عبدالرحیم نشترؔ نے اپنے بے باک اور جارحانہ لب و لہجے کی وجہ سے ودربھ کے ’’اینگری ینگ مین‘‘ کے نام سے شہرت پائی۔ ودربھ میں جدید ادب کو فروغ دینے میں نشتر کا اہم رول رہا ہے۔ ’’چاروں اور‘‘ کی ترتیب و اشاعت میں شاہد کبیر اور مدحت الاختر کو بھرپورتعاون دیا۔
نشترؔ نے ’’ارتکاز‘‘ کے نام سے ہندوپاک کے منتخب 38 جدید شاعروں کی غزلوں کا انتخاب 1971ء میں شائع کیا۔ ’’اعراف‘‘(1972ء) اور ’’شام گراں‘‘(1978(ء) کے نام سے غزلوں کے دو مجموعے اشاعت پذیر ہوئے جن کی ادبی دنیا میں خوب پذیرائی ہوئی۔ علاوہ ازیں انہوں نے ’’ودربھ نامہ‘‘ کے نام سے ایک جریدہ نکالا جو وردھ میں جدید ادب کا نقیب بن گیا۔ اس کے اثر سے کافی قلمکاروں نے جدید رنگ و آہنگ میں کھل کر کہنے کی جرأت کی۔ ’’بھوپال ایک خواب‘‘ (رپورتاژ) عمدہ نثر کا نمونہ ہے اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے بھی خوب لکھا ہے۔ بچوں کے لیے نظموں کے مجموعوں ’’بچارے فرشتے‘‘ اور ’’کوکن رانی‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ نشترؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے جدید رنگ میں نظمیں بھی کہی ہیں۔ لہجے کی بے ساختگی، ہندی لفظیات کا استعمال اور احتجاجی آہنگ ان کی انفرادیت ہے۔
عبدالرحیم نشتر نے ایم۔ اے (اردو) بی۔ ایڈ، پی۔ ایچ۔ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ عبدالرحیم نشتر 2009ءمیں امبیٹ سے بحیثیت مدرس سبکدوش ہوئے۔