آفتاب شاہ عالم ثانی کا تعارف
شاہ عالم ثانی مغلیہ سلنطنت کے ایسے بادشاہ تھے جن کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ زیادہ بدنصیب تھے یا زیادہ مظلوم۔ اپنے 48 سالہ عہد حکومت میں بارہ سال تک وہ جان کے خطرہ کی وجہ سے دار الخلافہ دہلی میں قدم نہیں رکھ سکے۔ دہلی آنے کے بعد سترہ سال تک انھوں نے چو طرفہ شورشوں میں گھرے رہ کر اپنی آنکھوں سے مغلیہ سلطنت کے زوال کا تماشہ دیکھا جس کے بعد قدرت کو منظور نہ ہوا کہ وہ اپنی آنکھوں سے مزید کچھ دیکھتے۔ ان کے امیر الامراء غلام قادر روہیلا نے ان کی آنکھیں نکال کر انہیں اندھا کر دیا اور زندگی کے باقی 19 سال انھوں نے اسی حالت میں حکومت کی۔ یہ ان کی نجی زندگی کا سب سے بڑا المیہ تھا جس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اسی معذوری نے ان کو نثر میں عجائب القصص اور نظم میں نادرات شاہی املا کروانے کا موقع دیا۔ عجائب القصص شمالی ہند میں اردو نثر کے اولین نمونوں میں سے ایک اور اپنی زبان کے لحاظ سے منفرد ہے۔ تذکرہ نویسوں نے ان کے اردو دیوان کا بھی ذکر کیا ہے جو کہیں نہیں ملتا۔ اردو، ہندی اور فارسی کے شاعری کے نمونے ان کی کتاب نادرات شاہی میں ملتے ہیں جو اردو کے ساتھ ساتھ دیوناگری رسم الخط میں ہے اور جس سے ہمیں ان کے مزاج اور ان کی دلچسپیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
شاہ عالم ثانی، عالمگیر ثانی کے بیٹے اور ولی عہد تھے۔ ان کی پیدائش ایسی حالت میں ہوئی جب عالمگیر ثانی لال قلعہ میں نظربندی کے دن گزار رہے تھے۔ شاہ عالم کا اصل نام مرزا عبداللہ عرف عالی گہر (یا علی گوہر) تھا اور بچپن میں لال میاں اور مرزا بلاقی بھی کہے جاتے تھے۔ بادشاہ بننے کے بعد انہوں نے ابوالمظفر جلال الدین محمد شاہ عالم ثانی کا لقب اختیار کیا۔ اسیری کے باوجود ان کی تعلیم شاہی دستور کے مطابق ہوئی۔ وہ فارسی اردو اور ہندی کے علاوہ ترکی زبان بھی جانتے تھے۔ جوان ہوئے تو قسمت نے پلٹا کھایا اور ان کے والد کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ اس وقت بادشاہ قلعہ کے امیروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن چکا تھا۔ وہ جسے چاہتے حکومت سے معزول یا قتل کرتے اور جسے چاہتے بادشاہ بنا دیتے تھے۔ عالمگیر ثانی بادشاہ اور مرزا عبداللہ ولی عہد تھے ولی عہد اس گھٹن، بے بسی اور بے یقینی سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ باپ عالمگیر ثانی نے بھی بیٹے کی محبت میں یہی پسند کیا کہ ان کو اک جاگیر دے کر قلعہ سے دور کر دیا جائے۔ لیکن عمادالمک نے اس میں اپنے لئے خطرہ محسوس کیا۔ اس نے عالمگیر کو مجبور کیا کہ وہ بیٹے کو دہلی واپس بلائیں۔ شاہ عالم خطرہ کو بھانپ گئے اور محاصرہ کے باوجود اودھ کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اودھ کے نواب شجاع الدولہ نے ان کا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ کچھ عرصہ لکھنؤ میں قیام کے بعد الہ آباد کے حاکم محمد قلی خان نے ان کو الہ آباد بلا لیا۔ وہ بہت دنوں سے بنگال پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ اس نے شاہ عالم کو بہار اور بنگال پر لشکر کشی کے لئے تیار کر لیا، شجاع االدولہ نے بھی تجویز کی تائید کی۔ لیکن اس مہم میں انہیں کامیابی نہیں ملی اورمحمد قلی خان دل برداشتہ ہو کر الہ آباد واپس چلا گیا۔ لیکن ولی عہد اس ناکامی سے دل برداشتہ نہیں ہوئے اور اکتوبر 1759ء میں دوبارہ بہار کا رخ کیا۔ جب وہ بہار کے قصبہ کھتولی میں تھے اسی وقت ان کو باپ کے قتل کئے جانے کی خبر ملی۔ انھوں نے وہیں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ تاجپوشی کی رسوم کے بعد انہوں نے بہار میں آگے بڑھنا شروع کیا۔ راجہ رام نرائن نے آگے بڑھ کر مقابلہ کیا لیکن زخمی ہوکر پٹنہ کے قلعہ میں چھپ گیا اتنے میں انگریزی فوج راجہ کی مدد کو پہنچ گئی اور خاصے کشت و خون کے بعد بادشاہ کو شکست ہوئی۔ انگریز انہیں لے کر پٹنہ آ گئے اور قلعہ میں رکھا۔ اسی عرصہ میں میر جعفر کے داماد میر قاسم جس کو انہوں نے میر جعفر کی جگہ بنگال کا حاکم بنا رکھا تھا۔ بادشاہ کے پاس آیا اور 24 لاکھ روپے کے عوض بنگال کی نظامت کی سند حاصل کر لی۔ کچھ عرصہ بعد میر قاسم کی انگریزوں سے بگڑ گئی اور لڑائی میں اسے شکست ہوئی۔ وہ بھاگ کر الہ آباد آیا اور بادشاہ کو جو انگریزوں کی قید جیسی مہمان داری سے تنگ آکر الہ آباد شجاع الدولہ کے پاس چلا آیا تھا، بنگال پر فوج کشی کے لئے ابھارا، شجاع الدولہ نے اس کی تائید کی۔ بادشاہ میر قاسم اور شجاع الدولہ کے ٹڈی دل جیسے لشکر نے بنگال پر چڑھائی کی اور انگریزوں کی مٹھی بھر فوج سے بکسر کے مقام پر 23 اکتوبر 1764ء کوایسی شکست کھائی جو ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کر گئی۔ انگریز جو ابھی تک صرف تاجر تھے اب ملک پر حکمرانی کی طرف پر چل پڑے، انہوں نے بادشاہ سے بہار، بنگال اور اڑیسہ کے دیوانی اختیارات 26 لاکھ روپے کے عوض حاصل کر لئے۔ بادشاہ کو الہ آباد اور کوڑہ جہان آباد جاگیر میں دئے گئے اور حفاظت پر انگریز فوج مامور ہوئی۔ یعنی اب بادشاہ انگریزوں کی قید میں تھے۔ بادشاہ انگریزوں کی قید سے پریشان تھے، دہلی جانا چاہتے تھے لیکن وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ آ خر مرہٹوں نے حفاظت کا وعدہ کر کے انھیں دہلی بلا لیا۔ اور انہیں اپنے اشاروں پر نچانے لگے۔ ان سے روہیل کھنڈ پر حملہ کرایا، جہاں مرہٹوں نے خوب لوٹ مچائی اور بادشاہ کو کچھ نہ دیا۔ بادشاہ روہیلہ حاکم ضابطہ خاں(جو بادشاہ کے محسن نجیب الدولہ کا بیٹا تھا) کے بال بچوں کو پکڑ کر دہلی لے آئے۔ ان ہی لڑکوں میں غلام قادر روہیلہ تھا جس کو بادشاہ نے خصی کرا دیا اور زنانہ کپڑے پہننے پر مجبور کیا۔ اسی غلام قادر نے آخر بادشاہ کی آنکھیں نکالیں۔ وہ خود بھی بالآخر مرہٹوں کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا۔ اندھا ہونے کے بعد بھی مرہٹوں نے شاہ عالم کو بادشاہت پر برقرار رکھا۔ آخر انگریزوں نے آ کر انیں دہلی سے بھگایا۔ اب بادشاہ ایک لاکھ روپے ماہوار پر انگریزوں کا وظیفہ خوار تھا۔ اس زمانہ کا مشہور قول ہے۔ "سلطنت شاہ عالم از دلّی تا پالم" اسی حالت میں 19 نومبر 1896 میں اس کی موت ہوئی۔
بکسر کی جنگ میں شکست کے بعد بادشاہ کے پاس عیاشی کے سوا کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ دہلی میں چوطرفہ شورشوں کے باوجود یہ سلسلہ آنکھوں سے محروم ہونے تک جاری رہا۔ شاعری اور موسیقی سے دل بہلاتے تھے۔ فارسی اور اردو میں آفتاب اور بھاشا میں شاہ عالم تخلص کرتے تھے۔ فارسی میں مرزا محمد فاخر مکیں سے مشورہ کرتے تھے۔ اردو میں سودا کو ان کا استاد بتایا جاتا ہے جو قرین قیاس نہیں، سودا ان کی دہلی آمد سے پہلے فرخ آباد جا چکے تھے۔ شاہ عالم کے عہد میں سلطنت بگڑتی جا رہی تھی مگر اردو زبان سنور رہی تھی۔ محمد حسین آزاد کہتے ہیں، "عالمگیر کے عہد میں ولی نے اس نظم کا چراغ روشن کیا جو محمد شاہ کے عہد میں آسمان پر ستارہ بن کے چمکا اور شاہ عالم کے عہد میں آٖفتاب بن کر اوج پر آیا۔ شاہ عالم کے مزاج میں یوں بھی استقلال کی کمی تھی پھر عیش میں تو جادو کا سا اثر ہے۔ دن رات ناچ گانے اور شعر و شاعری میں گزارنے لگے۔ ان ہی کے زمانے میں سید انشاء دہلی آئے اور دربار سے وابستہ ہو گئے۔ بادشاہ کو ان کے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ شاہ عالم بڑے مشاق شاعر تھے۔ ان کے اشعار میں پیچدار خیالات، مشکل فقرے یا لفظ اور دور ازکار تشبیہیں نہیں ملتیں۔ جو کچھ دل میں ہوتا سیدھے لفظوں میں بیان کر دیتے تھے۔ ان کے کلام میں شان و شوکت کم مگر اثر زیادہ ہے۔
شاعری سے ہٹ کر شاہ عالم کا ایک اہم کانامہ ان کی نثری تصنیف عجائب القصص ہے۔ یہ دعوی تو نہیں کیا جاتا کہ یہ ہندوستان یا شمالی ہند میں اردو نثر کی پہلی تصنیف ہے لیکن یہ 18ویں صدی کی نثری تصانیف میں سے ایک ضرور ہے اور اس کی زبان دوسری تصانیف کے مقابلہ میں زیادہ نکھری ہوئی ہے۔ اگر نثری داستانوں کو تاریخی ترتیب سے دیکھا جائے تو عجائب القصص، قصہ مہر افروز و دلبر(1759ء)، نو طرز مرصع(1775ء)، نو آئین ہندی قصہ ملک محمد اور گیتی افروز(1788ء) کے بعد چوتھی نثری تصنیف ہے جو 1792ء میں لکھی گئی۔ یہ اک نامکمل داستان ہے لیکن اس سے اس دور کے متعلق بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ شاہ عالم کے ہندی کلام پر، جیسا کہ اس کا حق ہے ابھی تک توجہ نہیں دی گئی ہے۔