- کتاب فہرست 187851
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں49
ادب اطفال2059
ڈرامہ1020 تعلیم373 مضامين و خاكه1472 قصہ / داستان1687 صحت103 تاریخ3527طنز و مزاح739 صحافت215 زبان و ادب1954 خطوط809
طرز زندگی23 طب1018 تحریکات300 ناول5020 سیاسی370 مذہبیات4791 تحقیق و تنقید7269افسانہ3045 خاکے/ قلمی چہرے291 سماجی مسائل118 تصوف2250نصابی کتاب565 ترجمہ4530خواتین کی تحریریں6352-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1487
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح208
- گیت63
- غزل1313
- ہائیکو12
- حمد52
- مزاحیہ37
- انتخاب1644
- کہہ مکرنی7
- کلیات712
- ماہیہ19
- مجموعہ5264
- مرثیہ397
- مثنوی878
- مسدس58
- نعت593
- نظم1303
- دیگر77
- پہیلی16
- قصیدہ196
- قوالی18
- قطعہ70
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
اخلاق احمد کے افسانے
کہانی ایک کردار کی
ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا۔ مشہور ادیب عابد شہباز کا تخلیق کردہ مقبول کردار شکیل رات کے ڈھائی بجے زندہ ہو گیا۔! زندہ کیا ہو گیا، یوں سمجھئے کہ جیسے ہوش میں آگیا۔ اب خدا کے واسطے یہ مت کہہ دیجئے گا کہ آپ نہ عابد شہباز سے واقف ہیں اور نہ اس کے
بھائی صاحب
پھر وہی خوف تھا۔۔۔! بھائی صاحب کا خوف۔۔۔!! وہ امریکہ چلے گئے تھے تو ارشد اس خوف کو یوں بھول گیا تھا جیسے آدمی گزری پریشانیوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ پندرہ برس تک وہ ایک آزاد آدمی تھا۔ بےفکر، بے خوف آدمی۔ بھائی صاحب بالکل ابا جی ٹائپ تھے، لیکن
ایک کہانی کا بوجھ
بہت دنوں سے ایک کہانی کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں۔ عرفی چچا کی کہانی کا بوجھ۔! عام طور پر کہانیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ لکھنے والوں کے لئے تو وہ ایک نشہ ہوتی ہیں۔ ایک سرور۔ ایک خواب کی سی کیفیت جس میں اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صبح شام، کوئی خیال پرورش
اچھے ماموں کا چائے خانہ
اچھے ماموں ایک چائے خانے میں رہتے تھے اور ہمارے غریب، شریف خاندان کی بدنامی کا واحد سبب تھے۔ ویسے تو پندرہ بیس برس قبل چائے خانے میں گھنٹوں گزارنا کوئی بہت زیادہ معیوب بات نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن چوبیس گھنٹے ایک چائے خانے میں رہنا کچھ ناقابل یقین سا
کھویا ہوا آدمی
باہر سیاٹل کی رات تھی۔ یخ ہوا ہر چیز کے آرپار گزر جاتی تھی۔ اوورکوٹ، دستانے، ونڈبریکر جیکٹس، چربی، ہڈیاں، سب کے درمیان سے گزر جاتی تھی۔ انگلیوں کی پوریں اور ناک جیسے بے حس، بےجان ہونے لگتی تھیں۔ صرف تین منٹ تک انور اس خوفناک سردی کو برداشت کر
ایک، دو، تین، چار
سیٹھ لطیف کانجی کا نام اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ کراچی کی پرانی تاریخ سے وابستہ کچھ لوگ شاید ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں کچھ نہ کچھ یاد آ جائے۔ مگر ایسے لوگ بھی اب کتنے رہ گئے ہیں۔ خود کراچی بھی اب وہ کراچی کہاں رہا ہے۔ یہاں کس کے پاس اتنی فرصت ہے
فسانہ ختم ہوتا ہے
مسلا ہوا بستر پوری کہانی تھا۔ ثاقب نے ٹہلتے ٹہلتے سوچا۔ مزے کا افسانہ بن سکتا ہے اس پر۔ بے ترتیب چادر اور بکھرے ہوئے تکیے اور فضا میں پھیلی ایک وحشی بُو۔ اولڈ ماسٹرز میں سے کوئی لکھتا تو کمال کردیتا۔ ابو الفضل صدیقی۔ یا سیّد رفیق حسین۔ ایک کمرے کی
رئیس کیوں چپ ہے؟
رئیس کچھ دنوں سے چپ ہے۔ اب یہ مت سمجھ لیجئےگا کہ رئیس نے بولنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ وہ بولتا تو ہے مگر بس، ضرورت کے مطابق۔ ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔ دفتر میں ساتھیوں کی خیریت بھی دریافت کرتا ہے۔ بچوں سے اور بیوی سے گفتگو بھی کرتا ہے۔ رات گئے گھر آنے والے
بنجر، بے رنگ زندگی والا
یہ کہانی میں بہت جلدی میں لکھ رہا ہوں۔ اور اگر آپ نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ اس جلدی کی وجہ کیا ہے، تو میں آپ کا سر توڑ دوں گا۔ مجھے ایسے پڑھنے والے زہر لگتے ہیں جو ہر چیز کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہر کردار، ہر واقعے، ہر صورتحال کے پس منظر میں چھپی
مہرو ماہ اور اختر، آسماں انہی سے ہے
تنویر نے بٹن دبایا تو اپارٹمنٹ کے اندر دور کہیں گھنٹی بجی۔ ریلیکس۔۔۔ ابوجی ہمیشہ کہتے تھے۔ دروازے کے پیچھے نہ جانے کون ہوگا۔ اس کی پہلی نظر تم پر پڑے تو تم مطمئن اور پراعتماد نظر آؤ۔ کشادہ گیلری میں ایک گہرا سناٹا تھا۔ مہنگے اپارٹمنٹس کی روایتی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں49
ادب اطفال2059
-
