- کتاب فہرست 183922
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب869 تحریکات290 ناول4294 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1079
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات671
- ماہیہ19
- مجموعہ4829
- مرثیہ374
- مثنوی814
- مسدس57
- نعت533
- نظم1194
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
اخلاق احمد کے افسانے
رئیس کیوں چپ ہے؟
رئیس کچھ دنوں سے چپ ہے۔ اب یہ مت سمجھ لیجئےگا کہ رئیس نے بولنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ وہ بولتا تو ہے مگر بس، ضرورت کے مطابق۔ ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔ دفتر میں ساتھیوں کی خیریت بھی دریافت کرتا ہے۔ بچوں سے اور بیوی سے گفتگو بھی کرتا ہے۔ رات گئے گھر آنے والے
بنجر، بے رنگ زندگی والا
یہ کہانی میں بہت جلدی میں لکھ رہا ہوں۔ اور اگر آپ نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ اس جلدی کی وجہ کیا ہے، تو میں آپ کا سر توڑ دوں گا۔ مجھے ایسے پڑھنے والے زہر لگتے ہیں جو ہر چیز کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہر کردار، ہر واقعے، ہر صورتحال کے پس منظر میں چھپی
مہرو ماہ اور اختر، آسماں انہی سے ہے
تنویر نے بٹن دبایا تو اپارٹمنٹ کے اندر دور کہیں گھنٹی بجی۔ ریلیکس۔۔۔ ابوجی ہمیشہ کہتے تھے۔ دروازے کے پیچھے نہ جانے کون ہوگا۔ اس کی پہلی نظر تم پر پڑے تو تم مطمئن اور پراعتماد نظر آؤ۔ کشادہ گیلری میں ایک گہرا سناٹا تھا۔ مہنگے اپارٹمنٹس کی روایتی
ایک کہانی کا بوجھ
بہت دنوں سے ایک کہانی کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں۔ عرفی چچا کی کہانی کا بوجھ۔! عام طور پر کہانیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ لکھنے والوں کے لئے تو وہ ایک نشہ ہوتی ہیں۔ ایک سرور۔ ایک خواب کی سی کیفیت جس میں اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صبح شام، کوئی خیال پرورش
اچھے ماموں کا چائے خانہ
اچھے ماموں ایک چائے خانے میں رہتے تھے اور ہمارے غریب، شریف خاندان کی بدنامی کا واحد سبب تھے۔ ویسے تو پندرہ بیس برس قبل چائے خانے میں گھنٹوں گزارنا کوئی بہت زیادہ معیوب بات نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن چوبیس گھنٹے ایک چائے خانے میں رہنا کچھ ناقابل یقین سا
فسانہ ختم ہوتا ہے
مسلا ہوا بستر پوری کہانی تھا۔ ثاقب نے ٹہلتے ٹہلتے سوچا۔ مزے کا افسانہ بن سکتا ہے اس پر۔ بے ترتیب چادر اور بکھرے ہوئے تکیے اور فضا میں پھیلی ایک وحشی بُو۔ اولڈ ماسٹرز میں سے کوئی لکھتا تو کمال کردیتا۔ ابو الفضل صدیقی۔ یا سیّد رفیق حسین۔ ایک کمرے کی
ایک، دو، تین، چار
سیٹھ لطیف کانجی کا نام اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ کراچی کی پرانی تاریخ سے وابستہ کچھ لوگ شاید ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں کچھ نہ کچھ یاد آ جائے۔ مگر ایسے لوگ بھی اب کتنے رہ گئے ہیں۔ خود کراچی بھی اب وہ کراچی کہاں رہا ہے۔ یہاں کس کے پاس اتنی فرصت ہے
بھائی صاحب
پھر وہی خوف تھا۔۔۔! بھائی صاحب کا خوف۔۔۔!! وہ امریکہ چلے گئے تھے تو ارشد اس خوف کو یوں بھول گیا تھا جیسے آدمی گزری پریشانیوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ پندرہ برس تک وہ ایک آزاد آدمی تھا۔ بےفکر، بے خوف آدمی۔ بھائی صاحب بالکل ابا جی ٹائپ تھے، لیکن
کراچی نامی قتل گاہ میں ایک دوپہر
ادھیڑ عمر کا وہ آدمی بہت دیر سے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ یہ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے، ذرا فاصلے پر واقع وہ بس اسٹاپ تھا جہاں سے لانڈھی اور کورنگی کی بسیں روانہ ہوتی تھیں۔ یہاں ارجنٹ تصویریں بنا کر دینے والے فوٹو گرافروں کی اور کھلی چائے فروخت کرنے والوں
کہانی ایک کردار کی
ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا۔ مشہور ادیب عابد شہباز کا تخلیق کردہ مقبول کردار شکیل رات کے ڈھائی بجے زندہ ہو گیا۔! زندہ کیا ہو گیا، یوں سمجھئے کہ جیسے ہوش میں آگیا۔ اب خدا کے واسطے یہ مت کہہ دیجئے گا کہ آپ نہ عابد شہباز سے واقف ہیں اور نہ اس کے
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-