سجاد ظہیر کے افسانے
نیند نہیں آتی
’’ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو غریبی، بے بسی، بھٹکاؤ اور نیم خوابیدگی کے شعور کا شکار ہے۔ وہ اپنی معاشی اور معاشرتی حالت سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ رات میں چارپائی پر لیٹے ہوئے مچھروں کی بھنبھناہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہوا وہ اپنی بیتی زندگی کے کئی واقعات یاد کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نے اس زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کتنی جد و جہد کی ہے۔‘‘
گرمیوں کی ایک رات
’’کہانی میں سماجی ناہمواری کی بہت باریکی سے عکاسی کی گئی ہے۔ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے منشی برکت علی اور جمن میاں کے ذریعے ہندوستانی سماج کے پسماندہ متوسط طبقہ کے لوگوں کی محرومیوں، بے بسی، بناؤٹی زندگی اور دوہرے کردار کی بہت دل نشیں انداز سے عکاسی کی گئ ہے۔‘‘
جنت کی بشارت
’’کہانی ایک مولانا کے ذریعے مذہبی روایات اور مولویوں کے ڈھونگ اور فریب کے اخلاق پر تلخ حملہ کرتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں خدا کی عبادت میں ڈوبے مولانا صبح کی نماز پڑھتے ہوئے ایک خواب دیکھتے ہیں۔ خواب میں انہیں ایک عالیشان کمرا دکھائی دیتا ہے اور اس کمرے کی ہر کھلی کھڑکی میں ایک حور نظر آتی ہے۔‘‘
دلاری
’’یہ ایک غیر مساوی معاشعرتی نظام میں خواتین کے جنسی استحصال کی ایک دردناک کہانی ہے۔ دلاری بچپن سے ہی اس گھر میں پلی بڑھی تھی۔ اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ چھٹیوں میں گھر آئے مالکن کے بیٹے کے ساتھ اس کی آنکھ لڑ جاتی ہے اور وہ محبت کے نام پر اس کا استحصال کرتا ہے۔ وہ اس سے شادی کا وعدہ تو کرتا ہے مگر شادی ماں باپ کی پسند کی ہوئی لڑکی سے کر لیتا ہے۔ اس شادی کے بعد ہی دلاری گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔‘‘
پھر یہ ہنگامہ۔۔۔
یہ کہانی کئی آزاد افسانوں کا مجموعہ ہے، جن کے ذریعے مذہبی روایتوں اور اس کے تضادات، رئیسوں کی رئیسانہ حرکتوں، متوسط طبقہ کے مسلم خاندانوں کے تضاد سے بھرپور رشتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ کہانی سماج اور اس میں موجود مذہبی جنونیت پر شدید وار کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ جب سب کچھ پہلے سے طے ہے تو پھر یہ ہنگامہ کیوں برپا ہے؟