یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اختر انصاری ترقی پسند فکر وشعور اور نظریے کے اہم ترین شاعر اور نقاد تھے۔ انہوں نے تحریک کی مستقل وابستگی سے الگ رہ کر اس کے نظریات کو عام کرنے اور اسے ایک تنقیدی، فکری اور سائنسی بیناد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شاعری، تنقید اور افسانے اسی جد وجہد کا اعلامیہ میں۔ ’نغمۂ روح‘ ’آبگینے‘ ’ٹیڑھی زمین‘ ’سرور جاں‘ (شاعری) ’اندھی دنیا اور دوسرے افسانے‘ ’نازو اور دوسرے افسانے‘ (افسانے) ’حالی اور نیا تنقیدی شعور‘ ’افادی ادب‘ (تنقید) وغیرہ ان کی تصانیف ہیں۔
اختر انصاری یکم اکتوبر 1909 کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کرنے کے بعد یونیورسٹی اسکول میں ملازم ہوگئے۔ 1947 میں اردو میں ایم اے کیا پھر کچھ عرصے تک شعبۂ اردو میں لکچرر رہے بعد میں ٹرینگ کالج میں ملازمت اختیار کی۔ 5 اکتوبر 1988 کو انتقال ہوا۔