خالد جاوید کے افسانے
زندوں کے لیے ایک تعزیت نامہ
ہم ایک سانپ بنانا چاہتے تھے۔ یا وہ ایک نقطہ تھا جو سانپ ہوجانا چاہتا تھا مگر راستے میں اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور اپنی سمت بدل دی۔ اب وہ کچھ اور ہوگیا ہے۔ اپنے ادھورے پن میں معلق ،ہوا میں اِدھر اُدھر ڈولتا ہوا (کلیشمے) پیٹ میں کسی طوفان کی طرح
تفریح کی ایک دوپہر
’’دکھ نے میرے چہرے پر ایک نقاب ڈال دی ہے۔‘‘ ’’دنیا سے ایک جیوکم ہوجاتا ہے۔‘‘ ’’آسمان میں ایک فرشتہ بڑھ جاتا ہے۔‘‘ (فرنانڈو پیسوا) (۱) یہ مئی کی دوپہر ہے۔ دو بج رہے ہیں اور لو بھی چلنا شروع ہوگئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ میری کہانی سننے کے لیے
آخری دعوت
میں جو پہاڑیوں سے نیچے لاشیں لایا ہوں، تمہیں بتا سکتا ہوں کہ دنیا رحم سے خالی ہے اور سنو کہ اگر خدا ہی رحم سے خالی ہو تو دنیامیں بھی رحم نہیں ہوسکتا۔ یہودا امی خائی سب سے پہلے تو مجھے یہ اجازت دیں کہ میں آپ کو بتاسکوں کہ اس کہانی کے تمام کردار
جلتے ہوئے جنگل کی روشنی میں
سارے سوانح، زندگی کی کہانیاں جھوٹی ہوتی ہیں۔ وہ ان خالی گھونگوں کی طرح ہوتی ہیں جن سے ان کیڑوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا جو کسی زمانے میں ان میں رہتے تھے۔ چسلاومی ووش یہ بڑی دلچسپ اور عجیب بات تھی کہ دنیا کو اس نے محض زمین ہی سمجھاتھا۔
قدموں کا نوحہ گر
’’اور اب میرا کتا اپنے منہ میں دبائے لیے چلا آرہا ہے میں جنہیں پھینک آیا تھا ایک گندی نالی میں مجھے معلوم ہے کہ وہ انہیں ڈال دے گا میرے قدموں میں۔‘‘ (بہت پہلے کہی گئی ایک نظم سے) (۱) اب جب کہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہونےکے قریب ہوں اور گھورے کے