اصول تنقید
علوم وفنون کی پیدائش اور ان کی ابتداکی جستجو، انسان کو تاریخ کے ان دھندلکوں میں لے جاتی ہے، جہاں ذہن کے لئے راستہ صاف نہیں ہوتا، اصول اور ضوابط رہنمائی نہیں کرتے اور قیاس یا ناقص علم کی روشنی صرف اتنا بتاتی ہے کہ کشاکش حیات نے نہ صرف انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز کیا، بلکہ انہیں ایسا سوچنے سمجھنے اور ترقی کرنے والا دماغ بخشا جس میں علوم و فنون نے ابتداءً جنم لیا۔ زبان تھی لیکن قواعد کا پتہ نہ تھا، رقص کا وجود تھا لیکن وجدان اور شدید اظہار جذبات سے آگے اس کے لئے کسی قسم کے اصول وضع نہیں ہوئے تھے۔ معمولی اقتصادی اور معاشی ضروریات تھیں لیکن ان علوم کی تدوین نہیں ہوئی تھی جن سے پیداوار اور تقسیم کے تناسب، سرمایہ، اجرت اور منافع کے تعلق کا پتہ چلتا، بس عمل کی زندگی میں علوم و فنون پیدا ہو گئے تھے، زندگی کی سنجیدگی کے ساتھ ان کی ترقی بھی ہو رہی تھی، لیکن اصول و قواعد مرتب نہیں ہوئے تھے۔
اس کی نوبت اس وقت آئی جب عمل کرتے کرتے صداقتوں کا یقین ہونے لگا اور ہر حال میں خاص قسم کے واقعات سے خاص قسم کے نتائج رونما ہونے اور خاص قسم کے تجربات سے خاص قسم کے جذبات اور تاثرات وابستہ نظر آنے لگے، یوں دیکھا جائے تو اصول و ضوابط اور قواعد کی گفتگو کرنے سے پہلے علوم کی پیدائش اور ان حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے جن میں ان کی تخلیق ہوئی اور ان کے ارتقاء کے لئے صورتیں پیدا ہوئیں۔ کسی قسم کے اصول کا تذکرہ بعد کے بنے ہوئے قاعدوں کی روشنی میں کرنا اور ان تاریخی پیچیدگیوں کو نظر انداز کر دینا، جن میں اصولوں کی تدوین کرنے والوں نے انہیں مرتب کیا ہوگا، تاریخ اور فلسفہ دونوں کے نقطۂ نظر سے غلطی ہوگی۔
اگر اصول و ضوابط میں عہدبہ عہد تبدیلیاں نہ ہوتی رہتیں اور ان تبدیلیوں میں چند مخصوص معاشی، معاشرتی اور تاریخی حقیقتوں کا ہاتھ نہ ہوتا تو البتہ یہ ممکن تھا کہ اصولوں کو محض خیال کی روشنی میں دیکھا جائے جہاں زمان و مکان کے اثرات کام نہ کر رہے ہوں، پھر یہی نہیں اگر تاریخ تمدن کا مطالعہ کیا جائے تو ان تمام علوم و فنون کی ترقی، تنزل اور ہردلعزیزی اور بے وقعتی میں ایک مشترک قسم کی حقیقت نظر آئےگی جن سے تمدن عبارت ہے۔ تعمیر و تخریب، شکست و ریخت اور ترمیم و تنسیخ کا عمل اصولوں کو بھی کبھی ایک حالت پر قائم نہیں رہنے دیتا اور تغیر کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انسانی سماج کے تغیرات علوم و فنون میں بھی تغیر لاتے ہیں اور اسی لئے ان کے متعلق جو اصول و قواعد ایک مرتبہ بنائے جاتے ہیں، ان میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اصول نقد کا مطالعہ کرتے ہوئے ان مبادیات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
تنقید منطق کی طرح ہر علم و فن کی تشکیل و تعمیر میں شریک ہے، بلکہ وجدان اور جمال کے جن گوشوں تک منطق کی رسائی نہیں ہے تنقید وہاں پہنچتی ہے۔ وہ رنگ وبو اور کیف و کم کے غیرمتعین دائرہ میں صرف قدم ہی نہیں رکھتی بلکہ ابہام میں توضیح کا جلوہ اور بے تعینی میں تعین کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ اس طرح تنقید کے سلسلے میں جب اصولوں کی گفتگو کی جائے تو طبعی اور اکتسابی علوم کے علاوہ ایک اور ایسے علم یا جس سے کام لینے کی ضرورت پڑےگی، جو ان علوم کے منافی نہ ہوتے ہوئے بھی ان سب سے بڑھ کر کوئی بات ایسی بتا سکے جس سے فیصلے میں مدد ملے۔ ممکن ہے وہ کئی علوم کے امتزاج کا نتیجہ ہو اور ممکن ہے کسی علم کے ساز کا کوئی ایسا تار ہو جس پر جستجوئے حقیقت کے بحرانی اضطراب میں اچانک کسی نقاد کی انگلی پڑ گئی ہو۔ ایسی حالت میں نقاد کے الفاظ اور اس کافیصلہ بالکل عجیب نظر آئیں گے لیکن حقیقتاً وہ زمان ومکان میں پیدا ہونے والی تغیر پذیر حقیقت کا پرتو ہوں گے۔
اس طرح ادبی اور فنی کارناموں کے متعلق کبھی کبھی اتنے متضاد، متخالف اور مختلف فیصلے نظر آتے ہیں جن سے تنقید کی قدریں بالکل مشکوک ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اس وقت یہی خیال ہوتا ہے کہ اصول و غیرہ کچھ نہیں اپنے ذوق اور اپنی پسند کی بات ہے، اور اگر ذوق یا پسند کے لئے سانچے بنائے گئے تو وجدان، شعور اور لاشعور کی اس دنیا میں جانا پڑےگا جہاں ناپ تول کے معمولی سانچے کام نہیں آ سکتے، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ جب کسی ادیب، شاعر، فنکار یا کسی ادبی اور فنی کارنامے کے متعلق رایوں میں اختلاف ہوتا ہے تو مختلف رائیں دینے والے اسے انفرادی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا مسئلہ سمجھ کر خاموش نہیں رہ جاتے بلکہ ایک دوسرے پر حملے کرتے ہیں، بدذوق اور کور ذوق بتاتے ہیں، جاہل اور‘‘ ناآشنائے راز سخن‘‘ کہتے ہیں اور ’’اصولی‘‘ بحثیں شروع ہو جاتی ہیں۔
گویا فیصلے انفرادیت کے تابع نہیں رہ جاتے بلکہ ان میں بعض ایسی مشترک قدروں کی تلاش ہوتی ہے جن پر اگر تمام لوگ نہیں تو کچھ ہی لوگ متفق ہو جائیں۔ ان کے علاوہ بھی ہر دورمیں ادبی اقدار کی گفتگو زبانوں پر رہی ہے اور آج جب سائنس اور منضبط علوم کا زمانہ ہے، تنقید دقیق ترین فن بن گئی ہے اورجہاں بہت سے لوگ اب بھی نقد و نظر کو اپنی انفرادی اور ذاتی پسند کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہاں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اسے سائنس کی طرح یقینی اور باقاعدہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے اصول سازی کی دشواریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی اصول نقد کے موضوع پر غور کرنا یکسر بے نتیجہ نہ ہوگا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف زبانوں میں اصول تنقید پر برابر کتابیں اور مضامین لکھے جاتے ہیں اور لکھے جائیں گے، کم ایسی کتابیں ہوں گی جن میں یکسانیت پائی جاتی ہو، جن میں کامل اتفاق رائے پایا جاتا ہو، جن میں اصول نقد بیان کرنے کی حد تک اتفاق پائے جانے کے باوجود راہیں بالکل مختلف نہ ہوں اور یہی نہیں نتیجے بھی مختلف نہ نکلیں۔ سوال یہ ہے کہ کا اصول نقد معین کرنے والے ایک ہی مقصد کے جانب گامزن بھی ہوتے ہیں یابہت سی انفرادی، سماجی اور دوسری وجہوں سے ان کے ذہن میں نتیجہ پہلے سے موجود ہوتا ہے، بعد میں صرف دلیلیں فراہم کی جاتی ہیں؟ مقصد معین ہو چکتا ہے، بعد میں اسی مقصد کے مطابق توضیحیں پیش کی جاتی ہیں، یا اس کے برعکس ہوتا ہے؟
اصول اگر ہوا میں بنتے ہوتے تو کوئی دشواری نہ ہوتی۔ اگر ان کے بنانے والے سماجی زندگی سے بے نیاز ہوتے تو مشکلوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ادب زندگی کی کشمکش کے اظہار کے طور پر پیدا ہوتا ہے، اسی طرح تنقید بھی صرف ادب پیدا کرنے والوں کے احساسات اور تجربات کی توضیح کی پابند نہیں ہوتی بلکہ اسی کے ساتھ خود تنقید کرنے والے سماجی ماحول اور ذہنی افتاد کی مظہر ہوتی ہے۔ نقاد کو فکر کے دو کروں میں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ ایک وہ کرہ جس کی تخلیق ادب نے کی ہے اور دوسرا وہ جس نے نقاد کی نظر بنائی ہے۔ ان دونوں کروں کی زندگی، رنگ وروپ اور آب ہوا میں مماثلت بھی ہو سکتی ہے اور مخالفت بھی، بعد زمانی بھی ہو سکتا ہے اور بعد مکانی بھی، نقاد کا دونوں سے واقف ہونا ضروری ہے تاکہ اس کا فیصلہ ایک طرفہ اور غلط نہ ہو۔ اصول نقد بناتے وقت اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔
اصول تنقید تو ہر زمانے میں بنتے، بدلتے اور بگڑتے رہتے ہیں لیکن ایک بھدی اور سطحی شکل میں تنقید کا ادب کے ساتھ ہی پایا جانا ضروری ہے کیونکہ انتخاب، ترتیب، تعمیر، مواد اور صورت میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ادیب کو بھی ہوتی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی خاص مثال کی ضرورت نہیں ہے مگر اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ البتہ اہم ہے۔ ادیب کے ذہن میں بھی تعمیر، ترتیب اور انتخاب واقعات کے متعلق اصول و قواعد کی موجودگی نقادکے کام کو اور زیادہ مشکل بناتی ہے۔ ایک عام مطالعہ کرنے والا ان باتوں سے بالکل پریشان نہیں ہوتا لیکن نقاد کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ وہ ایسا پڑھنے والا ہے جو سمجھتا بھی ہے۔ اس لئے کم سے کم اس کے لئے یہ تو ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ادیب کی ذہنی ساخت، افتاد مزاج اور فلسفہ حیات سے واقف ہو۔
پہلی ہی منزل یعنی کسی کتاب یا مصنف کا سمجھنا پوری طرح اس بات پر مبنی ہے اور اگر اس کا کام صرف اتنا ہی ہوتا کہ وہ مصنف کے موضوع کو سمجھ لے تو بھی اس کی راہ میں بہت سی چیزیں حائل ہوتیں لیکن اس کو ادب کے ساتھ بھی انصاف کرنا ہے، جمہور کے دلوں میں دبے ہوئے پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے شعور کو ابھارنا اور رستہ دکھانا بھی ہے۔ ایک عام مطالعہ کرنے والا ایک کتاب کو مبہم طور پر پسند کر لیتا ہے یا پڑھنے کے بعد بے کیفی سی محسوس کرتا ہے۔ اگر کوئی نقاد اس کی مسرت یا بے کیفی کی تشریح کرکے اسے بتادے اور اتفاقاً وہ تشریح خود پڑھنے والے کے مبہم جذبہ سے مطابقت بھی رکھے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عام پڑھنے والا نقاد کی بحث اور تجزیہ کے بعد اپنی رائے بدل دے۔
بہر حال نقاد فنکار سے مختلف ہوتے ہوئے بھی فنی کارنامے کے حسین اور پر اثر پہلو کو نمایاں کرنے میں فنکار کا شریک بن جاتا ہے۔ ضرورت کے وقت وہ ان نقائص اور عیوب کو بھی روشن کر دکھاتا ہے جن سے وہ پڑھنے والوں کو بچانا چاہتا ہے۔ عام پڑھنے والے اور نقادمیں یہ فرق ہوتا ہے کہ نقاد پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی تشریح بھی کر سکتا ہے اور وجہیں بھی بیان کر سکتا ہے، عام مطالعہ کرنے والا نتیجہ کے لحاظ سے نقاد کے ہم نوا ہوتے ہوئے بھی صرف اپنے وجدان پر بھروسہ کرتا ہے۔
یہاں پہنچ کر اصل مسئلہ کے حدود شروع ہو جاتے ہیں۔ اس مضمون میں صرف چند پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جائےگا اور وہ یہ ہیں کہ اصول تنقید بنانے والوں کے سامنے کیا ایک ہی مقصد ہوتا ہے؟ اور اس مقصد تک پہنچنے کے لئے کن کن باتوں کا جائزہ لینا پڑتا ہے اور آخری بات یہ کہ اس جائزہ سے کچھ اصول مرتب کئے جا سکتے ہیں یا نہیں؟
جہاں تک مقصد کا تعلق ہے، اس کے واضح ہونے پر تنقید کی ساری عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ بات نقاد ظاہر کر دے کہ وہ ادیب یا شاعر سے کیا چاہتا ہے، یا وہ اپنا کیا فرض قرار دیتا ہے تو اس کی راہوں کو معین کرنا، یا اس کے اصولوں کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا، لیکن اس کا واضح کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ نقاد کو کبھی کبھی خود خبر نہیں ہوتی کہ وہ ایک خاص راستہ پر کیوں چلا جا رہا ہے۔ بعض اوقات فنکار کی شخصیت کا جادو ہی اسے اس طرح بے بس کر دیتا ہے کہ وہ اپنی راہ معین نہیں کر سکتا، بلکہ فنکار کی بنائی ہوئی راہوں پر چل کھڑا ہوتا ہے، یوں اس کا کوئی واضح مقصد نگاہوں کے سامنے نہیں آتا۔
اگر مختلف قسم کے نقادوں کے طرز تنقید پر گہری نظر ڈالی جائے تو ان کے مقصد کے سلسلے میں چند باتیں کسی قدر نمایاں ہو جاتی ہیں۔ بعض نقاد ادب کا مقصد تفریح قرار دیتے ہیں اور وہ سارے ادب کا مطالعہ اسی زاویہ نظر سے کرتے ہیں، بعض اسے اپنے احساس جمال کی تسکین یا انفرادی لذت اندوزی سمجھتے ہیں۔ بعض کے نزدیک ادب زندگی کی از سر نو تخلیق ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ نقاد کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ وہ ادیب کو اچھی طرح سمجھ کر سمجھادے، نقائص وغیرہ کا تذکرہ اس کا کام نہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کے نزدیک ادب ادیب کی شخصیت کا آئینہ ہے، اس لیے ادیب کی کھوج لگانا نقاد کا کام ہے۔ کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ ادب انسان کی مادی کشمکش کا دلکش عکس ہے، اس لیے اس کو اسی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ بعض افادیت کے قائل ہیں اور اس ادب کو جس سے انسان کی خدمت نہ ہوتی ہو، فضول سمجھتے ہیں۔ بعض ادیب کو غیرمعمولی انسان سمجھتے ہیں اور اور اس کی تخلیق کو تقریباً ایک غیرانسانی کارنامہ۔ ان کے لیے ادب کی پرکھ ایک اور ہی حیثیت رکھتی ہے۔
بعض اسے طبقاتی کشمکش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور سارے ادب میں اسی کی جستجو کرتے ہیں، بعض ماحول کا نتیجہ سمجھتے ہیں، بعض اخلاق کو سب پر بالا رکھتے ہیں اور ادب کو اسی کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں۔ بعض کے یہاں انسانی نفسیات کے گہرے راز کی نقاب کشائی کبھی شعوری اور کبھی غیر شعوری طور پر ادب میں ہوتی ہے۔ اس لیے نقاد کا فرض ان کے نزدیک یہی قرار پاتا ہے کہ وہ شعور اور لاشعور کے درمیان ادب کے واضح اور مبہم نقوش تلاش کریں۔ بعض ادب میں مقصد ڈھونڈتے ہیں، بعض مقصد کو ادب کے لیے لعنت قرار دیتے ہیں، بعض کے لیے خالص داخلیت ادب ہے، اس لیے داخلیت کی تشریح نقاد کا کام ہے۔ بعض خارجی مظاہر کی تصویر کشی ادب میں چاہتے ہیں اور اگر وہ نہ پائے جائیں تو ادب ادب نہیں۔ کوئی نقاد محتسب بن جاتا ہے، کوئی منصف، کوئی معلم اخلاق بن جاتا ہے کوئی نظریہ ساز، کوئی خود تنقید ہی کے ذریعہ فنکار بننا چاہتا ہے، کوئی ادب کو تاریخ کا جزو سمجھ کر مؤرخ کے فرائض انجام دینے لگتا ہے۔
اور فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی، یہ تو ان مختلف خیالات کی طرف اشارے ہیں جو نقاد کا مقصد متعین کرتے ہیں، اور یوں جب اس کا کوئی خاص مقصد ہوتا ہے تو وہ ادب کو اسی ترازو پر تولتا ہے۔ پھر عرض کیا جا چکا ہے کہ جب مقصد بظاہر ایک (یعنی نقد ادب) ہوتے ہوئے بھی اس قدر متضاد و متخالف ہوں گے تو راہیں کبھی ایک نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے نقاد کا نقطہ نظر معلوم کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ کہنے کے لیے تو سبھی اصول نقد کی باتیں کرتے ہیں لیکن کیا متذکرہ بالا خیالات کی روشنی میں یہ اصول کبھی ایک ہوں گے؟
اس مضمون کو یہاں تک پڑھ لینے کے بعد ادیبوں کا ایک گروہ چیں بجبیں ہو کر پوچھے گا کہ آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے کہ تمام نقاد ایک ہی طرح کے اصول پیش کریں۔ جواب یہ دیا جائےگا کہ ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام نقاد ایک ہی سا لباس پہن کر کھڑے ہو جائیں اور ایک ہی سی آواز میں بولنے لگیں، مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ اصول تنقید پر غور کرنے والوں کو نقاد کے فیصلہ یا تجزیہ میں اس عنصر کو بھی دیکھنا چاہئے جو ظاہری طور پر نقاد کو ایک بے تعلق انسان، ایک غیر جانب دار مصنف اور ایک سائنس داں کی طرح جچا تلا بنا کر پیش کرتا ہے، لیکن در پردہ اس سے وہی باتیں کہلواتا ہے جو اس کا سماجی شعور اس سے کہلانا پسند کرتا ہے۔
نقاد کی ظاہری بےپردگی کے پردے میں حقیقتاً اس کی وہ شخصیت کارفرما ہوتی ہے جس کی تعمیر اور تشکیل میں بہت سی خارجی طاقتوں نے حصہ لیا ہے اور وہ طاقتیں اسے ایک خاص چیز کے پسند کرنے اور ایک دوسری چیز کے ناپسند کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس کی انفرادیت کسی قسم کی ماورائی ذوق سلیم کی مظہر نہیں ہوتی بلکہ اسی قسم کے بہت سے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے طبقہ، ماحول، روایات، فلسفہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام لوگ اسی کی طرح نتائج نکالتے ہیں اور اس کا فیصلہ در حقیقت سماج کے ایک حصہ کا فیصلہ بن جاتا ہے۔
اس موضوع پر بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہی لوگ جو ادیب یا نقاد کی بے تعلقی پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں، خود اپنے کو فریب دیتے ہیں اور بے تعلقی کا ظہار کرتے ہوئے وہ اس تعلق کو ظاہر کر دیتے ہیں جو مثبت یا منفی صور ت میں انہیں ایک مخصوص نقطہ نظر رکھنے پر مجبور کر رہا ہے۔ بے تعلقی کا اظہار کرنے والے اپنے مخالف کو گالیاں دے کر دم لیتے ہیں، انہیں خود تو تسکین ہو جاتی ہے لیکن بے تعلقی اور خالص ادبیت کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے یہ تو کسی طرح ضروری نہیں اور غالباً ممکن بھی نہیں کہ تمام نقاد ایک ہی طرح کے اصولوں پر عامل ہوں لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ نقاد نے وہ نتائج کیوں نکالے یا انہیں اصولوں کو کیوں پیش کیا جو اس کے سماجی تعلق کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کے فیصلے کسی طرح بھی نہ تو غیر جانب دارانہ ہیں اور نہ خالص ادبی۔
نقاد جن عینکوں سے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں ان میں سے کئی کا ذکر اوپر آیا ہے۔ ان میں ہر نقطہ نظر تفصیل کا محتاج ہے، جس کے لئے وقت درکار ہے لیکن مختصراً سمجھنے کی لئے اگر انہیں انواع میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے تو جزئی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم انہیں صرف دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو ادب کو بنیادی طور پر تفریح اور وقتی مسرت کا آلہ سمجھتے ہیں، دوسرے وہ جو اس سے آگے بڑھ کر اس میں دوسرے افادی پہلو بھی تلاش کرتے ہیں۔
اول الذکر کو اس کی فکر نہیں ہوتی کہ ادیب نے کیا لکھا ہے، ان کی کسوٹی ہی ہے کہ ادیب کے کارنامے نے مسرت میں اضافہ کیا یا نہیں۔ وہ ادیب کی انفرادیت، اس کی غیرمعمولی قوت تخلیق، اس کی الہامی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں، اسے زمان و مکان کے قیود سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ ادیب کے کارنامے کی پرکھ میں کسی اور خیال کو شامل نہیں کرتے۔ وہ افادیت کے خیال پر مسکراتے، مقصد کے تصور پر استہزاء کرتے اور ماحول کے نام سے چڑھتے ہیں۔ دوسرے گروہ کے لوگ ادیب کوانسان، سماجی انسان اور زمان و مکان کے اثرات قبول کرنے والا انسان سمجھ کر اس کے کارناموں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی تخلیق کے محرکات کیا ہیں، ان محرکات میں کن خیالات، واقعات اور اجتماعی احساسات کا اثر شامل ہے اور اس کی تصنیف کس خاص فلسفہ خیال کی ترجمان اور مبلغ ہے؟ یوں نقاد کے نقطہ نظر ہی کا تعین سارے مسئلہ کا مرکز بن جاتا ہے اور اصول نقد پر کوئی بحث اس وقت تک مکمل نہیں کہی جا سکتی جب تک کہ ادیب کے تخلیقی کارناموں کی طرح تنقیدی خیالات کو بھی نقاد کی سماجی شخصیت کے پس منظر میں نہ دیکھا جائےگا۔
جس وقت اصولوں کی بات آتی ہے، ہر شخص کسی نہ کسی حد تک قطعیت کا تصور کرنے لگتا ہے۔ ادب سائنس ہو یا نہ ہو لیکن اسے اپنے اظہار میں حقیقت کے قریب تو ہونا ہی چاہیے۔ تنقید اس سے آگے بڑھتی ہے اور گو اسے بھی ایک خاص مفہوم میں سائنس نہیں کہہ سکتے لیکن سچائی کی گفتگو میں وہ سائنس سے بالکل قریب ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر اصول کے اندر بھی بے راہ روی یا بے ترتیبی پائی گئی تو پھر انہیں اصول کہنا ہی نہ چاہیے۔ تمام نقاد، چاہے ان کا کوئی نقطہ نظر ہو، ترتیب اور تعمیر کی طرف مائل ہوتے ہیں یامصنف کے خیالات کو مشرح طریقہ پر پیش کر دینا چاہتے ہیں، وہ بھی ایک مخصوص قسم کا تعمیری تصور رکھتے ہیں، چاہے ان کے اندر یہ جرأت نہ ہو کہ وہ مصنف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں اور اس کے دل کا چوڑ پکڑ لیں لیکن وہ پھر بھی مصنف کے بے ترتیب خیالات میں ترتیب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، گویا کسی نہ کسی اصول کا خیال کرتے ہیں۔
سائنس اور فلسفہ کی دقیقہ شناسی، موشگافی، تجزیہ، تحلیل، ترکیب اور کانٹ چھانٹ کے بعد نتائج نکالنے کا خیال بھی ضرور آتا ہے۔ اس لئے تنقید کے اصول بنانا، اگر واقعی انہیں اصول کہا جا سکے، اپنے انفرادی ذوق، اپنی ذاتی پسند کی بات نہیں ہو سکتی۔ اصول تو اس لئے بنتے ہیں کہ ان سے دوسروں کی رہنمائی ہو سکے۔ یا کم سے کم راستہ کے نشیب و فراز سے واقفیت حاصل ہوجائے، اپنی ذاتی پسند کے لئے اصول بنانے کی ضرورت نہیں۔ تنقید کی یہی اجتماعی حیثیت ہے جو دشواریاں پیدا کرتی ہے اور جس سے عہدہ بر آہونا ہر نقاد کے بس میں نہیں ہوتا۔
اپنے ذوق اور وجدان کے سہارے کسی ادیب یا شاعر کی روح میں اتر جانا آسان ہے لیکن اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے جانا اچھے نقاد ہی کا کام ہو سکتا ہے کیونکہ وہ داخلی کیف پذیری اور لذت اندوزی کی ایسی نازک لکیر بناتا ہوا نہیں چلتا جواس کے گزر جانے کے بعد مٹ جائے۔ بلکہ علم کی روشنی میں ایک شاہ راہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہی اصول، اصول کہے جا سکتے ہیں جو صرف اصول بنانے والے یا اس کے چند ساتھیوں کے کام نہ آئیں بلکہ جو زیادہ سے زیادہ انسانوں کو روشنی دکھا سکیں، جن میں انجانی داخلیت اور ہر لمحہ بدلتے ہوئے وجدان ہی کے سہارے منزلیں طے نہ ہوں بلکہ جن میں تاریخ، منطق اور دوسرے علوم سے مدد لی جائے تاکہ نتیجہ میں غلطی کے امکانات کم ہوں۔
شایدیہ بحث کبھی ختم نہ ہوگی کہ نقاد کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ بحث ختم ہویا نہ ہو، دنیا میں ادیب بھی ہیں اور نقاد بھی۔ اچھے ادیب اور اچھے نقاد کم سہی، لیکن ہیں دونوں، اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کا وجود ضروری ہی نہیں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتاہے۔ اگر کوئی لکھنے والااس لئے لکھتاہے کہ لوگ اسے پڑھیں، اس سے لذت حاصل کریں یا فائدہ اٹھائیں تو پھر پڑھنے والوں میں سے کسی نہ کسی کو یہ کہنے کا حق بھی پہنچتا ہے کہ مصف اپنے مقصد میں کامیاب ہوا یا ناکام۔ نقاد کی مخالفت عام طور پر خود ادیبوں ہی نے کی ہے کیونکہ ادیب اپنے کارنامے کو مافوق العادات دماغ کی پیداوار سمجھتے ہیں اور اس کی اچھائی اور برائی کے متعلق کچھ سننا پسند نہیں کرتے، اچھائی کے متعلق تو خیر سن ہی لیتے ہیں کیونکہ تعریف سے دیوی دیوتا بھی خوش ہوجاتے ہیں، لیکن برائی کو نقاد کی جہالت قرار دیتے ہیں۔
یہ تو ادیب کے نقطہ نظر کی ترجمانی ہوئی لیکن بعض نقاد بھی تنقید کا ایک ایسا نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تنقید ایک فعل عبث قرار پاتی ہے۔ بعض نقادوں کے خیال میں اور ان کی تعداد کم نہیں ہے، نقاد کا کام ان کیفیات کی باز آفرینی ہے جن سے ادیب دوچار ہوا تھا۔ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے کہ ادیب کے خیالات کو اپنے لفظوں میں بغیر کسی قسم کی جرح اور تعدیل کے پیش کر دیں۔ ایسی حالت میں تنقید بے معنی فعل ہوکر رہ جاتی ہے۔ شاید چند ناسمجھ یا کم عقل انسانوں کو اس سے فائدہ پہنچ جائے لیکن اگر شارح اور نقاد کے کام میں کچھ بھی فرق ہے تو ایسی تنقید نہ تو حقیقی تنقید کہی جا سکتی ہے اور نہ کسی نتیجہ تک رہنمائی ہی کرتی ہے۔ نقاد ادیب کے نقطہ نظر اور فنی کارنامے کو سمجھتے ہوئے بہت کچھ اور بھی سمجھتا ہے۔ وہ ادب اور زندگی کے تعلق کا مطالعہ خاص طور سے کرتا ہے اور اسی تعلق کی روشنی میں ادبی کارناموں کی اہمیت کا اندازہ لگاتا ہے، ادیب کے خلوص کا پتہ چلتا ہے، ادب کے بہترین اور پائیدار حصوں کی قدر و قیمت معین کرتا ہے اور انہیں تمدن کا جزو بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
رطب و یابس میں تمیز کرنا، غیرمخلصانہ اور سچے ادب میں فرق پیدا کرنا، اجالے کو اندھیرے سے الگ کرنا نقاد کا کام ہے۔ ادیب خود مکمل طور پراس کام کو انجام دے سکتے تو نقاد کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ چونکہ نقاد کا کام تخریب نہیں، تنظیم، ترتیب، انتخاب اور تعمیر ہے۔ اس لئے اگر وہ خلوص سے کام کرے تو صالح ادب کی پیدائش میں معین بن جاتا ہے، اس سے تیسرے درجے کے لکھنے والے اسی لئے متنفر ہوتے ہیں کہ وہ ان کی سطحیت کا پول کھول دیتا ہے۔ یقیناً یہ باتیں ہر نقاد کے بس میں نہیں ہیں، اس لئے اس بات پر باربار زور دیا گیا ہے کہ خود نقاد کے زاویۂ نظر کا سمجھنا بھی ضروری ہے کیونکہ وہ اپنے سماجی ماحول سے بے گانہ ہوکر خالص ادبی یا محض تنقیدی نتائج نہیں نکال سکتا۔ جس طرح بغیر ایک مخصوص فلسفۂ حیات رکھے ہوئے اچھا ادیب نہیں بن سکتا، اسی طرح ایک اچھا حکیمانہ دماغ رکھے بغیر کوئی شخص اچھا نقاد نہیں بن سکتا۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادیب کے لئے تخلیق کا کرب ایک جانگسل لذت کے باوجود روح فرسا ہوتا ہے۔ اس کے شعور کا ہر لمحہ اسی کے لئے وقف ہو جاتا ہے اور اس کی روح گویا اس کے قلم کی نوک میں آ جاتی ہے۔ اگر وہ اپنی تسکین کے علاوہ ادیب کے ذمہ کسی قسم کا سماجی فرض بھی سمجھتا ہے تو اسے اپنی ہر تحریر کے اثر کو نظر میں رکھنا پڑتا ہے اور وہ مستقبل کے اس نقاد سے بےنیاز نہیں ہو سکتا جو تصنیف کے فوری اثر، پڑھنے والوں کی رایوں اور تنقیدوں کی روشنی میں فیصلہ کرےگا۔ ایک لحاظ سے نقاد کا کام مصنف سے زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری رایوں اور تنقیدوں کے اس انبار کو دیکھتے ہوئے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو ہر تصنیف کے گرد جمع ہو جاتا ہے۔ ایک اچھا نقاد نہ تو انہیں نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ انہیں کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس لئے جب وہ اصول نقدِ معین کرنے کی کوشش کرےگا تو جہاں اس کے لئے ادب اور ادیب کو اچھی طرح جاننا اور سمجھنا ضروری ہوگا،، وہیں ہر عہد میں ادب کے متعلق جو رائیں پیش کی گئی ہیں ان کا سمجھنا بھی ضروری قرار پائےگا۔
اس کا کام اس حیثیت سے تجریدی شکل اختیار کرنے کے بجائے بہت سے متعلقات اور روابط کے پیچیدہ اور دشوار گزار راستوں سے ہوکر گزرےگا اور ان روابط کی حیثیت عام طور سے سماجی ہوگی، جس میں انفرادی نفسیات سے لے کر اجتماعی نفسیات اور سماجی علوم تک سبھی شامل ہوں گے۔ اس کی تشریح اور توضیح بار بار کی جاچکی ہے کہ انسانی علوم ایک دوسرے سے بےنیاز نہیں ہیں، ان میں گہراتعلق پایا جاتا ہے اور کوئی علم دوسرے کئی علوم کے بغیر اچھی طرح سمجھا نہیں جا سکتا۔ شعور انسانی میں ان تمام علوم کی کار فرمائی ہوتی ہے اور زندگی کے متعلق جو نتائج ایک باشعور انسان یا ادیب نکالتا ہے وہ اس کے مجموعی علم کے محنت کش ہوتے ہیں۔ ادیب جو کچھ لکھ کر پیش کرتا ہے وہ خالص ادبی نقطہ نظر سے جانچا نہیں جا سکتا۔ نقاد کے لئے اسی وجہ سے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کی نگاہ حقیقتوں کے اس پیچیدہ راستے سے ہوکر گزرے اوروہ ان تمام اثرات کا پتہ لگائے جنہوں نے ادیب کے شعور کو مرتب کیا تھا۔
بنے بنائے اصول پر چل کھڑا ہونا آسان ہوتا ہے لیکن اصولوں کو بنانا یا سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونا غیرمعمولی ذہنی طاقت اور علم کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب کوئی پڑھنے والا، جو تنقید بھی کرنا چاہتا ہے، کسی تصنیف، کسی ادیب، ادب کے کسی شعبے یا مجموعی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں بعض ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں جو بہت سی صورتوں میں تقریباً تمام نقادوں کے یہاں مشترک ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ نقادوں سے مراد وہی نقاد ہیں جو کسی مخصوص اصول کی بنا پر نقد کرتے ہیں اور محض شارح کا فرض انجام نہیں دیتے۔ جن سوالات اور جوابات پر تنقید کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے ان کی مکمل فہرست تو پیش نہیں کی جا سکتی لیکن ان خاص سوالات کا ذکر ضرور کیا جا سکتا ہے، جن سے اصول نقد مرتب ہوتے ہیں یا جن سے ادیب اور نقادوں کے نقطہ نظر معلوم کئے جا سکتے ہیں۔
یہ سوالات نقادکو بڑی الجھنوں میں ڈالتے ہیں کیونکہ اس میں اس کے علم اور سماجی شعور، اس کے مقصود حیات کی آزمائش ہوتی ہے، یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ادب اور زندگی کے تعلق کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے، وہ انسان دوست ہے یا نہیں، وہ تمدن کی کن قدروں کو عزیز رکھتا ہے اور انہیں انسانوں کے اندر عام کرنے کا کتنا آرزومند ہے۔ اس لئے وہ خام مواد جس پر بہت سے نقاد کام کرتے ہیں تقریباً یکساں ہوتے ہوئے بھی مختلف بن جاتا ہے۔ وہ سوالات جن کے جواب پر اصول نقد کے تعین کا دارومدار ہے کیا ہیں؟
بعض ایسے مسائل جن کا ذکر اس موقع پر کیا جاتا، اوپر آ چکے ہیں لیکن یہاں انہیں ان کی اہمیت کے لحاظ سے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلا ہی مسئلہ جس کے جواب کی کوشش ایک نقاد کرتا ہے، یہ ہے کہ ادیب اپنے لئے لکھتا ہے یا کسی اور کے لئے؟ اس سلسلے میں اور چھوٹے چھوٹے سوالات رونما ہو جاتے ہیں، جن پر بحث کرکے نقاد یہ نتیجہ نکالنا چاہتا ہے کہ ادب کی کوئی افادیت بھی ہے یا نہیں۔ اگر تصنیف کا تعلق صرف لکھنے والے سے ہے اوروہ اس کی تنہا شخصیت کی آئینہ دار ہے تو افادیت یا مقصد کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ اس مسئلہ کے سلجھانے میں وہ دشوار منزل بھی آتی ہے جسے عبور کرنے میں بہت سے ماہرین نفسیات لگے ہوئے ہیں، یعنی ادب کا کتنا حصہ مصنف کی شعوری کوششوں کا نتیجہ ہے اور کتنا حصہ غیر شعور ی مجبور یوں کا۔ اس طرح یہیں پر یہ بھی جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فنکار یا مصنف کے باطن یا ضمیر، اس کی چھپی ہوئی خواہش اور نیت کا تجزیہ کیا جائے یا اس کا جو تصنیف سے پیدا ہوتا ہے۔
اس قسم کے تمام سوالات کا جواب ہر حال میں ایک نہیں ہو سکتا۔ مصنف کی نیت اور اس کے مافی الضمیر کا کہاں تک پتہ چلایا جا سکتا ہے، وہ کیا کہنا چاہتا تھا اور کیا کہہ سکا، کہنے میں کہاں تک کامیاب ہوا۔ جو کچھ ہوا اس نے لکھا ہے اسی پر نقاد کو فیصلہ کرنا چاہیے یا یہ جاننا چاہیے کہ اس کے دل میں کیابات تھی۔ یہیں طریق اظہار کی فنی خصوصیات کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ اگر فن باطنی چیز ہے جیساکہ بعض فلسفیوں کا خیال ہے کہ وہ اظہار کا محتاج ہی نہیں ہے بلکہ خارجی قسم کا اظہار تو اسے فن کے دائرے ہی سے نکال دیتا ہے، تو ایسی صورت میں نقاد کس چیز کے متعلق رائے قائم کرے اور کس طرح۔
پھر اسے یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ اگر ادب یا اس کے اظہار کو صرف ادیب پر چھوڑ دیا گیا تو اس کا جو جی چاہےگا لکھےگا اور جس طرح چاہےگا لکھےگا، ہر تحریر کو کامیاب سمجھےگا اور نقد کے طور پر کہے ہوئے الفاظ کو وہ مہمل خیال کرےگا۔ ادیب جو اثر پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ ہر شخص کے دل میں مختلف ہونا چاہیے یا اس کی کوئی اجتماعی شکل بھی ہو سکتی ہے۔ بات میں بات نکل آتی ہے اور نقاد کے کام کو دشوار بناتی جاتی ہے لیکن ایک اچھے نقاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب فراہم کرے اور ہر مسئلہ کا حل ڈھونڈ نکالے۔
اثر الفاظ اور طرز اظہار سے پیدا ہوتا ہے یا موضوع، مقصد اور خیال سے؟ دونوں کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے تو دونوں میں کیا تناسب ہونا چاہیے؟ مختلف شعبہ ہائے ادب میں یہ تناسب مختلف قسم کا ہوگا یا تقریباً یکساں؟ تقابلی مطالعہ سے ادب کو سمجھنے اور پرکھنے میں کتنی مدد مل سکتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب دینا بھی آسان نہیں ہے اور ان کے جوابات بھی نقاد کے سماجی شعور پر مبنی ہیں کیونکہ وہ لوگ جو حالات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، مواد اور خیال کو اہم نہیں سمجھتے بلکہ اظہار اور طرز ادا کی جدت پر فریفتہ ہوتے ہیں اور جو لوگ ادب کو زندگی کی جدوجہد میں ایک آلہ کار کی حیثیت دیتے ہیں، وہ جو کچھ کہا گیا ہے اسے پہلی جگہ دیتے ہیں۔ 1
ادب میں حسن اور حقیقت کی کیا جگہ ہے، حسن و قبح کا کیا معیار ہونا چاہیے، حسن کے سلسلہ میں عریانی اور فحاشی کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے۔ حقیقت ابدی ہے یا تغیر پذیر۔ ہر زمانہ میں حقیقتوں کے سمجھنے اور ماننے کی ایک ہی صورت رہی ہے یامختلف، حسن کا کوئی افادی پہلو بھی ہے یا نہیں، اسلام کے لئے کفر اور حسن کے لئے قبح ضروری ہیں یا نہیں؟ ایسے ہی بہت سے سوال اس مسئلہ کے گر داٹھ کھڑے ہوتے ہیں جنہیں کوئی شخص زندگی کے دوسرے مسائل سے بے تعلق ہوکر حل نہیں کر سکتا۔ مختلف قسم کے عقیدہ رکھنے والے ان سوالوں کا جواب بھی مختلف دیں گے اور ادب کی ترجمانی کا مفہوم ہر جگہ بدل جائےگا۔
ادب میں روایت کی کیا جگہ ہے، ادبی تسلسل کا کیا مفہوم ہے، ہر ادیب اور اس کی ہر تصنیف اپنی جگہ ایک وحدت کی حیثیت رکھتی ہے یا ادب کی مسلسل رفتار میں اس کی جگہ متعین کرنے کی ضرورت ہے یا ماضی سے کتنی علیحدگی ممکن ہے، قدیم اور جدید کے درمیان کوئی خط فاصل ہو سکتا ہے یا نہیں، نئی زندگی اپنے ساتھ بیان واظہار کے نئے سانچے لاتی ہے یا قدیم سانچوں میں نئی زندگی کو بھی ڈھالا جا سکتا ہے، قدیم طرز اظہار میں تبدیلی کا حق کسے ہے اور کتنا ہے، اس تبدیلی کے اصول کیا ہوں گے اور انہیں کون متعین کرےگا؟ یہ بھی چند سوالات ہیں جن کا حل نقاد کو تلاش کرنا چاہیے کیونکہ زمان و مکان کا تغیر ہر مسئلہ کی نوعیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر زندگی نامیاتی ہے، اس کے مظاہر نامیاتی ہیں تو ادب میں ماضی کی ماضیت اور ماضی کی حالیت، ماضی اور حال کے تداخل اور حال کی مستقبلیت کو سمجھے بغیر چارہ نہیں۔
ادب میں مقصد اور عدم مقصد کا ذکر ہو چکا ہے لیکن سوال پروپیگنڈے کا ہے۔ کیا ہرادب کسی اچھائی (یا برائی) یا کسی اور خصوصیت کا ذکر کرکے اثر نہیں پیدا کرنا چاہتا، ادب اور پروپیگنڈے کے درمیان تفریق کی کیا صورت ہو سکتی ہے، کسی وقت ادب سے تبلیغ کا کام بھی لیا جا سکتا ہے یا نہیں، جو چیز ایک کے لئے تبلیغ ہے، کیا دوسرے کے لئے وہی زندگی کی اس حقیقت کا اظہار نہیں ہے، جس پر انسانیت کا دارومدار ہے؟ سوال میں سوال پیدا ہوکر منطقی اور سائنٹفک جواب چاہتے ہیں، کوئی نقاد جو اصول سازی پر مائل ہے انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔
جب ادب اتنا ہمہ گیر ہے کہ اس میں ادب کے مجموعی علم کا اثر نمایاں ہوتا ہے تو پھر ادب کا مطالعہ کرتے وقت نقاد کو ماہر نفسیات، ماہر تعلیمات، ماہر سیاسیات، ماہر اخلاقیات وغیرہ کی حیثیت سے ادب کو دیکھنا چاہیے، یا ان چیزوں سے قطع نظر کرکے یوں سوچنا چاہیے کہ ادیب کو ان باتوں سے کیا واسطہ؟ اگر ایسی غلطیاں پائی جاتی ہوں جن کا تعلق مخصوص علوم سے ہے توان کا احتساب کرنا چاہیے یا اس کے برعکس عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ادب ان علوم سے تعلق رکھنے والی باتیں پیش کرتاہے تو پھر ادیب کے یہاں صحت اور غلطی کیوں نہ دیکھی جائے؟ یہ سوالات بھی کچھ کم الجھن پیدا کرنے والے نہیں ہیں۔
ادیب عام انسانوں کی طرح ہوتا ہے یا کوئی غیر معمولی طاقت اس کے پاس ہوتی ہے، وہ ماحول سے بنتا ہے یا ماحول اس کی تحریر سے بنتا ہے، ادیب اور ماحول میں کیا تعلق ہے، وہ ماحول سے بیگانہ ہوکر بھی کچھ لکھ سکتا ہے۔ اجتماعی زندگی، سماجی روایتیں، رسم و رواج، فلسفہ، مذہب، معاشی حالات، معاشی تصورات اسے متاثر کرتے ہیں یا نہیں، اگر متاثر کرتے ہیں تو کس قدر، اصل چیز جس سے ادب میں زندگی پیدا ہوتی ہے کیا ہے، مخصوص ادوار حیات میں مخصوص قسم کے ادب کی نشوونما کیوں ہوتی ہے، کیا ادیب کے خیالات گردوپیش کی زندگی کا نتیجہ نہیں ہوتے، خیال پیدا ہی کیونکر ہوتا ہے، فرد اور جماعت میں کیا تعلق ہے، کیا انفرادی اور اجتماعی خواہشات میں توازن قائم کیا جا سکتا ہے، کیا ادیب انفرادیت کے پردے میں اجتماعی احساسات پیش کرتا ہے، یہ سوالات معمولی علم رکھنے والا حل نہیں کر سکتا، لیکن بہت سے نقاد ان الجھنوں میں پڑتے ہی نہیں۔ یہاں ایسے نقادوں سے بحث بھی نہیں ہے۔ بحث ان سے ہے جو اصول کے ماتحت تنقید کرتے ہیں اور اصول کا تصور بغیر حقیقت، قطعیت اور حکیمانہ جانچ پڑتال کے نہیں کیا جا سکتا۔
مباحث اور مسائل کی یہ فہرست قطعی نہیں ہے، ہزاروں قسم کے سوالات پیدا ہوکر جواب چاہتے ہیں، شکوک سر اٹھاکر یقین چاہتے ہیں۔ ادیب کی ہر تصنیف اپنے ساتھ نئے سوالات لاتی ہے اور زندگی اتنی متنوع ہے کہ ہر تصیف کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ فنون لطیفہ کی تاریخ میں ایسے فن کار اور ایسے فنی نمونے دکھائی دیتے ہں جو ہر اصول کو توڑ دیتے ہیں تاہم اصول بنانے میں زیادہ سے زیادہ تعبیرات اور اقدار کے اشتراک کی کوشش ہونا چاہیے۔ ابتدائی انسانوں کی فطری اورسادہ زندگی میں جب فن اورادب داخل ہوئے توان کے یہاں پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی بنیاد افادہ پر تھی یا وجدان پر؟ یہ ایسا دلچسپ سوال ہے جس پر علم تمدن کے ماہرین نے بہت کچھ لکھا ہے اور زیادہ تر اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وجدان سے زیادہ افادیت ان کے خیال کی محرک ہوتی تھی۔
پھر زندگی میں نظم اور ترتیب، تکلف اور نمائش، رسم و رواج، روایت اور بغادت کے جذبے پیدا ہوتے اور بڑھتے گئے اور نئی پیچیدگیاں پیدا ہوتی گئیں۔ اس لئے نقاد کو ہر دور میں نئے اصول کی ضرورت پڑی۔ فن تنقید کی بنیاد تاریخی حقائق پر رکھنے کی بات کچھ بڑی غیر ادبی معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہے کہ تنقید کو تاریخ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس کے اصولوں کو اس طرح مرتب کیا جائے جس کی مدد سے زیادہ سے زیادہ انسان ادب سے لطف اندوز بھی ہو سکیں، اس کی حقیقت کو بھی سمجھ سکیں اور اسے انسانی مفاد کے کام میں بھی لا سکیں۔ محض انفرادی پسندیدگی پر تنقید کی بنیاد رکھ کر اصول بنا لینا غیرحکیمانہ فعل ہے۔ ایک شخص سڑک کے بیچ میں کھڑا ہوکر گالیاں بکتا ہے تو راہ گیروں میں سے بعض رک کر اس کی گالیوں کی بھی داد دینے لگتے ہیں۔ تنقید کے ایسے انوکھے اصول بن سکتے ہیں کہ چند انسان اس کی ندرت اور جدت پر سردھنیں لیکن حقیقتاً اصول وہی ہیں جن کی داد زیادہ سے زیادہ لوگ دے سکیں، جو انسانیت کے لئے زیادہ سے زیادہ مسرت بخش ہوں، اور جو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے ادب سے زیادہ لذت اندوزی اور اثرپذیری کو آسان بنا دیں۔
اصول سازی کی دشواریوں کے باوجود معمولی سے معمولی نقاد بڑی دیدہ دلیری سے دو ٹوک فیصلے کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر رچرڈس نے کہاہے کہ نقاد کو ذہن کی صحت سے اسی قدر تعلق ہے جتنا ڈاکٹر کو جسم کی صحت سے ہوتا ہے۔ اور اسکاٹ جیمس کا خیال ہے کہ نقاد کو تخلیق کرنے والے کا درجہ حاصل کر لینا چاہیے لیکن سہل انگاری نے تنقید کو محض ایک دلچسپ مشغلہ بنا رکھا ہے۔ جن دقیق مسائل کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ان کا قابل اطمینان جواب دینا ہی ہر نقاد کا فرض نہیں ہے بلکہ ان جوابات میں ایک قسم کی فلسفیانہ ہم آہنگی اور یکسانیت کا پایا جانا بھی ضروری ہے تاکہ اسے عام نظام علم و حکمت میں جگہ دے سکیں۔ اصول تنقید بناتے ہوئے کسی ایک بات پر غیرمعمولی زور دے کر اسی کو بنیاد قرار دینا صرف اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جب اس ایک بات میں تمام دوسری قدروں کا وجود پایا جا سکے، جب سارا مواد تحلیل ہوکر کسی وحدت میں ڈھل جائے۔
اصول نقد پر غور کرتے ہوئے ان تاریخی قوتوں کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا چاہئے جن سے ادب وجود میں آتا ہے، جن سے انسان کی تمنائیں اور خواہشیں پیدا ہوتی ہیں، جن سے تنقید کی صلاحیت وجود میں آتی ہے، جن سے انسانی تمدن بنتا ہے اور جن سے ان قدروں کا تعین کیا جاتا ہے جو انسانوں کو آزادی، مسرت اور ترقی کی اس منزل تک پہونچا سکتی ہیں جن کے لئے انسان ہر دور میں بے قرار رہے ہیں۔ کسی اور طرح اصول کا تصور کرنا نامکمل کوشش ہوگی، ایسے اقدار کی جستجو کرنے کی جن سے ادب کو اس کے ہر پہلو سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اصول نقد کا تعین کرنے میں تحقیق کے ہر گوشے تک نگاہ کو جانا چاہیے۔ ہر علم سے مدد لے کر ادب کو سمجھنا چاہیے۔ اعلیٰ ادب کو ادنیٰ ادب سے اس بنیاد پر علیحدہ کرنا چاہیے کہ وہ ادب کبھی اعلیٰ ہو ہی نہیں سکتا جس سے انسانی مسرت اور انسانی امنگوں میں اضافہ نہ ہو۔ کوئی اصول جو تاریخ اور سماج کی ہمہ گیر قوتوں کو نظر انداز کردے، اس نقطہ نظر سے اصول ہی نہیں رہتا۔
اعلیٰ ادب ادیب کی شعوری قوت کا نتیجہ ہوتا ہے، اسے اس کے معمولی اور وقتی تجربات اور ہیجانات کا اظہار قرار دے کر نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہو سکتا۔ اچھا ادب وقت کی چیز ہوتے ہوئے بھی ہر وقت کی چیز ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں انسانی شخصیت کی جو بالیدگیاں اور امکانات چھپے ہوئے ہیں انہیں بھی دیکھنا چاہے اور ان حالات کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ زندگی اور انسانی فطرت کو اس کی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔ روایت اور تغیر کا تاریخی احساس رکھنا چاہیے اور پھر یہ رائے دینا چاہے کہ کسی مصنف یا ادیب نے کہاں تک زندگی کو حقیقی مسرتوں سے معمور کیا ہے۔ ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر اگر تاریخ، نفسیات، معاشیات اور سائنس کی مدد سے اصول نقد معین کرنے کی کوشش کی جائے تو کوشش رائیگاں نہیں جائےگی۔
حاشیہ
(۱) اس موضوع پرراقم الحروف کا مضمون ’’مواد اور ہیئت‘‘ (تنقیدی جائزے) تفصیلی بحث پیش کرتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.