بلونت سنگھ کے افسانے
سورما سنگھ
اس کہانی میں حسن سے متاثر ہونے کی فطری جبلت کو بیان کیا گیا ہے۔ سورما سنگھ نابینا سکھ ہے جو گرو دوارے میں مستقل طور پر قیام پذیر ہے۔ وہ چڑچڑا اور بد مزاج ہے، کھانے وغیرہ میں خامیاں نکالتا رہتا ہے لیکن اس کے اندھے پن کی وجہ سے اسے کوئی کچھ نہیں کہتا البتہ عورتوں کی طرف اس کی رغبت اور دلچسپی مذاق کا موضوع بنتی رہتی ہے۔ ایک دن ایک فیملی اسے اپنے کمرے میں رہنے کی اجازت دے دیتی ہے اور سورما سنگھ وہاں ایک عورت کی مترنم آوز سن کر اس کی عمر پوچھ بیٹھتا ہے جس پر ہنگامہ ہوتا ہے، سورما سنگھ عورت کے پیرں پر رخسار رکھ کر معافی ماانگتا ہے اور اس طرح معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔
کالے کوس
تقسیم ہند کے بعد ہجرت اور پھر ایک نئی سرزمین پر قدم رکھنے کی خوشی بیان کی گئی ہے۔ گاما ایک بدمعاش آدمی ہے جو اپنی کنبہ کے ساتھ پاکستان ہجرت کر رہا ہے، فسادیوں سے بچنے کی خاطر وہ عام شاہ راہ سے ہٹ کر سفر کرتا ہے اور اس کی رہنمائی کے لئے اس کا بچپن کا سکھ دوست پھلور سنگھ آگے آگے چلتا ہے۔ پاکستان کی سرحد شروع ہونے سے کچھ پہلے ہی پھلورے گاما کو چھوڑ دیتا ہے اور اشارہ سے بتا دیتا ہے کہ فلاں کھیت سے پاکستان شروع ہو رہا ہے۔ گاما پاکستان کی مٹی کو اٹھا کر اس کا لمس محسوس کرتا ہے اور پھر پلٹ کر پھلور سنگھ کے پاس اس انداز سے ملنے آتا ہے جیسے وہ سرزمین پاکستان سے ملنے آیا ہو۔
جگا
’’یہ پنجاب کے ایک مشہور ڈاکو جگا کی کہانی ہے، جسے گرنام کور نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کی محبت میں وہ سب کچھ چھوڑ دیتا ہے اور ایک گردوارہ میں رہنے لگتا ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ گرنام دلیپ سے محبت کرتی ہے تو وہ دلیپ سے بھڑ جاتا ہے۔ پھر بھی اسے گرنام حاصل نہیں ہوتی۔‘‘
آبشار
’’دو ایسے افراد کی کہانی ہے جو ایک ہی لڑکی سے باری باری محبت کرتے ہیں، لیکن دونوں میں سے کوئی بھی اسے حاصل نہیں کر پاتا۔ وہ لڑکی ایک پٹھان کے ساتھ گھر سے بھاگ کر آئی تھی۔ پٹھان اسے جھرنے کے پاس بنے اس بنگلے میں ٹھہراتا ہے اور خود پیسوں کا انتظام کرنے چلا جاتا ہے۔ کئی ہفتے گزر جانے کے بعد بھی وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ اسی درمیان وہاں کالج کا ایک نوجوان آتا ہے اور لڑکی اس میں دلچسپی لینے لگتی ہے وہ نوجوان بھی اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو لڑکی جھرنے میں کود کر جان دے دیتی ہے۔‘‘
دیش بھگت
شام ہو چکی تھی۔ میں چھوٹے بھائی کو چٹھی لکھ رہا تھا کہ اتنے میں چچا اندر داخل ہوئے، بغیر کسی تمہید کے بولے، ’’سنو! آج ذرا خاص کام ہے۔ تم کو میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘ ’خاص کام‘ والے الفاظ سن کر میں نے سرہانے سے صفا (۱) جنگ اٹھائی اور اسے فرش پر ٹیک اٹھ
باندھ
پنجابی لڑکی رانو کی کہانی، جو جانتی ہے کہ وریا مواس سے محبت کرتا ہے، پر وہ اسے چھوڑ کر کیہر سنگھ کے پیچھے لگی رہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کیہر سنگھ اس سے محبت نہیں کرتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے ارد گرد چکر لگاتی رہتی ہے۔ اسی میں وہ کیہر سنگھ سے حاملہ ہو جاتی ہے۔ مگر وریامو تب بھی اس سے خاموش محبت کرتا رہتا ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ اس کے گھر کو سیلاب سے بچانے کے لیے تنہا ہی بارش میں بھیگتا ہوا باندھ بنا دیتا ہے۔
ہندوستاں ہمارا
جنگ آزادی کے زمانہ میں انگریزوں کے نسلی تعصب اور ہندوستانیوں سے امتیاز کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ جگجیت سنگھ ایک لفٹننٹ ہے جو اپنی حاملہ بیوی کے ساتھ شملہ گھومنے جا رہا ہے، سکینڈ کلاس میں ایک اکیلا انگریز بیٹھا ہوا ہے لیکن وہ جگجیت سنگھ کو ڈبے میں گھسنے نہیں دیتا اور کسی اور ڈبے میں جانے کے لئے کہتا ہے۔ پولیس والے اور ریلوے کا عملہ بھی جب اسے سمجھانے بجھانے میں ناکام ہو جاتا ہے تو جگجیت سنگھ انگریز کو ڈبے سے اٹھا کر پلیٹ فارم پر پھینک دیتا ہے اور پھر اپنی بیوی کو ڈبے میں بٹھا کر، سامان رکھ کر نیچے اترتا ہے اور انگریز کی پٹائی کرتا ہے۔
راستہ چلتی عورت
طاقت ور کے سامنے لفنگوں کی خود سپردگی کی کہانی ہے۔ بوٹا سنگھ اپنی نئی نویلی خوبصورت دلہن کے ساتھ اپنے گاؤں جا رہا تھا کہ راستے میں بیٹھے ہوئے جگیر سنگھ اور اس کے ساتھی اس کو چھیڑتے ہیں اور ہیروں کی حفاظت کا طنز کرتے ہیں۔ بوٹا سنگھ اپنی لاٹھی کے جوہر دکھا کر لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔ پھر جگیر سنگھ سے کہتا ہے کہ آپ کی بات کا تو میں نے جواب دے دیا، لیکن کیا اس گاؤں میں کوئی اپنے باپ کا تخم اور ماں کا لال نہیں ہے جو ہیرے جھپٹننے کی خواہش رکھتا ہو۔ جگیر سنگھ بوٹا سنگھ سے کہتا ہے اس گاؤں میں کوئی اپنے باپ کا تخم اور ماں کا لال نہیں ہے۔۔۔
کٹھن ڈگریا
اس کہانی میں جیسے کو تیسا والا معاملہ بیان کیا گیا ہے۔ رکھی رام اور بیج ناتھ دوست ہیں، دونوں کی بیویاں خوبصورت ہیں لیکن دونوں کو اپنی بیوی سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کی بیوی میں جنسی کشش محسوس کرتے ہیں۔ رکھی رام کا دہلی جانے کا پروگرام ہوتا ہے لیکن عین وقت پر پروگرام کینسل ہو جاتا ہے تو وہ بیج ناتھ کے گھر جا کر کامنی سے لطف اندوز ہونے کا پروگرام بنا لیتا ہے۔ ادھر بیج ناتھ، رکھی رام کی بیوی شانتا سے لطف کشید کرنے کی نیت سے تیار ہو رہا ہوتا ہے کہ رکھی رام اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ بیج ناتھ چونکتا ضرور ہے لیکن وہ دعوت کا بہانہ بنا کر گھر سے چلا جاتا ہے۔ رکھی رام کامنی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر جب گھر پہنچتے ہیں تو گلی کے پنواڑی جیا سے معلوم ہوتا ہے کہ بیج ناتھ اس سے ملنے آئے تھے، کافی دیر انتظار کے بعد واپس چلے گئے۔
لمحے
لمحاتی خوشی کے بعد صدمہ سے دوچار ہونے کی کہانی ہے۔ اماکانت بس میں دو بچوں والی ایک خوبصورت عورت کو دیکھتا ہے، وقت گزاری کے لئے وہ اس سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ پہلا جھٹکا اسے تب لگتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت اس کی ہم مذہب نہیں ہے اور پھر جب وہ بس سے اترتی ہے تو اس کو لنگڑا کر چلتے ہوئے دیکھ کر اس پر ہمدردی کا جذبہ طاری ہو جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ فساد انسان کی سوچ کو کس طرح تبدیل کرتے ہیں اور ان کا نفسیاتی ردعمل کیا ہوتا ہے، اس کی ایک جھلک اس کہانی میں پیش کی گئی ہے۔
گرنتھی
طاقت و ہمت کی دہشت اور اثر پذیری کی کہانی ہے۔گاؤں کے گرودوارے کا گرنتھی صرف اس لئے زیر عتاب ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی نے ثروتمند لوگوں کے گھر مفت کام کرنے سے منع کر دیا تھا۔گرنتھی پر ایک عورت لاجو کو چھیڑنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اسے شنکرات کے اگلے دن گاؤں چھوڑنے کا حکم ملتا ہے، گرنتھی گرونانک جی کا سچا عقیدت مند ہے، اسے یقین ہے کہ اس کی بے گناہی ثابت ہوگی اور اسے گاؤں نہیں چھوڑنا پڑے گا لیکن جب شنکرات والے دن اس کا حساب کتاب کر دیا جاتا ہے تو اس کی رہی سہی امید ختم ہو جاتی ہے۔ اتفاق سے اسی دن گاؤں کا بدمعاش بنتا سنگھ ملتا ہے جو ایک دن پہلے ہی ڈیڑھ سال کی سزا کاٹ کر آیا ہے، وہ گرنتھی کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور اسے گاؤں نہ چھوڑنے کے لئے کہتا ہے۔ یہ خبر جیسے ہی عام ہوتی ہے تو گاؤں کے باشندے لاجو کو لعن طعن کرنے لگتے ہیں کہ اس نے گرنتھی پر جھوٹا الزام لگایا۔
علی! علی!
یہ نوجوانوں میں جوش بھر دینے والے نعرے ’علی علی‘ کی کہانی ہے۔ ورسا ایک کڑیل سکھ نوجوان ہے۔ ایک میلے میں پولس کے ساتھ اس کا کسی بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے، تو پولس اسے ڈھونڈھتی پھرتی ہے۔ مگر وہ ان کے ہاتھ نہیں آتا ۔ ایک روز جب وہ اپنی معشوقہ سے ملنے گیا ہوتا ہے، تندرست گھوڑے پر سوار تھانیدار اسے پکڑنے پہنچتا ہے۔ پیدل ہونے کے باوجود بھی ورسا اس کی گرفت میں نہیں آتا۔ وہ ’علی علی‘ کا نعرہ لگاتا ہوا ہر دم اس کی پہنچ سے دور ہو جاتا ہے۔
سزا
یہ ایک سادہ سی محبت کی کہانی ہے۔ جیت کور ایک غریب دوشیزہ ہے، جو اپنے بوڑھے دادا اور چھوٹے بھائی چنن کے ساتھ بہت مشکل سے زندگی بسر کر رہی ہے۔ نمبردار کے مقروض ہونے کی وجہ سے اس کا گھر قرقی ہونے کی نوبت آگئی۔ اس موقع پر تارا سنگھ خاموشی سے جیتو کے باپو کے ایک سو پچاس روپے دے آتا ہے، جو اس نے بھینس خریدنے کے لئے جمع کر رکھے تھے۔ تارا سنگھ جیتو سے شادی کا خواہشمند تھا لیکن جیتو اسے پسند نہیں کرتی تھی، اسے جب چنن کی زبانی معلوم ہوا کہ تارو نے خاموشی سے مدد کی ہے تو اس کے دل میں محبت کا سمندر لہریں مارنے لگتا ہے۔ ایک پرانے واقعہ کی بنیاد پر تارا سنگھ جیت کور سے کہتا ہے کہ آج پھر میری نیت خراب ہو رہی ہے، آج سزا نہیں دوگی، تو جیت کور اپنے جوڑے سے جنبیلی کا ہار نکال کر تارا سنگھ کے گلے میں ڈال دیتی ہے۔
کالی تتری
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو اپنے ساتھی ڈاکوؤں کے ساتھ ملکر اپنی ہی بہن کے گھر میں ڈاکہ ڈالتا ہے۔ جب وہ زیور چرا کر جانے لگتے ہیں تو غلطی سے ان کا ایک ساتھی گولی چلا دیتا ہے۔ اس سے پورا گاؤں جاگ جاتا ہے۔ گاؤں والوں سے باقی ڈاکو تو بچ کر نکل جاتے ہیں لیکن کالی تتری پھنس جاتا ہے۔ گاؤں کے کئی لوگ اسے پہچان لیتے ہیں اور ان میں سے ایک آگے بڑھکر ایک ہی وار میں اس کے پیٹ کی انتڑیا ں باہر کر دیتا ہے۔‘‘
سمجھوتہ
وہ مجھ کو نیے مکان میں چھوڑکر دفتر چل دیے۔ سامان ابھی بکھرا ہوا ہی تھا۔ میں ایک کرسی لے کر بیٹھ گئی۔ سوچا، ذرا سستا لوں تو کپڑے بدل کر سامان ٹھکانے سے رکھوں۔ عجب سنسان مکان تھا۔ شہرکی ایک نئی آبادی تھی۔ مکانات کی تعداد نہ صرف کم تھی بلکہ جو تھے
تعویذ
’’ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو خود کو کسی راجہ صاحب کا آدمی بتاکر ایک ہوٹل میں ٹھہرتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک بچی بھی ہوتی ہے۔ مگر اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہوتی۔ اپنے خرچ کے لیے بھی وہ ہوٹل کے مالک سے کسی نہ کسی بہانے سے پیسے مانگتا رہتا ہے۔ آخر میں وہ اسے ایک تعویذ دے کر ہوٹل سے چلا جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد جب وہ اس تعویذ کو کھول کر دیکھتا ہے تو اس کی ساری حقیقت اس کے سامنے کھل جاتی ہے۔‘‘
پیپر ویٹ
یہ کہانی حسن کی جادوگری کی کہانی ہے۔ فرحت کا شوہر چھبیس برس کی عمر میں بنک کا منیجر ہو جاتا ہے، وہ خوشی خوشی گھر آتا ہے لیکن اپنی خوبصورت ترین بیوی فرحت کو کھڑکی میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر اس کی ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے۔ اسے کھڑکی پر بیٹھنے پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ سامنے رہنے والے کالج کے طلبا اس کی بیوی کو تاکتے رہتے ہیں۔ فرحت کہتی ہے کہ اگر کوئی دیکھتا ہے تو دیکھنے دو۔ وہ اس قدر معصوم اور بھولی بھالی ہے کہ اپنے شوہر کے اعتراض کی تہہ میں چھپے ہوئے مفہوم کو سمجھ ہی نہیں پاتی۔ شوہر احساس کمتری کا شکار ہو کر گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے، بیوی کے نام الواعی چٹھی لکھ کر رکھ دیتا ہے اور صبح ہی صبح نوکر سے تانگہ منگوا کر سامان رکھوا دیتا ہے۔ بیوی پر الوداعی نظر ڈالنے جاتا ہے تو بیوی کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ ہاتھ بڑھا کر اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے۔ باہر سے نوکر کی آواز آتی ہے کہ تانگہ میں سامان رکھ دیا گیا ہے، فرحت کہتی ہے سامان اتار کر اوپر لے آؤ اور اس کا شوہر کچھ نہیں بولتا ہے۔
بابا مہنگا سنگھ
’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جو کسی زمانہ میں بڑا خونخوار ڈاکو تھا اور اب گاؤں میں عام سی زندگی گزار رہا تھا۔ رات کو گاؤں کے نوجوان اس کے پاس جا بیٹھتے تھے اور وہ انہیں اپنی بیتی زندگی کے قصہ سنایا کرتا تھا۔ ایک روز اس نے ایسا قصہ سنایا جس میں ان کے سامنے عورت کی فطرت، اس کی بہادری اور چالاکی کا ایک ایسا پہلو پیش کیا جس سے وہ سبھی ابھی تک پوری طرح سے انجان تھے۔‘‘
پہلا پتھر
بنیادی طور پر یہ کہانی عورت کے جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ لیکن مصنف نے اس میں تقسیم کے وقت کی صورت حال اور فرقہ وارانہ تعصب کا نقشہ بھی کھینچا ہے۔ سردار ودھاوا سنگھ کی بڑی سی حویلی میں ہی فرنیچر مارٹ اور پرنٹنگ پریس ہے، جس کے کاریگر، سردار کی دونوں بیویاں، پناہ گزیں دیوی داس کی تینوں بیٹیاں، سردار کے دونوں بیٹے آپس میں اس طرح بے تکلف ہیں کہ ان کے درمیان ہر قسم کا مذاق روا ہے۔ سردار کی دونوں بیویاں کارخانہ کے کاریگروں میں دلچسپی لیتی ہیں تو کاریگر دیوی داس کی بیٹی گھکی اور نکی کو ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، چمن گھکی سے شادی کا وعدہ کرکے جاتا ہے تو پلٹ کر نہیں دیکھتا۔جل ککڑ نکی کو حاملہ کر دیتا ہے اور پھر وہ کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لیتی ہے۔ سانولی اندھی ہے، اس کو ایک پناہ گزیں کلدیپ حاملہ کر دیتا ہے۔ سانولی کی حالت دیکھ کر سارے کاریگروں کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور کارخانہ کا سب سے شوخ کاریگر باج سنگھ بھی ممتا کے جذبہ سے شرابور ہو کر سانولی کو بیٹی کہہ دیتا ہے۔
گمراہ
فکر معاش اور شہری زندگی میں الجھ کر انسان فطری حسن، قدرتی مناظر اور ماحولیات سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ زندگی کا مفہوم بہت سمٹ کر رہ گیا ہے، یہ کہانی اسی کی تذکیر کراتی ہے۔ رمیش ایک بارہ سال کا معصوم سا بچہ ہے، اس کے اسکول ٹیچر اس کے باپ سے شکایت کرتے ہیں کہ وہ اکثر اسکول سے غائب رہتا ہے، اگر یہی غفلت رہی تو ان کا بچہ گمراہ ہو جائےگا۔ ایک دن تفتیش کی نیت سے جب رمیش کے پیچھے پیچھے اس کا باپ جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ رمیش بازی گر کا تماشا دیکھ رہا ہے، سانپ اور سنپیروں کے بچوں سے کھیل رہا ہے، ندی کے کنارے بیٹھ کر شکار دیکھ رہا ہے، قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہا ہے، ہر جگہ کے بچے، بڑے، بوڑھے اس سے مانوس نظر آ رہے ہیں اور اسے مسکرا کر دیکھ رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے اور پھر وہ رمیش کے ساتھ دن بھر یونہی گھومتا رہتا ہے۔ گھر واپس آنے کے بعد رمیش اس کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھنے کا وعدہ کرتا ہے اور اپنے وعدہ پر قائم بھی رہتا ہے لیکن اسی دن سے رمیش کا باپ اس زندگی کی تلاش میں حیران و پریشان رہتا ہے۔
تیسرا سگریٹ
ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جس کا دوست بلیک میں ربر بیچنے والے ایک تاجر کو پکڑنے کے لیے اس کا استعمال کرتا ہے۔ وہ تاجر کے لیے ایک دعوت کا انتظام کرتا ہے، جس میں ایک لڑکی بھی شامل ہوتی ہے۔ لڑکی کی تلاش میں کناٹ پلیس میں کھڑا ہوا وہ تیسرا سگریٹ پی ہی رہا ہوتا ہےکہ ایک آدمی اس کے پاس آتا ہے اور بات پکی کرکے چلا جاتا ہے۔ بعد میں وہ آدمی اس شخص کے دفتر میں نوکری مانگنے آتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ لڑکی جو اس نے اسے لاکر دی تھی، وہ کوئی اور نہیں اس کی بہن تھی۔
تین باتیں
بے روزگاری سے پریشان ہو کر فوج میں بھرتی ہونے والے ایک جوان کی کہانی ہے۔ رویل سنگھ ایک مضبوط و کڑیل جوان ہے جو کبھی کبھار چوری کرنے میں بھی عار نہیں سمجھتا۔ اس کی ماں اور محبوبہ اس کو چوری سے باز رکھنے کے لئے اپنی محبتوں کا واسطہ دے کر لاہور ملازمت کرنے بھیج دیتی ہیں۔ لاہور میں وہ کئی دن تک مارا مارا پھرتا ہے لیکن اسے کوئی نوکری نہیں ملتی اور وہ ایک دن گاؤں لوٹ جانے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اتفاق سے وہ ایک باغ میں جا نکلتا ہے جہاں پر فوجیوں کی تصاویر اور جوانوں کو مہمیز کرنے والے پرکشش بورڈ آویزاں ہوتے ہیں۔ وہیں ایک بورڈ پر تین باتیں کے عنوان سے ایک بورڈ ہوتا ہے جس پر سپاہیوں کی تصاویر کے ساتھ اچھی خوراک، اچھی تنخواہ اور جلدی ترقی لکھا ہوتا ہے۔ رویل سنگھ پتہ پوچھتے ہوئے بھرتی دفتر کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔
دودھ بھری گلیاں
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو بہت غلیظ ہے اور شہر کے پرانی گلیوں میں گھومتا پھرتا ہے۔ وہاں اسے ایک سفید بزرگ دکھائی دیتا ہے، جو اس کی غلاظت کو دیکھ کر اسے گندی گندی گالیاں بکتا ہے۔وہ کسی گالی کا جواب نہیں دیتا۔ اس پر سفید بزرگ غصہ ہوکر اسے اتنا مارتے ہیں کہ خود ہی تھک کر چور ہو جاتے ہیں، لیکن اسے کچھ اثر نہیں ہوتا۔