زمینیں اور زمانے، مبین مرزا کے افسانے
مبین مرزا کی دس کہانیوں کے تازہ پراگے ’’زمینیں اور زمانے‘‘ پر بات کا آغاز، مبین ہی کے ایک افسانے ’’یخ رات کا ٹکڑا‘‘ سے ایک ٹکڑا مقتبس کرکے کرتا ہوں،
’’میں نے اکثر کہانیوں میں دیکھا ہے کہ زندگی ہی کی طرح اُن میں بھی بڑی بے حسی کے ساتھ وہ لوگ عزت دار بن کر بڑے مقام پر آبیٹھے یا پھر اُن کو لاکر بٹھا دیا گیا، جو خود اپنے دلال تھے اور ضمیروں کا بیوپار کرتے تھے۔ اسی طرح بعض کہانیوں میں پوری سفاکی کے ساتھ وہ مرد مار دیے گئے جنہیں زندہ رہنا چاہیئے تھا، اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ وہ عورتیں ستی ساوتری بن گئیں یا بنا دی گئیں جو اندر سے گندگی میں سَنی ہو ئی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ہوا کہ ایسی ایسی عورتوں کو بازار کی رونق کر دیا گیا جن کے دل حقیقت میں پارسائی کی دولت سے مالا مال تھے اور وہ جنہیں اپنے جسم کی لذت سے اتنا بھی سروکار نہیں تھا جتنا پرندے کو اپنے پروں سے جھڑنے والی گرد سے ہوتا ہے۔‘‘
اقتباس قدرے طویل ہو گیا ہے مگریہ عبارت مقتبس کرتے ہوئے مجھے لگتا ہے ہم سہولت سے اس سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں جو مبین مرزا کے افسانے پڑھتے ہوئے بار بارہمارے ذہن میں آتا ہے ؛ یہی کہ آخروہ کیا چیز تھی جو ہمارے افسانہ نگار کو عورت اور مرد کے درمیان تعلق اور بطور خاص ان دونوں کے جنسی رویوں پر بات کرنے پر اُکساتی رہی۔ وہ جواب جومجھے یہاں ملا، یہی ہے کہ فکشن میں اس باب میں اس موضوع کو جس طرح برتا گیا یا برتا جا رہا ہے مبین مرزا اس سے متفق نہیں ہیں۔ مجھے یاد ہے لاہور میں ایک کانفرنس میں اُنہوں نے شمس الرحمن فاروقی کے فکشن پر بات کرتے ہوئے ایک بے حد سنجیدہ اور گھمبیر سوال اُٹھایا تھا کہ کیابرصغیر کی تہذیب کا سب سے بلیغ نقش اور وقیع استعارہ طوائف یا اس قبیل کی عورتیں ہی ہیں؟
مبین مرزا کے اس سوال کو، جو اعتراض کی صورت ہمارے سامنے آیا، اُن کے افسانے کے اوپر والے ٹکڑے سے جوڑ کر دیکھیں تو آنکا جا سکتا ہے کہ ان کی کہانیوں میں سماجی رشتوں کی بنتی بگڑتی صورتوں کو بار بار کیوں موضوع بنایا جاتارہا ہے اور وہ بھی اس اسلوب میں کہ آپ کو لگتا ہی نہیں ہے کہ آپ افسانہ پڑھ رہے ہیں بلکہ یوں لگتا ہے جیسے سماجی رشتوں کی بنتی بگڑتی صورتوں کا قصہ اپنے کانوں سے سن رہے ہیں یا آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ماجرا نویسی کا ایسا ڈھنگ جس میں ساری تفاصیل متن کا حصہ بنتی چلی جاتی ہے، ٹھہر ٹھہر کر اورروک روک کر اِدھراُدھر کا سارا منظرنامہ کاغذپر اُتارلینا اور پھر اس کے اندر اپنے کرداروں کو متحرک کرنا یوں جیسے کہ وہ عام زندگی میں ہوں، لکھنے والے اور پڑھنے والے، دونوں کے لیے بہت صبر آزماہو جاتا ہے۔ جی، لکھنے والے کے لیے یوں کہ ایک افسانہ لکھتے لکھتے کمر کوزہ ہو جاتی ہوگی اور پڑھنے والوں کے لیے صبر آزما یوں ہے کہ آپ کہانی کے صفحات گن کر یا کہانی کو سہج سہج آگے بڑھتے پاکراگر کتاب ایک طرف رکھ دیں گے تو سماجی رشتوں کی اُن تہوں کو کھلتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں گے جن تہوں تک پہنچنے کی کلیدیں یہاں وہاں متن میں رکھ چھوڑی گئی ہوتی ہیں۔ منظر اور صورت حال کو کھلی آنکھ سے دیکھنا بلکہ قدرے کھلی آنکھ کو حیرت سے اور پھیلا کر دیکھنا مبین مرزا کو محبوب ہوا ہے، اور یہ ایسا وتیرہ ہے، جو بالعموم ناول نگاروں کو مرغوب ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ لگ بھگ ہر کہانی اپنے قضیے کے مقابلے میں طویل تر ہوتی رہی ہے۔ اتنی طویل کہ دوسو صفحات کی اس کتاب میں صرف دس کہانیاں ہیں، گویا ہر کہانی اوسطاً ۲۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
خیر، میں بات کر رہا تھا سماجی رشتوں کی، بلکہ عورت اور مرد کے بیچ اس تعلق کی جس کا شاخسانہ بالواسطہ یا بلاواسطہ جنس بنتی رہی ہے، تو یوں ہے کہ اپنے اس محبوب موضوع کو مبین مرزا نے بار بار برتا ہے تاہم جس افسانے میں انہوں نے اسے کمال عمدگی سے برتا وہ ان کی پہلی کتاب ’’خوف کے آسمان تلے‘‘ کا پہلا افسانہ ’’گمشدہ لوگ‘‘ ہے۔ انجلی اوررئیس کی کہانی کو پڑھ کر مجھے یوں لگا تھا کہ اس کہانی کے فطری بہاؤ نے خود افسانہ نگار اور اس کی فکریات کو بھی اوندھا کررکھ دیا تھا۔ میں نے اپنے تئیں اندازہ لگایا ہے کہ کہانی کی یہ خود سری ہی اس کی کامیابی کا سبب ہو گئی ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مبین مرزا کی کہانی میں ازدواجی رشتوں کو محترم نہ سمجھنے والا کردار کہانی میں لگ بھگ ہیرو ہوجاتا۔
اس مجموعے میں بھی لگ بھگ اسی موضوع کی ایک سے زائد کہانیاں موجود ہیں۔ مگر میں یہاں زیر نظر مجموعے کی دوسری کہانی ’’اجنبی موسم‘‘ کی طرف آپ کی توجہ چاہوں گا۔ کہ یہی وہ اجنبیت کا موسم ہے جس کے قدموں کی چاپ نے ہمارے افسانہ نگار کو مجبور کیا کہ وہ سماجی رشتوں کے چاروں اور تہذیبی حصار کو اپنی کہانیوں کے ذریعے مضبوط کرتا جائے۔ اس کہانی میں فرخندہ کے دُکھ سکھ کا ساتھی منورپاکستان میں اس کے اتنا قریب تھا کہ آسٹریلیا اور پھر امریکا جا کر بھی اسے خط لکھتا رہا تھا۔ مگر کب تک۔ یہ خطوں اور یاد کرنے والا سلسلہ بعد ازاں موقوف ہو گیا۔ جب وہ وہاں سے واپس آیا تو ’’لائف لانگ رسپانسیبلیٹی‘‘ کو ہی بوجھ سمجھنے لگاتھا۔ زمینیں بدل جانے سے انسان کیسے بدلتا ہے یہ اس کہانی کا موضوع ہے اور یہ بھی کہ بھلادی جانے والی زمینوں اور عورتوں کا مقدردُکھ کی جھاڑ جھنکار اور اذیت کے تسلسل کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔
’’دہری سزا‘‘ میں احتشام کے پاس بھی شادی کا پروژن نہیں تھا اور اسے بھی لگ بھگ ستائیس برس بعدلندن سے پھر ان گلی کوچوں میں پہنچتا ہے جن میں اتنے ہی برس پہلے وہ تھا۔ گویا زمین کا بدلنا اور زمانے کا بدلنا یہاں بھی موٹیف ہوا ہے اور اس کتاب کے نام کے ساتھ جڑ کر ایک معنویت اچھالتا ہے۔ چاچا جی کے بلاوے پر چلے آنے والے احتشام کے سامنے افشاں تھی، رشتے میں اس کی نئی چاچی، جس کا وہ ہاتھ تھامتا تھا تو اسے یاد ہی نہ رہتا تھا کہ وہ افشاں کے سوا کچھ تھی۔ مگر اب جب کہ وہ واپس آیا تھا تو نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں تھی۔ چاچا جی بھی پہلے جیسے نہ رہے تھے بیماری سے ڈھے گئے تھے۔ مگر نہیں، اسے افشاں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑنے والے چاچاجی، کینسر کے مریض ہو کر بھی ارادوں میں اسی طرح مضبوط تھے۔
کھوکھلے ہوتے سماج، اور ٹوٹ پھوٹ سے دوچار سماجی رشتوں میں سب سے زیادہ نقصان عورت کا ہورہا ہے۔ ’’بھولی بسری عورت‘‘ اس مجموعے کی پہلی کہانی ہے، یہاں کہانی جنس کی لذت کو نہیں چھوتی، لیکن ان رشتوں کی پائمالی کا نوحہ ہو جاتی ہے جودو بول پڑھوانے سے قائم ہوتے ہیں اور جنس کو بھی محترم بنا دیتے ہیں۔ تاہم افسانہ ’’واٹس ایپ‘‘ میں معاملہ اوندھا لیا گیا ہے یہاں جنس ہے اور اس کی لذت بھی، جو ایک حرام کار کی اولاد کی صورت ’’واٹس ایپ‘‘ کے پروفائل اورشیخ مجیب عالم اور کسی اور کی بیوی روبینہ کے درمیان تعلق کی تصویر ہو گئی ہے۔
تو یوں ہے کہ یہ بنتے بگڑتے رشتے مبین مرزا کے ہاں پوری توجہ سے لکھے گئے ہیں تاہم مراد نامی مرد اور کسی کی بیوی نیلم کی وہ کہانی، جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، اس میں یہ جنس کہیں نہیں ہے اور لطف یہ کہ کہانی پھر بھی کتاب کے کامیاب ترین افسانوں میں سے ایک ہو گئی ہے۔ ’’مانوس‘‘ کے نام سے لکھے گئے افسانے کا آغازصحرا میں ہوا کے بڑھتے ہوئے زور اور مراد کے الٹتے تعویز سے ہوا۔ ڈاک بنگلے میں دو آدمیوں کے لیے چار کپ چائے منگوا کر اسے روک لینے والی نیلم کو یقین تھا کہ وہاں اس کا شوہر نہیں آئے گا، گھپ اندھیرے میں وہ ایک دوسرے سے ٹکرائے بھی لیکن جنس نہیں جاگی۔ افسانہ نگار نے صحرائی طوفان کا خوب مشاقی سے نقشہ کھینچا ہے اور موسم کو بھی معنویت میں اضافے کا سامان کر لیا ہے۔ ڈاک بنگلے کی اندھیری راہداری، ٹارچ کا گرنا، کمروں کا حساب کتاب، اس افسانے میں سب تفصیلات، کہانی کی فضا میں گتھی ہوئی ہونے کی وجہ سے کہانی کاجزو ہو گئی ہیں۔ بیانیہ ٹھکا ہوا، تجسس اچھالتا ہوا، جذبوں کی ایک دھج کو سنبھالتا ہوا، کوئی بہت بڑا تنازع نہ ہوتے ہوئے بھی، بہت کچھ کہتا ہوا، اور بہت معنی خیز کہانی کے امکان روشن کرتا ہوا۔ ایک بار پھر ایک ایسی کہانی مجھے پچھاڑ گئی ہے جو دوسری کہانیوں کی عمومی طوالت میں نصف ہو گئی ہے۔
یوں نہیں ہے کہ مجھے وہ سب افسانے قدرے زیادہ لطف دیتے ہیں جو مختصر ہوں طویل کہانیوں سے بھی میں لطف لیا کرتا ہوں اور ایک ایسی کہانی مبین مرزا کے پاس بھی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ان کی ہر کہانی اس سے آگے کا سفر ہو۔ جس افسانے کا یہاں ذکر آگیا وہ ان دوسری کتاب میں نہیں، اس سے پہلے والے مجموعے کی آخری کہانی ’’قید سے بھاگتے ہوئے‘‘ ہے، کوئی چون صفحات پر مشتمل اس افسانے میں اسلوب اتنا سادہ اور رواں ہے کہ کسی ڈائجسٹ کی کہانی لگتی ہے اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے ایسا لکھ بھی دیا تھا، مگر اس افسانے کا کمال یہ ہے کہ اپنی بے پناہ سادگی اور مفصل بیانیے کے باوجود اتھلی اور اکہری نہیں ہوتی اور محبت کی ایک عام کہانی ظالم اور مظلوم طبقوں کی نفسیات کی بلیغ ترجمان بھی ہو جاتی ہے۔
اور ہاں یہیں بتاتا چلوں کہ مبین مرزا کے ہاں محض سماجی رشتے ہی موضوع نہیں ہوتے تہذیبی اکھاڑ پچھاڑ اور سیاسی سماجی صورت حال بھی موضوع بنتی رہی ہے۔ مثلاً ان کا ایک افسانہ ہے، ’’ٹھہرے ہوئے وقت میں‘‘ ایک صحافی خالد شیخ کی زندگی کی داستان جس میں پشمینہ عرف صدف کی جنس اور جاسوسی میں لتھڑی ہوئی کہانی شامل ہوکرافغانستان کے جلال آباد سے لے کر اپنے کراچی میں صحافی کے کئی گولیاں لگنے کے بعدتک (کہ جس میں وہ زندہ بچ نکلا تھا) کے سارے واقعات کو ہماری سیاسی، سماجی اور قومی زندگی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ایک اور افسانے ’’یہی تو زندگی ہے‘‘ میں اس دہشت اور شدت پسندی کو موضوع بنایا گیا جس کا ایندھن ہم ہو رہے ہیں۔ جنید جو پورے کا پورا امریکی تھا کلب عورت اور شراب۔ مگر اب وہ ویسا نہیں ہے۔ ویسا کیوں نہیں ہے؟ یہ سوال افسانے میں موضوع بنا ہے۔ نائن الیون کے بعد نتاشہ کو حجاب لینا پڑ رہا ہے، اس پر دباؤ ہے کہ وہ نوکری چھوڑ دے، اسے اپنی سوکنوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے کہ اسے کچھ میڈیکل ایشو تھے جس کی وجہ سے وہ بچے پیدا نہ کر سکتی تھی اور جنید کو بچے پیدا کرنا تھے کہ امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو۔ عجب عجب صورتیں ہیں حالات کی جو مبین کی کہانیوں میں سما گئی ہیں۔ تیکھے تیکھے سوالات ہیں جو یہاں وہاں وہ اٹھاتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ سوال اپنی زمین اور اپنے زمانے کے ہیں اور کچھ سوال دوسری زمینوں اور اس دوسرے زمانے کے ہیں جو رفتار میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔
مجھے مبین مرزا کے دس افسانوں پر بس اتنی ہی بات کرنا تھی مگر اب دھیان کتاب کے نام کی طرف چلا گیا ہے ؛ ’’زمینیں اور زمانے‘‘ میں یہ نام دہراتا ہوں ؛ زمینیں اور زمانے‘‘ اوریاد کے کینوس پر افتخار عارف کی ایک معروف نظم روشن ہو رہی ہے۔ شایدمبین مرزا کی کہانیوں کی کتاب پر افتخار عارف کی نظم یوں یاد آئی ہے کہ یہ نظم بھی ایک کہانی بن گئی ہے،
’’عجب دن تھے
عجب نامہرباں دن تھے، بہت نامہرباں دن تھے
زمانے مجھ سے کہتے تھے، زمینیں مجھ سے کہتی تھیں
میں اک بے بس قبیلے کا بہت تنہا مسافر ہوں
وہ بے بس مسافر ہوں جسے اک گھر نہیں ملتا
میں اس رستے کا راہی ہوں جسے رہ بر نہیں ملتا‘‘
’’زمینیں اور زمانے‘‘ میں کتاب کے نام والی کوئی کہانی نہیں ہے مگروہی نظم والا طرز احساس اس مجموعے کی لگ بھگ ہر کہانی سے چھلک کرکتاب کے نام کی تفسیر ہو گیا ہے۔ لیجئے افتخار عارف کی نظم ایک بار پھر پڑھ لیتے ہیں مگر اس کا زمانہ بدلتے ہوئے۔ یوں جو اس نظم میں تحریف ہوتی ہے تو ’’ایک کہانی بہت پرانی‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی نظم کی کہانی ’’نئی‘‘ ہو جاتی ہے۔ اور جہاں جہاں ماضی کا صیغہ استعمال ہوتا رہا وہاں وہاں سب کچھ مبین مرزا کی کہانیوں کی صورت فعل حال میں جاری ہو جاتا ہے، ’’عجب دن ہیں / عجب نامہرباں دن ہیں، بہت نامہرباں دن ہیں / زمانے مجھ سے کہتے ہیں، زمینیں مجھ سے کہتی ہیں / میں اک بے بس قبیلے کا بہت تنہا مسافر ہوں۔‘‘
اور واقعہ یہ ہے کہ مبین مرزا کے افسانے اسی بے بسی کا شاخسانہ ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.