- کتاب فہرست 186005
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1981
طرز زندگی22 طب923 تحریکات299 ناول4795 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1460
- دوہا48
- رزمیہ108
- شرح200
- گیت60
- غزل1185
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1597
- کہہ مکرنی6
- کلیات691
- ماہیہ19
- مجموعہ5045
- مرثیہ384
- مثنوی838
- مسدس58
- نعت561
- نظم1246
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی18
- قطعہ63
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
ابرار مجیب کے افسانے
رات کا منظر نامہ-۱
سارا قصہ اس عجیب وغریب رتھ سے شروع ہوا تھا جسے کھینچنے کے لیے گھوڑے نہیں تھے پھر بھی رتھ سرعت سے بھاگتا تھا، اس رتھ کے تعلق سے یہ خبر گشت کر رہی تھی کہ اسے ماضی کے اندھے کنویں سے نکالا گیا ہے اور یہ ماضی ہی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ یہ رتھ ایک انتہائی قدیم
بارش
سفر کی ابتداء اور انتہا ہمیشہ نامعلوم ساعتوں کی گود میں اٹھکھیلیاں کرتی ہے اور ہم ذہانت کی ارفع سطح پر خود فریبی کے گیت گاتے ہیں۔ پکے راگ میں گیت کے بول فضا مرتعش ہو رہے تھے اور باہر دھوپ نکھری ہوئی تھی۔ آسمان شفاف تھا۔ دور دور تک بادلوں کا نام و نشان
اسٹوری
اسٹوری رات کافی بیت چکی تھی، بہزاد الیاسی کو اس کاعلم اچانک ہی ہوا جب بے چینی سے ٹہلتے ٹہلتے اس کی نظر ڈیجیٹل وال کلاک پر جاٹکی جس پر ٹو تھرٹی ایٹ اے ایم کے سبز ہندسے انگریزی حروف کے ساتھ چمک رہے تھے۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، اندھیرے میں اسٹریٹ
موت
اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھا۔ اندھیرے کا ناگ ہر طرف پھن کاڑھے سرسرا رہا تھا۔ اتنا گھنا اندھیرا کہ اسے خود اپنے وجود پر سے اعتبار اٹھ رہا تھا۔ شک کی تیز لہریں اس کے ذہن کی دیواروں سے ٹکرانے لگیں۔ ’’میں ہوں؟‘‘ ’’میں ہوں؟؟‘‘ پہلے ایک
رات کا منظر نامہ-۲
آسمان سے رات نہیں برس رہی ہے، مگر دورتک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلوں کے پیچھے صدیوں کا تھکا سورج غروب ہو چکا ہے۔ دور افق میں شفق کی لالی سیاہی مائل ہو رہی ہے، تاہم آکاش کے نیلے پن پر دھبوں کی صورت فی الحال اس طرح نہیں بکھری ہے جیسے قصاب خانے کے فرش پر منجمد
ڈاروِن، بندر اور ارتقاء
شیخ جمن اپنے آراستہ و پیراستہ بیڈ روم کی کھڑکی سے نیچے سڑک پر لوگوں کی رینگتی ہوئی بھیڑ دیکھتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے مانو وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں اپنا بیڈروم چوتھی منزل پر بنواکر انہوں نے اچھا ہی کیا، اس سے ایک قسم کی بلندی
پشپ گرام کا اتہاس
پشپ گرا م چندر لیکھا پہاڑیوں کی گود میں جنگل کے چھور پر آباد تھا۔ گرام سے کوس بھر دوری پر سوگندھا ندی بہتی تھی۔ یہ گرام بہت سارے گراموں کی طرح کنبہ، برادری پر مبنی تھا اور ہر آدمی دوسرے آدمی کا سمبندھی تھا۔ گھر ہی کتنے تھے، یہی کوئی پچاس، ساٹھ، پورے
جنگ بند
جمیل بھائی کی زندگی یوں ہی گزر رہی تھی، بندھی بندھائی، صبح اٹھنا، ضروریات سے فارغ ہونا، کٹورا بھر چائے کے ساتھ بناسپتی چپڑے ہوئے تین چار پراٹھے تیزی سے نگلنا اور ڈیوٹی کے لئے گھر سے نکل پڑنا۔ منظر علی کی دکان سے پان لے کر وہ تیزی سے سائیکل کا پینڈل گھماتے
پچھواڑے کا نالا
جھرجھر، سرسر،پچھواڑے کا نالا بہہ رہا ہے۔۔۔ چارپائی کے نیچے رکھا ہوا بوٹ کا جوڑا میری نگاہوں کے سامنے ہے اور آنگن میں نیم کے عظیم الشان صدیوں پرانے درخت کی شاخ پر بیٹھا ہوا کوئی کوا چلانے لگاہے۔ کائیں کائیں، بڑے بوڑھے کہتے ہیں جب کوا تیرے آنگن میں
بازیافت
اسے بار بار یہ احساس ہو تا کہ کچھ کھو گیا ہے، گم ہو گیا یا چھوٹ گیا ہے، جو بہت ہی اہم تھا۔ وہ کیا شے ہے، وہ کیا ہو سکتا ہے؟ اسے دھندلے دھندلے سے نقوش نظر آتے جو واضح ہو نے سے قبل ہی غائب ہو جاتے۔ مانو رات ایک خواب دیکھا اور جب صبح بیدار ہوکر یاد کرنے
افواہ
میرے خلاف ایک نہ ایک افواہ جنم لے لیتی ہے اور چاروں طرف گشت کرنے لگتی ہے، یہ افواہیں کون پھیلاتا ہے، یا کون لوگ پھیلاتے ہیں مجھے نہ تو علم ہے اور نہ ہی اس کوئی اندازہ لگا سکتا ہوں۔ اپنے تعلق سے پھیلی ہوئی افواہ کا علم بھی مجھے کسی دوسرے کے ذریعہ ہوتا
نروان سے پرے
اسے ایک تازہ تصویر بنانی تھی لیکن کون سی تصویر؟ یہ اس کے ذہن کے کینوس پر واضح نہ تھا، بس دھندلے دھندلے سے نقوش تھے۔ تخیئل کی اڑان کائنات کی وسعتوں میں محو پرواز تھی۔ مناظر روشن، فلک بوس کوہساروں کی برف پوش چوٹیاں، شفاف ندیوں کی روانی، فضاء میں محو پرواز
join rekhta family!
-
ادب اطفال1981
-