کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا
نام کشور ناہید اور تخلص ناہید ہے۔ ۳؍فروری ۱۹۴۰ء کو بلند شہر(یوپی) میں پیدا ہوئیں۔ایم اے (معاشیات) پاس کیا۔محکمہ اطلاعات ونشریات کے ادبی مجلہ’’ماہ نو‘‘ کی چیف اڈیٹر کے منصب پر فائز رہیں۔ بعدازاں پاکستان نیشنل سنٹر ، لاہور کی ریزیڈنٹ ڈائرکٹر رہیں۔ ڈائرکٹر مرکزی اردو سائنس بورڈ، لاہور کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔ ا ن کی تصانیف کے چند نا م یہ ہیں: ’’لب گویا‘‘(غزلیات)، ’’بے نام مسافت‘‘(نظمیں)، ’’گلیاں،دھوپ،دروازے‘‘(نظمیں، نثری نظمیں ،غزلیں)، ’’فتنہ سامانی دل‘‘، ’’علامتوں کے درمیاں‘‘، ’’سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ‘‘، ’’ناوک دشنام‘‘، ’’عورت، خواب اور خاک کے درمیان‘‘، ’’خیالی شخص سے مقابلہ‘‘، ’’بری عورت کی کتھا‘‘(خودنوشت حالات زندگی)، ’’نازائیدہ بیٹی کے نام‘‘، ’’شناسائیاں، رسوائیاں‘‘۔ ’لب گویا‘ پر ۱۹۶۹ء کا آدم جی ادبی انعام ملا۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں حسن کارگردگی کے تمغے سے نوازا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:344