تمام
تعارف
غزل136
نظم7
شعر138
مزاحیہ شاعری11
ای-کتاب75
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 15
آڈیو 20
ویڈیو 10
قطعہ37
رباعی53
قصہ8
گیلری 1
بلاگ2
دیگر
مخمس1
اکبر الہ آبادی کے قصے
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الہ آباد گئی اور جانکی بائی طوائف کے مکان پر ٹھہری۔ جب گوہر جان رخصت ہونے لگی تو اپنی میزبان سے کہا کہ ’’میرا دل خان بہادر سید اکبر الہ آبادی سے ملنے کو بہت چاہتا ہے۔‘‘ جانکی بائی نے کہا کہ ’’آج میں وقت مقرر
مجھے علم آیا نہ انہیں عقل
اکبرکے مشہور ہوجانے پر بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعوی کردیا۔ ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انہوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کردیا۔ اکبر کو جب یہ اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو کہنے لگے، ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ
جان من تم تو خود پٹاخہ ہو
ایک دن اکبر الہ آبادی سے ان کے ایک دوست ملنے آئے۔ اکبرؔ نے پوچھا، ’’کہئے آج ادھر کیسے بھول پڑے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا، ’’آج شب برات ہے۔ لہذا آپ سے شبراتی لینے آیا ہوں۔‘‘ اس پر اکبر الہ آبادی نے برجستہ جواب دیا، تحفۂ شب رات تمہیں کیا دوں جان من تم
ڈاڑھی سے مونچھ تک
نامور ادیب اور شاعر مرحوم سید اکبر حسین اکبرؔ الہ آبادی اپنی روشن خیالی کے باوجود مشرقی تہذیب کے دلدادہ تھے اور وضع کے پابند۔ داڑھی منڈوانے کا روا ج ہندوستان میں عام تھا۔ لیکن لارڈ کرزن جب ہندوستان آئے تو ان کی دیکھا دیکھی مونچھ بھی صفایا ہونے لگی۔
خالو کے آلو
اکبرالہ آبادی دلی میں خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہمان تھے۔ سب لوگ کھانا کھانے لگے تو آلو کی ترکاری اکبر کو بہت پسند آئی۔ انہوں نے خواجہ صاحب کی دختر حور بانو سے (جو کھانا کھلارہی تھی) پوچھا کہ بڑے اچھے آلو ہیں۔ کہاں سے آئے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میرے خالو
حوروں کا نزول
اکبر الہ آبادی ایک بار خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہمان تھے۔ دو طوائفیں حضرت نظامی سے تعویذ لینے آئیں۔ خواجہ صاحب گاؤ تکیہ سے لگے بیٹھے تھے۔ اچانک ان کے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھے اور اس طرح پھیل گئے جیسے بچے کو گود میں لینے کے لیے پھیلتے ہیں اور بے ساختہ زبان