وجود زن سے ہے اردو صحافت میں رنگ
جہاں تک اردو میڈیا میں خواتین کے کردار کی بات ہے تو اس شعبے میں خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو ‘ الکٹرانک و و یب میڈیا نیز موجودہ دور میں مقبول عام شوشل میڈیاہو ‘ ہر شعبے میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کرائی ہے اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔اردو کے بے شمار رسائل و جرائد ایسے ہیں جس کے ایڈیٹر شپ کی ذمہ داری وہ بخوبی نبھا رہی ہیں۔ کئی روزنامے ایسے ہیں جن میں باقاعدگی کے ساتھ ادبی‘ سماجی ‘ معاشی ‘ معاشرتی و دیگر موضوعات پر کالمزلکھ رہی ہیں۔یہ بات ضرور قابل توجہ ہے کہ کسی بڑے اردو روزنامے کی ادارت کی ذمہ داری نبھا نے کا موقع انھیں شاید ابھی تک نہیں ملا ہے۔نوئیڈا سے شائع ہونے والے ہفتہ وار چوتھی دنیا ویکلی (اردو)کے ادارت کی ذمہ داری معروف صحافی ڈاکٹر وسیم راشد نے کئی سال تک بخوبی نبھائی ہے جو کہ اردو میڈیا اور خصوصاً خواتین کے لئے فخر کی بات ہے۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ ایمانداری کے ساتھ محاسبہ کریں تو ہر دور میں ‘ تقریباًہر شعبے میں خواتین نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔خواہ وہ سائنس کا میدان ہو ‘ ادب و شاعری کے محفل ہو یا صحافت کے پر خطر راستے ہوں ‘ انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور حکمتوں کی چھاپ چھوڑی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ شروع کے ادوار میں ان کو اتنا سیریس نہیں لیا گیا اور ان کے ٹیلینٹ سے بے اعتناعی برتی گئی ۔لیکن خواجہ الطاف حسین حالی ‘ ڈپٹی نذیر احمد ‘ راشد الخیری اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو تعلیم نسواں سے جوڑنے والے شیخ عبد اللہ عرف پا پا میاں جیسے دور اندیش اور بالغ النظر حضرات نے عورتوں کے حال و زار پر توجہ دی ۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کے ایک صحت مند سوسائٹیی کی تعمیر میں عورتوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔
دراصل خواتین کے سلسلے میں اردو صحافت کے آغاز کا پہلا سرا عورتوں کی تعلیمی بیداری اور ان کے ایمپاورمنٹ سے جا کر ملتا ہے۔بیسویں صدی میں عورتوں کی تعلیمی جدو جہد اور بیداری کے بڑے محرک پا پا میاں اور ان کے دیگر رفقا کی عملی کاوشوں سے نہ صرف تعلیم نسواں کو فروغ حاصل ہوا بلکہ ان کے اندر سماجی بیداری بھی پیدا ہوئی ۔ ہندوستان میں تحریک تعلیم نسواں کی انھیں کوششوں کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلم خواتین کا ایک گروہ پیدا ہوا جس نے آگے چل کر اس کی کمان سنبھالی ۔ اسی عملی جدو جہد کے نتیجے میں خواتین میں بیداری اور اصلاح کی لہر پیدا ہوئی ۔آ ج ہمارے معاشرے میں جو پڑھی لکھی خواتین ہمیںنظر آ رہی ہیں وہ انہیں خواتین کی سعی جمیلہ کا مظہر ہیں۔
خواتین نے انیسویں صدی کے ربع آخر سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔افسانے اور مضامین کے ساتھ ساتھ بچوں کی کہانیاں بھی لکھی گئیں ۔بچوں کا اخبار’’ پھول‘‘ اور خواتین کا رسالہ ’’شریف بیبیاں‘‘ ’’تہذیب نسواں ‘‘ اور دیگر نسوانی جرائد کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ کیسی اعلی تخلیقی صلاحیتوں والی خواتین اس وقت بھی موجود تھیں۔واضح رہے کہ’’ تہذیب نسواں‘‘۱۸۹۸ء میں نکلا اور اس کی ایڈیٹر محمدی بیگم جو کہ شمس العلماء مولوی ممتاز علی کی بیگم اور سید امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔محمدی بیگم اپنے وقت کی مشہور ادیبہ بھی تھیں انھوں نے تین ناول‘ صفیہ بیگم‘ آجکل اور شریف بیٹی تصنیف کیں ۔ان کے علاوہ واجدہ تبسم‘ رشید جہاں‘ عصمت چغتائی اور ان کے دیگر رفقا کے نام تو لئے جاتے ہیں لیکن ان سے پہلے کی لکھنے والیوں مثلا رشید النسائ‘ نادر جہاں ‘ اکبری بیگم ‘ صغری ہمایوں مرزا ‘ نذر سجاد حیدر اور ایسی متعدد قابل ذکر قلمکاروں کے نام گمنامی کا شکار ہیں۔
انیسویں صدی کے نصف آخر سے نسوانی رسائل کا باضابطہ آغاز ہوا۔ شروع میں اس کا استعمال خواتین میں بیداری لانے ‘ تعلیم نسواں کو اجاگر کرنے ‘ اور تشہیرو اشاعت کے لئے کیا گیا ۔ ان رسالوں اور جریدوں میں فلسفہ‘ اخلاق ‘ طب ‘ سائنس ‘ حقوق نسواں‘کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری سے متعلق بھی مضامین ہوا کرتے تھے ۔مجمو عی طور پر یہ کوششیں عورت کو ایمپاورڈ کرنے کی راہ میں ایک قدم تھا۔ان کی یہ خدمات اندھیرے میں چراغ کی مانند تھیں جس کا تذکرہ فرانسیسی مشتشرق گارساں د تاسی نے اپنے آخری خطبے میں بھی کیا ہے۔
رفتہ رفتہ یہ کارواں چل پڑا اور رفیق نسواں (۱۸۸۴ئ)مسز بیڈلی کے زیر ادارت لکھنئو سے ‘ اخبار ا لنسائ(۱۸۸۴ئ) زیر صدارت سید احمد دہلوی(موئلف فرہنگ آصفیہ) دہلی سے شاع؎ئع ہوا۔ اخبارالنساء کو تو بر صغیر میںصحافت نسواں کا اولین علمبردار اخبار مانا جاتا ہے ۔ گرچہ اس سے پہلے آگرہ سے ’’ مفید عام‘‘ اور لکھنئو کے ’ رفیق نسواں‘‘ نکل چکے تھے۔ اسی طرح ’’شریف بیبیاں‘‘ ۱۸۹۳ء زیر ادارت منشی محبوب عالم کو نسوانی صحافت کا پہلا رسالہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ علی گڑھ سے خاتون دہلی اور کراچی سے عصمت‘ بھوپال سے اخلاق نسواں‘ گیا سے رہبر ‘ میرٹھ سے خاتون مشرق ‘ لکھنئو سے نسیم انہونوی کا معروف رسالہ حریم‘ دہلی سے خاتون مشرق‘ رام پور سے الحسنات ‘ بتول اور حجاب‘ دہلی سے بانو ‘ دہلی سے فلمی میگزین شمع اور ایسے متعدد رسائل و جرائد منظر عام پر آئے۔
یہ وہ تفصیلات ہے جو کہ کتابی دنیا دہلی ے شایع اس موضوع پر معروف محقق و دانشور ڈاکٹر جمیل اختر کے ذریعے کئے گئے گراںقدر تحقیقی کام کی دو جلدوں پر مبنی ۲۰۱۶ء میں شایع کتاب ’’ اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ ‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے جو کہ اردو خواتین میڈیا کے تعلق سے بڑا ہی اہم اور غیر معمولی کارنامہ ہے۔
آزادی کے بعداور تقسیم ہند کے نتیجے میں سیاسی اور سماجی منظر نامہ بدل گیا اور ملک کو ایک پر آشوب دور کا سامنا کرنا پرا۔ظاہر ہے اس کا اثر رسائل و جرائد پر بھی پرا۔رسائل بھی ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم ہو گئے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں رسائل و جرائد دن دنی رات چوگنی ترقی کرتے رہے۔آزادی کے بعد عورتوں کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کے امکانات مزید روشن ہو گئے اور ترقی پسندی کے رجحان نے بھی اس کو مزید تقویت بخشی۔مسلم خواتین کا ترقی پسند رجحان والا طبقہ پہلے سے بھی موجود تھا۔نئے حالات اور نئے تقاضوں کے تحت مزید رسالے مختلف مکتبہ فکر کے حامی افراد و جماعت کی طرف سے منظر عام پر آنے لگے لیکن خواتین کا ہر رسالہ ادبی مزاج کے ساتھ مذہبی و سماجی فکر کا بھی حامل ہوا کرتا تھا۔
خاتون مشرق جو آزادی کے قبل سے نکل رہا تھا وہ سابق بدستور جاری رہا اس کے مزاج و فکر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔صرف ایڈیٹر کی رحلت کے بعد نئے ایڈیٹر بدلے گئے۔چشمہ فاروقی جو کہ خاتون مشرق فیملی سے وابستہ ہیں انہوں نے کئی سال تک خاتون مشرق کے ادارت کی ذمہ داری بخوبی انجام دی لیکن اب وہ رسالہ مختلف وجوہات کی بنا پر کئی سال سے شائع نہیں ہو رہا ہے۔خاتون مشرق اچھی خاصی تعداد میں شائع ہو تا تھا اور قصباتی علاقوں کی پڑھی لکھی خواتین میں خاص طور سے مقبول تھا۔ان کے علاوہ بھی شمع افروز ’بیسویں صدی ‘ فریدہ رحمت اللہ ’زریں شعائیں‘ نسرین نقاش ’صدا‘ نرگس امجدی ’دوران‘ اور عطیہ صدیقہ ماہنامہ ویب میگزن کامیابی کے ساتھ نکال رہی ہیں۔
آزادی کے بعد نسوانی رسائل میں دہلی اور اس کے گرد و نواح کو برتری حاصل رہی ہے۔ترقی پسند نظریات کا ترجمان دو ماہی سلسلہ ’’ماحول‘‘ ۱۹۵۱ء میں دہلی سے شائع ہوا۔ادبی رسالوں میں اس کا شمار ایک معیاری رسالوں میں ہوتا تھا۔اس کے علاوہ دہلی سے صبح ‘ گلابی کرن ‘ مشرقی آنچل ‘پاکیزہ آنچل ‘ مشرقی دلہن رام پور سے حجاب اور بتول اور اس طرح کے متعدد ڈائجسٹ اور رسائل مقبول عام ہوئے۔ان ڈائجسٹ کا مقصد بھی خواتین میں علمی ذوق پیدا کرنا ‘ان میں ذہنی بیداری پیدا کرنا ‘ ان کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا‘ امور خانہ داری سے واقف کرانا اور تربیت اولاد کا گر سکھانا رہا ہے۔
علی گڑھ سے راشدہ خلیل کے زیر ادارت ’’بزم ادب‘‘ ان چنندہ رسالوں میں سے ایک ہے جسے ہم مخصوص طور پر خواتین کا ‘ خواتین کے ذریعے اور خواتین کے لئے شائع ہونے والا جریدہ کہہ سکتے ہیں۔
اردو صحافت میں نسائی خدمات کا یہ کارواںیوں تو رواں دواں ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح اردو میڈیا خواتین کی حصہ داری سے ابھی بھی بہت تشنہ ہے۔خاص طور سے اردو چینلز میں ان کی حصہ داری خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔پرنٹ میڈیا میں تو سعدیہ دہلوی‘ طلعت سلیم‘شمع افروز زیدی‘ غزالہ صدیقی‘ زرینہ صدیقی وغیرہ چند نام تو دکھائی دیتے ہیں لیکن الکٹرانک اور ویب اردو میڈیا میں نظر دورانے پر بھی خواتین کی وہ حصہ داری نہیں دکھائی دیتی جس کی وہ حقدار ہیں۔یہ واقعتا ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔البتہ سیما چشتی ‘ عارفہ خانم ‘ نغمہ تبسم و دیگر خواتین نے اپنی کار کردگی اور قبولیت کو مختلف چینلز پر لوہا منوایا ہے۔
ان تمام تفصیلات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی ملک کی میڈیا میں اردو خواتین میڈیا کو اخبارات و رسائل کی تعداد ‘تنوع اور کردار کے لحا ظ سے سب سے زیادہ سبقت حاصل ہے۔بدنصیبی یہ ہے کہ اردو خواتین میڈیا کا یہ کردار سامنے نہیں لایا جا سکاجس کے سبب یہ پہلو دب کے رہ گیا۔’’گھر کی چہار دیواری تک محدود ‘‘ خواتین جیسے الزام کی شکار خواتین نے میڈیا میں جو زبردست کارنامہ انجام دیا ہے یہ اسی کا تو مظہر ہے کہ آج اردو معاشرے میں غیر معمولی بیداری دیکھنے کو ملتی ہے۔جہاں ایک طرف نا خواندگی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف‘ تعلیم کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔حتی کہ اعلٰی تعلیم حاصل کر کے یہ خواتین ملک و ملت کو ایمپاور کر نے اور ترقی کے دوڑ میں شامل کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ برصغیر کی میڈیا میںان کا سوا سو سال یااس سے زیادہ کا یہ سفر سنہرے حروف مین لکھنے کے لائق ہے۔ تاریخ اسے ہرگز نظر انداز نہیں کر سکتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.