ یوں توتمام انسانی علوم سے ہے۔ ادب انسانیت کی روح اسی لیے ہے کہ اس میں انسان کی تمام ذہنی کاوشوں کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں اور ہر طرح کے اثرات کا عمل دخل جاری رہتا ہے۔ چنانچہ ادبی تنقید میں جمالیاتی اور ادبی معیاروں کی بنیادی اہمیت کے باوصف مختلف علوم سے مدد لی جاتی رہی ہے، مثلاً فلسفہ، مذہبیات، نفسیات، سیاسیات، عمرانیات وغیرہ سے ادبی تنقید کے مختلف دبستانوں میں مدد لی جاتی ہے۔ اس بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ لیکن ان علوم اور اسلوبیات میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ ان میں سے کسی کا موضوع براہ راست ادب یاادب کا وسیلہ اظہار یعنی زبان نہیں ہے، جب کہ اسلوبیات کا موضوع ہی زبان اور اس کا تخلیقی استعمال ہے، یعنی وہ لسانی اظہاری پیکر جس کے ذریعے ادب بطور ادب کے مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے ادبی تنقیدمیں جو مدد اسلوبیات سے مل سکتی ہے، کسی دوسرے ضابطۂ علم سے نہیں مل سکتی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسلوبیات ادبی تنقید کا سب سے کارگر حربہ ہے یا یہ کہ اسلوبیات ادبی تنقید کی عملی بنیاد ہے تو بے جانہ ہوگا۔
زیر نظر مضمون میں اقبال کی اردو شاعری کے اسلوبیاتی مطالعے کے صرف ایک پہلو یعنی صوتیاتی نظام کو لیا جائےگا۔ اسلوبیاتی مطالعے کی کئی سطحیں اور کئی پہلو ہو سکتے ہیں، مثلاً کوئی بھی فن پارہ اظہاری اکائی کے طور پر وجود میں آتا ہے۔ یہ اکائی کلموں سے مل کر بنتی ہے جسے اظہار کی نحوی سطح کہہ سکتے ہیں۔ کلمے، لفظوں یالفظوں کے قلیل ترین حصوں یعنی صرفیوں (Morphemes) سے مل کر بنتے ہیں، جنہیں اظہار کی لفظیاتی یا صرفیاتی سطح کہہ سکتے ہیں اور یہ صرفیے بجائے خود اصوات کا مجموعہ ہوتے ہیں جنہیں اظہار کی صوتیاتی سطح کہہ سکتے ہیں۔ اس مضمون میں اظہار کی سب سے بنیادی سطح یعنی صوتیاتی سطح ہی کے بارے میں غوروخوض کیا جائےگا۔
صوت کے ضمن میں یہ بدیہی بات ہے کہ صوت کے معنی نہیں ہوتے۔ معنی کا عمل اس سے اوپری سطح یعنی صرفیاتی سطح سے شروع ہو جاتا ہے اور کلمے کی نحوی سطح سے گزر کر فن پارے کی معنیاتی اکائی کے درجے تک پہنچ کر مکمل ہوتا ہے۔ صوت کی سطح خالص آہنگ کی سطح ہے۔ لیکن اگر اس سے یہ فرض کر لیا جائے کہ آہنگ سے مراد معنی کی کلی نفی ہے تو یہ بھی غلط ہوگا، کیونکہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آہنگ سے ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے فضا سازی یا سماں بندی میں مدد ملتی ہے اور یہ فضا سازی کسی بھی معنیاتی تاثر کو ہلکا، گہرایا تیکھا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ملاحظہ ہو،
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبزپوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سوگئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
تاروں کا خموش کا رواں ہے
یہ قافلہ بے درا رواں ہے
خاموش ہیں کوہ ودشت ودریا
قدرت ہے مراقبے میں گویا
اے دل! تو بھی خموش ہوجا
آغوش میں غم کو لے کے سوجا
اس نظم کو پڑھتے ہی احساس ہوتا ہے کہ اس میں سناٹے اور تنہائی کی کیفیت بعض خاص آوازوں کی تکرار سے بھی ابھاری گئی ہے۔ بادی النظر ہی میں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ آوازیں س، ش، خ، اور ف کی ہیں جو سات شعروں کی اس مختصر سی نظم میں ۳۵ بار آئی ہیں۔ کسی فن پارے میں خاص خاص آوازوں کا بغیر کسی شعوری اہتمام کے درآنا اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میر تقی میر کی غزل،
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
یا غالب کی غزل،
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
میں صوتیاتی سطح پر آخر ایسی کون سی بات ہے کہ یہ غزلیں گلوکاروں میں ہمیشہ بے حد مقبول رہی ہیں اور بعض نے تو ان کے ذریعے اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا ہے کہ باید وشاید۔ وجہ ظاہر ہے کہ ان غزلوں میں طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں کے درو بست سے موسیقی کا ایسا امکان ہاتھ آگیا ہے جوعام طور پر میسر نہیں آتا۔ ایسی مثالیں تقریباً ہر بڑے شاعر کے یہاں مل جائیں گی، لیکن ان کی بنا پر کسی شاعر کے پورے صوتیاتی نظام کے بارے میں حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ صوتیاتی آہنگ کا تعلق بہت کچھ شاعر کی افتاد طبع اور اس کے شعری مزاج سے ہے جس کی تشکیل بڑی حد تک غیر شعوری طور پر ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر میر کی درد وسوز میں ڈوبی ہوئی نرم لے، درد مندی اور گھلتے رہنے کی کیفیت ان آوازں سے متعلق نہیں ہو سکتی جن کے ذریعے غالب اپنی معنی آفرینی، فکری تہہ داری یا نفسیاتی ژرف بینی یا اسرار ازل کی گرہ کشائی کا جادو جگاتے ہیں۔ اسی طرح اقبال کا فردیت پر اصرار، عمل کی گرم جوشی، جرأت مندی، آفاق کی وسعتوں میں پرواز کا حوصلہ اور بےپایاں تحریک بھی ایک ایسے صوتیاتی نظام کا تقاضا کرتی ہے جو اس کی معنیاتی فضاسے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ اس نظام کی اہمیت اس میں ہے کہ اگر اس میں باطنی ارتباط نہ ہو تو شاعر کی ساری معنیاتی فضا درہم برہم ہو جائے اور وہ رنگ نہ بن سکے جسے شاعر کی آواز یا اس کے شعری مزاج سے تعبیر کرتے ہیں۔
اقبال کے بارے میں یہ بات عام طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ ان کی آواز میں ایک ایسا جادو، ایسی کشش اور نغمگی ہے جو پوری اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے لہجے میں ایسا شکوہ، توانائی، بے پایانی اور گونج کی ایسی کیفیت ہے جیسے کوئی چیز گنبد افلاک میں ابھرتی اور پھیلتی چلی جائے۔ اس میں دل نشینی اور دلآویزی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی برش، روانی، تندی اور چستی ہے جیسے سرود کے کسے ہوئے تاروں سے کوئی نغمہ پھوٹ بہاہو یا کوئی پہاڑی چشمہ ابل پڑاہو۔ آخر اس فطری نغمگی کا صوتیاتی راز کیا ہے یا اس کا تعلق کن خاص آوازوں سے ہے۔ یہ راز اگر ہاتھ آ جائے تو اس سے اقبال کے پورے صوتیاتی نظام کی گرہ کھل سکتی ہے، لیکن اس کو شش میں،
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
یا
اقبال بڑا اپد یشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
یا ’’پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ ود من‘‘ کے آخری اشعار میں من کی دنیا، تن کی دنیا اور دھن دولت کی دھوپ چھاؤں والے ا سلوب کو نظر انداز کرنا ہوگا کیونکہ یہ اقبال کے شعری اسلوب کا ایک رخ یا پہلو تو ہے، کل اسلوب نہیں۔ چنانچہ پوری شاعری کے صوتیاتی مزاج کے تجزیے کے لیے اقبال کے اس کلام کو سامنے رکھنا چاہئے جس سے اقبال کے شعری مزاج کی پہچان ہوتی ہے یا پھر پورے کلام کا تجزیہ مختلف جگہوں سے یوں کرنا چاہئے کہ اس کی صوتیاتی روح تک ہماری رسائی ہو سکے۔
نامناسب نہ ہوگا اگر سب سے پہلے اقبال کی بعض شاہکار نظموں مثلاً مسجد قرطبہ، ذوق وشوق اور خضر راہ کو لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا صوتیاتی سطح پر ان میں کوئی چیز قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے،
سلسۂ روز وشب، نقش گرِ حادثات
سلسلہ روزوشب اصل حیات و ممات
سلسۂ روزوشب، تارحریر دورنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسۂ روزوشب، ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر وبم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسۂ روزوشب، صیرفی کائنات
تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
تیرے شب وروز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی وفانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات
اول وآخر فنا، باطن وظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا
اس بند کی وہ یک نوعی آوازیں جوذہن میں ایک چمک سی پیدا کرتی ہیں اور دیر پا اثر چھوڑتی ہیں درج ذیل ہیں،
س ل س ل ر ز ش ش ح ث
س ل س ل ر ز ش ص ل ح
س ل س ل ر ز ش ر ح ر ر
س س ہ ذ ز ص ف
س ل س ل ر ز ش س ر ز ل ف غ
س س ہ ذ ز ر
ر ہ ر ہ
س ل س ل ر ز ش ص ص ر ف
ہ ر ر ہ ر ر
ہ ر ر ہ ر ر
ش ر ز ر ح ہ
ز ر س ہ ر
ف ز ہ ہ
ر ہ ث ر ہ ث
خ ر ف ظ ر ف
ش ہ ہ ز ل خ ر ف
=کل۱۱۸بار
اوپر کے گوشوارے سے ظاہر ہے کہ ان میں زیادہ تر صفیری آوازیں ہیں یعنی س ش ز خ غ ہ۔ (ث ص ذ ض ظ یا ح کی آوازیں وہی ہیں جو س، ز یا ہ کی ہیں جوسب صفیری ہیں۔) ان کے علاوہ دونوں مصوتی مصمتوں یعنی ل اور ر کو بھی اس میں لے لیا گیا ہے کیونکہ یہ سب کے سب Vocalic یعنی مصوتی مصمتے یا مسلسل مصمتے کہلاتے ہیں، اس لیے کہ ان میں مصوتوں کی طرح تسلسل کی اور جاری رہنے اور پھیلنے کی کیفیت ہے۔ اس بند میں اگرچہ بندشی آوازوں میں سے ت کی تکرار قافیے کی وجہ سے ہوئی ہے اور ب اور ک کا نیزم اور ن کا بھی استعمال ملتا ہے، لیکن ان آوازوں کی تکرار اس پیمانے پر نہیں جس پیمانے پر صفیری یا مسلسل آوازوں کی تکرار ملتی ہے۔ بندشی آوازیں ہوا کی بندش سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں صفیری اور مسلسل آوازوں میں فراوانی اور بے کرانی کا تاثر پیدا کرنے کی کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔
یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اردو مصمتوں میں بندشی آوازوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے آدھے مصمتے سادہ ہیں اور آدھے ہکار۔ سادہ آوازیں اکثر زبانوں میں ملتی ہیں اور بڑی حد تک مشترک ہیں۔ لیکن اردو کا امتیاز ہکار اور معکوسی آوازوں سے پیدا ہوتا ہے جو تعداد میں چودہ ہیں اور ان کے مقابلے میں صفیری اور مسلسل آوازیں تعداد میں صرف نو ہیں۔ اب اس روشنی میں اقبال کے یہاں یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اوپر کے سولہ مصرعوں میں ہکار آوازیں صرف پانچ بارآئی ہیں جب کہ صفیری اور مسلسل آوازیں ایک سو اٹھارہ بار استعمال ہوئی ہیں۔ گویا ہکار آوازوں کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ بھی صرف دو مصرعوں میں،
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر وبم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
یعنی ہکار آوازیں وہیں آئی ہیں جہاں ان کا استعمال ناگزیر تھا یعنی ضمیر میں یا فعل میں۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ اردو کے افعال وضمائر کا ڈھانچا سرتا سرزمینی ہے۔ اس بند کے نتائج پر یہ سوال بہر حال قائم کیا جا سکتا ہے کہ کہیں اس بند میں ان آوازوں کا وقوع کسی خاص وجہ سے تو نہیں، یا یہ محض اتفاقی تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں دھوکا ہو رہا ہو اور اقبال کے کل صوتیاتی آہنگ سے ان نتائج کا کوئی بڑا تعلق نہ ہو۔ اس کا جواب دینے سے پہلے نظم کے دوسرے بندوں کے نتائج معلوم کر لینے چاہئیں،
بند صفیری ومسلسل آوازیں ہکارومعکوسی آوازیں
پہلا بند۱۱۸۵
دوسرا بند۱۰۹۲
تیسرا بند۱۱۸۳
چوتھا بند ۱۲۳۴
پانچواں بند۱۱۲۳
چھٹا بند۱۲۳۷
ساتواں بند۱۱۶۹
صفیری آوازوں کے استعمال کی یہ صوتیاتی لے آخری بند تک میں ملتی ہے۔ یہاں ان اشعار کے پیش کرنے سے مراد یہی ہے کہ مصرعوں کو پڑھتے ہوئے ان آوازوں پر نظر رکھی جائے جواس نظم کے صوتیاتی آہنگ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں اور ان کے دروبست نے اس نظم کو معنیاتی اور صوتیاتی ہم آہنگی کا عجیب وغریب مرقع بنا دیا ہے۔ ذیل کے بند میں صفیری آوازیں ۱۱۲بار، ہکار آوازیں صرف ۶ بار آئی ہیں،
وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بد خشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ وپر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت
کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب
آب روان کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہاہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لانہ سکےگا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کش مکش انقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام، خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودا ئے خام، خونِ جگر کے بغیر
(۱۱۲:۶)
اس پوری نظم کا صوتیاتی تناسب حسب ذیل ہے،
تعداد اشعارصفیری و مسلسل آوازیں ہکارومعکوس آوازیں
۶۴۹۳۱۳۹
گویا صفیری اور مسلسل آوازیں جو اردو میں ہکارومعکوس آوازوں سے تعداد میں خاصی کم ہیں (۱۴:۹) اقبال کے یہاں بیس گنا سے بھی زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔ اس تجزیے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صفیری اور مسلسل آوازوں کی کثرت اور ہکار ومعکوسی آوازوں کا انتہائی قلیل استعمال ہی شاید وہ کلید ہے جس سے اقبال کے نہاں خانۂ آہنگ تک رسائی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اب اقبال کی بعض دوسری شاہکار نظموں پر بھی نظر ڈالنی ضروری ہے۔ ذوق وشوق کے ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں،
قلب ونظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں
سرخ وکبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں
گرد سے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے
ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں
آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
ان اشعار سے بھی اسی بات کی توثیق ہوتی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ ہکار آوازیں صرف وہیں آئی ہیں جہاں فعل کی مجبوری ہے یا ایسے حروف میں جو اردو کی بنیادی لفظیات کا حصہ ہیں اور جن سے مفر نہیں۔ اس نظم کے باقی حصوں سے بھی اس مفروضے کی تصدیق ہو جاتی ہے جس کا ذکر ہم پہلے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ذوق وشوق
تعداد اشعار صفیری ومسلسلہکارومعکوسی
۳۰۴۵۱۲۳
یہ دونوں نظمیں بال جبریل سے تھیں۔ نامناسب نہ ہوگا اگر پہلے مجموعے بانگ درا سے خضر راہ کو بھی دیکھ لیا جائے جو ان نظموں سے بارہ تیرہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کاآغاز شاعر اور خضر کے مکالمے سے ہوتا ہے جس کے بعد مختلف عنوانات قائم کر دیے گئے ہیں۔ پہلے ایک بند پر نظرڈال لی جائے۔ اس کے بعد پورا تجزیہ پیش کیا جائےگا،
ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر
گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرآب
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم کم ضو، گرفتار طلسم ماہتاب
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جو یائے اسرار ازل
چشم دل واہوتو ہے تقدیر عالم بے حجاب
دل میں یہ سن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا
میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا
خضرراہ
تعداد اشعار صفیری ومسلسلہکارومعکوس
۸۵۱۲۱۵۸۷
اقبال کی دوسری مشہور نظموں میں ’’طلوع اسلام‘‘، ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘، ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ اور ’’شعاع امید‘‘ میں بھی یہی کیفیت ملتی ہے۔ خضر راہ، مسجد قرطبہ اور ذوق وشوق کی طرح طلوع اسلام بھی ترکیب بند ہے۔ لینن خدا کے حضور میں مسلسل اور شعاع امید اور ابلیس کی مجلس شوریٰ بندوں میں منقسم نظمیں ہیں۔ ’’ساقی نامہ‘‘ البتہ مثنوی ہے جس میں مصرعوں کے ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے افعال کا استعمال بڑھ گیا ہے، جس سے ہکارومعکوسی آوازوں کی تعداد پر بھی اثر پڑا ہے۔ اگر چہ یہ پوری مثنوی کی کیفیت نہیں ہے، تاہم ہکارومعکوسی آوازیں کہیں قافیہ ردیف کی مجبوری کی وجہ سے تو کہیں بیان کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے درآئی ہیں۔ یوں بھی ’’پھر‘‘، ’’بھی‘‘، ’’مجھ‘‘، ’’کچھ‘‘، ’’تھا‘‘، ’’تھی‘‘ بنیادی لفظوں کا استعمال مسلسل کلموں میں ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہ آوازیں اقبال کے یہاں غزل کے شعروں میں بھی کہیں کہیں ناگزیر طور پر وارد ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کے مصرعے ملاحظہ ہوں،
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
برانہ مان ذرا آزماکے دیکھ اسے
توآب جو اسے سمجھا اگر توچارہ نہیں
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کو تاہ
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
خدا بندے سے خود پوچھے بتاتیری رضا کیا ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگا ہی
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈ تاہوں دل کی کشاد
آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
اقبال کے یہاں ہکار اور معکوسی آوازوں کے قلیل استعمال کی خصوصیت کو ذہن نشیں کرنے کے لیے اقبال کا تقابل کسی ایسے شاعری سے کرنا ضروری ہے جس کا پیرایۂ بیان بول چال کی زبان سے قریب ہواور جس کے یہاں ہکار اور معکوسی آوازوں کا استعمال فطری طور پر ہوا ہو۔ اس سے یہ اندازہ بھی کیا جا سکےگا کہ اردو میں ان آوازوں کے فطری استعمال کا اوسط کیا ہے اور کیا اقبال کے یہاں اس سے واقعی کوئی انحراف ملتا ہے۔ اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ ہمارے بڑے شاعروں میں بول چال کی زبان سے قریب ہونے کا شرف میر تقی میر کو حاصل ہے۔ ان کے یہاں سیکڑوں غزلیں ایسی ہیں جن کے ردیف وقوافی میں بھی ہکارومعکوس آوازیں آزادانہ استعمال ہوئی ہیں،
ہم تو ایک آدھ گھڑی اٹھ کے جدا بیٹھیں گے۔۔۔ کھا بیٹھیں گے، چھپابیٹھیں گے
میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ۔۔۔ سمجھا کچھ، ٹھہرا کچھ
بود نقش ونگار سا ہے کچھ۔۔۔ اعتبار سا ہے کچھ، پیار سا ہے کچھ
موم سمجھے تھے ترے دل کو سوپتھر نکلا۔۔۔ دفتر نکلا
خوش وہ کہ اٹھ گئے ہیں داماں جھٹک جھٹک کر۔۔۔ کھٹک کھٹک کر، مٹک مٹک کر
دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا۔۔۔ کوٹا گیا، چھوٹا گیا
بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا۔۔۔ توڑا، تھوڑا
میر کے یہاں ایسی غزلیں بھی ہیں جوڑ پر یاٹ پر ختم ہوتی ہیں،
آشوب دیکھ چشم تری سرر ہے ہیں جوڑ۔۔۔ موڑ موڑ، پھوڑپھوڑ
ہواہے خواب سونا آہ اس کروٹ سے اس کروٹ۔۔۔ لٹ لٹ، کھٹ کھٹ
دل لیں ہیں یوں کہ ہرگز ہوتی نہیں ہے آہٹ۔۔۔ نٹ کھٹ، جمگھٹ
لیکن اگر صرف ایسی غزلوں کو سامنے رکھا جائے تو نتائج مبالغہ آمیز نکلیں گے کیونکہ اول تو قافیے اور ردیف میں آوازوں کے استعمال کے شعوری ہونے کا امکان ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ ایک بار جب ایسی آوازیں مطلعے کے قافیے ردیف میں آ پڑیں تو باقی اشعار میں ان کا التزام واجب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر صرف ایسی غزلوں کا تجزیہ کیا جائے تو میر کے کلام میں ان آوازوں کے تناسب کی نہایت مبالغہ آمیز تصویر سامنے آئے گی۔ بہتر یہ ہے کہ بعض دوسری غزلوں کو لیا جائے اور ہکار ومعکوسی آوازوں کے استعمال کو ردیف وقوانی سے ہٹ کر دیکھا جائے،
تعداد اشعار ہکارومعکوسی
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۱۵۲۴
کچھ کرو فکر مجھ دوا نے کی۹۱۴
چپکے چپکے میر جی تم اٹھ کے پھر کیدھر چلے ۹۲۷
۳۳۶۵
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ میر کے یہاں ہکارومعکوسی آوازوں کا تناسب تقریباً دو آواز فی شعر ہے۔ پورے کلیات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ تناسب کچھ زیادہ ہی نکلےگا، اس سے کم ہرگز نہیں۔ اس سلسلے میں کلام غالب کو دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، اختصارکی خاطر ہم نے غالب کی غزلوں کے اتفاقی تجزیے پر اکتفا کیا جس کی تفصیل حاشیے میں درج ہے۔ 1
اس تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ غالب کے اکیانوے اشعار میں معکوسی اور ہکار آوازیں نواسی بار آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب کے یہاں بھی جنہیں اپنے ’’گفتۂ فارسی اور مستعار نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ پر ناز تھا، ان آوازوں کے استعمال کا تناسب تقریباً ایک آواز فی شعر ہے۔ میر اور غالب کے اس تناظرمیں دیکھیے تو ان آوازوں کے استعمال کے سلسلے میں اقبال کی صوتی انفرادیت کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
میر: ہکارومعکوسی آوازیں فی شعر۔ ۲
غالب:ہکارومعکوسی آوازیں فی شعر۔ ۱
اقبال:ہکارومعکوسی آوازیں فی شعر۔ ایک سے کم
ان نتائج سے ظاہر ہے کہ میر جن کے ہاں ہکارومعکوسی آوازوں کا استعمال تقریباً فطری ہے، ان کی بہ نسبت غالب کے یہاں ان آوازوں کا استعمال آدھا اور اقبال کے یہاں سب سے کم ہے۔ ان نتائج کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاید اقبال کے یہاں ہکارومعکوسی آوازوں کے استعمال کا تناسب اردو شاعری میں سب سے قلیل ہے۔ اب اس کو صفیری ومسلسل آوازوں کے استعمال سے ملاکر دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے کہ عربی فارسی لفظیات کا ذخیرہ جو اقبال کا سرمایہ امتیاز ہے، وہی غالب کے لیے بھی وجہ افتخارتھا، لیکن مشترک سرچشمہ لفظیات کے باوصف دونوں کے یہاں اس کے پہلوبہ پہلو ہکار ومعکوسی آوازوں کے استعمال کی کیفیت میں خاص فرق ہے۔
غالب کے صوتی آہنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر مسعود حسین نے ان کے یہاں صفیری آوازوں کے استعمال پر بجا طور پر زور دیا ہے۔ ان کا بیان ہے، ’’ان (غالب) کی فارسی گوئی اور فارسی دانی کا اثر ان کے ریختے پر بھی نمایاں ہے۔ اردو شعر کی زبان کو انہوں نے ذوق کی محاورہ بندی سے نکال کر عجمی لالہ زاروں میں لا کھڑا کیا۔‘‘ 2
غالب اور اقبال میں یہ خصوصیت مشترک ہے۔ اقبال کے رموز وعلائم میں بڑی تعداد ایسے الفاظ کی ہے جن میں صفیری اور مسلسل آوازیں نمایاں طور پر استعمال ہوئی ہیں یا پھر ایسی آوازیں آئی ہیں جو منھ کے اگلے حصوں سے اداہوتی ہیں،
شاہین مشرق شمع و شاعر شعاع روشنی شفق شعلہ فقر
فرشتے فرمان فقیہ خودی وخدا عقل وعشق ارض وسما ذوق وشوق
زمان ومکان سوزوساز دردوداغ جستجو وآرزو شہید جستجو شکروشکایت
تسلیم ورضا ابلیس وآدم نیسان وصدف زیست مسجد ملا
مدرسہ صوفی خانقاہ کلیسا مرد مومن شمشیر وسناں طاؤس ورباب
نرگس نالۂ بلبل لالۂ صحرا چراغ لالہ
اس خصوصیت کی توثیق ان لفظوں سے بھی ہوتی ہے جہاں اقبال کئی لفظوں کے معنی سیٹ میں ایک کا انتخاب کرتے ہیں، مثلاً وہ شہباز اور عقاب پر شاہین کو ترجیح دیتے ہیں یا جنت، بہشت اور فردوس میں فردوس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، یاشمس، خورشید اور آفتاب میں سے وہ زیادہ آفتاب کے حق میں ہیں۔ (اگرچہ اس انتخاب میں طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں کا بھی ہاتھ ہے جس کا ذکر آگے چل کر کیا جائےگا۔) یہاں اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ صفیری ومسلسل آوازوں کااستعمال تو غالب کے یہاں بھی کثرت سے ہوا ہے لیکن اقبال کی لے حر کی اور رجائی ہے جب کہ غالب کا تفکر حزنیہ ہے اور اس میں الم ناکی کی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کے اظہار میں منھ کے اگلے حصوں سے اداہونے والی آوازوں کے بجائے منہ کے پچھلے حصوں سے ادا ہونے والی آوازوں یا مسموع آوازوں سے مدد ملی ہے، مثلاً ذیل کے اجزائے کلام غالب کے پسندیدہ الفاظ ہیں اور ان میں گ، ج، د، غ، ب اور م کی جو نمایاں حیثیت ہے وہ ظاہر ہے،
دل وجگرزخم جگر جگر داری کا دعویٰدعوت مژگاں نگاہِ بے محابا
بتِ بیدادگرستم گرِ جاں غم گسارغارت گر جنس وفا دودِ چراغ محفل
داغ دل درد بے دوا مرگ تمنارگ جاں رگ سنگسنگ گراں
بوئے گل گل نغمہموج محیط بے خود یسیلاب گریہ سیلاب بلا حلقہ گرداب
بند غمساغر مے خانہ نیرنگرنج نومید جاویدتغافل ہائے ساقی غم آوارگی ہائے صبا
غالب اور اقبال کے صوتی آہنگ کا بنیادی فرق مصمتوں سے زیادہ مصوتوں کے استعمال میں کھلتا ہے۔ پروفیسر مسعود حسین نے لکھا ہے، ’’غالب کا کمال لفظ اور ترکیب میں ظاہر ہوتاہے صوتی آہنگ میں نہیں۔ وہ لفظ کی تہہ داری اور ترکیب کی پہلو داری سے اکثر اوقات صوتی آہنگ کی کمی کو چھپالے جاتے ہیں۔‘‘ اقبال کے یہاں یہ کیفیت نہیں۔ ان کے یہاں صوتی آہنگ کی کمی کا احساس قطعاً نہیں ہوتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ ان کے اشعار کہیں سے پڑھیے، ان میں عجیب وغریب نغمگی کا احساس ہوگا، گویا لفظوں میں موسیقی سموئی ہوئی ہے۔ آخر غالب کے صوتی آہنگ کی وہ کون سی کمی ہے جو اقبال کی آواز تک پہنچ کر دور ہو گئی ہے۔
اتنی بات معلوم ہے کہ غالب کا فن معنی آفرینی کار مزیہ فن ہے۔ ان کا فنی سانچا غزل کا شعر یعنی دو مصرعوں کی محض ذرا سی زمین ہے جس میں وہ جہاں معنی آباد کر دیتے ہیں۔ اگر چہ اقبال کی شاعری بھی رمزیہ امکانات رکھتی ہے لیکن ترغیب عمل کی پیغامی شاعری ہونے کی وجہ سے اس کے فنی سانچے وسیع ہیں۔ اقبال کی اکثر غزلوں میں بھی نظموں کے تسلسل کا لطف ہے۔ غالب کے یہاں رمزیہ فنی رویے کی وجہ سے نحوی ڈھانچے میں خاصی تخفیف ہو گئی ہے اور افعال تو خاصے نچڑ کر سامنے آتے ہیں۔ اس اختصار وتخفیف کا اثر خاص طور پر طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں پر ہوا ہے۔
اقبال کے یہاں اظہاری وسعت اور ربط بیاں کی وجہ سے اکثر فعل اور کلمے کے دیگر لوازم بغیر تخفیف کے نظم ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے طویل مصوتوں کی فراوانی پیدا ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر کلیات اقبال سے ایک اتفاقی تجزیے کے بیس اشعار میں طویل یا غنائی مصوتے ۳۳۶ بار آئے ہیں۔ یعنی اقبال کے یہاں طویل غنائی مصوتوں کا اوسط فی شعر۸ء۱۶ہوا۔ 3 اس اوسط کی توثیق کے لیے اقبال کی کسی دوغزلوں پر بھی نظر ڈالی گئی،
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں: سات شعر، ۱۱۷ طویل مصوتے، اوسط ۷ء۱۶
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا: پانچ شعر، ۱۰۲طویل مصوتے، اوسط ۴ء۲۰
اس سے ثابت ہے کہ اقبال کے یہاں فی شعر کم از کم سولہ طویل مصوتوں کے استعمال کا امکان ہے۔ اس اعتبار سے غالب کا کلام دیکھیے تو مایوسی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دیوان غالب کے اتفاقی تجزیے سے جو اوسط ہاتھ آتا ہے۔ وہ ۶ء۱۱ طویل مصوتے فی شعر کا ہے۔ 4 ذیل کی غزلوں کے اوسط سے اسے مزید جانچا گیا،
نے گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز: اشعار۹، طویل مصوتے ۸۸
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے: اشعار ۷، طویل مصوتے ۹۸
دل سے تری نگاہ جگر تک اترگئی: اشعار۹، طویل مصوتے ۹۹
اشعار۲۵، طویل مصوتے ۲۸۵
اوسط فی شعر: ۱۱
گویا غالب کے یہاں طویل مصوتوں کے وقوع کا امکان گیارہ سے بارہ طویل مصوتے فی شعر سے زیادہ کانہیں۔ غالب کی جس کم آہنگی کا ذکر پروفیسر مسعود حسین نے کیا ہے، عین ممکن ہے کہ اس کی ایک وجہ طویل مصوتوں کی کفایت ہو لیکن ابھی اس بارے میں پوری تصویر سامنے نہیں آئی۔ غالب کے یہاں طویل مصوتوں کی کفایت اور اقبال کے یہاں ان کی فراوانی کا پورا اندازہ اسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب اس بارے میں میر کا اوسط بھی سامنے ہو،
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں: اشعار۱۵، طویل مصوتے ۲۸۲
کچھ کروفکر: اشعار۹: طویل مصوتے ۱۰۱
سختیاں کھینچیں سوکھینچیں: اشعار۹، طویل مصوتے ۱۴۰
اشعار۳۳، طویل مصوتے ۵۲۳
اوسط فی شعر۱۲
اب تینوں شاعروں کے یہاں طویل مصوتوں کے استعمال کی جو تصویر مرتب ہوتی ہے وہ یوں ہے،
میر: ۱۶طویل مصوتے فی شعر
غالب: ۱۱طویل مصوتے فی شعر
اقبال: ۱۶طویل مصوتے فی شعر
اس تقابلی تجزیے سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طویل مصوتوں کے معاملے میں اقبال غالب سے خاصے آگے ہیں اور میر کے ہم پلہ ہیں۔ اتنی بات واضح ہے کہ جہاں طویل مصوتوں کی فراوانی ہوگی، غنائی مصوتوں کی کثرت بھی وہیں ہوگی، کیونکہ اردو کا ایک عام رجحان ہے کہ غنیت صرف طویل مصوتوں کے ساتھ ہی وارد ہوتی ہے۔ نغمگی کے لیے طویل مصوتوں کے ساتھ ساتھ غنائی مصوتوں کی جو اہمیت ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ اقبال کا کمال، جس نے ان کے صوتیاتی آہنگ کو شعریات کا عجوبہ بنا دیا ہے، دراصل یہ ہے کہ طویل و غنائی مصوتوں کی زمینی کیفیات کے ساتھ مربوط و ممزوج ہو کر سامنے آتی ہیں۔
اقبال کے یہاں صفیری یا مسلسل آوازوں اور طویل وغنائی مصوتوں کا یہ ربط وامتزاج ایک ایسی صوتیاتی سطح پیش کرتا ہے جس کی دوسری نظیر اردو میں نہیں ملتی۔ اصوات کی اس خوش امتزاجی نے اقبال کے صوتیاتی آہنگ کو ایسی دلآویزی، توانائی، شکوہ اور آفاق میں سلسلہ درسلسلہ پھیلنے والی ایسی گونج عطا کی ہے جو اپنے تحرک وتموج اور امنگ ولولے کے اعتبار سے بجا طور پر یزداں گیر کہی جا سکتی ہے۔
حاشیہ
(۱) دیوان غالب طبع برلن
ص ۳۱۳۰ تعداد اشعار۱۳ ہکارومعکوسی آوازیں ۲۱
۵۳۵۲۱۳۱۱
۶۵۶۴۱۳۵
۱۰۱۱۰۰۱۳۱۴
۱۲۳۱۲۲۱۳۱۷
۱۶۱۱۶۰۱۳۱۵
۲۰۱۲۰۰۱۳۶
۸۹
(۲) مسعود حسین خان’’غالب کے اردو کلام کا صوتی آہنگ‘‘ مشمولہ بین الاقوامی غالب سمینار ۱۹۶۹ء ص۲۰۷
(۳) مسعود حسین خان ’’غالب کے اردو کلام کا صوتی آہنگ‘‘ مشمولہ بین الاقوامی غالب سمینار ۱۹۶۹، ص ۲۰۵
(۴) کلیات اقبال اردو، طبع غلام علی، لاہور، ص: ۷۰، ۷۱، ۱۴۰، ۱۴۱، ۲۱۰، ۲۱۱، ۲۸۰، ۲۸۱، ۳۵۰، ۳۵۱، ۴۲۲، ۴۹۰، ۴۹۱، ۵۶۲، ۵۶۳، ۶۳۰، ۶۳۱، ۶۷۸، ۶۷۹، (طویل /غنائی مصوتے) ۲۲+۱۹+۲۳+۱۸+۱۴+۱۳+۱۶+۲۰+۱۸+۱۹+۱۹+۱۷+۱۳+۱۳+۱۳+۱۱۷+۱۶+۱۴+۱۶+ کل ۳۳۶ بیس اشعار میں۔ اوسط فی شعر ۸ء۱۶
(۵) دیوان غالب طبع برلن
۱۹، ۱۰، ۱۱، ۱۴، ۱۰
۱۲، ۹، ۱۲، ۱۴، ۱۳
کل ۱۱۶، اشعار۱۰ اوسط ۶ء۱۱ فی شعر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.