- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4031 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر63
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی272
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
آل احمد سرور کے مضامین
اقبال اور ان کے نکتہ چیں
اقبال کو اپنی زندگی میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ آج تک کسی شاعر کو نصیب نہ ہوئی۔ قبول عام کلام کی خوبی کا ضامن نہیں سمجھا جاتا مگرغور سے دیکھا جائے تو جمہور جس کے سر پر تاج رکھ دیتے ہیں، اس کی بادشاہت کی بنیاد بہت دیر پا عناصر پر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جانسن
غزل کا فن
غزل کے سلسلے میں پہلے اپنے دو شعر پڑھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ غزل میں ذات بھی ہے اور کائنات بھی ہے ہماری بات بھی ہے اور تمہاری بات بھی ہے سرور اس کے اشارے داستانوں پر بھی بھاری ہیں غزل میں جوہرِ اربابِ فن کی آزمایش ہے یعنی غزل میں ذاتی
تنقید کیا ہے؟
مغرب کے اثر سے اردو میں کئی خوشگوار اضافے ہوئے، ان میں سب سے اہم فن تنقید ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کے اثر سے پہلے اردو ادب میں کوئی تنقیدی شعور نہیں رکھتا تھا، یا شعروادب کے متعلق گفتگو، شاعروں پر تبصرہ اور زبان و بیان کے محاسن پر بحث نہیں ہوتی
اقبال، فیض اور ہم
میں اردو مرکز لندن کے عہدہ داروں اور اراکین کا ممنون ہوں کہ انہوں نے فیض کی پہلی برسی کے موقع پر مجھے لندن آنے اور پہلا فیض میموریل لیکچر دینے کی دعوت دی۔ فیضؔ کی یاد میں لیکچروں کے سلسلے کا یہ آغاز ایک قابل قدر اقدام ہے اور امید ہے کہ ان لیکچروں کے
اردو شاعری میں تصوف کی روایت
میلکام مگرج، مشہور انگریزی مصنف نے کہا ہے کہ ’’ہندوستان میں اب صرف وہی انگریز باقی رہ گئے ہیں جو تعلیم یافتہ ہندوستانی ہیں۔‘‘ اس پر لطف طنز سے یہ نکتہ ابھرتا ہے کہ مغربی اثرات کی کتنی ہی برکتیں رہی ہوں (اور یہ برکتیں مسلم ہیں) مگر ان کی وجہ سے اپنی تہذیبی
فکشن کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟
ڈی ایچ لارنس کہتا ہے، ’’میں زندہ انسان ہوں اور جب تک میرے بس میں ہے میرا ارادہ زندہ انسان رہنے کا ہے۔ اس لیے میں ایک ناولسٹ ہوں اور چونکہ میں ناولسٹ ہوں اس لیے میں اپنے آپ کو کسی سنت، کسی سائنٹسٹ، کسی فلسفی، کسی شاعر سے برتر سمجھتا ہوں، جو زندہ انسان
اردو اور ہندوستانی تہذیب
بظاہر اردو اور ہندوستانی تہذیب کے موضوع پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ اردو ایک جدید ہندوستانی زبان ہے اور ہماری مشترک تہذیب کی ایک شاندار مظہر۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ کچھ حلقوں کی طرف سے ایسے خیالات ظاہر کئے گئے ہیں جن کا اثر اب بھی بہت
لکھنؤ اور اردو ادب
ہر دور کا ادب اس دور کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے، لکھنؤ کو اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک شمالی ہند کی تہذیب میں ایک نمایاں درجہ حاصل رہا ہے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دہلی کی مرکزی حیثیت کمزور ہو گئی مگر اس کے باوجود اس مرکز میں
ادب میں جدیدیت کا مفہوم
جدیدیت کا ایک تاریخی تصور ہے، ایک فلسفیانہ تصور ہے اور ایک ادبی تصور ہے۔ مگر جدیدیت ایک اضافی چیز ہے، یہ مطلق نہیں ہے۔ ماضی میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جو آج بھی جدید معلوم ہوتے ہیں۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو در اصل ماضی کی قدروں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور
ترقی پسند تحریک پر ایک نظر
آزادؔ نے آب حیات میں میرؔ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ایک دفعہ ایک کرم فرما نے ان کے لیے ایک ایسے مکان کا انتظام کیا، جس کے ساتھ ایک بہت اچھا باغ بھی تھا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے جاکر دیکھا تو باغ کی طرف کی کھڑکیاں بند تھیں اور میرؔ فکر سخن میں مصروف۔
شاعری اور نثر کا فرق
اسلوبیات اور ساختیات کے ماہروں کا کہنا یہ ہے کہ NORM یا معمول نثر ہے اور شاعری دراصل اس معمول میں وقفے PAUSE یا انحراف DEVIATION کا نام ہے۔ ان لوگوں نے یورپ کی کلاسیکی شاعری، رومانی شاعری اور جدید شاعری کے جائزے اور اعداد وشمار کی مدد سے یہ ثابت کیاہے
میر کے مطالعے کی اہمیت
اردو شعر و ادب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابھی تک ہمارے بہت سے امامان فن کے کلیات و دواوین تو دستیاب ہی نہیں ہوتے یا ملتے ہیں تو بہت غلط ہیں اور ان کی کتابت و طباعت بھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ
اقبال اور نئی مشرقیت
اقبالؔ نے اپنے متعلق کہا ہے، کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق میں ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند ابلۂ مسجد اس پرانی مشرقیت کی علامت ہے جو ایک جامد مذہبی تصور رکھتی ہے اور صرف عقائد و عبادات سے سروکار رکھتی ہے۔ معاملات کی اہمیت کو نظر انداز
اکبر کی ظرافت اور اس کی اہمیت
میرؔ یڈتھ کا قول ہے کہ ’’کسی ملک کے متمدن ہونے کی سب سے عمدہ کسوٹی یہ ہے کہ آیا وہاں ظرافت کا تصور اور کامیڈی (طربیہ) پھیلتے پھولتے ہیں یا نہیں۔ اور سچے طربیہ کی پرکھ یہ ہے کہ وہ ہنسائے مگر ہنسی کے ساتھ فکر کو بھی بیدا ر کرے۔’’ اردو ادب کا سرمایہ اس
اردو تنقید ایک جائزہ
جناب وائس چانسلر صاحب، صدر شعبۂ ا ردو، مہمانان گرامی، خواتین و حضرات، حالیؔ کا مقدمہ شعر و شاعری ۱۸۹۳ء میں شائع ہوا۔ مقدمہ ہماری تنقید کا پہلا صحیفہ ہے۔ مقدمہ سے پہلے محمد حسین آزادؔ کے افکار اور سر سید کے تہذیب الاخلاق میں بعض مضامین کی اہمیت بھی
اردو شاعری میں خمریات
شعر و ادب میں شراب کا ذکر اس کثرت سے کیوں ہوتا ہے یہ تو اس پرانے گنہگار سے پوچھئے جو مست جام شراب ہونا کافی نہیں سمجھتا بلکہ غرق جام شراب ہونا چاہتا ہے۔ میں تو توبۃ النصوح قسم کا آدمی ہوں، دور سے تماشہ دیکھنے والا! میں آپ کو صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ
مولانا آزاد کا اسلوب نثر
ڈاکٹر عابد حسین نے مولانا آزاد کے ادبی اسلوب کے تین دور قائم کئے ہیں، زعیمانہ، حکیمانہ اور ادیبانہ۔ سجاد انصاری نے کہاتھا کہ ’’اگر قرآن اردو میں نازل ہوتا تو اس کے لئے ابوالکلام کی نثر یا اقبالؔ کی نظم منتخب کی جاتی۔‘‘ حسرتؔ کو ابوالکلام کی نثر کے
ہندوستان کی جنگ آزادی میں اردو کا حصہ
آج کچھ حلقوں میں یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اردو کا سارا سرمایہ بدیسی ہے، اس کے ادیبوں اور شاعروں کی نگاہیں وطن کے بجائے بیرونی ممالک پر لگی ہوتی ہیں۔ اس کے لکھنے اور پڑھنے والے ہندوستان سے محبت نہیں رکھتے، انھوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں کوئی
غالب کی شاعری کی معنویت
میں حالیؔ کا بڑا احترام کرتا ہوں۔ حالیؔ ہمارے ایک بزرگ شاعر اور پہلے نقاد ہیں۔ حالیؔ کی متین، دھیمی اور باوقار لے نے بیسویں صدی کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ حالیؔ نے جو راہیں نکالیں آج وہ شاہراہیں ہیں اور ان پر ایک ہجوم رواں دواں ہے۔ حالیؔ نے ایک
ہماری مشترک تہذیب اور اردو غزل
ہماری مشترک تہذیب، اس برصغیر میں، جنوبی ایشیا، جنوبی مشرقی ایشیا اور مغربی اور وسطی ایشیا کی تہذیبوں کے اختلاط سے عبارت ہے۔ اس کی تشکیل میں ہندوستان کے قدیم باشندوں، دراوڑوں، آریا، وسط ایشیا کے غارت گر قافلوں اور جنوبی ساحل، مغربی ساحل اور شمال مغرب
فانی: شخصیت اور شاعری
شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی کی تاریخ پیدائش۱۳؍ ستمبر ۱۸۷۹ء ہے۔ ان کے انتقال کو اڑتالیس سال ہونے کو آئے۔ (تاریخ وفات ۲۲؍اگست ۱۹۴۱ء) اپنے دور میں فانیؔ خاصے مقبول تھے۔ ان کے انتقال کے بعد فانیؔ کے خلاف بھی بہت کچھ کہا گیا۔ آج فانیؔ کو کچھ لوگ بھولتے جارہے
حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کی معنویت
حالیؔ کی بات ہو تو سجاد انصاری کایہ قول ضرور یاد آتا ہے کہ ’’میں اس حالیؔ کا قائل ہوں جس نے پہلے شاعری کی اور پھر مقدمہ لکھا۔‘‘ یعنی حالیؔ کی تنقید اس باشعور فن کار کی تنقید ہے جس نے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ جو غالبؔ کا معتقد اور میرؔ کا مقلد
املا اور رسم خط
صدرِ محترم، مہمان خصوصی، ڈائرکٹر اردو تدریسی و تحقیقی مرکز، خواتین وحضرات! میں ڈائرکٹر اردو تدریسی و تحقیقی مرکز لکھنؤ کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس اہم سیمینار کے افتتاح کے لیے مجھے یاد کیا۔ جب سے یہ مرکز قائم ہوا ہے، اس نے قواعد زبان اور تدریس زبان
اقبال کی سیاسی فکر: ایک طائرانہ نظر
اقبال کی فکر میں ایک وحدت ہے۔ ان کی سیاسی فکر کو ان کے فلسفہ خودی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ انہوں نے ہندوستانی فلسفے، مغربی افکار اور انیسویں صدی کے اہم نظریات سے واضح اثر قبول کیا مگر ان کی فکر کا سر چشمہ اسلام اور اس کی اساس قرآن ہے۔ اقبالؔ ایک
اردوئے معلی
اردو ادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، ان میں دل گداز، مخزن، اردوئے معلیّٰ، زمانہ، نگار اور اردو ممتاز ہیں۔ ان میں اردو ئے معلیّٰ کئی حیثیتوں سے سرفہرست ہے۔ یہ رسالہ مولانا حسرت نے اس وقت نکالا جب وہ بی اے کے امتحان سے فارغ ہی
غزل کی زبان اور اقبال کی غزل کی زبان
اقبالؔ کا ایک شعر ہے، نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں کوئی دل کشا صدا ہو، عجمی ہو کہ تازی تو کیا واقعی غزل کی زبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے؟ کیا یہ صرف شاعرانہ زبان ہے یا اس شاعرانہ زبان کی کچھ خصوصیات بھی ہیں۔ اردو غزل کا سرمایہ خاصا
ادب میں قدروں کا مسئلہ
اقبال نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو سماج کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور جب شاعر کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو سماج کی آنکھیں کھلتی ہیں۔‘‘ میں یہ قول ایک کلیے کی طرح نہیں دہرا رہا ہوں، بلکہ صرف اس بات پر زور دیناہے کہ شاعر
غالب اور جدید ذہن
چند سال ہوئے میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک تجربہ کیا تھا۔ یونیورسٹی کے تیس ایسے اشخاص سے جو اردو کے ادیب یا شاعر یا استاد ہیں، یہ فرمائش کی گئی تھی کہ وہ غالبؔ کے دس بہترین اشعار کی نشان دہی کریں اور اپنے انتخاب کے وجوہ بھی بیان کریں۔ اس تجربے
میر میری نظر میں
آبِ حیات‘‘ میں آزادؔ نے میرؔ کے متعلق یہ روایت بیان کی ہے کہ میرؔ کے ایک دوست انہیں تبدیل آب و ہوا کے لئے اپنے ایک مکان میں لے گئے۔ کچھ دن کے بعد جب وہ آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کمرے کی کھڑکیاں بند پڑی ہیں۔ انہوں نے کھڑکیاں کھولیں اور میرؔ سے کہا
پورےغالب
ہماری تنقید اب تک ادب کے کسی نہ کسی پابند تصور سے آزاد نہیں ہو سکی ہے، گو حال میں اس تصور سے بلندی اور ادب کی اپنی خصوصیت کو واضح کرنے کی کوششیں ملنے لگی ہیں۔ ادب میں اخلاق، ادب میں مذہبی تصورات، ادب میں تصوف، ادب میں سماجی قدریں، ادب میں انسان دوستی
اردو تنقید کے بنیادی افکار
اردو میں تنقید مغرب کی دین ہے، تنقیدی شعور اس سے پہلے بھی تھا اور ایک طرف یہ فن کاروں کے اشارات ونکات میں ظاہر ہوتا تھا، دوسری طرف تذکروں کی مدح و قدح میں۔ مگر اس کی ضرورت اسی وقت محسوس ہوئی جب ۱۸۵۷ء کے بعد زندگی کے تقاضوں نے ادب کارخ موڑ دیا اور ادب
اقبال اور تصوف
رابرٹ فراسٹ کا زندگی سے جھگڑا ایک پریمی کا تھا۔ کچھ ایسا ہی جھگڑا اقبالؔ کا تصوف سے ہے۔ شاید عالم خوند میری نے جب اقبالؔ کے یہاں تصوف کی کشش اور اس سے گریز کا ذکرکیا تھا تو ان کے ذہن میں بھی یہی نکتہ تھا۔ بہر حال یہ طے ہے کہ اقبال کو تصوف سے دلچسپی ورثے
اقبال کا کارنامہ اردو نظم میں
نظم کی اصطلاح پہلے تو شاعری کے لئے استعمال ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں نثر کو رکھا جاتا تھا۔ پھر یہ غزل کے علاوہ شاعری کی دوسرے اقسام کے لئے استعمال ہونے لگی مگر جدید تناظر میں نظم وہ صنف سخن ہے جو نہ قصیدہ ہے نہ مثنوی، نہ مرثیہ، نہ شہر آشوب، نہ واسوخت،
مجاز، رومانیت کا شہید
اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے تقریباً پچیس سال شاعری کی۔ اس طویل عرصے کو دیکھتے ہوئے ان کا مجموعۂ کلام بہت مختصر ہے۔ ان کی بہترین نظمیں بیشتر ۱۹۳۵ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیان کی ہیں۔ ادھر چار پانچ
حسرت کی عشقیہ شاعری: میری نظر میں
حسرتؔ کی شاعری کی قدروقیمت کو پرکھتے وقت ان کے ان اشعار کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے، شعر در اصل ہیں وہی حسرت سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں غالبؔ و مصحفی و میرؔ و نسیم و مومن طبع حسرت نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض ہے زبانِ لکھنؤ میں رنگِ دہلی
نظم کی زبان
زبان کا تصور سماج کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ فرد کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی، وہ سماج سے ایک زبان سیکھتا ہے۔ تحریر کی اہمیت کے باوجود، زبان کی بنیاد بول چال میں ہے۔ زبان سیکھ لی جائے تو یہ ایک عادت بن جاتی ہے۔ زبان میں طبقوں کا فرق بھی ملتا ہے۔ اس میں
کچھ فراق کے بارے میں
فراق کی ایک رباعی ہے، ہر عیب سے مانا کہ جدا ہو جائے کیا ہے اگر انسان خدا ہو جائے شاعر کا تو بس کام یہ ہے ہر دل میں کچھ درد حیات اور سوا ہو جائے ہماری تنقید اب تک فنکار پر زیادہ توجہ کرتی رہی ہے، اس کے فن پر کم۔ فراق کی زندگی میں ان کی شخصیت
ادب میں اظہار و ابلاغ کا مسئلہ
ادب بنیادی طور پر انسانی جذبات و احساسات کے اظہار سے عبارت ہے۔ یہ اظہار تخلیقی تحریک اور میلان کا نتیجہ ہے جس سے عام لوگ کم ہی بہرہ ور ہوتے ہیں۔ عام لوگ احساس رکھتے ہیں مگر اس کا اظہار نہیں کر سکتے۔ انھیں زبان وبیان پر وہ قدرت حاصل نہیں ہوتی جو اپنے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-