Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Balwant Singh's Photo'

بلونت سنگھ

1920 - 1986 | الہٰ آباد, انڈیا

ممتاز ترقی پسند فکشن نویس۔

ممتاز ترقی پسند فکشن نویس۔

بلونت سنگھ کے افسانے

206
Favorite

باعتبار

پیپر ویٹ

یہ کہانی حسن کی جادوگری کی کہانی ہے۔ فرحت کا شوہر چھبیس برس کی عمر میں بنک کا منیجر ہو جاتا ہے، وہ خوشی خوشی گھر آتا ہے لیکن اپنی خوبصورت ترین بیوی فرحت کو کھڑکی میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر اس کی ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے۔ اسے کھڑکی پر بیٹھنے پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ سامنے رہنے والے کالج کے طلبا اس کی بیوی کو تاکتے رہتے ہیں۔ فرحت کہتی ہے کہ اگر کوئی دیکھتا ہے تو دیکھنے دو۔ وہ اس قدر معصوم اور بھولی بھالی ہے کہ اپنے شوہر کے اعتراض کی تہہ میں چھپے ہوئے مفہوم کو سمجھ ہی نہیں پاتی۔ شوہر احساس کمتری کا شکار ہو کر گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے، بیوی کے نام الواعی چٹھی لکھ کر رکھ دیتا ہے اور صبح ہی صبح نوکر سے تانگہ منگوا کر سامان رکھوا دیتا ہے۔ بیوی پر الوداعی نظر ڈالنے جاتا ہے تو بیوی کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ ہاتھ بڑھا کر اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے۔ باہر سے نوکر کی آواز آتی ہے کہ تانگہ میں سامان رکھ دیا گیا ہے، فرحت کہتی ہے سامان اتار کر اوپر لے آؤ اور اس کا شوہر کچھ نہیں بولتا ہے۔

پہلا پتھر

بنیادی طور پر یہ کہانی عورت کے جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ لیکن مصنف نے اس میں تقسیم کے وقت کی صورت حال اور  فرقہ وارانہ تعصب کا نقشہ بھی کھینچا ہے۔ سردار ودھاوا سنگھ کی بڑی سی حویلی میں ہی فرنیچر مارٹ اور پرنٹنگ پریس ہے، جس کے کاریگر، سردار کی دونوں بیویاں، پناہ گزیں دیوی داس کی تینوں بیٹیاں، سردار کے دونوں بیٹے آپس میں اس طرح بے تکلف ہیں کہ ان کے درمیان ہر قسم کا مذاق روا ہے۔ سردار کی دونوں بیویاں کارخانہ کے کاریگروں میں دلچسپی لیتی ہیں تو کاریگر دیوی داس کی بیٹی گھکی اور نکی کو ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، چمن گھکی سے شادی کا وعدہ کرکے جاتا ہے تو پلٹ کر نہیں دیکھتا۔جل ککڑ نکی کو حاملہ کر دیتا ہے اور پھر وہ کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لیتی ہے۔ سانولی اندھی ہے، اس کو ایک پناہ گزیں کلدیپ حاملہ کر دیتا ہے۔ سانولی کی حالت دیکھ کر سارے کاریگروں کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور کارخانہ کا سب سے شوخ کاریگر باج سنگھ بھی ممتا کے جذبہ سے شرابور ہو کر سانولی کو بیٹی کہہ دیتا ہے۔

گمراہ

فکر معاش اور شہری زندگی میں الجھ کر انسان فطری حسن، قدرتی مناظر اور ماحولیات سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ زندگی کا مفہوم بہت سمٹ کر رہ گیا ہے، یہ کہانی اسی کی تذکیر کراتی ہے۔ رمیش ایک بارہ سال کا معصوم سا بچہ ہے، اس کے اسکول ٹیچر اس کے باپ سے شکایت کرتے ہیں کہ وہ اکثر اسکول سے غائب رہتا ہے، اگر یہی غفلت رہی تو ان کا بچہ گمراہ ہو جائےگا۔ ایک دن تفتیش کی نیت سے جب رمیش کے پیچھے پیچھے اس کا باپ جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ رمیش بازی گر کا تماشا دیکھ رہا ہے، سانپ اور سنپیروں کے بچوں سے کھیل رہا ہے، ندی کے کنارے بیٹھ کر شکار دیکھ رہا ہے، قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہا ہے، ہر جگہ کے بچے، بڑے، بوڑھے اس سے مانوس نظر آ رہے ہیں اور اسے مسکرا کر دیکھ رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے اور پھر وہ رمیش کے ساتھ دن بھر یونہی گھومتا رہتا ہے۔ گھر واپس آنے کے بعد رمیش اس کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھنے کا وعدہ کرتا ہے اور اپنے وعدہ پر قائم بھی رہتا ہے لیکن اسی دن سے رمیش کا باپ اس زندگی کی تلاش میں حیران و پریشان رہتا ہے۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے