عاصم شہنواز شبلی کے دوہے
گھر گھر جا کر جو سنے لوگوں کی فریاد
اس کو اپنے گھر میں ہی ملے نہ کوئی داد
سہمے سہمے قافلے پتھر دل ہیں لوگ
ہم ہیں ان کے بیچ اب یہ تو اک سنجوگ
یاد آتا ہے رہ رہ کے چھوٹا سا وہ گاؤں
برگد پیپل کی وہی پیاری پیاری چھاؤں
کیسے نکھرے شاعری اور طرز اظہار
اس میں ہوتا ہے میاں خون دل درکار