Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندہ اور فطری زبان

محمد چراغ علی

زندہ اور فطری زبان

محمد چراغ علی

MORE BYمحمد چراغ علی

     

    پہلی کسوٹی۔۔۔ اُصولِ ارتقاء
    زبان کی تعریف و توضیح میں تحقیقات کرنے والوں نے مختلف خیالات پیش کیے ہیں مگر اس کی تعریف بھی شعر کی تعریف کی طرح رنگارنگ ہوتی گئی ہے۔ کسی نے اسے نمونہ صنعت الٰہی کہا تو کسی نے بلبل ہزار داستاں، کسی نے طوطی شکر شکن سے تشبیہ دی اورکسی نے اسے قدرت کے رازسربستہ کی کلید کہا۔ مگر اس کی جو تصریح مولوی عبدالحق صاحب مدظلہٗ نے اپنے قواعد اردو کے مقدمے میں کی ہے وہ نہایت جامع اور بہتر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سچی زندہ اور فطری زبان کی تعریف اس سے زیادہ صاف شاید ہی ہوسکے۔ آپ کے تصریحی الفاظ یہ ہیں، 

    ’’زبان نہ کسی کی ایجاد ہے اور نہ کوئی اسے ایجاد کرسکتا ہے۔ جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے، پتے نکلتے ہیں، شاخیں پھیلتی ہیں۔ پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پود اور درخت تناور بن جاتا ہے۔ اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی، بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہے۔۔۔‘‘ 

    زندہ زبانوں کی یہ عام تعریف ہے۔ اور اس کے زندہ ہونے کی کسوٹی بھی۔ اس سے مستنبط ہوسکتا ہے کہ زندہ اور فطری زبان میں حسب ذیل خوبیوں یا خصوصیات کاہونا لازمی ہے، 

    (۱) زبان کی ابتداصرف و نحو (گریمر) سے نہ ہوئی ہو۔ 

    (۲) اس میں قانونِ ارتقا پایا جائے۔ یعنی اپنے جنم سے لے کرآغاز شباب تک تیز رفتار ترقی۔ اور شباب میں کامل جلوہ نمائی ہو، پھر رفتار ترقی مستقل ہوجائے۔ اور درخت تناور کی طرح پھل پھول پیداکرکے اس کے فائدے سے دنیا کو فیض پہنچائے۔ 

    (۳) ماحول کااثر اس کے نشوونما میں نمایاں ہو اور اس کا اثر ماحول پر بھی آگے چل کر ظاہر ہوجائے۔ 

    (۴) جس طرح انسان کی کوشش درخت کے مزاج (پھول کی خوشبو اور پھل کے ذائقے ) کو تبدیل نہیں کرسکتی، اسی طرح ایک زندہ زبان بھی مسخ نہیں ہوسکتی۔ غیرفطری رجحانات سے وہ بگڑے گی مگر پھر وہ قدرتی رجحانات کی بدولت سنور جائے گی۔ 

    یہی سبب ہے کہ ہر ملک و قوم کی ایک زندہ زبان ہے جو اس کی تہذیب اور تمدن کی ترجمان ہے۔ 

    ہندوستان کی زبان بھی ان تمام درجوں سے گزرتی ہوئی موجودہ صورت کو پہنچی ہے۔ فطری اور غیرفطری رجحانوں نے اسے اکثر بنایا اور بگاڑا۔ مگر آخر میں بازی فطرت اور قدرت ہی کے ہاتھ رہی۔ او ریہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ مصنوعی تحریکیں وقتی ہوتی ہیں۔ اور تھوڑے ہی دن چل کر ٹھنڈی ہوجاتی ہیں یادَب جاتی ہیں۔ زبانِ ہند کی تاریخ میں یہ حقیقت بار بار ملتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کہ ہندوستان جنت نشان کی زبان دیوبانی (زبان الٰہی) ویدک تھی۔ اسے ہم زبانِ ہند کا بیج یا چشمۂ زبان کا منبع کہہ سکتے ہیں۔ دانے پھوٹنا اور چشمے کا آگے بڑھنا لازمی تھا۔ قانونِ ارتقا کے خلاف پوری طاقت صرف کی گئی کہ زبان الٰہی کی شکل نہ بدلے۔ کونپل نہ پھوٹنے پائے ورنہ بڑا غضب ہوگا۔ زبان مسخ ہوکر ناپاک ہوجائے گی۔ برفستان میں جس طرح تخم اپنے بخت خفتہ پر خشک آنسو روتا ہے وہی حال ویدک زبان کا رہا اور وہ برہمنوں کے سینوں میں مدفون یا محفوظ رہی۔ مگر یہ کب تک۔ آخر شمس ارتقا کی کرنیں پہنچ گئیں۔ دانے پھوٹ نکلے۔ آن کی آن میں اس کی دوسری شکل تھی۔ گویا زبان ویدک نے جون بدلی۔ اس جنم میں اس نے اپنا نیا نام پایا۔ ویدک پراکرت، کے نام سے وہ پکاری گئی۔ اس پراکرت کو اگر مجسم شکل تصور کیا جائے توپالی کو (جو گوتم بدھ۔ بودھ مذہب۔ اور اس عہد کے حالات کی آئینہ دار ہے ) اس کا دست راست سمجھنا چاہیے۔ 

    اس زبان کو پراکت کی اور شاخوں کے مقابلے میں زیادہ فروغ ہوا۔ بدھ مذہب کے وسیلے سے اس کے پڑھنے اور جاننے والے کم و بیش شمالی ہندوستان کے اکثر حصوں میں پائے جانے لگے۔ دوسری پراکرتیں ماگدھی، شورشینی، مراٹھی، پنجابی، اودھی، بندیل کھنڈی، بھوج پری، مقامی حیثیت رکھتی تھیں۔ یہ تو ان کا تعلق ہندوستان کے ہمہ گیر مذہب بدھ سے تھا اور نہ اس جیسی سرپرستی نصیب ہوئی۔ مگر باوجود مذہبی توسط اور بدھ حکمرانوں کے دستگیری و حمایت کے، یہ زبان ہندوستان کے لیے زبان عام نہ بن سکی، کیونکہ وہ ایک محدود خطہ کی زبان تھی۔ بدھ مذہب کے زوال ے بعد و گپتا خاندان کے عہد حکومت میں برہمنوں کو اپنا قدیم مذہب زندہ کرنے کا اچھا موقع ملا۔ انہوں نے قدامت پسندی کی نظر سے جو زبان کی طرف دیکھا تو چونک پڑے۔ ایں! زبان کہاں سے کہاں جاپہنچی! چنانچہ قواعد کی زنجیروں سے باندھ کر خوب کاٹ چھانٹ تراش خراش کرکے ایک نئی زبان وضع کی۔ یہ ظاہر ہے کہ یہ زبان کہاں تک فطری ہوسکتی ہے۔ اس کا نام سنسکرت (آراستہ کیا گیا) رکھا گیا کیونکہ ویدک پراکرت کی چھنٹی چھنٹائی اور قدیم ویدک کے قالب پر ڈھالی ہوئی زبان تھی۔ اس زبان میں اعلیٰ پائے کی مہا تصنیفیں و کرمؔ کے درباری مشاعروں کے زورِقلم سے وجود میں آئیں۔ فصاحت اور بلاغت، صنائع و بدائع غرض جہاں تک انسانی کوشش کو دخل ہے اس سے زبان کو موقر اور قابل قدر بنایا گیا۔ شکنتلاؔ، کادمبریؔ، میگھ دوتؔ دنیائے ادب کے خزانوں کے چمکتے ہوئے رتن ہیں۔ اور نظر انصاف ان کی ادبی شان کوہمیشہ ہمیشہ سراہتی رہے گی۔ مگر جہاں تک زبان کا مسئلہ ہے وہ اس عیب سے پاک نہیں کہ وہ عوام کی تشنگی کو دور نہ کرسکتی تھی۔ عام فہمی سنسکرت میں نہ تھی۔ اس لیے کہ یہ بول چال کی زبان تھی ہی نہیں۔ یہ محض تصنیفی زبان تھی اور عالموں اور درباریوں کے لیے محدود تھی۔ عورتوں اور بچوں کے لیے اور اَن پڑھ طبقے میں یہ زبان مروج نہیں ہوئی۔ اسی لیے کالیداسؔ اپنے ناٹکوں میں عورتوں اور بچوں کا کردار جہاں پیش کرتا ہے۔ پراکرتؔ زبان استعمال کرتا ہے۔ 

    ملک کی فطری زبان ایک قدرتی چشمہ کی طرح آگے بڑھ رہی تھی۔ جس میں اِدھر اُدھر سے نالے، ندیاں آکر مل رہی تھیں۔ غرض کنار و ساحل سبزہ و گیاہ کو سیراب کرتا ہوا یہ چشمہ ہر ایک کے اجزا اپنے اندر شامل کرتا ہوا آگے بڑھا۔ اب چشمے نے دریا کا نام پایا۔ یعنی زبانِ ہند نے تیسری جون بدلی۔ اس جنم میں زبانِ ہند کا نام ’’اپ بھرنش‘‘ تھا۔ بار بار کی تبدیلیوں سے قدیمت پسندی کے رجحانات خودبخود ماند اور مدھم پڑنے لگے۔ یہ ’اپ بھرنش‘ زبان امکان کی تبدیلیوں سے مختلف لباسوں میں نطر آئی۔ ملک کا مرکزی حصہ جس طرح تمدن و آئین و تہذیب و شائستگی میں بڑھا ہوا تھا، اسی طرح وہاں کی ’اپ بھرنش‘ بھی دوسرے ’اپ بھرنشوں ‘ کے مقابلے میں زیادہ صاف تھی۔ (۱) مرکز ملک (میرٹھ اور نواح دہلی۔ ) (۲) اس کا ملک۔ (برج کلے علاقے میں ) زبان کا رنگ وغیرہ دیدہ زیب تھا۔ دیکھنے والوں نے جو انتخابی نظر ڈالی تو یہ بولیاں کچھ دل کو ایسی بھاگئیں کہ اس کی قسمت کا ستارہ گویا طلوع ہوگیا۔ یہ دیکھنے والے مسلمان تھے۔ جنہوں نے فاتحانہ حیثیت سے ملک پر عمل دخل کیا۔ اور اپنا مرکز بھی اِسی حلقہ میں رکھا۔ 

    مسلمانوں کا ورود زبان ہند پر ماحول کا سب سے زیادہ اور نمایاں اثر تھا۔ حکومت مرکزی کے اہتمام نے دور نزدیک کو سمیٹ کر ایک کردیا، دہلی اور آگرہ کی بولیاں گنگاجمنی شان سے مل گئیں۔ جس کے نمونے خسروؔ کی پہیلیوں اور مکرنیوں میں ملتے ہیں۔ جو ہر شناس اور قدرداں مسلم حکمرانوں نے اس جنس لطیف کی قدر کی۔ دوربین خسرو کی دوربینی کو انہوں نے اپنی تائید سے دوسروں کے لیے راستہ کھول دیا۔ حکمرانوں کی زبان فارسی تھی۔ اس لیے انہوں نے تمیز کے لیے اس نئی صورت کو پہنچی ہوئی زبان کا نام ہندی رکھا۔ اور وہ موقر بناکر ہندوستان کی ہر چیز کو ہندی کی صنعت نسبتی سے مخصوص کرتے تھے، مثلاً تیغ ہندی، تال ہندی، بزم ہندی۔۔۔ وغیرہ۔ انشاء نے بھی اس زبان کو ہندی ہی لکھا ہے۔ 

    مسلمانوں کا عہدِ حکومت بھی بہت وسیع تھا۔ تغیر و تبدل تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں ہی کے عہد حکومت میں منجملہ دیگر معاشرتی تبدیلیوں کے زبان کی شان بھی بہت کچھ بدلتی اور بنتی گئی۔ عہدِ اکبر میں ہند کی حدیں وسیع ہوئیں۔ دکن، دہلی و آگرہ سے وابستہ ہوگیا۔ یہ نسبان شاہانِ دکن کے درباروں میں بھی جاپہنچی۔ وہاں ہندی کا نام مقامی نسبت سے دکنی ہوگیا۔ ملک الشعرا نصرتیؔ سے لے کر ولیؔ کے زمانے تک دکن میں رہی۔ اور شمالی ہند تو اس کا جنم بھوم ہی تھا۔ دوسری طرف وہ تمدنی سلسلے سے ہاتھ پیر نکالنے لگی اور گجرات جاپہنچی۔ یہاں کے لوگوں نے اسے گجراتی کہہ کر اپنایا۔ نرسیؔ مہتا گجراتی زبان کا شاعر ہے۔ اس کے کلام کا نمونہ یہاں دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ شمالی ہند میں دکنی اور میرٹھ کے نواح کی زبان کی مثالیں تو ہر خاص و عام کو ولیؔ اور خسروؔ کے ناموں سے پیش نظر ہوجاتی ہیں۔ مگر اردو کی گجراتی شکل سے ابھی کم لوگ روشناس ہیں، 

    ہر دم کرشن کہے تو کرشن کہے نو زباں میری
    یہی مطلب خاطر کرتا ہوں خوشامد میں تیری

    دَہی اور دودھ شکر روز کھلاتا ہوں تجھے 
    تو بھی ہر روز نہ ہر نام سنادے مجھے 

    کھوئی زندگانی ساری ہوئی گناہ معاف تیرا
    دَیا مت بھولے پربھوآخر وقت میرا

    (ماخوذ ازکبتا کومدی۔۔۔ بھوسکا۔ مصنفہ پنڈت رام نریش ترپاٹھی) 

    لفظوں کی ترکیبیں اور خود الفاظِ اُردو روزمرہ کے نمونے پر لائے گئے ہیں۔ اسی طرح پنجابی میں اسی مرکزی زبان کی شان جھلکتی ہے جو مختلف تغیرات کے بعد آج اردو کہلا رہی ہے۔ غرض اردو کی اصل صورت نواح دہلی سے اٹھ کر ہندوستان کے جنوبی حصے (دکن) کی زبان پر اور بہ ہمراہ ولیؔ گجرات پہنچنے سے گجراتی پر اپنا نقش ڈال چکی ہے۔ و نیز خود اس کے اندر دکنی و گجراتی و پنجابی عنصر بھی شامل ہوچکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب عہدِ محمد شاہ میں شمالی ہند کے نواسیوں نے پھر دہلی کا رخ کیا اور ان میں ولیؔ بھی تھے تو ان کی زبان اور دہلی کی زبان میں بڑا فرق نظر آیا۔ مرکزی زبان جن ایام میں جنوبی ہند اور اور مضافاتِ دہلی کا طواف کر رہی تھی، شمالی ہند کے پائے تخت دہلی میں وہ رکی نہ بیٹھی تھی۔ قلعہ شاہجہاں آباد نے اس کا پرانا نام ہندی بھلا دیا تھا۔ اور وہ زبان اردوئے معلی شاہجہان آباد کہلاتی تھی۔ یہ نام لشکر کے تعلق اور لشکری خلط ملط سے پیدا ہوا تھا۔ اور اب اس میں عام فہمی کی صفت اور بھی ترقی کرچکی تھی۔ چنانچہ ولیؔ نے اپنے دیوان پر نظرثانی کی۔ جن اشعار میں دکنی کے الفاظ تھے ان کو دیوان سے خارج کرکے ایک دوسرا دیوان ترتیب دیا۔ اس میں دکنی کے اسی قدر الفاظ تھے جو دہلی کی ترقی یافتہ زبان میں بے جوڑ نہ تھے۔ اس طرح ولیؔ کی خدمت زبان کے سدھارنے اور سنوارنے میں کس قدر قابل قدر ہے۔ ا س طور پر اب ایک ایسی زبان وجود میں آگئی جس کے سمجھنے والے ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ لوگ تھے اور اس کے مقابل دوسری زبانیں مقامی حیثیت سے بڑھتی اور ترقی کرتی رہیں۔ مسلمان فرمانرواؤں نے اس وقت کی مقامی زبانوں کے لیے پوری شاہ دلی برتی۔ کیونکہ اردو نہ تو حکمران قوم کی زبان تھی اور نہ محض مسلمانوں کی۔ اس کے بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ چنانچہ قدما کے تلامذہ کی فہرست میں دیکھیے کہ کس قدرہندو ہیں۔ 

    اس وقت غریب اردو کادامن علمی جواہرات سے خالی تھا۔ بس لے دیکر اس کی جھولی میں یا تو غزلوں کے دیوان تھے یا قصہ کہانیاں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جب انگریزوں کی تجارت سارے ہندوستان کا احاطہ کرنے لگی تو انہوں نے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریز گماشتوں کو تعلیم کی غرض سے اردو کو نصاب میں داخل کردیا۔ ایسا کرنے میں انہیں یہ سہولت تھی کہ ملک کے ہر ایک حصہ کی مقامی بولی سیکھنے کے بجائے ایک عام ہندوستانی زبان مل گئی۔ اس لیے انہوں نے اسی کو سیکھا۔ اب اردو کی خوبیوں کو آشکارا ہونے کا یہ اچھا موقع آیا۔ غرض کالج نے باشندگانِ ہند سے ہندوستانی شکل میں اردو کاتعارف کرایا۔ اور یہ ایسے ہی تسلیم ہوا جیسے ایک مسلمہ صداقت کی دوبارہ تائید ہو۔ خلاصہ یہ کہ ہندوستان کے باشندوں کی تویہ زبان ہی ٹھہری غیرملکیوں نے بھی اسے ہندوستانی سمجھ کر سیکھا۔ کالج کے لیے درسی کتابوں کی جو ہندوستانی زبان (اردو) میں ہو ضرورت تھی۔ اور تلاش کرنے سے دو ایک سے زیادہ نہ مل سکیں تو کالج کے پرنسپل مسٹر جان گلکرسٹ نے اردو دانوں کو تلاش کیا۔ ملک کے ہر حصہ سے اچھے منشی و انشا پرداز کلکتہ میں جمع ہونے لگے۔ میرامنؔ دہلوی، بہادرؔ علی حسینی۔ کاظم علی جوان۔ شیر علی افسوسؔ۔ منشی سدا سکھ وسیل مصر، پنڈت للو لال جی نے تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا۔ ان تمام مصنفین اور مؤلفوں کے لیے ایک عام ہدایت تھی یعنی یہ کہ عبارت صاف ہو۔ اور دِقت آفرینی اور لفظی شکوہ سے احتراز و پرہیز کیا جائے۔ تکلف پسند مصنفین کو سخت دقتیں پیش آئیں مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ چار وناچار طبیعتوں کو سادگی پر مجبور کیا اور سادہ نگاری کی مثالیں بہت سی نظر آنے لگیں۔ اس عہد کی بعض کتابیں سادہ نگاری سے کوسوں دور ہیں۔ مثلاً پنڈت للوجیؔ لال کی تصنیف ’پریم ساگر‘ اور ’خزینہ دانش‘ اور اس کے مقابلہ میں منشی سداؔسکھ اور میراؔمن کی تحریروں پر موجودہ عہد کی سادہ نویسی بھی قربان ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو مسٹر جان گلکرسٹؔ کو صیغہ تصنیف و تالیف کے جانچ پڑتال کازیادہ موقع نہ تھا یا یہ حضرات بالطبع پیچیدہ لکھنے اورسجع نویسی کے عادی ہوچکے تھے اور باوجود کوشش راہ راست یا حد مقررہ تک نہ پہنچ سکے۔ 

    یہاں تک زبان کے تعمیری پہلو کو آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا۔ مگرتعمیر کے پیچھے پیچھے تخریب کا ڈنڈا بھی چلتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین اس معاملے میں اور بھی زرخیز ہے۔ یہاں تعمیر کے ساتھ ساتھ تخریب فوراً جلوہ گر ہوتی ہے۔ کانگرس کے جواب میں اینٹی کانگریس، اسکاؤٹنگ کے جواب میں اینٹی اسکاؤٹنگ نمودار ہوئی تھی۔ چنانچہ ملک کی فطری زبان کے مقابلے میں اسی وقت ایک غیرفطری اور مصنوعی زبان بھی ظہور میں آئی۔ جب فورٹ ولیم کالج میں اردو دانوں کی قدر ہوئی تو تنگ نظری نے حسد کی آگ کو بھڑکایا۔ اور جس ذہنیت نے ہندوستان کو صدیوں غلام رکھا تھا وہ ایک نیا روپ بھر کر نمایاں ہوئی۔ اردو کے مقابل ایک زبان وضع کی گئی۔ اور چن چن کر مروج فارسی و عربی الفاظ کے بدلے سنسکرت کے غیرمروج الفاظ رکھے گئے۔ اور ذرا بھی نہ سوچا گیا کہ ایک مشترکہ زبان جو ہندو مسلم کی متفقہ کوششوں کا ثمر، اتحاد و یکجہتی کی جان اور قومیت و وطنیت کی شان ہے اس کے گلے پر چھری پھر رہی ہے۔ آزادیِ ہند کا دشمن درحقیقت اس سے بڑا کوئی نہیں جس نے زبان میں تفریق و تمیز کی۔ ہندی کی پیدائش اس طرح اردو کے مقابل میں ہوئی۔ یہ زبان پہلے بھاشا کہلائی پھر ناگری اور آخر میں ہندی سے موسوم و معروف کی گئی۔ اس لیے اس جذبۂ رشک اور تنگ نظری کے ساتھ ہندی کی تاریخ پیدائش انیسویں صدی کا آغاز ہے۔ فورٹ ولیم کے مصنفین میں سے اکثر اس جذبہ کے شکار تھے۔ ورنہ زبان میں اس قدر چوڑی خلیج حائل نہ ہوتی۔ 

    اس وقت سے اردو، ہندی (قدیم ہندی سے میری مراد نہیں ہے وہ تو اردو ہی کا ابتدائی نام تھا۔ ) دونوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اب تک غیرفطری رجحانوں کی کوئی سوسائٹی یا انجمن نہ تھی۔ مروجہ زبان کے خلاف چیخ پکار ہوئی اور پھر اکثریت جب صداقت پر مائل ہوئی تو پرانی لکیر چھوٹ گئی۔ مگر اب حالات کچھ بدل چکے تھے۔ ملک میں ہندی اور اردو کی بحث اس وقت اور زور پکڑ گئی جب انگریز رپورٹروں اور تحقیقاتی کمیشنوں نے فارسی کے بجائے اردو کو دفتری زبان بنانے اور ذریعہ تعلیم تسلیم کرانے کی سفارشیں کیں۔ اردو جب عدالتوں میں اور مدرسوں میں رائج ہوگئی تھی۔ تنگ نظروں کو یہ کھٹکنے لگا۔ عاشقِ ناشاد کی طرح اپنے ہی گریبانوں پر رشک کرنے لگے۔ 

    اردو یا ہندوستانی کی بنیاد زبان عوام پر تھی اس لیے اس کے سمجھنے والے اور بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ملکی فطری رجحان طبع نے تین تحریکیں نمایاں کیں جن سے اردو فرش سے عرش پر جاپہنچی۔ ان تحریکوں میں فرقہ وارانہ بساند کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ ہر مذہب و ملت کے لوگ شریک تھے۔ پہلی تحریک جو فورٹ ولیم کالج کے بعد پیدا ہوئی وہ دہلی کالج سے وابستہ تھی۔ یہ کالج دہلی میں وسیع پیمانے پر کھولا گیا تھا۔ اس کاذریعہ تعلیم اردو تھا۔ علمی کتابوں کے ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے جاتے تھے۔ اور اس کی تعلیم بھی ترجمے کے ساتھ ساتھ جاری تھی۔ کالج نے بڑاکام کیا۔ اس کے پرنسپل ڈاکٹر بتروسؔ اور اسپرنگو اور ان کے لائق پروفیسر رامؔ چندر اور پیارے لال، مولوی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزادؔ کی بدولت اردو علمی زبان بن گئی۔ ہندی کو اس کالج میں روادارانہ جگہ ملی۔ اور ہر فارسی، عربی پڑھنے والے طالب علم کا ہندی سیکھنا و نیز سنسکرت لینے والے طالب علم کا اردو سیکھنا ضروری تھا۔ جس سے ہندی سے کالج کا ایک طالب علم بھی بیگانہ نہ تھا۔ یہ کالج موجودہ تعلیمی مسائل کے لیے ایک عمدہ نمونہ ہوتا۔ افسوس کہ زمانے نے اس کو حرف غلط کی طرح مٹانا چاہا مگر عثمانیہ یونیورسٹی نے اس کی یاد تازہ کردی ہے اور انہیں مقبول عام اصولوں پر سب کے لیے یکساں مفید ثابت ہو رہی ہے۔ اس کالج کی برکتیں ہندوستان کو کیا کیا نصیب ہوئیں، پوری پوری جب معلوم ہوں گی جب مولوی عبدالحق صاحب مدظلہٗ کی پوری تصنیف ’’مرحوم دہلی کالج‘‘ کامطالعہ کیا جائے۔ 

    اس سلسلے میں ہندی کے حماتیوں نے کیا کیا، اس کی پوری تفصیل اس مضمون سے ہوتی ہے جو ’ہندی شبدساگر‘ کے خاص رکن پنڈت رام چندر مشکلؔ نے دیباچے میں ہندی ادب کی تاریخ کے عنوان سے لکھا ہے اور جو اب علیحدہ کتاب کی صورت میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ ہندی گد (نثر) کا بِکاس (نشوونما) کے سلسلے میں آپ نے ان تمام کوششوں کو سراہا ہے جن کی بدولت ہندی کو اردو کے پہلومیں جگہ دی گئی۔ حکومت کے سامنے کتنے وفد کتنے ڈیپوٹیشن ناکام رہے اس سے واضح ہوتاہے۔ حکومتِ ہند، ہندی کو زبان کا مرتبہ اس لے نہ دیتی تھی کہ نہ تو وہ عہد حاضر کی زبان تھی اور نہ قرونِ وسطیٰ ہی میں کبھی بولی جاتی تھی۔ سر چاروڈ اور سرچارلس ٹرلولین، جنہوں نے سارے ہندوستان کے دیہات اور قصبوں اور شہروں کادورہ کیا تھا، اپنی سرکاری رپورٹوں میں ہندی کو دہقانی بولی اور اردو، دکنی یا ریختہ کو ہندوستانی زبان تسلیم کیا تھا۔ ہندی کے ہنگاموں میں شورش اور جذبات دیکھ کر گورنمنٹ نے اسے اکثر صوبوں میں جگہ دے دی۔ محکمہ تعلیم کے افسروں اور ڈائرکٹروں نے گورنمنٹ کی اس غلطی کو آشکارا کرنے میں کوئی سنکوچ نہ کیا۔ انہوں نے اپنی سالانہ رپورٹوں اور پرائیویٹ چٹھیوں میں اس پر تاسف کیا۔ مسٹر ہارول ڈائرکٹر صوبہ مغربی اور شمالی۔ کرنل ہالرائڈ ڈائرکٹر صوبہ پنجاب، مسٹر کمسنؔ نے اردو کے مقابل ہندی کی ترویج و اشاعت سے نہ صرف کہ یہ اختلاف رائے کااظہار کیا بلکہ زبان کی اس تفریق سے انہیں کافی صدمہ پہنچا۔ ان مستند شہادتوں کو میں نے ایک دوسری جگہ پر ’’مستند شہادتیں‘‘ کے عنوان سے جمع کیا ہے۔ یہاں صرف مسٹر ہارولؔ کاخط نقل کرتاہوں جو انہوں نے موسیوگارساں ڈی ٹاسی محقق مشرقی زبان کی خدمت میں لکھا تھا، 

    ’’آپ نے اپنے خطبات میں جو خیال پیش کیا ہے میں اس سے بالکل متفق ہوں۔ اردو کو ہندی پر فوقیت حاصل ہے۔ بحیثیت اپنے فرائض کے بجاآوری کے سلسلے میں میں نے ہر ممکن موقع پر اردو کی توسیع و ترقی کے لیے حمایت کی ہے اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں قومی زبان کہلانے کی مستحق ہے۔ اس سے میری مراد وہ زبان ہے جو خاص و عام کی سمجھ میں آتی ہے۔ اس بارے میں مسٹر کمسنؔ جو صوبہ مغربی و شمالی میں سرشتہ تعلیم میں سب سے اعلیٰ عہدیدار ہیں، بڑی حدتک میرے ہم خیال ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ابتدائی مدارس میں یہ طریقہ رائج ہوگیا ہے کہ اردو یا ہندی میں سے کسی ایک کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے۔ چونکہ اکثریت ہندو طلبہ کی ہے اس لیے ہندی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ مسلمان اوربعض ہندو جن کی مادری زبان اردو ہے، اردو کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرے خیال میں اردو ہندی کی تفریق قومی نقطۂ نظر سے سخت نقصان رساں ہے۔ یہ زیادہ بہتر ہوتا اگر ہندو بچوں کو اردو سکھائی جاتی۔ بجائے اس کے کہ انہیں اس بولی میں اظہارِ خیال کی مشق کرائیں جو بالآخر ایک دن اردو کے آگے اپنا سرِتسلیم خم کرے گی۔‘‘ 

    (از خطبات گارساں۔ دی ٹاسی۔ مطبوعہ انجمن ترقی اردو۔ اورنگ آباد۔ دکن) 

    ہندی کے حامیوں میں اس وقت ایسی ہستیاں کمیاب تھیں جن کی نگاہ ہندومسلم آمیزہندوستانی کلچر پر ہو۔ تنگ نظری نے ان کا مقصد زمانہ قدیم کی تہذیب کااحیا رکھا۔ اس لیے مروجہ زبان ان کی نظروں میں قابل قدر نہ تھی۔ انہوں نے اس کا روپ تو عہد فورٹ ولیم ہی میں بدلاتھااب اس کا ادب بھی ہندوستانی کہہ کر ہندوانی بنادیا گیا۔ اور ہندی کاناتا دھرم سے جوڑ کرعلانیہ اس خیال کی اشاعت کرنے لگے۔ اس وقت اس جماعت کایہ عام مسلک تھا کہ ’’ہندی نہیں جانے اسے ہندو نہیں مانے‘‘ معقول پسندوں اور معتدل راہ اختیار کرنے والوں کو، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے، اس تحریک سے دلچسپی نہ تھی۔ وہ خاموش اپنا کام کر رہے تھے۔ رواداری ان کامسلک تھا۔ یہ قضیہ ہندی و اردو لکھتے لکھتے میں اپنے ضمیر کو پراگندہ اور غیرمطمئن پاتا ہوں مگر حیرت ان لوگوں پر ہے جو اردو کو ہندی کا (جس کی بنا ہی ہندو نوازی پر پڑی) جو اب اور مسلمانی زبان کہہ کر پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ’’ہندی لٹریچر‘‘ مصنفہ ایف۔ اے۔ کے۔ سے میرے بیان کی تصدیق ہوتی ہے، 

    ’’جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں شمالی ہندمیں ہندی کی بہت سی بولیاں بولی جاتی تھیں مگر ان لوگوں میں جو فارسی نہیں جانتے تھے شائستہ گفتگو کا ذریعہ اردو تھا۔ اردو میں بہت سے الفاظ فارسی عربی سے مستعار لیے گئے تھے جن کا تعلق اسلام سے تھا اس لیے ہندی بولنے والوں کے لے ایک ادبی زبان کی ضرورت محسوس ہوئی جو زیادہ تر ہندوؤں کو مرغوب ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو کو لے کر ایک زبان بنائی گئی اور اس میں سے عربی فارسی کے الفاظ خارج کرکے ان کی بجائے سنسکرت یا ہندی الاصل الفاظ داخل کیے گئے۔‘‘ 

    راجہ شیوؔ پرشاد صاحب چونکہ محکمہ تعلیم میں ایک عرصے تک رہے۔ انہیں ہندی کی تصنع او ربناوٹ کا کچھ تو بذات خود اندازہ ہوا۔ دوسرے چونکہ وہ ڈپٹی انسپکٹر ہونے کی حیثیت نے تعلیمی رپورٹوں اور تجویزوں سے زیادہ باخبر تھے، انہوں نے ہندی میں فارسی عربی لفظوں کو اس قدر جگہ دی کہ سوائے رسم الخط کے ان کی تحریروں اور اس عہد کی اردو اسلوبِ بیان و تراکیب الفاظ میں مطلق فرق نہیں معلوم ہوتا۔ اس طرح ہندی اپنی راہ بھول کر اردو سے جاملی۔ مگر راجہ لکشمنؔ سنگھ اور ہریش چند نے سخت نکتہ چینی کی اور ’’بشدھ ہندی‘‘ یعنی سنسکرت آمیز ہندی کے نمونے بکثرت دے کر ہندی کواردو سے بہت دور کردیا۔ 

    اس عرصے میں اردوایک رفتار سے برابر آگے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ سائنٹفک سوسائٹی ملکی، تمدنی اور خاص کر اقتصادی الجھنوں کو لے کر وجود میں آئی اور بعد کو علم و اخلاق بھی اس کااعلیٰ مقصد ہوگیا۔ اس سوسائٹی کے بانی مبانی سرسید مرحوم تھے۔ جن کی اعتدال پسندی، رواداری اور بے لاگ کوششوں سے ہندو، مسلمان، عیسائی ان کے رفیق کار بنے۔ اس دوسری تحریک نے علم و ادب و سیاست و اخلاق ہر موضوع پر اپنی توجہ صرف کی جس کی بدولت اردو علمی حیثیت سے آگے نکل کر سیاست کے لیے ایک عمدہ زبان بن گئی۔ ہندوستان کے ادب کا رنگ بدلا۔ وسعت پیدا ہوئی اور ایک خاص لیک پر چلنے کی عادت بھی کم ہوئی۔ سوسائٹی کے رسالے تہذیب الاخلاق کا اثر نہ صرف اس سوسائٹی کے ممبروں پر پڑا بلکہ دوسرے اخبارات اور رسالوں نے بھی وہی راستہ اختیار کیا۔ سادگی عام مذاق کی حیثیت سے اس وقت کے ادب میں مسلم ہوئی۔ اور مغربی علوم سے جو وحشت ہمارے سماج کو تھی قدر کم ہوئی۔ اس طرح سائنٹفک سوسائٹی نے نہ صرف اردو زبان میں بلکہ اس زبان کے بولنے والے ہندو مسلمانوں میں روشن خیالی، آزادی رائے اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھنے اور اسے قبول کرنے کے رجحانات پیدا کیے۔ 

    تیسری تحریک اورینٹل کالج لاہور سے متعلق ہے، اس کالج کا مقصد محض تعلیم و تعلم نہ تھا۔ اس نے ایک صیغۂ تصنیف و تالیف بھی قائم کیا تھا۔ اس کی ابتدا سائنٹفک سوسائٹی کی طرح ایک ایسی انجمن سے ہوئی تھی جو علمی و تاریخی معلومات کو عام کرنا چاہتی تھی۔ اسی کی کوششوں سے یہ کالج قائم ہوا تھا۔ آگے چل کر انجمن کے مقاصد کالج نے اپنے سر لے لیے۔ سائنٹفک سوسائٹی کی طرح اس کے دائرہ عمل میں وسعت و ترقی تو نہ ہوئی مگر تصنیف و تالیف کے سلسلے سے عربی و فارسی و انگریزی کے ترجموں سے اردو کو بڑھایا۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں سے ہمدوش ہوگئی۔ اب وہ موجودہ صورت میں برابر بڑھتی ہوئی بہت آگے نکل چکی ہے۔ 

    اردو کی ترقی اہل ملک کے لیے اُسی طرح یکساں مفید تھی جیسے سورج کی روشنی، ہوا اور پانی۔ مگر جو بیج انیسویں صدی کے شروع میں بویا گیا تھا، اس کی بھی ایک محدود حلقے میں پرورش ہو رہی تھی۔ اردو کی ترقیاں اس جماعت کو کھٹکتی رہیں۔ ناگری پرچار کی ناٹک منڈلیاں، ناگری پرچار کی سبھائیں قائم ہوئیں۔ زور شور سے ہندی پرچار کے لیے اردو کی تخریب شروع ہوگئی۔ کسی نے کہا کچہریوں میں ہندی کو جگہ دلانے سے اس کی ترقی ہوگی۔ کسی نے کہا اردو جب تک رہے گی یہ پنپ نہیں سکتی۔ کسی نے کہا بڑا غضب ہے کہ اردو رتو ایسا ریڑھ مار رہی ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ ایک صاحب نے تو تقریباً ۳۰۰ صفحوں کی ایک کتاب لکھی اور رسم الخط پر آٹوٹے۔ مثلاً، 

    ریل، ریل اُردو میں ایک
    ایک بات ہے ٹھیک اور ٹھیک

    کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اس عیب جوئی کو براسمجھا۔ اور ہندی کی سچی خدمت انہیں اردو والوں کی تقلید میں نظر آئی۔ پنڈت مہابیر پرشاد دویدی نے خواجہ الطاف حسین حالیؔ و مولانا نذیر احمد صاحب کی کوششوں کی طرف ہندی کے طرفداروں کو توجہ دلائی۔ او رمقدمہ شعر و شاعری و آب حیات سے استفادہ کرنے کے لیے ہندی کے والنٹیریوں سے اپیل کی۔ اور اپنی تصنیف ’’رسگیہ رنجن‘‘ میں مقدمہ شعر و شاعری کے اکثر حصے ترجمہ کرکے پیش کیے۔ زبان بھی عام فہم بنانے کے خیال سے فارسی و عربی سے فیض حاصل کرنے لگے۔ مگر بنیادی مقصد جو بھولتا نظر آیا تو پھر ’’بشدھ ہندی‘‘ نویسی پر مائل ہوگئے۔ اور کہیں اوسط راہ اختیار کی۔ اس طرح اس عہد کی ہندی تحریریں تین قسموں میں رکھنی پڑیں۔ ہندی سدھار کا مجاہد اعظم یعنی مہابیر پرشاد دویدی بھی اپنی ہندی تحریر کو اس تقسیم سے نہ بچا سکا۔ یعنی یک رنگی کے بجائے ان کی ہندی بھی ترنگی نظر آنے لگی۔ 

    پہلا رنگ: جس میں ہندی الاصل الفاظ ہوں۔ (مطابق پروگرام) اس کانام بشدھ ہندی رکھا گیا۔ 

    دوسرا رنگ: وہ ہندی جس پر اردو کا سایہ ہے۔ اس کا نام ہوایشرت ہندی۔ 

    تیسرا رنگ: وہ ہندی جو باوجود کوشش اور طبیعت پرزور ڈالنے کے بھی صاف نہ ہوئی۔ اور اردو سے مشابہ ہے۔ 

    ہندی کو خالص ہندی الاصل بنانے کی کوشش شروع ہی سے ہندی دانوں کے طبقہ ہی میں معرض بحث میں پڑگئی تھی۔ فارسی عربی لفظوں کا استعمال بول چال میں ہوتا ہی تھا۔ قلم اٹھاتے وقت بھی وہ فوراً حاضر آتے تھے۔ اس لیے پنڈت بھیم سینؔ نے اس سے بہت پیشتر یہ تجویز پیش کی کہ ایسے لفظوں کو اب ہم لوگ سنسکرت کے ڈھانچے پرڈھال سکتے ہیں۔ مروّج فارسی و عربی لفظوں کی ایک لمبی فہرست مع اس کے بدل الفاظ کے پیش کی۔ یہ جدت ہندی دانوں کی ذہنیت کا پتہ دیتی ہے کہ وہ اپنی زبان کو اردو سے کیوں نہیں ملنے دیتے۔ 

    آپ فرماتے ہیں کہ، 

    (۱) چشمہ کو جو آنکھوں پر لگایا جاتا ہے اس آنکھ کی نسبت سے چکچھا (چکھ۔ آنکھ) کہا جائے۔ 

    (۲) سفارش کا ترجمہ نہیں قلب ماہیت ’’چھپڑ آشش‘‘ سے کیا جائے۔ 

    (۳) انتقال کا بدل انت کال یعنی دم آخر ٹھہرایا جائے۔ 

    مگر ہندی کے اس پرجوش حمایتی کی غیرمعمولی اور نرالی سوجھ نہ تو قابل عمل ہوسکی اورنہ قابل قدر متصور ہوئی۔ کیوں؟ اس بارے میں اس وقت کے زبردست یورپین مستشرق کی رائے نقل کرتا ہوں جو نہایت ضبط و تحمل سے ان تماشوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے خطبہ ۱۸۶۶ء میں لکھتا ہے، 

    ’’میرے خیال میں اردو کے مقابلے میں ہندی کی جانب توجہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے آج کل کی جدید یونانی کے بجائے قدیم یونانی کی طرف توجہ کی جائے۔ تعجب اس پر ہے کہ (اردو کی مخالفت بھی ہے اور۔۔۔ چراغ علی) اردو کی تصانیف بھی دیوناگری رسم الخط میں چھاپی جارہی ہیں۔ چنانچہ ابھی حال میں دیوان نظیرؔ اور میر حسنؔ کی مثنوی سحرالبیان اور دوسری تصانیف جن کی زبان خالص دہلی کی ٹکسالی زبان ہے دیوناگری کے رسم خط میں طبع کی جارہی ہیں۔۔۔ مسٹر جے . بیمز نے کلکتہ کی ایشیاٹک میں جو مضمون لکھا ہے اس میں اس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔۔۔ موصوف اپنے سات سال کے تجربے کی بنا پر کہتے ہیں کہ اردو ہندوستانی کی مہذب ترین شکل ہے، اس میں اعجاز و فصاحت بدرجہ اتم موجود ہے۔ موصوف نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ دوآب گنگا کے رہنے والوں کی گھٹی میں یہ زبان شامل ہے۔ انہیں اس سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اردو سے عربی فارسی الفاظ کو خارج کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ انگریزی زبان سے لاطینی زبان نکالنے کی کوشش کریں اور چاہیں کہ اس میں صرف سکسن اصل کے الفاظ باقی رہیں۔۔۔ زبانیں اس طرح ارادہ کرنے سے نہیں بنائی جاتیں۔ زندگی کی ضروریات سے ان کی ساخت میں تغیر و تبدل ہوسکتا ہے۔ سیاسی فتوحات۔ تجارتی تعلقات، ادبی اور علمی ضرورت سے زبان میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس میں الفاظ داخل ہوتے ہیں۔ 

    قابل مضمون نگار نے بڑی خوبی سے یہ بات بتائی ہے کہ جس طرح انگریزی میں المانی اور لاطینی عنصر موجود ہیں اسی طرح اردو میں آریا اور سامی یا اسلامی عنصر موجود ہیں۔۔۔ ایم.بیمز کا خیال ہے کے اردو میں عربی فارسی سے جو الفاظ مستعار لیے گئے ہیں وہ مطالب کو بہ نسبت دیسی الفاظ کے زیادہ اچھی طرح واضح کرتے ہیں۔۔۔ اگر دوسری زبانوں کے الفاظ مستعار لے کر کام نکل سکتا ہے تو لمبے لمبے غیرمانوس الفاظ تراشنے سے کیا فائدہ۔ بنگالی میں الفاظ تراشنے کا کام ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے اس زبان کو کوئی خاص ترقی حاصل نہ ہوئی۔ ہندوستانی (اردو) ہر جگہ بنگالی کے مقابلے میں کامیاب نظر آتی ہے۔‘‘ 

    حقیقت سات پردوں سے آشکار ہوکر رہتی ہے۔ حقیقی اور زندہ زبان کی خوبیوں پر جتنا بھی پردہ ڈالا گیا وہ اور نمایاں ہو اٹھتی ہے۔ اس پر جو اعتراض کیے جاتے ہیں وہ الٹ کر معترض پر پڑجاتے ہیں۔ یہ زندہ زبان کامعجزہ ہے۔ یہ ہے چپ کی داد۔ 

    بہاری کا یہ دوہا اس موقع کے حسب حال ہے، 

    ساجے موہن موہ کو موں ہی کرت کیچن
    کہا کروں اُلٹو پرے ٹونے کونے نین
    مجہول مجہول

    اپنی منقاروں سے خود کستے ہیں پھنداجال کا
    طائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کا

    زندہ زبان میں ایک کشش ہوتی ہے جو ذوق و نظر کو خودبخود دعوت دیتی ہے۔ اردو میں وہ کشش موجود ہے جن کی آنکھیں حقیقت کو دیکھ کر بند نہیں ہوجاتیں وہ اس کو اپنی پیاری زبان سمجھ کر اس کی تخریب نہیں کرتے۔ اور اپنی وسعت کے اندر خدمت بھی کرتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ بھی ہیں جن کی نگاہ محض عیبوں پر پڑتی ہے یا وہ خوبیوں کو پی جاتے ہیں۔ عصبیت نفرت پیدا کردیتی ہے تب دوسروں کی تو سنتا نہیں اپنی بے تک سنائے جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی ہوا کچھ ایسی بگڑ رہی ہے کہ بلا استثناء ہندو مسلمان اس قسم کے مرض میں گرفتار ہیں۔ پھر وہ سچائی کے گھاٹ نہیں لگتے۔ انہیں تصویر کا ایک ہی رخ دکھائی دیتا ہے۔ اردو سے نفرت رکھ کر کرکترائے پھرنے والے بھی اس مرض کے بری طرح شکار ہیں۔ وہ ایسی عبارت کو جو اردو رسم الخط میں ہو ہاتھ نہیں لگاتے، بھلا حقیقت سے کیونکر آشنا ہوسکتے ہیں۔ 

    جن لوگوں نے اردو ادب و لٹریچر کو پڑھا، دیکھا اور اس پر غور کیا وہ اس کی سہولت اور سادگی کے مداح ہیں۔ اور زندہ زبان کی ان خوبیوں سے جس سے وہ زندہ ہے ہندی میں بھی روح پھونکنا چاہتے ہیں۔ پنڈت رام نریش ترپاٹھی اپنی ’’کبتا کو مدی کی بھومکا‘‘ (دیباچہ) میں لکھتے ہیں، 

    ہندی بحروں میں اردو کی پیروی کرنے کی صلاح
    ’’ہندی کب کو ایسا سوبھاگ نہیں پراپت (حاصل) ہے۔ اس کے سامنے بڑا بندھن ہے جو روڑا جیسا ہے اسے بلا کانٹ چھانٹ کیے ویسا ہی جمانا پڑتا ہے، اسے ذرابھی کانٹ چھانٹ کرنے کا ادھکار نہیں ہے وہ آنند (اول نون مفتوح اور دوسرا ساکن ملفوظ) کو آنند (دوسرا نون غنہ) بھی نہیں کرسکتا۔ اس کے پاس کی زمین بڑی اوبڑ کھابڑ ہے اسی میں ہوکر اس کا سنکرا راستہ ہے۔ اُردو کویوں نے اس تکلیف کو سمجھا ہے۔ انہوں نے کچھ اونڈتا (بے جا تصرف) سے کام لیا ہے۔۔۔ (تقطیع میں حروف کے گرجانے پر بلاوجہ ناک بھوں سکیڑنے کے بعد) اب ایسا کرنے کے لیے ہندی کے کچھ کَب اردو والوں ہی کاراستہ پکڑنا چاہتے ہیں۔‘‘ 
    (ہندی ساہتیہ کا سنچھپت الناس) 

    ہندی نثر میں اردو کے اسلوب بیان اختیار کرنے کی سفارش
    جب ہندو مسلمانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو ایک کو دوسرے کی بیش پھوشا (بھیس بھاؤ، وضع قطع) سے نفرت کیوں ہونی چاہیے۔ پرتیک (ہرایک) ہندو کواردو سیکھنی چاہیے اور پرتیک (ہرایک) مسلمان کو ہندی۔ میری تو درڑھ دھارڑا (اٹل رائے ) ہے کہ کوئی بھی بیکنت (شخص) اردو جانے بنا ہندی کا سییکھک (اچھا انشاپرداز) نہیں ہوسکتا۔ اب تک اردو کی بھاشا شیلی (اسلوب بیان) کئی انشوں میں ہندی سے بڑھ کر ہے۔ اردو میں محاوروں کاجیسا سندر پریوگ (عمدہ استعمال) ویسا ہی لیکھک کرسکتے ہیں جو اردو جانتے ہوں۔‘‘ اس لیے ثابت ہوا کہ ہندی اردو سے گلے ملنے کو لپکتی رہی ہے اور ایک ہی دور میں مختلف قسم کی نگارش کے نمونے ملتے ہیں۔ بیسویں صدی میں کچھ ادیب اس قسم کے ہوئے جن کا تعلق اردو ہندی دونوں سے رہا و نیزانگریزی ادب کا پرتو دونوں پر یکساں پڑنے لگا اور ایک زبان عام بنانے کی فکر ہوئی۔ چندرشیکھر گولیری اور مرحوم پریم چند، سدرشن نے ہندی کی قدامت پسندی کی علانیہ عملی مخالفت کی۔ بشن ناتھؔ در اور بالمکند کپت نے بہت کچھ ہندی کو اردو سے ہم آہنگ کردیا مگر کاشی کی ناگری پرچارنی سبھاکے زاویہ نگاہ میں کچھ ایسی تبدیلی ہوئی کہ ’’بشدھ ہندی نویسی‘‘ کاجذبہ طوفانی بن گیا۔ وہ تحریریں نظروں سے گرگئیں جس میں دوست کے بدلے متر، یا کے بدلے اتھوا، اگر کی جگہ یدی۔ لیکن کے بدلے کِنتو، گاؤں کے بدلے گرام، شہر کے بدلے نگر، کام کے بدلے کاریہ، اور میٹھے کے بدلے مردُ کااستعمال نہ ہو۔ ناگری پرچار کے سلسلے میں قدامت پرستی کی خوب خوب اشاعت ہوئی۔ آلو امریکہ سے آکر ہندوستان میں پھیل گیا۔ ہندی نے اقصائے ہند میں اپنی شاخیں کھول دیں۔ اپنے اسٹور اس نے ہندی، ساہتیہ سملین اور ناگری پرچارنی سبھاکے نام سے اسی طرح ان دراوڑی حلقوں میں بھی کھولے ہیں جہاں آریائی عنصر سے زیادہ اسلامی تہذیب کے عناصر نے نقش قائم کردیا ہے۔ کاش کہ ان مجلسوں کا مقصد زندہ زبان کی اشاعت و رواج ہوتا۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے کہ اردو ہی اصل ہندی ہے، ہندی آگے نکل چکی ہے۔ قدامت پسندی عہد طفولیت کو قائم رکھنے کی مضحکہ انگیز کوشش کر رہی ہے۔ قدامت پسندی ہی ہے جو کبھی ہندوستانی کے بدلے بھارت ساہتیہ پرشد میں ہندی۔ ہندوستانی کابے معنی مرکب لفظ وضع کراتی ہے۔ جو بچہ پنج سالہ سے بڑھ کر تیس سالہ جوانوں میں داخل ہوچکا ہو ناممکن ہے کہ اس کا بچپن واپس لایا جائے۔ 

    نورنامے کی بحر متقارب کی مثنوی کانام ہندی ہی تھا۔ اردو رسم الخط اور اردو بحر میں لکھا گیا تھا۔ اب بھی ان کی پرانی اردو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ خسروؔ کے تمام کارنامے جو فارسی زبان میں نہ تھے ہندی ہی سے موسوم ہیں جو اردو کی ابتدائی شکل ہے۔ مصحفیؔ اور انشاؔء نے بھی ہندوستانی زبان کو اکثر ہندی کہا۔ جب ہندی کی مختلف بولیوں میں اس ہندی کو فروغ ہوااور وہ ممتاز ہوگئی اس وقت اس کانام بدلا۔ پہلانام بھی ہماری زبان کا صفاتی تھا ذاتی نہ تھا۔ اور دوسرا نام زبان ریختہ۔ زبان اردوئے معلیٰ شاہجہان آباد تھے۔ جو مختصر ہوتے ہوتے اردو ہوکر رہ گیا۔ اور آخیر میں ہندوستانی کانام بھی صفاتی ہی ہے۔ ہماری زبان نے ترقی کی منزلیں قدرت کے اٹل قانون کے مطابق طے کی ہیں۔ ہندی نام اگر ایک مخصوص معنی میں مشہور نہ ہوگیا ہوتا تو یہ لفظ ہندی ہندوستانی سے بہتر ’زبانِ ہند‘ پر اشارہ کرتا۔ مگر سب سے عمدہ فیصلہ انڈین نیشنل کانگریس کاتھا کہ ہندوستان کی زبان ہندوستانی کے نام سے موسوم ہوگی خواہ ناگری رسم خط میں ہو یا فارسی رسم خط میں۔ ’’بھارتیہ ساہتیہ پریشد‘‘ کا کانگریس کے فیصلہ کو نہ ماننا صاف ظاہر کرتاہے کہ ہندی، ہندوستانی کی کسوٹی پر صحیح نہیں اترسکتی۔ جبھی تو باوجود اس کے جناب مولوی عبدالحق صاحب نے جب پریشد کے اس ریزولیوشن کی ترمیم کی معقول وجہیں پیش کرکے مہاتما گاندھی جی کو ریزولیوشن میں زبانِ ہند کے اسم نویسی اور نقص بتاکر لاجواب کردیا تو انصاف کے بجائے انہیں طاقت کو کام میں لانا پڑا۔ اور اُنہوں نے کہا، 

    (۱) کانگریس کے ریزولیوشن میں نے بنائے تھے۔ 

    (۲) میں نے اس کے (ہندی اتھوا ہندوستانی) کے معنی سمجھادیے ہیں جو آپ نے ہنسؔ کی تحریروں میں دیکھے۔ 

    (۳) میں ہندی کو نہیں چھوڑسکتا۔ مجھے ہندی سمیلن کے ساتھ ساتھ چلناہے۔ 

    اور جب اس پر موصوف نے مہاتما جی سے کہا کہ آپ نیشنل کانگریس کے فیصلہ کے ساتھ کیوں نہیں چلتے توجواب میں فضا کی خاموشی تھی۔ حالانکہ وہاں کانگریس کے سینکڑوں افراد اور تین تین صدر موجود تھے۔ گاندھی جی کی خاموشی سے تو مجھے تعجب نہیں مگر دیش کے مایۂ ناز سپوت جواہرؔ لال کی خاموشی حیران اور ششدر کردیتی ہے۔ گاندھی جی کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ یہ بھی ہے کہ اگر ریزولیوشن میں تنہا، ہندوستانی کالفظ رکھا گیا تو اس کامطلب اردو سمجھا جائے گا۔ اس سے ہندی کی کمزوری صاف ظاہر ہو رہی ہے۔ اور یہ بھی روشن ہوجاتا ہے کہ اردو، ہندوستانی کی کسوٹی پر صحیح اترتی ہے۔ اسی خطرے نے ہندی ہندوستانی کاجدید مرکب لفظ وضع کرایا ہے۔ 

    اس طرح ہم دیکھ رہے ہیں ہر دور میں تعمیری اورتخریبی کوششیں ہندی کو ٹیڑھی میڑھی رفتار سے آگے بڑھا رہی ہیں اور اس کشمکش میں بازی قدرت کے ہاتھ رہی ہے اور انسانی کوششیں قدرتی زبان کے آگے جھک رہی ہیں۔ آخر اس ہندی کو ہندی ہندوستانی بنانے میں بھی قدامت پسندی کا زور کچھ نہ کچھ ٹوٹا ہی ہے۔ اخباروں میں ’’پرارمبھک شکشا‘‘ کے بدلے کاکا کالیکر کی وار دھا مشنیری کے ڈھلے ہوئے لفظوں میں سے پارتھمک تعلیم کا بدل سامنے آچکا ہے۔ نئی سوجھ بوجھ کی نرالی ترکیبیں کم سے کم اتنا تو ضرور کریں گی کہ چار چار انگل کے ساسک مرکبات ہندی سے اڑجائیں گے۔ اور اگرہاتھی کے د انتوں کی طرح محض دکھلانے کے لیے ہیں تو پھر ڈھول کی پول کھولنے والے ہندی حلقہ سے نمایاں ہوں گے۔ اور درحقیقت زبان کا سب سے بڑا نقص یہی ہے کہ وہ آلۂ رازداری بنائی جائے۔ یہ رازداری، زبان کو محدود اور خیالات کے میدان کو تنگ کردیتی ہے۔ اسی وجہ سے ہندی زبان کی سچی خدمت کرنے والوں نے ایسے مصنفین اور انشا پروازوں کی کھری تنقیدیں کیں۔ اور ان کی شان ادبی گہنگار یامجرم کی ہو گئی ہے۔ 

    (۱) پنڈت رماکانت۔ ایم۔ اے۔ مصنف گدیہ میمانسا نے للوجیؔ لال کے بارے میں صاف صاف لکھ دیا کہ پنڈت جی نے فارسی عربی لفظوں سے تو پرہیز کیا ہی ساتھ شُبہ میں اسیے لفظوں کو بھی چھوڑ گئے جو ٹھیٹ ہندی تھے اور ان کے بدلے یا تو ایک جملہ وضع کیا یا سنسکرت کے آگے ہاتھ جوڑے۔ 

    (۲) بھیم سنگھ کے دماغ کی جدت ان کے لیے کلنک کاٹیکا بن گئی۔ آج چشمہ کے بدلے چکچھما اور سفارش کا وِپ چھپراشش سن کر ہندی ادب کا مبتدی بھی ہنس دیتا ہے۔ 

    (۳) پنڈت چندرشیکھر گولیری نے ہندی نثر و نظم کی بدلی ہوئی صورت کے خلاف اپنی سچی رائے پیش کردی اور صاف لکھ دیا۔ اردو نثر و نظم موجودہ ہندی کے گد (نثر) پد (نظم) سے پہلے معرض وجود میں آچکا تھا۔ 

    (۴) پنڈت پریم چند نے پنڈتاؤ بھاشا کے خلاف بنارس (جو ہندی کا مرکز بنایا گیا ہے اور ہے بھی) میں مجمع عام میں کھلے خزانے کہہ دیاکہ ہندی کو اردوپن سے جس قدر دور لے جائیے گا بھاشا مردہ ہوجائے گی۔ یہ لکچر غالباً ابنائے وطن کو بھولا نہ ہوگا۔ 

    اردو سے کوئی ہزار کترائے مگر اس سے پرہیزمشکل ہے۔ ملک کی فطری زبان آب و ہوا و پیداوار سے بالکل مشابہ ہے جس طرح ایک جگہ کے رہنے والوں کے لیے مختلف ہوائیں، مختلف فضائیں نہیں ہوسکتی اسی طرح دو مختلف زبانیں بھی نہیں ہوسکتیں۔ اردو کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ اس لیے اس کی تازگی سب کو بھاتی ہے۔ ماحول کی خوشبو اس میں بس گئی ہے۔ اس لیے اس کی طرف سب بڑھیں گے۔ تہذیب حاضرہ سے وہ برابر مقابل رہی ہے اس لیے اس میں طاقت اور زور ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا دم خم ہر دل کو پرزور بناتا ہے۔ اس کے تیر و نشتر کی لذت کے لیے ہر دل مشتاق نظر آتا ہے۔ اردو کی شان میں وہ لوگ بھی تر زبان نظر آئیں گے جو آج اس سے کترائے پھرتے ہیں۔ مگر وہ یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے، 

    بدور گردی من از غرورمی خندد
    حریف سخت کمانے کہ درکمیں دارم

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے