تمام
تعارف
غزل54
نظم34
شعر57
مزاحیہ شاعری1
ای-کتاب89
تصویری شاعری 10
آڈیو 10
ویڈیو 18
قطعہ1
رباعی3
بلاگ2
دیگر
اختر شیرانی
غزل 54
نظم 34
اشعار 57
پارسائی کی جواں مرگی نہ پوچھ
توبہ کرنی تھی کہ بدلی چھا گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
غم عاقبت ہے نہ فکر زمانہ
پئے جا رہے ہیں جئے جا رہے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مزاحیہ شاعری 1
قطعہ 1
رباعی 3
کتاب 89
تصویری شاعری 10
اے عشق کہیں لے چل اس پاپ کی بستی سے نفرت_گہہ_عالم سے لعنت_گہہ_ہستی سے ان نفس_پرستوں سے اس نفس_پرستی سے دور اور کہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! ہم پریم پجاری ہیں تو پریم کنہیا ہے تو پریم کنہیا ہے یہ پریم کی نیا ہے یہ پریم کی نیا ہے تو اس کا کھویا ہے کچھ فکر نہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! بے_رحم زمانے کو اب چھوڑ رہے ہیں ہم بے_درد عزیزوں سے منہ موڑ رہے ہیں ہم جو آس کہ تھی وہ بھی اب توڑ رہے ہیں ہم بس تاب نہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! یہ جبر_کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے ارمانوں کا قاتل ہے امیدوں کا رہزن ہے جذبات کا مقتل ہے جذبات کا مدفن ہے چل یاں سے کہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! آپس میں چھل اور دھوکے سنسار کی ریتیں ہیں اس پاپ کی نگری میں اجڑی ہوئی پرتیں ہیں یاں نیائے کی ہاریں ہیں انیائے کی جیتیں ہیں سکھ چین نہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! اک مذبح_جذبات_و_افکار ہے یہ دنیا اک مسکن_اشرار_و_آزار ہے یہ دنیا اک مقتل_احرار_و_ابرار ہے یہ دنیا دور اس سے کہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! یہ درد بھری دنیا بستی ہے گناہوں کی دل_چاک امیدوں کی سفاک نگاہوں کی ظلموں کی جفاؤں کی آہوں کی کراہوں کی ہیں غم سے حزیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! آنکھوں میں سمائی ہے اک خواب_نما دنیا تاروں کی طرح روشن مہتاب_نما دیا جنت کی طرح رنگیں شاداب_نما دنیا للّٰلہ وہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! وہ تیر ہو ساگر کی رت چھائی ہو پھاگن کی پھولوں سے مہکتی ہو پروائی گھنے بن کی یا آٹھ پہر جس میں جھڑ بدلی ہو ساون کی جی بس میں نہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! قدرت ہو حمایت پر ہمدرد ہو قسمت بھی سلمیٰؔ بھی ہو پہلو میں سلمیٰؔ کی محبت بھی ہر شے سے فراغت ہو اور تیری عنایت بھی اے طفل_حسیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! اے عشق ہمیں لے چل اک نور کی وادی میں اک خواب کی دنیا میں اک طور کی وادی میں حوروں کے خیالات_مسرور کی وادی میں تا خلد_بریں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو یوں ہو تو وہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! مغرب کی ہواؤں سے آواز سی آتی ہے اور ہم کو سمندر کے اس پار بلاتی ہے شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے چل اس کے قریں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! اک ایسی فضا جس تک غم کی نہ رسائی ہو دنیا کی ہوا جس میں صدیوں سے نہ آئی ہو اے عشق جہاں تو ہو اور تیری خدائی ہو اے عشق وہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! ایک ایسی جگہ جس میں انسان نہ بستے ہوں یہ مکر و جفا_پیشہ حیوان نہ بستے ہوں انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں تو خوف نہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! برسات کی متوالی گھنگھور گھٹاؤں میں کہسار کے دامن کی مستانہ ہواؤں میں یا چاندنی راتوں کی شفاف فضاؤں میں اے زہرہ_جبیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! ان چاند ستاروں کے بکھرے ہوئے شہروں میں ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں ٹھہری ہوئی نہروں میں سوئی ہوئی لہروں میں اے خضر_حسیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل! اک ایسی بہشت آئیں وادی میں پہنچ جائیں جس میں کبھی دنیا کے غم دل کو نہ تڑپائیں اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں لے چل تو وہیں لے چل! اے عشق کہیں لے چل!
اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے ویراں ہیں صحن و باغ بہاروں کو کیا ہوا وہ بلبلیں کہاں وہ ترانے کدھر گئے ہے نجد میں سکوت ہواؤں کو کیا ہوا لیلائیں ہیں خموش دوانے کدھر گئے اجڑے پڑے ہیں دشت غزالوں پہ کیا بنی سونے ہیں کوہسار دوانے کدھر گئے وہ ہجر میں وصال کی امید کیا ہوئی وہ رنج میں خوشی کے بہانے کدھر گئے دن رات مے_کدے میں گزرتی تھی زندگی اخترؔ وہ بے_خودی کے زمانے کدھر گئے
او دیس سے آنے والا ہے بتا او دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران_وطن آوارۂ_غربت کو بھی سنا کس رنگ میں ہے کنعان_وطن وہ باغ_وطن فردوس_وطن وہ سرو_وطن ریحان_وطن او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں مستانہ ہوائیں آتی ہیں کیا اب بھی وہاں کے پربت پر گھنگھور گھٹائیں چھاتی ہیں کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں ویسے ہی دلوں کو بھاتی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی سرمست نظارے ہوتے ہیں کیا اب بھی سہانی راتوں کو وہ چاند ستارے ہوتے ہیں ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے کیا اب وہی سارے ہوتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی شفق کے سایوں میں دن رات کے دامن ملتے ہیں کیا اب بھی چمن میں ویسے ہی خوش_رنگ شگوفے کھلتے ہیں برساتی ہوا کی لہروں سے بھیگے ہوئے پودے ہلتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا شاداب_و_شگفتہ پھولوں سے معمور ہیں گل_زار اب کہ نہیں بازار میں مالن لاتی ہے پھولوں کے گندھے ہار اب کہ نہیں اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں نوعمر خریدار اب کہ نہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا شام پڑے گلیوں میں وہی دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے اور سڑکوں کی دھندلی شمعوں پر سایوں کا بسیرا ہوتا ہے باغوں کی گھنیری شاخوں میں جس طرح سویرا ہوتا ہے او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں اور مدھ_بھری راتیں ہوتی ہیں کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں وہ حسن کے جادو چلتے ہیں وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا میرانیوں کے آغوش میں ہے آباد وہ بازار اب کہ نہیں تلواریں بغل میں دابے ہوئے پھرتے ہیں طرحدار اب کہ نہیں اور بہلیوں میں سے جھانکتے ہیں ترکان_سیہ_کار اب کہ نہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی مہکتے مندر سے ناقوس کی آواز آتی ہے کیا اب بھی مقدس مسجد پر مستانہ اذاں تھراتی ہے اور شام کے رنگیں سایوں پر عظمت کی جھلک چھا جاتی ہے او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والا بتا کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر پنہاریاں پانی بھرتی ہیں انگڑائی کا نقشہ بن بن کر سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں اور اپنے گھروں کو جاتے ہوئے ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا برسات کے موسم اب بھی وہاں ویسے ہی سہانے ہوتے ہیں کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں جھولے اور گانے ہوتے ہیں اور دور کہیں کچھ دیکھتے ہی نوعمر دیوانے ہوتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی پہاڑی چوٹیوں پر برسات کے بادل چھاتے ہیں کیا اب بھی ہوائے_ساحل کے وہ رس بھرے جھونکے آتے ہیں اور سب سے اونچی ٹیکری پر لوگ اب بھی ترانے گاتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں برکھا کی ہوائیں گونجتی ہیں جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں موروں کی صدائیں گونجتی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی برسات کا جوبن ہوتا ہے پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں چھایا ہوا ساون ہوتا ہے او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا شہر کے گرد اب بھی ہے رواں دریائے_حسیں لہرائے ہوئے جوں گود میں اپنے من کو لیے ناگن ہو کوئی تھرائے ہوئے یا نور کی ہنسلی حور کی گردن میں ہو عیاں بل کھائے ہوئے او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی فضا کے دامن میں برکھا کے سمے لہراتے ہیں کیا اب بھی کنار_دریا پر طوفان کے جھونکے آتے ہیں کیا اب بھی اندھیری راتوں میں ملاح ترانے گاتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی وہاں برسات کے دن باغوں میں بہاریں آتی ہیں معصوم و حسیں دوشیزائیں برکھا کے ترانے گاتی ہیں اور تیتریوں کی طرح سے رنگیں جھولوں پر لہراتی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی افق کے سینے پر شاداب گھٹائیں جھومتی ہیں دریا کے کنارے باغوں میں مستانہ ہوائیں جھومتی ہیں اور ان کے نشیلے جھونکوں سے خاموش فضائیں جھومتی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا شام کو اب بھی جاتے ہیں احباب کنار_دریا پر وہ پیڑ گھنیرے اب بھی ہیں شاداب کنار_دریا پر اور پیار سے آ کر جھانکتا ہے مہتاب کنار_دریا پر او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا آم کے اونچے پیڑوں پر اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں شاخوں کے حریری پردوں میں نغموں کے خزانے گھولتے ہیں ساون کے رسیلے گیتوں سے تالاب میں امرس گھولتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی وہ مدرسے کی شاداب فضا کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں جس میں وہ مثال_خواب فضا وہ کھیل وہ ہم_سن وہ میداں وہ خواب_گہہ_مہتاب فضا او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی کسی کے سینے میں باقی ہے ہماری چاہ بتا کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب یاروں میں کوئی آہ بتا او دیس سے آنے والے بتا للہ بتا للہ بتا او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا ہم کو وطن کے باغوں کی مستانہ فضائیں بھول گئیں برکھا کی بہاریں بھول گئیں ساون کی گھٹائیں بھول گئیں دریا کے کنارے بھول گئے جنگل کی ہوائیں بھول گئیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا گاؤں میں اب بھی ویسی ہی مستی_بھری راتیں آتی ہیں دیہات کی کمسن ماہ_وشیں تالاب کی جانب جاتی ہیں اور چاند کی سادہ روشنی میں رنگین ترانے گاتی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی گجردم چرواہے ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں اور شام کے دھندلے سایوں کے ہم_راہ گھروں کو آتے ہیں اور اپنی رسیلی بانسریوں میں عشق کے نغمے گاتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں برکھا کی بہاریں چھاتی ہیں معصوم گھروں سے بھور_بھئے چکی کی صدائیں آتی ہیں اور یاد میں اپنے میکے کی بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا دریا کا وہ خواب_آلودہ سا گھاٹ اور اس کی فضائیں کیسی ہیں وہ گاؤں وہ منظر وہ تالاب اور اس کی ہوائیں کیسی ہیں وہ کھیت وہ جنگل وہ چڑیاں اور ان کی صدائیں کیسی ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر تاریخ کی عبرت طاری ہے ان_پورنا کے اجڑے مندر پر مایوسی_و_حسرت طاری ہے سنسان گھروں پر چھاؤنی کے ویرانی و رقت طاری ہے او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا وہ غارت_ایماں کیسی ہے بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی وہ آفت_دوراں کیسی ہے ہم دونوں تھے جس کے پروانے وہ شمع_شبستاں کیسی ہے او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا مرجانا تھا جس کا نام بتا وہ غنچہ_دہن کس حال میں ہے جس پر تھے فدا طفلان_وطن وہ جان_وطن کس حال میں ہے وہ سرو_چمن وہ رشک_سمن وہ سیم_بدن کس حال میں ہے او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی رخ_گلرنگ پہ وہ جنت کے نظارے روشن ہیں کیا اب بھی رسیلی آنکھوں میں ساون کے ستارے روشن ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی شہابی عارض پر گیسوئے_سیہ بل کھاتے ہیں یا بحر_شفق کی موجوں پر دو ناگ پڑے لہراتے ہیں اور جن کی جھلک سے ساون کی راتوں کے سپنے آتے ہیں او دیس سے آنے والے بتا او دیس سے آنے والے بتا اب نام_خدا ہوگی وہ جواں میکے میں ہے یا سسرال گئی دوشیزہ ہے یا آفت میں اسے کمبخت جوانی ڈال گئی گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی خوش_حال رہی خوش_حال گئی او دیس سے آنے والے بتا