احمد حسین مائل کا تعارف
آسماں کھائے تو زمین دیکھے
دہن گور کا نوالا ہوں
ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ حیدرآباد دکن کے ایک نہایت نغز گو استاد شاعر تھے ۔ ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ اپنے دور میں عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور سائنسی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ طب یونانی اور ہومیوپیتھک میں اپنی نظیر آپ تھے ۔ طبابت کی تعلیم پاکر 1292 میں ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی۔ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ استاذِ فن اور مصلح سخن تھے جن کے شاگردوں میں نہ صرف اہل دکن بلکہ اہل شمال بھی تھے جن میں دائم جنگ المؔ، صادق جنگ حلمؔ، سید یوسف حسینی اعظمؔ، وجیہ الدین رساؔ، مفتی اعظم علی شائقؔ، عبدالسلام راغبؔ، عبدالوہاب عاصمؔ اور خواجہ فیاض الدین وغیرہ تھے۔ اس طرح ان کا حلقۂ تلامذہ کافی وسیع تھا بلکہ تقریباً تذکرہ نگاران اس بات پر اتفاق بھی کرتے ہیں کہ دکن میں حضرت میر شمس الدین فیضؔ کے بعد اساتذۂ سخن اور مصلحین سخن میں ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ کا درجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد حسام الدین فاضلؔ بھی ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ کی شاگردی میں تھے جو خود ایک متبحر عالم تھے۔ ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ عمر بھر ملازمتی مصروفیات میں گھرے رہے مگر اس کے باوجود انھوں نے تقریباً 15 ہزار اشعار کہے ہیں اور ان کے تین مجموعہ ہائے کلام بنام نور ظہور، ظہور نور اور تحفۂ دکن شائع ہوئے۔ علاوہ ازیں غزلوں اور نعتوں کے دو دیوان اور بھی ترتیب دیئے تھے۔ اس طرح وہ ایک قادرالکلام اور پرگو شاعر تھے جن کی شاعرانہ عظمت مسلمہ ہے۔ڈاکٹر احمد حسین مائل کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ اردو کے مشہور و معروف اساتذہ کی زمینوں میں غزلیں لکھتے تھے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کے جواب کے طور پر ہیں۔ مرقع سخن میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نے ان کے کلام پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے چنانچہ وہ یوں رقم طراز ہیں ::’’کلام مائل کی دوسری خصوصیت نہایت ہی سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں طبع آزمائی ہے۔ شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ کے بعد اردو زبان کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر پیدا ہوا ہو جو اس خصوصیت میں مائل کی ہم سری کرسکے‘‘۔
مائل کے کلام میں بعض مقامات پر جذبات نگاری اور معاملہ بندی پر مشتمل اشعار بھی ملتے ہیں اور اس بات میں بات کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے۔ تاہم یہاں ایک دو مناسب مثالیں جو ان کی معاملہ بندی سے متعلق ہیں، پیش کرناچاہتا ؎
سلام اس کو کیا تو ہنس کے پوچھا
تمہارا نام کیا مائلؔ تمہیں ہو
دیکھو تو یہ میخانہ ہے مسجد نہیں مائلؔ
کیا بھول گئے راستہ دیکھو کدھر آئے
ان اشعار میں سہل ممتنع کا انداز پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ کا رنگ ِ تغزل ملاحظہ ہو :
کسی صورت کسی عالم میں نہیں دل جمعی
کیا تری زلف ہوں جو اتنا پریشاں ہوں میں
کیا صبر ہو ، کیا چین ہو ، جب وہ نظر آئے
دل تھام لیا ، جان چلی ، اشک بھر آئے
دکھائے ایک رنگ انکار و اقرار
نہیں میں ہاں ہو اور ہاں میں نہیں ہو
لیکن ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ نے اپنی وہ قابلیت اور شاعرانہ صلاحیت دکھائی کہ بقول زورؔ شمالی ہند کے اکثر شاعر اور اہل ذوق مائلؔ کی زبان اور قدرت ِ کلام کے معترف تھے اور ان میں سے بعض تو اپنے کلام پر ان سے اصلاح لیتے تھے، چنانچہ شمس العلماء نذیر احمد کے فرزند بشیرالدین احمد دہلوی نے مائل کے دیوان کے مطالعہ کے بعد انھیں خط میں لکھا کہ :’’میری سچی رائے ہے کہ آپ کا کلام اعجاز عجیب و غریب اثر رکھتا ہے۔ دکن کے لوگوں سے زیادہ اہل ہند کو اس کی قدر کرنی چاہئے کہ انھیں کے بھائیوں میں سے ایک ایسا شخص نکلا جس نے دکن کا نام روشن کیا‘‘۔ (مرقع سخن، جلد اول، ص 24، بحوالہ زمزمۂ ہند و دکن ص 211)خود داغؔ دہلوی نے اعلیٰ حضرت غفران مکان کے مائلؔ کی نسبت پوچھنے پر کہا تھا کہ ’’وہ شاعر اچھے ہیں مگر مجھ پر ہمیشہ چوٹ کیا کرتے ہیں‘‘۔ یہ دراصل مائلؔ کے ان اشعار کی بدولت تھا، جو انھوں نے علانیہ طور پر داغؔ کے جواب میں کہے تھے، جیسے ؎
زبان کا بڑا جن کو دعویٰ ہے مائلؔ
انھیں بھی تو آئی زباں آتے آتے
کیوں مادری زبان پہ ہے مدعی کو ناز
مائل وہ اک کنیز ہے میرے جمال کی
آخر مضمون مائلؔ کی ایک رباعی پیش کی جاتی ہے ؎
میں حشر میں بے یار و مددگار آیا
خود سر پہ گناہوں کا لئے بار آیا
دیکھا جو مجھے دور سے اک دھوم مچی
رحمت یہ پکاری وہ گنہگار آیا
ڈاکٹر احمد حسین مائلؔ اپنے پیر و مرشد حضرت آغا داؤد کی درگاہ کے قریب آغاپورہ میں سکونت پذیر تھے۔ بالآخر 22 رمضان المبارک 1332 ھ کو وفات پائی اور ان کے پیر و مرشد کی درگاہ کی سیڑھیوں کے سامنے مغربی سمت ان کی تدفین عمل میں آئی۔