شارب ردولوی کے مضامین
ولی کا فن
ولی کی شاعری دراصل غزل کی شاعری ہے۔ یوں تو ان کے کلیات میں مثنوی، قصیدے، قطعات، خمسے سب ہی کچھ ہیں لیکن جس چیز نے آزاد کی زبان میں انہیں ’شہرت عام اور بقائے دوام‘ بخشی وہ غزل ہی ہے۔ کلیات ولی میں غزل ہی کا حصہ زیادہ بھی ہے اور وقیع بھی۔ غزل اردو
مرثیہ کی ابتداء، اس کی ہیئت اور واقعۂ کربلا سے تعلق
اردو زبان ایک سائنٹفک اور صحت مند ادب کی حامل ہے۔ اس میں اتنی سکت (Potentiality) ہے کہ وہ ہر اچھی چیز کوبڑی آسانی سے اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ خود میں اس کو اس طرح ملا لیتی ہے کہ اس با ت کا احساس تک فنا ہو جاتا ہے کہ یہ چیز کسی دوسری
اردو مرثیہ: تلاش ہیئت کا سفر
اردو کی تمام شعری اصناف میں صرف مرثیہ ایک ایسی صنف ہے جس نے ہیئت کے تجربات کا طویل ترین سفر کیا ہے یا یوں کہئے کہ ہیئت کے درجہ بہ درجہ ارتقا کا جو سفر مرثیے نے طے کیا وہ کسی دوسری صنف سخن نے نہیں کیا۔ آج اردو مرثیہ جس شکل میں ہمارے سامنے ہے وہ ہیئت
ولی کی صوفیانہ شاعری
اردو شاعری اور تصوف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ابتدا سے ا ب تک شعراء کسی نہ کسی شکل میں مسائل تصوف پر غور کرتے رہے ہیں اور قدیم شعراء کے کلام پر صوفیانہ فکر کا پر تو غالب رہا ہے۔ زندگی کیا ہے، دنیا کیا ہے، خدا کیا ہے، بندے اور خدا کا کیا رشتہ ہے، فنا
مراثی انیس میں جمالیاتی عناصر
شاعری میں جب فنکاری یا اس کے اعلیٰ معیار کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے ذہن جمالیاتی قدروں کی طرف جاتا ہے۔ یعنی اگر فن پارہ جمالیاتی اعتبار سے کمزور ہے تو اسے اعلیٰ درجے کی تخلیق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جمالیات حسن کا فلسفہ ہے اور یہ ان احساسات میں ہے جو
انیس کے مرثیوں کا سماجیاتی مطالعہ
شاعری کو کوئی ’’نوائے سروش‘‘ سے تعبیر کرتا ہے، کوئی بیداری اور خواب کے درمیان وجود میں آنے والا الہام قرار دیتا ہے، کوئی لاشعور کی پیداوار کہتا ہے، کسی کی نگاہ میں وہ ’’لاشریک اور ناموجود‘‘ سے ابھرنے والی ایک حقیقت ہے، کسی کے لیے غیب سے خیال میں آنے
مراثی دبیر میں مضمون آفرینی کا عمل
مرزا دبیر اردو مرثیے کی عظمت کے بنیادی ستونو ں میں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری ہمیشہ سوالیہ نشانوں کی زد پر رہی۔ میرے خیال میں اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دبیر کو دبیر کی شکل میں نہیں دیکھا گیا۔ ان کی تنقید و تجزیے پر ہمیشہ موازنہ حاو ی رہا اور
کیا مرثیہ ڈراما ہے؟
یہ بات واضح ہے کہ مرثیہ اور ڈراما الگ الگ اصناف ہیں لیکن ان کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ مرثیے کو ڈرامایا ڈرامے کو مرثیہ کہہ سکتے ہیں اور نہ اس طرح کی مماثلت ثابت کرنا اس مقالہ