شیرانی صاحب اپنے دادا حافظ محمود شیرانی کی تحقیقی روایت کے پاسدار اور اپنے والد کی حسِ جمالیات کے امین تھے۔خانوادہ شیرانی کی تین نسلوں نے اردو ادب کی آبیاری کی۔ حافظ محمود شیرانی اردو کے محقق اولین، اردو تحقیق کو اس بام عروج پر پہنچانے والے کہ کوئی ان کے دلائل اور طرزِ استدلال کو آج تک رد نہ کر سکا۔ حافظ صاحب کے صاحب زادے اختر شیرانی، اُردو رومانی شاعری میں اپنی مثال آپ۔ نہ صرف رومانی شاعری بلکہ صاحب طرز ادیب بھی "جامع الحکایات" کا ترجمہ ان کی نثر کی ایک عمدہ مثال ہے۔
نامور شاعر اختر شیرانی کے صاحب زادے ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کی تحقیقی سرگرمیاں ان کی متنوع تصانیف کی صورت میں محفوظ ہیں۔ اکتوبر 2003ء سے اب تک گورنمنٹ کالج لاہور سے بحیثیت ریسرچ سپروائزر وابستہ رہے ۔ 1987ء میں مظہر محمود نے ڈاکٹر وحید قریشی کی زیرِ نگرانی اپنے دادا حافظ محمود خان شیرانی کی علمی و ادبی خدمات پر مقالہ لکھ کر اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل۔ ان کا یہ مقالہ ایک تحقیقی شاہکار ہے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنے دادا کے مقالات کو تلاش کر کے دس جلدوں میں مرتب کیا ہے جنہیں مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کیا ہے۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد خاکہ نگاری کی طرف بھی توجہ دی اور چار مجموعے بعنوان کہاں گئے وہ لوگ، کہاں سے لاؤں انہیں، جانے کہاں بکھر گئے اور بے نشانوں کا نشاں کے نام سے لکھے اور شائع کیے ہیں۔ ان کی مرتبہ کتب اس کے علاوہ جبکہ تحقیقی مقالات کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔