زاہدہ حنا کا افسانہ’’کم کم بہت آرام سے ہے‘‘
زاہدہ حناپر لکھتے ہوئے احمد سلیم اردو افسانے کے متعلق فرماتے ہیں کہ، ’’گذشتہ چند برسوں سے اردو کہانی انسان اور زمین سے بچھڑ گئی ہے۔۔۔ اردو میں کہانی لکھنے والا، قومی اور بین الاقوامی شعور کی طرف سے آنکھیں بند کیے بیٹھا آدمی، انسان اوراس کے دکھ اوراس کی جدوجہد اور اس کی شہادت اور اس کی فتح کا باب لکھنے کی بجائے، محض چھپکلی کی رینگتی کراہت رقم کر سکا۔ اس نے اپنی موجودگی اورانسان کو ترک کر دیا۔ اس نے وجود کا ترجمہ عدم کیا اور خوف کا پرچار کیا۔ اس نے تنہائی کو Fetish بنا دیا۔‘‘
یہ وہ دور تھا جب اردو افسانہ فرد اوراس کی ذات، تنہائی اور خوف و ہراس کے بھنور میں پھنسا ہوا تھا لیکن زاہدہ حنا اس وقت بھی تاریخ، سماج، سیاست اورانسانی زندگی کے بے شمار مسئلوں پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کر رہی تھیں اور جدیدیت کے مثبت رویوں کو اپناتے ہوئے عصری موضوعات پر کہانیاں لکھ رہی تھیں۔ انھوں نے کبھی کسی مخصوص نظریے کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا مگر وہ ہرنئی تھیوری، نئے نظریے اور نئے رجحان سے استفادہ کرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا افسانہ ’’کم کم بہت آرام سے ہے‘‘ بھی فکری اور فنی لحاظ سے اپنے عصر کی نمائندگی کر رہا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی کہانی ’’کابلی والا‘‘ کے متن پر اس افسانے کی بنیاد رکھی گئی ہے، جو مابعد جدیدیت کے نمایاں رویے بین المتونیت کی ایک مثال ہے۔
زاہدہ حنا نے اس افسانے کو خط کے Form میں لکھا ہے۔ یوں تو اس تکنیک کے استعمال کا تجربہ مختلف افسانہ نگار کرتے رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ اس افسانے کے لیے یہ تکنیک ناگزیر تھی۔ اس لیے کہ کم کم کو اس کی دادی یعنی تین پیڑھیاں پہلے کے کردار سے اپنے جذبات بلا تکلف Share کرنے کے لیے خط سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں مل سکتا تھا۔ افسانے کا آغاز یوں ہوتا ہے،
’’میری دلاری دادی ماں! کئی ہفتوں بعد آج جب میں کابل واپس پہنچی تو ڈاک ملی۔ گھر سے آپ کے علاوہ بھی کئی چھٹیاں آئی ہیں۔ آپ کی چھٹی پڑھ کر مجھے لگا جیسے بچپن لوٹ آیا ہے اور میں آپ کی گود میں چڑھی بیٹھی ہوں۔ آپ مجھے کہانیاں سنا رہی ہیں۔۔۔‘‘
اس کے بعد بچپن کی یادوں کے بہانے کم کم کی زندگی، اس کی فطرت اور اس کے نظریات سے قاری واقف ہونے لگتا ہے۔ بیان میں وہ جادو ہے کہ قاری کا ذہن لمحے بھر کو بھی افسانے کی فضاسے الگ نہیں ہوتا اور تجسس کی ایسی کار فرمائی ہے کہ پڑھنے والا افسانے کے اختتام تک دم سادھے پڑھتا رہتا ہے۔ اس مختصر افسانے میں کم کم ہی نہیں، اس کی دادی اور رحمت بابا کی زندگی کے مختلف گوشے روشن ہوئے ہیں۔ ان کرداروں کے حوالے سے انسانی زندگی کے فلسفے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دراصل انسانی زندگی کے بےشمار رنگ ہوتے ہیں۔ جب انسان خوابوں میں جیتا ہے تو اس کا ایک الگ رنگ ہوتا ہے اور جب وہ حقیقت کی دنیا میں سانس لیتا ہے تو وہی رنگ تبدیل ہوکر بھی کبھی گہرا ہونے لگتا ہے تو کبھی پھیکا پڑ جاتا ہے۔ لہٰذا کم کم کی دادی جب اپنے بچپن کی کہانیاں سناتی ہیں تو خود کو خواب اور حقیقت کے متضاد تناظر میں دیکھتی ہیں۔ اب وہ صرف کم کم کی دادی ماں نہیں رہ جاتیں، بلکہ عورت کی عہد بہ عہد بدلتی شکلوں کا استعارہ بن جاتی ہیں۔ اقتباس،
’’پھر آپ مجھے اپنے بیتے جنموں کی کہانیاں سنانے لگتی ہیں، جب آپ ہنس تھیں اور اڑتی ہوئی کیلاش کی چوٹی پر جا اتری تھیں، جب آپ مچھلی تھیں اور گنگا جمنا سرسوتی اور شاردا میں تیرتی پھرتی تھیں، جب آپ ہزار پتوں والا کنول تھیں اور آپ کی سندرتا دیکھنے اور آپ کی سگندھ سے مست ہونے کے لیے راجے مہاراجے آتے تھے اور ایک تو بالکل سچ مچ کا قصہ تھا۔ آپ کے بچپن کی کہانی جو کابل کے بنجارے رحمت کی تھی، پہلی مرتبہ اسے دیکھ کر آپ ڈر گئی تھیں۔ پھر آپ کی اس سے دوستی ہو گئی تھی۔ وہ آپ کی باتیں سنتا اور آپ کا چھوٹا سا آنچل بادام، کشمش اور اخروٹ سے بھر دیتا۔ آپ نے بتایا تھا کہ جس دن رحمت بابا آٹھ برس کی جیل کاٹ کر آیا، اسی دن آپ کے پھیرے ہونے والے تھے، وہ کسی دوسرے بنجارے سے آپ کے لیے میوہ مانگ کر لایا تھا اور آپ کو وہی میوہ دان کر کے چلاگیا تھا۔۔۔‘‘
ٹیگور کی کہانی میں دادی ماں کی داستان یہیں ختم ہو جاتی ہے مگر زاہدہ حنا کے افسانے کی دادی ماں موجودہ عہد کی تلخ حقیقتوں سے دوچار ہیں اوران کی پوتی کم کم افغانستان میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے انسانوں کی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ کم کم ایک رحم دل ڈاکٹر ہے۔
یہ رحم دلی اور انسانیت اسے اپنی دادی اور دادی کے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ زاہدہ حنا کے افسانے کی دادی ماں اصل میں ٹیگور کی کہانی کا بلی والا کی ایک کردار تھیں اور دادی کے والد کہانی کے مصنف یعنی خود رابندر ناتھ ٹیگور تھے۔ کُم کُم چونکہ انسانی اقدار کی امین ہے، اسی لیے وہ کابل میں رہ کر ڈاکٹر کی حیثیت سے زخمیوں کا علاج نہایت درد مندی اور مستعدی سے کرنا پسند کرتی ہے۔ یہ درد اس کے دل میں طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ امریکی بمباری کے خلاف کلکتے کی سڑکوں پر لاکھوں لوگوں کے جلوس میں شامل ہوتی ہے اور ریلیف ورک کے لیے کابل کے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کی طرف سے جب ڈاکٹروں کی مانگ ہوتی ہے تو وہ والینٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔
یہی جذبہ اسے افغانستان پر امریکی بمباری کے دوران ہندوستانی، جرمن اور جاپانی ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ شہر شہر گھوم کر صبح سے شام تک اور رات کو جنریٹروں کی روشنی میں بچوں، عورتوں اور مردوں کے بدن سے کلسٹر بم کے ٹکڑے اور ریزے چننے پر مجبور کرتا ہے۔ اِس دورمیں جب ڈاکٹری جیسے مقدّس پیشے کو بھی بے سمتی کی شکار اور اخلاقی قدروں سے عاری ہماری نئی نسل نے محض روپیہ کمانے کا ذریعہ تصور کر لیا ہے، ایک نوجوان ڈاکٹر کے دل میں خدمت کا یہ جذبہ ثابت کرتا ہے کہ اگر ہم کم کم کی طرح اپنی تاریخ، اپنے ماضی، اپنی روایات، اپنی وراثت اور اپنی تہذیب سے مضبوط اور جذباتی رشتہ قائم رکھیں تو نہ صرف یہ کہ انسانی اور اخلاقی اقدار کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے بلکہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل بھی کی جا سکتی ہے۔
اس افسانے کی ایک خوبی یہ ہے کہ واقعات کی پیش کش میں مصنفہ نے سیکولر اور غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ زاہدہ حنا کسی رویے اور کسی نظریے کی نہ تو طرفداری کرتی نظر آتی ہیں اور نہ یکسر مخالفت۔ وہ مسئلے کی تہہ تک پہنچنا چاہتی ہیں اورایک ایماندار اور سچے Observer کی طرح ہر واقعہ کے خارجی اور داخلی عوامل، اسباب اور اثرات کا سراغ لگانے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ افسانے کے مرکزی کردار کم کم کے حوالے سے یہ بتاتی ہیں کہ ایک سمے تھا جب بامیان اور بلخ تک ہمارے اشوک اور کنشک کاراج تھا۔ پھر عرب آئے، ترک آئے، چنگیز خاں کی فوجیں آئیں۔ چنگیز خاں نے اپنے پوتے کی موت کا ایسا بدلہ لیا کہ کسی جاندار کو زندہ نہ چھوڑا اور اب طالبان نے پتھر کی مورتیوں پر اپنا غصہ اتارا۔ یہ دیکھ کر ایک جاپانی ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو کم کم کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ ظاہر ہے طالبان کا یہ عمل کم کم کے لیے کسی حالت میں قابل قبول نہیں ہے لیکن اس کی غیر جانبداری اور گہرائی میں جاکر واقعے کی صداقت تلاش کرنے کی کوشش اسے یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ ’’آپ خود سوچیں دادی ماں کہ جنھوں نے اپنے جیتے جاگتے لوگ، اپنی پوری نسل خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کردی، ان سے اس بات کی کیا شکایت کہ انھوں نے مہاتمابدھ کی مورتیاں ڈائنامائٹ سے، توپ کے گولوں سے اڑا دیں۔‘‘
یہ ایک دانش مند، بردبار اور صاحبِ بصیرت شخصیت کا طنز ہے جو قاری کو فکر کی بلند سطح پر لے جاتا ہے اور قاری طالبان، امریکی فوج اور براتوں پر دہشت گردوں کا ٹولا کہہ کر گولیاں برسانے والوں کو ایک نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے زاہدہ حنانے اس افسانے میں بربریت اور وحشی پن کی داستان بیان کی ہے۔ یہ دور تضادات کا دور ہے۔ منافقت بڑھ رہی ہے، انسانی قدریں دم توڑ چکی ہیں اور انسانیت محض دِکھاوا بن کر رہ گئی ہے۔ اسی لیے امریکہ کے اس وار تھیٹر میں ہوائی جہاز مکھن کی ٹکیاں، بسکٹ اور بارودی سرنگیں ایک ساتھ پھینکتے ہیں۔
رابندرناتھ ٹیگور کا رحمت بابا کاغذ پر اتارے گئے اپنی بیٹی کی ہتھیلی کے نشان کلیجے سے لگائے گھومتا تھا مگر تبدیل ہوتی دنیا کا کرب یہ ہے کہ آج ہتھیلیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ زخم اتنے لگے کہ کلائیاں کاٹ دی گئیں اور معصوم لڑکیاں مہندی لگانے اور چوڑیاں پہننے تک سے محروم ہو گئیں۔ یہی نہیں، بدلتے زمانے میں رحمت بابامحبت کے عوض میں دیے گئے پیسے لینے کے لیے مجبوراً راضی ہو جاتا ہے جب کہ ٹیگور کا کابلی والا محبت کے بدلے پیسے لینے سے انکار کر دیتا ہے اور تمام پیسے خاموشی سے بچی کے ہاتھ میں واپس رکھ کر چلا جاتا ہے، لیکن مستحکم روایات اور وراثتیں یوں ختم نہیں ہوتیں۔ روشنی کی ایک کرن ہوتی ہے جو بدلتے منظر نامے کو پرنور بنا دیتی ہے۔ اس افسانے میں ایسے کئی اشارے موجود ہیں جو ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ آج جو ہارے ہیں کل تاریخ انھیں فتح یاب تسلیم کر سکتی ہے اور یہ کہ دہشت گردی اور تباہی کسی بھی حدتک بڑھ جائے، محبت ایثار اور انسانی رشتوں کا کبھی خاتمہ نہیں ہوتا۔
رحمت بابا ہر زمانے میں زندہ رہتا ہے، کبھی بوڑھا بابا بن کر، کبھی معصوم بچے کی شکل میں۔۔۔ جہاں برائی ہے وہیں نیکی بھی ہے۔ یہی احساس آج بھی جینے کے لیے کافی ہے۔ کم کم کی آنکھوں میں تاریخ سے ہارے ہوئے لوگوں کا درد دیکھ کر قاری کو تسکین ملتی ہے اور افسانے کا آخری جملہ کہ ’’گھر میں کسی اور کو کچھ مت بتائیےگا۔ یہی کہیےگا کہ کابل میں کم کم بہت آرام سے ہے۔‘‘ کم کم کے ایثار، محبت اور خدمت کے جذبے کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔
زاہدہ حنا کا یہ افسانہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دور حاضر کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ہمارے عہد کے تقاضے کیا ہیں اور مصنف کن موضوعات پر افسانے لکھ کر اپنا فرض ادا کر سکتا ہے۔ انھیں یقین ہے کہ ’’اگر اس زمانے میں رابندر ناتھ ٹیگور ہوتے تو پرتاپ سنگھ اور کنچن مالا کی کہانی لکھنے کی بجائے دھرتی کے گھاؤ لکھتے، ان کھوئی ہوئی ہتھیلیوں کا قصہ لکھتے جن پر اب کبھی مہندی نہیں لگےگی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.