ضروریات زندگی اور آرٹ
ضروریاتِ زندگی کا سوال انسان کی فطرتی کم مائیگی کا سوال ہے۔ انسان کا ان ضرورتوں سے بلند ہوجانا، اس کے دیوتا، اوتار اور پیغمبر بن جانے پر دلالت کرتاہے۔ اور پھر یہی انسان کی روحانی فضیلتوں اور فنی دل بستگیوں کا سوال بن جاتا ہے، وہ انسان جسے پہلے پہل اپنی اس فطرتی کم مائیگی کا احساس ہوا تھا۔ یقیناً ان بلندیوں پر پہنچ گیا تھا جسے حضرتِ انسان نے دیوتاؤں اور اوتاروں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ اس نے ان وحشیوں کو جو اپنے جنگلی پڑوسیوں ہی کی طرح ضروریات زندگی کے پیچھے مارے مارے پھرتے تھے، للکارا تھا، اپنے جگر کا خون نچوڑ کر پیش کیا تھا اور پکار پکار کر کہا تھا کہ ریاضت کی یہ فضیلتیں اور روحانی عظمتیں بھی ضروریاتِ زندگی میں سے ہیں، اسی میں تمہاری بھلائی ہے، فلاح و بہبود کی یہی ایک سبیل ہے اور اسی میں تمہاری جیت ہے۔ مگر انسان کے لیے، جسے درندوں جیسی زندگی گزارنے کی لت پڑچکی تھی، روحانیت اور ریاضت کا درس یقیناً ایک انوکھا سوال تھا۔ ضروریاتِ زندگی سے کہیں بلند، فہم و ادراک کی پہنچ سے بہت دور!
انسان کی یہ پیشکش ٹھکرادی گئی، اسے جھٹلادیا گیا، اور ضروریات زندگی آٹا، دال اور چاول کی مانگ کو اس قدر اہم بنالیا گیا جتنا کہ انسانی تخلیق کا مقصد خود فطرت کے سامنے کائنات کا حل بن کر آیا تھا۔ اور پھر اس ’’حس‘‘ نے ہمارے اجداد میں، دھیرے دھیرے وہ جگہ پالی جو مہیب چٹانوں، چاند سورج اور ستاروں کی ہولناک رفعتوں نے گھیر رکھی تھی۔ حسن کار اپنے زمانے کی وحشت بربریت اور ’’زندگی‘‘ میں برابر کاشریک تھا۔ اس نے اپنے فن کارانہ کمال کو زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت بنادیا، اس نے فطرت کے ان پریشان عناصر کو جن کی روح فرسا جسامتیں دیکھ کرانسان کا دل ڈول جاتاتھا، تراش کر، انسانی دسترس میں دے دیا، استعاروں اور اشاروں میں قدرت کے پوشیدہ بھید کہہ ڈالے، ’’انسان‘‘ نے اپنے فن کے سہارے دیوتاؤں کی جبروت اور اوتاروں کی عظمت کو ’’لکڑی‘‘ اور پتھر کے مجسموں میں جمع کردیا۔ مگر انسان، جب تہذیب کی شائستگیوں سے ناآشنا تھا تو یقیناً وہ سرمایہ دارانہ زندگی سے بھی واقف نہ تھا۔ اس نے اپنے فنی کمال کو اکتساب زر کی بجائے، ’’اچھائی اور بہتری‘‘ کو جو زندگی کے ہر دور کی دو اہم ضرورتیں ہیں، کا سہارا بنادیا اور اپنے دور کی ہر اچھی بات کی طرح اسے بھی عوام میں پھیلا دیا، آرٹسٹ اپنی ’’زندگی‘‘ اور بربریت کا مظہر بن گیا، پھر اس زمانے میں، اگر کوئی فن کار یہ کہہ دیتا، ’’میرا فن، تمہاری ’’زندگی‘‘ سے الگ، ایک مشغلہ ہے، تو یقیناً اپنی ’’سوسائٹی‘‘ اور اس کے نظام کے استحکام کے لیے وہ وحشی اسے ایک خونخوار بھیڑیے سے بھی زیادہ خوفناک درندہ سمجھ کر ہلاک کردیتے۔ کیونکہ آرٹسٹ نے فن کو آٹا، دال اور چاول کی مانگ سے بلند کردیا تھا۔ سماج کو روحانی فضیلتوں سے دوچار کرادیا تھا، اور اب وہ حسن کار کو اپنا ’رہنما‘ ہادی اور راہبر سمجھنے لگے تھے، دھرتی کا راجہ، اور آکاش کا دیوتا سمجھ کر، اس کے چرنوں میں سر رکھ دیتے تھے، اس زمانے میں آرٹ کو نہ تمدنی ارتقاء سے کوئی واسطہ تھا، اور نہ انفرادی ذہانت سے کوئی نسبت!
آج کہتے ہیں کہ آٹا، دال چاول اور اس سے ملتی جلتی ہرجنس کی بڑھتی ہوئی مانگ، یہ ان دیدہ دروں کی محنت کاپھل ہے، جنہوں نے زندگی کی تمام روحانی برکتوں اور فنی بخششوں کو ضروریات زندگی کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ جن کی توندیں، خوفناک مشینوں کی گھناؤنی جسامتوں کی طرح پھیلی ہوئی تھیں، اپنی مایا، اور مایا کے مان پر، جنہوں نے ضروریاتِ زندگی، آٹا، دال اور چاول ہی کو انسانی نشوونما اور معراج کا ذریعہ بنادیا ہے۔ وہ تو اسے انسانیت چھوڑ کائنات کی تخلیق کا مدعائے واحد کہتے ہوئے بھی نہیں جھجکتے، اصل میں یہی ہیں، وحشی اجداد کی وہ بچی کھچی نشانیاں، جنہوں نے کبھی ایک فائق فن کار کو جھٹلادیا تھا اور اس کی پیشکش کو ٹھکرادیا تھا، آرٹسٹ اپنی راہ سے بھٹک گیا تھا۔ حسن کار کو بھی یہ احساس ہونے لگا تھاکہ ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں اس کا بھی حصہ ہے اور آرٹ، حیات، و بقاء۔ انسان کی فطرتی حاجتوں سے الگ تھلگ ایک مشغلہ ہے، جس میں نہ ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی صلاحیت ہے۔ اور نہ آٹا، دال اور چاول سے ملتی جلتی مانگ کا کوئی حل!
ان بھلے لوگوں سے اگر یہ پوچھا جائے کہ تم فن کاروں کی اس شبانہ روز کاوش، اور ان موجدانہ کوششوں کے لیے آرٹ کے علاوہ اور کیا نام تجویز کروگے۔ جو ہماری زندگی اور زندگی کی ضروریات سے کوئی نسبت نہیں رکھتیں، صرف روحانیت سے متعلق ہیں۔ تو وہ یقیناً آج بھی اس سوال پر بوکھلاجائیں گے اور جواب میں کچھ بھی نہ کہہ سکیں گے اور اگر کہیں گے بھی تو صرف یہی کے کہ، یہ بھی ضروریاتِ زندگی کا ایک سوال ہے!
سائنس کوہماری زندگی کی ضروریات کا کفیل بنایا جاتا ہے، قدیم زمانے میں زندگی کی ضرورتیں محدود تھیں اور ضروریات زندگی مہیا کرنے والے اوزار سادہ تھے، کھیتی باڑی کے طور طریقوں میں تبدیلیاں ہوئیں، تو کھیتی چھننے کے اوزاروں میں بھی حیرت انگیز انقلاب رونما ہوا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ مہیب و خوفناک ہتھیار، جنگی جہاز، بمبار طیارے، ہتھیار بند گاڑیاں، تباہی و بربادی پھیلانے والے یہ اوزار۔ سائنس کے یہ کرشمے دورِجدید کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہیں۔
آج صرف اسلحہ جات کی نت نئی اختراعات ہی میں کسی ملک کی عظمت و بقا کا راز پوشیدہ سمجھا جاتا ہے، لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج سے صدیوں پہلے پتھر کی ایک منحنی سل کو مہلک صورت میں تراشنے والا ایک فن کار ہی تھا، جس کا کمال ’’زندگی‘‘ کی مانگ کاحل بن کر آڑے آیا تھا، اسی تخلیق نے زمانے کے ساتھ بدلتے بدلتے، آہنی تلوار کی شکل اختیار کرلی، ایسے ہی آج سے انگنت سال پہلے کے سادہ اوزار اور ہتھیار، اس صدی کے گھناؤنے ہتھیاروں کے اجداد قرار دیے جاسکتے ہیں۔ لیکن آج اس اختراع کا سہرا بندھتا ہے تو سائنس دان کے سر اور یہ فراموش کردیاجاتا ہے کہ سائنس علم ہے اور کسی چیز کاصرف جاننا عمل کے مترادف نہیں ہوسکتا۔‘‘
آرٹ نام ہے عمل اور کردار کا، کچھ کرنے کا نام ہے آرٹ، آرٹ عمل بھی ہے اور علم کی وضاحت بھی، اس علم کی جسے ہم تجربے سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ لفظوں کا باہم ہیر پھیر، چند رنگوں کا امتزاج، خطوط کا ان جانا میل جوڑ، یہ سب کیا ہے؟ قوتِ بیان کا دوسرا نام، جسے مقرر ہو یا ’’شاعر‘‘ اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ فصاحت یا کسی خاص وقت پر کسی خاص چیز کا امتیاز معلوم کرنے کی قوت، ہر فن کی بقا کا راز قرار دی جاسکتی ہے اور یہی وہ قوت ہے جس کی نمائش مجسمہ ساز کے مجسموں میں نظرآتی ہے اور مصور اپنے رنگوں کے سہارے انسان کو عناصر کی عظمت سے دوچار کرا دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔
آٹا، دال اور چاول ہر روز منڈی میں بکتے ہیں۔ بڈھے، مرد، جوان عورتیں، ناتواں بچے سبھی چلے آتے ہیں۔ دنیا کے بازار میں، جہاں ضروریات زندگی کا سودا چکایاجاتا ہے۔ اور اس کا لین دین روز بروز فروغ پارہا ہے۔ لاکھو ں من اناج ہاتھوں ہاتھ روز بک جاتا ہے، پھر بھی اس بیوپار کو زیادہ فروغ دینے کے لیے سرمایہ دار شطرنج کے سے پیچیدہ داؤں کی طرح اس سے پیدا ہونے والی اشکال پر غور و خوض کرتا ہے، لیکن ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے والی ان منڈیوں میں، اگر کسی حسن کار کا ایک کمال لاکر فروخت کے لیے رکھ دیا جائے، تو وہ کیوں فروخت نہیں ہوتا؟
وہ صدیوں تک فروخت نہ ہوگا چاہے اس کے رنگوں کی حلاوت اور خطوط کی خوش آئند، ہم آہنگی کاتصور، وقت اپنے پھٹ پھٹاتے ہوئے پروں پراٹھاکر کسی ایسی دنیا کی طرف لے جائے جو اس کی تخلیق کا مقصد نہ تھا۔
ایک زمانہ ایسا بھی آیا، جب آرٹ کو اقتصادیات کے نقطہ نظر سے پرکھنے والے دوست اسے صرف ضیاع وقت وقوت سمجھنے لگے تھے۔ کہتے ہیں انسان کو اپنی فطری ضرورتیں پوری کرنے کے بعد بہت سا وقت ایسا مل جاتا ہے، جسے وہ ایسے کاموں پر صرف کرنے کا عادی بن چکا ہے، جو نہ تو فطرت نے اس پر لازم قرار دیے ہیں اور نہ ہی کسی توہم یا تصور کی بناپر انسان نے انہیں اپنے لیے ضروری سمجھا۔ انسان کے تمام ایسے اقدامات کو بے سود مشاغل کے نام سے تعبیر کیا گیا کیونکہ ان میں انسان کی بقا کا راز مستور نہ تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہی وقت جسے بے سود کاموں کی تکمیل میں صرف کیا گیا، فنونِ لطیفہ کی نشوونما کا باعث بنا۔ مگر آج یہ نظریہ بھی بدل گیا ہے۔ سرمایہ دار جس کے زاویہ نگاہ سے صناعی سنگ تراشی اور دوسرے ایسے فنون سے دلچسپی، اقتصادی پہلو سے ضیاع وقت اور ملی دولت کی تخریب کا سامان تھا۔ آج اسی سرمایہ دار کو فن کار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، وہ اپنی مایا کاجال بچھانے کے لیے اس کے آستانے تک پہنچتا ہے، کہ وہ اس کی سرمایہ داری کی اشاعت کے لیے اشتہار بنائے۔ چاہے وہ سینما کا پوسٹر ہو، یا سگریٹ کی ڈبیہ کا، آرٹسٹ اپنے فنی کمال کے سہارے ایسے دلفریب مناظر تیار کردیتا ہے کہ دنوں اور مہینوں تک اس کی یاد کو فراموش نہیں کیاجاسکتا، اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ فن کار جو کبھی ’’آرٹ آرٹ کے لیے ہے‘‘ کے نعرے لگاتا تھا، اس کا فن کار کمال، غیر کے ہاتھوں مقید ہوجاتا ہے۔ لیکن سرمایہ دار اپنی فطرتی تنگ نظری کے ہاتھوں لاچار اس کے لیے حدبندی بھی کردیتا ہے اور وہ ان حدود سے متجاوز نہیں ہوسکتا۔ اسے مقررہ حدود کے اندر رہ کر الہام کی تکمیل کی بجائے احکام کی تعمیل کرنا پڑتی ہے، سرمایہ دار تجویز کرتا ہے۔
رنگ کیا ہو؟
یہ!
شکل کیا ہو؟
یہ!
فنِ کارہمیشہ سے وہ بنانے کاعادی تھاجو کسی دوسرے کے ذہن میں نہ تھا مگر اب اسے یہ بنانا پڑتا ہے جو کسی دوسرے کے ذہن کی اختراع تو ہے مگر اس کی اپنی روح کا پرتو نہیں، فن کار اور سرمایہ دار جو زندگی کی دو الگ راہوں پر گامزن ہیں (ایک روحانیت کا طالب تھا، اور دوسرا مادیت کا پرستار) دونوں ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے اور زیاد سے زیادہ دھن سمیٹنے کی دھن میں اپنی اپنی منزل بھول کر ایک نئی راہ تلاش کرلیتے ہیں، جو یقیناً ان کی پہلی روش سے بہت گری ہوئی ہے، ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ضروریات زندگی کا سوال اتنا ہی اہم ہے، جتنا کہ آرٹ یعنی تخلیق کاجذبہ مگر ہم یہ کیونکر بھول سکتے ہیں کہ فطرت کی یہ قوتیں، ایک دوسرے کے موافق نہیں منافی ہیں، اور نہیں چاہتی کہ ایک دوسرے کی ترجمانی کریں، اور نہ ہی ان کا یہ مقصد ہے، ان کااگر کوئی مدعا ہے، تو وہ یہی ہے کہ اپنی الگ الگ راہوں پر اپنے اپنے فرائض کو انجام دیتی چلتی رہیں یہاں تک کہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی نہ مل سکیں، کیونکہ ان کے ملنے سے ان کی موت واقع ہوجائے گی۔ اس کے باوجود ہمیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کا سوال اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ آرٹ۔ اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے بغیر نہ زندگی آج ممکن ہے اور نہ کل تھی، مزدور سے لے کر سرمایہ دار تک سب کی یہی کوشش ہے کہ ضروریات زندگی کو مہیا کرے، اور زندگی میں وہ تسلسل اور رشتہ قائم رہے جو ازل سے ایک نظام کے ماتحت چلا آرہا ہے۔
مگر آج جب ہم دنیا کو پھر زمانہ جہالت وحشت اور بربریت کی طرف راغب پاتے ہیں۔ تو ہمیں محسوس ہوتاہے کہ آرٹ زندگی کے لیے ہے اور زندگی آرٹ کے لیے، یہ نظریہ زندگی کے ہرشعبے کی عبارت بن گیا ہے، ’’آرٹ، آرٹ کے لیے ہے‘‘ ایک گمراہ کن نظریہ تصور کیا جاتا ہے، اس سے ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آرٹ ضروریاتِ زندگی کا کفیل بن گیا ہے، بلکہ اس کے برعکس، حسن کا ران مفروضات سے بہت بلند ہوجاتا ہے، اپنے ذہنی تفکر اور قوتِ عمل کے سہارے ہماری زندگی، اور اس کی خواہشات کو ایسے مقام پر لے جاتا ہے جہاں مقصدِ تخلیق و حیات، دونوں سطح زمین سے بہت بلند نظر آتے ہیں، اور انسان دنیاوی لذتوں اور وجدانی مسرتوں سے زیادہ سے زیادہ لطف اٹھاسکتا ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، آرٹ کی ایک نمائش میں، ایک بہت بڑے سرمایہ دار، بنیے کو لاکرکھڑا کردیاگیا۔ جب وہ بنیا اپنافرسودہ ڈھانچا سنبھالے اور رومانی لذتوں اور روحانی مسرتوں سے دوچار ہوا اور اپنے آپ کو اپنے کاروباری ماحول سے الگ تھلگ کسی انوکھی جگہ کھڑا پایا، تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا ذہن فکر سے خالی ہے۔ جیسے اس سے انسان ہونے کافخر بھی چھین لیا گیا ہے، لیکن وہ شعور جو اس کی دولت اور خاندانی ثروت کی دین تھا۔ اس کے سہارے وہ یوں پکار اٹھا، جیسے کوئی خواب میں بڑبڑانے لگے۔
’’یہ نمائش تصویروں کی ہے، یہ تصویریں، ہمارے دیس کے نوجوان مصوروں نے بنائی ہیں۔ اچھا تو میں ان تمام تصویروں کو خریدتا ہوں جو یوگیوں اور فقیروں سے متعلق ہیں!‘‘
اس کا یہ اظہار یہ قابل ماتم رویہ، محض اس روحانی اور اخلاقی کمتری کااحساس تھا، جو اس کے اندر اپنے آپ کو ایک اجنبی ماحول میں کھڑا پاکر آپ سے آپ پیدا ہوگیا تھا، فقیروں اور یوگیوں کی تصویروں میں شاید اسے ریاضت اور دریا کی فضیلتوں کے علاوہ خدا نظر آگیا تھا، اور اپنی دولت کو ان کی بھینٹ چڑھانا، اس کے نزدیک اپنے گناہوں کابہترین کفارہ تھاکیونکہ اس نے ان تصویروں کو دیکھا تک بھی تو نہ تھا، جن کے خریدنے کااس نے ابھی ابھی اظہار کیا تھا، اور اگر دیکھا بھی تھا، تو یقیناً اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ انہیں سمجھ سکتا!
آرٹسٹ تو ابتدا سے ہماری زندگی میں حسن اور فضیلت کے فروغ کے لیے سردھن رہا ہے، اور جب تک یہ نظام قائم ہے، یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ آرٹسٹ کی اسی کوشش نے ہماری معاشرتی زندگی اور تہذیب کو جنم دیا ہے، اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ آرٹ کے عوام میں پھیلنے سے اس کا مقصد فوت ہوجاتا ہے تو اس سے ہمارا مطلب ہرگز نہیں ہوتا، کہ آرٹ اپنی روایات سے اپنی تعمیری سرگرمیوں سے علیحدہ ہوگیا ہے۔ ہمارا مقصد صرف اسی قدر ہوتا ہے کہ آرٹ ضروریاتِ زندگی آٹا، دال اور چاول کی مانگ سے بلند ہوگیا ہے۔
شروع شروع میں آرٹ انسانی محسوسات، اور جذبات کی ترجمانی کا ایک وسیلہ تھا، اور ہر انسانی جذبے کو تصویری صورت میں ڈھالنے کا ایک بہانہ یقیناً اس وقت جب فصاحت اور بیان کی راہیں مسدود تھیں، فن کسی ایک مرد کامل کی ملکیت قرار نہیں پاسکتا تھا، لیکن آج جہاں ہماری زندگی جہالت کی ان ابتدائی منازل سے گزر کر، تہذیب و تمدن کی ’’بلندیوں‘‘ پر کھڑی نظر آتی ہے۔ ہماری ذہانت اور فہم و تدبر میں بھی تو حیرت انگیز ابتدا آچکی ہے۔ آرٹ قدیم ہو یا جدید بدل نہیں سکتا۔ کیونکہ زمانۂ قدیم کا آرٹ آج صدیاں گزرنے پر بھی ویسا ہی پرشکوہ نظر آتا ہے جیسا آج سے پہلے تھا۔ لیکن اس کے مقاصد میں ایک انقلاب ضرور پیدا ہوگیا ہے، اور آج آرٹ کا مقصد یقیناً ابتدائی زمانہ کے فنکاروں سے بہت بلند ہے۔
ان کے لیے آرٹ کا نام صرف علم وضاحت کا، فصاحت بیان کا مگر ان مقاصد سے علاوہ آج آرٹ انسان کی موجدانہ قوتوں کا اظہار بھی ہے۔
کس قدر عظیم الشان ہے یہ تفاوت! مگر اس تفریق کو پہچاننے کے لیے ہمیں طباع موجد کے اشاروں پر چلنا پڑتا ہے، اس کے تخیل کے ساتھ ساتھ پرواز کرنا پڑتی ہے۔ کسی فنکار کے عمل کو پرکھنے کے لیے ہمیں خود اسی ذہنی برتری کی ضرورت ہے جہاں وہ بہت کچھ استعاروں اور اشاروں میں کہہ جاتا ہے۔ تخلیق کا یہ جذبہ موجدانہ قوتوں کی ارزانی نہیں، کمیابی کی دلیل ہے اور کسی تخلیق کی فضیلت کا اندازہ اس کی کمیت کی بجائے کیفیت اور فن کار کی انفرادی قوتِ تخلیق سے کیا جاسکتا ہے۔
ایک مزدور جس کی زندگی کے وسائل اس قدر محدود ہیں کہ وہ ضروریات زندگی آٹا، دال اور چاول بھی نہیں خریدسکتا وہ زندگی کو بہتر بنانے کے وسائل کیوں کر مہیا کرسکے گا، پھر ایک آرٹسٹ سے یہ حق کیوں چھین لیا جائے کہ وہ اپنی زندگی اور ماحول کو بہتر نہ بنائے، اور اپنی بے لوث دعاؤں اور تخلیق کیے ہوئے شاہکاروں کو ہماری نجات کا ذریعہ بنادے۔ وہ کیوں اس مخصوص استعداد کو، جو اسے فطرت کی طرف سے ملی، کسی دوسری ہستی کا تابع فرمان بنادے، اس پر بھی تو وہی فرض عائد ہوتا ہے۔ ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے سے بھی ایک اہم فرض، کہ وہ نسل انسانی کی سب سے بڑی ضرورت، تمدنی ارتقاء، اخلاقی ترویج کے لیے، اپنا آپ، اپنے جذبات، قوتِ عمل و فکر پیش کردے!
جس طرح ضروریات زندگی کے مختلف معیار ہیں، اور اس کی دو اہم صورتیں مزدور اور سرمایہ دار، بغیر کسی سوچ بچار کے ہمارے سامنے آجاتی ہیں، ایسے ہی آرٹ کا بھی ایک معیار ہے، اور وہ عمومیت نہیں، انفرادیت کی نمود ہے، اگر ہم آرٹ کو بھی عمومیت میں شامل کردیں، تو یقیناً وہ نہ آرٹ رہے گا، اور نہ ہی ضروریات زندگی سے بلند کوئی مانگ۔ اس لیے آرٹ کے متعلق یہ سوچنا بھی ایک ’’جرم‘‘ ہے کہ آرٹ عوام میں پھیل جائے، اور ضروریات زندگی میں سے کہلوائے۔ آٹا دال اور چاول سے ملتی جلتی ایک جنس!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.