Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ جو میراجی نہ تھا

سعید ڈار

وہ جو میراجی نہ تھا

سعید ڈار

MORE BYسعید ڈار

    آج یوم میراجی کی تقریب میں مجھے آپ سے اس شخص کے بارے میں گفتگو کرنی ہے جو میراجی نہ تھا مگر جس کا میراجی سے گہرا ناتا تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تو میراجی نہ ہوتا۔ میری مراد ثناءؔ سے، میراجی کو جاننے اور سمجھنے کا دعویٰ بہت لوگوں کو ہے۔ بعض دعوے بڑی حدتک صحیح بھی ہوں گے۔ مگر ثناء کو بخوبی جاننے والے بہت کم ہیں۔ اکثر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ میراجی کی نجی زندگی کے متعلق بہت کم واقعات معلوم ہیں۔ حالانکہ اس موضوع پر صرف ہمارے خاندان کے مختلف افراد اس وقت تک چھ مقالے لکھ چکے ہیں۔ ان میں سے چار شائع ہوچکے ہیں اور دوغیر مطبوعہ کامی صاحب کے پاس موجود ہیں۔ ان مقالوں میں ثناء کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ جب یہ مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا تو ایسے واقعات جمع کرنے میں جو اس سے پہلے نہ لکھے گئے ہوں مجھے بہت دشواری ہوئی۔ آخر تدبیر یہ سوجھی کہ دادی اماں کے پاس چند گھنٹے بیٹھا ثناء کے بارے میں باتیں کرتا رہا اور آج جو کچھ میں آپ کو بتاؤں گااسی نشست کاحاصل ہے۔

    گزشتہ دنوں ایک مقالہ نویس نے اپنی اس الجھن کا اظہار کیا کہ ثناء بچپن میں اپنی والدہ سے کس زبان میں گفتگو کرتا تھا۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ سب سے پہلے اسی موضوع پر بات کروں۔ ثناء کے والدین کی مادری زبان پنجابی تھی۔ تاہم ان دنوں گھر میں اردو بولی جاتی تھی۔ اس کی دووجوہات تھیں۔ اولاً گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے کے باوجود منشی مہتاب دین اردو کے زبردست حامی تھے۔ اس دور میں اردو مسلمانوں کی تہذیب کا ایک امتیازی نشان سمجھی جاتی تھی۔ اور اردو کی سرپرستی اسلامی ثقافت اور تہذیب کے ساتھ اپنی وابستگی کا واضح اعلان تھا۔ ثانیاً منشی جی کی ملازمت گجرات کا ٹھیا واڑ میں تھی، جہاں پنجابی جاننے والے افراد نہ تھے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ صرف ایک ہی زبان میں گفتگو ہوسکتی تھی اور وہ تھی اردو، سو اس طرح ثناء نے سب سے پہلے جو زبان سنی اور سیکھی وہ اردو تھی۔

    ہوش سنبھالنے کے بعد وہ جب کبھی لاہور آتا تو اسے پنجابی سمجھنے میں مشکل پیش آتی۔ یہ بعد کی بات ہے جب منشی جی نے مستقل طور پر لاہور میں رہائش اختیار کی تو ثناء پنجابی سے مانوس ہوا۔ مگر اس نے پنجابی میں کبھی گفتگو نہ کی۔ بچپن میں ثناء نے اردو کے علاوہ گجراتی سیکھی، جو وہاں سکول میں لازمی طور پر پڑھائی جاتی تھی۔ مقامی بچوں کے ساتھ ثناء گجراتی میں بات چیت کرتا بلکہ بعض اوقات جب گھر کے افراد اور خاص طور پر اس کی والدہ کو گجراتی سمجھنے میں دقت ہوتی تو وہ ان کی مدد کرتا۔

    ثناء کی ابتدائی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے پاواگڑھ پہاڑ پر بنے ہوئے کالی کے مندرکا ذکر بہت کیا گیا ہے۔ ثناء نے اس مندر کو قریب سے صرف تین مرتبہ دیکھا۔ اس زمانے میں ثناء کی توجہ کا مرکز ہالول کے قبرستان میں واقع ایک قدیم عمارت رہی۔ جسے مقامی لوگ ’’حجیرا‘‘ کہتے ہیں۔ ہالول سے باہر گھر سے تقریباً ایک میل دور ہسپتال کی عمارت کے ساتھ قبرستان تھا۔ اسی قبرستان میں یہ خستہ عمارت تھی، جہاں لوگ دیواروں پر شعر لکھ جاتے۔ ثناء وہاں جاتا اور کاپی پر گجراتی کے اشعار نقل کرلیتا۔ اسی قبرستان میں ایک کٹیا میں ایک بوڑھی عورت بھی رہتی تھی جو اسے پسند تھی۔ ثناء کو جب والد ہ نے منع کیا کہ اس ویران جگہ پر نہ جایا کرے تو اس نے کہا کہ وہ جگہ اسے پسند ہے اور وہاں جاکر اسے خوشی ہوتی ہے۔

    ثناء کو شروع ہی سے چیزیں دیکھ کر سوچنے کی عادت تھی۔ ایک مرتبہ وہ ہالول سے لاہور آرہا تھا۔ اس کی عمر تقریباًآٹھ سال کی تھی۔ اس کے والدین بھی اس کے ساتھ تھے۔ ثناء نے گاڑی سے باہر دیکھنا شروع کیا۔ سبھی بچے دیکھتے ہیں۔ مگر ثناء کو جب باہر دیکھتے دیر ہوگئی تو اس کے والد نے پوچھا۔ ثناء کیا دیکھ رہے ہو؟ ثناء نے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ زمین پیچھے کی طرف بھاگ رہی ہے۔ اس کے والد نے پوچھا۔ کیا تم جانتے ہو کہ زمین پیچھے کو کیوں بھاگ رہی ہے؟ ثناء نے جواب دیا، یہی سوچ رہا تھا اوراب سمجھ بھی گیا ہوں۔ دراصل زمین پیچھے کو نہیں بھاگ رہی بلکہ ہماری گاڑی تیزی سے آگے کو بڑھ رہی ہے اور نظر کو دھوکہ ہوتاہے کہ زمین پیچھے کو بھاگ رہی ہے۔

    زمین کی گردش کا مطالعہ شائد ثناء کو بہت پسند آیا تھا۔ اسی زمانہ کی بات ہے ثناء لاہور آیا۔ اس کے بڑے بھائی عطاکو اس سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ ان دنوں انجینئرنگ کالج میں پڑھتے تھے اور اپنے باپ کی طرح انجینئر بننے کا شوق رکھنے کے باوجود ادبی ذوق کے حامل تھے۔ ان کے کمرہ میں اکثر ادبی نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ ایک روز عطاء، ثناء کو اپنے ساتھ ہاسٹل لے گئے۔ جب معمول دوستوں کی محفل گرم ہوئی۔ ثناء کو کہا گیا۔ تم بھی کچھ سناؤ۔ جیسا کہ عام طور پر بچوں کو کہاجاتا ہے۔ ثناء نے کچھ دیر سوچا، پھر ایک طرف جاکر کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کیا۔ بڑوں کی یہ محفل بچہ کی اس حرکت سے غافل علم و ادب کی بحث میں مشغول رہی۔ کچھ دیر بعد ثناء نے ایک مضمون لکھ کر بھائی کو دیا۔ عنوان تھا۔ ’’دوگھوڑے۔‘‘ ثناء نے دن رات کو دوگھوڑوں سے تشبیہ دی۔ ایک سفید اور ایک سیاہ جو ایک دوسرے کے پیچھے ایک گلے بندھے دائرے کے محیط پر دوڑنے میں مصروف تھے۔

    ثناءؔ نے شعر کب کہنے شروع کیے۔ اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اچھے شعر پڑھ کر انہیں لکھ لینا اس کی بچپن کی عادت تھی۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ثناء سکھر میں تھا اور بندر روڈ پر رہائش تھی کہ گھروالوں کو معلوم ہوا کہ ثناء شعر کہتا ہے گھر میں یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ منشی جی خود شاعر تھے۔ عطاء لطیفیؔ تخلص کرتے تھے، اس لیے کسی نے نہ اسے برا سمجھا نہ کوئی خاص دلچسپی لی۔ ویسے بھی منشی جی گھر کے معاملات میں زیادہ دخل نہ دیتے تھے۔ ان دنوں ثناء کا ساتھی علی نواز نامی ایک لڑکا تھا جو اس کے ساتھ پنجابی مڈل سکول میں پڑھتااور شاید یہی ثناء کا پہلا ادبی دوست تھا جسے ثناء اپنے شعر سناتا اور ان شعروں پر بحث ہوتی۔ ثناء جب میراجی بن گیاتو اس کو نہ بھولا بلکہ لاہور میں سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی علی نواز خاص طور پر اسے ملنے کے لیے لاہور آیا۔

    میراجیؔ کی ظاہری ہیئت لوگوں کے لیے معمہ ہے۔ مگر ثناء ایک صاف ستھرا نفاست پسند بچہ تھا جب اس نے ہوش سنبھالا۔ قمیض اور پاجامہ کو اپنے لیے پسند کیا۔ وہ کوٹ اور اچکن دونوں کا استعمال کرتا۔ گرمی میں سوتی کوٹ پہنتا ابتدا میں ترکی ٹوپی استعمال کی۔ بعد میں کچھ عرصہ گاندھی ٹوپی کو اپنایا۔ اس ٹوپی کا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ ثناء کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ تیرہ یا چودہ سال کی عمرمیں اس نے پاجامہ کی جگہ پتلون کا استعمال شروع کیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پاجامہ پہننے سے کمر پر ازاربند کانشان پڑگیا تھا جو ثناء کو ناپسند تھا۔ پتلون میں یہ قباحت نہ تھی۔ رات کو پہننے والے پاجامہ میں بھی ازاربند کی جگہ الاسٹک کا استعمال کیا کرتا تھا۔

    ثناء کو گھر کے کام کاج سے بہت دلچسپی تھی، وہ بازار سے سودا سلف لاتا۔ ہنڈپمپ سے پانی بھرتا، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے معاملات میں دلچسپی لیتا۔ ایک مرتبہ جب اس کی والدہ بہت بیمار ہوگئیں تو اپنے چھوٹے بھائی ضیاء کو پہروں کھلایا کرتا۔ اس کے ساتھ اسے بے پناہ محبت تھی۔ وہ اِسے کاکا کہتا۔ کاکاثناء سے اس قدر مانوس تھا کہ سوائے اس کے کسی کے ہاتھ سے دودھ نہ پیتا۔ یہاں تک کہ اپنی والدہ کے ہاتھ سے بھی دودھ پینے سے انکار کردیتا۔ ان دنوں ثناء ء میراجی بن رہا تھا۔ اس کی مصروفیات بڑھ رہی تھیں۔ مگر اس کے باوجود کاکا کو وقت مقرر پر دودھ پلانا کبھی نہ بھولتا۔ خواہ اس کے لیے کتنا ہی ضروری کام کیوں نہ ملتوی کرنا پڑتا۔

    ثناءؔ میں صبر کا مادہ بہت تھا۔ وہ کبھی کسی سے نہ لڑتا۔ ایک مرتبہ کے سوا جب اس کا اپنے چھوٹے بھائی کامی کے ساتھ جھگڑا ہوگیا (اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ کامی صاحب نے اپنے مضمون ’’میرا بھائی‘‘ میں لکھا ہے) ثناء جس کمرہ میں سوتا تھا۔ اس کے سرہانے کھڑکی تھی۔ ایک فقیر بہت سویرے ٹھیک اس کھڑکی کے سامنے آکر اس زور سے صدا کرتا کہ کی آنکھ کھل جاتی۔ فقیر زور سے پکارتا۔ ’’میرے مولیٰ! بلالو مدینہ مجھے‘‘ ثناءؔ نے اس فقیر سے کچھ نہ کہا۔ ایک دن اپنی والدہ سے کہا۔ اماں! آپ نماز پڑھ کر اس فقیر کے لیے دعاکریں کہ خدا اسے جلد مدینہ بلالے۔

    منشی جی کے گھر میں مذہبی تعلیم کاکوئی خاص اہتمام نہ تھا۔ اس لیے ثناؔء بھی نماز روزے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بچپن میں اس نے روزے رکھے۔ مگر مذہب سے لگاؤ یا اس کے مطالعہ کا کوئی شوق نہ ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ اگرثناء کو مذہبی تعلیم ابتدا میں ٹھیک طریقہ پر دی جاتی تو یہ درویش منش شخص کوئی بہت بڑا صوفی ہوتا۔

    بچپن میں تین مرتبہ گم ہوا، دلی اسٹیشن کی بھیڑ میں۔ گجرات کاٹھیاداڑ کے گھنے جنگل میں اور دلی کے بارونق چاندنی چوک میں۔ مگر کھوجانے والی چیز کب تک محفوظ رہ سکتی ہے۔ اسے تو کھوہی جاناتھا۔ وہ گھر واولوں کی نظروں کے سامنے سے میراجی بن گیا۔ وہ ان کے ساتھ رہتا۔ مگر ان سے دور ہوتا چلاگیا۔ گھروالوں نے ثناء کو کھودیا۔ اردو ادب کو میراجیؔ مل گیا۔ ایک کانقصان دوسرے کا فائدہ۔ یہی اس دنیا کی ریت ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے